سادات کے لفظی معنی مہتران اور فقہی تعریف کے مطابق، ان افراد کو کہا جاتا ہے جن کا نسب ہاشم بن عبد مناف (رسول اللہؐ کے جد امجد) سے ملتا ہے.

البتہ عام لوگوں میں، اکثر سادات امام علیؑ اور حضرت زہراءؑ کے خاندان سے جڑے ہوئے ہیں اور سادات کی مشہور کڑی شیعہ اماموں کے خاندان سے ملتی ہے. سادات کی مختلف شاخیں ہیں کہ جن میں اہم اور اصلی درج ذیل ہیں: ہاشمی، محمدی، حسنی، حسینی، موسوی اور رضوی. فقہ میں سادات کے لئے خاص احکام ذکر ہوئے ہیں. جیسے کہ وہ غیر سید سے زکات نہیں لے سکتے اور خمس کا کچھ حصہ جو سادات فقیر ہیں ان سے متعلق ہے.

بنی امیہ اور عباسیوں کے زمانے سے لے کر متوکل کی خلافت تک، جو ظلم و ستم سادات پر ہوتے رہے، حتیٰ کہ ان میں سے بعض اپنی سیادت کو چھپا کر رکھتے یا دوسرے ممالک کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہو جاتے. معاویہ، یزیدبن معاویہ، مروان بن حکم، عبیداللہ بن زیاد، حجاج بن یوسف اور عباسیوں نے سادات کے قتل عام کا حکم دیا جس کی وجہ سے سادات ہجرت پر مجبور تھے. ایران، آسیا صغیر، یمن، شام اور شمال افریکہ ایسے ممالک ہیں جہاں سادات ہجرت کر کے گئے.

سادات اور علوی کی طول تاریخ میں ایک خاص علامت ہوتی تھی کہ جس سے انکی پہچان ہوتی جیسے: نقابت نام کی ڈائری جس میں ان کا نام ثبت کیا جاتا یا اپنے چہرے کے دونوں طرف لمبی زلفوں کو رکھنا. اور آج کے دور میں بھی جو سید علماء ہیں وہ اپنے سر پر کالا عمامہ رکھتے ہیں اور عام لوگ جو سید ہیں وہ عام کپڑے، یا سبز رنگ کی شال سے پہنچانے جاتے ہیں.

سید لفظ کا استعمال

سید اصطلاح میں پیغمبرؐ کے اجداد ہاشم اور آگے سے ان کی اولادوں کو کہا جاتا ہے. [1] اس تعریف کے مطابق حضرت علیؑ کے فرزندوں کے علاوہ ،ابوطالب کے فرزند، اور ابولہب، عباس اور حمزہ بھی سید ہوں گے. البتہ آج کل عام لوگ، سید کی اصطلاح کو اکثر پیغمبرؐ اور علی بن ابی طالبؑ اور فاطمہؑ کی اولاد کے لئے استعمال کرتے ہیں.

سید کا تاریخچہ

پیغمبرؐ کی اولاد کے لئے سید کا لفظ کس زمانے سے استعمال ہونا شروع ہوا اس بارے میں معلوم نہیں، لیکن جو اسناد موجود ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ٦ہجری ق میں یہ لفظ عام تھا. اس زمانے میں وہ علماء جو پیغمبرؐ کی اولاد میں سے تھے انکے نام کے ساتھ سید ہوتا تھا. لیکن شیخ طوسی (م٤٦٠ق) اور نجاشی (م٤٥٠ق)، نے ہر جگہ پر شریف کا کلمہ استعمال کیا ہے اور اگر کسی جگہ پر انہوں نے سید کا لفظ استعمال کیا ہے، تو وہ بھی اکیلا نہیں ہوا بلکہ السید الشریف کی صورت میں ہے. [2] حجاز کے اہل سنت جو پیغمبر اکرمؐ کی اولاد سے ہیں انکو، شریف کہتے تھے.

٦ ہجری کی کتاب تاریخ بیھق میں ایک باب سادات بیھق کے عنوان سے تدوین ہوا ہے، اور اس میں پیغمبرؐ کے خاندان سے جنہوں نے وہاں سفر کیا انکے بارے میں ذکر ہوا ہے. [3]

اس سے پہلے قم کی تاریخ میں پیغمبرؐ کی اولاد کے لئے سید یا سادات کا لفظ استعمال ہوا ہے. [4][5] ابن حوقل جو کہ تاریخ قم نامی کتاب کا مولف تھا اس نے آل ابی طالب کے لئے سادات کا لفظ استعمال کیا ہے.[6]

ان سند کے ہوتے کہا جا سکتا ہے کہ سادات کا لفظ چوتھی صدی سے ہی پیغمبرؐ کی اولاد کے لئے استعمال کیا جاتا تھا.

شریف کی اصطلاح

اس وقت ایران میں سید کا لفظ تمام بنی ہاشم کے لئے استعمال ہوتا ہے. لیکن حجاز میں امام حسنؑ کے فرزندوں کو ممتاز سمجھنے کے لئے شریف اور امام حسینؑ کے فرزندوں کو سید کہتے ہیں. [7]

سادات کی اصلی شاخ

  • ہاشمی

حضرت ابوطالبؑ کے فرزند جعفر اور عقیل کے خاندان والے ہاشمی سادات، جعفری اور زینبی خاندان اسی گروہ سے ہیں.

  • محمدی

محمدی سادات، محمد اکبر کے خاندان سے جو کہ محمد بن حنفیہ(١٥یا١٨-٨١ق) کے نام سے مشہور تھا اور خود اس کا شمار علوی سادات میں تھا. عقیلی اصفہانی خاندان بھی اسی گروہ سے تھا. البتہ اس کے معنی یہ نہیں کہ جتنے بھی محمدی سادات ہیں سب محمد بن حنفیہ کے خاندان سے ہیں.

  • حسنی

حسنی سادات، امام حسن مجتبیٰؑ کے فرزندوں (٣-٩٥ھ) کو کہتے ہیں. علمی خاندان بحرالعلوم، بروجردی، قاضی، گلستانہ اور مدرس اسی گروہ سے ہیں.

  • حسینی

حسینی سادات، امام حسینؑ کے خاندان سے ہیں. جہاں تک کہ امام حسینؑ کا خاندان امام سجادؑ سے ہے اسی لئے امام سجادؑ کے فرزندوں کو بھی حسینی کہا جاتا ہے.

  • موسوی

موسوی سادات، امام موسیٰ کاظمؑ کے خاندان والے ہیں، علمی خاندان آیت اللہ شیرازی، آیت اللہ یزدی، اصفہانی، بجنوردی، بھبھانی، جزائری، خمینی، خوانساری، زنجانی، شہرستانی، شیرازی، صدر، کشفی، گلپائگانی، مشعشعی اور میرلوحی یہ سب موسوی سادات سے ہیں.

  • رضوی

رضوی یا رضویان سادات، امام محمد تقیؑ کے فرزند (١٩٥-٢٢٠ق) محمد الاعرج بن احمد بن موسیٰ مبرقع (٢١٨-٢٩٦ق) کے خاندان والے ہیں، یہ سید اکثر مشہد، قم اور ہمدان میں ہیں، اگرچہ دوسرے شہروں میں بھی رضوی سادات کچھ تعداد میں موجود ہیں.

آخری امام سے منسوب قاعدہ

ہر موسوی سید، حسینی بھی ہے، لیکن اسے موسوی کہتے ہیں نہ حسینی. اس بات کی دلیل وہ قاعدہ جو علم نسب میں ہے کہ جس کے مطابق، سادات کو جو انکے شجرے نامے میں آخری امام ہو، اس کے ساتھ منسوب کرتے ہیں، مثال کے طور پر جو شخص امام موسیٰ کاظمؑ کے خاندان سے ہے اسے موسوی کہتے ہیں حسینی نہیں کہتے یعنی اسے امام حسینؑ یا امام علیؑ سے منسوب نہیں کرتے. اسی لئے:

  • ہر تقوی سید رضوی بھی ہے اور ہر رضوی تقوی نہیں ہے،
  • ہر رضوی، موسوی ہے، لیکن ہر موسوی رضوی نہیں،
  • ہر موسوی حسینی ہے لیکن ہر حسینی موسوی نہیں،
  • ہر حسینی فاطمی ہے لیکن ہر فاطمی حسینی نہیں،
  • ہر فاطمی علوی ہے لیکن ہر علوی فاطمی نہیں،
  • ہر علوی طالبی ہے لیکن ہر طالبی علوی نہیں. [8]
  • ہر طالبی ہاشمی ہے لیکن ہر ہاشمی طالبی نہیں.

پہلی صدیوں میں سادات کی اوضاع

متوکل کی خلافت تک، بنی امیہ اور عباسیوں کے زمانے میں سادات پر بہت ظلم و ستم ہوئے، بعض تو اپنی سیادت کو چھپا کر رکھتے تھے. یا دور کے علاقوں کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہو جاتے تھے.

سادات کی ہجرت

سادات اپنے زمانے کے حالات کے مطابق مختلف ممالک جیسے ایران، آسیا صغیر، یمن، شام اور شمال افریکہ کی طرف ہجرت کرتے تھے. ایران میں اسلام آنے کے بعد پہلی صدی، بنی ہاشم کا پہلا دستہ ایران میں داخل ہوا. یہ مہاجرت دوسری صدی کے وسط میں کچھ زیادہ، اور پھر دوسری صدی کے آخر میں بہت زیادہ ہو گئی. اس زمانے میں، سادات کے بہت زیادہ گروہ ایران کے مختلف شہروں جیسے: ارجان، قم، شیراز، جبل، ہمدان، طبرستان اور دوسرے مختلف شہروں کی طرف ہجرت کر کے آئے.

درج ذیل عوامل کی وجہ سے سادات نے ایران کی طرف ہجرت کی:

اموی اور عباسی خلفاء کا ظلم و ستم

حاکموں کا حد سے زیادہ ظلم، عراق اور حجاز میں شکنجوں کے علاوہ قتل و غارت اتنی زیادہ تھی. معاویہ، یزید بن معاویہ، مروان بن حکم، عبیداللہ بن زیاد، حجاج بن یوسف اور عباسیوں نے سادات کے قتل عام کا حکم دے رکھا تھا.[9]

حمید بن قحطبہ طائی طوسی کہتا ہے:

ایک رات ہارون نے مجھے بلایا اور حکم دیا کہ اپنی تلوار کو اٹھاؤ اور جو کچھ میرا نوکر تمہیں حکم دے وہی انجام دو. اس کا نوکر مجھے ایک گھر لے گیا جس کے تین کمرے تھے اور صحن میں ایک کنواں تھا. نوکر نے پہلے کمرے کا دروازہ کھولا. اس کمرے میں ٢٠ افراد موجود تھے، نوکر نے مجھے کہا: یہ سب علی اور فاطمہ کی اولاد سے ہیں اور امیرالمومنین! کا حکم ہے کہ ان سب کو قتل کر دو میں نے ایک کے بعد دوسرے کو قتل کیا اور نوکر نے ان کے بدن اور سروں کو کنویں میں ڈال دیا. اس کے بعد دوسرے کمرے کا دروازہ کھولا. اس کمرے میں بھی علی اور فاطمہ کی اولاد میں سے ٢٠ افراد موجود تھے. ان کے ساتھ بھی وہی کیا جو پہلے والوں کے ساتھ کیا تھا. پھر نوکر نے تیسرے کمرے کا دروازہ کھولا اس میں بھی ٢٠ سید افراد موجود تھے ان کے ساتھ بھی وہی کیا. ان میں سے ایک بوڑھا مرد بچ گیا اس نے مجھے کہا اے بد بخت انسان! خدا تمہیں ہلاک کرے، قیامت کے دن ہمارے جد رسول خداؐ کے سامنے کیا بہانہ کرو گے؟! میرے ہاتھ کانپنے لگ گئے اور میرا گوشت بدن سے جدا ہونے لگا. نوکر نے مجھے غضب آلود نگاہ سے دیکھا میں ڈر گیا اور اسے بھی قتل کر دیا. [10]

مقاتل الطالبیین میں ابراہیم بن ریاح لکھتا ہے:

جب ہارون الرشید یحیحی بن عبداللہ بن حسن بن حسن کے پاس گیا اور وہ زندہ تھا اسی حالت میں اس کے اوپر ایک بہت بڑا ستون بنا دیا. ہارون الرشید نے یہ کام اپنے جد منصور سے ارث میں لیا. [11]

علویوں کا قیام

اپنے زمانے کے حاکم کے خلاف قیام کی مختلف وجوہات اور عناوین، جیسے:

  • زید بن علی کا قیام ہاشم بن عبدالملک کے خلاف. زید اور اس کے بیٹے یحیٰ کے قیام کی وجہ سے امویوں کا کینہ اور بھی بڑھ گیا. اور جب تک وہ خلافت کی کرسی پر تھے اس وقت تک بنی ہاشم کو آزار و اذیت دیتے رہے.
  • محمد بن عبداللہ بن حسن اور اس کے بھائی ابراہیم کا حجاز اور عراق میں منصور دوانیقی کے خلاف قیام اور ان کے بھائی یحیی نے ایران کی طرف فرار کیا جہاں پر ہارون الرشید کی حکومت کے خلاف قیام کیا اس کا قیام ایران کے شہر گیلان، مازندران اور قزوین کے علاقوں میں تھا. (م١٩٣ق
  • عیسی بن زید بن سجادؑ کا عباسی حکومت کے خلاف قیام،
  • ابن طباطبا کا کوفہ میں قیام.

امام رضاؑ کی ولایت عہدی کا دور

امام رضاؑ نے جب ولایت عہدی کو سھنبالا، تو مدینہ کے سادات کو خط لکھا اور انکو ایران آنے کی دعوت دی. [12] اس کے حضرت معصومہؑ ان کے بھائیوں اور بہنوں اور بہت سے دوسرے سادات کا ایران آنا شروع ہوا. [13]

شیعی حکومت

ایران کے شہر طبرستان میں شیعی علوی حکومت کی تشکیل کی ایک وجہ سادات کو ایران کے شمال کی طرف جلب کرنا ہے. [14]

نقابت کا دائرہ

سادات کی نقابت سنہ ٢٥١ق، عباسی حکومت کے زمانے جب مستعین عباسی خلیفہ تھا اور اس کے حکم سے شروع ہوئی اور اور اسے عباسی حکومت کے آئین اور تشکیلات کا جزء قرار دیا گیا. اس تشکیل میں سادات کا نام ثبت کیا گیا، اور بعض شرعی امور کا اختیار انہیں دیا گیا. [15] پہلا نقیب سادات، شریف ابوعبداللہ حسین بن ابی الغنائم احمد جو کہ نہرشابوسی کے نام سے مشہور تھا، وہ زید شہید اور آپکے بھتیجے یحییٰ بن عمر کی اولاد سے تھا جس نے سنہ ٢٥٠ ق میں قیام کیا. ابوعبداللہ بن حسین نے جب مستعین عباسی کی کمزوری کو دیکھا تو اس کے پاس گیا اوراسے علوی سادات کے نقابت کی تشکیل کا مشورہ دیا. اور پہلے نقیب سادات نے علوی کتاب جس کا نام الغصون فی شجرۃ بنی یاسین ہے اس کی تالیف کی. [16][17]

جعلی سیادت

نقابت کی تشکیل کے بعد کچھ افراد نے جھوٹ بول کر خود کو سادات کہنا شروع کر دیا. اسی لئے علم انساب میں سید اور غیر سید کی شناخت کے لئے ایک کتاب تدوین ہوئی. ابن طباطبا علوی اصفہانی نے، منتقلہ الطالبیہ کے نام سے ایک کتاب تالیف کی اور یہ کتاب تالیف کرنے کی وجہ یہی تھی کہ جعلی سادات کو کنٹرول کیا جائے. [18]

سادات کو پہچاننے کی نشانی

تاریخ میں سادات اور علویوں کے لئے کچھ نماد اور اشعار تھے جس کی وجہ سے انکو پہچاںا جاتا تھا. علوی سادات ہونے کی نشانی یہ تھی کہ یا تو انکے نام مخصوص ڈائری جس کا نام نقابت تھا اس میں موجود تھے، یا پھر وہ اپنے لمبے بال جو چہرے کے دونوں طرف گرے ہوئے تھے ان سے پہچانے جاتے تھے. [19]

آجکل کے زمانے میں سید عالم کالے رنگ کے عمامے اور دوسرے عام سید کپڑے، ٹوپی یا سبز شال سے پہچانے جاتے ہیں. اگرچہ یہ قراردادی نشانیاں ہیں لیکن روائی اور تاریخی دلیل بھی موجود ہے کہ جو درج ذیل ہے.

سبز لباس

  • بہت پہلے سے سبز لباس اہل بیتؑ سے منسوب تھا اور اس کی دلیل شاید وہ روایت ہوں جن میں اہل بیتؑ نے سبز لباس پہننے کی طرف اشارہ کیا ہے.
  • اس روایت کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے، جب پیغمبرؐ کا نطفہ منعقد ہونے کے وقت جبرئیل نے کعبہ پر سبز رنگ کا پرچم لگایا. [20] اور ایک اور گزارش کے مطابق حضرت محمدؐ نے حضرت خدیجہؑ کے ساتھ شادی کے وقت سبز رنگ کا لباس پہنا ہوا تھا.[21]
  • اسی طرح دیکھا گیا ہے کہ پیغمبرؐ طواف کے وقت سبز لباس پہنتے تھے. [22]
  • اسی طرح پیغمبرؐ کے لئے جنت سے دو لباس بھیجے گئے اور پیغمبرؐ نے سبز رنگ کا لباس امام حسنؑ کو اور سرخ رنگ کا لباس امام حسینؑ کو دیا اور پیغمبرؐ اور حضرت جبرئیل دونوں نے گریہ کیا. [23]
  • تاریخی گزارشات سے ملتا ہے کہ مامون نے امام رضاؑ کی ولایت عہدی کے بعد تمام دولت مدار افراد کو حکم دیا کہ وہ کالا رنگ جو عباسیوں سے منسوب تھا اسے ختم کر کے علویوں کو سبز رنگ کا لباس دیا جائے. [24]اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مامون کے زمانے سے پہلے بھی سبز رنگ سادات کے لئے منسوب تھا.

ممالیک کی حکومت کے دوران (حکومت: ٦٤٨-٩٢٣ق) ملک اشرف مملوکی نے سادات کی پہچان اور انکی حرمت کا خیال رکھنے کے لئے حکم دیا کہ ان کے سروں پر سبز رنگ کی نشانی رکھی جائے.[25]

کالا عمامہ

سید علماء اپنے سر پر کالا عمامہ رکھتے ہیں، اس کالے عمامے کے بارے میں درج ذیل گزارش موجود ہیں:

  • امام صادقؑ نے فرمایا: جس دن پیغمبرؐ نے مکہ کو فتح کیا اور مسجد الحرام میں داخل ہوئے تو آپؐ کے سر پر کالا عمامہ تھا.[26]
  • عبداللہ بن سلیمان اپنے والد گرامی سے نقل کرتا ہے: امام زین العابدینؑ اس حالت میں مسجد میں داخل ہوئے جب آپؑ کے سر پر کالے رنگ کا عمامہ تھا.[27][28][29]

بعض کا عقیدہ ہے کہ صفوی شاہ، نے سادات کے لئے کالے عمامے کی نشانی رکھی، تا کہ وہ اپنے جد امام حسینؑ کی مظلومیت پر ہمیشہ عزادار رہیں، [30] لیکن بعض گزارش کے مطابق سید رضی طالبیین کے درمیان وہ پہلا فرد تھا جس نے کالے رنگ کی علامت استعمال کی: وھو اول طالبی جعل علیہ السواد. [31][32][33]

خاص فقہی احکام

سادات کے لئے فقہ میں بعض خاص احکام موجود ہیں. خمس کا کچھ حصہ فقیر سادات سے متعلق ہے جسے سہم سادات کہتے ہیں. اور غیر سید افراد سید افراد کو زکات نہیں دے سکتے.[34] اور مسلمانوں کے درمیان مشہور روایات، میں اس منع کی دلیل، انکے اعلیٰ مقام کی وجہ سے ہے.[35] فقہی نظر میں، سادات کے احکام ان کے لئے ہیں جن کے والد کا نسب ہاشم بن عبدمناف سے ملتا ہو اور اگر کسی کی والدہ سیدہ ہو تو، یہ احکام اس کے لئے نہیں ہیں.

سادات کا شجرہ نامہ

کسی بھی خاندان کا شجرہ نامہ یا نسب نامہ اس کے والدین اور نیاکان کے نام سے ہوتا ہے جیسے ایک درخت کو دیکھا جائے کہ اس کی اصل جڑ ہے، اور آگے سے اس کی اولاد اور اولاد وہ سب اس کی شاخیں ہیں.[36] جہاں تک کہ ہمیشہ کوشش کی گئی ہے کہ سادات کی اصلیت مشخص ہو، اسی لئے سادات کی جہت معین کرنے کے لئے شجرہ نامہ تدوین کیا جاتا ہے. اور یہ شجرہ نامہ ہر ایک سید کے پاس ہوتا ہے. مثال کے طور پر رضوی سادات کے متعلق جو شجرہ نامہ ہے وہ آستان قدس رضوی کے عجائب گھر میں رکھا گیا ہے. [37]

سادات کا احترام

پیغمبرؐ سے منسوب ہونے کی وجہ سے ہمیشہ مسلمانوں کی نگاہ میں سادات کا خاص احترام رہا ہے. جیسے کہ ابودلف نے اپنی عمر کے آخری حصے میں کچھ سادات کو بلا کر انکو کچھ رقم ہدیہ کی تھی اور ان سے درخواست کی کہ پیغمبرؐ تک اپنا شجرہ نامہ لکھ کر اسے دیں تا کہ وہ اسے اپنے کفن میں رکھ لے.[38] جب تاج الدین آوجی کے دشمن اسے قتل کرنے کے لئے آئے تو کیونکہ ان کا حاکم سادات کو قتل نہیں کرتا تھا اس لئے اس کے دشمنوں نے اس کے شجرہ نامہ کو جعلی قرار دیا اور اس طریقے سے حاکم سے اس کے قتل کا حکم لیا. [39]


حوالہ جات

  1. عروة الوثقی، ج۲، کتاب الخمس فصل ۲، مسئلہ ۳.
  2. جامع الانساب، ص۵-۳۴
  3. تاریخ بیہق، متن، ص۵۴
  4. تاریخ قم، ص: ۲۰۸
  5. تاریخ قم، ص۲۰۹
  6. صورة الارض، ج‏۱، ص۲۴۰
  7. امع الانساب، ۵-۳۴
  8. المعقبون، ج۱، ص ۲۱
  9. تاریخ الخلفاء، ص۲۴، ۲۵؛ وفیات الاعیان، ج۴، ص۱۳۷
  10. تاریخ الخلفاء، ص۲۴، ۲۵؛ وفیات الاعیان، ج۴، ص۱۳۷
  11. مقاتل الطالبیین، ص۳۲۰.
  12. تاریخ طبرستان و رویان و مازندران، ص۱۹۸.
  13. تاریخ طبرستان و رویان و مازندران، ص۱۹۸.
  14. تاریخ طبرستان و رویان و مازندران/ ۱۹۸.
  15. لذریعہ ج۱۶، ص۵۸.
  16. المجدی، ص۱۷۱
  17. الفخری، ص۴۱
  18. منتقلہ الطالبیہ، ص۳
  19. عبدالجلیل قزوینی، کتاب نقض، بی‌تا، بی‌جا، ص۶۲۹.
  20. تاریخ الخمیس فی أحوال أنفس النفیس، ج‏۱، ص:۱۸۵
  21. الأنوار فی مولد النبی، ص۳۴۱
  22. الطبقات‏ الکبری، ج‏۱، ص:۳۵۰
  23. بحار، ج‏۴۴، ص:۲۴۶
  24. ترجمہ تاریخ طبری، ج‏۱۳، ص:۵۶۶۰
  25. اشراف مکہ، ص۲۶
  26. وسائل الشیعہ ج۳ ص۳۷۹ ح ۱۰ باب ۳۰
  27. وسائل الشیعہ ج۳، ص۳۷۸ ح ۹
  28. سیر اعلام النبلاء ج۱، ص۳۷۲
  29. سیرہ ابن کثیر، ج۴، ص۷۸
  30. تاریخ مذہبی قم علی اصغر فقیہی ۱۱۵
  31. ابن عنبہ، عمدالطالب، ج1، 188-189
  32. الغدیر، ج۳، ص۲۹۳
  33. [٣٣معجم رجال الحدیث، ج۱۷، ص۲۴.
  34. نجفی، ج۱۵، ص۴۰۶ـ۴۱۵، ج۱۶، ص۱۰۴
  35. طوسی، تہذیب الاحکام، ج۴، ص۵۷ بہ بعد
  36. لغت نامہ دہخدا، مادّہ شجرہ نامہ
  37. http://aqlibrary.ir/Old/index.php?module=TWArticles&file=index&func=view_pubarticles&did=1153&pid=5
  38. وفیات الاعیان، ج3، ص240-241
  39. القاشانی، تاریخ اولجایتو، ص۱۳۱-