اہل قبلہ کی تکفیر
تکفیر اہل قبلہ یا تکفیر مسلمان کسی مسلمان کی طرف سے دوسرے کسی مسلمان فرد یا گروہ کی طرف کفر کی نسبت دینا ہے جس کے نتیجے میں ان کو قتل یا ان کے مال کو ضبط کر لیا جاتا ہے۔ وہابیوں نے توحید، زیارت، توسل جیسی تعلیمات کی اپنی خاص تفسیر کے سبب اپنے نظریاتی مخالف کچھ مسلمانوں خاص کر شیعوں کی تکفیر کی ہے۔
اکثر علماء اسلام، زبان پر شہادتیں جاری کرنے کو اسلام اور کفر کی حد بتاتے ہیں۔ اور اسلامی مذاہب کے پیروکاروں کی تکفیر کو جائز نہیں سمجھتے ہیں اسلام کی تاریخ میں ہمیشہ کچھ لوگوں نے اپنے مذہبی مخالفین کی تکفیر کی ہے۔ خوارج کے ذریعے حکمیت کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام کی تکفیر اور ابو بکر کے زمانے میں اہل رِدّہ کی تکفیر کرنا اہل قبلہ کی تکفیر کے سب سے پہلے نمونے ہیں۔ اس کے بعد بھی اسلامی مذاہب کے بعض پیروکاروں میں کم و بیش یہی فکر باقی تھی اور بہت سے لوگ اسی وجہ سے مارے گئے ہیں۔
البتہ تکفیر کا دائرہ صرف مذاہب میں منحصر نہیں تھا بلکہ کبھی کبھی کچھ فقہاء نے اپنے مذہب کے فلاسفہ اور عرفاء کی تکفیر کی ہے۔ اسی طرح خلق قرآن کے فتنے میں بھی قرآن کے خلق اور قرآن کے قدیم ہونے کے نظریے والوں نے ایک دوسرے کی تکفیر کی تھی اور یہ دونوں ہی اہل سنت میں سے تھے۔
وہابیت کے شکل پانے کے بعد اہل قبلہ کی تکفیر اور زیادہ رائج ہوگئی ہے۔ اسی طرح وہابی افکار کے اثرات اور انکی حمایت سے داعش جیسے گروہ تشکیل پائے ہیں جو کہ مسلمانوں اور خاص طور پر شیعوں کی تکفیر کرتے ہیں۔
تکفیر کے بارے میں بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں سے زیادہ تر کتابوں کو اس سوچ کی رد میں لکھا گیا ہے۔اسی طرح تکفیر کے جواب میں اور تکفیری گروہوں کی مخالفت میں بہت سی کانفرنسیں بھی منعقد ہوئی ہیں۔
مقام و اہمیت
تکفیر ایک فقہی اور کلامی موضوع ہے اور تاریخ اسلام میں اس کی وجہ سے بہت سے مسلمان افراد یا گروہوں کے جان اور مال کو جائز سمجھا گیا ہے اور اس کے نتیجے میں بہت سی جنگیں ہوئی ہیں، بہت سے لوگ مارے گئے ہیں اور بہت سے لوگ بے گھر ہوئے ہیں۔[1] اسی طرح تکفیر کے نتیجے میں کچھ مذاہب اسلامی کے پیروکاروں کی ان کے مقدس مقامات اور عمارتیں منہدم کی گئی ہیں۔[2] ادھر آخر کی کچھ صدیوں میں تکفیری افکار اور ان افکار والوں کے ذریعے مسلمانوں کی تکفیر رائج ہونے کی وجہ سے تکفیر کی بحثیں رونق پا گئی ہیں اور اس سلسلے میں بہت سی تصانیف سامنے آئی ہیں۔[3] اور کچھ کانفرنسیں منعقد ہوئی ہیں۔
مفہوم اور اس کی قسمیں
تکفیر کسی مسلمان کو کافر کہنے[4] یا اہل قبلہ کی طرف کفر کی نسبت دینے[5] کے معنی میں ہے۔ البتہ کفر کی دو قسمیں ہیں ایک فقہی کفر اور دوسرے اعتقادی کفر۔ ان میں سے کسی ایک کی نسبت کسی مسلمان کی طرف دینے کا ایک خاص نتیجہ ہوتا ہے:
- کفر فقہی یا ظاہری: دین اسلام سے خارج ہونے کے معنی میں ہے۔ اسی وجہ سے جو لوگ کافر فقہی ہو جاتے ہیں ان سے کافر جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔
- کفر اعتقادی یا باطنی: یہ ایمان سے خارج ہونے کے معنی میں ہے نہ کہ اسلام سے خارج ہونے کے معنی میں۔ اسی وجہ سے جو مسلمان اعتقادی کافر ہو جاتے ہیں ان سے مسلمانوں کی طرح کا معاملہ کیا جاتا ہے نہ کہ کافر کی طرح کا معاملہ۔ جیسے منافق جو ظاہر میں مسلمان ہے لیکن ایمان نہیں رکھتا ہے۔[6] امام خمینی کے بقول شیعہ کتب میں جو روایتیں مخالفین کے کفر کے بارے میں پائی جاتی ہیں اگر ان کو مان بھی لیا جائے تو وہ اعتقادی کفر کے بارے میں ہیں۔[7]
اہل قبلہ کی تکفیر کی ممانعت
مذاہب اسلامی کے فقہاء کے فتوے کے مطابق اہل قبلہ کی تکفیر جائز نہیں ہے، بلکہ کسی مسلمان کی طرف بلاوجہ کفر کی نسبت دینے پر تعزیر کا حکم ہے۔[8] علماء اور فقہاء کے نظریہ کے مطابق کافر اور مسلمان کا فرق، زبان پر شہادتین جاری کرنے اور قیامت کا عقیدہ ہے۔[9] اسی وجہ سے علماء اور فقہاء نے بعض مقامات پر مختلف فرقوں کے عقائد کے غلط ہونے کے باوجود ان کی تکفیر سے پرہیز کیا ہے۔[10]
تکفیر کی تاریخ
اہل قبلہ کی تکفیر کرنا مسلمانوں کے درمیان پہلی صدی ہجری میں اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد ہی آ گیا تھا۔ ابو بکر کی خلافت میں ان لوگوں کو کافر و مرتد کہا گیا جو ان کے مخالف تھے اور ان سے جنگیں کی گئیں جو رِدّہ کی جنگوں سے مشہور ہیں۔[11] تاریخ اسلام کے محقق، رسول جعفریان (ولادت: 1343ش)، بقول اہل رِدّہ کے درمیان مالک بن نویرہ جیسے مسلمان بھی تھے لیکن انہوں نے ابوبکر کی خلافت کو قبول نہیں کیا تھا اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت علیہم السلام کی حکومت چاہتے تھے۔[12] اسی وجہ سے وہ ابوبکر کے کارندوں کو زکات دینے سے منع کرتے تھے اور اسی وجہ سے مرتد اور کافر کہلائے گئے اور ان کو قتل کر دیا گیا۔[13]
حضرت علی علیہ السلام کی حکومت میں خوارج نے حَکَمیَّت قبول کرنے کی وجہ سے حضرت علی علیہ السلام کی تکفیر کی۔[14] اور اسی بنیاد پر معاویۃ بن ابیسفیان سے جنگ جاری رکھنے میں آپ کی ہمراہی نہیں کی۔[15] اور آپ کے خلاف جنگ نہروان لڑی۔[16]
اسی طرح جیسا کہ جعفر سبحانی (ولادت 1308ش) نے کتاب بحوث فی الملل و النحل میں بیان کیا ہے کہ خلق قرآن کے فتنہ میں بھی خلق قرآن کے قائل اور قرآن کے قدیم ہونے کے قائل لوگوں نے ایک دوسرے کی تکفیر کی۔ جب کہ یہ دونوں گروہ اہل سنت میں سے تھے۔[17]
اس کے بعد سے ہمیشہ مسلمانوں کے کچھ گروہ کی طرف سے دوسرے کچھ افراد یا گروہ کی تکفیر ہوتی رہی ہے۔ ادھر آخری کچھ صدیوں میں سلفی اور وہابی افکار کے رواج کے سبب ان کے پیروکاروں کی طرف سے دوسرے مسلمانوں اور خاص کر شیعوں کی تکفیر ہوئی ہے۔
اصل مقصد
«اے فرزند عبد الوہاب! میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں خدا کے لئے مسلمانوں کے بارے میں اپنی زبان کو قابو میں رکھو... تمہیں عام مسلمانوں کی تکفیر کرنے کا حق نہیں پہنچتا، تم ایسا نہیں کر سکتے ہو کیونکہ تم اس امت کا ایک فرد ہو اور کفر کی نسبت اس کے لئے زیادہ سزاوار ہے جو مسلمانوں کے دائرے سے خارج ہوجائے اس لئے کہ اس نے مومنوں کو چھوڑکر کسی اور راستے کی پیروی کی ہے...»
زینی دحلان، فتنۃ الوہابیۃ، ص5و6۔
مسلمانوں کی تکفیر کے بہت سے مختلف مقاصد رہے ہیں مثلا:
- کج فہمی اور دینی تعلیمات کی غیر اصولی سمجھ: خوارج نے آیہ لَا حُكْمَ إِلَّا لِلہ (اللہ کے سوا کسی اور کے لئے حکم نہیں ہے) [یادداشت 1] سے اپنی خاص سمجھ کو مد نظر رکھتے ہوئے جنگ صفین کے واقعہ حَکَمیت پر اعتراض کیا اور حضرت علی علیہ السلام کی تکفیر کی۔[18]
اسی طرح وہابی حضرات توحید، شرک، زیارت، تَبَرُّک اور تَوَسُّل کے سلسلے میں اسلامی تعلیمات کی اپنی خاص تفسیر کرتے ہوئے بہت سے مسلمانوں خاص طور پر شیعوں کی تکفیر کرتے ہیں۔[19] وہابیت کے بانی محمد بن عبد الوہاب (انتقال: 1206ھ)، دیگر مسلمانوں اور خاص کر شیعوں کے مال کو حلال اور ان کے قتل کر جائز سمجھتے ہیں کیونکہ وہ اللہ تک پہنچنے کے لئے وسیلہ کی تلاش کرتے ہیں اور انبیاء و صالحین کو شفیع قرار دیتے ہیں۔[20]
- عقائد: خوارج، ان مسلمانوں کی تکفیر کرتے تھے جو گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوں۔[21] وہ گناہ کبیرہ کے مرتکب ہونے والے کی تکفیر کے لئے آیہ « وَ مَن لَّمْ يحَْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُوْلَئكَ هُمُ الْكَافِرُون»[22] سے استدلال کرتے تھے۔[23] لیکن مسلمانوں کی نظر میں گناہ کبیرہ کا ارتکاب، ایمان سے خارج ہو جانے کا سبب ہے نہ کہ اسلام سے نکلنے کا، اسی وجہ سے وہ فاسق ہے نہ کہ کافر۔[24] اسی طرح خلق قرآن کے فتنہ میں، ابوالحسن اشعری[25] اور احمد بن حنبل،[26] خلق قرآن کے قائلین کو اور معتزلہ اور قرآن کے غیر مخلوق ہونے (قدم) کے قائلین ان کی تکفیر کرتے تھے۔[27] احادیث شیعہ میں غُلات (جو لوگ ائمہ معصومین علیہم السلام کے سلسلہ میں غلوّ یا زیادہ روی کرتے ہیں) کو اور تفویض کے قائلین (مفوّضہ) کو کافر کہا گیا ہے۔[28]
- مذہبی تعصب: تاریخی بیانات کے مطابق ایک زمانے میں اسلامی مذاہب کے پیروکار ایک دوسرے کی تکفیر کرتے تھے۔ مثلا آٹھویں صدی ہجری میں مذہب اہل سنت کے پیروکار ابن تیمیہ کے رویہ اور رفتار و گفتار کہ وجہ سے حنابلہ کی تکفیر کرتے تھے اور اس کے مقابلے میں ابنحاتم حنبلی تمام مسلمانوں (غیر حنابلہ) کی تکفیر کرتے تھے۔[29] اسی طرح یہ تکفیر اہل سنت کی طرف سے شیعوں کے لئے اور شیعوں کی طرف سے ایک سنت کے لئے بھی کی جاتی تھی۔ وہابی مفتی ابن جِبرین شیعوں کو تحریف قرآن، اکثریت صحابہ کو کافر ماننے، اہل سنت کو نجس و کافر ماننے اور علی و اولاد علی علیہم السلام کے بارے میں غلو کرنے کی وجہ سے کافر کہتے تھے۔[30] البتہ شیعوں کا یہ عقیدہ نہیں ہے۔
اور شیعہ سنی دونوں کے فقہاء کی اکثریتی یہی کہتی ہے کہ ایک دوسرے کے مذہب والے کافر نہیں ہیں۔[31] اور اگر کچھ کتابوں میں ایسی بات آئی بھی ہے تو اس کی تاویل، کفر اعتقادی سے ہوگی۔[32]
- عرفانی و فلسفی مباحث: کچھ علماء نے فلاسفہ و عرفا کی تکفیر کی ہے۔ مثلا غزالی نے کتاب تہافت الفلاسفہ میں فلاسفہ کی تکفیر کی ہے۔[33] اسی طرح سید محمد باقر خوانساری (وفات؛ 1313ھ) کے بقول کچھ فقہا نے ملا صدرا کے بعض مطالب جو بظاہر شریعت سے سازگار نہیں تھے،[یادداشت 2] کی وجہ سے ان کی تکفیر کردی تھی۔[34]
اسی طرح سے اپنی بقا کے لئے حکومتوں کی فتنہ انگیزیاں اور اسلام کے دشمنوں کی سازشیں تکفیر کے افکار رائج ہونے کے علل و اسباب رہے ہیں۔[35]
نتائج
اہل قبلہ کی تکفیر کرنے کے کچھ نتائج ہیں جن میں سے بعض کو ہم ذکر کر رہے ہیں:
- مسلمانوں کا قتل عام: تاریخ اسلام میں بہت سے مسلمان، تکفیر کے جرم کی بنیاد پر قتل کیے گئے ہیں۔
- تاریخی آثار اور مذہبی مقامات کا انہدام: وہابیوں نے مسلمان کے مقدس اور تاریخی مقامات جیسے حرم ائمہ کو شرک کا بہانہ دے کر منہدم کردیا۔
- دنیا میں اسلام کا ایک متشدد اور کٹر چہرہ سامنے آنا: اسلام کے نام پر تکفیری گروہوں کی کاروائیاں اس بات کا سبب بنی ہیں کہ اسلام کے دشمن دین اسلام کو ایک متشدد اور سخت گیر دین بتائیں۔[36]
اسی طرح اسلامی حکومتوں کے خلاف مسلحانہ مزاحمت اور ان کو کمزور بنانا اور تکفیریوں کے قید میں آنے والی مسلمان ناموس کو حلال سمجھنا تکفیریت کے نتائج میں سے ایک ہے۔[37]
تکفیری گروہوں کی تشکیل
اس آخری صدی میں وہابیت اور داعش جیسے دوسرے گروہ جو وہابیت کی حمایت اور اس سے متاثر ہو کر تشکیل پائے ہیں انہوں نے مسلمانوں کی تکفیر کی ہے اور ان کے قتل کے علاوہ ان کے مال کو ضبط کرنے کا اقدام کیا ہے۔[38] یہ لوگ ان آیتوں کو مسلمانوں پر منطبق کرتے ہیں جو درحقیقت مشرکوں کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔[39] جب کہ مسلمان علماء اس کام کی مخالفت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ صرف ضروریات دین یعنی توحید اور نبوت کا انکار کرنا ہی کسی مسلمان کے کفر کا سبب بنتا ہے۔[40] وہ بھی ایسا انکار جو جان بوجھ کر کیا جائے اور جس کی کوئی تاویل نہ ہو سکتی ہو۔[41]
بین الاقوامی کانفرنس
سنہ 1436ھ مطابق سنہ 2014ء کو «علمائے اسلام کے نقطہ نظر سے انتہا پسند اور تکفیری تحریکوں کی عالمی کانگریس» کے عنوان سے قم میں مقیم شیعہ مرجع تقلید آیتاللہ مکارم شیرازی کی سرپرستی میں ایک عظیم اجتماع ہوا۔ اس اجتماع میں پوری دنیا کے 80 ملکوں سے شیعہ سنی علماء نے شرکت کی۔[42] اس کانفرنس میں بھیجے گئے 830 مقالات دس جلدوں میں «مجموعہ مقالات کنگرہ جہانی جریانہای افراطی و تکفیری» کے عنوان سے شائع ہو چکے ہیں۔ اسی طرح اس کا مستقل سیکرٹریٹ (مستقل دفتر) مختلف زبانوں میں 40 کتابیں شائع کر چکا ہے اور امت واحدہ نام کا ایک رسالہ بھی فارسی اور عربی زبان میں شروع کرچکا ہے۔[43]
متعلقہ کتابیں
تکفیر کے بارے میں اور اس کے جواب کے طور پر بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ کتاب «کتابشناسی تکفیر» کے اندر عربی اور فارسی کے 528 آثار کو متعارف کرایا گیا ہے ان میں سے دو 235 کتابیں ہیں اور 240 مقالات اور 49 تھیسز ہیں اور ان میں سے چار کتابیں خصوصی شمارے کی شکل میں ہیں۔[44]
- کتاب «آراء علماء المسلمین و فتاواہم فی تحریم تکفیر اتباع المذاہب الاسلامیّہ» تالیف: مؤسس دارالتقریب عراق، شیخ فؤاد کاظم مقدادی۔ اس کتاب میں اسلامی مذاہب کے پیروکاروں کے سلسلے میں تکفیر کی ممانعت کو لے کر علمائے شیعہ سنی کے نظریات اور فتاوی بیان کئے گئے ہیں۔ مجمع الثقلین العلمی تہران نے اس کتاب کو سنہ 1428ھ میں شائع کیا۔[45]
- «الاسلام و العنف قراءۃ فی ظاہرۃ التکفیر» تالیف: حسین احمد الخشن. اس کتاب کے اندر اسلام کے زاویہ نظر سے تکفیر اور تشدد کے مسئلے کو بیان کیا ہے اور تکفیر کے اصول و معیارات، اس کا سرچشمہ اور اس کی قسمیں نیز تکفیریوں کی خصوصیات کو بیان کیا گیا ہے۔ اس کتاب کا 244 صفحات پر مشتمل فارسی ترجمہ «اسلام و خشونت: نگاہی نو بہ پدیدہ تکفیر» کے عنوان سے سنہ 1390 ش کو ہوا۔[46]
متعلقہ مقالات
نوٹ
- ↑ حضرت علی علیہ السلام نے خوارج کے اس قول کو ایسا قول کہا ہے جو اپنی جگہ حق ہے لیکن اس سے باطل بات مراد لی گئی ہے۔ (نہجالبلاغہ، تصحیح فیضالاسلام، ج1، ص1257، خطبہ 40۔)
- ↑ خوانساری کا کہنا تھا کہ یہ اصطلاحات، ملا صدار کی خاص اصطلاحات تھیں اور ان کو کفر کی دلیل نہیں بنایا جا سکتا۔ (خوانساری، روضات الجنات، 1390ش، ج4، ص121)
حوالہ جات
- ↑ آقاصالحی و دیگران، «تکفیر و بررسی پیامدہای آن در جوامع اسلامی»، ص95۔
- ↑ آقاصالحی و دیگران، «تکفیر و بررسی پیامدہای آن در جوامع اسلامی»، ص105۔
- ↑ نصراصفہانی، «کتابشناسی تکفیر»، ص258۔
- ↑ فیومی، ذیل «تکفیر»۔
- ↑ عبدالمنعم، معجم المصطلحات والألفاظ الفقہیۃ، دارالفضیلۃ، ج1، ص487۔
- ↑ دیکھئے: امام خمینی، کتاب الطہارہ، 1427ھ، ج3، ص437-438۔
- ↑ نمونے کے لئے دیکھئے: امام خمینی، کتاب الطہارہ، 1427ھ، ج3، ص432۔
- ↑ نمونے کے لئے دیکھئے: شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، 1403ق، ج9، ص175؛ جزیری، کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعۃ، 1410ق، ج5، ص194-195۔
- ↑ دیکھیے یے: امام خمینی، کتاب الطہارہ، 1427ھ، ج3، ص437-438۔
- ↑ دیکھیے: علامہ مجلسی، بحارالانوار، 1403ق، ج54، ص246ـ247۔
- ↑ مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبۃ الثقافۃ الدینیۃ، ج5، ص152۔
- ↑ جعفریان، تاریخ خلفا، 1380ش، ج2، ص32۔
- ↑ واقدی، الردہ، 1410ھ، ص106-107۔
- ↑ سبحانی، بحوث فی الملل و النحل، 1427-1428ھ، ج5، ص97۔
- ↑ دینوری، الأخبارالطوال، 1368ش، ص206۔
- ↑ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، بیروت، ج2، ص192-193۔
- ↑ سبحانی، بحوث فی الملل و النحل، 1427-1428ھ، ج2، ص336۔
- ↑ دینوری، الاخبارالطوال، 1368ش، ص206۔
- ↑ دیکھئے: مغنیہ، ہذہ ہی الوہابیۃ، 1408ھ، ص74-76۔
- ↑ محمد بن عبدالوہاب، کشف الشبہات، 1418ق، ص7۔
- ↑ شہرستانی، الملل والنحل، 1387ق، ج1، ص122 و 128 و 135۔
- ↑ سورہ مائدہ، آیہ44۔
- ↑ جرجانی، شرح المواقف، 1325ھ، ج8، ص334-338۔
- ↑ سبحانی، محاضرات فی الالہیات، 1428ق، ص462۔
- ↑ ابوالحسن اشعری، الابانہ، 1397ھ، ص89۔
- ↑ ابنحنبل، السنہ، 1349ھ، ص15۔
- ↑ سبحانی، بحوث فی الملل و النحل، 1427-1428ھ، ج2، ص336۔
- ↑ حرّ عاملی، وسائل الشیعہ، 1409ھ، ج28، ص348۔
- ↑ حیدر، الامام الصادق و المذاہب الاربعۃ، دار التعارف، ج1، ص200-202۔
- ↑ ابنجبرین، اللؤلؤ المکین من فتاوی الشیخ ابنجبرین، ص25۔
- ↑ جزیری، کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعۃ، 1410ھ، ج5، ص194-195۔
- ↑ نمونے کے طور پر دیکھئے: امام خمینی، کتاب الطہارہ، 1427ھ، ج3، ص432۔
- ↑ دیکھئے: غزالی، تہافت الفلاسفہ، 1382، ص94-295۔
- ↑ خوانساری، روضات الجنات، 1390ش، ج4، ص121۔
- ↑ حسنلو، «زمینہہا و عوامل پیدایش تكفیر در میان مسلمانان و پیامدہای آن در جہان اسلام»، ص54۔
- ↑ «کنگرہ جہانی جریانہای افراطی و تکفیری از دیدگاہ علمای اسلام»
- ↑ آقاصالحی و دیگران، «تکفیر و بررسی پیامدہای آن در جوامع اسلامی»، ص100-110۔
- ↑ دیکھئے : بخشی شیخ احمد و بہاری، «بررسی ایدئولوژی گروہ تکفیری - وہابی دولت اسلامی عراق و شام (داعش)»، ص141-144۔
- ↑ آقاصالحی و دیگران، «تکفیر و بررسی پیامدہای آن در جوامع اسلامی»، ص97۔
- ↑ نمونے کے طور پر دیکھئے: رشیدرضا، مجلہ المنار، بے تا، ج35، ص573۔
- ↑ دیکھئے: رشیدرضا، مجلہ المنار، بے تا، ج35، ص573۔
- ↑ «کنگرہ جہانی جریانہای افراطی و تکفیری از دیدگاہ علمای اسلام»۔
- ↑ «40عنوان کتاب کنگرہ ضد تکفیر بہ پنج زبان زندہ دنیا چاپ شدہ است۔» حوزہ کی رسمی خبر رساں ایجنسی۔
- ↑ نصرانصاری، کتابشناسی تکفیر، 1393ش، ص21۔
- ↑ نصرانصاری، کتابشناسی تکفیر، 1393ش، ص25۔
- ↑ نصرانصاری، کتابشناسی تکفیر، 1393ش، ص29۔
مآخذ
- «کنگرہ جہانی جریانہای افراطی و تکفیری از دیدگاہ علمای اسلام»، دبیرخانہ کنگرہ جہانی مقابلہ با جریانہای افراطی و تکفیری، انتشار 13 خرداد 1395ش، مشاہدہ 10 اردیبہشت 1401ش۔
- «40 عنوان کتاب کنگرہ ضد تکفیر دنیا کی پانچ زندہ زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہے۔» خبرگزاری رسمی حوزہ، انتشار 8 بہمن 1394ش، مشاہدہ 10 اردیبہشت 1401ش۔
- آقا صالحی، علی، خسرو مؤمنی و مجتبی جعفری و علیںرضا صابریان، «تکفیر و بررسی پیامدہای آن در جوامع اسلامی»، مطالعات فقہ و اصول، دورہ دوم شمارہ2، پاییز و زمستان 1398ش۔
- ابوالحسن اشعری، علی بن اسماعیل، الابانہ عن اصول الدیانہ، تحقیق فوقیۃ حسین محمود، قاہرہ، دار الانصار، 1397ھ۔
- ابنجبرین، اللؤلؤ المکین من فتاوی الشیخ ابنجبرین، اعداد: عبداللہ بن یوسف العجلان، تنسیق: سلمان بن عبد القادر ابوزید، بے جا، بے تا۔
- ابنحنبل، احمد، السنہ، تصحیح عبداللہ بن حسن آل الشیخ، مکہ، المطبعۃ السلفیہ و مکتبتہا، 1349ھ۔
- امام خمینی، سید روحاللہ، کتاب الطہارۃ، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی(س)، 1427ھ/1358ش۔
- بخشی شیخ احمد، مہدی و بہنام بہاری و پیمان وہابپور، «بررسی ایدئولوژی گروہ تکفیری - وہابی دولت اسلامی عراق و شام (داعش)»، فصلنامہ علمی و پژوہشی علوم سیاسی دانشگاہ باقر العلوم، دورہ16، شمارہ 46، زمستان 1392ش۔
- جرجانی، علی بن محمد، شرح المواقف، تحقیق محمد بدر الدین نعسانی حلبی، مصر، 1325ھ/1907ء (افست قم، 1370ش)۔
- جزیری، عبد الرحمان، کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعۃ، بیروت 1410/ 1990ء۔
- جعفریان، رسول، تاریخ خلفا، قم، دلیل، 1380ش۔
- خوانساری، سید محمد باقر، روضات الجنات فی احوال العلماء و السادات، قم، اسماعیلیان، چاپ اول، 1390ش۔
- حر عاملی، محمد بن حسن، وسائلالشيعۃ الى تحصيل مسائل الشريعۃ، مؤسسہ آل البیت، قم، 1409ھ۔
- حسنلو، امیر علی، «زمینہہا و عوامل پیدایش تكفیر در میان مسلمانان و پیامدہای آن در جہان اسلام»، جریان شناسی دینی معرفتی در عرصہ بینالملل، شمارہ16، 1396ش۔
- دینوری، ابوحنیفہ احمد بن داود، الأخبار الطوال، تحقیق عبد المنعم عامر، قم، منشورات الرضی، 1368ش۔
- زینی دحلان، سید احمد، فتنۃ الوہابیۃ، بے تا۔
- سبحانی تبریزی، جعفر، بحوث فی الملل و النحل، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1427-1428ھ۔
- سبحانی، جعفر، محاضرات فی الالہیات، انتشارات موسسہ امام صادق(ع)، 1428ھ۔
- شہرستانی، محمد بن عبدالکریم، الملل و النحل، چاپ محمد سیّد کیلانی، قاہرہ 1387/ء1967۔
- شہید ثانی، زین الدین بن علی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، چاپ محمد کلانتر، بیروت 1403/ 1983۔
- عبدالباقی، محمد فؤاد، المعجم المفہرس لالفاظ القرآن الکریم، قاہرہ 1364، چاپ افست تہران، 1397۔
- عبدالمنعم، محمود عبد الرحمن، معجم المصطلحات و الالفاظ الفقہیۃ، ج1، قاہرہ، دارالفضیلۃ، [1999ء]۔
- غزالی، فیصل التفرقۃ بین الاسلام الزندقۃ، چاپ ریاض مصطفی عبداللّہ، دمشق 1417۔
- فیومی، احمد بن محمد، المصباح المنیر فی غریب الشرح الکبیر للرافعی، بیروت: دارالفکر، بے تا۔
- مجلسی، محمد باقر بن محمدتقى، بحارالانوار، بيروت 1403/1983ء۔
- مغنیہ، محمدجواد۔ ہذہ ہی الوہابیہ، تہران، منظمۃ الاِعلام الاسلامی، 1408ھ۔
- مفید، محمد بن محمد، الفصول المختارۃ من العیون و المحاسن، قم 1413ھ۔
- مقدسی، مطہر بن طاہر، البدء و التاریخ، بور سعید، مکتبۃ الثقافۃ الدینیۃ، بے تا۔
- نصراصفہانی، اباذر، کتابشناسی تکفیر، قم، دارالاعلام لمدرسۃ اہل البیت(ع)، 1393ش۔
- واقدی، محمد بن عمر، الردۃ، تحقیق یحیی الجبوری، بیروت، دار الغرب الاسلامی، چاپ اول، 1990م/1410ھ۔
- یعقوبی، احمد بن ابییعقوب، تاریخ یعقوبی، بیروت، دار صادر، بے تا۔
- غزالی، محمد بن محمد، تہافت الفلاسفۃ، شمس تبریزی، تہران، 1382ش۔
- رشید رضا و دیگران، مجلۃ المنار، بے جا، بے تا۔
- محمد بن عبدالوہاب، کشف الشبہات، المملکۃ العربیۃ السعودیۃ، وزارۃ الشؤون والاوقاف و الدعوۃ والارشاد، 1418ھ۔