عالمۃ غیر معلمۃ

ویکی شیعہ سے

علمَةٌ غيرُ مُعَلَّمَة (ایک عالِم خاتون جسے کسی نے نہیں سکھایا) حضرت زینبؑ کے القاب میں سے ایک ہے، جسے امام سجادؑ نے دیا ہے۔[1]

جب اسیرانِ کربلا کوفہ میں داخل ہوئے تو حضرت زینبؑ نے لوگوں کو خطبہ دیا۔ اس کے آخر میں امام سجاد علیہ السلام نے اس سے فرمایا: أنتِ بِحَمدِ اللّٰهِ عالِمَةٌ غَیرُ مُعَلَّمَة؛ الحمد اللہ آپ ایک عالم خاتون ہیں جس کا کوئی استاد نہیں۔[2] اس تعبیر کی بنا پر حضرت زینبؑ کو "عالمہ غیر معلمہ" کا لقب دیا گیا ہے۔[3] بعض نے امام سجادؑ کی اس تعبیر کو حضرت زینب کی عصمت اور ولایت پر ایک دلیل قرار دیا ہے۔[4]

امام سجادؑ کے اس جملے کے بارے میں کئی امکانات بیان کیے ہیں:

  • حضرت زینب اپنی پاکیزہ فطرت، عقل اور تدبر سے بغیر کسی استاد کے، خدا اور اس کی ظاہری نشانیوں کے بارے میں جان چکی تھیں، جس کے سبب انہوں نے صبر کیا اور اللہ کی رضا پر راضی ہوگئیں۔[5]
  • زینب (س) اپنی تزکیہ نفس کے نتیجے میں اس مقام پر پہنچیں کہ الہی الہام کے ذریعے عالم بن گئیں۔[6]
  • ان کے حقیقی اساتذہ پنجتن آلِ عباؑ تھے، کوئی اور نہیں تھا۔[7]

حوالہ جات

  1. طبرسی، الاحتجاج، 1386ق، ج2، ص31.
  2. طبرسی، الاحتجاج، 1386ق، ج2، ص29 - 31.
  3. برای نمونه بنگرید به بحرانی، عوالم العلوم، 1413ق، ج11، قسم2، ص948؛ مظفری و جمشیدی، اسیران و جانبازان کربلا، 1383ش، ص89.
  4. «ضرورت بازشناسی شخصیت حضرت زینب کبری(س)»، بنیاد بین‌المللی علوم وحیانی اسراء.
  5. عاملی، الصحیح من سیرة الامام علی(ع)، 1430ق، ج1، ص315.
  6. عاملی، الصحیح من سیرة الامام علی(ع)، 1430ق، ج1، ص316.
  7. فضل‌الله، للانسان و الحیاة، 1421ق، ص272.

مآخذ

  • بحرانی، عبدالله، عوالم العلوم و المعارف و الأحوال من الآیات و الأخبار و الأقوال (مستدرک سیدة النساء إلی الإمام الجواد)، تحقیق: محمدباقر موحد ابطحی اصفهانی، قم، موسسة الامام المهدی(ع)، چاپ اول، 1413ق،
  • طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج، تحقیق: سید محمدباقر خرسان، نجف، دارالنعمان، 1386ق.
  • «ضرورت بازشناسی شخصیت حضرت زینب کبری(س)»، بنیاد بین‌المللی علوم وحیانی اسراء، تاریخ درج مطلب: 7بهمن 1402ش، تاریخ بازدید: 17 مرداد 1403ش.
  • عاملی، سید جعفر مرتضی، الصحیح من سیرة الامام علی(ع)، ولاء المنتظر(ع)، چاپ اول، 1430ق.
  • فضل‌الله، محمدحسین، للانسان و الحیاة، بیروت،‌دار الملاک، چاپ سوم، 1421ق.
  • مظفری، محمد و سعید جمشیدی، اسیران و جانبازان کربلا، قم، فراز اندیشه، چاپ اول، 1383ش