روضۃ الشہداء (کتاب)

ویکی شیعہ سے
روضۃ الشہداء
مشخصات
مصنفملا حسین واعظ کاشفی
موضوعتاریخ
زبانفارسی
تعداد جلد1
طباعت اور اشاعت
ناشرکتابفرواشی اسلامیہ(تہران)


رَوْضَۃُ الشُہَداء فارسی زبان میں حضرت امام حسین کی شہادت اور کربلا کے مصائب کے متعلق لکھی گئی کتاب ہے ۔ اسکے مصنف کا نام ملاحسین واعظ کاشفی (متوفای ۹۱۰ق) ہے ۔ایران میں امام حسین کی عزاداری کی مجالس میں اس کتاب سے کربلا کے واقعات و مصائب پڑھے جانے کی وجہ سے یہاں عزاداری کی مجالس کو روضہ کہا جانے لگا ۔اس کتاب کی تالیف صفویہ اور قاجاریہ دور میں دیگر مقتل نویسی کی کتابوں کی تالیف کا سبب بنی ۔ شہید مطہری نے اپنی کتاب حماسۂ حسینی اور دیگر محققین نے اس کتاب کے مندرجات پر تنقید اور اعتراضات کئے ہیں ۔

مؤلف

کمال الدّین حسین بن علی واعظ کاشفی سبزواری (متوفی 910ھ) خراسان کے نویں صدی ہجری کا عالم تھا جو سبزوار کا رہنے والا تھا ۔اس نے اس کتاب کو اپنی عمر آخری حسے میں تالیف کیا ۔وہ ایک شاعر اور واعظ تھا ۔واعظ اور کاشفی کا تخلّص اسی مناسبت سے ہے ۔ اسکی تبلیغی تقاریر اور مجالس اپنے زمانے میں مشہور تھیں اور اس کے معاصرین نے اس زمانے میں حاکمان وقت اور عوام الناس کے ہاں اسکی شہرت کے بارے میں لکھا ہے ۔روضۃ الشہداء کی روش تحریر اور انداز بیان نے اس کتاب کو شہرت جاودانی بخشی۔ مؤلف کے مذہب کے متعلق مختلف اقوال موجود ہیں ۔

ملاحسین واعظ کاشفی سال ۹۱۰ھ کو فوت ہوا اس کا مزار اس وقت سبزوار میں حاج ملا ہادی سبزواری کے مزار اور شہر کے مصلا (نماز جمعہ پڑھے جانے کی جگہ) کے درمیان واقع ہے ۔ [1]

کتاب

آقا بزرگ تہرانی لکھتا ہے :

«روضۃ الشہداء فارسی زبان کی ملمّع اور درخشاں تالیف ہے جو مولی واعظ حسین بن علی کاشفی بیہقی (متوفا ۹۱۰ق) نے تالیف کیا ۔یہ کتاب ۱۰ ابواب اور ایک خاتمے پر مشتمل ہے ۔ مؤلف نے یہ کتاب امام حسن اور امام حسین (ع) نیز کچھ سادات کے احوال میں لکھی ہے ۔ ۱۷ صفحات أنساب سبطی النبی (ص) کے عنوان سے ترتیب دئے ہیں ۔بعض اس کتاب کو فارسی زبان کا پہلا مقتل سمجھتے ہیں کہ جو فارسی زبان لوگوں میں اس قدر رائج ہوا کہ اس کے پڑھنے والے کو روضہ خوان کہتے تھے اور یہ نام آج تک شہرت رکھتا ہے اور ہر مصائبب پڑھنے والے کو روضہ خوان کہا جاتا ہے ۔ لیکن مقتل کے حصے میں ہم بیان کریں گے کہ اس سے پہلے بھی فارسی زبان میں مقتل لکھے گئے کہ جن سے مؤلف نے مطالب نقل کئے ہیں ۔ اس سے پہلے فارسی زبان میں ابی المفاخر رازی کی تالیف ہے کہ جس سے روضۃ الشہداء میں اشعار نقل ہوئے ہیں ۔ [2]

سبب تالیف

ہرات کے بزرگوں میں سے ایک بزرگ کی اس درخواست پر کہ فارسی زبان میں ذکر مصائب امام حسین(ع) اور واقعہ کربلا موجود نہیں ہیں ، ایک تالیف کی ضرورت ہے اس کے بارے میں قلم اٹھایا جائے اور وہ کوشش کرے کہ عربی زبان کے اشعار کو فارسی زبان میں ترجمہ کرے ۔ [3]

مضامین کتاب

کتاب ۱۰ ابواب اور ایک خاتمے کو شامل ہے جس میں آئمہ طاہرین کے مختصر حالات زندگی لکھے گئے ہیں لیکن مؤلف کا اصلی ہدف مصائب امام حسین(ع) ہے جبکہ انبیاء کی مصیبتیں اور قریش کی طرف سے رسول اللہ پر ڈھائے جانے والے ستم کو بحث کا ابتدائی حصہ قرار دیا ہے ۔

یہ کتاب واقعہ کربلا سے مخصوص نہیں ہے کتاب کا آدھا حصہ انبیا میں سے حضرت آدم تا پیامبر اسلام نیز حضرت فاطمہ، امیرالمؤمنین اور دیگر ائمہ طاہرین کی زندگی کے بیان پر مشتمل ہے اسکے علاوہ بعض سادات کے متعلق بھی ذکر موجود ہے [4]

ابواب کتاب

  • باب اول: بعض انبیاء علیہم السلام کی مصیبتوں کا بیان۔
  • باب دوم: رسول اللہ کے ساتھ قریش اور باقی کفّار کی جفاؤں کا تذکرہ۔
  • باب سوم: رحلت حضرت سید المرسلین۔
  • باب چہارم: بعض احوال سیدة النّساء فاطمہ زہرا۔
  • باب پنجم: حضرت علی(ع) کے حالات اور ولادت تا شہادت تک کے کچھ واقعات۔
  • باب ششم: بیان فضائل و حالات امام حسن (ع) ولادت تا شہادت۔
  • باب ہفتم: مناقب اور فضائل امام حسین(ع) ولادت تا شہادت۔
  • باب ہشتم: شہادت مسلم بن عقیل بن ابی طالب اور اسکے بعض فرزندوں کا تذکرہ۔
  • باب نہم: امام حسین (ع)کا کربلا پہنچنا اور اعدا سے شدید محاربہ۔
  • باب دہم: واقعۂ کربلا کے بعد اہل بیت عصمت (ع) کے ساتھ پیش آنے والے واقعات ۔
  • خاتمہ: معصومین (ع) کی اولاد اور اعقاب کا تذکرہ.[5]

منابع کتاب‏

اگرچہ کاشفی نے اس کتاب کے مآخذوں کی راہنمائی نہیں کی ہے لیکن کتاب کی تحلیل کے ذریعے کہا جا سکتا ہے کہ اس نے فتوح ابن اعثم کوفی، روضۃ الاحباب، شواہد النبوۃ، عیون اخبار الرضا، کنز الغرائب، مصابیح القلوب، مقتل الشہداء اور نور الائمۃ نامی کتابوں سے استفادہ کیا ہے .اس کے علاوہ بہت سے مجہول اور غیر معتبر منابع سے بھی استفادہ کیا ہے ۔ کاشفی ان مآخذوں سے نقل کرنے میں کسی دقت کا پابند ہی نہیں رہا بلکہ صحیح اور درست نقل کرنے کی بجائے اس نے داستان گوئی اور قصہ گوئی کا زیادہ سہارا لیا ہے ۔ [6]

اہمیت اور خصوصیات

جیسا کہ کتاب کے مقدمے میں آیا ہے کہ قوی نثر کے ہمراہ شعر و تاریخ ،آیات و روایات ،تاریخی اور فقہی کثیر معلومات ،گونا گوں منابع خاص طور پر شغیر شیعہ کتب سے استفادہ،کتاب کا جامع ہونا اس کتاب کے مثبت نکات میں سے ہے ۔روضۃ الشہداء پہلا رواج پیدا کرنے والا مقتل شمار ہوتا ہے ۔

یہ کتاب اپنی ادبی روش اور خوبصورت نثر کی بنا پر بہت جلد اپنے زمانے میں رواج حاصل کر گئی یہاں تک کہ آج کل بھی غیر مستقیم طور پر عزاداری کی مجالس میں لوگوں کی مورد توجہ ہے ۔ابھی تک کئی مرتبہ اور مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہے یا شعری صورت میں لکھی گئی ہے ۔ [7]

تنقید واعتراضات

روضۃ الشہدا اس قدر شہرت حاصل کرنے کے باوجود بعد کے زمانوں میں اسے اپنے ضعیف مطالب پر مشتمل ہونے کی وجہ سے علما اور محققین کی مخالفت کا سامنا رہا اور بہت زیادہ اس پر اعتراضات وارد کئے گئے ہیں ۔ ناقدین کی نظر کے مطابق اہم ترین اشکالات روضۃ الشہداء کی صوفیانہ نگاہ ، نادرست بیان اور کاشفی کی قصہ گوئی ہیں ۔ ناقدین کا کہنا ہے ہے کہ یہ کتاب صرف مصائب کو بیان کرتی ہے لیکن واقعہ کربلا کی سیاست اور بہادری کی بیان گر نہیں ہے اور نہ ہی کربلا کے وقوع کے عوامل و اسباب کو بیان کرتی ہے ۔[8]

عبداللہ افندی اصفہانی نے ریاض العلماء، میرزا حسین نوری نے لؤلؤ و مرجان اور شہید مطہری نے حماسہ حسینی میں اس پر شدید تنقید کی ہے ۔ [9]

ناقدین کے اقوال

  • میرزا ابوالحسن شعرانی: روضۃ الشہداء میں ضعیف چیزوں کی نقل پر تعجب نہیں ہونا چاہئے چونکہ مؤلف مقصود بیان کے ادا کرنے میں ایک قوی مقرر ہے اگرچہ مقصود کے بیان کرنے میں صرف مؤرخ ہونا کافی نہیں ہے ۔[10]
  • میرزا عبدالله بن عیسی افندی: اس کتاب کی اکثر روایات ہی نہیں بلکہ تمام غیر مشہور اور غیر معتبر کتابوں سے لی گئیں ہیں ۔ [11]
  • سید محسن امین:اس کتاب کی روایات غیر مشتند اور تاریخی واقعات کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتی ہیں ۔ [12]
  • محدث نوری: اس کتاب کی بعض روایات کسی تاریخی پشتوانہ کے بغیر ہیں ۔ [13]
  • شہید مطہری:جھوٹوں پُر ہے اور یہ تالیف اصلی منابع اور امام حسین کی واقعی تاریخ کے مطالعہ سے مانع ہے۔[14]
  • سید محمد علی قاضی طباطبائی: اس کتاب کا مطالعہ اعتبار کے درسے سا ساقط اور کسی ارزش کا حامل نہیں ہے .[15]

چاپ

یہ کتاب پہلی مرتبہ ۱۲۸۷شمسی لاہور سے اور ۱۳۳۱شمسی میں بمبئی سے پھر ۱۳۳۳شمسی کو تہران سے چھپی ۔[16] اسکے بعد تو متعدد مرتبہ چھپی ہے ۔

حوالہ جات

  1. روضۃ الشہداء، ص۸-۱۰. حکیمہ دبیران-علی تسنیمی، کاشفی و نقد و بررسی روضۃالشہداء.
  2. تہرانی، الذریعہ، ج۱۱، ص۲۹۴.
  3. کتابخانہ دیجیتال نور.
  4. جوادی، بررسی کتاب روضۃ الشہداء، ۱۳۸۹ش، ص۲۴۳-۲۴۴.
  5. کاشفی، روضۃ الشہداء، ۱۳۸۲ش، ص۲۴.
  6. کتابخانہ دیجیتال نور.
  7. کاشفی، روضۃ الشہداء، ۱۳۸۲ش، ص۱۴ و ۱۵.
  8. کتابخانه دیجیتال نور.
  9. کاشفی، روضۃ الشہدا، ۱۳۸۲ش، ص۱۴و ۱۵.
  10. کاشفی، روضۃ الشہداء، ۱۳۸۲ش، ص۶، مقدمه مصحح.
  11. کاشفی، روضۃ الشہداء، ۱۳۸۲ش، ص۶، مقدمه مصحح.
  12. امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۲۱ ق، ج۶، ص۱۲۲.
  13. نوری، لولو و مرجان، ۱۳۸۸ش، ص۲۸۷-۲۸۸.
  14. مطہری، حماسہ حسینی، ۱۳۷۷ش، ج۱، ص۵۴.
  15. قاضی طباطبائی، تحقیق درباره اولین اربعین حضرت سیدالشهداء، ۱۳۸۳ش، ص۶۶.
  16. الذریعہ، ج۱۱، ص۲۹۴.

منابع

  • امین عاملی، سید محسن، اعیان الشیعہ، بیروت، دارالتعارف، ۱۴۲۱ ق.
  • تہرانی، آقا بزرگ، الذریعہ، بیروت، دارالاضواء.
  • نوری، میرزا حسین، لؤلؤ و مرجان،تہران ۱۳۸۸.
  • مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار، ج۱۷، تہران، انتشارات صدرا، ۱۳۷۷.
  • کاشفی، ملا حسین، روضۃ الشہداء، قم، نوید اسلام، ۱۳۸۲ش.
  • قاضی طباطبائی، سید محمدعلی، تحقیق درباره اول اربعین حضرت سید الشہدا،، تہران، وزارت ارشاد، ۱۳۸۳ش.
  • کتاب‌شناخت سیره معصومان، مرکز تحقیقات رایانہ ای علوم اسلامی نور.
  • جوادی، قاسم، بررسی کتاب روضۃ الشہداء اثر مرحوم ملا حسین کاشفی، مجموعہ مقالات کنگره ملی حماسہ حسینی، درالعرفان، ۱۳۸۹ش.