مندرجات کا رخ کریں

ام درداء

ویکی شیعہ سے
ام درداء
کوائف
مکمل نامخیرہ بنت حَدرَد اَسلَمی
کنیتام رومان، ام محمد
محل زندگیمدینہشام
مہاجر/انصارانصار
اقاربابو درداء (شوہر)
وفاتسنہ 30ھ، شام
مدفنقبرستان باب الصغیر
دینی معلومات
نمایاں کارنامےراوی حدیث


اُم‌ّ دَرداء رسول خداؐ کی صحابیہ اور راوی تھیں جو ایک بافضیلت، دانا، دیدہ ور اورعبادت گزار خاتون کے طور پر مشہور تھیں۔ انہوں نے رسول خداؐ سے براہ راست یا اپنے شوہر ابو درداء سے کئی احادیث نقل کی ہیں اور بعض تابعین نے بھی ان سے حدیثیں نقل کی ہیں۔ ان سے منقول احادیث میں شراب نوشی کے منفی اثرات، میزان اعمال میں خوش اخلاق کا مقام اور دوسروں کے لیے دعا کی اہمیت جیسے عناوین شامل ہیں۔

ام درداء نے عثمان کے دور خلافت میں سنہ 30 یا 31 قمری ہجری میں وفات پائی۔

اوصاف اور مقام

ام درداء پیغمبرخداؐ کی صحابیہ اور آپؐ کی احادیث کے راویوں میں شمار ہوتی ہیں۔[1] کہتے ہیں کہ وہ ایک نیک، دیدہ ور، دانا اور عبادت گزار خاتون تھیں۔[2] کہا جاتا ہے کہ ان کا اصل نام خیرہ تھا جو ابوحَدْرَد اَسلَمی کی بیٹی تھی۔[3] ان کی مشہور کنیت ام درداء کبری تھی[4] اور ام دردا اور بلال کے نام سے بھی مشہور ہیں۔[5] تاہم، دوسرے ناموں جیسے کریمہ،[6] سَلامہ،[7] اسی طرح ام‌ رومان[8] اور ام‌ محمد جیسی کنیت سے بھی مشہور تھیں۔[9]

منقول ہے کہ ام درداء اپنے شوہر ابو درداء کی حد سے زیادہ عبادت اور دنیا سے کنارہ کشی سے نارضایتی کا اظہار کرتی تھیں۔ سلمان فارسی، جن کا ابو درداء کے ساتھ عہد اخوت باندھا ہوا تھا، جب اس ماجرے سے واقف ہوئے تو ابو درداء کو سمجھایا کہ عبادت میں تعادل کا خیال رکھتے ہوئے اپنے خاندان اور خود اپنے اعضاء و جوارح کے حقوق کا خیال رکھیں۔[10] بعض روایات کے مطابق سلمان فارسی کے اس اقدام کی پیغمبرخداؐ نے تائید فرمائی۔[11]

ام درداء اور ان کا شوہر پہلے مدینہ میں رہتے تھے[12] لیکن بعد میں شام کی طرف ہجرت کرگئے، جہاں وہ تا حیات مقیم رہے۔[13] ام درداء کا انتقال ابو درداء سے دو سال قبل عثمان بن عفان کے دور خلافت میں شام میں ہوا۔[14] ان سے منسوب مقبرہ دمشق کے باب الصغیر قبرستان میں واقع ہے،[15] البتہ بعض مورخین کا خیال ہے کہ یہ قبر ام درداء صغری کی ہے۔[16] ابو درداء کی وفات بھی 32 ہجری[17] یا 33 ہجری میں ہوئی۔[18]

ام درداء سے منقول روایات اور ان سے روایت نقل کرنے والے راوی

ام‌ درداء پیغمبرخداؐ سے نقل کرتی ہیں:

جب کوئی شخص اپنے دینی بھائی کے لیے اس کی غیر موجودگی میں دعا کرتا ہے تو اس کی دعا قبول ہوتی ہے۔ فرشتہ الہی کہتا ہے کہ تمہاری دعا بھی قبول ہوگی۔(ابن‌ اثیر، اسد الغابہ، 1424ھ، ج7، ص316۔)

ام درداء نے براہ راست یا اپنے شوہر کے ذریعے سے رسول خداؐ سے روایتیں نقل کی ہیں۔[19] تابعین میں سے عبد اللہ بن باباہ، معاذ بن اَنس، طلحہ بن عبید اللہ،[20] صفوان بن عبد اللہ، میمون بن مِہران، زید بن اَسلم اور ام درداء صغری (ابو درداء کی دوسری زوجہ)[21] جیسے راویوں نے ام درداء سے روایات نقل کی ہیں۔[22]

ام درداء سے تین[23] سے پانچ کے درمیان حدیثیں منسوب کی گئی ہیں۔[24] ان سے نقل شدہ احادیث میں چالیس دن تک شرابی سے خدا کی ناراضگی، عورتوں کو عفت و حیا کی رعایت کرنے کی ضرورت، اعمال کے حساب و کتاب میں اچھے اخلاق کی اہمیت اور دوسروں کے لیے ان کی غیر موجودگی میں دعا کی قبولیت جیسے موضوعات شامل ہیں۔[25]

حوالہ جات

  1. نیشابوری، المنفردات و الوحدان، 1408ھ، ص88۔
  2. ابن‌عبدالبر، الاستیعاب، 1412ھ، ج4، ص1935۔
  3. احمد بن حنبل، الاسامی و الکنی، 1406ھ، ص36؛ ابن‌حبان، الثقات، 1393ھ، ج3، 116۔
  4. احمد بن حنبل، الاسامی و الکنی، 1406ھ، ص36؛ ابن‌حبان، الثقات، 1393ھ، ج3، 116۔
  5. ابونعیم اصفہانی، معرفۃالصحابہ، 1419ھ، ج4، ص2102۔
  6. ابن‌حبان، الثقات، 1393ھ، ج3، 116۔
  7. زرکلی، الاعلام، 2002ء، ج2، ص328۔
  8. ابن‌کثیر، التکمیل، 1432ھ، ج4، ص338۔
  9. ابونعیم اصفہانی، معرفۃالصحابہ، 1419ھ، ج4، ص2102۔
  10. بخاری، صحیح البخاری، 1414ھ، ج2، ص693؛ ابن ابی‌شیبہ، المصنف، 1436ھ، ج19، ص377۔
  11. بخاری، صحیح البخاری، 1414ھ، ج2، ص693۔
  12. زرکلی، الاعلام، 2002ء، ج2، ص328۔
  13. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1421ھ، ج9، ص396۔
  14. ابن‌عبدالبر، الاستیعاب، 1412ھ، ج4، ص1935۔
  15. ابن‌عساکر، تاریخ دمشق، 1415ھ، ج2، ص418۔
  16. نووی، تہذیب الاسماء و اللغات، دار الکتب العلمیہ، ج2، ص228۔
  17. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1421ھ، ج4، ص357۔
  18. ابونعیم اصفہانی، معرفۃالصحابہ، 1419ھ، ج4، ص2102۔
  19. ابن‌عبدالبر، الاستیعاب، 1412ھ، ج4، ص1935۔
  20. ابن‌عساکر، تاریخ دمشق، 1415ھ، ج69، ص114۔
  21. ابن‌عبدالبر، الاستیعاب، 1412ھ، ج4، ص1935۔
  22. نیسابوری، المنفردات و الوحدان، 1408ھ، ص88۔
  23. ابن‌جوزی، کشف‌المشکل، دارالوطن، ج4، ص490۔
  24. «ام‌الدرداء الکبری.. الفقیہ و معلمۃ القرآن»، وبگاہ الاتحاد۔
  25. ابن‌اثیر، اسدالغابہ، 1424ھ، ج7، ص316۔

مآخذ

  • ابن‌ ابی‌ شیبہ، عبد اللہ بن محمد، المصنف، ریاض، دار کنوز اشبیلیا للنشر و التوزیع، چاپ اول، 1436ھ۔
  • ابن‌ اثیر، علی بن محمد، اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ، تحقیق: علی محمد عوض و عادل احمد، بیروت،‌ دارالکتب العلمیہ، چاپ دوم، 1424ھ۔
  • ابن‌ جوزی، عبد الرحمن بن علی، المشکل من حدیث الصحیحین، تحقیق علی حسین البواب، ریاض، دارالوطن، بی‌تا۔
  • ابن‌ حبان، محمد، الثقات، حیدرآباد دکن، دائرۃ المعارف العثمانیہ، چاپ اول، 1393ھ۔
  • ابن‌ سعد، محمد، الطبقات الکبری، تحقیق علی محمد عمر، قاہرہ، مکتبۃ الخانجی، چاپ اول، 1421ھ۔
  • ابن‌ عبدالبر، یوسف بن عبداللہ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، تحقیق: علی محمد بجاوی، بیروت، دارالجبیل، چاپ اول، 1412ھ۔
  • ابن‌ عساکر، علی بن الحسن، تاریخ دمشق، تحقیق: عمر بن غرامہ عمروی، بیروت، دارالفکر للطباعۃ و النشر، 1415ھ۔
  • ابن‌ کثیر، اسماعیل بن عمر، التکمیل فی الجرح و التعدیل و معرفۃ الثقات و الضعفاء و المجاہیل، تحقیق: شادی آل‌نعمان، یمن، مرکز النعمان للبحوث و الدراسات الاسلامیہ، چاپ اول، 1423ھ۔
  • احمد بن حنبل، الاسامی و الکنی، تحقیق: عبداللہ بن یوسف جدیع، کویت، مکتبۃ دار الاقصی، چاپ اول، 1406ھ۔
  • «ام‌الدرداء الکبری.. الفقیہ و معلمۃالقرآن»، وبگاہ الاتحاد، تاریخ درج مطلب: 28 آذر 1392شمسی، تاریخ بازدید: 6 آذر 1403ہجری شمسی۔
  • دارقطنی، علی بن عمر، المؤتلف و المختلف، تحقیق: موفق بن عبداللہ، بیروت، دار الغرب الاسلامی، چاپ اول، 1406ھ۔
  • بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، دمشق، دار ابن‌کثیر، چاپ پنجم، 1414ھ۔
  • زرکلی، خیرالدین بن محمود، الاعلام، بیروت، دار العلم للملایین، چاپ پانزدہم، 2002ء۔
  • نووی، محیی‌الدین یحیی، تہذیب الاسماء و اللغات، بیروت، دار الکتب العلمیہ، بی‌تا۔
  • نیسابوری، مسلم بن حجاج، المنفردات و الوحدان، تحقیق: عبدالغفار بنداری و سعید زغلول، بیروت، دار الکتب العلمیہ، چاپ اول، 1408ھ۔