مندرجات کا رخ کریں

ما رأیت الا جمیلا

ویکی شیعہ سے
محرم کی عزاداری
واقعات
امام حسینؑ کے نام کوفیوں کے خطوطحسینی عزیمت، مدینہ سے کربلا تکواقعۂ عاشوراواقعۂ عاشورا کی تقویمروز تاسوعاروز عاشوراواقعۂ عاشورا اعداد و شمار کے آئینے میںشب عاشورا
شخصیات
امام حسینؑ
علی اکبرعلی اصغرعباس بن علیزینب کبریسکینہ بنت الحسینفاطمہ بنت امام حسینمسلم بن عقیلشہدائے واقعہ کربلا
مقامات
حرم حسینیحرم حضرت عباسؑتل زینبیہقتلگاہشریعہ فراتامام بارگاہ
مناسبتیں
تاسوعاعاشوراعشرہ محرماربعینعشرہ صفر
رسومات
زیارت عاشورازیارت اربعینمرثیہنوحہتباکیتعزیہمجلسزنجیرزنیماتم داریعَلَمسبیلجلوس عزاشام غریبانشبیہ تابوتاربعین کے جلوس


“ما رأیتُ الّا جمیلاً”، (میں نے اچھائی کے سوائے کچھ نہیں دیکھا) وہ مشہور جملہ ہے جسے حضرت زینب(س) نے کربلا کے المناک واقعے کے بعد کوفہ میں یزید ابن معاویہ کے گورنر عبید اللہ ابن زیاد کے جواب میں کہا تھا۔ اسیران کربلا سے ملاقات کے دوران جب عبیداللہ ابن زیاد نے کربلا کے واقعے کو اللہ کی مشیت قرار دیتے ہوئے حضرت زینب سے کہا کہ دیکھا خدا نے آپ کے بھائی کے ساتھ کیا کیا؟ اس موقع پر آپ نے جواب میں کہا: “ما رأیتُ الّا جمیلاً”؛ میں نے اچھائی کے سوائے کچھ نہیں دیکھا۔

انہوں نے اپنے کلام کی وضاحت کرتے ہوئے اللہ کے یہاں امام حسینؑ اور ان کے ساتھیوں کے لئے شہادت جیسی عظیم منزلت مقدّر ہونے اور ابن زیاد کے لئے عنقریب اللہ کی عدالت میں قرار واقعی سزا معین ہونے کی طرف اشارہ کیا۔

یہ جملہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے ایمان، اخلاص اور الٰہی امتحان کے سامنے تسلیم ہونے کی طاقت کی عکاسی کرتا ہے۔ علماء نے ان کے بیان کردہ حسن کے معنی پر مختلف تفاسیر پیش کی ہیں، جن میں امام حسین علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کے مقصد اور عمل کا حسن، اور اسی طرح اللہ کی تدبیر کا حسن شامل ہے۔ ابن زیاد کو رسوا کرنا اور امام حسین علیہ السلام کی حقانیت کو ثابت کرنا بھی اس جملے کے استعمال کے مقاصد میں شامل ہیں۔

تاریخی پس منظر

جملہ “ما رأیتُ الّا جمیلاً” ، واقعہ کربلا کے بعد حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا [1] مشھور جملہ قرار دیا گیا ہے۔[2] تاریخی حقائق کے مطابق، عبیداللہ ابن زیاد نے کوفہ میں اسیران کربلا سے ملاقات کے دوران امام حسین علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کو اللہ کی طرف سے ان کی رسوائی قرار دیا اور حضرت زینب سے کہا: کیا تم نے دیکھا کہ اللہ نے تمہارے بھائی اور خاندان کے ساتھ کیا کیا؟ جس کے جواب میں حضرت زینب نے یہ جملہ کہا۔[3]

انہوں نے مزید کہا کہ: یہ وہ لوگ تھے جن کے لیے اللہ نے شہادت مقدر کی تھی اور وہ اپنی ابدی آرام گاہوں تک پہنچ گئے ہیں، اور عنقریب تمہیں اللہ کی عدالت میں کھڑا کیا جائے گا![4] اس وقت تمہیں معلوم ہوگا کہ فتح کس کا مقدر ہے، تیری ماں تیرے غم میں بیٹھے، اے ابن مرجانہ۔[5] عبیداللہ، حضرت زینب کا جواب سنکر طیش میں آگیا اور اس نے آپ کو قتل کرنے کا ارادہ کیا، لیکن درباریوں میں سے ایک فرد کی سفارش پر وہ اس ارادے سے باز آ گیا۔[6]

تاریخ داں محمد ہادی یوسفی غروی کہتے ہیں کہ اس جملے کو سب سے پہلے ساتویں صدی ہجری میں سید ابن طاووس (متوفی664ھ) نے اپنی کتاب “لہوف” میں ذکر کیا ہے۔[7] تاہم، “ما رأیتُ الّا حملاً” کا جملہ ابن اعثم کوفی (متوفی314ھ) کی کتاب “الفتوح” میں بھی ملتا ہے۔[8] کتاب “الفتوح” کے مصحح علی شیری کے مطابق “حملا” کا لفظ سیاق و سباق کے لحاظ سے مناسب نہیں تھا اس لئے انہوں نے اسے “جمیلا” میں تبدیل کیا ہے۔[9]

حضرت زینب کی شخصیت کی عکاسی

واقعہ کربلا کے حساس موقع پر حضرت زینب کی طرف “ما رأیتُ الّا جمیلاً” کا جملہ ادا کرنا آپ کی روح کی عظمت، اخلاص اور الٰہی امتحان کے سامنے ان کے تسلیم کا مظہر سمجھا جاتا ہے۔[10] یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی جانب سے یہ جملہ ان کی شخصیت کے روحانی پہلو کی نشاندہی کرتا ہے۔[11] نیز یہ جملہ توحید پر مبنی ایک ایسا نقطہ نظر ہے جو خدا کے اوامر اور تقدیر پر ایمان کی نشانی سمجھی جاتی ہے۔[12]

کہا جاتا ہے کہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے عقیدہ توحید میں ان کے بلند مقام و منزلت کی بنا پر یوم عاشور کے موقع پر دو قسم کے جمال کا مشاہدہ کیا: ایک اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا جمال، اور دوسرا امام حسین علیہ السلام کی بندگی کا جمال اور یہ خدا سے محبت اور رضا کے اعلیٰ مقام کی عکاسی کرتا ہے۔[13]

حسن کا مفہوم

“ما رأیت الا جمیلا” کے جملے کا عموما ترجمہ “میں نے اچھائی کے سوا کچھ نہیں دیکھا” کیا گیا ہے، اور بعض نے اسے “میں نے سوائے صاحب جمال کے کچھ نہیں دیکھا” کے معنی میں لیا ہے۔[14] یہ بھی کہا گیا ہے کہ عاشورا کے واقعے میں ظاہری طور پر کوئی خوبصورت منظر دکھائی نہیں دیتا، لیکن حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا مقصد ایک دوسری حقیقت تھی جو ظاہر کے پردے کے پیچھے موجود تھی۔[15] ان میں عاشورا کے مقصد کا حسن شامل ہے، جو انسانوں کی ہدایت اور انہیں جہالت کے اندھیروں سے نجات دلانا، اسلام کو زندہ کرنا اور سنت نبوی کو احیا کرنا، امویوں اور اس دور کے طاغوتوں کی حقیقت کو بے نقاب کرنا، بدعتوں اور غلط رویوں کو دور کرنا، حق کو زندہ اور باطل کی نابودی اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر شامل ہیں۔]].[16]

امام حسین علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کے عمل کا حسن اور خدا کی راہ میں شہادت اور جان قربان کرنے کا حسن،[17] اور اسی طرح اللہ اور اس کے افعال کا حسن بھی حضرت زینب کے نزدیک حسن کے معنی کی وضاحت میں شامل ہے۔[18]

استعمال کے مقاصد

“ما رأیت الا جمیلا” کے جملے اور اسے استعمال کرنے میں حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے مقصد کے بارے میں علماء نے مختلف تعبیرات و تفاسیر کی ہیں۔ ان کے کئی اثرات بیان کیے گئے ہیں۔[19] جن میں سے کچھ یہ ہیں:

ابن زیاد کو رسوا کرنا

کتاب “درس جو حسین(ع) نے انسانوں کو دیا” کے مصنف سید عبدالکریم ہاشمی نژاد کے مطابق عبیداللہ ابن زیاد نے اپنے عمل کو خدا کی مشیت سے جوڑنے اور انسانی غلطیوں کو نظر انداز کر کے یوم عاشور کے جرائم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی تھی۔[20] لیکن حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے اس قول کے ذریعے جہاں حقائق کو بیان کیا وہاں امام حسینؑ کی شکست کو خدا کی منشاء و مشیت قرار دینے کے ابن زیاد کی مذموم کوششوں کو ناکام بنا دیا۔[21] یوں حضرت زینب کی باتیں حاضرین کے سامنے حقائق کو واضح کرنے اور مجلس میں ابن زیاد کو رسوا کرنے کا سبب بنیں۔[22]

امام حسین علیہ السلام کی حقانیت کا اثبات

کہا جاتا ہے کہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی طرف سے کم سے کم کمزوری یا ناراضگی کا اظہار دشمن کو فتحیاب دکھا سکتا تھا، لیکن حضرت زینب کے اس جملے نے دشمنوں کے مقام کو متزلزل کر دیا اور لوگوں کے نزدیک امام حسین علیہ السلام کی حقانیت کو ثابت کر دیا۔[23] اور اموی حکومت کی طرف سے کربلا کے واقعے کی تحریف کو روکنے کے علاوہ، لوگوں کے اذہان کو بنی امیہ سے انتقام لینے کے لیے تیار کیا۔[24]

حوالہ جات

  1. علوی علی‌آبادی، «ما رأیت الا جمیلا»؛ «سرّ تولد «ما رأیتُ الّا جمیلاً» از دل مصائب کربلا»، خبرگزاری شبستان؛ «نگاہ الہی حضرت زینب(س) بہ واقعہ کربلا»، خبرگزاری حوزہ.
  2. «معنای «ما رأیت الا جمیلاً»، خبرگزاری حوزہ.
  3. ابن‌اعثم، الفتوح، 1411ھ، ج5، ص122؛ مقرم، مقتل الحسین(ع)، بیروت، ص341؛ ابن‌طاووس، اللہوف، 1348ش، ص160.
  4. طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج5، ص457؛ ابن‌کثیر، البدایة و النہایة، 1407ھ، ج8، ص193؛ ابن‌اثیر، الکامل، 1385ش، ج4، ص82.
  5. ابن‌اعثم، الفتوح، 1411ھ، ج5، ص122.
  6. طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج5، ص457؛ ابن‌کثیر، البدایة و النہایة، 1407ھ، ج8، ص193.
  7. «عدم تایید منابع تاریخی در نسبت دادن"ما رایت الا جمیلا" بہ حضرت زینب(س)»، خبرگزاری شبستان.
  8. ابن‌اعثم، الفتوح، 1411ھ، ج5، ص122.
  9. ابن‌اعثم، الفتوح، 1411ھ، ج5، ص122، پاورقی.
  10. علوی علی‌آبادی، «ما رأیت الا جمیلا».
  11. جمعی از نویسندگان، مع الرکب الحسینی، 1386ش، ج5، ص131.
  12. جمعی از نویسندگان، مع الرکب الحسینی، 1386ش، ج5، ص131؛ «سرّ تولد «ما رأیتُ الّا جمیلاً» از دل مصائب کربلا، خبرگزاری شبستان.
  13. «حضرت زینب(س) چگونہ بہ مقام «ما رایت الا جمیلا» رسید»، کبنا نیوز.
  14. «ما رأیت الا جمیلا را درست معنا کنیم»، سایت قاصدون.
  15. «چرا حضرت زینب(س) فرمودند ما رایت الا جمیلا؟»، تبیان؛ «منظور از «ما رأیت الا جمیلا»»، پایگاہ اطلاع رسانی یاوران مہدی(عج).
  16. «معنا و تفسیر دقیق جملہ حضرت زینب(س) ما رایت الا جمیلا چیست؟»، شہر جواب.
  17. «مَا رَأَیتُ إِلَّا جَمِیلًا؛ جواب دندان شکن «حضرت زینب(ع) بہ ابن‌زیاد»، خبرگزاری میزان.
  18. علوی علی‌آبادی، «ما رأیت الا جمیلا»؛ «شرح عبارت "ما رأیت الا جمیلا" (بخش اول) - سید محمد مہدی میرباقری»، موسسہ تحقیقات و نشر معارف اہل البیت(ع).
  19. مشاہری فرد، «تأملی زیبایی‌شناختی بر ما رأیت الا جمیلا».
  20. ہاشمی‌نژاد، درسی کہ حسین(ع) بہ انسانہا آموخت، 1382ش، ص208؛ «معنا و تفسیر دقیق جملہ حضرت زینب(س) ما رایت الا جمیلا چیست؟»، شہر جواب.
  21. ہاشمی‌نژاد، درسی کہ حسین(ع) بہ انسانہا آموخت، 1382ش، ص208.
  22. ہاشمی‌نژاد، درسی کہ حسین(ع) بہ انسانہا آموخت، 1382ش، ص208.
  23. علوی علی‌آبادی، «ما رأیت الا جمیلا».
  24. ہاشمی‌نژاد، درسی کہ حسین(ع) بہ انسانہا آموخت، 1382ش، ص209.

مآخذ