مقام رأس الحسین

ویکی شیعہ سے
ضریح مقام رأس الحسین، مسجد حنانہ (نجف)

مقام رأسُ الحُسَین اس جگہے کو کہا جاتا ہے جہاں امام حسینؑ کے سر مبارک کو دفنایا گیا ہے یا کچھ عرصے کے لئے وہاں محفوظ رکھا گیا ہے۔ شیعہ مذہب کے مشہور علما کے مطابق امام حسینؑ کے سر اقدس کو کربلا میں ہی آپؑ کے جسد مبارک سے ملحق کیا گیا اور وہیں اس کی تدفین کی گئی ہے۔ مدینہ، شام، رقہ اور قاہرہ کے شہروں میں بھی مقام راس الحسینؐ کے طور پر مقبرے موجود ہیں۔

رأس الحسینؑ کے مقامات

مقام رأس الحسینؑ سے مراد وہ مقامات ہیں جہاں تاریخی نقل کے مطابق امام حسینؑ کے سر اقدس کی تدفین کی گئی ہے یا کچھ عرصہ کے لیے آپؑ کے سر مبارک کو ان مقامات پر محفوظ رکھا گیا ہے اور بعد میں یہ مقامات زیارت گاہ میں تبدیل ہوچکے ہیں۔[1]

اسماعلیہ فرقہ کے داؤدی بوہرہ قاہرہ میں مقام رأس الحسین کی زیارت کرتے ہوئے۔۔۔
وہ چٹان جس پر بعض تاریخی مآخذ کے مطابق امام حسینؑ کے سر اقدس سے خون کے کئی قطرے ٹپکے؛ بعد میں اس پر "مسجد النقطہ" تعمیر کی گئی۔
جامع مسجد اموی(دمشق) میں مقام راس الحسینؑ
افغانستان کے صوبہ قندوز میں حضرت امام کی زیارتگاہ پر کندہ شدہ پتھر ہے
عسقلان (فلسطین) میں رأس الحسین کی زیارتگاہ

کربلا

تاریخی اعتبار سے مشہور قول کے مطابق امام حسینؑ کے سر مبارک کو عاشورا کے دن تن سے جدا کیا گیا اور روز اربعین آپؑ کے بدن سے ملحق کیا گیا۔[2] یہ قول شیعہ اور اہل سنت کے بہت سے مؤرخین اور مفکرین کا مشترکہ قول ہے۔[3] شیعہ علما میں سے شیخ صدوق، سید مرتضی، فتال نیشاپوری، جعفر بن محمد بن نمای حلی، سید ابن طاؤوس، شیخ بہائی اور علامہ مجلسی اسی نظریےکے قائل ہیں. شیخ صدوق؛[4] اور ان کے بعد فتال نیشاپوری[5] اس قول کے بارے میں لکھتے ہیں: «امام سجادؑ مخدرات عصمت کے ساتھ شام سے خارج ہوئے اور سر امام حسینؑ کو کربلا واپس لائے ہیں».

سید مرتضی لکھتے ہیں: «تاریخ کے مطابق امام حسینؑ کا سر مبارک کربلا میں ہی دفن کیا گیا ہے».[6]

ابن شہر آشوب نے سید مرتضیٰ کے اسی قول کو نقل کرنے کے بعد شیخ طوسی سے نقل کیا ہے کہ امام حسینؑ کا سر مبارک آپؑ کے جسد مبارک سے ملحق کیا گیا اور کربلا میں ہی اس کی تدفین کی وجہ سے روایات میں زیارت اربعین کی تاکید کی گئی ہے۔[7]

ابن نما حلی بھی مذکورہ قول کے تناظر میں لکھتے ہیں: «امام حسینؑ کے سر مبارک کے بارے میں قابل اعتماد قول یہ ہے کہ امامؑ کا سر مبارک آپؑ کی شہادت کے بعد مختلف شہروں میں پھرایا گیا اور آخر کار آپؑ کے جسد مبارک کے ساتھ ملحق کر کے دفن کیا گیا».[8]

سید ابن طاووس لکھتے ہیں: «امام حسینؑ کا سر مبارک کربلا واپس لایا گیا اور وہیں اس کی تدفین کی گئی».[9]

علامہ مجلسی نے روز اربعین زیارت اربعین مستحب قرار دی جانے والی دلائل میں سے ایک دلیل یہی قرار دی ہے کہ اس دن امام زین العابدینؑ نے اپنے بابا سمیت دیگر شہدائے کربلا کے سروں کو ان کے اجساد سے ملحق کیا۔[10] علامہ مجلسی نے کسی دوسری جگہ کچھاور اقوال کو ذکر مکرنے کےبعد لکھا ہے: «شیعہ علما کے مابین مشہور یہ ہےکہ امام حسینؑ کا سر مبارک آپؑ کے جسد مبارک کے ساتھہی دفن کیا گیا ہے».[11]

قزوینی نے بھی اسی قول کے مانند لکھا ہے: «ماہ صفر کی پہلی تاریخ کو بنی امیہ عید مناتے ہیں کیونکہ اس دن امام حسینؑ کے سر مبارک کو شام میں لایا گیا اور اس مہینے کی 20 تاریخ کو کربلا میں آپؑ کے جسد مبارک کے ساتھ الحاق کیا گیا».[12]

نجف

بعض احادیث کے مطابق امام حسینؑ کا سر مبارک نجف میں روضہ امام علیؑ کے جوار میں مدفون ہے۔[13] علامہ مجلسی نے انہی احادیث کو مد نظر رکھتے ہوئے لکھا ہے: «ان احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ سر امام حسینؑ، اسی طرح حضرت آدمؑ، حضرت نوحؑ، حضرت ہودؑ اور حضرت صالحؑ بھی روضہ امام علیؑ کے جوار میں مدفون ہیں؛ اس لیے مناسب یہ ہے کہ مرقد امام علیؑ کی زیارت کے بعد ان پاک ہستیوں کی بھی زیارت کی جائے»۔[14]

بعض مورخین کا خیال ہے کہ یہ احادیث سند اور مضمون کے لحاظ سے معتبر نہیں ہیں۔[15] علاوہ بر ایں، شیعہ علما میں سے کسی ایک نے بھی ان احادیث کے مضمون کو مورد اعتماد نہیں جانا ہے۔[16] بعض علما نے اس قول کو روایات کے مطابق قابل قبول قرار دیا ہے اور کربلا میں ہی سر امام حسینؑ کی تدفین کی شہرت کو مد نظر رکھتے ہوئے ان دو اقوال میں سے کسی ایک کے تعین کو ایک مشکل امر سمجھا ہے۔[17]

مسجد حنانہ میں رأس الحسین کے نام سے ایک مشہور مقام ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب شہدائے کربلا کے سروں کو کوفہ منتقل کیا گیا تو اس مقام پر امام حسینؑ کا سر مبارک زمین پر رکھا گیا۔ ایک روایت کے مطابق امام صادقؑ نے اس مقام کی زیارت کی ہے۔[18]

مدینہ

اہل سنت کے بعض روائی مآخذ میں نقل ہوا ہے کہ جب یزید نے کربلا کے اسیروں کو مدینہ بھیجا تو اس نے امام حسینؑ کا سر مبارک مدینہ میں اپنے کارندے عمرو بن سعید بن عاص کے پاس بھیجا۔ عمرو نے امام کےسر کو کفن پہنایا اور جنت البقیع میں دفن کیا؛ اہل سنت کے انہی مآخذ کے مطابق سر امام حسینؑ کو آپؑ کی والدہ فاطمہ الزہراء (س) کی قبر کے نزدیک دفن کیا گیا۔[19] بعض دیگر مآخذ کے مطابق سر امام حسینؑ کو بنی ہاشم کے ہاں بھیجا گیا اور انہوں نے سر اقدس کو غسل دیا، کفن پہنایا، نماز میت پڑھی اور جنت البقیع میں دفن کیا۔[20]

دمشق

بعض اقوال کے مطابق مدفن سر امام حسینؑ دمشق میں ہے؛ البتہ سر اقدس کی تدفین قصر میں ہوئی ہے یا کسی باغ میں یا کسی قبرستان میں؛[21] اس سلسلے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ کچھ دیگر تاریخی منابع کے مطابق امامؑ کے سر کی تدفین کی جگہ دروازہ فریادیس، مسجد جامع اموی میں قبلہ کے دائیں جانب دو ستونوں کے پاس اور مسلمانوں کی قبرستان؛ بتائی گئی ہے۔[22]

کوفہ

سبط بن جوزی کے نقل کے مطابق عمرو بن حریث مخزومی نے امام حسینؑ کا سر اقدس ابن زیاد سے لیا، اسے دھولیا، کفن پہنایا اور کوفہ میں اپنے گھر میں ہی دفن کیا۔ کوفہ میں ان کا گھر «دار الخَزّ» کے نام سے مشہور تھا۔[23]

رقہ

سبط بن جوزی کے اور نقل کے مطابق یزید نے امام حسینؑ کا سر مبارک عثمان بن عفان کے سر کے بدلے میں ابی معیط کے خاندان کے پاس بھیجا۔ خاندان ابی معیط نے کسی گھر میں امامؑ کے سر کو دفن کیا جو بعد میں جامع مسجد کا حصہ بنا۔[24]

مشہدالحسین یا مسجدالنقطہ

کہا جاتا ہے کہ مسجد النقطہ یا مشہدالنقطہ یا مشہد الحسین کو اس جگہ بنایا گیا ہے جہاں امام حسینؑ کا سر مبارک کربلا سے دمشق منتقلی کے دوران ایک پتھر پر رکھا گیا تھا اور سر مبارک سے خون کے چند قطرے اس پتھر پر گرے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ جب اسرائے کربلا کا قافلہ اور شہدائے کربلا کے سر ہائے مقدس عراق سے حلب پہنچے تو اس شہر کے مغرب میں کوہ جوشن اور «مارِت مَروثا» کے مندر کے پاس رک گئے۔ یہاں انہوں نے امام حسینؑ کا سر ایک چٹان پر رکھا، جب انہوں نے سر مبارک کو چٹان سے ہٹایا تو سر سے خون کے چند قطرے گِر چکے تھے۔[25] اس ماجرا کے بعد اہالیان حلب نے اس چٹان پر ایک زیارت گاہ تعمیر کی۔[26]

عسقلان

کچھ دیگر تاریخی مآخذ سے معلوم ہوتا ہے کہ فلسطین میں اہالیان عسقلان کا ایک گروہ یزید کے ساتھ تھا، انہوں نے یزید سے درخواست کی کہ امامؑ کا سر مبارک انہیں دیا جائے۔ یزید نے سر مقدس امام حسینؑ انہیں دیا۔ انہوں نے سر کو اپنے شہر میں دفن کردیا اور اس پر ایک مزار بنایا۔[27]

ایک اور تاریخی ذرائع کے مطابق المستنصر باللہ فاطمی کے دور خلافت میں، فاطمی خلفاء اور وزارت بدر الجمالی میں سے ایک شخص نے خواب میں دیکھا کہ امامؑ کا سر اقدس عسقلان شہر میں دفن کیا گیا ہے، خواب میں ہی دفن کی جگہ متعین کی گئی تو اسے نبش قبر کیا۔ بدر الجمالی نے اسی جگہ پر ایک بارگاہ اور دربار بنا لیا۔[28]

قاہره

مسلمان مؤرخ اور جغرافیہ نگار یاقوت الحموی کے مطابق قاہرہ میں ایک دربار ہے جہاں امام حسینؑ کا سر مبارک مدفون ہے۔[29] مشہور مورخ سبط بن جوزی نے ایک قول نقل کیا ہے جس کے مطابق امام حسینؑ کے سر کا محل دفن قاہرہ ہے۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ فاطمی دور خلافت کے حکمرانوں اور خلفاء نے سر امام حسینؑ کو عسقلان منتقل کیا اور پھر اسے قاہرہ لے جا کر وہاں دفن کیا۔ یہاں ایک عظیم بارگاہ تعمیر کی جو اب ایک زیارت گاہ کی شکل اختیار کر چکی ہے۔[30]

مرو

بعض تاریخی ذرائع کے مطابق، ابو مسلم خراسانی نے دمشق کا زمام اقتدار ہاتھوں میں لینے کے بعد، سر امام حسینؑ کو "مرو" میں منتقل کیا اور دار الامارہ میں دفن کیا۔[31]

شہر «حضرت امام صاحب»

افغانستان کے شمال میں واقع صوبہ قندوز کے شہر "حضرت امام صاحب" میں ایک زیارت گاہ ہے۔ زیارت گاہ کے دروازے پر نصب پتھر پر کندہ شدہ تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ واقعہ کربلا کے بعد امام حسینؑ کے سر مبارک کو شام کے شہر عسقلان منتقل کیا گیا تھا۔[32] چھٹی صدی ہجری میں، مصر کے فاطمی خلیفہ نے امام حسینؑ کے سر مبارک کو مصر منتقل کر دیا؛ لیکن اس کو دفن کرنے سے پہلے کچھ ترک لوگوں نے اسے تُخارستان(باختر) لے گئے اور اسے "اَرہنگ" نامی جگہ پر دفن کر دیا۔[33] اس جگہ (مزار شریف میں شاہ مردان زیارت گاہ کی طرح) ہر سال 30 مارچ کو زیارت گاہ کا پرچم بلند کیا جاتا ہے اور اس کے بعد شہر میں چالیس دن تقریب اور جشن کا سماں رہتا ہے۔ اس تقریب میں دور دراز جگہوں سے مختلف لوگ اور زائرین شرکت کرتے ہیں۔[34]

نظریات کا جائزہ

کتاب «تاریخ قیام و مقتل جامع سید الشهدا(ع)» میں ذکر کیا گیا ہے کہ سر امام حسینؑ کے محل تدفین کے بارے میں اکثر اقوال اہل سنت مآخذ میں پائے جاتے ہیں اور سند اور مضمون کے لحاظ سے بھی قابل اشکال ہیں۔ لہذا علمائے شیعہ نے سر امامؑ کو امامؑ کے جسد مطہر کے ساتھ ملحق کیے جانے والے اقوال کو قبول کیا ہے اور ان کا عقیدہ ہے کہ امام کا سر کربلا کے حرم امام حسینؑ ہی میں مدفون ہے۔[35] بعض تاریخی منابع کے مطابق، سر امام حسینؑ کا آپؑ کے جسد مبارک کے ساتھ الحاق اور دفن سنہ61ہجری قمری روز اربعین انجام پایا ہے۔[36]

حوالہ جات

  1. نگاهی نو به جریان عاشورا، 1390ہجری شمسی، ص364.
  2. گروهی از تاریخ‌پژوهان، تاریخ قیام و مقتل جامع سیدالشهدا، 1395ہجری شمسی، ج2، ص574 و587.
  3. سبط بن الجوزی، تذکره الخواص، 1418ھ، ص238.، گروهی از تاریخ‌پژوهان، تاریخ قیام و مقتل جامع سیدالشهدا، 1395ہجری شمسی، ج2، ص574.
  4. شیخ صدوق، الامالی، 1376ہجری شمسی، ص168.
  5. فتال نیشابوری، روضة الواعظین، منشورات الرضی، ص‌192.
  6. سید مرتضی، رسائل المرتضی، 1405ھ، ج3، ص130.
  7. ابن شهرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب، انتشارات علامه، ج4، ص77 «قال الطوسی رحمه ‌الله: و منه زیارة الاربعین».
  8. ابن نما حلی، مثیرالاحزان، 1406ھ، ص107.، وہ روایات جو دلالت کرتی ہیں کہ امام حسینؑ کے سر مبارک کے ساتھ ملی ہوئی سرخ مٹی میں شفاء ہے؛ اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ امام کا سر آپؑ کے جسد سے ملحق کیا گیا ہے۔ امام صادقؑ (ع) نے ایک روایت میں یونس بن رافع سے فرمایا: امام حسینؑ کے سر اقدس کے پاس ایک سرخ تربت ہے جس میں ہر درد اور بیماری (سوائے موت کے) کے لیے شفا ہے۔ یونس بن رافع کہتے ہیں کہ ہمیں ایک درہم کے برابر یہ تربت ملی اور اہل کوفہ اس خاک شفا سے اپنا علاج کرتے تھے۔ ابن قولویه، کامل الزیارات، 1356ہجری شمسی، ج1، ص279.
  9. سید ابن طاووس، اللهوف، انتشارات جهان، ص195.
  10. مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج 98، ص334.
  11. مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج 45، ص145.
  12. قزوینی، عجائب المخلوقات، 2006ء، ص70.
  13. مزید معلومات کےلیے ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، 1367ہجری شمسی، ج4، ص571؛ ابن قولویه، کامل الزیارات، 1424ھ، ص86-87.
  14. مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج97، ص251.
  15. نگاهی نو به جریان عاشورا، 1390ہجری شمسی، ص367-368؛ گروهی از تاریخ‌پژوهان، تاریخ قیام و مقتل جامع سیدالشهدا، 1395ہجری شمسی، ج2، ص588.
  16. گروهی از تاریخ‌پژوهان، تاریخ قیام و مقتل جامع سیدالشهدا، 1395ہجری شمسی، ج2، ص588.
  17. محمدی ری‌شهری، شهادت نامه امام حسین(ع)، 1395ہجری شمسی، ج2، ص420.
  18. طوسی، الامالی، ص628؛ مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج98، ص257.
  19. ابن سعد، الطبقات الکبری، 1968ء، ج5، ص238؛ خوارزمی، مقتل الحسین، 1423ھ، ج2، ص83؛ ابن جوزی، المنتظم، 1412ھ، ج5، ص344.
  20. نویری، نهایه الأرب، 1975ء، ج20، ص480.
  21. بلاذری، انساب الاشراف، 1417ھ، ج3، ص214.
  22. مقتل جامع، 1395ہجری شمسی، ج2، ص583.
  23. سبط بن الجوزی، تذکره الخواص، 1418ھ، ص233.
  24. سبط بن الجوزی، تذکره الخواص، 1418ھ، ص239.
  25. حسینی جلالی، مزارات اهل البیت و تاریخها، 1415ھ، ص236.
  26. غزی، نهرالذهب، 1419ھ، ج2، ص212.
  27. محمد بن علی عمرانی، انباء فی اخبارالخلفاء، ص16 به نقل از: مقتل جامع، 1395ہجری شمسی، ج2، ص584.
  28. گروهی از تاریخ‌پژوهان، تاریخ قیام و مقتل جامع سیدالشهدا، 1395ہجری شمسی، ج2، ص584.
  29. یاقوت حموی، معجم البدان ج5، ص166 به نقل از مقتل جامع، 1395ہجری شمسی، ج2، ص585.
  30. سبط بن جوزی، تذکره الخواص، 1418ھ، ص239.
  31. نویری، نهایة الارب، ج20، ص300 به نقل از مقتل جامع، 1395ہجری شمسی، ج2، ص586.
  32. گروتس‌ باخ، جغرافیای شهری در افغناستان، 1368ہجری شمسی، ص101.
  33. گروتس‌ باخ، جغرافیای شهری در افغانستان، 1368ہجری شمسی، ص101.
  34. گروتس‌ باخ، جغرافیای شهری در افغناستان، 1368ہجری شمسی، ص101.
  35. گروهی از تاریخ‌پژوهان، تاریخ قیام و مقتل جامع سیدالشهدا، 1395ہجری شمسی، ج2، ص588.
  36. گروهی از تاریخ‌پژوهان، تاریخ قیام و مقتل جامع سیدالشهدا، 1395ہجری شمسی، ج2، ص306-308 و 589.

مآخذ

  • ابن جوزی، عبدالرحمن بن علی، المنتظم فی تاریخ الملوک و الأمم، تحقیق محمد عبدالقادر عطا، بیروت، دار الکتب العلمیه، چاپ اول، 1412ھ.
  • اب‍ن‌ ج‍وزی‌، ی‍وس‍ف‌ ب‍ن‌ ق‍زاوغ‍ل‍ی‌، ت‍ذک‍ره‌ال‍خ‍واص‌، ق‍م‌، م‍ن‍ش‍ورات‌ ال‍ش‍ری‍ف‌ ال‍رض‍ی‌، 1418ھ/1376ہجری شمسی.
  • ابن سعد، الطبقات الکبری، تحقیق احسان عباس، بیروت، دار صادر، چاپ اول، 1968ء.
  • ابن شهرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب، قم، انتشارات علامه، بی‌تا.
  • ابن قولویه، جعفر بن محمد، کامل الزیارات، تحقیق جواد قیومی، قم، نشر الفقاهه، 1424ھ.
  • ابن نما حلی، جعفر بن محمد، مثیر الأحزان، تحقیق هاشم رسولی، قم، انتشارات مدرسه الامام مهدی، 1406ھ.
  • بلاذری، احمد بن یحیی، أنساب الأشراف، تحقیق سهیل زکار و ریاض الزرکلی، بیروت، دار الفکر، 1417ھ.
  • حسینی جلالی، محمدحسین، مزارات اهل البیت و تاریخها، مؤسسه اعلمی، بیروت،الطبعة الثالثه، 1415ھ/1995ء.
  • خوارزمی، موفق بن احمد، مقتل الحسین، تحقیق محمد سماوی، قم، انوار الهدی، چاپ دوم، 1423ھ.
  • سید ابن طاووس، اللهوف علی قتلی الطفوف، ترجمه سید احمد فهری زنجانی، تهران، انتشارات جهان، بی‌تا.
  • سید مرتضی، رسائل المرتضی، تحقیق مهدی رجائی، قم، دار القرآن الکریم، 1405ھ.
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، الأمالی، ترجمه محمدباقر کمره‌ای، تهران، انتشارات کتابچی، چاپ سوم، 1376ہجری شمسی.
  • غزی، کامل بالی حلبی، نهرالذهب فی تاریخ حلب، حلب، دارالقلم، 1419ھ.
  • فتال نیشابوری، محمد بن احمد، روضة الواعظین، تحقیق محمدمهدی خرسان، قم، منشورات الرضی، بی‌تا.
  • قزوینی، زکریا بن محمد، عجائب المخلوقات و غرائب الموجودات، قاهره، مکتبة الثقافة‌الدینیة، 2006ء.
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تهران، دار الکتب الاسلامیه، چاپ سوم، 1367ہجری شمسی.
  • گروتس باخ، اروین، جغرافیای شهری در افغانستان، ترجمه محسن محسنیان، مشهد، آستان قدس رضوی، 1368ہجری شمسی.
  • گروهی از پژوهشگران، نگاهی نو به جریان عاشورا، زیر نظر سید علیرضا واسعی، قم، بوستان کتاب، چاپ هفتم، 1390ہجری شمسی.
  • گروهی از تاریخ پژوهان، تاریخ قیام و مقتل جامع سید الشهدا، زیر نظر مهدی پیشوایی، قم، انتشارات مؤسسه آموزشی و پژوهشی امام خمینی، چاپ یازدهم، 1395ہجری شمسی.
  • مجلسی، محمدباقر، بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ.
  • محمدی ری‌شهری، محمد، شهادت نامه امام حسین(ع) بر پایه منابع معتبر، ترجمه مهدی مهریزی، عبدالهادی مسعودی و محمد مرادی، قم،‌ دارالحدیث، چاپ چهارم، 1395ہجری شمسی.
  • نویری، احمد بن عبدالوهاب، نهایه الأرب فی فنون الأدب، تحقیق محمد رفعت فتح الله، دار الکتب و الوثائق القومیة، 1975ء.