حدیث لولاک پیامبر اسلام سے حدیث قدسی کے عنوان سے منقول ايک حديث ہے جس کا مفہوم يہ ہے کہ اگر پيغمبر اکرم نہ ہوتے تو افلاک خلق نہ ہوتے اور اگر علی (ع) نہ ہوتے تو اللہ تعالى پيغمبر اکرم کو خلق نہ کرتا اور اگر فاطمہ سلام اللہ عليہا نہ ہوتى تو پيغمبر اکرم اور امام على کو خلق نہ کرتا۔ يہ حديث اس طرح سے شیعہ مآخذوں ميں نہيں ملتى ہے۔ يہ حديث حضرت فاطمہ (س) کى پيغمبر اکرم اور امام على (ع) کى نسبت مقام اور منزلت کے بارے ميں بہت سارے سوالات کو وجود ميں آئے ہيں۔

الفاظ حدیث

حدیث قدسی کے عنوان سے اس حديث کا معروف و مشہور متن جو جنہ العاصمہ نامى کتاب ميں اس طرح سے نقل ہوا ہے: یا احمد لولاک لما خلقت الافلاک و لولا علی لما خلقتک و لولا فاطمہ لما خلقتکما (ترجمہ: اے احمد اگر آپ نہ ہوتے تو ميں افلاک کو خلق نہ کرتا اور اگر على نہ ہوتے تو تجھے خلق نہ کرتا اور اگر فاطمہ نہ ہوتى تو تم دونوں کو خلق نہ کرتا) شيعہ مآخذوں ميں حديث لولاک کے مضون کى حامل دو اور احاديث بھى ملتى ہيں:

  • يَا مُحَمَّدُ وَ عِزَّتِي وَ جَلَالِي لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ آدَمَ وَ لَوْ لَا عَلِيٌّ مَا خَلَقْتُ الْجَنَّة[1] (ترجمہ: اے محمد! ميرى عزت اور جلالت کى قسم اگر آپ نہ ہوتے تو آدم کو خلق نہ کرتا اور اگر على نہ ہوتے تو بہشت خلق نہ کرتا.)
  • لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الْأَفْلَاك‏[2] (ترجمہ: اگر آپ نہ ہوتے تو افلاک کو خلق نہ کرتا۔)

مآخذ حدیث

حديث لولاک جس طرح سے مشہور ہے اس طرح سے گذشتہ کسى بھى شیعہ مآخذ ميں نہيں آئى ہے جنّہ العاصمہ کے مصنف مير جہانى کا کہنا ہے کہ انہيں يہ حديث صالح بن عرندس حلی (م ۹ صدى) کى کتاب کشف اللئالی کے خطى نسخے ميں ملى تھى۔ مير جہانى نے جس سند کو ذکر کيا ہے وہ اس طرح ہے:

«فی کتاب کشف اللئالی لصالح بن عبدالوہاب بن العرندس، إنّہ روی عن الشیخ إبراہیم بن الحسن الذرّاق،‌ عن الشیخ علیّ بن ہلال الجزائری، عن الشیخ أحمد بن فہد الحلّی، عن الشیخ زین الدین علیّ بن الحسن الخازن الحائری، عن الشیخ أبی عبداللہ محمّد بن مکّی الشہید، بطرقہ المتصلة إلی أبی جعفر محمّد بن علیّ بن موسی بن بابویہ القمّی ، بطریقہ إلی جابر بن یزید الجعفی، عن جابر بن عبداللہ الأنصاری، عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ، عن اللہ تبارک و تعالی، أنّہ قال: ... »[3]

آیت اللہ شبیری زنجانی کے کہنے کے مطابق اس حديث کى سند ميں بہت سارے اشکالات ہيں ليکن اس کے باوجود آپ اس حدیث کے مضمون کو دفاع کے لائق سمجھتے ہيں ان کا کہنا ہے کہ خلقت کا ہدف انسان کى ہدايت ہے اور معصومين عليہم السلام انسان کى ہدايت ميں واسطہ فيض ہيں اس لئے يہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر اہل بیت نہ ہوتے تو کائنات خلق نہ ہوتى۔[4] آیت اللہ محمد علی گرامی نے بھى اس حديث کے بعض راويوں کو مجہول قرار ديا ہے اس کے باوجود اسے حديث کو جھٹلانے کا سبب نہيں سمجھتے ہيں۔[5] انہوں نے اسى حديث کى وضاحت ميں ايک کتاب بھى لولا فاطمہ کے نام سے لکھى ہے۔[6]

حوالہ جات

  1. ابن طاووس، الیقین، ص۴۲۶؛ مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۱۸، ص۴۰۰.
  2. fبکری، الانوار فی مولد النبی، ۱۴۱۱ق، ص۵؛ مجلسی،‌ بحارالأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۱۵، ص۲۸.
  3. میرجہانی، جنة العاصمة، ص ۱۴۸
  4. جماران ويب سائٹ
  5. (کيا لولاک والى حديثيں معتبر ہيں؟) آیا روایت لولاک معتبر است
  6. آیت اللہ گرامی کى ويب سائٹ

مآخذ

  • سید ابن طاووس، علی بن موسی، الیقین باختصاص مولانا علی علیہ السلام بامرة المومنین. نرم افزار جامع الاحادیث ۳.۵.
  • بکری، احمد بن عبداللہ، الانوار فی مولد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ، قم، دار الشریف الرضی، ۱۴۱۱ق.
  • مجلسی، محمد باقر،‌ بحار الانوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الاطہار، بیروت، دارإحیاء التراث العربی، الطبعة الثالثة، ۱۴۰۳ق.
  • میرجہانی، سید محمد حسن، جنة العاصمة، کتابخانہ صدر تہران، ۱۳۹۸ق.