شبث بن ربعی تمیمی

ویکی شیعہ سے
شبث بن ربعی تمیمی
ذاتی کوائف
نامشبث بن ربعی تمیمی
کنیتأبوعبدالقدوس
محل زندگیکوفہ
نسب/قبیلہقبیلہ بنی‌حنظلہ
وفاتحدود ۷۰ق
واقعہ کربلا میں کردار

شبث بن ربعی تمیمی (متوفا حدود ۷۰ق) کوفے کے اشراف اور تاریخ اسلام کی غیر مستقل مزاج شخصیات میں سے ہے۔ شبث عثمان کے مخالفین اور امام علی(ع) کی جانب سے جنگ صفین کے سپہ سالاروں میں سے تھا۔ نہروان جاتے ہوئے خوارج سے مل گیا لیکن امام علی کی گفتگو سن کر واپس ہو گیا اور امام نے اسے جزوی سپہ سالاری کے فرائض سونپے ۔ اس نے عدالت میں حجر بن عدی کے خلاف گواہی دی۔

واقعۂ کربلا میں اس نے کوفہ سے امام حسین کو خط کے ذریعے دعوت دینے والوں میں سے تھا۔ لیکن ابن زیاد کی کوفہ پر حاکمیت کے بعد بدل گیا اور مسلم بن عقیل کے اطراف سے کوفیوں کو پرکندہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ روز عاشورا عمر بن سعد کی طرف سے پیادہ فوج کی سپہ سالاری اسکے حوالے تھی۔ لیکن اس نے کوشش کی کہ اپنے آپ کو اس معاملے میں زیادہ نمایاں نہ کرے۔

قیام مختار میں مختار کے مقابلے میں آیا۔ مصعب بن زبیر کی تحریک اور قتل مختار میں میں بھی اس کا کردار رہا۔ شبث ۷۰ق کے لگ بھگ فوت ہوا۔

نسب

شبث بن ربعی کا نسب قبیلہ بنی‌ حَنْظَلہ کے ذریعے بنی یربوع تک پہنچتا ہے۔[1] بنی حنظلہ کے کچھ لوگ جنگ جمل میں طلحہ اور زبیر کے اکسانے پر عائشہ بنت ابی بکر کی فوج میں شامل ہوئے ۔ لیکن بنی یربوع کے تمام لوگ حضرت علی(ع) کی اطاعت اور وفاداری پر باقی رہے۔[2] جنگ نہروان میں بنی حنظلہ کے کچھ لوگ شبث بن ربعی سمیت خوارج سے مل گئے۔[3]

دوران پیامبر و خلفا

شبث کی کنیت أبوعبدالقدوس تھی۔اس نے پیغمبر کے زمانے کو بچپنے میں درک کیا تھا ۔کچھ عرصہ مدعی نبوت سجاح کا مؤذن رہا لیکن بعد میں دوبارہ دائرہ اسلام میں واپس آگیا ۔[4] عثمان کے مخالفین می سے تھا اور معاویہ کو خط میں عثمان کے قتل میں دخیل سمجھتا تھا۔ ۷۰ق کے لگ بھگ فوت ہوا ۔ [5] بعض مآخذوں میں اسے شبث بن ربعی ریاحی کہا گیا ہے[6]

دوران امام علی

شبث جنگ صفین میں امام علی(ع) لشکر کے ایک حصے کی سپاہ سالاری اسکے سپرد تھی ۔[7] امام علی کی نمایندگی کرتے ہوئے چند افراد کے ساتھ معاویہ کے پاس گیا۔[8] جب حنظلہ بن ربیع نے فرار کیا تو امام علی کے حکم کے تحت بنی تمیم کے دو افراد کے ہمراہ اس کے گھر کو ویران کیا۔ [9] حکمیت کے واقعے کے بعد خوارج کا حصہ بن گیا [10] لیکن امام علی گفتگو کے بعد دوبارہ واپس آ گیا اور جنگ نہروان میں لشکر کے ایک حصے کے فرماندہی اسکے سپرد تھی۔[11]

فروة بن نوفل کے قیام میں مغیره کی سپاہ کی سپہ سالاری اسکے حوالے تھی کہ جو فروہ کی موت پر منتہی ہوا۔[12]

واقعہ عاشورا

شبث واقعہ کربلا میں امام حسین(ع) کو خط کے ذریعے کوفہ بلانے والوں میں سے تھا ۔ [13] لیکن ابن زیاد کے کوفہ پر حاکمیت کے بعد مسلم بن عقیل کے قیام میں اہالیان کوفہ کو منتشر کرنے میں اس نے اہم کردار ادا کیا ۔[14] روز عاشورا امام حسین(ع) نے سپاه عمر بن سعد سے خطاب کرتے ہوئے اسے خطوط لکھنے والوں میں سے قرار دیا ۔[15]

واقعہ عاشورا میں وہ امام حسین(ع) سے جنگ کرنے کا میلان نہیں رکھتا تھا ۔جب ابن زیاد سے نے عمر بن سعد کے لشکر سے پیوست ہونے کا تقاضا کیا اس نے بیماری کو ظاہر کیا تا کہ امام حسین کے سامنے نہ آئے ۔لیکن جب ابن زیاد نے کہا اگر تم ہم سے ہو تو جنگ کیلئے جاؤلہذا وہ کربلا کی طرف چل پڑا۔[16]

روز عاشورا سپاه عمر بن سعد کے پیادہ حصے کی فرماندہی اسکے حوالے تھی۔[17] جب مسلم بن عوسجہ کی شہادت کے بعد عمر بن سعد کے سپاہ خوشی کر رہے تھے اس نے انکی سرزنش کی۔[18] جب شمر بن ذی الجوشن نے اپنا نیزہ امام حسین(ع) کے خیمے میں پیوست کیا اور کہا آگ لاؤتا اس خیمے کو آگ لگائی جائے ،امام نے اسے نفرین کی۔ شَبَث بن رِبعی نے بھی اسے سرزنش کیا۔[19]

واقعہ عاشورا کے بعد

شبث واقعہ عاشورا کے بعد امام حسین(ع) کی شهادت کے شکرانہ ادا کرنے کیلئے کوفہ میں مسجد کو دوبارہ تعمیر کروایا جبکہ امام علی نے اس مسجد میں پہلے ہی نماز پڑھنے سے منع کیا تھا۔[20]

قیام مختار میں عبدالله بن مطیع کی طرف سے مختار کے مقابلے میں آیا ۔[21] مختار کی مخالفت میں اشراف کوفہ کی شورش میں اساسی کردار ادا کیا ۔[22] جب مختار نے ابراہیم بن مالک اشتر کی سربراہی میں شام کی طرف فوج روانہ کی تو کوفہ کے اشرافیوں نے مختار کے خلاف شورش برپا کی ۔ شبث بن ربعی ، شمر بن ذی الجوشن اور محمد بن اشعث بن قیس اس شورش کے اصلی محرک تھے . مختار نے یہ دیکھ کر ابراہیم بن مالک اشتر کو واپس بلوا لیا ۔تا کہ اس شورش کو سرکوب کیا جا سکے ۔[23] شبث نے ابراہیم بن مالک اشتر کی واپسی کی خبر سن کر مختار کو پیغام بھجوایا :

ہم تمہارے ساتھ ہیں اور دایاں بازو ہیں ۔خدا کی قسم ! ہم تم سے جنگ نہیں کریں گے ۔تم اس بابت مطمئن رہو۔[24]

لیکن مختار نے پیغام پر کوئی کان نہیں دھرے بلکہ ابراہیم بن مالک کو انکے مقابلے کیلئے روانہ کیا۔

اس شورش کی ناکامی کے بعد مختار نے قاتلین امام حسین کا پیچھا شروع کیا ۔ شبث بن ربعی اور شمر بن ذی الجوشن سمیت واقعہ کربلا کے محرکین کی ایک جماعت نے بصرہ فرار کیا ۔ مختار نے ایک جماعت انکے پیچھے بھیجی جس نے شمر کو قتل کیا جبکہ بصره فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا ۔جہاں اس نے مصعب بن زبیر کو مختار سے جنگ کیلئے اکسایا [25] اور یہ مختار کے قتل میں شریک رہا.[26] وہ ۷۰ق آس پاس فوت ہوا۔[27]

جب حجر بن عدی زیاد بن ابیہ کے زندان میں تھا تو شبث عدالت میں حجر کے خلاف گواہی دینے والوں میں سے تھا۔[28]

روایت

شبث امام علی(ع) اور حذیفہ سے روایت کرنے والوں میں سے ہے۔ محمد بن کعب قرظی، سلیمان تیمی[29]، انس بن مالک اور دیگر روایوں نے اس سے روایت نقل کی ہے نیز سنن ابی‌داود میں اس سے روایت منقول ہے۔[30]

حوالہ جات

  1. بلاذری، انساب‌الاشراف، ج۱۲، ص۱۶۳.
  2. منقری، وقعۃ صفین، ص۲۰۵
  3. ابن‌اثیر، الکامل، ج۳، ص۳۲۶؛ ابن‌کلبی، جمہرة‌النسب، ص۲۱۷، ۲۲۵،۲۲۶.
  4. بلاذری، انساب‌الاشراف، ج۱۲، ص۱۶۳؛ ابن‌کثیر، البدایہ و النہایہ، ج۵، ص۵۱.
  5. ابن‌حجر، الاصابہ، ج۳، ص۳۰۳.
  6. ابن‌اثیر، الکامل، ج۳، ص۲۸۴؛ بلاذری، انساب‌الاشراف، ج۶، ص۳۷۳.
  7. منقری، وقعہ صفین، ص۱۹۸-۱۹۵؛ ابن‌اثیر، الکامل، ج۳، ص۲۸۷.
  8. منقری، وقعہ‌ صفین، ص۱۸۷؛ ابن‌اثیر، الکامل، ج۳، ص۲۸۵، ۲۸۹؛ بلاذری، انساب‌الاشراف، ج۲، ص۳۰۲؛ طبری، تاریخ، ج۵، ص۵
  9. منقری، وقعہ‌ صفین، ص۹۷.
  10. ابن‌اثیر، الکامل، ج۳، ص۳۲۶
  11. دینوری، اخبارالطوال، ص۲۱۰؛ بلاذری، انساب‌الاشراف، ج۲، ص۳۶۲؛ خلیفہ، تاریخ خلیفہ، ص۱۱۵؛ طبری، تاریخ، ج۵، ص۸۵.
  12. باذری، انساب‌الاشراف، ج۵، ص۱۶۶.
  13. ابن اثیر، الکامل، ج۴، ص۲۰، ۳۱؛ بلاذری، انساب‌الاشراف، ج۳، ص۱۵۸؛ طبری، تاریخ، ج۵، ص۳۵۳.
  14. دینوری، اخبارالطوال، ص۲۳۹.
  15. ابن اثیر، الکامل، ج۴، ص۶۲؛ ابوالفرج اصفہانی، مقاتل‌الطالبیین، ص۹۹؛ طبری، تاریخ، ج۵، ص۴۲۵.
  16. دینوری، اخبارالطوال، ص۲۵۴؛ بلاذری، انساب‌الاشراف، ج۳، ص۱۷۸.
  17. بلاذری، انساب‌الاشراف، ج۳، ص۱۸۷؛ طبری، تاریخ، ج۵، ص۴۲۲؛ ابن‌اثیر، الکامل، ج۴، ص۶۰.
  18. بلاذری، انساب‌الاشراف، ج۳، ص۱۹۳؛ ابن اثیر، الکامل، ج۴، ص۶۷.
  19. ابن‌اثیر، الکامل، ج۴، ص۶۹؛ بلاذری، انساب‌الاشراف، ج۳، ص۱۹۴؛ طبری، تاریخ، ج۵، ص۴۳۹.
  20. خوئی، معجم‌الرجال، ج۹، ص۱۲؛ کلینی، کافی، ج۳، ص۴۹۰.
  21. ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۲۶۷.
  22. طبری، تاریخ، ج۶، ص۴۴؛ ابن‌کثیر، البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۲۷۰.
  23. ابن‌کثیر، البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۲۷۰.
  24. طبری، تاریخ، ج۶، ص۴۷.
  25. ابن‌اثیر، الکامل، ج۴، ص۲۶۷؛ دینوری، اخبارالطوال، ص۳۰۱؛ بلاذری، انساب‌الاشراف، ج۶، ص۴۲۷.
  26. ابن‌اثیر، الکامل، ج۴، ص۲۷۱.
  27. ابن‌حجر، الاصابہ، ج۳، ص۳۰۳.
  28. بلاذری، انساب‌الاشراف، ج۴، ص۲۵۴؛ طبری، تاریخ، ج۵، ص۲۶۹.
  29. ابن‌حجر، الاصابہ، ج۳، ص۳۰۳.
  30. ذہبی، تاریخ‌الاسلام، ج۵، ص۴۱۷، ج۶، ص۷۹.

منابع

  • منقری، نصر بن مزاحم، وقعہ صفین، تحقیق: عبدالسلام محمد ہارون، المؤسسہ العربیہ الحدیثہ، القاہرة، ۱۳۸۲ق.
  • ابن‌اثیر، علی بن ابی کرم، الکامل فی التاریخ، دارصادر، بیروت، ۱۳۸۵ق/۱۹۶۵م.
  • بلاذری، احمد بن یحیی، جمل من انساب الأشراف، تحقیق: سہیل زکار و ریاض زرکلی، درالفکر، بیروت، ۱۴۱۷ق/۱۹۹۶م.
  • دینوری، احمد بن داود، الأخبار الطوال، تحقیق: عبدالمنعم عامر مراجعہ جمال الدین شیال، منشورات الرضی، قم، ۱۳۶۸ش.
  • ابن حجر عسقلانی، الإصابہ فی تمییز الصحابہ، تحقیق: عادل احمد عبد الموجود و علی محمد معوض، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ۱۴۱۵ق/۱۹۹۵م.
  • ذہبی، محمد بن احمد، تاریخ الاسلام، تحقیق: عمر عبدالسلام تدمری، دارالکتاب العربی، بیروت، ۱۴۱۳ق/۱۹۹۳م.
  • ابن کلبی، جمہرة النسب، چاپ ناجی حسن، بیروت ۱۴۰۷ق-۱۹۸۶م.
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق: محمد أبوالفضل ابراہیم، دارالتراث، بیروت، ۱۳۸۷ق/۱۹۶۷م.
  • دمشقی(ابن کثیر)، اسماعیل بن عمر، البدایہ و النہایہ، دارالفکر، بیروت، ۱۴۰۷ق/۱۹۸۶م.
  • خوئی، سید ابوالقاسم، معجم رجال الحدیث، مرکز نشر آثار شیعہ، قم، ۱۴۱۰ ق/۱۳۶۹ش.
  • کلینی، الکافی،‌ دارالکتب الإسلامیہ، تہران، ۱۳۶۵ش.