سد الابواب

ویکی شیعہ سے
شیعوں کے پہلے امام
امام علی علیہ السلام
حیات طیبہ
یوم‌ الدارشعب ابی‌ طالبلیلۃ المبیتواقعہ غدیرمختصر زندگی نامہ
علمی میراث
نہج‌البلاغہغرر الحکمخطبہ شقشقیہبغیر الف کا خطبہبغیر نقطہ کا خطبہحرم
فضائل
آیہ ولایتآیہ اہل‌الذکرآیہ شراءآیہ اولی‌الامرآیہ تطہیرآیہ مباہلہآیہ مودتآیہ صادقینحدیث مدینہ‌العلمحدیث رایتحدیث سفینہحدیث کساءخطبہ غدیرحدیث منزلتحدیث یوم‌الدارحدیث ولایتسدالابوابحدیث وصایتصالح المؤمنینحدیث تہنیتبت شکنی کا واقعہ
اصحاب
عمار بن یاسرمالک اشترسلمان فارسیابوذر غفاریمقدادعبید اللہ بن ابی رافعحجر بن عدیمزید


سد الابواب یعنی دروازوں کا بند کرنا، رسول اللہؐ کی زندگی کے اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے جس میں آپ نے خدا کے حکم کی بنا پر حضرت علی کے گھر کے علاوہ مسجد نبوی میں کھلنے والے تمام دروازوں کے بند کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس واقعے کی تاریخ میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس موقع پر رسول اللہ نے جن الفاظ کے ساتھ اس حکم الہی کو بیان کیا اسے حدیث سد الابواب کہا جاتا ہے جو تواتر کے ساتھ شیعہ اور اہل سنت منابع میں نقل ہوئی ہے۔ یہ واقعہ امام علیؑ کے فضائل میں شمار ہوتا ہے اسی لئے آپؑ نے حضرت عمر کی جانب سے خلیفہ تعیین کرنے کے لئے بنائی گئی چھ رکنی کمیٹی میں اس واقعے کو اپنی فضیلت کے عنوان سے ذکر کیا ہے۔

واقعہ کی تفصیل

رسول اللہ نے مدینہ تشریف لانے کے بعد ایک مسجد بنائی جسے مسجد النبی کا نام دیا گیا۔ بعد میں اس مسجد کے ساتھ متصل رسول اللہ کی رہائش اور ازواج کیلئے کمرے بنائے گئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بعض صحابہ نے بھی اس مسجد سے متصل کمرے بنائے۔ ان تمام کمروں کے دروازے باہر کی جانب کھلنے کے علاوہ ایک ایک دروازہ مسجد کے اندر بھی کھلتا تھا۔رسول اللہ کو پروردگار کی جانب سے حکم ہوا کہ علی کے گھر کے دروازے کے علاوہ مسجد میں کھلنے والے تمام دروازوں کو بند کر دیا جائے۔

خدا کی جانب سے اس حکم کے نازل ہونے کے بعد بعض صحابہ نے اس پر اظہار ناپسندیدگی کیا جس کے جواب میں رسول اللہ نے فرمایا :مجھے علی کے گھر کے علاوہ تمام گھروں کے دروازے بند کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔تم اس پر ناراض ہو ۔خدا کی قسم ! میں نے یہ حکم اپنی جانب سے نہیں دیا بلکہ مجھے جو حکم دیا گیا تھا میں نے اسے انجام دیا ہے ۔[1]

قاضی نعمان مغربی نے شرح الاخبار اور دیگر[2] نے بیان کیا ہے :رسول اللہ کے چچا عباس بن عبد المطلب رسول اللہ کے پاس گئے اور کہا : میں تو آپکا چچا ہوں ،ابو بکر و عمر بن خطاب کو منع کیا اور صرف علی کے گھر کے دروازے کے کھلے رہنا کی اجازت دی ہے ۔رسول اللہ نے اسکے جواب میں فرمایا : یہ اللہ کا حکم تھا۔[3]قاضی نعمان نے ہی ایک اور جگہ بیان کیا ہے کہ رسولخدا سے یہ سوال حمزہ بن عبد المطلب نے کیا تھا۔[4]سید مرتضی عاملی حضرت حمزہ کے اس سوال کو رسولخدا کا اعتراض نہیں کتے بلکہ ان کے خیال میں یہ سوال موضوع کی حقیقت جاننے کیلئے کیا تھا۔[5]

زمان وقوع

تاریخ اور حدیث کے مآخذوں میں اس واقعے کی کوئی دقیق تاریخ مذکور نہیں ہوئی ہے ۔علامہ مجلسی سال متعین کیے بغیر روز عرفہ یعنی 9ذی الحج کہتے ہیں۔ [6] قرائن و شواہد کی بنا پر اس سد ابواب کے متعلق محققین دو گروہوں میں تقسیم ہوئے ہیں۔

  • ہجرت کے ابتدائی سال:

رسول خدا سے حضرت حمزہ کے سوال کی بنا پر اوائل ہجرت کے قائل ہیں ۔ [7][8]چونکہ وہ غزوۂ احد میں شہید ہوئے ہیں۔ نیز ایک روایت میں آیا ہے کہ عثمان نے اپنے گھر کا دروازہ بند کیا تو اس وقت اسکی بیوی رقیہ زندہ تھی ۔[9]

  • فتح مکہ کے بعد:

رسول اللہ سے انکے چچا حضرت عباس کے سوال کی بنا پر فتح مکہ کے قائل ہیں[10] چونکہ وہ فتح مکہ کے موقع پر اسلام لانے کے بعد مدینے میں ساکن ہوئے تھے۔ [11] اسی کے ہمزمان حدیث منزلت کا بیان ہونا اس نظریے کا ایک مؤید ہے[12] یہانتک کہ بعض معتقد ہیں کہ حدیث سد الابواب حدیث منزلت کی تقویت اور تاکید کیلئے ہی بیان ہوئی ہے۔[13] حدیث منزلت رسول کی زبان سے مختلف مقامات پر بیان ہوئی ہے[14]اور اسکا معروفترین مقام جنگ تبوک کے بعد ذکر کیا گیا ہے۔ [15]

سند حدیث

ابن شہر آشوب نے اس واقعے کو مختلف راویوں سے مختلف بیانات میں نقل کیا ہے ۔[16] اس کے مطابق زید بن ارقم، سعد بن ابی وقاص، ابوسعید خدری، ام سلمہ، ابورافع وغیرہ جیسے 30 اصحاب نے اس روایت کو بیان کیا ہے ۔

ابن بطریق نے کتاب العمده کی 20ویں فصل میںفی سدّ الابواب من المسجد الا باب علی کے عنوان کے تحت 11حدیثیں مختلف اسناد سے نقل کی ہیں۔[17] قندوزی نے ینابیع المودة میں 17ویں باب کے تحتفی سد ابواب المسجد الاّ باب علی(ع) مختلف اسناد سے احادیث نقل کی ہیں ۔[18] ابن عساکر نے امام علی بن ابی طالب کے ترجمے میں تقریبا 30 صفحات پر محیط اس حدیث کو مختلف طرق و اسناد سے نقل کیا ہے ۔[19]

علامہ مجلسی کے مطابق حدیث سد ابواب روایات متواترہ میں سے شمار ہوتی ہے[20]

علامہ امینی نے الغدیر میں ان احادیث کو ذکر سے پہلے کہا ہے کہ:اہل سنت کے علما نے اس قدر صحیح اور کثرت اسناد سے صحابۂ کرام کی ایک جماعت سے نقل کیا ہے کہ جو اسے تواتر کی حد تک پہنچاتے ہیں۔[21]

مخصوص فضیلت

حدیث سد ابواب حضرت علی کی ایسی خصوصی فضیلت تھی کہ جس کے کئی اصحاب خواہاں تھے ۔حاکم نیشاپوری اس حدیٹ اور اس کے صحیح السند ہونے کے بیان پر اس نکتے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھتا ہے :

حضرت عمر سے منقول ہے کہ اس نے کہا :علی کو حاصل ہونے والی تین فضیلتیں ایسی ہیں کہ جن کے حاصل ہونے کو میں دوست رکھتا تھا۔سوال کیا گیا وہ کونسی فضیلتیں ہیں؟اس نے جواب دیا :حضرت فاطمہ سے اسکی شادی ہونا۔(2)اسے مسجد میں سکونت کا اختیار دینا اور اسکے لئے وہی چیز حلال کرنا جو رسول اللہ اپنے لئے حلال کی تھی۔(3)جنگ خیبر کے دن اسے پرچم عطا کرنا۔[22]

عبد اللہ بن عمر سے منقول ہے:

علی کو تین ایسی فضیلتیں عطا ہوئی ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی ایک بھی مجھے حاصل ہوتی تو مجھے وہ سرخ بالوں والے اونٹوں کی نسبت زیادہ عزیز تھی۔ (1) رسول اللہ کا حضرت فاطمہ سے اسکی شادی کرنا اور اس سے حسن اور حسین کا پیدا ہونا(2)خیبر کے روز رسولخدا کا یہ:میں کل اسے پرچم دونگا خدا اور اسکا رسول اسے دوست رکھتے ہیں ہونگے،کہنے بعد پرچم اسے دینا۔(3)مسجد کی جانب علی کے دروازے کے علاوہ تمام کے دروازے بند کرنا۔ [23]

حضرت علی کااستدلال

عمر کی جانب سے خلیفے کی تعیین کیلئے 6نفری شورا کے اکٹھ کے موقع پر حضرت علی نے سد ابواب کی فضیلت کے متعلق ان سے اقرار لیا اور استدلال کرتے ہوئے فرمایا:

تم میں سے کوئی ایسا ہے جسے کتاب الہی نے پاک قرار دیا ہو یہانتک کہ رسول اللہ تمام مہاجرین کے گھروں کے دروازے بند کرنےاور صرف میرے گھر کا دروازہ کھلا رہنے کا حکم دیا تھا۔[24]

ابو بکر کیلئے حدیث

حضرت علی کی فضیلت بیان کرنے والی حدیث سد ابواب کے مقابلے میں اہل سنت حضرات ایک حدیث ذکر کرتے ہیں اور قائل ہیں کہ رسول اللہ نے وصال سے پہلے مسجد نبوی میں کھلنے والے دروازوں میں سے حضرت ابوبکر کے گھر کے دروازے کے علاوہ تمام دروازوں کے بند کرنے کا حکم دیا[25]

اہل سنت کے معتزلی عالم دین ابن ابی الحدید معتقد ہے :

بکریہ فرقے نے اس حدیث کو حضرت ابوبکر کے حق میں جعل اور بنایا ہے ۔وہ لکھتا ہے:
بکریہ ابوبکر کے وہ پیروکار ہیں کہ جن روایات کو شیعہ علی کے فضائل میں بیان کرتے تھے انہی کی دیکھا دیکھی بکریہ ابوبکر کے لیے ایسی ہی روایات جعل کرتے تھے۔[26]

حوالہ جات

  1. حاکم نیشابوری، المستدرک، ج ۳، ص ۱۲۵؛ ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ج ۷، ص ۳۴۲؛ فتال نیشابوری، روضہ الواعظین، ص ۱۱۸؛ ابن حنبل، فضائل امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب، ص ۱۷۷.
  2. عیون أخبار الرضا(ع)، شیخ صدوق، ج ۱، ص ۲۳۲، عمدة عیون صحاح الأخبار فی مناقب إمام الأبرار، النص، ص ۱۷۶، قاضی نعمان، ج ۲، ص ۲۰۴، تسلیۃ المجالس، کرکی الحائری، ج ۱، ص ۲۷۸، مستدرک الحاکم ج ۳ ص ۱۱۷
  3. شرح الأخبار، قاضی نعمان، ج ۲، ص ۲۰۵
  4. قاضی نعمان، شرح الاخبار، ج ۲، ص ۱۹۶
  5. الصحیح من السیرة النبی الأعظم، مرتضی العاملی، ج ۵، ص ۳۴۴
  6. بحار الأنوار، المجلسی، ج ۹۷، ص ۳۸۴
  7. سیوطی،الدرّ المنثور فی تفسیر المأثور، ج ۶، ص ۱۲۲
  8. شوشتری،إحقاق الحق، ج ۱۶، ص ۳۴۸
  9. مرتضی عاملی،الصحیح من السیرة النبی الأعظم، ج ۵، ص ۳۴۳
  10. شیخ صدوق،عیون أخبار الرضا(ع)، ج ۱، ص ۲۳۲، قاضی نعمان، ج ۲، ص ۲۰۵، تسلیت المجالس، کرکی حائری، ج ۱، ص ۲۷۸، مستدرک الحاکم ج ۳ ص ۱۱۷
  11. مرتضی العاملی،الصحیح من السیرة النبی الأعظم، ج ۵، ص ۳۴۴
  12. قاضی نعمان،شرح الأخبار، ج ۲، ص ۲۰۵
  13. یوسفی غروی،موسوعہ التاریخ الإسلامی، ج ۳، ص ۵۳۰
  14. مرتضی عاملی،الصحیح من السیرة النبی الأعظم، ج ۲۹، ص ۲۷۳-۲۷۲
  15. ابن حنبل، مسند احمد بن حنبل، ج ۱، ص ۲۷۷، ج ۳، ص ۴۱۷، ج ۷، ص ۵۱۳، ۵۹۱؛ بخاری، صحیح البخاری، ج ۵، ص ۱۲۹؛ صحیح مسلم، ج ۲، ص ۱۸۷۰-۱۸۷۱؛ سنن ترمذی، ج ۵، ص ۶۳۸، ۶۴۰-۶۴۱؛ سنن نسائی، ص ۵۰-۶۱؛ حاکم نیشابوری، مستدرک، ج ۳، ص ۱۳۳-۱۳۴؛ احمد بن عبداللّه طبری، الریاض النضرة فی مناقب العَشرَة، ج ۳، ص ۱۱۷-۱۱۹؛ ابن کثیر، البدایة و النهایة، ج ۵، ص ۷۸؛ هیثمی، مجمع الزوائد و منبع الفوائد، ج ۹، ص ۱۱۰؛ عینی، عمدة القاری: شرح صحیح البخاری، ج ۱۶، ص ۳۰۱؛ سیوطی، تاریخ الخلفاء، ص ۱۶۸؛ سیوطی، الدر المنثور، ج ۳، ص ۲۳۶، ۲۹۱؛ متقی، کنزالعمال، ج ۱۳، ص ۱۶۳، ۱۷۱-۱۷۲؛ دیکھیں: عبقات الانوار، ج ۲، دفتر ۱، ص ۲۹-۵۹؛ شرف الدین، ص ۱۳۰؛ حسینی میلانی، نفحات الازهار، ج ۱۸، ص ۳۶۳-۴۱۱
  16. ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب، ج ۲، ص۳۶- ۴۰.
  17. اسدی حلی، ابن بطریق؛ العمده، ص۱۷۵ ۱۸۱.
  18. قندوزی، سلیمان بن ابراہیم؛ ینابیع الموده، ج ۱، ص۲۷۵ ۲۶۰.
  19. ابن‌عساکر، امام علی بن ابی طالب، ج۱، ص۲۷۵ ۳۰۵.
  20. بحارالانوار، ج ۳۹، ص۳۵.
  21. امینی، عبدالحسین، الغدیر، ج ۳، ص۲۰۲.
  22. حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین ج۳، ص۱۲۵.
  23. احمد بن حنبل، مسند احمد، ج۲، ص۲۶.
  24. ابن عقدہ کوفی ،کتاب الولایۃ ،171،بیتا۔سید ابن طاؤس، الطرائف في معرفة مذاهب الطوائف،چاپ الخيام - قم۔متقی ہندی،کنز العمال،ناشر : مؤسسہ الرسالہ - بيروت - لبنان۔ابن عساکر، تاريخ مدينہ دمشق42/431 ، دار الفكر للطباعہ والنشر والتوزيع - بيروت - لبنان۔خوارزمی،المناقب، 415،مؤسسہ النشر الإسلامي التابعۃ لجماعۃ المدرسين بقم۔علامہ امینی، الغدیر، ج ۳، ص۲۱۳.
  25. عمروبن ابی عاصم، کتاب السنہ، ص۵۶۵۔ بیہقی، احمد بن حسین، السنن الکبری، ج۲، ص۴۴۲؛ احمد بن حنبل، فضائل الصحابہ، ص۳.
  26. ابن ابی‌الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج۱۱، ص۴۹.

مآخذ

  • ابن حنبل، احمد، فضائل امیرالمؤمنین علی بن ابیطالب، تحقیق سید عبدالعزیز طباطبایی، قم، دارالتفسیر، ۱۴۳۳ ق.
  • ابن حنبل، مسندالامام احمدبن محمدبن حنبل، بیروت ۱۴۱۴/۱۹۹۳.
  • نیشابوری، حاکم، المستدرک، بیروت، دارالکتاب العربی، بی‌تا.
  • ابن کثیر، اسماعیل، البدایہ و النہایہ، بیروت، دارالفکر، ۱۴۰۷ق.
  • محمدبن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، چاپ محمد ذهنی افندی، استانبول ۱۴۰۱/۱۹۸۱، چاپ افست بیروت، بی‌تا.
  • قاضی نعمان، شرح الاخبار، قم، جامعہ مدرسین، بی‌تا.
  • فتال نیشابوری، محمد، روضۃ الواعظین، قم، منشورات الرضی، بی‌تا.
  • ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب، نجف، مطبعہ الحیدریہ، ۱۳۷۶ش.
  • اسدی حلی، ابن بطریق، العمده، قم موسسہ النشر الاسلامی، ۱۴۰۷ق.
  • میلانی، علی حسینی، نفحات الازہار فی خلاصۃ عبقات الانوار، قم ۱۳۸۴ش.
  • قندوزی، سلیمان بن ابراہیم، اول، ینابیع الموده، بی‌جا، دارالاسوه، ۱۴۱۶ ق.
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، سوم، بیروت، موسسہ الوفا، ۱۴۰۳ق.
  • امینی، عبدالحسین، الغدیر، چہارم، بیروت، دارالکتاب العربی، ۱۳۹۷ق.
  • ابن عساکر، ترجمہ امام علی بن ابی طالب، دوم، بیروت، موسسہ المحمودی، ۱۹۷۸م.
  • ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، بی‌جا، داراحیاء الکتب العربیہ، بی‌تا.
  • احمد بن حنبل، مسند احمد، بی‌جا، دارالفکر، بی‌تا.
  • حاکم نیشابوری، محمدبن عبداللّه، المستدرک علی الصحیحین، و بذیلہ التلخی ص للحافظ الذہبی، بیروت: دارالمعرفہ، بی‌تا.
  • کرکی، سید محمد حائری، تسلیۃ المجالس و زینۃ المجالس، موسسہ المعارف الاسلامیہ، قم، ۱۴۱۸ق.
  • ابن بطریق، یحیی بن حسن،عمدة عیون صحاح الأخبار فی مناقب إمام الأبرار، جامعہ مدرسین، قم، ۱۴۰۷ق، چاپ اول.
  • طبری، احمدبن عبداللّه، الریاض النضرة فی مناقب العَشرَة، بیروت ۱۴۰۵/۱۹۸۴.
  • عاملی، سید جعفرمرتضی، الصحیح من سیرة النبی الأعظم، دارالحدیث، قم، ۱۴۲۶ق، چاپ اول.
  • عینی، محمودبن احمد، عمدةالقاری: شرح صحیح البخاری، چاپ عبداللّه محمود محمد عمر، بیروت ۱۴۲۱/۲۰۰۱.
  • شوشتری، قاضی نورالله، إحقاق الحق و إزہاق الباطل، مکتبه الله مرعشی نجفی، قم، ۱۴۰۹ق، چاپ اول.
  • سیوطی، جلال الدین، الدر المنثور فی تفسیر المأثور، کتابخانہ آیت اللہ مرعشی نجفی، قم، ۱۴۰۴.
  • شرف الدین،عبدالحسین، المراجعات، چاپ حسین راضی، قم ۱۴۱۶.
  • سیوطی، عبدالرحمان بن ابی بکر، تاریخ الخلفاء، چاپ محمد محیی الدین عبدالحمید، قم ۱۳۷۰ش.
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، عیون أخبار الرضا علیہ السلام، نشرجہان، ۱۳۸۷ق، چاپ اول.
  • یوسفی غروی، موسوعۃ التاریخ الإسلامی، مجمع اندیشہ اسلامی، قم، ۱۴۱۷ق، چاپ اول.
  • مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، چاپ محمد فؤاد عبدالباقی، استانبول ۱۴۱۳/۱۹۹۲.
  • متقی ہندی، علی بن حسام الدین، کنزالعمال فی سنن الاقوال و الافعال، چاپ بکری حیانی و صفوة سقا، بیروت ۱۴۰۹/۱۹۸۹.
  • میرحامد حسین، عبقات الانوار فی امامۃ الائمۃ الاطہار علیہم السلام، ج۲، دفتر۱، چاپ عبدالرحیم مبارک و دیگران، مشہد ۱۳۸۳ش.
  • هیثمی، علی بن ابوبکر، مجمع الزوائد و منبع الفوائد، بیروت ۱۴۰۲/۱۹۸۲.
  • ترمذی، محمدبن عیسی، الجامع الصحیح و هو سنن الترمذی، ج۵، چاپ ابراہیم عطوه عوض، بیروت، بی‌تا.
  • نسائی، احمدبن علی، تہذیب خصائ ص الامام علی، چاپ ابواسحاق حوینی اثری، بیروت ۱۴۰۶/۱۹۸۶