رحلت پیغمبر اکرمؐ

ویکی شیعہ سے
پیغمبر اکرمؐ کی رحلت
گیارہویں صدی ہجری کی کتاب سیرۃ النبی میں عثمانی حکمران سید سلیمان کسیم پاشا کے حکم سے پیغمبر اکرمؐ کے بستر بیماری کے پاس حضرت فاطمہ (س) اور جبرئیل کی عکاسی۔
گیارہویں صدی ہجری کی کتاب سیرۃ النبی میں عثمانی حکمران سید سلیمان کسیم پاشا کے حکم سے پیغمبر اکرمؐ کے بستر بیماری کے پاس حضرت فاطمہ (س) اور جبرئیل کی عکاسی۔
زمان28 صفر، سنہ 11ھ.
مکانمدینہ، پیغمبر اکرمؐ کا گھر
سببایک یہودی عورت یا داخلی دشمن
اثراتسقیفہ کا واقعہ
عکس العملعمر بن خطاب کا ماننے سے انکار
مربوطحضرت محمدؐ


رحلت پیغمبر اکرمؐ، سنہ 11ھ کے ان اہم واقعات میں سے ایک ہے جو مسلمانوں میں شدید اختلاف پیدا ہونے نیز ان کی فردی اور اجتماعی زندگی کے متأثر کن نتائج کے حامل واقعات میں سے ہے۔ آپؐ کی رحلت یا شہادت اور اسلامی معاشرے پر اس کے اثرات تاریخ اسلام کے اہم مباحث میں سے ہے۔ شیعہ اور اہل سنت حدیثی منابع میں نقل ہونے والی احادیث کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کو ایک یہودی عورت کے توسط سے زہر دے کر مسموم کیا گیا جس کے نتیجے میں آپ کی شہادت واقع ہوئی؛ لیکن بعض مورخین اس بات کے معتقد ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ طبیعی موت اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں۔ تاریخ اسلام کے محقق اور شیعہ عالم دین جعفر مرتضی عاملی کے مطابق رسول خدا کئی دفعہ قاتلانہ سازش کا ہوا اور آخر کار زہر کی وجہ سے اس دنیا سے رخصت ہوئے۔

تاریخی منابع میں پیغمبر اکرمؐ کی زندگی کے آخری ایام میں وقایع ہونے والے اہم واقعات کی طرف اشارہ ہوا ہے منجملہ ان میں؛ لشکر اسامہ، قلم دوات کا واقعہ، حدیث ثقلین پر بار بار تاکید اور پیغمبر اکرمؐ کے وصی اور جانشین کا تعیّن شامل ہیں۔

تاریخی منابع کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد مدینہ کے لوگ خاص کر آپ کی بیٹی حضرت فاطمہ(س) بہت غمگین ہوئیں۔ عمر بن خطاب پیغمبر اکرمؐ کی موت واقع نہ ہونے پر اصرار کرتے ہوئے اس کے قائلین کو قتل کرنے کی دھمکی دیتا تھا، یہاں تک کہ ابو بکر آکر سورہ آل‌عمران کی آیت 144 کی تلاوت کے ذریعے ان کو آرام کیا۔ بعض لوگ عُمَر کے اس اقدام کو سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ قرار دیتے ہیں جسے ابو بکر کو منصب خلافت پر پہنچانے کے لئے بنایا گیا تھا۔

مورخین کے مطابق امام علیؑ نے فضل بن عباس اور اسامۃ بن زید کی مدد سے پیغمبر اکرمؐ کی تجہیز و تکفین کے بعد آپؐ کو اپنے حجرے میں سپرد خاک کیا۔ پیغمبر اکرمؐ کی تدفین کے وقت انصار اور مہاجرین کا ایک گروہ سقیفہ بنی‌ ساعدہ میں جمع ہو کر رسول خداؐ کی سفارش اور وصیت کے برخلاف ابوبکر کو مسلمانوں کا خلیفہ مقرر کیا۔
پیغمبر اکرمؐ کی رحلت یا شہادت شیعہ مشہور قول کے مطابق 28 صفر جبکہ اہل سنت مشہور قول کے مطابق 12 ربیع‌الاول کو ہوئی ہے۔

اہمیت

پیغمبر اکرمؐ نے 11ھ[1] کو مدینہ[2] میں وفات پائی۔ پیغمبر اکرمؐ کی رحلت پیر کے دن واقع ہونے میں تمام مورخین کا اتفاق ہے۔[3] شیعہ علماء میں شیخ مفید اور شیخ طوسی نے آپؐ کی رحلت کی تاریخ 28 صفر قرار دئے ہیں[4] جسے شیخ عباس قمی نے مشہور شیعہ علماء کا نظریہ قرار دیا ہے۔[5] شیعہ معاصر مورخ رسول جعفریان کے مطابق اس تاریخ کے استناد کے لئے کوئی حدیث موجود نہیں ہے[6] اور شیعوں نے شیخ مفید اور شیخ طوسی پر اعتماد کرتے ہوئے اس تاریخ کو قبول کئے ہیں۔[7]

حرم امام علی میں رحلت پیغمبر کی مجالس (28 صفر 1445ھنجف اشرف عراق[8]

اہل‌ سنت پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے واقعہ کو ماہ ربیع‌ الاول کی پہلی،[9] دوسری[10] اور بعض کے مطابق بارہویں تاریخ[11] کو رونما ہونے پر اعتقاد رکھتے ہیں اور بعض نے اسی آخری قول کو مشہور اہل‌ سنت علماء کا نظریہ قرار دیتے ہیں۔[12] شیعہ مناقب‌ نگار اِربِلی کَشْفُ الغُمّہ‏ میں امام باقرؑ سے ایک حدیث نقل کرتے ہیں جس کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کی وفات ماہ ربیع اول کی دوسری تاریخ کو ہوئی ہے،[13] لیکن شیخ عباس قمی اسے تقیہ پر حمل کرتے ہیں۔[14] چنانچہ دو اور شیعہ علماء کُلینی اور محمد بن جریر طبری بھی اس بات کے قائل ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کا واقعہ 12 ربیع‌ الاول کو رونما ہوا ہے۔[15]

ابن‌ ہشام (وفات 218ھ) کی کتاب السیرۃ النبویۃ،[16] محمد بن سعد (وفات: 230ھ) کی کتاب الطبقات الکبری،[17] احمد بن ابی‌یعقوب (وفات: 284ھ) کی کتاب تاریخ یعقوبی،[18] شیخ مفید (وفات: 413ھ) کی کتاب الاِرشاد [19] اور جعفر مرتضی عاملی (وفات: 1441ھ) کی کتاب الصحیح من سیرۃ النبیّ الاعظم وغیرہ میں رحلت پیغمبر اکرمؐ سے مربوط مباحث پر مشتمل ہیں۔[20]

اس واقعے کے برے اثرات

پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے واقعہ سے مسلمان بری طرح متأثر هوئے۔[21] آپؐ کی رحلت کے فورا بعد مہاجر اور انصار کا ایک گروہ سقیفہ بنی‌ ساعدہ میں جمع ہو کر خلیفۃ المسلمین کے عنوان سے ابوبکر کو انتخاب کیا۔[22] اس کے بعد ابوبکر کے حامیوں نے حضرت علی سے بیعت لینے کے لئے فاطمہ کے گھر پر حملہ کیا۔[23] اس واقعے میں حضرت فاطمہ(س) زخمی ہوئیں[24]اور شیعوں کے مطابق یہی واقعہ آپ کیشہادت کا باعث بنا۔[25] شیعوں کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد امام علیؑ کی جانشینی کے سلسلے میں کی گئی آپؐ کی وصیتوں پر عمل نہیں ہوا[26] یوں آپؐ کی جانشینی کے مسئلے پر اسلامی معاشرے میں ایک عمیق اختلاف وجود میں آیا جو اسلام میں دو مکاتب فکر شیعہ اور اہل سنت کے وجود میں آنے کا سبب بنا۔[27]

مختلف ممالک میں رسول خداؐ کی رحلت کے دن عزاداری کے رسومات منعقد ہوتی ہیں۔[28] ایران میں 28 صفر کو پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے دن کی مناسبت سے سرکاری طور پر چھٹی ہوتی ہے اور شیعہ حضرات اسی مناسبت سے عزاداری کرتے ہیں۔[29]

پیغمبر اکرمؐ کو زہر دینے کا واقعہ

پیغمبر اکرمؐ طبیعی موت اس دنیا سے رحلت کر گئے ہیں یا آپ کو زہر سے مسموم کر کے شہید کیا گیا؟ مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔[30] بعض اس بات کے معتقد ہیں کہ رسول خدا طبیعی موت اس دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں؛[31] لیکن شیعہ حدیثی کتاب کتاب الکافی،[32] اور کتاب بصائر الدرجات میں امام صادقؑ سے مروی حدیث،[33] اور تیسری صدی ہجری کی تاریخی کتاب طبقات ابن‌ سعد کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کی بیماری جس میں آپ کی رحلت ہوئی اصل میں زہر آلود گوشت کھانے کی وجہ سے تھی؛ فتح خیبر کے بعد ایک یہودی عورت نے پیغمبر اکرمؐ اور آپ کے اصحاب کے لئے زہر آلود گوشت کھلائی جس سے آپ بیمار ہوئے۔[34]

شیخ مفید،[35] شیخ طوسی،[36] علامہ حلّی[37] اور بعض اہل‌ سنت منابع جیسے صحیح بخاری،[38] سُنَن دارمی[39] اور المستَدرک علی الصحیحین[40] میں زہر کی وجہ سے پیغمبر اکرمؐ کی رحلت واقع ہونے پر تصریح کی گئی ہے۔ شیعہ مورخ جعفر مرتضی عاملی نے بعض شیعہ اور اہل‌ سنت منابع سے ایسے شواہد جمع کیا ہے جن سے پیغمبر اکرمؐ کو قتل کرنے کی سازش کا بھی عندیہ ملتا ہے۔[41] اسی بنا پر وہ اس بات کے معتقد ہیں کہ آپؐ کو باقاعدہ سازش کے تحت زہر سے مسموم کرکے شہید کئے گئے ہیں۔[42] ان کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کو مسموم کرنے میں بعض داخلی دشمنوں کا ہاتھ تھا۔[43] اسی طرح تفسیر عَیّاشی میں امام صادقؑ سے نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ کو زہر سے مسموم کرنے میں آپ کی دو زوجہ ملوث تھیں۔[44]

حدیث لدود

لَدود کا واقعہ جسے بعض جعلی[45] اور خرافات[46] قرار دیتے ہیں بھی پیغمبر اکرمؐ کی بیماری سے مربوط واقعات میں سے ہے۔ صحیح بخاری اور طبقات ابن‌ سعد میں عایشہ سے منقول ہے کہ پیغمبر اکرمؐ کی عمر کے آخری ایام میں آپ بیماری کی شدت کی وجہ سے بے ہوش ہو جاتے تھے، لَدود (ایک تلخ دوائی) پیغمبر اکرمؐ کے منہ میں ڈالا گیا لیکن پیغمبر اکرمؐ نے اسی حالت میں اشارہ کر کے اس کام سے منع کیا۔ جب پیغمبر اکرم کی حالت کچھ سنبھل گئی تو حکم دیا کہ آپؐ کے چچا عباس کے علاوہ سب کے منہ میں یہ دوائی ڈالی جائے۔[47] شیعہ محقق نجمی یہ احتمال دیتے ہیں کہ اس حدیث کو جعل کرنے والے شاید پیغمبر اکرمؐ کی عمر کے آخری ایام میں واقع ہونے والے قلم و دوات کا واقعہ کے لئے شواہد کی تلاش میں تھے جس میں عمر بن خطاب نے پیغمبر اکرمؐ پر ہذیان‌ گویی کی نسبت دی تھی۔[48]

پیغمبر اکرمؐ کی تدفین

مدینہ میں روضہ پیغمبرؐ کے اوپر گنبد خضراء

ابن‌سعد نقل کرتے ہیں کہ رسول خداؐ کی رحلت کے بعد لوگ بہت غمگین ہوگئے۔[49] آپؐ کی بیٹی حضرت فاطمہ(س) مسلسل آنسو بہاتی تھیں اور «یا اَبَتاہ!» کی صدائیں دیتی تھیں یہاں تک کہ پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے کبعد کسی نے ان کو ہنستے ہوئے نہیں دیکھا۔[50] نہج البلاغہ میں امام علیؑ سے منقول ہے کہ رسول خداؐ کی رحلت کے وقت مدینہ کے در و دیوار اور آسمان کے فرشتے آپؐ یک فراق میں گریہ و زاری کرتے تھے۔[51]

تاریخی منابع کے مطابق پیغمبر اکرمؐ نے حضرت علیؑ کے آغوش میں رحلت فرمائی[52] اور حضرت علیؑ نے ابن عباس، اسامۃ بن زید اور دیگر افراد کی مدد سے آپ کو آپ کے کپڑوں میں ہی غسل دیا اور کفن پہنایا۔[53] حضرت علىؑ کی تجویز پر[54] لوگ گروہ در گروہ رسول خداؐ کے دولت سرا پر حاضری دیتے اور کسی کی اقتداء کئے بغیر پیغمبر اکرمؐ پر نماز میت پڑھتے اور یہ سلسلہ دوسرے دن تک جاری رہا۔[55] بعض روایات کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کی مدفن کے بارے میں مختلف تجاویز زیر غور آئی لیکن حضرت علیؑ کی تجویز جسے سب نے قبول کیا کہ خدا انبیاء کے ارواح کو سب سے پاکیزہ جگہے پر قبض روح کرتا ہے، پیغمبر اکرمؐ کو جہاں آپ کی قبض روح ہوئی تھی (آپ کا حجرہ مبارک) دفن کیا گیا۔[56] قبر کو ابوعُبیدہ جَرّاح اور زید بن سہل نے تیار کیا[57] اور حضرت علیؑ نے ابن عباس اور اسامہ کی مدد سے پیغمبر اکرمؐ کو سپرد خاک کیا۔[58]

جانشینی کا مسئلہ

پیغمبر اکرمؐ کی جانشینی اور مسلمانوں پر قیادت اور سرپرستی کا مسئلہ مسلمانوں کے درمیان مورد اختلاف بنیادی مسائل میں سے ایک ہے۔[59] اسی بنا پر رسول خدا کی رحلت سے قبل اور آپ کی رحلت کے فورا بعد رونما ہونے والے واقعات تاریخ اسلام کے انتہائی حساس اور پیچیدہ سیاسی اقدامات میں شمار کئے جاتے ہیں۔[60] شیعہ منابع کے تجزیہ و تحلیل کے مطابق پیغمبر اکرمؐ نے غدیر خم کے واقعے میں حضرت علیؑ کی جانشینی کے اعلان کو تثبیت کرنے حضرت علی کی خلافت کے متوقع مخالفین کو لشکر اسامہ کے ساتھ مدینہ سے دور کرنے کی کوشش کی،[61] اور اپنے بعد کے لئے ایک وصیت‌ نامہ‌ لکھا،[62] کئی دفعہ حدیث ثقلین پر تأکید کی[63] اپنے بعد اپنا وصی اور جانشین مقرر کیا،[64] اور ابو بکر کو نماز جماعت قائم کرنے سے منع فرمایا۔[65]

تاریخی منابع کے مطابق جانشینی کے مسلئے میں پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد صحابہ دو نظریے کے قائل ہوئے: صحابہ کے ایک گروہ نے کہا کہ پیغمبر اکرمؐ نے اپنے بعد کسی کو خیلفہ مقرر نہیں کیا اس بنا پر وہ سقیفہ‌ بنی‌ ساعدہ میں جمع ہو گئے اور انہوں نے ابوبکر کو خلیفہ منتخب کیا،[66] دوسرا گرہ کہ میں بنی‌ ہاشم کی اکثریت شامل تھی پیغمبر اکرمؐ کے فرمودات کی روشنی میں اس بات کے معتقد تھے کہ آپؐ نے حضرت علیؑ کو اپنے بعد مسلمانوں کا خلیفہ اور اپنا جانشین مقرر فرمایا ہے اسی بنا پر اس گروہ نے ایک مدت تک ابو بکر کی بیعت نہیں کی۔[67] ان دو گروہوں کے درمیان مذکورہ اختلاف آپس میں تصادم تک پہنچا یہاں تک کہ حضرت فاطمہ(س) کے گھر پر حملہ کیا گیا۔[68] بعض مورخین کے مطابق حضرت علیؑ نے حضرت فاطمہ(س) کی شہادت تک ابو بکر کی بیعت نہیں کی۔[69] کتاب سلیم بن قیس اور دیگر منابع کے مطابق صحابہ میں سے بعض لوگوں نے پیغمبر اکرمؐ کی جانشینی کے بارے میں خود آپ کی حیات مبارک میں ایک دوسرے کے ساتھ عہد و پیمان باندھا تھا اس واقعے کو مذکورہ منابع میں صحیفہ ملعونہ کا نام دیا گیا ہے۔[70]

مونو گرافی

پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے موضوع پر مختلف کتابیں تحریر کی گئی ہیں جن میں سے اکثر اہل‌ سنت مصنفین کی ہیں؛ منجملہ ان میں:

  • وفاۃ النبی، تحریر: عبدالواحد المظفر۔ دلایل وفات، پیغمبر کی بیماری، اس کی مدت اور علل و اسباب، وفات کے وقت کے واقعلت، تجہیز و تدفین وغیرہ اس کتاب میں زیر بحث موضوعات میں سے ہیں۔[71]
  • وفاۃ النبی محمد، تحریر: شیخ حسین الدرازی البحرانی، یہ کتاب مؤسسۂ بلاغ کے توسط سے بیروت سے شایع ہوئی ہے۔[72]
  • وفاۃ رسول اللہؐ و موضع قبرہ، تحریر: نبیل الحسنی، اس کتاب میں پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کی نوعیت، آپ کا مدفن اور اس سلسلے میں صحابہ کی درمیان پیدا ہونے والے اختلافات کی طرف اشارہ ہوا ہے۔[73]
  • وفاۃ النبیؐ و اظلمت المدینۃ، تحریر: نزار النعلاوانی العسقلانی، یہ کتاب سنہ 1434ھ کو دارِالمِنہاج بیروت کے توسط سے شایع ہوئی ہے۔[74]
  • سلوۃ الکئیب بوفاۃ الحبیبؐ، تحریر: ابن‌ناصر الدین اور صالح یوسف معتوق کی تحقیق کے ساتھ۔ اس کتاب میں پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد کے واقعات اور فرشتوں کی عزاداری، پیغمبر اکرمؐ کی اولاد اور ازواج پیغمبر کے بارے میں بھی بحث کی گئی ہے۔[75]

حوالہ جات

  1. شیخ مفید، الارشاد، 1410ھ، ج1، ص182؛ طبری، تاریخ الطبری، 1387ھ، ج3، ص200۔
  2. شیخ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج1، ص182؛ طبری، تاریخ الطبری، 1387ھ، ج3، ص195۔
  3. جعفریان، سیرہ رسول خداؐ، 1383ہجری شمسی، ص682۔
  4. شیخ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج1، ص189؛ شیخ طوسی، تہذیب الاحکام، 1407ھ، ج6، ص2۔
  5. قمی، منتہی الامال، 1379ہجری شمسی، ج1، ص249۔
  6. جعفریان، سیرہ رسول خداؐ، 1383ہجری شمسی، ص682۔
  7. جعفریان، سیرہ رسول خداؐ، 1383ہجری شمسی، ص682۔
  8. «[Photos] Mourning of Imam Ali’s (AS) shrine servants on the occasion of 28th of Safar»، خبرگزاری شفقنا۔
  9. ابن‌کثیر، البدایہ و النہایہ، 1407ھ، ج5، ص254؛ سہیلی، الروض الانف، 1412ھ، ج7، ص579۔
  10. طبری، تاریخ الطبری، 1387ھ، ج3، ص200؛ سہیلی، الروض الانف، 1412ھ، ج7، ص579۔
  11. ابن‌کثیر، البدایہ و النہایہ، 1407ھ، ج5، ص276؛ واقدی، المغازی للواقدی، 1409ھ، ج3، ص1089؛ خلیفہ بن خیاط، تاریخ خلیفۃ بن خیاط 1415ھ، ص46؛ مسعودی، مروج الذہب، 1409ھ، ج2، ص280۔
  12. تاری جلیل، «تاملی در تاریخ وفات پیامبرؐ»، ص12۔
  13. قمی، منتہی الامال، 1379ہجری شمسی، ج1، ص249۔
  14. قمی، منتہی الامال، 1379ہجری شمسی، ج1، ص249۔
  15. کلینی، الکافی، 1362ہجری شمسی، ج4، ص439؛ طبری، المسترشد، 1415ھ، ص 115۔
  16. ابن‌ہشام، السیرۃ النبویۃ، دار المعرفۃ، ج2، ص649-666۔
  17. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج2، ص129-253۔
  18. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دار صادر، ج2، ص113-115۔
  19. شیخ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج1، ص179-192۔
  20. عاملی، الصحیح من سیرۃ النبیّ الاعظم، 1385ہجری شمسی، ج33، ص125-355 و ص5-230۔
  21. ر۔ک: شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، 1390ہجری شمسی، ص106-107۔
  22. طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ہجری شمسی، ج3، ص201-203۔
  23. ابن‌قتیبہ، الامامۃ و السیاسۃ، 1410ھ، ج1، ص30-31۔
  24. مسعودی، اثبات الوصیۃ، 1384ہجری شمسی، ص146۔
  25. مہدی، الہجوم، 1425ھ، ص221-356۔
  26. ر۔ک: شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، 1390ہجری شمسی، ص106-107۔
  27. ملاحظہ کریں: طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1378ہجری شمسی، ص28۔
  28. «مراسم سنہروز پیغمبر اکرمؐ کی رحلت اکرمؐ در خارج از کشور»، خبرگزاری مہر۔
  29. ملاحظہ کریں: «حرکت و تجمع دستہ‌جات عزاداری در سنہروز پیغمبر اکرمؐ کی رحلت اکرمؐ در بوشہر»، خبرگزاری تسنیم۔
  30. عاملی، الصحیح من سیرۃ النبیّ الاعظم، 1385ہجری شمسی، ج33، ص141-158۔
  31. ابن‌ابی‌الحدید، شرح نہج البلاغہ، 1404ھ، ج10، ص266۔
  32. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج6، ص315، حدیث 3۔
  33. صفار، بصائر الدرجات، 1404ھ، ص503۔
  34. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج2، ص156-155۔
  35. شیخ مفید، المقنعہ، 1413ھ، ص456۔
  36. طوسی، تہذیب الاحکام، 1407ھ، ج6، ص2۔
  37. حلی، منتہی المطلب، 1412ھ، ج13، ص259۔
  38. بخاری، صحیح البخاری، 1422ھ، ج6، ص9، حدیث 4428۔
  39. الدارمی، سنن الدارمی، 1412ھ، ج1، ص207، ح 68۔
  40. حاکم نیشابوری، المستدرک، 1411ھ، ج3، ص61، حدیث 4395۔
  41. عاملی، الصحیح من سیرۃ النبیّ الاعظم، 1385ہجری شمسی، ج33، ص141-158۔
  42. عاملی، الصحیح من سیرۃ النبیّ الاعظم، 1385ہجری شمسی، ج33، ص159۔
  43. عاملی، الصحیح من سیرۃ النبیّ الاعظم، 1385ہجری شمسی، ج33، ص159ـ193۔
  44. عیاشی، کتاب التفسیر، 1380ہجری شمسی، ج1، ص200۔
  45. ابن‌ابی‌الحدید، شرح نہج البلاغہ، 1404ھ، ج13، ص32؛ نجمی، «داستانی دروغین دربارہ پیامبر اعظمؐ»، ص120۔
  46. عاملی، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم، 1385ہجری شمسی، ج32، ص130۔
  47. بخاری، صحیح البخاری، 1422ھ، ج6، ص14، حدیث 4458 و ج7، ص127، حدیث 5712؛ ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج2، ص181۔
  48. نجمی، «داستانی دروغین دربارہ پیامبر اعظمؐ»، ص120۔
  49. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج2، ص238۔
  50. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج2، ص237-238۔
  51. سید رضی، نہج البلاغۃ(صبحی صالح)، 1414ھ، ص311، خطبۂ 197۔
  52. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج2، ص201۔
  53. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج2، ص212و214؛ ابن‌ہشام، السیرۃ النبویۃ، دار المعرفۃ، ج2، ص662-263۔
  54. شیخ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج1، ص188۔
  55. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج2، ص220؛ یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دار صادر، ج2، ص114۔
  56. اِربلی، کشف الغمہ، 1381ھ، ج1، ص19۔
  57. ابن‌ہشام، السیرۃ النبویۃ، دار المعرفۃ، ج2، ص263۔
  58. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج2، ص229۔
  59. مادلونگ، جانشینی حضرت محمدؐ، 1377ہجری شمسی، ص13۔
  60. غلامی، پس از غروب، 1388ہجری شمسی، ص21۔
  61. شیخ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج1، ص180۔
  62. بخاری، صحیح البخاری، 1422ھ، ج6، ص9، حدیث 4432۔
  63. شیخ مفید، الأمالی‏، 1413ھ، ص135؛ ابن‌حجر ہیثمی، الصواعق المحرقہ، 1417ھ، ج2، ص438 و 440۔
  64. شیخ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج1، ص185؛ ذہبی، تاریخ الاسلام، 1413ھ، ج11، ص224؛ ابن‌کثیر، البدایہ و النہایہ، 1407ھ، ج7، ص359۔
  65. جعفریان، سیرہ رسول‌ خدا، 1383ہجری شمسی، ص679۔
  66. ابن‌قتیبہ، الإمامۃ و السیاسۃ، 1410ھ، ج1، ص22؛ ابن‌اثیر، الکامل فی التاریخ، دار صادر، ج2، ص327۔
  67. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج2، ص124؛ عسکری، سقیفہ: بررسی نحوہ شکل‌گیری حکومت پس از پیامبر، 1387ہجری شمسی، ص99۔
  68. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج2، ص124؛ عسکری، سقیفہ: بررسی نحوہ شکل‌گیری حکومت پس از پیامبر، 1387ہجری شمسی، ص99۔
  69. ابن‌قتیبہ، الامامۃ و السیاسۃ، 1413ھ، ج1، ص30-31۔
  70. سلیم بن قیس، اسرار آل محمدؐ، 1416ھ، ص232؛ قمی، سفینۃ البحار، 1414ھ، ج5، ص56؛ سید ابن طاووس، طرف من الأنباء والمناقب، نشر تاسوعا، ص564؛ شیخ مفید، الفصول المختارۃ، 1413ھ، ج1، ص232۔
  71. المظفر، عبدالواحد، 1386ہجری شمسی، ص3۔
  72. درازی، وفاۃ النبی محمدؐ، 1428ھ، ص2۔
  73. «وفاۃ رسول اللہ ؐ و موضع قبرہ»، بازار کتاب قائمیہ۔
  74. النعلاوانی، وفاۃ النبیؐ، 1434ھ، ص2۔
  75. ابن‌ناصر الدین، سلوۃ الکئیب، دار البحوث للدراسات الإسلامیۃ، ص211۔

مآخذ

  • ابن‌ابی‌الحدید، عبد الحمید بن ہبۃاللہ، شرح نہج البلاغۃ، محقق و مصحح: ابراہیم، محمد ابوالفضل،‏ قم، مکتبۃ آیۃ اللہ المرعشی النجفی، چاپ اول، 1404ھ۔
  • ابن‌أثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار صادر، بی‌تا۔
  • ابن‌حجر ہیتمی، احمد بن محمد، الصواعق المحرقہ علی اہل الرفض و الضلال و الزندقہ، بیروت، مؤسسۃالرسنہۃ، چاپ اول، 1417ھ۔
  • ابن‌سعد، محمد، الطبقات الکبری، تحقیق: عطاء، محمد عبدالقادر، بیروت، دارالکتب العلمیہ، چاپ اول، 1410ھ۔
  • ابن‌قتیبہ، عبداللہ بن مسلم، الإمامۃ و السیاسۃ، محقق: علی شیری، بیروت، دار الاضواء، 1410ھ۔
  • ابن‌کثیر دمشقی‏، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، دارالفکر، 1407ھ۔
  • ابن‌ہشام، عبد الملک، السیرۃ النبویۃ، تحقیق: مصطفی السقا، ابراہیم الأبیاری، عبدالحفیظ شلبی، بیروت، دار المعرفۃ، چاپ اول، بی‌تا۔
  • ابن‌ناصر الدین، سلوۃ الکئیب بوفاۃ الحبیب، امارات، دار البحوث للدراسات الإسلامیۃ، بی‌تا۔
  • اربلی، علی بن عیسی‏، کشف الغمہ، تحقیق: سید ہاشم رسولی محلاتی، تبریز، نشر بنی‌ہاشمی، ‏چاپ: اول‏، 1381ھ۔
  • بخاری، محمد بن إسماعیل، صحیح البخاری، محقق: الناصر، محمد زہیر، دمشق، دار طوق النجاۃ، چاپ اول، 1422ھ۔
  • تاری جلیل، «تاملى در تاریخ وفات پیامبرؐ»، در مجلہ تاریخ اسلام، شمارہ 5، بہار 1380ہجری شمسی۔
  • جعفریان، رسول، سیرہ رسول خداؐ، دلیل ما، قم، 1383ہجری شمسی۔
  • حاکم نیشابوری، محمد بن عبداللہ، المستدرک علی الصحیحین، تحقیق: عبدالقادر مصطفی، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، چاپ اول، 1411ھ۔

«حرکت و تجمع دستہ‌جات عزاداری در سنہروز پیغمبر اکرمؐ کی رحلت اکرمؐ در بوشہر»، خبرگزاری تسنیم، تاریخ درج مطلب: 5 آبان 1398ہجری شمسی، تاریخ مشاہدہ: 1 مرداد 1403ہجری شمسی۔

  • حلّی، حسن بن یوسف، منتہی المطلب فی تحقیق المذہب، مشہد، مجمع البحوث الاسلامیّہ، 1412ھ۔
  • خلیفہ بن خیاط، تاریخ خلیفۃ بن خیاط، تحقیق: نجیب فواز، بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1415ھ۔
  • دارمی، عبد اللہ بن عبد الرحمن، سنن الدارمی، تحقیق: حسین سلیم الدارانی، عربستان سعودی، دار المغنی للنشر والتوزیع، چاپ اول، 1412ھ۔
  • ٰدرازی البحرانی، شیخ حسین، وفاۃ النبی محمدؐ بیروت، مؤسسۂ بلاغ، چاپ اول، 1428ھ۔
  • ذہبی، محمد بن احمد، تاریخ الاسلام، تحقیق: عمر عبد السلام، بیروت، دار الکتاب العربی، چاپ دوم، 1413ھ۔
  • سہیلی، عبد الرحمن، الروض الانف فی شرح السیرۃ النبویۃ، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ اول، 1412ھ۔
  • سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغۃ، تحقیق: صبحی صالح، قم، ہجرت، چاپ اول، 1414ھ۔
  • شہیدی، سید جعفر، تاریخ تحلیلی اسلام، تہران، مرکز نشر دانشگاہی، 1390ہجری شمسی۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الأحکام، تصحیح: محمد آخوندی، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، الأمالی‏، تحقیق: حسین استاد ولی، علی‌اکبر غفاری، قم‏، کنگرہ شیخ مفید، چاپ اول‏، 1413ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، المقنعہ، قم، کنگرہ جہانی ہزارہ شیخ مفید، چاپ اول، 1413ھ۔
  • صفار، محمد بن حسن، قم، بصائر الدرجات، کتابخانہ آیت‌اللہ مرعشی، چاپ دوم، 1404ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری (تاریخ الامم و الملوک)، تحقیق: ابراہیم، محمد أبوالفضل، بیروت، دار التراث، چاپ دوم، 1387ھ۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، شیعہ در اسلام، جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1378ہجری شمسی۔
  • طبری، محمد بن جریر بن رستم، المسترشد فی إمامۃ أمیر المؤمنین علی بن أبی‌طالبؑ، تحقیق: احمد محمودی، تہران، مؤسسہ الثقافہ الإسلامیہ لکوشانپور، 1415ھ۔
  • عاملی، سید جعفرمرتضی، الصحیح من سیرۃ النبیّ الاعظم، قم، دارالحدیث، چاپ اول، 1385ہجری شمسی۔
  • عسکری، سید مرتضی، سقیفہ: بررسی نحوہ‌‌ شکل‌گیری حکومت پس از پیغمبر اکرمؐ کی رحلت، بہ کوشش: مہدی دشتی، دانشکدہ اصول الدین، قم، 1387ہجری شمسی۔
  • عیاشی، محمد بن مسعود، تفسیر العیّاشی، تہران، المطبعۃ العلمیّہ، چاپ اول، 1380ھ۔
  • قمی، شیخ عباس، منتہی الآمال، قم، دلیل ما، چاپ اول، 1379ہجری شمسی۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، محقق و مصحح: غفاری، علی‌اکبر، آخوندی، محمد، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
  • «مراسم سنہروز پیغمبر اکرمؐ کی رحلت اکرمؐ در خارج از کشور»، خبرگزاری مہر، تاریخ نشر: 22 آذر 1394ہجری شمسی، تاریخ مشاہدہ: 6 دی 1402ہجری شمسی،
  • مادلونگ، ویلفرد، جانشینی حضرت محمدؐ: پژوہشی پیرامون خلافت نخستین، ترجمہ: احمد نمایی و جواد قاسمی و محمدجواد مہدوی و حیدررضا ضابط، بنیاد پژوہش‌ہای اسلامی آستان قدس، مشہد، 1377ہجری شمسی۔
  • مسعودی، علی بن حسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، تحقیق: اسعد داغریوسف، قم، موسسہ دارالہجرہ، 1409ھ۔
  • المظفر، عبدالواحد، وفاۃ النبیؐ، قم، انتشارات المکتبہ الحیدریہ، چاپ اول، 1386ہجری شمسی۔
  • مہدی، عبدالزہراء، الہجوم علی بیت فاطمہ، تہران، انتشارات برگ رضوان، 1425ھ۔
  • نجمی، محمدصادھ، «داستانی دروغین دربارہ پیامبر اعظمؐ»، فصلنامہ میقات حج، شمارہ 58، زمستان 1385ہجری شمسی۔
  • النعلاوانی العسقلانی، نزار، وفاۃ النبیؐ و أظلمت المدینۃ، بیروت، دارِالمِنہاج، 1434ھ۔
  • واقدی، محمد بن عمر، المغازی للواقدی، مارزدن جونز، بیروت، مؤسسہ الأعلمی للمطبوعات، 1409ھ۔
  • «وفاۃ رسول اللہ ؐ و موضع قبرہ»، بازار کتاب قائمیہ، تاریخ مشاہدہ: 17 دی 1402ہجری شمسی۔
  • یعقوبی، احمد بن أبی یعقوب‏، تاریخ الیعقوبی، بیروت، دار صادر، چاپ اول، بی‌تا۔
  • «[Photos] Mourning of Imam Ali’s (AS) shrine servants on the occasion of 28th of Safar»، خبرگزاری شفقنا، تاریخ درج مطلب: 14 سپتامبر 2023ء، تاریخ مشاہدہ: 22 ژوئن 2024ء۔