محرم کی عزاداری

ویکی شیعہ سے
محرم کی عزاداری
واقعات
امام حسینؑ کے نام کوفیوں کے خطوطحسینی عزیمت، مدینہ سے کربلا تکواقعۂ عاشوراواقعۂ عاشورا کی تقویمروز تاسوعاروز عاشوراواقعۂ عاشورا اعداد و شمار کے آئینے میںشب عاشورا
شخصیات
امام حسینؑ
علی اکبرعلی اصغرعباس بن علیزینب کبریسکینہ بنت الحسینفاطمہ بنت امام حسینمسلم بن عقیلشہدائے واقعہ کربلا
مقامات
حرم حسینیحرم حضرت عباسؑتل زینبیہقتلگاہشریعہ فراتامام بارگاہ
مواقع
تاسوعاعاشوراعشرہ محرماربعینعشرہ صفر
مراسمات
زیارت عاشورازیارت اربعینمرثیہنوحہتباکیتعزیہمجلسزنجیرزنیماتم داریعَلَمسبیلجلوس عزاشام غریبانشبیہ تابوتاربعین کے جلوس


محرم کی عزاداری سے مراد واقعہ کربلا کی یاد میں منعقد ہونے والے عزاداری کے خاص رسومات ہیں۔ شیعہ حضرات ہر سال محرم الحرام کے مہینے میں سنہ 61 ہجری کو کربلا میں پیش آنے والے واقعے کو یاد کر کے عزاداری مناتے ہیں جس میں امام حسینؑ اور آپ کے اصحاب کو یزیدی فوج نے بے دردی کے ساتھ شہید کیا تھا۔ حضرت زینب، امام سجادؑ، ام البنین اور رباب وغیرہ وہ ہستیاں ہیں جنہوں نے سب سے پہلے امام حسینؑ پر عزاداری منعقد کی۔ اسی طرح کمیت اسدی اور دعبل خزاعی نے امام باقرؑ، امام صادقؑ اور امام رضاؑ کے زمانے میں امام حسینؑ پر ڈھائے گئے مظالم کو موضوع قرار دے کر آپؑ کے غم میں اشعار کہے ہیں۔

شروع میں عزاداری کی ان مجالس میں امام حسینؑ کے غم کو اشعار میں بیان کرنے کے ذریعے آپؑ پر گریہ و زاری کی جاتی تھی لیکن رفتہ رفتہ ان مجالس میں مرثیہ سرائی، نوحہ خوانی اور سینہ زنی وغیرہ بھی انجام پانے لگے۔ ایران میں آل بویہ، صفویہ اور قاجاریہ کی حکومت کے دوران عزاداری کے رسومات پورے ملک میں پھیل گئے یہاں تک کہ خاندان صفویہ کے دور حکومت میں جہاں عزاداری کے مراسم میں وسعت آئی وہاں شیعہ مذہب کو ایران کا سرکاری مذہب قرار دے دیا گیا۔ البتہ ایران کے بعض حکمرانوں جیسے نادرشاہ افشار اور رضاشاہ پہلوی کے دور حکومت میں عزاداری کو محدود کرنے کی بھی کوشش کی گئی۔

شیخ عبدالکریم حائری یزدی جو اپنے زمانے میں حوزہ علمیہ قم کے سرپرست تھے، نے محرم اور صفر میں ملک کے مختلف شہروں میں دینی طلاب کو بعنوان مبلغ بھیجا اور قم میں تعزیہ خوانی پر پابندی لگا دی۔ اسی طرح شہید مرتضی مطہری اور ڈاکٹر علی شریعتی نے بھی اپنے دور میں عزاداری کے رسومات کو مختلف قسم کے خرافات سے دور رکھنے کی کوشش کی ہیں۔ جمہوری اسلامی ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے بھی اپنے ایک فتوے میں عزاداری میں قمہ زنی کو حرام قرار دیا اسی طرح قم میں موجود دوسرے مراجع جیسے آیت اللہ مکارم شیرازی، آیت اللہ فاضل لنکرانی، آیت اللہ جواد تبریزی، آیت اللہ نوری ہمدانی اور آیت اللہ مظاہری نے بھی اس طرح کے فتوے جاری کئے ہیں۔

تاریخی پس منظر

واقعہ عاشورا کے شہداء کا غم منانا اور ان پر عزاداری کرنا، سنہ 61 ہجری کے اس واقعے کےفورا بعد آغاز ہوا جو ابھی تک جاری و ساری ہے۔ لیکن اس پوری تاریخ میں عزاداری کے طور طریقوں میں مختلف تبدیلیاں آتی گئیں اس طرح بہت ساری رسومات عزاداری میں شامل ہوئی ہیں۔

معصومینؑ کے دور میں عزاداری

واقعۂ عاشورا کے بعد امامؑ پر گریہ و زاری کرنے والی ہستیوں میں سب سے پہلے آپؑ کے فرزند امام زین العابدینؑ، آپؑ کی بہن زینب بنت علیؑ اور ام کلثوم تھیں۔ مقاتل کی کتابوں میں نقل ہوئی ہے کہ حضرت زینبؑ جب اسیری کے وقت اپنے بھائی کی لاش کے قریب سے گزری تو بھائی کی لاش پر ان الفاظ میں نوحہ کیا جس نے دوست اور دشمن سب کو رلا کر رکھ دیا:

اے میرے نانا محمدؐ! تجھ پر آسمان کے فرشتے سلام بھیجتے ہیں یہ صحرا کی گرم ریت پر پڑا ہوا لاشہ تیرے حسینؑ کا ہے۔ اے نانا تیری بیٹیاں اسیر ہو کر شام جارہی ہیں اور ان کے چہروں پر مصیبت کے گرد و غبار آن پڑا ہے۔

ان کے علاوہ آپؑ کی بیٹیاں اور زوجۂ مکرمہ رباب بنت امرؤ القیس وغیرہ نے کربلا میں شہداء کے لاشوں پر[1] اور بعدازاں کوفہ[2] اور پھر شام[3] میں عزاداری اور مرثیہ سرائی کا اہتمام کیا۔ یہاں تک کہ جب اسیران کربلا کا قافلہ شام میں وارد ہوا اور امام سجادؑ اور حضرت زینب(س) کے خطبوں سے جب لوگوں پر حقیقت عیاں ہوئی اور یزید اور اس کے کارندوں کے ظلم و ستم کا پتہ چلا تو بنی امیہ کی خواتین نے بھی شہدائے کربلا پر گریہ کی اور شام میں تین دن [4] یا 7 دن [5] سوگ منایا گیا۔

جب اسیران کربلا کا قافلہ شام سے لوٹ کر مدینہ پہنچے تو امام سجادؑ کے حکم پر بشیر بن جذلم نے اشعار کے ذریعے اہل مدینہ کو اہل بیتؑ کی آمد کی خبر دی تو اہل مدینہ نے اہل بیت کی مصیبت میں گریہ و زاری کئے[6]۔ اسی طرح مدینے میں موجود اہل بیت کی خواتین نے عزاداری برپا کر کے مدینے میں سوگ منائیں جن میں زینب بنت عقیل[7]، ام البنین[8] اور رباب‌ شامل ہیں[9]۔

امام باقرؑ اور امام صادقؑ کے دور امامت میں کمیت اسدی[10] اور امام رضاؑ کے دور امامت میں دعبل خزاعی نامور شیعہ مرثیہ گو شعراء میں سے تھے جنہوں نے امام حسینؑ کی شان میں مرثیہ خوانی کی ہیں۔[11] اس دور میں امام حسینؑ کی مصیبت کو اشعار کی صورت میں حکایت کرنے والوں کو "مُنشِد" کہا جاتا تھا۔[12]

عزاداری میں وسعت

آل‌بویہ کے برسر اقتدار آنے کے بعد حکومت وقت کی جانب سے شیعوں پر لگائے گئے پابندیوں کا خاتمہ ہوا[13] اور سنہ352 ق میں تاریخ میں پہلی بار کسی حکومت کی جانب سے روز عاشورا کو سرکاری طور پر چھٹی اور سوگ کا اعلان کیا گیا اور اس دن خرید و فروخت پر پابندی لگا دی گئی، قصائیوں کو حکم دیا گیا کہ اس دن کے احترام میں کسی جانور کو ذبح نہ کیا جائے اور کھانے پینے کے مراکز میں کھانا وغیره تیار نہ کیا جائے اور بازاروں میں عزاداری کے خیمے نصب کئے گئے۔[14] آل‌بویہ کے دور میں شیعیان عزاداری کے مراسم کو "الناحیہ" یا "الرثا" کے عنوان سے منعقد کرتے تھے۔[15]

تیموریوں کے دور میں ذاکرین کھلے عام بغیر کسی روک ٹوک کے ائمہؑ کی شان میں منقبت پڑھا کرتے تھے[16] اور مداحی کی اصطلاح اسی زمانے سے رائج ہوئی[17] اسی طرح روضہ خوانی کی اصطلاح بھی اس دور کے بعد سے رواج پانے لگا جس کی وجہ بھی یہ تھی کہ اسی دور میں ملا حسین واعظ کاشفی نے روضۃ الشہدا نامی کتاب تحریر کی جو ہر خاص و عام میں اس قدر مقبول ہوئی کہ عزاداری کی اکثر محفلوں میں اسی کتاب کے مطالب سے استناد کیا جانے لگا۔ یوں رفتہ رفتہ اس کتاب کے مطالب نقل کرنے والوں کو روضہ خوان کا نام دیا جانے لگا اور گذر زمان کے ساتھ امام حسینؑ کی مصیبت بیان کرنے والے ہر شخص کو اس نام سے یاد کرنے لگا۔[18]

سلسلہ صفویہ میں شاہ اسماعیل صفوی کے حکم سے ایران کا سرکاری مذہب شیعہ قرار دینے کے بعد امام حسینؑ اور آپ کے اصحاب کی یاد میں عزاداری اپنے عروج پر پہنچ گئی اس دور میں باقاعدہ حکومتی پشت پناہی اور صفویہ خاندان کے بادشاہوں کی موجودگی میں نوحہ خوانی، سینہ زنی اور عزاداری کے مراسم برگزار ہونے لگے۔[19] اس کے بعد سے ایران میں باقاعدہ طور پر امام بارگاہوں اور عزاداری سے مربوط موقوفات تشکیل پائے۔[20] افشاریہ دور میں نادرشاہ نے عزاداری پر کچھ پابندیاں عاید کی۔[21] سلسلہ زندیہ میں پہلی بار تعزیہ اور شبیہ خوانی کے مجالس کا انعقاد ہوا۔[22]

سلسلہ قاجاریہ میں تعزیہ خوانی کا فروغ

قاجاریہ دور میں عزاداری خاص کر تعزیہ کے مراسم اپنے عروج پر پہنچ گئے تھے۔[23] ناصرالدین‌شاہ عزاداری کے مجالس میں تجملات اور اشرافیت کا موجب بنا اور بعض اوقات محرم کے پہلے عشرے میں وہ واعظوں اور مجالس میں شرکت کرنے والوں کی طرف مٹھی بھر بھر کر سکے پھینکتے تھے۔[24] قمہ زنی سمیت "شمایل‌کشی"، زنجیرزنی اور رسم 41 منبر وغیرہ ناصرالدین‌شاه کے دور میں ایجاد یا رواج پانے ہونے والے مراسمات میں سے ہیں۔[25]

قاجاریہ دور میں عزاداری کے مراسمات میں آنے والی تبدیلوں میں سے ایک "میرزا ملکم خان" اور "میرزا فتح علی آخوندزادہ" جیسے روشنفکروں کے توسط سے عزاداری پر ہونے والے اعتراضات ہیں۔[26] شام غریبان کے مراسم کا رواج مظفرالدین شاہ کے دور میں ہوا۔ اس دور میں امام حسینؑ کی عزاداری محرم کے علاوہ صفر میں بھی برگزار ہونے لگی۔[27]

رضا خان کے دور میں عزاداری پر پابندی

اگرچہ رضاخان اپنی اقتدار کے ابتدائی سالوں میں عزاداری کی مجالس میں شرکت کرتے تھے[28] لیکن بعد میں روشنفکری کے نام پر آہستہ آہستہ مجالس سے دور ہونے لگے اور یہ دوری آخر کار عزاداری پر مختلف پابندیاں عاید کرنے تک جا پہنچی۔ سن 1314 ہجری شمسی کو کشف حجاب کے قانون کو لاگو کرتے ہوئے اس نے مختلف مناطق کے گورنروں کو حکم دیا کہ محرم اور صفر میں عزاداری کی جلوسیں نکالنے سے روکا جائے اور عزاداری کی مجلسوں میں لوگوں کو کرسیوں اور بینچوں پر بیٹھنے کی تشویق کی جائے۔ مشہد میں مسجد گوہرشاد کے واقعے کے بعد عزاداری کی مجالس پر پابندیوں میں اضافہ ہوا اور شہری پولیس کو عزاداری کی مجلسیں برگزار ہونے سے روکنے کی خصوصی احکامات جاری ہوئے۔ یہاں تک کہ بعض شہروں میں مجالس برپا کرنے والوں اور ان مجالس کے خطیبوں کو گرفتار کر کے قید خانوں تک پہنچایا گیا۔[29]

رضا خان کے مذکوره اقدامات کے مقابلے میں شیخ عبدالکریم حائری یزدی نے عزاداری کے مجالس کو جاری رکھنے کی بھر پور کوشش شروع کی۔ اس سلسلے میں انہوں نے عزاداری کے ایام میں طلاب کو مختلف مناطق میں تبلیغ اور خطابت کیلئے بھیجنا شروع کیا۔[30] اسی طرح انہوں نے ان مجالس کی اصلاح کی خاطر بھی بعض اقدامات انجام دیئے۔ قم میں شبیہ‌ خوانی کی ممانعت کی اور تعزیہ خوانی کے مجالس کو روضہ‌خوانی میں تبدیل کیا۔[31]

سنہ 1320 ہجری شمسی کو رضاخان کی سرنگونی کے بعد عزاداری کی مجالس پر عاید پابندیاں بھی رفتہ رفتہ اپنے اختتام کو پہنچیں یوں ایک دفعہ پھر قمہ‌زنی، قفل‌ بندی، زنجیرزنی، شاخ‌حسینی وغیرہ جیسے مراسم برپا ہونے لگے۔[32]

عاشورا اور ایام محرم میں عزاداری کی روشیں

ایران میں عزاداری

عزاداری کے ان رسومات کو دو قسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: متحرک اور ساکن؛

عزاداری کی یہ دونوں روشیں عام طور پر محرم الحرام کے پہلے دس ایام کے دوران بروئے کار لائی جاتی ہیں، سب سے زیادہ جذبات کی ادائیگی ان ہی ایام میں ہوتی ہے اور سب سے زیادہ مراسمات عاشورا کے دن منعقد کئے جاتے ہیں۔

متحرک عزاداری

عاشورا کی عزاداری کے سیّار یا متحرک مراسمات میں عوام اور شرکاء کے عزادار دستوں میں سینہ زن، زنجیر زن وغیرہ دیکھے جاسکتے ہیں۔ عزاداروں کے دستے گروہی انداز سے دیہاتوں، قصبوں اور شہروں کے گوشہ و کنار سے روانہ ہوکر ایک دوسرے سے جاملتے ہیں اور مراسمات ایک خاص مقام (جیسے امام زادگان کے مزارات، ائمہؑ کے مشاہد شریفہ، امام بارگاہوں اور حسینیات یا شہر یا گاؤں کے بزرگوں کے گھروں) پر اختتام پذیر ہوتے ہیں۔

ایران میں عاشورا کے سیار یا متحرک عزاداری کے مراسمات کے ضمن میں عوام کے دستے نکلتے ہیں اور چار پھیوں پر المیۂ کربلا کی زندہ تصاویر رکھ کر پیش کی جاتی ہیں۔

شرکاء کے دستے تین گروہوں میں تقسیم ہوتے ہیں:

سینہ زن، یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے ہاتھوں کی ہتھیلیوں سے سینہ کوبی کرتے ہیں؛

زنجیر زن، وہ لوگ جو اپنی پیٹھوں پر زنجیر زنی کرتے ہیں۔ پاک و ہند میں بعض لوگ چھریوں کی زنجیریں مار کر اپنی پیٹھ کر زخمی کرتے ہیں؛

قمہ زن، وہ لوگ جو اپنے سروں کو قمے مار مار کر زخمی کرتے ہیں؛

بعض لوگ پتھر مار کر اپنے آپ کو ایذا پہنچاتے ہیں۔

بعض لوگ جو عَلَم کو امام حسینؑ کے پرچم ـ جو کربلا میں ہے ـ کے طور پر اٹھاتے ہیں۔

بعض دستوں میں نخل (جو بڑا چوبی صندوق ہے کو بظاہر تابوت کے عنوان سے) اٹھاتے ہیں، کیونکہ حدیث کے مطابق امام حسینؑ کا جسم بےسر کھجوروں کی شاخوں کی بنے ہو‏‏‏ئے چوپائے پر اٹھایا گیا تھا۔

بعض نخل اس قدر عظیم ہیں کہ انہیں اٹھانے کے لئے 150 افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔

عسکری اور عزائی موسیقی [نقارہ اور بگل وغیرہ۔۔۔) کا دستہ ان دستوں کا ساتھ دیتا ہے۔

عظیم ترین اجتماعی حرکت عاشورا کے دن انجام پاتی ہے۔

عزاداروں ک عزا کے دستے حلقہ وار انداز سے دیہاتوں، قصبوں اور شہروں کے گوشے گوشے سے روانہ ہوکر ایک دوسرے سے جاملتے ہیں اور مراسمات ایک خاص مقام (جیسے امام زادگان کے مزارات، ائمہؑ کے مشاہد شریفہ، امام بارگاہوں اور حسینیات یا شہر یا گاؤں کے بزرگوں کے گھروں) پر اختتام پذیر ہوتے ہیں۔

ساکن عزاداری

ساکن مراسمات، روضہ خوانی اور تعزیہ سے عبارت ہیں، روضہ خوانی میں میں کربلا کے خونی واقعے میں امام حسینؑ، آپؑ کے خاندان اور اصحاب و پیروکاروں کی داستان نقل کی جاتی ہے۔

شیعہ شہداء کی تاریخ کا راوی (روضہ خوان)، اکٹھی ہونے والے عزاداروں کے سامنے ـ کسی خیمے میں، سائبان تلے، یا امام بارگاہ یا امام باڑے کے اندر ـ منبر پر بیٹھتا ہے اور سننے والے اور حاضرین واقعات کو سنتے ہیں، اشعار سنتے اور پڑھتے ہیں اور زار و قطار روتے ہیں اور ان کی جسمانی حرکات سے وجد اور شوریدگی کی کیفیت کا اظہار ہوتا ہے۔


تاہم ایران میں اہم ترین رسم عزاداری، تعزیہ ہے؛ یہ واحد سنجیدہ منظرنامہ نویسی یا ڈرامہ نگاری ہے جو عالم اسلام میں فروغ پاچکی ہے؛ تعزیے میں امام حسینؑ شہادت کی روایت بیان ہوتی ہے اور دکھائی جاتی ہے۔

دسویں صدی ہجری/ سولہویں صدی عیسوی میں شیعہ کی ترویج اور تشیع کے معمول کے عقائد کے فروغ کے بعد، ایران اس سرزمین میں بدل گیا جس میں عاشورا کی رعایت بنیادی شرط ہے۔

پردہ خوانی کے مراسمات

پردہ داری اور پردہ خوانی، یک شخصی "تصویری اور کلامی قصہ گوئی"

یک شخصی تصویری اور زبانی قصہ گوئی ایک اور قسم کی نمائش ہے جس کے تحت راوی (نقال) کرباس (=) کے عظیم طومار پر روغنی تصاویر ـ جو میدان کربلا کے مناظر کی عکاسی کرتے ہیں ـ ہاتھ میں لیتا ہے۔

جس طرح کہ راوی ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتا ہے، تصویروں کا ایک ورق لٹکا دیتا ہے اور شعر پڑھتا ہے اور قصہ بیان کرتا ہے اور ایک چھڑی کے ذریعے مناظر کی وضاحت کرتا ہے۔

عزاداری دوسرے ملکوں میں

پاک و ہند

ہند و پاک میں عاشورا کے مراسمات اور آداب میں ـ کچھ اضافات اور استثنائی آداب کے ساتھ ـ ایرانی روشوں کی پیروی کی جاتی ہے۔

تاہم دلچسپ امر یہ حقیقت ہے کہ وہاں حتی سنیوں سمیت مسلمان ہی نہیں بلکہ ہندو بھی عاشورا کے آداب و رسوم میں فعال کردار ادا کرتے ہیں اور ایام عزاداری میں سنی کے جداگانہ آداب و رسوم بھی ہیں۔

بر صغیر پاک و ہند میں عاشورا کے نمایاں آداب و رسوم کی خصوصیات میں سے حرم امام حسینؑ کے عظیم ہنرمندانہ نمونے ہیں جو عزاداروں کے جلوس میں اٹھائے جاتے ہیں یا پھر پھیوں والے چوپایوں پر رکھے جاتے ہیں۔

روز عاشورا کے آخری اوقات میں ـ یہ نمونے جنہیں اصطلاحا تعزیہ کہا جاتا ہے ـ یا مقامی قبرستان میں کربلا سے موسوم کسی مقام پر دفنائے جاتے ہیں یا پانی کے سپرد کئے جاتے ہیں۔

بیان شہادت امام حسینؑ ـ جس کو ایران میں روضہ خوانی اور ہندوستان اور پاکستان میں مجلس کہا جاتا ہے ـ یا تو کھلی فضا میں انجام پاتا ہے یا خاص قسم کی عمارتوں میں، جنہیں امام باڑہ، امام بارگاہ یا عاشور خانہ اور ماتم خانہ کہا جاتا ہے۔

جزائر غرب الہند

عاشورا کے بہت سے آداب و رسوم کو تیرہویں صدی ہجری کے نصف اول / انیسویں صدی عیسوی میں ہندوستانی مسلمانوں نے غرب الہند کے علاقے متعارف کرائے۔ آج ٹرینیڈاڈ میں کارناوال کے بعد دوسرے بڑے مراسمات عاشورا سے تعلق رکھتے ہیں۔

وہاں عاشورا کے مراسمات کو حُسَی کہا جاتا ہے اور تین شب اور تین روز تک جاری رہتے ہیں۔

عاشورا کی آخری رات بھی زیادہ قابل دید ہے؛ امام حسینؑ کے مرقد منور کے رنگے ہوئے نمونوں ـ جنہیں تجہ کہا جاتا ہے اور ان کی اونچائی 5/15 فٹ تک پہنچتی ہے ـ کو تاسہ اور نقارے کے ہمراہ نمائش دی جاتی ہے۔

عراق

جنوبی عراق میں، ماتمی جلوس اور مجالس عزاداری جیسے مراسمات ماہ محرم کے پہلے عشرے کے معمول کی خصوصیات میں شامل ہیں اور یہ مراسمات عاشورا کے دن عروج کو پہنچتے ہیں۔

لگتا ہے کہ کربلا سے دور واقع ممالک میں عاشورا کے مراسمات کی رعایت زیادہ دقیق ہے: مراسمات کی رعایت کے یہ نمونے ـ جو مرکز کی نسبت اطراف میں زیادہ قابل دید ہیں ـ وہ جانے پہچانے اور مانوس مثالیں ہیں جو بہت سے مذاہب میں دکھائی دیتے ہیں۔

بدعت

سید محسن امین نے کتاب رسالۃ التنزیہ لأعمال الشبیہ میں ان میں سے بعض آداب و رسوم کو بدعت اور منکَر قرار دئے ہیں:

  • وہ امور جو منابع میں ذکر نہیں لیکن ممبروں اور مجلسوں میں انہیں ذکر کئے جاتے ہیں۔
  • لحن میں غناء۔
  • اپنے بدن کو نقصان پہنچانا؛ مثلا قمہ یا شمشیر وغیرہ سر پر مارنا جس سے خون جاری ہو۔
  • لہو و لعب کے آلات کا استعمال جیسے طبل، دمام اور سنج وغیرہ۔
  • مردوں کا اپنے آپ کو عورتوں کی شبیہ قرار دینا۔
  • خواتین کو کھلے محملوں میں سوار کرنا اور انہیں آل محمد کی مستورات کی شبیہ قرار دینا۔
  • خواتین کی چیخ و پکار جو مردوں کے کانوں تک پہنچتی ہیں۔
  • غلط نعروں کے ساتھ چیخ و پکار کرنا۔
  • اسی طرح ہر وہ چیز جو دین کے نام پر عزاداری میں شامل ہوئی ہو اور اس سے دین کی توہین ہوتی ہو۔[33]

قاجاریہ دور حکومت کے شیعہ فقیہ سید عبدالحسین لاری کتاب "اکسیر السعادۃ فی اسرار الشہادۃ" میں لکھتے ہیں کہ امام حسینؑ کی مجالس میں لوگوں کو رلانا محرمات، بدعتوں اور منکرات جیسے جھوٹ، غنا، شبیہ‌ خوانی وغیرہ کے ذیعے انجام پائے اسی طرح طبل، رقص، شیپور، ناقوس، نی اور دف جیسے آلات جو کفار اور فاسقوں کا شیوہ ہے، کا استعمال کرنا۔[حوالہ درکار] کہا جاتا ہے کہ شیخ عبدالکریم حائری اور آیت اللہ بروجردی عزاداری میں شریعت کے منافی آداب و رسوم سے منع کرتے تھے۔ آیت‌ اللہ خامنہ‌ای اپنے ایک فتوا میں عزاداری کی غیر متعارف طریقہ کار کو جو دین اور مذہب کی توہین کا باعث بنے، کو حرام اور باطل قرا دیتے ہیں۔[34]

عاشورا غیر اسلامی ادیان میں

عاشورا دین یہود میں

روز عاشورا ماضی میں یہودیوں کے نزدیک عظیم ایام میں شمار ہوتا تھا اور وہ اس دن روزہ رکھتے تھے؛ چنانچہ فیّومی مصباح المنیر میں لکھتے ہیں: رسول اللہؐ سے مروی ہے کہ عاشورا سے ایک دن قبل اور عاشورا کے ایک دن بعد بھی روزہ رکھو تا کہ یہود سے تشبہ کے شائبے سے نکل سکو جو صرف عاشورا کے دن روزہ رکھتے تھے۔[35]

اس روایت کا مضمون سنن دارمی[36]، سنن ابن ماجہ[37]، صحیح مسلم[38]، جمہرۃ اللغہ[39]، صحیح بخاری[40] اور نیل الأوطار[41] میں نقل ہوا ہے۔

ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ روز عاشورا یہود کے نزدیک اہم اور محترم ایام میں سے تھا اور وہ اس دن روزہ رکھتے تھے۔

عیسائیت میں عاشورا

مصباح المنیر میں منقول ہے: إنّ رسول اللہ صام عاشوراء فقیل لہ: انّ الیہود والنصاری تعظمہ فقال: اذا کان العام المقبل صمنا التاسع ،
ترجمہ: رسول اللہؐ نے عاشورا کو روزہ رکھا تو لوگوں نے کہا: یہود اور نصاری اس دن کو احترام سے مناتے ہیں چنانچہ آپؐ نے فرمایا: اگلے سال ہم نویں محرم کو روزہ رکھیں گے۔[42]

مذکورہ بالا روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ عیسائی بھی عاشورا کی تعظیم و تکریم کرتے تھے۔[43]

عاشورا جاہلیت کے زمانے میں اور قریش کے نزدیک

سنن دارمى میں روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: یہ دن عاشورا کا دن ہے اور قریش جاہلیت میں اس دن کو روزہ رکھتے تھے، پس تم مسلمانوں میں سے جو بھی چاہے روزہ رکھے اور جو چاہے وہ روزہ ترک کرے۔[44]

کتاب موطا مالک[45]، صحیح بخارى[46] اور نیل الأوطار میں[47] اس روایت کا مضمون نقل ہوا ہے۔

حوالہ جات

  1. سیدبن طاؤس، الملہوف، ص180،ابن نماحلی، مثیر الاحزان، ص77۔، مقتل الحسین للخوارزمی، ج2، ص39۔
  2. شیخ مفید، الامالی، ص321۔، مطالب السؤول، ص76۔، سیدبن طاؤس، الملہوف، ص198۔
  3. سیدبن طاؤس، الملہوف، ص213؛ و ابن نماحلی، مثیر الاحزان، ص100، طبرسی، الاحتجاج، ج2، ص122، طبری،تاریخ، ج5، ص462۔
  4. ملاحظہ کریں:طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1369ش، ج7، ص3074.
  5. نک:مجلسی، بحار الأنوار، 1403ق، ج45، ص196.
  6. حکیم، موسوعۃ الامام...، دار المورخ العربی، ج5، ص2157.
  7. نک:ابن عبد ربہ، العقد الفرید، دار الکتب العلمیۃ،‌ ج5، ص132؛ بلاذری، انساب الاشراف، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، ج3، ص221.
  8. ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبین، بیروت، ص90.
  9. ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، بیروت، ج4، ص88.
  10. نک:خزاز رازی، کفایۃ الاثر، 1360ش، ص248.
  11. ابن قولویہ، کامل الزیارات، قم، باب 32 و 33.
  12. مظاہری، رسانہ شیعہ، 1389ش، ص33، بہ نقل از پوراحمدی، عزاداری امام حسینؑ در محضر امامان شیعہ، فصلنامہ شیعہ شناسی، شمارہ8، ص118.
  13. سنت عزاداری و منقبت‌خوانی، 1386ش، ص60؛ ذہبی، تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر و الاعلام، بیروت، ج24، ص258-260.
  14. سنت عزاداری و منقبت‌خوانی، 1386ش، ص65-66 بہ نقل از ابن‌کثیر، البدایہ و النہایہ، ج11، ص183؛ ابن الجوزی، المنتظم فی تاریخ الملوک و الامم، ج7، ص15؛ ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون، ج3، ص425؛ محمد بن عبدالملک الہمدانی، تکملہ تاریخ الطبری، ج1، ص183؛ ابی المحاسن، النجوم الزاہرہ فی ملوک مصر و القاہرہ، ج2، ص427.
  15. مظاہری، رسانہ شیعہ، 1389ش، ص41.
  16. واصفی، بدایع الوقایع، ج2، ص247.
  17. سنت عزاداری و منقبت‌خوانی، 1386ش، ص145 بہ نقل از سمرقندی، مطلع السعدین و مجمع البحرین، ج2، ص182-183.
  18. مظاہری، رسانہ شیعہ، 1389ش، ص55.
  19. سنت عزاداری و منقبت‌خوانی، 1386ش، ص147 بہ نقل از نصراللہ فلسفی، زندگانی شاہعباس اول، تہران، انتشارات علمی، ج3، ص847.
  20. محرمی، «تاریخ عزاداری برای امام حسین»، ص294.
  21. مظاہری، رسانہ شیعہ، 1389ش، ص76.
  22. مظاہری، رسانہ شیعہ، 1389ش، ص77.
  23. مظاہری، رسانہ شیعہ، 1389ش، ص87.
  24. مظاہری، رسانہ شیعہ، 1389ش، ص91 بہ نقل از ہمایونی، تعزیہ در ایران، شیراز، نوید شیراز، 1380ش، ص129.
  25. نک: مظاہری، رسانہ شیعہ، 1389ش، ص124-126.
  26. نک: مظاہری، رسانہ شیعہ، 1389ش، ص127-140.
  27. نک: مظاہری، رسانہ شیعہ، 1389ش، ص141-142.
  28. نک: مظاہری، رسانہ شیعہ، 1389ش، ص143-146.
  29. مظاہری، رسانہ شیعہ، 147 بہ نقل از بصیرت منش، علما و رژیم رضاشاہ، تہران، عروج، 1376ش، ص143-144.
  30. مظاہری، رسانہ شیعہ، 1389ش، ص149 بہ نقل از بصیرت منش، علما و رژیم رضاشاہ، تہران، عروج، 1376ش، ص254.
  31. مظاہری، رسانہ شیعہ، 1389ش، ص149 بہ نقل از خمینی، کشف‌الاسرار، بی‌نا، بی‌تا، ص173.
  32. مظاہری، رسانہ شیعہ، 1389ش، ص149-152.
  33. امین، رسالۃ التنزیہ لأعمال الشبیہ، العرفان، ص3-4۔
  34. پیشینہ و جریان‌شناسی مبارزہ با آسیب‌ہای فرہنگ عاشورا، پایگاہ اطلاع‌رسانی حوزہ۔
  35. رضا استادی، عاشوراشناسی، ص37-38، بحوالہ از: بیہقی، ج4، ص287۔
  36. رضا استادی، عاشوراشناسی، ص37-38، بحوالہ از: سنن دارمی، ج2، ص22۔
  37. رضا استادی،عاشوراشناسی، ص37-38، بحوالہ از: سنن ابن ماجہ، ج1، ص552۔
  38. رضا استادی، عاشورا شناسی، ص37-38، بحوالہ از: صحیح مسلم، ج3، ص150۔
  39. رضا استادی، عاشورا شناسی، ص37-38، بحوالہ از: جمہرة اللغة، ابن درید، ج3، ص390۔
  40. رضا استادی،عاشورا شناسی، ص37-38، بحوالہ از: صحیح بخاری، ج3، ص57۔
  41. رضا استادی،عاشورا شناسی، ص37-38، بحوالہ از: نیل الأوطار، ج4، ص326۔
  42. مصباح المنیر، ص104؛ بحوالہ استادی، رضا، پیشینہ عاشورا، در عاشورا شناسی، ص38۔
  43. استادی، رضا، پیشینہ عاشورا، در عاشورا شناسی، ص38۔
  44. رضا استادی، پیشینہ عاشورا در عاشورا شناسی، ص39 بحوالہ از: سنن درامی، ج2، ص22۔
  45. رضا استادی، پیشینہ عاشورا در عاشوراشناسی، ص39 بحوالہ از: کتاب موطأ مالک، ج1، ص219۔
  46. رضا استادی، پیشینہ عاشورا در عاشورا شناسی، ص39۔ بحوالہ از: صحیح بخارى، ج3، ص31۔
  47. رضا استادی، پیشینہ عاشورا در عاشورا شناسی، ص39 بحوالہ از: نیل الأوطار، ج4، ص326۔

مآخذ

  • ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ،‌ دار صادر، بیروت (از روی نسخہ کتابخانہ دیتاا ل نور)۔
  • ابن‌ تغری‌ بردی‌، یوسف‌، النجوم الزاہرۃ فی ملوک مصر و القاہرۃ، وزارۃ الثقافۃ و الارشاد القومی، الموسسۃ المصریۃ العامۃ، قاہرہ۔
  • ابن طاوس، علی بن موسی، لہوف، ترجمہ ابوالحسن میر ابوطالبی، دلیل ما، قم، 1380ہجری شمسی۔
  • ابن عبد ربہ، احمد بن محمد، العقد الفرید، محقق: مفید محمد قمیحہ،‌ دار الکتب العلمیہ، بیروت۔
  • ابن قولویہ، جعفر بن محمد، کامل الزیارات، نشر الفقاہہ، قم۔
  • ابوالفرج اصفہانی، علی بن حسین، مقاتل الطالبیین، تحقیق: احمد صقر،‌ دار المعرفۃ، بیروت۔
  • امین، سید محسن، رسالۃ التنبیہ لاعمال التشبیہ، العرفان۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، أنساب الأشراف، تحقیق محمد باقر محمودی و دیگران، موسسہ الاعلمی للمطبوعات، بیروت۔
  • تنوخی، محسن بن علی، نشوار المحاضرۃ و أخبار المذاکرۃ، محقق: عبود شالجی، بی‌جا۔ بی‌تا۔ (از روی نسخہ کتابخانہ دیتاب ل نور)
  • حکیم، منذر، موسوعۃ الإمام السید عبدالحسین شرف الدین،‌دار المورخ العربی، بیروت۔
  • خزاز رازی، علی بن محمد، کفایۃ الأثر فی النص علی الأئمۃ الإثنی عشر، محقق: عبد اللطیف حسینی کوہکمری، بیدار، قم، 1360ہجری شمسی۔
  • ذہبی، محمد بن احمد، تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر و الاعلام، محقق: عمر عبد السلام تدمری،‌ دار الکتاب العربی، بیروت۔
  • سنت عزاداری و منقبت خوانی در تاریخ شیعہ امامیہ (چاپ دوم)، با مقدمہ محمد تقی زادہ داوری، موسسہ شیعہ شناسی، قم، 1386ہجری شمسی۔
  • سیوطی، عبدالرحمن بن ابی‌بکر، تاریخ الخلفاء، تحقیق ابراہیم صالح،‌دار صار، بیروت۔
  • شیبی، کامل مصطفی، تشیع و تصوف تا آغاز سدہ دوازدہم ہجری، ترجمہ علی رضا ذکاوتی قراگزلو، امیر کبیر، تہران،  1387 ہجری شمسی۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، ترجمہ ابوالقاسم پایندہ، اساطیر، تہران، چاپ سوم 1369ہجری شمسی۔(از روی نسخہ کتابخانہ دیتام ل مکتبۃ اہل البیت)
  • قندوزی، سلیمان بن ابراہیم، ینابیع المودۃ لذوی القربی، تحقیق علی جمال اشرف حسینی،‌ دار الاسوہ للطباعہ و النشر، قم۔
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار،‌ دار احیاءالتراث العربی، بیروت، 1403ق۔(از روی نسخہ کتابخانہ دیتاا ل مکتبۃ اہل البیت)
  • محرمی، غلامحسن، «تاریخ عزاداری برای امام حسین»، تاریخ در آئینہ پژوہش، پشق‌شمارہ  3 ، سال اول، 1382 ہجری شمسی۔
  • مدرس، محمد علی، ریحانہ الأدب فی تراجم المعروفین بالکنیہ او اللقب، کتاب فروشی خیام، تہران،  1369 ہجری شمسی۔ (از روی نسخہ کتابخانہ دیتاس ل نور)
  • مرعشی، ظہیر الدین بن نصیر الدین، تاریخ گیلان و دیلمستان، تصحیح منوچہر ستودہ، اطلاعات، تہران،  1364 ہجری شمسی۔
  • مظاہری، محسن حسام، رسانہ شیعہ: جامعہ‌شناسی آئین‌ہای سوگواری و ہیئت‌ہای مذہبی در ایران، شرکت چاپ و نشر بنخ‌الملل، تہران، چاپ سوم 1389ہجری شمسی۔
  • ناصری داوودی، عبد المجید، تشیع در خراسان: عہد تیموریان، بنیاد پژوہشہای اسلامی آستان قدس رضوی، مشہد مقدس،  1378 ہجری شمسی۔
  • واصفی، محمود بن عبد الجلیل، بدایع الوقایع، تحقیق الکساندر بلدروف‌، بنیاد فرہنگ ایران، تہران،  1349 ہجری شمسی۔
  • یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ یعقوبی، ترجمہ محمدابراہیم آیتی، شرکت انتشارات علمی فرہنگی، تہران،  1371 ہجری شمسی۔