اسد عاشورا

ویکی شیعہ سے

اسد عاشورا یا مجالس اسد، عزاداری کی ایک رسم ہے جو بلتستان میں ہر سال شمسی کیلنڈر کے مطابق برج اسد کے پہلے اور عیسوی کیلنڈر کے مطابق جولائی کے آخری عشرے میں سنہ 61 ہجری کو پیش آنے والے واقعہ کربلا کی یاد میں منائی جاتی ہے۔ عموما پورے بلتستان میں مظلوم کربلاء امام حسینؑ اور آپ کے اصحاب کی قربانی کی یاد ہر سال محرم الحرام کے علاوہ مذکورہ ایام میں بھی کم و بیش دس دن عزاداری کی مجلسیں منقد کی جاتی ہیں جس کے آخر میں 31 جولائی کو پورے بلتستان میں "اسد عاشورا" کے عنوان سے ماتمی جلوس نکالے جاتے ہیں۔ اسد عاشورا منانے کی تاریخ اور وجوہات کے بارے میں مختلف آراء پائے جاتے ہیں۔ بعض مآخذ میں کشمیر اور ہنزا میں بھی اسد عاشورا منانے کا تذکرہ ملتا ہے۔

تاریخی پس منظر

دنیا کے تمام مسلمان بالخصوص شیعہ حضرات محرم الحرام کے ایام کو ایام عزاء کے طور پر مناتے ہیں جبکہ بلتستان کے شیعہ، محرم الحرم کے علاوہ شمسی کیلنڈر کے مطابق برج اسد کے پہلے عشرے کو بھی ایام عزاء کے طور پر مناتے ہیں۔ ان ایام کے آخر میں جلوسِ عزاء بھی برآمد ہوتے ہیں جو اسد عاشورا کے نام سے مشہور ہے۔[1] اسد عاشورا منانے کی تاریخ اور وجوہات کے بارے میں مختلف آراء پیش کئے جاتے ہیں:

  1. سنہ 1160 ہجری کے اختتام پر کشمیر سے آنے والے ایک عالم ملا محمد مہدی نے بلتستان کے موضع کھرمنگ میں اس کا آغاز کیا۔[2]
  2. موسم کے اعتبار سے بلتستان سرد علاقہ ہے جبکہ سن 61 ہجری میں میدان کربلا پر آگ برس رہی تھی اس احساس نے اسد عاشورا منانے کی سوچ کو تقویت دی۔[3]
  3. ابتداء میں مقامی سطح پر کوئی عالم دستیاب نہیں ہوتا تھا جو محرم کی مجالس پڑھ سکے جبکہ مجالس کے لئے خطیب کشمیر ہی سے آتے تھے ایسے میں جب ایام محرم موسم سرما میں آجاتے تھے اور برفباری کی وجہ سے کشمیر کی جانب آمد و رفت کے راستے بند ہو جاتے تھے، تب گرمیوں میں راستے کھلنے کے بعد جب کشمیر سے مبلغین آتے تھے تو مجالس منعقد کی جاتی تھیں رفتہ رفتہ یہ سلسلہ مستحکم ہوتا گیا اور یوں اسد کا عاشورا منانے کی ابتداء ہوئی۔[4]
  4. بلتستان میں غربت اور وسائل کی کمیابی کو بھی اسد عاشورا منعقد کرنے کا سبب قرار دئے جاسکتے ہیں کیونکہ یہاں نئی فصل جولائی میں پک کر تیار ہوتی ہے ایسے میں اگر ایام محرم ابتدائے بہار میں آجاتے تھے تو یہاں کے عزادار غربت کی وجہ سے دل کھول کر تبرک کا اہتمام نہ کر پاتے تھے چنانچہ ایام محرم کے ساتھ ساتھ مالی آسودگی کے ایام میں بھی عزاداری کا انعقاد رواج پکڑتا گیا۔[5]
  5. مجالس سید الشہداء باعثِ ترویج شریعت و ذریعہ تبلیغ دین ہیں چنانچہ عوامی سطح پر اسد عاشورا منانے کو پذیرائی ملی۔ بعض مقامات پر یہ روایت بھی زبانِ زد عام ہے کہ قیام پاکستان سے کچھ عرصہ قبل بعض دیہاتوں نے اسد عاشورا منعقد کرانا بند کردیا جس سے ان علاقوں میں چیچک اور طاعون کی وباء پھیل گئی یہاں تک کہ انہوں نے اس سلسلہ خیر کا پھر سے آغاز کیا اور وہ دیہات محفوظ ہوگئے۔[6]
  6. "اسد عاشورا" مقبوضہ کشمیر میں بھی منایا جاتا ہے جبکہ کم و بیش دو سو سال تک ہنزہ میں بھی اس کا انعقاد ہوتا رہا ہے۔ [7]

زمان و مکان

اسد عاشورا گرمیوں کے موسم میں شمسی کلنڈر کے مطابق برج اسد کے پہلے دس ایام میں مناتے ہیں جو عیسوی کلنڈر کے مطابق جولائی کا آخری عشرہ بنتا ہے۔[8]

مکان کے اعتبار سے مشہور یہ ہے کہ عزاداری کی یہ رسم پاکستان کے شمال میں واقع شیعہ اکثریتی علاقہ بلتستان میں منائی جاتی ہے۔[9] لیکن بعض مآخذ میں کشمیر اور ہنزا میں بھی اسد عاشورا منانے کی بات آئی ہے۔[10] تاریخ شیعیان کشمیر کے مصنف نے ملا محمد مہدی کی سوانح حیات میں لکھا ہے کہ آپ بلتستان کے ساتھ ساتھ سرینگر، چوندپوره اور گونڈ ماگام مبں بھی عزاداری برگزار کرتے تھے جو مجلس اسد کے نام سے موسوم ہے۔[11] ایک اندازے کے مطابق اسکردو میں اسد عاشورا میں ملک بھر سے ڈیڑھ لاکھ سے زائد عزادار شریک ہوتے ہیں۔[12]

حوالہ جات

  1. بلتستان میں ایام اسد کی مجالس کا آغاز، یکم اگست کو اسد عاشورا منایا جائیگا
  2. گلزار، غلام محمد، تاریخ شیعیان کشمیر، مرکز بین المللی ترجم, و نشر المصطفی، سال 1393، ص 435۔
  3. بلتستان میں ایام اسد کی مجالس کا آغاز، یکم اگست کو اسد عاشورا منایا جائیگا
  4. بلتستان میں ایام اسد کی مجالس کا آغاز، یکم اگست کو اسد عاشورا منایا جائیگا
  5. بلتستان میں اسد عاشورا
  6. بلتستان میں اسد عاشورا
  7. بحوالہ کتاب فارسی۔ تاریخ عہد عتیق ریاست ہنزہ از قدرت اللہ بیگ
  8. بلتستان میں ایام اسد کی مجالس کا آغاز، یکم اگست کو اسد عاشورا منایا جائیگا
  9. بلتستان میں اسد عاشورا، سہ ماہی روضہ حسینی، شیخ محمد حسن جعفری کا انٹرویو
  10. بحوالہ کتاب فارسی۔ تاریخ عہد عتیق ریاست ہنزہ از قدرت اللہ بیگ۔
  11. گلزار، غلام محمد، تاریخ شیعیان کشمیر، مرکز بین المللی ترجم, و نشر المصطفی، سال 1393، ص 435-436۔
  12. بلتستان میں ایام اسد کی مجالس کا آغاز، یکم اگست کو اسد عاشورا منایا جائیگا

مآخذ