رحلت پیغمبر اکرمؐ

ویکی شیعہ سے

رحلت پیغمبر اکرمؐ، سنہ 11ھ کے ان اہم واقعات میں سے ہے جو مسلمانوں میں شدید اختلاف پیدا ہونے کا باعث بنی۔ نیز یہ مسئلہ مسلمانوں کی تقدیر کے حوالے سے متأثر کن نتائج کے حامل واقعات میں شمار ہوتاہے۔شیعہ منابع تاریخی کے مطابق مشہور یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ کی رحلت 28 صفر کو ہوئی جبکہ اہل سنت و الجماعت کے ہاں مشہور یہ ہے کہ آپؐ 12 ربیع الاول کو دنیا سے وصال فرما گئے۔ پیغمبر اکرمؐ کی رحلت یاشہادت کے اسلامی معاشرے پر اثرات تاریخ اسلام کے اہم مباحث میں سے ہیں۔ شیعہ اور اہل سنت حدیثی منابع میں نقل ہونے والی احادیث کے مطابق شیخ مفید، شیخ طوسی اور علامہ حلی نے تصریح کی ہے کہ پیغمبر اکرمؐ کو ایک یہودی عورت نے زہر دے کر مسموم کیا جس کے نتیجے میں آپ کی شہادت واقع ہوئی؛ لیکن بعض مورخین اس بات کے معتقد ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ طبیعی موت اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں۔ تاریخ اسلام کے محقق اور شیعہ عالم دین جعفر مرتضی عاملی کے مطابق رسول خدا کئی دفعہ قاتلانہ سازش کے شکار ہوئے اور آخر کار زہر کی وجہ سے اس دنیا سے رخصت ہوئے۔

تاریخی منابع کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد مدینہ کے لوگوں میں صف ماتم بچھ گئی خاص کر آپ کی بیٹی حضرت فاطمہ(س) بہت غمگین ہوئیں۔ عمر بن خطاب پیغمبر اکرمؐ کی موت واقع نہ ہونے پر اصرار کرتے ہوئے اس کے قائلین کو قتل کرنے کی دھمکی دیتا تھا، یہاں تک کہ ابو بکر آکر سورہ آل‌عمران آیت 144 کی تلاوت کے ذریعے ان کوخاموش کیا۔ بعض لوگ عُمَر کے اس اقدام کو ابوبکر کو منصب خلافت پر پہنچانے کے لئے سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ قرار دیتے ہیں۔

مورخین کے مطابق امام علیؑ نے فضل بن عباس اور اسامۃ بن زید کی مدد سے پیغمبر اکرمؐ کی تجہیز و تکفین کے بعد آپؐ کو اپنے حجرے میں سپرد خاک کیا۔ پیغمبر اکرمؐ کی تدفین کے وقت انصار اور مہاجرین کا ایک گروہ سقیفہ بنی‌ ساعدہ میں جمع ہو کر رسول خداؐ کی سفارش اور وصیت کے برخلاف ابوبکر کو مسلمانوں کا خلیفہ مقرر کیا۔

اہمیت

پیغمبر خدا(ص) کی رحلت مسلمانوں کے لیے ایک سرنوشت ساز مسئلہ کی حیثیت رکھتی تھی۔[1] پیغمبر اکرم(ص) کی رحلت کے فوراً بعد مہاجر و انصار کے کچھ لوگ سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے؛ انہی لوگوں نے ابوبکر کو خلیفہ چُنا۔[2] اس کے بعد ابوبکر کے حامیوں نے حضرت علی سے بیعت لینے کے لئے فاطمہ کے گھر موجود داماد پیغمبر خدا(ص) حضرت علیؑ اور دختر پیغمبرخدا(ص) حضرت فاطمۃ الزہرا(س) پر حملہ آور ہوئے۔[3] اس حملے میں حضرت فاطمہ(س) زخمی ہوئیں۔[4] شیعوں کے مطابق یہی واقعہ حضرت فاطمہ زہرا(س) کی شہادت کا باعث بنا۔[5] شیعوں کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد امام علیؑ کی جانشینی کے سلسلے میں کی گئی آپؐ کی وصیتوں پر عمل نہیں ہوا[6] یوں آپؐ کی جانشینی کے مسئلے پر اسلامی معاشرے میں ایک گہرا اختلاف وجود میں آیا جو اسلام میں دو مکاتب فکر شیعہ اور اہل سنت کے وجود میں آنے کا سبب بنا۔[7]

دنیا جہاں کے مختلف ممالک میں رحلت رسول خدا(ص) کی مناسبت سے عزاداری کی مجالس منعقد ہوتی ہیں۔[8] ایران بھر میں 28 صفر کو روز رحلت پیغمبر اکرم(ص) کی مناسبت سے سرکاری چھٹی ہوتی ہے اور لوگ اس دن عزاداری کرتے ہیں۔[9]

پیغمبر اکرمؐ زہر سے شہید ہوئے یا طبیعی موت وصال کرگئے

پیغمبر اکرمؐ طبیعی موت اس دنیا سے رحلت کر گئے ہیں یا آپ کو زہر سے مسموم کر کے شہید کیا گیا؟ اس سلسلے میں دو مختلف نظریے پایے جاتے ہیں۔[10] بعض اس بات کے معتقد ہیں کہ رسول خدا(ص) طبیعی موت اس دنیا سے وصال کرگئے ہیں؛[11] لیکن شیعہ حدیثی کتاب کتاب الکافی،[12] کتاب بصائر الدرجات میں امام صادقؑ سے مروی حدیث،[13] اور تیسری صدی ہجری کی تاریخی کتاب طبقات ابن‌ سعد کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کی بیماری جس میں آپ کی رحلت ہوئی اصل میں زہر آلود گوشت کھانے کی وجہ سے تھی؛ فتح خیبر کے بعد ایک یہودی عورت نے پیغمبر اکرمؐ اور آپ(ص) کے اصحاب کو زہر آلود گوشت کھلائے جس سے آپ(ص) بیمار ہوئے۔[14]

شیخ مفید،[15] شیخ طوسی،[16] علامہ حلّی[17] اور بعض اہل‌ سنت منابع جیسے صحیح بخاری،[18] سُنَن دارمی[19] اور المستَدرک علی الصحیحین[20] میں زہر کی وجہ سے پیغمبر اکرمؐ کی رحلت واقع ہونے پر تصریح کی گئی ہے۔ شیعہ تاریخ کے محقق جعفر مرتضی عاملی نے بعض شیعہ اور اہل‌ سنت منابع سے ایسے شواہد جمع کیے ہیں جن سے پیغمبر اکرمؐ کو قتل کرنے کی سازش کا بھی عندیہ ملتا ہے۔[21] اسی بنا پر وہ اس بات کے معتقد ہیں کہ آپؐ کو باقاعدہ سازش کے تحت زہر سے مسموم کرکے شہید کئے گئے ہیں۔[22] ان کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کو مسموم کرنے میں بعض اندرونی دشمن ملوث ہونے کے شواہد ملتے ہیں۔[23] اسی طرح تفسیر عَیّاشی میں امام صادقؑ سے نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ کو زہر سے مسموم کرنے میں آپ کی دو زوجات ملوث تھیں۔[24]

ماجرائے لدود

لَدود کا ماجرا بھی پیغمبر اکرمؐ کی بیماری سے مربوط واقعات میں سے ہے۔ جسے بعض علما جعلی[25] قرار دیتے ہیں اور بعض اسے خرافات[26] میں سے گردانتے ہیں۔ صحیح بخاری اور طبقات ابن‌ سعد میں عایشہ سے منقول ہے کہ پیغمبر اکرمؐ اپنی عمر کے آخری ایام میں بیماری کی شدت کی وجہ سے بے ہوش ہو جاتے تھے، لَدود (ایک کڑوی دوائی جسے سیینے میں درد کے مریض کو دیا جاتا ہے) پیغمبر اکرمؐ کے دہان مبارک میں ڈالا گیا لیکن پیغمبر اکرمؐ نے اسی حالت میں اشارہ کر کے اس کام سے منع کیا۔ جب پیغمبر اکرم کی حالت کچھ سنبھل گئی تو حکم دیا کہ آپؐ کے چچا عباس کے علاوہ سب کے منہ میں یہ دوائی ڈالی جائے۔[27] شیعہ محقق محمد صادق نجمی یہ احتمال دیتے ہیں کہ اس حدیث کو جعل کرنے والے شاید پیغمبر اکرمؐ کی عمر کے آخری ایام میں واقع ہونے والے قلم و دوات کا واقعہ کے لئے شواہد کی تلاش میں تھے جس میں عمر بن خطاب نے پیغمبر اکرمؐ پر ہذیان‌ گویی کرنے کا الزام لگایا تھا۔[28]

پیغمبر اکرمؐ کا وصال اور تدفین

پیغمبر اکرمؐ کا 11ھ[29] کومدینہ[30] میں وصال ہوا۔ پیغمبر اکرمؐ کی رحلت پیر کے دن واقع ہونے پر تمام مورخین کا اتفاق ہے۔[31] شیعہ علماء میں شیخ مفید اور شیخ طوسی کے مطابق آپؐ کی رحلت 28 صفر کو ہوئی ہے[32] جسے شیخ عباس قمی نے مشہور شیعہ علماء کا نظریہ قرار دیا ہے۔[33] تاریخ اسلام کے معاصر شیعہ محقق رسول جعفریان کے مطابق اس تاریخ کے استناد کے لئے کوئی حدیث موجود نہیں ہے[34] لیکن شیعوں نے شیخ مفید اور شیخ طوسی پر اعتماد کرتے ہوئے اسی تاریخ کو پیغمبر اکرمؐ کی وفات کی تاریخ مانتے ہیں۔[35]

حرم امام علی میں رحلت پیغمبر کی مجالس (28 صفر 1445ھنجف اشرف عراق[36]

اہل‌ سنت کے یہاں پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے سلسلے میں تین تاریخیں ملتی ہیں؛ ماہ ربیع‌ الاول کی پہلی تاریخ،[37] دوسری تاریخ[38] اور بعض کے مطابق بارہویں تاریخ[39] کو اہل سنت پیغمبر اکرمؐ کی تاریخ وفات کے طور پر مناتے ہیں۔ بعض نے اسی آخری قول کو مشہور اہل‌ سنت علماء کا نظریہ قرار دیتے ہیں۔[40] اہل بیتؑ کے فضائل و مناقب کو خاص انداز میں تحریر کرنے والے شیعہ محقق اِربِلی کَشْفُ الغُمّہ‏ میں امام باقرؑ سے ایک حدیث نقل کرتے ہیں جس کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کی وفات ماہ ربیع اول کی دوسری تاریخ کو ہوئی ہے،[41] لیکن شیخ عباس قمی اسے تقیہ پر حمل کرتے ہیں۔[42] چنانچہ دو اور شیعہ علماء کُلینی اور محمد بن جریر طبری بھی اس بات کے قائل ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ کا وصال 12 ربیع‌ الاول کو ہوا ہے۔[43]

ابن‌ ہشام (وفات 218ھ) کی کتاب السیرۃ النبویۃ،[44] محمد بن سعد (وفات: 230ھ) کی کتاب الطبقات الکبری،[45] احمد بن ابی‌یعقوب (وفات: 284ھ) کی کتاب تاریخ یعقوبی،[46] شیخ مفید (وفات: 413ھ) کی کتاب الاِرشاد [47] اور جعفر مرتضی عاملی (وفات: 1441ھ) کی کتاب الصحیح من سیرۃ النبیّ الاعظم وغیرہ رحلت پیغمبر اکرمؐ سے مربوط مباحث پر مشتمل مشہور کتابیں ہیں۔[48]

پیغمبر اکرمؐ کی تکفین و تدفین

مدینہ میں روضہ پیغمبرؐ کے اوپر گنبد خضراء

ابن‌ سعد نقل کرتے ہیں کہ رسول خداؐ کی رحلت کے بعد لوگوں پر غم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔[49] آپؐ کی بیٹی حضرت فاطمہ(س) اپنے بابا کے غم فراقت میں مسلسل آنسو بہاتی تھیں اور «یا اَبَتاہ!» کی صدائیں دیتی تھیں یہاں تک کہ پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد کسی نے ان کو ہنستے ہوئے نہیں دیکھا۔[50] نہج البلاغہ میں امام علیؑ سے منقول ہے کہ رسول خداؐ کی رحلت کے بعد مدینہ کے در و دیوار آپؐ کے فراق میں گریہ و زاری کرتے تھے۔ امام علیؑ مزید فرماتے ہیں کہ جس وقت میں رسول خدا(ص) کے جسد اطہر کو غسل دے رہا تھا فرشتے میری مدد کو آتے تھے اور پیغمبر خدا(ص) کے جسد اطہر پر نماز پڑھے جاتے تھے اور جب تک میں پیغمبر خدا(ص) کو غسل دیتا رہا فرشتوں کی نماز پڑھنے کی آواز نہیں رکی۔[51]

تاریخی منابع کے مطابق پیغمبر اکرمؐ نے حضرت علیؑ کے آغوش میں اپنی جان، جاں آفریں کے حوالہ کردی[52] اور حضرت علیؑ نے ابن عباس، اسامۃ بن زید اور دیگر افراد کی مدد سے آپ کو آپ کے کپڑوں میں ہی غسل دیا اور کفن پہنایا۔[53] حضرت علىؑ کی تجویز پر[54] لوگ گروہ در گروہ رسول خداؐ کے دولت سرا پر حاضری دیتے اور کسی کی اقتداء کئے بغیر پیغمبر اکرمؐ پر نماز میت پڑھتے اور یہ سلسلہ دوسرے دن تک جاری رہا۔[55] بعض روایات کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کے مدفن کے بارے میں مختلف تجاویز زیر غور آئیں لیکن حضرت علیؑ کی تجویز کو سب نے قبول کیا کہ خدا انبیاء کو سب سے پاکیزہ جگہ پر قبض روح کرتا ہے، پیغمبر اکرمؐ کو جہاں آپ کا قبض روح ہوا ہے (آپ کا حجرہ مبارک) وہیں دفن کیا گیا۔[56] قبر کو ابوعُبیدہ جَرّاح اور زید بن سہل نے تیار کیا[57] اور حضرت علیؑ نے ابن عباس اور اسامہ کی مدد سے پیغمبر اکرمؐ کو سپرد خاک کیا۔[58]

پیغمبر خدا(ص) کی جانشینی کا مسئلہ

پیغمبر اکرمؐ کی جانشینی اور مسلمانوں کی رہبری اور سرپرستی کا مسئلہ مسلمانوں کے درمیان مورد اختلاف بنیادی مسائل میں سے ایک ہے۔[59] اسی بنا پر رسول خدا کی رحلت سے قبل کے دوران اور آپ کی رحلت کے فورا بعد رونما ہونے والے واقعات تاریخ اسلام کے انتہائی حساس اور پیچیدہ سیاسی اقدامات میں شمار کیے جاتے ہیں۔[60] شیعہ منابع کے تجزیہ و تحلیل کے مطابق پیغمبر اکرمؐ نے غدیر خم کے واقعے میں حضرت علیؑ کی جانشینی کے اعلان کو مزید مضبوط کرنے کے لیے حضرت علی کی خلافت کے متوقع مخالفین کو لشکر اسامہ میں شامل کر کے مدینہ سے انہیں دور کرنے کی کوشش کی،[61] اور اپنے بعد کے لئے ایک وصیت‌ نامہ‌ لکھا،[62] لوگوں کے درمیان کئی بار حدیث ثقلین بیان کی،[63] اپنے بعد آنے والے وصی کا چند بار تعارف کروایا[64] اور ابو بکر کو نماز جماعت قائم کرنے سے منع فرمایا۔[65]

تاریخی منابع کے مطابق جانشینی کے مسلئے میں پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد صحابہ دو نظریے کے قائل ہوئے: صحابہ کے ایک گروہ نے کہا کہ پیغمبر اکرمؐ نے اپنے بعد کسی کو خیلفہ مقرر نہیں کیا ہے اس بنا پر وہ سقیفہ‌ بنی‌ ساعدہ میں جمع ہوگئے اور انہوں نے اپنے صوابدید پر ابوبکر کو خلیفہ منتخب کیا،[66] دوسرا گروہ جس میں بنی‌ ہاشم کی اکثریت شامل تھی پیغمبر اکرمؐ کے فرمودات کی روشنی میں اس بات کے معتقد تھے کہ آپؐ نے حضرت علیؑ کو اپنے بعد مسلمانوں کا خلیفہ اوراپنا جانشین مقرر فرمایا ہے اسی بنا پر اس گروہ نے ایک مدت تک ابوبکر کی بیعت نہیں کی۔[67] ان دو گروہوں کے درمیان مذکورہ اختلاف آپس میں تصادم تک پہنچا یہاں تک کہ حضرت فاطمہ(س) کے گھر پر حملہ کیا گیا۔[68] بعض مورخین کے مطابق حضرت علیؑ نے حضرت فاطمہ(س) کی شہادت تک ابو بکر کی بیعت نہیں کی۔[69] کتاب سلیم بن قیس اور دیگر منابع کے مطابق صحابہ میں سے بعض لوگوں نے پیغمبر اکرمؐ کی جانشینی کے بارے میں خود آپ کی حیات مبارکہ میں ایک دوسرے کے ساتھ معاہدہ کیا تھا۔ اس واقعے کو مذکورہ منابع میں صحیفہ ملعونہ سے موسوم کیا گیا ہے۔[70]

مونو گرافی

پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے موضوع پر مختلف کتابیں تحریر کی گئی ہیں جن میں سے اکثر اہل‌ سنت مصنفین کی ہیں؛ منجملہ ان میں:

  • وفاۃ النبی، تحریر: عبدالواحد المظفر۔ دلایل وفات، پیغمبر کی بیماری، اس کی مدت اور علل و اسباب، وفات کے وقت کے واقعلت، تجہیز و تدفین وغیرہ اس کتاب میں زیر بحث موضوعات میں سے ہیں۔[71]
  • وفاۃ النبی محمد، تحریر: شیخ حسین الدرازی البحرانی، یہ کتاب مؤسسۂ بلاغ کے توسط سے بیروت سے شائع ہوئی ہے۔[72]
  • وفاۃ رسول اللہؐ و موضع قبرہ، تحریر: نبیل الحسنی، اس کتاب میں پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کی نوعیت، آپ کا مدفن اور اس سلسلے میں صحابہ کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔[73]
  • وفاۃ النبیؐ و اظلمت المدینۃ، تحریر: نزار النعلاوانی العسقلانی، یہ کتاب سنہ 1434ھ کو دارِالمِنہاج بیروت کے توسط سے شایع ہوئی ہے۔[74]
  • سَلْوةُ الکَئیب بوفاۃ الحبیبؐ، تحریر: ابن‌ ناصر الدین اور صالح یوسف معتوق کی تحقیق کے ساتھ۔ اس کتاب میں پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد کے واقعات اور فرشتوں کی عزاداری، پیغمبر اکرمؐ کی اولاد اور ازواج پیغمبر کے بارے میں بھی بحث کی گئی ہے۔[75]

حوالہ جات

  1. ر.ک: شهیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، 1390شمسی، ص106-107.
  2. طبری، تاریخ الطبری، 1387شمسی، ج3، ص201-203.
  3. ابن‌قتیبہ، الامامۃ و السیاسۃ، 1410ھ، ج1، ص30-31۔
  4. مسعودی، اثبات الوصیۃ، 1384شمسی، ص146۔
  5. مہدی، الہجوم، 1425ھ، ص221-356۔
  6. ر۔ک: شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، 1390شمسی، ص106-107۔
  7. ملاحظہ کریں: طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1378شمسی، ص28۔
  8. «مراسم سالروز رحلت پیامبر اکرم(ص) در خارج از کشور»، خبرگزاری مہر۔
  9. ملاحظہ کیجیے: «حرکت و تجمع دستہ جات عزاداری در سالروز رحلت پیامبر اکرم(ص) در بوشہر»، خبرگزاری تسنیم.
  10. عاملی، الصحیح من سیرۃ النبیّ الاعظم، 1385شمسی، ج33، ص141-158۔
  11. ابن‌ابی‌ الحدید، شرح نہج البلاغہ، 1404ھ، ج10، ص266۔
  12. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج6، ص315، حدیث 3۔
  13. صفار، بصائر الدرجات، 1404ھ، ص503۔
  14. ابن‌ سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج2، ص156-155۔
  15. شیخ مفید، المقنعہ، 1413ھ، ص456۔
  16. طوسی، تہذیب الاحکام، 1407ھ، ج6، ص2۔
  17. حلی، منتہی المطلب، 1412ھ، ج13، ص259۔
  18. بخاری، صحیح البخاری، 1422ھ، ج6، ص9، حدیث 4428۔
  19. الدارمی، سنن الدارمی، 1412ھ، ج1، ص207، ح 68۔
  20. حاکم نیشابوری، المستدرک، 1411ھ، ج3، ص61، حدیث 4395۔
  21. عاملی، الصحیح من سیرۃ النبیّ الاعظم، 1385ہجری شمسی، ج33، ص141-158۔
  22. عاملی، الصحیح من سیرۃ النبیّ الاعظم، 1385ہجری شمسی، ج33، ص159۔
  23. عاملی، الصحیح من سیرۃ النبیّ الاعظم، 1385شمسی، ج33، ص159ـ193۔
  24. عیاشی، کتاب التفسیر، 1380شمسی، ج1، ص200۔
  25. ابن‌ابی‌الحدید، شرح نہج البلاغہ، 1404ھ، ج13، ص32؛ نجمی، «داستانی دروغین دربارہ پیامبر اعظمؐ»، ص120۔
  26. عاملی، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم، 1385شمسی، ج32، ص130۔
  27. بخاری، صحیح البخاری، 1422ھ، ج6، ص14، حدیث 4458 و ج7، ص127، حدیث 5712؛ ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج2، ص181۔
  28. نجمی، «داستانی دروغین دربارہ پیامبر اعظمؐ»، ص120۔
  29. شیخ مفید، الارشاد، 1410ھ، ج1، ص182؛ طبری، تاریخ الطبری، 1387ھ، ج3، ص200۔
  30. شیخ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج1، ص182؛ طبری، تاریخ الطبری، 1387ھ، ج3، ص195۔
  31. جعفریان، سیرہ رسول خداؐ، 1383شمسی، ص682۔
  32. شیخ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج1، ص189؛ شیخ طوسی، تہذیب الاحکام، 1407ھ، ج6، ص2۔
  33. قمی، منتہی الامال، 1379ہجری شمسی، ج1، ص249۔
  34. جعفریان، سیرہ رسول خداؐ، 1383شمسی، ص682۔
  35. جعفریان، سیرہ رسول خداؐ، 1383ہجری شمسی، ص682۔
  36. «[Photos] Mourning of Imam Ali’s (AS) shrine servants on the occasion of 28th of Safar»، خبرگزاری شفقنا۔
  37. ابن‌ کثیر، البدایہ و النہایہ، 1407ھ، ج5، ص254؛ سہیلی، الروض الانف، 1412ھ، ج7، ص579۔
  38. طبری، تاریخ الطبری، 1387ھ، ج3، ص200؛ سہیلی، الروض الانف، 1412ھ، ج7، ص579۔
  39. ابن‌کثیر، البدایہ و النہایہ، 1407ھ، ج5، ص276؛ واقدی، المغازی للواقدی، 1409ھ، ج3، ص1089؛ خلیفہ بن خیاط، تاریخ خلیفۃ بن خیاط 1415ھ، ص46؛ مسعودی، مروج الذہب، 1409ھ، ج2، ص280۔
  40. تاری جلیل، «تاملی در تاریخ وفات پیامبرؐ»، ص12۔
  41. قمی، منتہی الامال، 1379شمسی، ج1، ص249۔
  42. قمی، منتہی الامال، 1379شمسی، ج1، ص249۔
  43. کلینی، الکافی، 1362شمسی، ج4، ص439؛ طبری، المسترشد، 1415ھ، ص 115۔
  44. ابن‌ہشام، السیرۃ النبویۃ، دار المعرفۃ، ج2، ص649-666۔
  45. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج2، ص129-253۔
  46. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دار صادر، ج2، ص113-115۔
  47. شیخ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج1، ص179-192۔
  48. عاملی، الصحیح من سیرۃ النبیّ الاعظم، 1385شمسی، ج33، ص125-355 و ص5-230۔
  49. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج2، ص238۔
  50. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج2، ص237-238۔
  51. سید رضی، نهج‌البلاغة (صبحی صالح)، 1414ھ، ص311، خطبہ 197؛ مکارم شیرازی، نہج‌ البلاغہ با ترجمہ فارسی روان، 1384شمسی، ص485.
  52. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج2، ص201۔
  53. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج2، ص212و214؛ ابن‌ہشام، السیرۃ النبویۃ، دار المعرفۃ، ج2، ص662-263۔
  54. شیخ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج1، ص188۔
  55. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج2، ص220؛ یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دار صادر، ج2، ص114۔
  56. اِربلی، کشف الغمہ، 1381ھ، ج1، ص19۔
  57. ابن‌ہشام، السیرۃ النبویۃ، دار المعرفۃ، ج2، ص263۔
  58. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج2، ص229۔
  59. مادلونگ، جانشینی حضرت محمدؐ، 1377شمسی، ص13۔
  60. غلامی، پس از غروب، 1388شمسی، ص21۔
  61. شیخ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج1، ص180۔
  62. بخاری، صحیح البخاری، 1422ھ، ج6، ص9، حدیث 4432۔
  63. شیخ مفید، الأمالی‏، 1413ھ، ص135؛ ابن‌حجر ہیثمی، الصواعق المحرقہ، 1417ھ، ج2، ص438 و 440۔
  64. شیخ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج1، ص185؛ ذہبی، تاریخ الاسلام، 1413ھ، ج11، ص224؛ ابن‌کثیر، البدایہ و النہایہ، 1407ھ، ج7، ص359۔
  65. جعفریان، سیرہ رسول‌ خدا، 1383ہجری شمسی، ص679۔
  66. ابن‌ قتیبہ، الإمامۃ و السیاسۃ، 1410ھ، ج1، ص22؛ ابن‌اثیر، الکامل فی التاریخ، دار صادر، ج2، ص327۔
  67. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج2، ص124؛ عسکری، سقیفہ: بررسی نحوہ شکل‌گیری حکومت پس از پیامبر، 1387شمسی، ص99۔
  68. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج2، ص124؛ عسکری، سقیفہ: بررسی نحوہ شکل‌گیری حکومت پس از پیامبر، 1387شمسی، ص99۔
  69. ابن‌قتیبہ، الامامۃ و السیاسۃ، 1413ھ، ج1، ص30-31۔
  70. سلیم بن قیس، اسرار آل محمدؐ، 1416ھ، ص232؛ قمی، سفینۃ البحار، 1414ھ، ج5، ص56؛ سید ابن طاووس، طرف من الأنباء والمناقب، نشر تاسوعا، ص564؛ شیخ مفید، الفصول المختارۃ، 1413ھ، ج1، ص232۔
  71. المظفر، عبدالواحد، 1386شمسی، ص3۔
  72. درازی، وفاۃ النبی محمدؐ، 1428ھ، ص2۔
  73. «وفاۃ رسول اللہ ؐ و موضع قبرہ»، بازار کتاب قائمیہ۔
  74. النعلاوانی، وفاۃ النبیؐ، 1434ھ، ص2۔
  75. ابن‌ناصر الدین، سلوۃ الکئیب، دار البحوث للدراسات الإسلامیۃ، ص211۔

مآخذ

  • ابن‌ أثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار صادر، بی‌تا۔
  • ابن‌ ابی‌الحدید، عبدالحمید بن ہبۃ اللہ، شرح نہج البلاغۃ، تحقیق و تصحیح محمد ابوالفضل ابراہیم،‏ قم، مکتبۃ آیۃ اللہ المرعشی النجفی، چاپ اول، 1404ھ۔
  • ابن‌حجر ہیتمی، احمد بن محمد، الصواعق المحرقہ علی اہل الرفض و الضلال و الزندقہ، بیروت، مؤسسۃالرسالۃ، چاپ اول، 1417ھ۔
  • ابن‌ سعد، محمد، الطبقات الکبری، تحقیق محمد عبدالقادر عطاء، بیروت، دارالکتب العلمیہ، چاپ اول، 1410ھ۔
  • ابن‌ طاووس، علی بن موسی، طرف من الأنباء والمناقب في شرف سید الأنبیاء وعترتہ الأطائب وطرف من تصریحہ بالوصیۃ بالخلافۃ لعلي بن أبي طالب، تصحیح قیس عطار، تحقیق مؤسسہ پژوہش و مطالعات عاشورا، مشہد، نشر تاسوعا، 1420ھ۔
  • ابن‌ قتیبہ، عبداللہ بن مسلم، الإمامۃ والسیاسۃ، تحقیق علی شیری، بیروت، دار الاضواء، 1410ھ۔
  • ابن‌ کثیر دمشقی‏، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، دارالفکر، 1407ھ۔
  • ابن‌ ناصر الدین، سلوۃ الکئیب بوفاۃ الحبیب، امارات، دار البحوث للدراسات الإسلامیۃ، بی‌تا۔
  • ابن‌ ہشام، عبد الملک، السیرۃ النبویۃ، تحقیق مصطفی السقا و ابراہیم الأبیاری و عبدالحفیظ شلبی، بیروت، دار المعرفۃ، چاپ اول، بی‌تا۔
  • اربلی، علی بن عیسی‏، کشف الغمہ، تحقیق سید ہاشم رسولی محلاتی، تبریز، نشر بنی‌ہاشمی، ‏چاپ اول‏، 1381ھ۔
  • بخاری، محمد بن إسماعیل، صحیح البخاری، تحقیق محمد زہیر الناصر، دمشق، دار طوق النجاۃ، چاپ اول، 1422ھ۔
  • تاری، جلیل، «تاملی در تاریخ وفات پیامبر(ص)»، در مجلہ تاریخ اسلام، شمارہ 5، بہار 1380ہجری شمسی۔
  • جعفریان، رسول، سیرہ رسول خدا(ص)، دلیل ما، قم، 1383ہجری شمسی۔
  • حاکم نیشابوری، محمد بن عبداللہ، المستدرک علی الصحیحین، تحقیق عبدالقادر مصطفی، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، چاپ اول، 1411ھ۔
  • «حرکت و تجمع دستہ‌جات عزاداری در سالروز رحلت پیامبر اکرم(ص) در بوشہر»، خبرگزاری تسنیم، تاریخ درج مطلب: 5 آبان 1398ش، تاریخ بازدید: 1 مرداد 1403ہجری شمسی۔
  • حلّی، حسن بن یوسف، منتہی المطلب فی تحقیق المذہب، مشہد، مجمع البحوث الاسلامیّہ، 1412ھ۔
  • خلیفہ بن خیاط، تاریخ خلیفۃ بن خیاط، تحقیق نجیب فواز، بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1415ھ۔
  • دارمی، عبد اللہ بن عبد الرحمن، سنن الدارمی، تحقیق حسین سلیم الدارانی، عربستان سعودی، دار المغنی للنشر والتوزیع، چاپ اول، 1412ھ۔
  • درازی البحرانی، شیخ حسین، وفاۃ النبی محمد(ص) بیروت، مؤسسۂ بلاغ، چاپ اول، 1428ھ۔
  • ذہبی، محمد بن احمد، تاریخ الاسلام، تحقیق عمر عبد السلام، بیروت، دار الکتاب العربی، چاپ دوم، 1413ھ۔
  • سلیم بن قیس، کتاب سلیم بن قیس، تحقیق محمدباقر انصاری زنجانی، قم، نشر الہادی، الطبعۃ الاولی: 1420ھ/1378ہجری شمسی۔
  • سہیلی، عبد الرحمن، الروض الانف فی شرح السیرۃ النبویۃ، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ اول، 1412ھ۔
  • سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغۃ، تحقیق صبحی صالح، قم، ہجرت، چاپ اول، 1414ھ۔
  • شہیدی، سید جعفر، تاریخ تحلیلی اسلام، تہران، مرکز نشر دانشگاہی، 1390ہجری شمسی۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الأحکام، تصحیح محمد آخوندی، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، الأمالی‏، تحقیق حسین استادولی، علی‌اکبر غفاری، قم‏، کنگرہ شیخ مفید، چاپ اول‏، 1413ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، الإرشاد في معرفۃ حجج اللہ على العباد. قم، المؤتمر العالمي لألفيۃ الشيخ المفيد، 1413ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، الفصول المختارۃ من العیون والمحاسن، گردآوری سید مرتضی، قم، المؤتمر العالمي لألفيۃ الشيخ المفيد، 1413ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، المقنعہ، قم، کنگرہ جہانی ہزارہ شیخ مفید، چاپ اول، 1413ھ۔
  • صفار، محمد بن حسن، قم، بصائر الدرجات، کتابخانہ آیت‌اللہ مرعشی، چاپ دوم، 1404ھ۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، شیعہ در اسلام، جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1378ہجری شمسی۔
  • طبری، محمد بن جریر بن رستم، المسترشد فی إمامۃ أمیر المؤمنین علی بن أبی‌طالب(ع)، تحقیق احمد محمودی، تہران، مؤسسہ الثقافہ الإسلامیہ لکوشانپور، 1415ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری (تاریخ الامم و الملوک)، تحقیق محمد أبوالفضل ابراہیم، بیروت، دار التراث، چاپ دوم، 1387ھ۔
  • عاملی، سید جعفرمرتضی، الصحیح من سیرۃ النبیّ الاعظم، قم، دارالحدیث، چاپ اول، 1385ہجری شمسی۔
  • عسکری، سید مرتضی، سقیفہ: بررسی نحوہ شکل‌گیری حکومت پس از رحلت پیامبر، بہ‌کوشش مہدی دشتی، قم، دانشکدہ اصول الدین، 1387ہجری شمسی۔
  • عیاشی، محمد بن مسعود، تفسیر العیّاشی، تہران، المطبعۃ العلمیّہ، چاپ اول، 1380ھ۔
  • قمی، شیخ عباس، منتہی الآمال، قم، دلیل ما، چاپ اول، 1379ہجری شمسی۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق و تصحیح علی‌اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
  • مادلونگ، ویلفرد، جانشینی حضرت محمد(ص): پژوہشی پیرامون خلافت نخستین، ترجمہ احمد نمایی و جواد قاسمی و محمدجواد مہدوی و حیدررضا ضابط، مشہد، بنیاد پژوہش‌ہای اسلامی آستان قدس، 1377ہجری شمسی۔
  • «مراسم سالروز رحلت پیامبر اکرم(ص) در خارج از کشور»، خبرگزاری مہر، تاریخ نشر: 22 آذر 1394ش، تاریخ بازدید: 6 دی 1402ش،
  • مسعودی، علی بن حسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، تحقیق اسعد داغر یوسف، قم، موسسہ دارالہجرہ، 1409ھ۔
  • المظفر، عبدالواحد، وفاۃ النبی(ص)، قم، انتشارات المکتبہ الحیدریہ، چاپ اول، 1386ہجری شمسی۔
  • مہدی، عبدالزہراء، الہجوم علی بیت فاطمہ، تہران، انتشارات برگ رضوان، 1425ھ۔
  • نجمی، محمدصادق، «داستانی دروغین دربارہ پیامبر اعظم(ص)»، در فصلنامہ میقات حج، شمارہ 58، زمستان 1385ہجری شمسی۔
  • النعلاوانی العسقلانی، نزار، وفاۃ النبی(ص) و أظلمت المدینۃ، بیروت، دار المِنہاج، 1434ھ۔
  • واقدی، محمد بن عمر، المغازی للواقدی، تصحیح مارزدن جونز، بیروت، مؤسسہ الأعلمی للمطبوعات، 1409ھ۔
  • «وفاۃ رسول اللہ (ص) و موضع قبرہ»، بازار کتاب قائمیہ، تاریخ بازدید: 17 دی 1402ہجری شمسی۔
  • یعقوبی، احمد بن أبی یعقوب‏، تاریخ الیعقوبی، بیروت، دار صادر، چاپ اول، بی‌تا۔
  • «[Photos] Mourning of Imam Ali’s (AS) shrine servants on the occasion of 28th of Safar"، خبرگزاری شفقنا، تاریخ درج مطلب: 14 سپتامبر 2023ء، تاریخ بازدید: 22 ژوئن 2024ء۔