فاطمہ بنت امام حسین

ویکی شیعہ سے
(فاطمہ بنت الحسین سے رجوع مکرر)
فاطمہ بنت الحسین
وجہ شہرتامام زادی، راوی حدیث
تاریخ پیدائشسنہ 51 ہجری
جائے پیدائشمدینہ
وفاتسنہ 117 ہجری
سکونتمدینہ
والدامام حسین علیہ السلام
والدہام اسحاق بنت طلحہ
شریک حیاتحسن مثنی
مشہور امام زادے
حضرت عباس، حضرت زینب، حضرت معصومہ، علی اکبر، علی اصغر، عبد العظیم حسنی، احمد بن موسی، سید محمد، سیدہ نفیسہ


محرم کی عزاداری
واقعات
امام حسینؑ کے نام کوفیوں کے خطوطحسینی عزیمت، مدینہ سے کربلا تکواقعۂ عاشوراواقعۂ عاشورا کی تقویمروز تاسوعاروز عاشوراواقعۂ عاشورا اعداد و شمار کے آئینے میںشب عاشورا
شخصیات
امام حسینؑ
علی اکبرعلی اصغرعباس بن علیزینب کبریسکینہ بنت الحسینفاطمہ بنت امام حسینمسلم بن عقیلشہدائے واقعہ کربلا
مقامات
حرم حسینیحرم حضرت عباسؑتل زینبیہقتلگاہشریعہ فراتامام بارگاہ
مواقع
تاسوعاعاشوراعشرہ محرماربعینعشرہ صفر
مراسمات
زیارت عاشورازیارت اربعینمرثیہنوحہتباکیتعزیہمجلسزنجیرزنیماتم داریعَلَمسبیلجلوس عزاشام غریبانشبیہ تابوتاربعین کے جلوس


فاطمہ بنت حسین بن علی بن ابی طالب، امام حسینؑ کی سب سے بڑی بیٹی ہیں۔ ان کی والدہ ام اسحاق بنت طلحہ بن عبید اللہ تھیں۔ سنہ 61 ہجری کے المناک واقعے میں آپ بھی اپنے والد ماجد کے ہمراہ کربلا میں موجود تھیں اور واقعہ عاشورا کے بعد باقی اہل بیت کے ساتھ اسیر ہو کر کوفہ و شام گئیں۔ آپ نے کوفہ میں خطبہ دیا اور کوفیوں کی سرزنش کی۔ امام باقر علیہ السلام کی ایک روایت کے مطابق امام حسینؑ نے شہادت سے پہلے تبرکات امامت اور وصیت لکھ کر آپ کے سپرد کی تھی جسے آپ نے بعد میں امام سجادؑ کے حوالے کیا۔ آپ نے امام حسینؑ اور امام سجادؑ سے روایات نقل کی ہیں۔

تعارف

آپ کے والد ماجد شیعوں کے تیسرے امام، حسین بن علی ہیں اور آپ کی والدہ کا نام "ام اسحاق" ہے جو طلحہ بن عبید اللہ کی بیٹی تھیں۔[1]۔ آپ کی تاریخ پیدائش کے بارے میں کوئی دقیق معلومات نہیں ہے۔ چونکہ آپ کی والدہ پہلے حضرت امام حسنؑ کے عقد میں تھیں حضرت امام حسنؑ کی شہادت کے بعد 49 یا 50 ہجری میں حضرت امام حسینؑ کے عقد میں آئیں ہیں۔ اس لحاظ سے زیادہ احتمال دیا جا سکتا ہے کہ آپ کی ولادت 49 یا 50 ہجری کے بعد 51 ہجری مییں ہوئی ہے۔[2] کہتے ہیں شکل و صورت کے لحاظ سے آپ اپنی دادی حضرت فاطمہؑ سے مشابہت رکھتی تھیں۔[3] فاطمہ کی شادی واقعہ کربلا سے پہلے اپنے چچا حضرت امام حسنؑ کے بیٹے حسن مثنی سے ہوئی تھی۔[4]

واقعہ کربلا میں حاضری اور اسیری

واقعہ عاشورا کے روز آپ اپنے شوہر کے ساتھ کربلا میں موجود تھیں۔ حسن مثنی نے بڑی بہادری کے ساتھ جنگ کی اور زخمی ہوئے۔ بعد میں اسیر ہوئے۔ اسما بن خارجہ فزاری نے آپ کو نجات دلوائی۔ لہذا کوفہ میں آپ کا علاج ہوا۔ صحت یاب ہونے کے بعد مدینہ واپس آگئے [5] جبکہ فاطمہ دوسرے اسیروں کے ساتھ کوفہ و شام گئیں۔[6] بعض مصادر میں خیام حسینی پر حملے اور اہل بیت کی اسارت کی روایت آپ سے ہی نقل کی ہے[7] شام میں آپ اور یزید بن معاویہ کے درمیان گفتگو بھی مصادر میں ضبط ہیں۔[8] احمد بن علی طبرسی نے اہل کوفہ کے ساتھ آپ کی گفتگو کو بھی نقل کیا ہے۔[9]

ابن عساکر نے اپنی کتاب میں اور علامہ مجلسی نے فاطمہ بنت الحسین کے متعلق کتاب كا نام لئے بغیر کہا کہ میں نے ایک قدیم مناقب کی کتاب میں دیکھا جس میں لکھا تھا:

جب امام حسینؑ شہید ہو گئے تو ایک کوا آیا اس نے اپنے آپ کو خون میں غلطاں کیا اور پرواز کر گیا اور فاطمہ بنت الحسین(الصغری) کے گھر کی دیوار پر بیٹھ کر شور مچانے لگا آپ نے دیکھا تو آپ نے گریہ کرنا شروع کیااور اشعار پڑھے۔[10]

لیکن دیگر کتب سے آپ کے مدینہ میں رہ جانے کی تائید نہیں ہوتی ہے۔

مقام و منزلت

امین امامت

امام محمد باقرؑ سے منقول روایت کے مطابق امام حسینؑ نے شہادت سے پہلے اپنی وصیت لکھ کر آپ کے سپرد کی۔ جسے آپ نے بعد میں امام سجادؑ کے حوالے کیا۔[11]

نقل حدیث

نقل حدیث کے لحاظ سے آپ کا شمار تابعین میں سے ہوتا ہے۔ آپ نے امام حسین، عبد اللہ بن عباس اور اسما بنت عمیس سے روایت نقل کی ہے۔[12] نیز منقول ہے کہ آپ نے فاطمہ زہرا (ع)، زینب بنت علی (ع)، اپنے بھائی امام سجادؑ، عبد اللہ بن عباس، عائشہ، اسما بنت عمیس اور بلال حبشی سے مرسلہ روایت نقل کی ہے۔[13]

آپ کے بیٹے عبد اللہ، حسن اور ابراہیم آپ سے روایت نقل کرتے ہیں۔ اسی طرح حسن بن حسن، محمد بن عبد اللہ بن عمرو، شبیہ بن نعامہ، یعلی بن ابی یحیی، عائشہ بنت طلحہ، عمارہ بن غزیہ، ام ابی مقداد، ہشام بن زیاد، ام الحسن بنت جعفر بن حسن بن حسن بھی آپ سے روایت نقل کرتے ہیں۔[14]

خطبہ

کوفہ میں امام سجادؑ کے علاوہ حضرت زینب، ام کلثوم اور فاطمہ بنت الحسین نے بھی خطبہ دیا ہے۔ امام موسی کاظم علیہ السلام کے بیٹے زید نے نقل کیا ہے کہ کربلا سے کوفہ میں آنے کے بعد فاطمہ صغرا نے خطبہ دیا جسے لہوف میں سید بن طاؤس نے نقل کیا ہے:

الحمد لله عدد الرمل و الحصى و زنة العرش إلى الثرى أحمده و أومن به و أتوكل عليه و أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له و أن محمدا عبده و رسوله ... جب آپ یہاں پر پہنچیں ألا فأبشروا بالنار أنكم غدا لفي سقر حقا يقينا تخلدواو أني لأبكي في حياتي على أخي على خير من بعد النبي سيولد بدمع غريز مستهل مكفكف على الخد مني دائما ليس يجمد تو لوگوں کے گریہ کی آوازیں بلند ہو گئیں اور وہ کہنے لگے کہ اے خاندان عصمت کی بیٹی آپ کی ان باتوں نے ہمارے دلوں اور سینوں میں آگ لگا دی ہے اور غم و الم کی وجہ سے ہمارے کلیجے منہ کو آ رہے ہیں۔ بس کریں رک جائیں خاموش ہو جائیں۔ تو حضرت فاطمہ خاموش ہو گئیں۔[15]

سوگ فاطمہ

منقول ہے کہ اپنے شوہر کے سوگ میں ایک سال تک ان کے مزار پر بیٹھی رہیں۔ دن میں روزہ رکھتیں اور رات کو عبادت خدا میں مشغول رہتیں۔[16]

صحیح بخاری میں محمد بن اسماعیل نے روایت نقل کی ہے:

لما مات الحسن بن الحسن بن علیؑ ضربت امرأته القبّة علی قبره سنة... یعنی حسن بن حسن بن علی کی وفات پر ان کی زوجہ نے ایک سال تک اس کی قبر پر ایک قبہ نصب رکھا اور سوگ منایا۔[17]

حسن مثنی کے بعد آپ نے عبد اللہ بن عمرو بن عثمان بن عفان سے شادی کی۔[18] اس کے بعد مدینے کے والی عبد الرحمان بن ضحاک نے خواستگاری کی لیکن آپ نے قبول نہیں کیا۔[19]

فاطمہ بنت الحسین کے چار اولاد بنام: عبد اللہ، ابراہیم، حسن و زینب تھیں۔[20] عبد اللہ بن عمرو سے محمد، دیباج، قاسم اور رقیہ تھیں۔[21] ان کی نسل میں سے اکثر کی اولاد خاندان بنی عباس کے دور حکومت میں شہید کئی گئیں یا قید خانوں میں رکھی گئیں۔[22]

وفات

قبرستان باب الصغیر میں ان سے منسوب قبر

سبط بن جوزی نے آپ کا سن وفات تقریبا 117 ہجری نقل کیا ہے۔[23] ابن حبان نے تاریخ وفات کے بغیر کہا کہ آپ 90 سال کی عمر فوت ہوئیں۔[24] جبکہ ابن عساکر[25] نے آپ کی وفات ہشام بن عبد الملک کی خلافت کے زمانے میں نقل کی ہے اور وہ مدینہ میں مدفون ہیں۔[26]

مسند فاطمہ بنت الحسین

  • سيد كُباری، سید علي رضا، مُسنَدُ فاطمةَ بنتِ الحسین (ع)، قم، انتشارات زائر، ۱۳۷۶ ش

حوالہ جات

  1. مفید، الارشاد، ج ۲، ص ۴۹۱؛ محمد باقر مجلسی، بحارالانوار، ج ۴۵، ص ۳۲۹.
  2. محمدی ری شہری، دانشنامہ امام حسینؑ: برپایہ قرآن و حدیث، قم: دارالحدیث، ۱۳۸۸. ص
  3. رجوع کریں: بخاری، ص ۶؛ ابو الفرج اصفہانی، ۱۴۰۵، ص ۱۲۲؛ مفید، ج ۲، ص ۲۵.
  4. تاریخ دمشق، ج۷۰، ص۱۷؛ المعارف لابن قتیبہ، ص۲۱۳؛ ابن‌سعد، ج ۸، ص ۴۷۳؛ بخاری، مذکورہ۔
  5. حسنی، المصابیح، ص۳۷۹؛ مفید، الارشاد فی معرفۃ حجج‌اللّہ علی العباد (۱۴۱۳)، ج۲، ص۲۵؛ ابن‌ طاووس، ص۶۳.
  6. الکامل فی التاریخ، ج۲، ص ۵۷۷؛ مفید، ج ۲، ص ۱۲۱
  7. صدوق، الامالی للصدوق، ص ۲۲۸
  8. رجوع کریں: طبری، ج ۵، ص ۴۶۴؛ قاضی نعمان، ج ۳، جزء۱۳، ص ۲۶۸.
  9. احمد بن علی طبرسی، ج ۲، ص ۲۷۲۹.
  10. ابن عساکر ،ج 70 ص 24؛مجلسی ،ج 45 ص 171۔
  11. صفّار قمی، ص ۱۸۲۱۸۳؛ کلینی، ج ۱، ص ۳۰۳.
  12. ابن ‌عساکر، ج ۷۰، ص ۱۰؛ مزّی، ج ۳۵، ص ۲۵۴۲۵۵
  13. ابن عساکر، تاریخ دمشق، ج۷۰، ص۱۰؛ تہذیب الکمال، ج۳۵، ص۲۵۴
  14. ابن عساکر، تاریخ دمشق، ج۷۰، ص۱۰؛ تہذیب الکمال، ج۳۵، ص۲۵۴؛
  15. سید بن طاووس، لہوف، ص۱۷۸.
  16. صحیح البخاری، ج۱، ص۴۴۶؛ تہذیب الکمال، ج۶، ص۹۵؛ بحارالانوار، ج۴۴، ص۱۶۷و۱۶۸؛ تاریخ دمشق، ج۷۰، ص۱۹؛ مفید، الارشاد، ج۲، ص۲۶.
  17. صحیح بخاری، کتاب الجنائز، باب ۶۱ ۔فتح الباری فی شرح صحیح بخاری،ج۳، ص ۲۵۵، باب۶۱
  18. تہذیب الکمال، ج۳۵، ص۲۵۶؛ مقاتل الطالبین، ص۱۶۷
  19. ابن‌ سعد، ج ۸، ص ۴۷۴
  20. تہذیب الکمال، ج۳۵، ص۲۵۶؛ لباب الانساب، ج۱، ص۳۸۵؛
  21. المجدی، ص۹۱؛ تہذیب الکمال، ج۳۵، ص۲۵۶؛ المعارف لابن قتیبہ، ص ۱۹۹
  22. تاریخ الطبری، ج۷، ص۵۳۶
  23. سبط ابن جوزی، تذکرہ الخواص، ص ۲۸۰
  24. ابن‌ حِبّان، ج ۵، ص ۳۰۱
  25. ابن‌ عساکر، ج ۷۰، ص ۱۷
  26. سبط ابن جوزی، تدکرہ الخواص، ص۲۸۰

مآخذ

  • ابن ‌اثیر، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار صادر، ۱۳۸۵ھ۔
  • ابن ‌حِبّان، محمد بن احمد، صحیح ابن حبان، بیروت، موسسہ الرسالۃ، ۱۴۱۴ھ۔
  • ابن‌ سعد، محمد بن سعد، الطبقات الکبری، بیروت، دار بیروت، ۱۴۰۵ھ۔
  • ابن ‌عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، چاپ علی شیری، بیروت ،۱۴۲۱ھ۔
  • ابن ‌قتیبہ، المعارف، چاپ محمد اسماعیل عبد اللہ صاوی، بیروت، ۱۳۹۰ھ۔
  • اصفہانی، ابو الفرج، مقاتل الطالبیین، بہ تحقیق کاظم المظفر، نجف اشرف، المکتبۃ الحیدریۃ، ۱۳۸۵ھ۔
  • سبط بن جوزی، تذکرۃ الخواص، قم، الشریف الرضی،۱۴۱۸ھ۔
  • سید بن طاووس، لہوف، ترجمہ عبد الرحیم عقیقی بخشایشی، قم، نوید اسلام، ۱۳۷۸ شمسی ہجری۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، الامالی، تہران، نشر کتابچی، ۱۳۷۶ شمسی ہجری۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، قم، مؤسسہ آل البیتؑ، ۱۴۱۳ھ۔
  • صفار قمی، محمد بن حسن، بصائر الدرجات فی فضائل آل محمد (ص)، بہ تصحیح محسن کوچہ‌باغی، قم، مکتبہ نجفی، ۱۴۰۴ھ۔
  • طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج علی أہل اللجاج، تحقیق ابراہیم بہادری، قم، نشر اسوہ، ۱۴۱۶ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، تحقیق محمد ابو الفضل ابراہیم، بیروت، دار التراث، ۱۹۶۷م.
  • علامہ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، مؤسسہ وفاء، ۱۴۰۳ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، بہ تحقیق و تصحیح علی‌اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتب الاسلامیۃ، ۱۴۰۷ھ۔
  • محمدی ری شہری، دانشنامہ امام حسینؑ: برپایہ قرآن و حدیث، قم، دار الحدیث، ۱۳۸۸ شمسی ہجری۔
  • مِزّی، یوسف ‌‌‌بن عبدالرحمان، تہذیب الکمال فی اسماء الرجال، چاپ بشار عوّاد معروف، بیروت، ۱۴۰۵ھ۔
  • بخاری ، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، بیروت دار ابن کثیر، ۱۴۱۰ھ۔
  • بیہقی، علی بن زید، لباب الانساب والالقاب والاعقاب، قم، مکتبہ مرعشی،۱۴۱۰ھ۔
  • عسقلانی، ابن حجر، تقریب التہذیب، دمشق، دار الرشید، ۱۴۱۲ھ۔