داعش
عمومی معلومات | |
---|---|
نوعیت | دہشتگرد تنظیم |
ہدف | خلافتِ اسلامیہ کا قیام |
ہیڈ کوارٹر | عراق |
سربراہ | ابوبکر بغدادی |
متعلقہ ادارے | القاعدہ |
نعرہ | لا إله إلاّ الله محمد رسول الله |
داعش ایک تکفیری تنظیم ہے جس نے القاعده سے جنم لیا۔ شروع میں القاعدہ عراق کے نام سے مشہور تھا لیکن بعد میں علاقائی اور بیرونی طاقتوں کی مدد سے عراق اور شام کے ایک وسیع علاقے پر قابض ہو گیا اور الدّولة الاسلامیة فی العراق والشّام (داعش) کے نام سے مشہور ہو گیا۔
اس تنظیم نے سنگین نوعیت کے انسانی جرائم کا ارتکاب کیا اور اپنے شیعہ یا سنی مخالفین کو بلاتفریق وحشیانہ طریقوں سے قتل کیا۔ اس تنظیم نے ناقابل تلافی انسانی، مادی اور تہذیبی نقصان پہنچایا۔ یہ دیگر سلفی اور وہابی گروہوں کی مانند ہر اس شخص کو کافر اور گمراہ قرار دیتی ہے کہ جو ان کے پرچم تلے نہ ہو۔ ان کا گمان ہے کہ یہ تنظیم اسلامی خلافت کا اعادہ کرے گی اور اسی طرح شریعت نافذ کرے گی جیسے رسول اللہؐ کے دور میں نافذ تھی۔
یہ تنظیم بین الاقوامی تعاون اور مغربی میڈیا کی مکمل کوریج سے برخوردار رہی ہے۔ اس کے قیام کیساتھ ہی اسے بڑے عالمی اخبارات، جرائد اور مجلات کی شہ سرخیوں میں جگہ دی جاتی تھی۔ مغربی میڈیا کی یہ کوشش تھی کہ وہ اس تنطیم کو اسلام کا نمائندہ بنا کر پیش کرے اور یہ تاثر عام کرے کہ اس کے جرائم اسلامی اور دینی حکومت کے مکمل عملی نفاذ کی شکل ہے۔
داعش کی جڑیں
سلفی جہادی تفکر کے ایک ماہر کا خیال ہے کہ تمام سلفی تنظیمات منجملہ داعش کی فکری بنیاد اخوان المسلمین سے ماخوذ بعض اصولوں، سید قطب کی تحریک کے اسلوب، ابن تیمیہ اور سلفی مکتب کی سیاسی فکر اور وہابیت کی فقہی اور عقائدی میراث پر قائم ہے۔[1] تاہم اگر داعش کے باقاعدہ عقائد اور اس کے بارے میں صادر ہونے والی کتب جیسے "الدولۃ النبويۃ"، "إعلام الأنام بميلاد دولۃ الإسلام" اور "عقيدتنا ومنهجنا" کی طرف مراجعہ کیا جائے؛ اور ’’ تخريب القبور‘‘ اور ’’معنى لا إله إلاّ الله والديمقراطيۃ‘‘ جیسے موضوعات پر مشتمل چھوٹے کتابچوں کو دیکھا جائے تو اس سلفی جہادی تفکر کے ماہر کا کلام داعش کے ایمان و ایقان پر ہرگز پورا اترتا نظر نہیں آتا۔[2]
تکفیر کا پس منظر
تفصیلی مضمون: تکفیر اہل قبلہ داعش ایک تکفیری تنظیم ہے کہ جس کے ماضی پر بحث کی ضرورت ہے۔ تکفیر کا لغت میں معنی تہمت ہے۔ اس کا اسلامی شریعت میں مفہوم یہ ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو کافر قرار دے۔[3] بعض کے نزدیک تکفیر یہ ہے کہ اہل قبلہ میں سے کسی کی طرف کفر کی نسبت دی جائے۔[4] تاریخ میں تکفیر کا مشہور ترین واقعہ امام علیؑ کے زمانہ خلافت میں خوارج کی جانب سے رونما ہوا[5] کہ جب انہوں نے امام علیؑ کی تکفیر کر ڈالی۔ اسی طرح جب بنو امیہ نے حجر بن عدی اور ان کے اصحاب سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہا تو ان پر کفر کی تہمت لگا کر انہیں قتل کر دیا۔[6] ابن تیمیہ نے تکفیری تفکر کو پروان چڑھایا اور یہاں تک کہہ دیا کہ جس شخص نے بھی انبیاءؑ و صالحین میں سے کسی کی قبر کے پہلو میں دعا کی اور حاجت طلب کی تو وہ مشرک ہے۔ پس ضروری ہے کہ ایسا کرنے والے سے توبہ کا تقاضا کیا جائے اگر وہ انکار کر دے تو اسے قتل کر دیا جائے ۔[7] محمود افغانی کے چچا میرویس نے اس زمانے میں علمائے سعودیہ سے شیعوں کے جواز قتل کا فتویٰ حاصل کیا کہ جب افغانیوں نے اصفہان پر حملہ کیا تھا۔[8] میر محمد رضوی سنہ 1088ھ میں علمائے اہل سنت کی اشتعال انگیزی کے سبب شہید کر دئیے گئے اور اسی سال شیخ حر عاملی پر بھی قاتلانہ حملہ کیا گیا کہ جب وہ مکہ میں تھے۔ آخرکار انہوں نے وہاں کی ایک معزز شخصیت کے پاس پناہ لی اور مخفیانہ طور پر یمن کی طرف ہجرت کر گئے۔[9] وہابیوں کے ایک مفتی بن باز کا کہنا ہے کہ شیعہ اثنا عشریہ کافر ہیں کیونکہ اس کے بقول یہ لوگ امام علیؑ کی عبادت کرتے ہیں۔[10]
فکری اور جہادی ارتباط
وہابیت
تفصیلی مضمون: وہابیت کئی صدیوں تک تکفیریوں کا کوئی خارجی وجود نہیں تھا یہاں تک کہ محمد بن عبد الوہاب ظاہر ہوا اور اس نے آل سعود کے تعاون سے ایک مرتبہ پھر تکفیری تفکر کو زندہ کر دیا۔ اس نے ملائکہ ، انبیاء اور اولیاء اللہ کی شفاعت کا عقیدہ رکھنے والے کا قتل جائز ہونے پر مبنی فتویٰ دیا۔[11] اور یہ رائے دی کہ موجودہ زمانے کے مشرکین زمانہ نبیؐ کے مشرکین سے بدتر ہیں۔[12] محمد بن عبد الوہاب کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ابن جبرین نے شیعوں پر زکوٰۃ کو حرام قرار دیا کیونکہ یہ لوگ اس کے نزدیک کافر ہیں۔[13] ابن جبرین نے شیخ عبد الرحمن البراک کیساتھ مل کر شیعوں کے خلاف جنگ کو واجب قرار دیا کیونکہ یہ لوگ امام علیؑ کی وصایت کا عقیدہ رکھتے ہیں اور امام حسینؑ پر ماتم کرتے ہیں۔ یہ دونوں مفتی وہابی ازم کی طرف مائل ہونے کے حوالے سے معروف ہیں۔[14] اسی طرح داعش اپنے تصورات و خیالات کو جن بڑے مفکرین سے اخذ کرتی ہے، وہ یہ ہیں: ابن تیمیہ ، محمد بن عبد الوہاب ، سید قطب ، سید امام عبد القادر عبد العزیز، عبد اللہ عزّام، اسامہ بن لادن اور ابو مصعب زرقاوی۔ البتہ داعش کے آخری مفتی ابوہمام اثری او ابو منذر شنقیطی ہیں۔[15]
القاعدہ
القاعدہ معاصر تکفیری تنظیموں میں سے ہے۔ اسے 1988ء میں پشاور شہر کے اندر تاسیس کیا گیا۔ یہ تنظیم 1995ء کے بعد بہت مشہور ہوئی۔[16] عبد اللہ عزام، بن لادن اور ایمن الظواہری القاعدہ کے پہلے قائدین تھے۔[17] القاعدہ کے نام کا اطلاق ان جہادی گروہوں پر کیا گیا کہ جنہوں نے افغانستان میں کمیونسٹوں کا مقابلہ کرنے کے بعد ملک کے اہم علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ القاعدہ کے عناصر میں وہ افراد شامل ہیں کہ جن کا ان سٹریٹیجک علاقوں پر قبضہ ہوا اور انہوں نے وہاں حکومت قائم کی۔[18] یہ سب کچھ امریکہ کی مدد سے ہوا جیسا کہ امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کی کتاب (HARD CHOICES) میں یہ اعتراف موجود ہے کہ سوویت یونین کا مقابلہ کرنے کیلئے امریکہ نے ہی القاعدہ کو ایجاد کیا تھا اور 2013/7/5 کو یہ اتفاق کیا گیا کہ دولت اسلامیہ (داعش) کی حکومت کے قیام کا اعلان کیا جائے کہ جس کے بعد امریکہ اور یورپ اسے فوری طور پر تسلیم کر لیں گے۔ اس کا ہدف عرب ممالک اور مشرق وسطیٰ کو تقسیم کرنا تھا۔[19] القاعدہ کی فکری بنیادوں میں سے ایک عام شہریوں کے قتل کا جواز تھا۔ 1998ء میں اسامہ بن لادن، ایمن الظواہری اور کچھ دیگر افراد نے مل کر ایک فتویٰ جاری کیا اور اس پر دستخط کیے کہ جس کا مضمون یہ ہے: امریکیوں اور ان کے حلیف شہریوں اور فوجیوں کا قتل ہر مسلمان پر واجب عینی ہے کہ جب بھی انہیں کسی شہر میں اس کا موقع ملے۔[20]
تاسیس کے مراحل
القاعدہ کا اطلاق داعش پر نہیں کیا جانا چاہئیے کیونکہ فکری اور تاریخی ارتباط کے سوا ان دونوں کے مابین کوئی تنظیمی تعلق نہیں ہے۔ داعش کبھی القاعدہ کے ماتحت تھی ہی نہیں کہ اس سے جدا ہوئی ہو۔[21] عراق پر امریکی یلغار کے دوران صدام کے نیشنل گارڈز[22] اور بعثی حکومت کے سیکیورٹی اداروں نے [23] امریکہ سے برسرپیکار مسلح گروہوں میں شامل ہو کر خفیہ کاروائیوں میں حصہ لینا شروع کر دیا [24] دوسرا یہ کہ سلفی تکفیری جماعتوں نے اپنی ساری توجہ عراق پر مرکوز کر لی تھی اور یہ دونوں عامل داعش کی تشکیل میں مددگار ثابت ہوئے۔[25] 2003ء میں صدام کا نظام حکومت ساقط ہونے کے بعد عراقی فورسز کے متعدد اہلکار جماعت التوحید والجہاد کے زیر سایہ ابو مصعب الزرقاوی کی زیر قیادت رافدین کے علاقے میں مسلح کاروائیاں کرتے رہے۔ ان لوگوں نے 2004/10/17 سے اسامہ بن لادن کی بیعت کا اعلان کر دیا کہ جس کے بعد عبد اللہ رشید البغدادی کی قیادت میں 2006/01/15 کو مجلس شوریٰ المجاہدین تشکیل دی گئی۔ اس مجلس نے رافدین کے علاقے میں سرگرم القاعدہ کے علاوہ دیگر گروہوں جیسے جیش الطائفۃ المنصورۃ، سرایا انصار التوحید وغیرہ کو اپنے اندر ضم کر لیا۔ ان میں سے زیادہ تر تنظیمیں صرف نام کی حد تک تھیں جبکہ حقیقت میں ان کے پرچم تلے سابقہ بعثی حکومت کے سیکیورٹی اہلکار اور سپاہی ہی جمع تھے۔ مذکورہ مجلس مختلف تنظیموں کی اصل شکل و ہیئت برقرار رکھتے ہوئے ان کا متحدہ پلیٹ فارم تھا کہ جس سے فوجی اور سیاسی بیانات جاری ہوتے تھے۔ 7 جون 2006 میں ابومصعب زرقاوی کے قتل کے بعد 2006/06/12 کو حلف المطیبین کے نام سے ایک اتحاد قائم کیا گیا اور اس میں مجلس شوری المجاھدین کو اس کی ذیلی جماعتوں سمیت ضم کر دیا گیا۔ پھر 2007/01/15 کو مجلس شوری المجاھدین اس کی ذیلی جماعتوں بشمول القاعدہ تحلیل کر کے ابو عمر بغدادی [26] کی قیادت میں دولۃ العراق الاسلامیۃ کا اعلان کر دیا گیا۔ زرقاوی کی ہلاکت کے بعد ابو عمر بغدادی اس کا جانشین بنا اور اس کی ہلاکت[27] کے بعد القاعدہ کی قیادت ابراہیم عواد ابراہیم بدری سامری المعروف ابوبکر بغدادی [28] نے القاعدہ کی قیادت سنبھال لی۔ بغدادی نے یہ فیصلہ کیا کہ جبہۃ النصرۃ کے قائد جولانی سے شام کی قیادت اپنے ہاتھ لے کر عراق اور شام پر تسلط قائم کرے۔ یوں 2013 میں الدولۃ الاسلامیۃ فی العراق والشام کی بنیاد پڑی۔[29] [30]
القاعدہ عراق میں
داعش اور القاعدہ کے مطابق ان کے مدمقابل دو دشمن ہیں۔ وہ انہیں عدو قریب اور عدو بعید سے تعبیر کرتے ہیں۔ عدو بعید مغربی ثقافت ہے جبکہ عدو قریب میں وہ حکومتیں اور اسلامی جماعتیں شامل ہیں کہ جو مختلف امور کی تشریح میں ان سے اختلاف کرتی ہیں یا ان سے اپنے راستے جدا کر لیتی ہیں۔[31] القاعدہ نے ایک جغرافیائی مثلث کھینچ کر خطے میں طاقت کے سرچشموں پر تسلط حاصل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ انہوں نے شام میں جولانی کی قیادت میں جبہۃ النصرۃ کو ایجاد کیا جبکہ لبنان میں ماجد الماجد کی قیادت میں گروہ عبد اللہ عزام کو تشکیل دیا اور عراق میں ابومصعب زرقاوی کی زیر قیادت ایک گروہ کھڑا کیا۔[32] زرقاوی افغانستان میں عرب مجاہدین کی ٹریننگ پر مامور تھا۔ جب اس کی عسکری جماعت پر سنہ 2001ء میں میزائل حملہ ہوا تو وہ انصار الاسلام کے ایک قائد کے تعاون سے عراقی کردستان کی طرف فرار ہو گیا اور ملا کریکار کی سربراہی میں سرگرم عمل تحریک انصار اسلام کردستان کیساتھ اپنے روابط قائم کر لیے۔ ملا کریکار نے جہادی جماعتوں کی کاروائیوں پر نکتہ چینی کی تو اس پر خیانت کی تہمت لگا کر اسے جماعت انصار الاسلام کی سربراہی سے برطرف کر دیا گیا اور اس کی جگہ ابو مصعب زرقاوی کو مقرر کر دیا گیا۔ [33] زرقاوی نے دسمبر 2004ء [34] میں عراق میں رہتے ہوئے اسامہ بن لادن کی بیعت کر لی۔[35] بعض جہادی گروہ زرقاوی کیساتھ ملحق ہو گئے اور اس نے رافدین کے علاقے میں تنظیم القاعدہ کی تاسیس کی۔[36] زرقاوی شیعوں کے خلاف دہشت گردی کی بدترین کاروائیوں کرواتا اور سنی شیعہ کے مابین پھوٹ اور تفرقہ ڈالنے کیلئے بھرپور انداز سے سرگرم عمل رہتا۔[37] امریکہ نے کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی اور سابق عراقی صدر صدام کے زرقاوی کیساتھ تعلقات کا بہانہ بنا کر 2003ء میں عراق پر حملہ کیا۔ سابق امریکی وزیر خارجہ نے اس وقت زرقاوی کو القاعدہ اور عراقی حکومت کے درمیان رابطہ کار قرار دیا تھا۔[38] تکفیری جماعتوں کے بارے میں ایک بین الاقوامی ادارے کی تیار کردہ رپورٹ کے مطابق عراق میں سنۃ 2003ء سے 2006ء تک 150 جہادی گروہوں کی موجودگی کا سراغ ملتا ہے۔[39]
عراق میں دولت اسلامیہ کی تشکیل
عراق میں دولت اسلامیہ کے اعلان کے بعد امارت المومنین کا منصب سنبھالنے کیلئے 21 رمضان 2006ء میں مجلس قیادت کو تشکیل دیا گیا۔ اس میں حامد داؤد محمد خلیل الزاوی بھی تھا کہ جسے ابوعمر بغدادی کہا جاتا تھا۔ یہ شخص جیش طائفہ منصورہ کا امیر تھا اور بعثی حکومت کے دوران سیکیورٹی ایجنسی میں کام کرتا تھا۔ ابو عمر بغدادی سنہ 1985ء میں سلفی تفکر کا ترجمان بن کر سامنے آیا۔ ابو مصعب زرقاوی کے بعد ابو عبد اللہ راشد بغدادی نامی شخص کو مجلس شوریٰ المجاہدین کا امیر منتخب کیا گیا اور پھر دولت اسلامیہ کا امیر بنا دیا گیا۔[40]
امارت سے خلافت تک
القاعدہ کے ارکان کا دعویٰ ہے کہ وہ خلافت اسلامیہ کے احیا کیلئے نکلے ہیں۔ خلافت کا قیام ایک مشکل امر ہونے کی وجہ سے انہوں نے کئی امارتیں ایجاد کیں۔ ان کے نزدیک جغرافیائی حدود کی وسعت اور امارتوں کے ایک دوسرے سے الحاق کے بعد ان کی مطمع نظر خلافت اسلامیہ قائم ہو جائے گی۔ داعش کے ترجمان ابومحمد عدنانی نے سنہ 2014ء میں ابوبکر بغدادی کو خلیفہ المسلمین قرار دیا اور اپنے اعلامیے میں کہا: اللہ کا وعدہ پورا ہو چکا ہے۔[41] ابتدا میں داعش نے فلوجہ شہر پر قبضہ کیا۔ پھر عراقی فوج کو دھوکہ دے کر سامرا میں داخل ہو گئے۔ یہاں انہوں نے سنی اکثریت کے تین علاقوں نینوا، انبار اور صلاح الدین پر قبضہ کر لیا۔ پھر انہوں نے موصل کا رخ کیا اور بعثیوں اور مقامی فوجی قیادت کی ہم آہنگی سے کسی قابل ذکر مزاحمت کے بغیر شہر پر کنٹرول حاصل کر لیا۔[42] بغدادی، عراقی فوج کی خفیہ ایجنسی کے سابق افسر حجی بکر کی مدد سے شام کے شمالی علاقوں پر بھی مسلط ہو گیا۔[43] بغدادی نے شام کو اپنی خلافت میں ضم کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس موقع پر ظواہری نے بغدادی سے مطالبہ کیا کہ عراق میں اپنے کام پر توجہ مرکوز رکھے اور شام سے دستبردار ہو جائے۔ مگر بغدادی دیر الزور، رقہ اور شام کے شمال مشرق میں واقع تیل کے تمام کنووں پر قابض ہو چکا تھا۔ پس وہ خود کو القاعدہ کی مرکزی تنظیم سے بے نیاز تصور کرنے لگا چنانچہ کہا: میں نے اپنے آپ کو ایمن الظواہری کے حکم اور اللہ کے حکم کے درمیان پایا تو میں نے باری عزوجل کے حکم کو اختیار کیا ہے اور اسے پہلے پر مقدم کیا ہے۔[44]
قیادت
ابومصعب زرقاوی
تفصیلی مضمون:ابو مصعب الزرقاوی احمد فاضل (فضیل) لقب ابو مصعب الزرقاوی، عراق میں القاعدہ کا بانی تھا۔ یہ شخص 1966ء میں اردن کے شہر زرقا میں پیدا ہوا۔ سترہ سال کی عمر میں اسے ثانوی اسکول سے نکال دیا گیا اور وہ آوارگی، منشیات اور شراب کا شکار ہو گیا۔[45] بعض اوقات وہ خواتین پر بھی دست درازی کرتا تھا۔[46] وہ عبد اللہ عزام کی افغانستان میں جہاد پر مبنی تقاریر سے متاثر ہو کر جہاد کی اصطلاح سے واقف ہوا۔[47] گزشتہ صدی میں سن اسّی کی دہائی کے وسط اور درست 1987ء میں اسے جرمانے کی سزا سنائی گئی کہ جس کی وجہ منشیات کی برآمدگی اور ایک جوان پر چاقو سے حملہ آور ہونا تھا۔[48] وہ سوویت فوجیوں سے لڑنے کیلئے 1989ء[49] میں افغانستان روانہ ہو گیا لیکن جب وہ پہنچا اس وقت سوویت افواج افغانستان چھوڑ کر جا رہی تھیں۔ وہاں اس کی ملاقات اسامہ بن لادن سے ہوئی۔[50] افغانستان میں وہ ایک قدامت پسند مجلے کے نمائندے کی حیثیت سے کام کرتا رہا۔[51] زرقاوی 1993ء میں اردن واپس چلا گیا اور وہاں پر اسے 1996ء میں تنظیم بیعت الامام کی رکنیت کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ زرقاوی نے سات سال اردن کے سلفی جہادی نظریے کے حامل شخص عصام برقاوی کیساتھ جیل میں گزارے کہ جب ان دونوں کو 15 سال جیل کی سزا سنائی گئی۔[52] تاہم زرقاوی کو شاہی عام معافی کے تحت سات سال بعد آزاد کر دیا گیا۔ رہائی کے بعد زرقاوی نے دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا: ایک اہل سنت سلفی مسلمانوں کی دنیا اور ان کے مقابلے میں کفار کی دنیا کہ جس میں وہ تمام گروہ اور فرقے شامل ہوں گے کہ جو پہلی دنیا کے تفکر کی مخالفت کریں۔[53] زرقاوی کی شخصیت چار اجزا کا مرکب ہے: 1)بچپن کا ماحول کہ جس میں اس نے پرورش پائی 2) والدہ سے متاثر ہونا 3) جیل کی زندگی 4) اس کا روحانی باپ ابو محمد مقدسی [54]
حجی بکر
اس کا نام سمیر عبد محمد خلیفاوی ہے۔ وہ زمانہ صدام میں بری فوج کی خفیہ ایجنسی میں افسر تھا۔ اسے 2006ء سے 2008ء تک بوکا اور ابوغریب کی جیلوں میں امریکہ کی زیر نگرانی رکھا گیا۔ رہائی کے بعد وہ تل رفعت میں رہائش پذیر ہو گیا کہ جو خلیجی ممالک سے پلٹنے والوں اور زیادہ تشدد کا سامنا کرنے والے لوگوں کی پناہ گاہ تھا۔ حجی بکر نے 2012ء کے اواخر میں شام کا سفر کیا۔ بعض دستاویزات کے مطابق یہ پہلا شخص ہے کہ جس نے شام کے شمالی علاقوں پر قبضے کیلئے ایک جامع پلان ترتیب دیا اور جاسوسی، قتل و غارت، سرچ آپریشن اور اغوا کے ذریعے اس منصوبے کو عملی کرنے کی نگرانی کرتا رہا۔ خبروں کے مطابق حجی بکر شامی فورسز کیساتھ مسلح لڑائی کے دوران نومبر 2014ء میں مارا گیا مگر اس سے پہلے اس نے شام کے وسیع علاقے پر داعش کے قبضے میں مدد فراہم کی کہ جس سے داعش کو بہت تقویت ملی۔ حجی بکر کی موت شامی مسلح فورسز کیساتھ فائرنگ کے تبادلے کے دوران نومبر 2014ء میں اس وقت واقع ہوئی کہ جب تل رفعت شہر داعش اور دیگر اسلامی تنظیموں کے درمیان لڑائی کے نتیجے میں دو حصوں میں تقسیم ہو چکا تھا۔[55] [56]
ابوبکر بغدادی
اس کا نام ابراہیم بن عواد بن ابراہیم بدری سامرائی ہے۔ یہ شخص سامرا شہر میں سنہ 1971ء میں پیدا ہوا۔ بغدادی خود کو بوبدری قبائل کی طرف نسبت دیتا ہے[57] اور چونکہ اہل سنت کے عقیدے کی رو سے خلیفہ مسلمین کا نسب قریش تک پہنچنا ضروری ہے، اس لیے بغدادی نے فوری طور پر ایک شجرہ نسب ایجاد کر کے اپنا نسب جعفر کذاب کے واسطے سے امام ہادیؑ سے ملا دیا۔[58] [59] بغدادی نے سلفی تفکر کے حامل ایک گھرانے میں پرورش پائی۔ اس نے قانون کی تعلیم جامعہ اسلامیہ بغداد سے حاصل کی۔[60] جامعہ بغداد سے گریجویٹ اور اس کے بعد ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ سامرا شہر میں دینی علوم کے معلم کے طور پر فرائض انجام دئیے۔[61] جامعہ احمد بن حنبل سامرا اس کی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔[62] بغدادی نے سنہ 2004ء میں تکفیری جماعتوں میں شمولیت اختیار کی اور سنہ 2006ء میں شوری المجاھدین کی تاسیس کے بعد وہ اس شوریٰ کا رکن منتخب ہوا۔ دیالی اور سامرا میں مقیم اپنے قبائل میں وسیع شہرت اور اثر و رسوخ کے سبب اس نے ابو عمر بغدادی کیلئے بیعت لینے میں اہم کردار ادا کیا۔ امریکی فوج نے ابوبکر بغدادی کو سنہ 2004ء کے اواخر میں مسلح گروہوں کیساتھ ملوث ہونے کے جرم میں گرفتار کیا۔ امریکیوں نے اسے عراقی صحرا میں واقع بوکا چھاؤنی کی جیل میں رکھا۔ اس نے ابوغریب کی جیل میں ٹرائل مکمل ہونے کے بعد بوکا کی جیل میں چار سال تک جیل کاٹی۔[63] بغدادی کی متعدد کنیتیں ہیں کہ جن میں سے شیخ ابراہیم ہے اور اسی سے وہ جہادیوں کے مابین معروف ہے یا ابو دعا اور ڈاکٹر ابراہیم و عود ابراہیم اور شیخ مخفی(اس کی یہ عادت رہی کہ اپنے عہدیداروں کے مابین خطاب کے وقت وہ چہرے پر نقاب اوڑھے رکھتا تھا) [64] داعشی میڈیا اس بات پر زور دیتا تھا کہ ابوبکر حسینی قریشی بغدادی کہہ کر پورا نام ذکر کیا جائے۔ اس کی وجہ یہ حدیث ہے کہ خلفا بارہ ہیں اور سب کے سب قریش سے ہیں۔[65]
عراق اور شام میں دولت اسلامیہ کی تشکیل
ابوبکر بغدادی شام میں تھا۔ وہ سنہ 2006ء کے شروع میں عراق لوٹ آیا کہ جہاں اسے امریکیوں نے مختصر مدت کیلئے گرفتار کر لیا۔ اپنی رہائی سے قبل اور رہائی کے بعد اس نے تنظیم دولت اسلامیہ کی بیعت کر لی۔ اس کی رہائی کے کچھ عرصے کے بعد امریکیوں نے عراق کی بوکا جیل سے سابقہ عراقی فوج کے دو بڑے فوجیوں کو رہا کیا کہ جنہوں نے دولت اسلامیہ عراق کے مستقبل کیلئے مرکزی اور بنیادی کردار ادا کیا اور ان دونوں نے بغدادی کو اس کا امیر بنوایا چونکہ وہ پہلے ایک عام اور غیر معروف شخص تھا۔ یہ دونوں فوجی یہ ہیں: بریگیڈئیر محمد الندی الجبوری المعروف راعی اور بریگیڈئیر سمیر عبد محمد حجی بکر کہ جو حزب بعث کی اعلیٰ شوریٰ کا بھی رکن تھا۔ مؤخر الذکر شخص نے عراق میں دولت اسلامیہ کے اہداف کی تعیین میں اہم کردار ادا کیا یہاں تک کہ سنہ 2011ء میں دولت اسلامیہ شام میں داخل ہو گئی۔[66] ابومصعب الزرقاوی نے جب یہ محسوس کیا کہ الجھاد العراقیۃ کے رہنما فنڈز اور سیکیورٹی کے اعتبار سے اس کا محاصرہ کر رہے ہیں تو اس نے تنظیم القاعدہ کی بیعت کر لی اور اس طرح التوحید اور الجہاد کی صفوں میں القاعدہ کے تحت کام کرنے والے سینکڑوں جنگجوؤں کو شامل کر لیا۔ زرقاوی کی موت کے بعد الجھاد العراقیۃ کے رہنماؤں نے فوری طور پر عراق میں اسلامی حکومت قائم کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ جماعت التوحید اور الجھاد کا مقابلہ کرنے کی بجائے انہیں ضم کیا جا سکے اور یہ سب امریکی حکمت عملی (کہ آگ کا سامنا کرنے کی بجائے اس کا رخ موڑ دیا جائے) کے تحت کیا گیا۔ اس دوران امریکیوں نے بیداری کی تحریکیں ایجاد کیں (کہ جن کی اکثریت کا تعلق انبار کے قبائل سے تھا اور یہی لوگ صدام حسین کے نیشنل گارڈز کی تشکیل میں پیش پیش ہوتے تھے اور اس کے نظام حکومت کی افرادی قوت شمار ہوتے تھے) اس اقدام کا مقصد یہ تھا کہ عراق میں دولت اسلامیہ کو مخفی رکھا جائے اور امریکی انخلا کی راہ ہموار کی جا سکے۔[67] سنہ 2010/4/19 میں دولت اسلامیہ کے ابو عمر بغدادی اور وزیر جنگ ابو حمزہ مہاجر امریکہ کے فضائی حملوں میں مارے گئے۔ اس کے بعد ابوبکر بغدادی کو دولت اسلامیہ کا نیا سربراہ مقرر کیا گیا۔ سنہ 2011ء میں اسامہ بن لادن مارا گیا اور ابوبکر بغدادی نے ایک خط ارسال کر کے ایمن الظواھری [68] کی مدد کا اعلان کیا مگر اس نے اس کی بیعت نہیں کی اور عراق میں دولت اسلامیہ کی مستقل حیثیت کا اعلان کر دیا۔[69] دوسری طرف ابو قتادہ فلسطینی نے ابوبکر بغدادی کی جانب سے ایمن الظواہری کی بیعت کرنے کی تصریح کی اور بغدادی اور اس کی جماعت کی جانب سے بیعت نہ کرنے کے گمان کو سفید جھوٹ اور بغدادی کو خطاکار قرار دیا کیونکہ اس نے القاعدہ کے امیر کی بیعت کو توڑا تھا۔[70]
خلافت کی حدود
دولت اسلامیہ کی حدود عراق اور شام میں محدود نہیں ہیں بلکہ شام سے مقصود شام، اردن، لبنان، مقبوضہ فلسطین، مراکش کا کچھ حصہ، عراق اور صحرائے سینا ہیں۔[71] داعش نے یہ نام اموی عہد میں سلطنت کی حدود کو دیکھتے ہوئے اختیار کیا ہے۔[72] تاہم حقیقت میں خلافتِ داعش کی حدود اور اس تنظیم کا ترسیم کردہ سیاسی نقشہ مغربی چین کے علاقوں سے اندلس تک ہے۔ مزید برآں داعش کا ڈھانچہ عالمی نوعیت کا ہے۔[73] انڈونیشیا سے مراکش تک سے تعلق رکھنے والی سلفی جماعتوں نے اس کی بیعت کی۔[74]
تنظیمی ڈھانچہ
داعش کے تنظیمی ڈھانچے میں ایک قائد اور ایک عسکری قیادت کی شوریٰ ہے۔ عسکری قیادت کی شوریٰ کے بنیادی ارکان صرف عراقی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ابوبکر بغدادی غیر عراقیوں کو اس مجلس کی رکنیت کی اجازت نہیں دیتا۔ اس مجلس کے ارکان کی تعداد 8 سے 13 افراد پر مشتمل ہے۔اس مجلس کی قیادت تحلیل شدہ عراقی فوج کے سابق برگیڈئیر حجی بکر کے پاس تھی۔[75] کسی ثانوی حیثیت یا اس سے نچلے درجے کے سپاہی کو بغدادی سے ملاقات کا حق نہیں تھا بلکہ وہ امرا کے احکامات کو صرف مجلس کے ارکان سے موصول کرنے پر اکتفا کرتے تھے۔[76]
توسیع کے اسباب
بین الاقوامی اور علاقائی امداد
داعش کی ترقی اور جغرافیائی حدود میں توسیع بہت سے عوامل کی مرہون منت ہے؛ جن میں سے کچھ یہ ہیں: داعش کیلئے بین الاقوامی اور علاقائی امداد [77] عراق کی تشویشناک داخلی صورتحال عراق میں گروہ بندیاں کمزور فوج حکومت کا بعض علاقوں پر عدم کنٹرول [78] علاقائی اور بین الاقوامی طاقتوں کی جانب سے اس تنظیم کی امداد جیسے سعودیہ اور قطر کی مالی امداد [79] اسی طرح صیہونی حکومت کے سامنے اسلامی حکومتوں کو کمزور کرنے کی خواہش میں امریکی امداد [80] مگر داعش اور اس کے تکفیری حلیف بڑی طاقتوں کے اسٹریٹیجک حلیف نہیں تھے بلکہ یہ طاقتیں داعش کو اس وقت تک سہارا دیتی رہیں گی کہ جب تک داعش ان کے سیاسی مفادات کا تحفظ کرتی رہے گی۔[81]
دہشت گردی
داعش نے پرانے اور اثر و رسوخ کے حامل تکفیری قائدین کا قتل عام کیا تاکہ ان کے پیروکاروں کو توڑ کر انہیں کلی یا جزوی طور پر بغدادی اور اس کی جماعت کی بیعت کے تحت لایا جا سکے۔ اس سلسلے کی اہم ترین کاروائی حرکت احرار الشام کے سربراہ محمد بھایا المعروف ابوخالد السوری کا قتل تھا کہ جو 24 فروری 2014ء کو کیا گیا۔ ابوخالد کو ظواہری کی جانب سے بغدادی اور جولانی کے مابین اختلاف ختم کروانے کا ٹاسک دیا گیا تھا۔[82] اسی طرح وہ اخوان المسلمین کی ذیلی تنظیم لواء التوحید کے قائد اور جبھۃ النصرۃ کے ایک بانی عبد القادر الصالح کا ٹھکانہ تلاش کرنے پر بھی مامور تھا۔[83] قابل ذکر ہے کہ شمالی ادلب کے نواحی علاقے میں واقع حرکت احرار الشام کے ایک مرکز کو دھماکہ خیز مواد سے اڑا کر چالیس سے زیادہ قائدین کے قتل کا شبہہ بھی اسی شخص پر تھا۔[84]
مالی وسائل
اگرچہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے داعش کی مالی امداد کی بندش پر مبنی قرارداد[85] منظور کی اس کے باوجود داعش کو درج ذیل مالی وسائل سے آمدنی ہوتی رہی: 1. سلفی جہادی تفکر رکھنے والے امرا [86] کے عطیات جیسے شام میں ابو محمد العدنانی۔ اسی طرح دنیا بھر کے مختلف ممالک میں داعش کیلئے فنڈز اکٹھے کیے گئے جیسے اردن میں ابو محمد المقدسی نے القاعدہ کیلئے زکات اکٹھی کی تھی۔[87] 2. داعش نے شام اور عراق کے شمال میں واقع پٹرول سے مالا مال علاقوں پر قبضہ کیا اور پٹرول نکال کر بلیک مارکیٹ میں سستے داموں فروخت کر کے بڑی مقدار میں دولت اکٹھی کی۔ دیگر مالی وسائل میں سے پٹرولیم مصنوعات کی فروخت اور شام کے شمال میں واقع بجلی گھروں کی بجلی فروخت کر کے حاصل ہونے والی آمدنی ہے۔ 3. بینکوں میں لوٹ مار جیسا کہ صرف موصل کے سنٹرل بینک سے نے 420 ملین ڈالر لوٹا گیا۔[88] 4. وسیع زرعی زمینوں پر ٹیکس کا نفاذ اور سرکاری اداروں کی زرعی املاک اور حکومتی موقوفات پر قبضہ۔[89] 5. خلیج فارس کے ممالک کی مالی امداد کہ جن میں سرفہرست سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات تھے۔[90] 6. اغوا برائے تاوان کی وارداتیں۔[91] 7. داعش کے نزدیک تاریخی آثار کا وجود شرک ہے۔ داعش نے بعض تاریخی آثار کو دھماکہ خیز مواد سے اڑا دیا مگر تاریخی آثار کو اڑا لے جانے والے مافیا نے داعش سے تعلقات قائم کر کے ان آثار کو خریدا اور انہیں یورپ اور ایشیا کے ممالک میں مہنگے داموں فروخت کیا۔ [92] [93] 8. یورپی ممالک، اقوام متحدہ، عرب ممالک (سعودی عرب و قطر) اور ترکی کی جانب سے شامی حکومت کی مخالفت میں داعش کی امداد تاکہ دفاعی لائن کو توڑا جا سکے۔ ان ممالک کی تعداد چالیس ہے۔ تاہم جب داعش ان ممالک کے مفادات کیلئے خطرہ بنی تو انہوں نے یہ امداد بند کر دی۔[94]
جرائم
داعش نے اپنے مقبوضہ علاقوں میں شیعہ و سنی کے علاوہ عیسائیوں اور ایزدیوں کے خلاف بھی سنگین جرائم کا ارتکاب کیا اور انتہائی بھیانک طریقوں سے لوگوں کو قتل کیا اور مشکوک الزامات کی پاداش میں قصاص کے نام پر ہاتھ اور انگلیاں کاٹنے کا عمل انجام دیا۔ داعش نے جن انسانی جرائم کا ارتکاب کیا ان میں سے درج ذیل قابل ذکر ہیں: لوگوں کو زندہ جلانا۔[95] انسانی اعضا کی خرید وفروخت، گروہی قتل عام، کیمیائی اسلحے کا استعمال۔[96] لوگوں کے اموال کی لوٹ مار اور چوری، مقامات مقدسہ کا انہدام جیسے گرجا گھروں کو منہدم کرنا، نبش قبر کر کے جسد نکالنا اور اس کے علاوہ قدیم تہذیبی آثار کو شرک کے مظاہر قرار دے کر تباہ و برباد کرنا۔ بچوں کو اغوا کر کے انہیں دہشت گردی کی کاروائیوں، قتل و غارت اور جاسوسی کی ٹریننگ دینا اور ان کا خون زخمی جنگجوؤں کو لگانا۔ اسی طرح عورتوں کو اغوا کر کے انہیں مشرق وسطیٰ میں ’’جنسی خدمات‘‘ کے بازار میں خرید و فروخت کیلئے پیش کیا جاتا تھا۔[97] جہاد نکاح کا عمل حتی محارم کیساتھ دہرایا جاتا۔[98] اسی طرح وہ اپنے جنگجوؤں کیساتھ بھی انتہائی بے رحمی سے پیش آتے ہیں۔ جیسے میدان جنگ میں غلطی کا ارتکاب کرنے والوں کے ہاتھ کاٹ دئیے جاتے ہیں یا انہیں گولی مار کر ہلاک کر دیا جاتا ہے۔[99] داعش لوگوں کو دہشت زدہ کرنے کی غرض سے نت نئے طریقوں سے لوگوں کو قتل کرتی ہے۔ یہ انتہائی بھیانک طریقوں سے لوگوں کی جان لیتی ہے اور بزعم خویش قصاص نافذ کرتی ہے۔ جیسے ہم جنس بازی کے الزام میں سب سے اونچی عمارت سے دھکا دینا۔[100] جادو کے الزام میں تلوار سے عورتوں کے سر تن سے جدا کرنا۔[101] اور کیمیائی ہتھیاروں سے تقریبا 300 عراقی فوجیوں کا قتل عام۔ [102]
اجتماعی قتل عام
اجتماعی قتل عام کا اہم ترین واقعہ داعش کی جانب سے فضائی بیس پر حملہ کر کے 1700 عراقی فوجیوں کو موت کے گھاٹ اتارنا ہے۔ یہ واقعہ ’’سپائکر قتل عام‘‘ کے عنوان سے معروف ہے۔ یہ سارے فوجی جنوبی عراق سے تعلق رکھتے تھے اور انہیں فوج اور تشیع کی طرف مائل ہونے کے الزام میں قتل کیا گیا۔[103] اسی طرح بونمر قبیلے کے 500 افراد کو بھی مار دیا گیا کہ جنہوں نے داعش کا مقابلہ کیا تھا۔[104]
ضریحوں اور اہم مقامات کا انہدام
داعش مظاہر شرک ہونے کی حجت قائم کرتے ہوئے مقدس مقامات جیسے گرجا گھروں کو منہدم کرتی، قبریں توڑ کر مردوں کو نکال دیتی اور قدیم تہذیبی نشانات کو نیست و نابود کر دیتی۔ داعش نے جن مقامات کو منہدم کیا؛ ان میں سے کچھ یہ ہیں: 1۔ موصل شہر میں حضرت دانیالؑ کا مزار، یحیی بن قاسم کا مزار، [105] حضرت یونسؑ کا مزار، [106] حضرت شیثؑ کی مسجد و مزار [107] عون الدین بن الحسنؑ کا مزار، [108] جرجیس نبیؑ کی مسجد اور قبر، [109] ابن اثیر جزری کی قبر، [110] شیخ فتحی کا مزار، [111] شیخ ابو العلاء کا مزار اور قضیب البان الموصلی کی مسجد اور مزار کو منہدم کیا۔ 2۔ تلّعفر شہر: خضر الیاس کا مزار، سعد بن عقیل بن ابی طالب کا مزار، آر محمود یا آرماموط کا مزار گرایا گیا۔[112] 3۔ محلبیۃ شہر: شیخ ابراہیم کی قبر، شیخ احمد رفاعی کا مزار، [113] اور سنجار شہر میں سیدہ زینبؑ سے منسوب مزار۔[114] اس کے علاوہ انہوں نے حجر بن عدی ، عمار بن یاسر ، اویس قرنی اور شیخ احمد رفاعی کی قبروں کو بھی منہدم کر دیا۔[115]
معابد اور گرجا گھروں پر حملے
داعش نے گرجا گھروں پر حملے کیے اور ان میں خدمات انجام دینے والی بعض راہبات کو اغوا کر لیا۔ انہوں نے ایک پورا گاؤں تباہ کر دیا کیونکہ اس کے لوگ حضرت مسیحؑ کی زبان یعنی سریانی بولتے تھے۔مارٹر گولوں کیساتھ تباہ کیے جانے والے مقامات میں دمشق کے مضافات میں واقع معبد صیدنایا، حلب کا گرجا گھر انجیلیہ عربیہ، حلب میں واقع گرجا گھر قدیس کیفورک، حمص میں واقع گرجا گھر (ام الزنار)، شام کے شہر رقہ میں واقع گرجا گھر شہدا اور حمص میں واقع گرجا گھر مار الیاس شامل ہیں۔[116]
تاریخی مقامات کی بربادی
داعش نے شام کے اندر 300 سے زائد تاریخی مقامات کو تباہ کیا۔[117] اسی طرح انہوں نے قدیم یادگاروں کو بھی نیست و نابود کر دیا کہ جن میں سے نمایاں ترین حلب میں نصب ابو العلاء معری کے مجسمے کو اڑانا ہے۔ اسی طرح انہوں نے عراق کے شہر موصل میں واقع اسد شیریان، ابو تمام ،عثمان موصلی کے مجسمے اور رقہ میں نصب ہارون الرشید کا مجسمہ بھی مسمار کیا۔ داعش کی ان کاروائیوں سے شام کے ثقافتی ورثے کو ایک ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان پہنچا اور ان میں سے اکثر آثار کی مرمت یا تجدید ممکن ہی نہیں ہے۔[118]
داعش کے بارے میں علما کے فتاویٰ
داعش کے جرائم صرف شہریوں اور فوجیوں تک محدود نہ تھے بلکہ بہت سے علمائے اہل سنت کو بھی صرف اس بنیاد پر قتل کر دیا گیا کہ انہوں نے داعش کے زیر تسلط علاقوں میں ان کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ بہت سے علمائے دین کو شہر کی مسجد اسرا کے سامنے بیعت سے انکار کی پاداش میں گولی مار کر ہلاک کیا گیا۔[119] داعش کی سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے اس کے خلاف علمائے شیعہ اور علمائے اہل سنت نے بلاتفریق مذمتی بیانات جاری کیے: آیت اللہ سیستانی نے داعش کے 2014/06/10 میں نینویٰ پر قبضے کے بعد عراقی حکومت اور سیاسی قائدین کو متحد ہو کر دہشت گردوں کے مقابلے اور اہل وطن کو ان کے شر سے چھٹکارا دلانے کی تلقین کی۔[120] دوسرے مرحلے میں آپ نے عوام الناس پر جہاد کفائی کے وجوب کا اعلان کیا تاکہ داعش کو پھلنے پھولنے سے روکا جا سکے۔[121]
- علمائے الازھر کے ترجمان شیخ احمد کریمہ نے ان شدت پسند تنظیموں کی جانب سے انجام پانے والی تمام مجرمانہ کاروائیوں کو حرام اور گناہ قرار دیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ان تنظیموں کی ٹریننگ امریکہ اور صیہونی کر رہے ہیں۔[122]
- بصرہ میں سرگرم جماعت علمائے عراق کے ترجمان شیخ محمد امین نے واضح کیا کہ عراق کو ایک گمراہ تکفیری حملے کا سامنا ہے اور موصل میں داعش کے ہاتھوں انجام پانے والے اعمال کی نسبت جو اہل سنت کی طرف دیتا ہے تو یہ اس کی خام خیالی ہے اور کسی کو اجازت نہیں ہے کہ اہل سنت کے نام پر ایسی بات کرے ۔[123]
- رابطہ علمائے شام کے سربراہ شیخ اسامہ رفاعی نے داعش کے امیروں کو کہا کہ انہیں خوف خدا نہیں ہے جو مسلمانوں کا خون بہانا جائز سمجھتے ہیں اور اس امر نے انہیں کفر میں مبتلا کر دیا ہے اور انہوں نے زور دے کر کہا کہ اس تنطیم میں تکفیر اور شدت پسندی بہت زیادہ ہے۔ [124]
- دار افتاء مصریہ کے ترجمان نے اس امر پر زور دیا کہ داعش نے تکفیری تفکر کیساتھ بہت سے جوانوں کو گمراہ کر رکھا ہے اور انہیں دین اور دولت اسلامیہ کے نام پر دھوکہ دیا ہے حالانکہ داعش صرف دین کو بدنام کر رہی ہے، شہروں کو تباہ کر رہی ہے اور اللہ کے بندوں کا خون بہا رہی ہے۔[125]
- شیشان میں 25 اگست سنہ 2016ء میں غروزنی سیمینار منعقد کیا گیا کہ جس میں وہابیت کو عصر حاضر کے خوارج قرار دیتے ہوئے کہا گیا: طول تاریخ میں مضطرب اور منحرف سوچ کی لہریں چلتی رہی ہیں کہ جن کا دعویٰ وحی سے نسبت کا ہوتا ہے جبکہ وہ علمی اسلوب کی دھجیاں بکھیرتی ہیں اور لوگوں کا امن و سکون تباہ کر دیتی ہیں۔[126]
نظریاتی چیلنجز
ہم دیکھتے ہیں کہ نظریاتی اور شخصی سطح پر داعش، القاعدہ اور جہادی سلفیوں کے بانیوں میں اہم اختلافات ہیں؛ جن میں سے کچھ یہ ہیں:
- داعش کی خلافت، اہل سنت کے نزدیک خلافت کے اصولوں پر قائم نہیں ہوئی تھی۔ لہٰذا اکثر علمائے اہل سنت نے اسے قبول نہیں کیا۔ اگر اسے بعض نادان جوانوں کی طرف سے قبول کیا گیا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے عرب اور اسلامی ممالک کے حکام سے مایوس ہو چکے تھے۔ ابو قتادہ فلسطینی کے بقول تنظیم دولت اسلامیہ کی جانب سے خلافت اسلامیہ کے قیام کا اعلان باطل کی صورتوں میں سے ایک صورت ہے۔[127] [128]
- اسی طرح بغدادی نے خود کو اہل حل و عقد کی طرف رجوع کیے بغیر خلیفہ قرار دیا جبکہ اہل حل و عقد اسلامی خلافت کے قیام کا اہم ترین عنصر شمار ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے داعش سے باہر کے تکفیری اس پر اعتراض کرتے تھے اور اسے مذکورہ عقیدے سے روگردان قرار دیتے ہوئے علنی طور پر برابھلا کہتے تھے۔[129] [130]
- جمہور اہل سنت کی جانب سے بغدادی کیساتھ اختلاف کی ایک اور وجہ یہ تھی کہ اس نے خود کو خلیفہ مسلمین مشہور کر رکھا ہے حالانکہ اہل سنت کی کلامی کتب میں ہے کہ خلیفہ کے نسب کا قریش کی طرف رجوع لازمی ہے اور اسی وجہ سے بغدادی نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ قرشی ہے۔ اس پر بہت سے مخالفین نے اس کا یہ دعویٰ مسترد کر دیا۔[131]
- اہل سنت کا خلافت سنبھالنے کے حوالے سے عقیدہ یہ ہے کہ خلیفہ کی بیعت کی جائے اور یہ خلافت کے نفاذ کا اہم ترین عامل ہے۔ اس امر کے پیش نظر بغدادی کے مخالفین کا خیال تھا کہ وہ اس اہم اصول کا حامل نہیں ہے۔[132]
- علمائے مسلمین اتحاد نے اپنے ایک بیان میں اجماع مسلمین اور امت کی جانب سے اس خلافت کی تائید کو مسترد کر دیا۔[133] اسی طرح جماعت علمائے مسلمین عراق نے ایک بیان جاری کیا کہ جس میں اس بیعت کے بطلان اور اس نوعیت کی حکومت کے غیر مشروع ہونے کی کچھ دلیلیں ذکر کیں۔[134]
- اسی طرح سلفی جہادیوں کا داعش کے خلاف ایک استدلال یہ تھا کہ خلیفہ کی گردن پر کسی دوسرے کی بیعت نہ ہو حالانکہ بغدادی القاعدہ کے قائد ملا عمر کی ماضی میں بیعت کر چکا تھا۔[135]
- اسامہ بن لادن کا جانشین ایمن الظواہری زرقاوی کے نام اپنے ایک خط میں اس پر تنقید کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ اس نے دور کے دشمن یعنی امریکہ کے ساتھ جنگ کی بجائے نزدیکی دشمن یعنی شیعہ کے خلاف جنگ کو کس بنیاد پر مقدم کیا ہے حالانکہ مجاہدین امریکیوں کے ساتھ جنگ میں مصروف ہیں۔ اس کے علاوہ عام مسلمانوں کو زرقاوی کے توسط سے انتہائی وحشیانہ کاروائیوں کا سامنا ہے، ان کی ہمدردیاں ختم ہو رہی ہیں اور وہ حکومت میں حصہ نہیں لے رہے۔ اس کیلئے براہ راست سیاسی عمل کی بھی اتنی ہی ضرورت ہے کہ جس قدر عسکری کاروائی کی ضرورت ہے۔[136]
- ابو محمد مقدسی نے زرقاوی کو خبردار کیا کہ عراق میں ہونے والے خود کش دھماکوں کی وجہ سے بہت سے عراقی اور شیعہ مارے گئے ہیں کہ جس کا مطلب ہے کہ شیعہ سنی آمنے سامنے ہیں حالانکہ ان کا قتل جائز نہیں ہے۔ [137]
- جب داعش نے عراق کے علاقے نینوا پر قبضہ کیا اور اس کے بعد دوسرے شہر اور دیہات سقوط کر گئے تو شیعہ مرجع سید علی سیستانی نے 13 جون 2014ء کو جہاد کفائی کا فتویٰ جاری کیا کہ جس پر حشد شعبی کی بنیاد رکھی گئی اور دن بدن اس کا دائرہ کار وسیع ہوتا چلا گیا۔
نتائج
تنظیم دولت اسلامیہ یا داعش کے منظر عام پر آ کر انسانیت کے خلاف بین الاقوامی، اسلامی اور معاشرتی قوانین کی مخالفت کرتے ہوئے سنگین نوعیت کے جرائم کا ارتکاب کرنے پر درج ذیل نتائج سامنے آئے: اسلام کی بدنامی، اسلامی امت کے درمیان فتنے اور جنگ کے شعلے بھڑکانا، خطے میں اٹھنے والی اسلامی بیداری کی لہر کو منحرف کرنا، مزاحمتی محور کی حامی حکومتوں کے خلاف جوابی کاروائیاں کر کے صیہونی حکومت کی سیکیورٹی کی ضمانت فراہم کرنا اور فرقہ واریت کو فروغ دینا۔ اسی طرح اہل سنت کے مذاہب اربعہ اور شیعہ امامیہ کے بنیادی عقائد و اعمال کا انکار کرنا، صیہونی حکومت کے خلاف لڑنے والے مزاحتمی محاذ کو کمزور کرنا، مسلمان مذاہب اور قوموں کو ایک دوسرے سے لڑانے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہو کر ان کی طاقت ختم کرنا، مسلمانوں میں داخلی جنگ شروع کروا کر مغرب کا اس میں براہ راست مداخلت سے گریز، [138] امت اسلامیہ کو اس کی امنگوں سے غافل کرنا، مسئلہ فلسطین کی حقانیت کو فراموش کرنا، تقریب بین المذاہب کی تمام راہوں کو بند کرنا، عالم اسلام سے امن و سکون چھین کر اسلام کو ناپسند مذہب قرار دینا اور اسلام فوبیا کی ترویج کرنا۔
داعش کے خاتمے کا اعلان
دولت اسلامیہ کے خاتمے کا باقاعدہ اعلان جنرل سلیمانی نے 21 نومبر 2017ء کو اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر سید علی خامنہ ای کے نام ارسال کردہ اپنے ایک خط میں کیا۔ شام اور عراق کا سرحدی علاقہ بو کمال وہ آخری مقام تھا کہ جہاں پر جنرل قاسم سلیمانی کی مشاورت سے شامی فوجوں اور عوامی لشکروں نے داعش کے تابوت میں آخری کیلیں ٹھونکیں۔[139] سلیمانی نے داعش کو امریکی و صیہونی پٹھو قرار دیا اور داعش کی شکست میں عراقی و شامی حکومتوں کے علاوہ حشد شعبی اور حزب اللہ لبنان کے کردار کی طرف اشارہ کیا ۔ انہوں نے اس فتح میں ایران، عراق، شام، لبنان، افغانستان اور پاکستان سے تعلق رکھنے والی عوامی فورسز کے مؤثر کردار کا بھی ذکر کیا۔[140] آیت اللہ خامنہ ای نے جنرل قاسم سلیمانی کے جواب میں داعش کو کینسر کا پھوڑا اور مہلک قرار دیتے ہوئے زور دیا کہ اس کی نابودی نہ صرف خطے کے ممالک بلکہ اسلامی دنیا اور اقوام عالم کی بڑی خدمت تھی۔[141]
حوالہ جات
- ↑ دعوۃ المقاومۃ الإسلاميۃ العالميۃ ص 694۔
- ↑ راجع المواقع الإلكترونيۃ لمناصرۃ داعش كموقع شموخ الإسلام۔
- ↑ نجفي، ج 5 ص 421۔
- ↑ الموسوعۃ الفقهيۃ، ج 13، ص 227 مصطلح التكفير، طبعۃ الكويت۔
- ↑ علي زاده موسوي، ج 1 ص 94۔
- ↑ تاريخ الطبري، ج 4، ص 54۔
- ↑ زيارۃ القبور والاستنجاد بالمقبور، ص156 والهديۃ السنيۃ، ص 40۔
- ↑ جعفريان، ص 441۔
- ↑ جعفريان، ص 441۔
- ↑ http://www.binbaz.org.sa/fatawa/4162۔
- ↑ كشف الشبهات، ص 58؛ مجموع مؤلّفات الشيخ محمد بن عبد الوهّاب، ج 6، رسالۃ كشف الشبهات، ص 115۔
- ↑ مجموع مؤلّفات محمد بن عبد الوهّاب، ج 6، رسالۃ كشف الشبهات، ص 124۔
- ↑ اللؤلوء المكين من فتواى فضيلۃ الشيخ ابن جبرين، ص 39۔
- ↑ موقع المنجد الإلكتروني، السؤال رقم 10272، وموقع edaa.net۔
- ↑ داعش دراسۃ نقديۃ ص 15۔
- ↑ نباتيان، ص 230۔
- ↑ نباتيان، ص53۔
- ↑ نباتيان، ص 53۔
- ↑ http://newspaper.annahar.com/article/158367-%D9%85%D8%A7-%D9%87%D9%88-%D8%B3%D8%B1-%D8%A7%D9%84%D8%A7%D8%AC%D8%AA%D9%8A%D8%A7%D8%AD-%D8%A7%D9%84%D9%85%D9%81%D8%A7%D8%AC%D8%A6-%D9%84%D8%A8%D9%84%D8%AF%D8%A9-%D8%B9%D8%B1%D8%B3%D8%A7%D9%84-%D9%87%D9%8A%D9%84%D8%A7%D8%B1%D9%8A-%D9%83%D9%84%D9%8A%D9%86%D8%AA%D9%88%D9%86-%D9%86%D8%AD%D9%86-%D9%85%D9%86-%D8%A3%D8%B3%D8%B3-%D8%AF%D8%A7%D8%B9%D8%B4۔
- ↑ صحيفۃ القدس العربي، عدد 2732، بتاريخ 1998/2/23م ۔
- ↑ خفايا وأسرار داعش ص 91۔
- ↑ http://www.all4syria.info/Archive/242680۔
- ↑ https://ar.qantara.de/content/%D9%83%D8%AA%D8%A7%D8%A8-%D8%A7%D9%84%D8%B3%D9%84%D8%B7%D8%A9-%D8%A7%D9%84%D8%B3%D9%88%D8%AF%D8%A7%D8%A1-%D8%AD%D9%88%D9%84-%D9%86%D8%B4%D8%A3%D8%A9-%D8%AF%D8%A7%D8%B9%D8%B4-%D9%85%D9%86-%D9%83%D8%AA%D8%A7%D8%A6%D8%A8-%D8%A7%D9%84%D8%A8%D8%B9%D8%AB-%D8%A7%D9%84%D8%B9%D8%B1%D8%A7%D9%82%D9%8A%D8%A9-%D8%A5%D9%84%D9%89-%D8%AA%D9%86%D8%B8%D9%8A%D9%85-%D8%A7%D9%84%D8%AF%D9%88%D9%84%D8%A9-%D8%A7%D9%84%D8%A5%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85%D9%8A%D8%A9 ۔
- ↑ خفايا وأسرار داعش ص81 ۔
- ↑ نباتيان، ص 87۔
- ↑ خفايا وأسرار داعش ص 81-82۔
- ↑ نباتيان، ص88۔
- ↑ نباتيان، ص88 ۔
- ↑ نباتيان، ص 53۔
- ↑ نباتيان، ص 88۔
- ↑ نباتيان، ص 72۔
- ↑ نباتيان، ص 53۔
- ↑ الزرقاوي الوجه الآخر للقاعدۃ ص 106۔
- ↑ كلمات مضيئۃ، شبكۃ البراق، ج5 ص58 (الملف الصوتي لهذا الموضوع تحت عنوان (رسالۃ من جندي لأميره -إلى الشيخ أسامۃ بن لادن)، متاح على شبكۃ اليوتيوب وكذلك على موقع منبر التوحيد والجهاد۔
- ↑ دولۃ الخلافۃ الإسلاميۃ ص372۔
- ↑ داعش رسالۃ نقديۃ ص 24۔
- ↑ داعش دراسۃ نقديۃ ص 23۔
- ↑ الزرقاوي الوجه الآخر للقاعدۃ ص 135۔
- ↑ Search For International Terrorist Entities:اسم المؤسسۃ للبحث في موضوع الإرهاب العالمي۔
- ↑ تغريدات على تويتر نشرها الجولاني باسم مستعار تحت عنوان: أسرار دولۃ البغدادي۔
- ↑ فيروز آبادي، ص 57۔
- ↑ نباتيان، ص 55۔
- ↑ http://www.aljazeera.net/news/arabic/2015/4/20/%D8%AF%D9%8A%D8%B1-%D8%B4%D8%A8%D9%8A%D8%BA%D9%84-%D8%B6%D8%A7%D8%A8%D8%B7-%D8%B9%D8%B1%D8%A7%D9%82%D9%8A-%D8%B3%D8%A7%D8%A8%D9%82-%D9%88%D8%B1%D8%A7%D8%A1-%D8%B5%D8%B9%D9%88%D8%AF-%D8%AA%D9%86%D8%B8%D9%8A%D9%85-%D8%A7%D9%84%D8%AF%D9%88%D9%84%D8%A9۔
- ↑ فيروز آبادي، ص 45۔
- ↑ kirdar M.J. alqaeda in iraq. center for sterragic international studies. 2011:1-15۔
- ↑ دولۃ الخلافۃ الإسلاميۃ ص 371۔
- ↑ راجع نصّ الحوار مع الشيخ أبو مصعب الزرقاوي المتاحۃ على الموقع الإنترنتي منبر التوحيد و الجهاد۔
- ↑ الزرقاوي الوجه الآخر للقاعدۃ ص37۔
- ↑ الزرقاوي الوجه الآخر للقاعدۃ ص37۔
- ↑ دولۃ الخلافۃ الإسلاميۃ ص372۔
- ↑ kirdar M.J. alqaeda in iraq. center for sterragic international studies. 2011:1-15۔
- ↑ دولۃ الخلافۃ الإسلاميۃ ص372۔
- ↑ الزرقاوي الوجع الآخر للقاعدۃ ص 72-81۔
- ↑ الزرقاوي الجيل الثاني للقاعدۃ ص3۔
- ↑ http://www.sasapost.com/spiegel-secret-file-reveal-isis/۔
- ↑ http://www.alhayat.com/Articles/8683942/%D8%B6%D8%A7%D8%A8%D8%B7-%D8%A7%D9%84%D9%85%D8%AE%D8%A7%D8%A8%D8%B1%D8%A7%D8%AA--%D8%AD%D8%AC%D9%8A-%D8%A8%D9%83%D8%B1--%D8%B9%D8%B1%D9%91%D8%A7%D8%A8-%D9%88%D9%84%D8%A7%D8%AF%D8%A9--%D8%AF%D8%A7%D8%B9%D8%B4--%D9%85%D9%86-%D8%B1%D8%AD%D9%85--%D8%A7%D9%84%D8%A8%D8%B9%D8%AB-۔
- ↑ مد الأيادي لبيعۃ البغدادي ص2۔
- ↑ مد الأيادي لبيعۃ البغدادي ص2 ۔
- ↑ تبصير المحاجج بالفرق بين الدولۃ الإسلاميۃ والخوارج ص4-5 ۔
- ↑ الدولۃ الإسلاميۃ ص 46۔
- ↑ مدّ الأيادي لبيعۃ البغدادي ص2۔
- ↑ http://www.alalam.ir/news/1560830۔
- ↑ الدولۃ الإسلاميۃ ص 49۔
- ↑ الدولۃ الإسلاميۃ ص 45۔
- ↑ داعش دراسۃ نقديۃ ص 14۔
- ↑ خفايا وأسرار داعش، ص 88۔
- ↑ خفايا وأسرار داعش، ص 86۔
- ↑ http://arabic.people.com.cn/31662/7375040.html ۔
- ↑ http://www.islamist-movements.com/2317 ۔
- ↑ ثياب الخلافۃ، ص 3۔
- ↑ زيادۃ نيكلا، ص 50۔
- ↑ فيروز آبادي، ص 51۔
- ↑ أبو مصعب السوري، ص 191. و ص 1079۔
- ↑ نباتيان، ص 105۔
- ↑ فيروز آبادي، ص 51۔
- ↑ فيروز آبادي، ص 21۔
- ↑ نباتيان، ص75۔
- ↑ نباتيان، ص234۔
- ↑ نباتيان، ص235۔
- ↑ نباتيان، ص236۔
- ↑ مختار شيخ حسيني، ص77۔
- ↑ خفايا وأسرار داعش ص109۔
- ↑ خفايا وأسرار داعش ص111۔
- ↑ http://www.dostor.org/633556۔
- ↑ البند السابع من مجلس الأمن الدولي عبارۃ عن قانون يقضي بأنّ كلّ بلد أو جماعۃ أو شخص يشمله البند فهو إرهابي من وجهۃ نظر مجلس الأمن، وتطبّق عليه العقوبات۔
- ↑ http://www.dostor.org/633556۔
- ↑ بيان الفعل الفاحش الذي تقوم به داعش ص52۔
- ↑ داعش دراسۃ نقديۃ ص72۔
- ↑ http://www.alaan.tv/news/world-news/111765/security-council-imposes-sanctions-isis-nusra-front۔
- ↑ http://www.alquds.co.uk/?p=183432۔
- ↑ http://arabic.cnn.com/middleeast/2014/04/16/iraq-isis-mony۔
- ↑ http://ynewsiq.com/index.php?aa=news&id22=9705&iraq ۔
- ↑ http://arabic.sputniknews.com/arab_world/20160424/1018485890.html۔
- ↑ داعش دراسۃ نقديۃ ص74۔
- ↑ http://www.annahar.com/article/263745-%D8%B4%D8%B1%D9%8A%D8%B7-%D9%84%D8%AF%D8%A7%D8%B9%D8%B4-%D9%8A%D8%B8%D9%87%D8%B1-%D8%AD%D8%B1%D9%82-%D8%A7%D8%B1%D8%A8%D8%B9%D8%A9-%D8%B9%D9%86%D8%A7%D8%B5%D8%B1-%D9%85%D9%86-%D8%A7%D9%84%D8%AD%D8%B4%D8%AF-%D8%A7%D9%84%D8%B4%D8%B9%D8%A8%D9%8A-%D8%A7%D9%84%D8%B9%D8%B1%D8%A7%D9%82%D9%8A۔
- ↑ https://arabic.rt.com/news/802689-%D8%A3%D8%A8%D8%B4%D8%B9-%D8%B9%D8%B4%D8%B1-%D8%AC%D8%B1%D8%A7%D8%A6%D9%85-%D8%AF%D8%A7%D8%B9%D8%B4/۔
- ↑ http://almontasaf.net/news18481.html۔
- ↑ http://www.ahewar.org/debat/show.art.asp?aid=375510۔
- ↑ https://arabic.rt.com/news/802689-%D8%A3%D8%A8%D8%B4%D8%B9-%D8%B9%D8%B4%D8%B1-%D8%AC%D8%B1%D8%A7%D8%A6%D9%85-%D8%AF%D8%A7%D8%B9%D8%B4/ 2. تعدى المحتوى الحالي إلى أعلى الصفحۃ↑ ۔
- ↑ http://www.alalam.ir/news/1776223۔
- ↑ https://arabic.rt.com/news/787227-%D8%AF%D8%A7%D8%B9%D8%B4-%D8%A5%D8%B9%D8%AF%D8%A7%D9%85-%D8%A5%D9%85%D8%B1%D8%A3%D8%AA%D9%8A%D9%86-%D8%B3%D9%88%D8%B1%D9%8A%D8%A7/ 2. تعدى المحتوى الحالي إلى أعلى الصفحۃ↑ ۔
- ↑ http://www.vetogate.com/1940262۔
- ↑ http://arabic.cnn.com/middleeast/2014/09/10/iraq-speicher-massacre۔
- ↑ http://www.annahar.com/article/186249-%D9%85%D9%86-%D9%87%D9%8A-%D8%B9%D8%B4%D9%8A%D8%B1%D8%A9-%D8%A7%D9%84%D8%A8%D9%88%D9%86%D9%85%D8%B1-%D8%A7%D9%84%D8%AA%D9%8A-%D8%A7%D8%B9%D8%AF%D9%85-%D8%AF%D8%A7%D8%B9%D8%B4-500-%D9%85%D9%86%D9%87%D8%A7 2. تعدى المحتوى الحالي إلى أعلى الصفحۃ↑ ۔
- ↑ http://fk-news.com/10350-%D8%AF%D8%A7%D8%B9%D8%B4%20%D8%AA%D9%81%D8%AC%D8%B1%20%D9%85%D9%82%D8%A7%D9%85%20%D8%A7%D9%84%D9%86%D8%A8%D9%8A%20%D8%AF%D8%A7%D9%86%D9%8A%D8%A7%D9%84%20(%D8%B9)%20%D9%81%D9%8A%20%D8%A7%D9%84%D9%85%D9%88%D8%B5%D9%84.html ۔
- ↑ https://almadapress.com/ar/news/36192/%D8%AF%D8%A7%D8%B9%D8%B4-%D9%8A%D9%88%D9%82%D9%81-%D9%86%D8%A8%D8%B4-%D9%82%D8%A8%D8%B1-%D8%A7%D9%84%D9%86%D8%A8%D9%8A-%D9%8A%D9%88%D9%86%D8%B3-%D8%B9-%D9%88%D9%85%D8%AE%D8%AA ۔
- ↑ http://www.mouood.org/arabic/item/21715-%D8%AF%D8%A7%D8%B9%D8%B4-%D8%AA%D9%87%D8%AF%D9%85-%D9%85%D8%B1%D9%82%D8%AF%DB%8C-%D8%A7%D9%84%D9%86%D8%A8%DB%8C%DB%8C%D9%86-%DB%8C%D9%88%D9%86%D8%B3-%D9%88%D8%B4%DB%8C%D8%AA-%D9%81%DB%8C-%D8%A7%D9%84%D9%85%D9%88%D8%B5%D9%84.html ۔
- ↑ http://mediarockz.info/%D8%AA%D9%81%D8%AC%D9%8A%D8%B1-%D9%85%D9%82%D8%A7%D9%85-%D8%A7%D9%84%D8%A7%D9%85%D8%A7%D9%85-%D8%B9%D9%88%D9%86-%D8%A7%D9%84%D8%AF%D9%8A%D9%86-%D8%A7%D8%A8%D9%86-%D8%A7%D9%84%D8%AD%D8%B3%D9%86-%D8%A7%D8%A8%D9%86-%D8%B9%D9%84%D9%8A-%D8%B9%D9%84%D9%8A%D9%87%D9%85%D8%A7-%D8%A7%D9%84%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85-%D9%81%D9%8A-%D8%A7%D9%84%D9%85%D9%88%D8%B5%D9%84.html ۔
- ↑ http://www.akhbaralaan.net/news/arabs/2014/7/28/isis-destroy-prophet-zarzis-grave-mosul-iraq ۔
- ↑ https://arabic.rt.com/news/715489-%D8%AF%D8%A7%D8%B9%D8%B4_%D9%83%D9%86%D8%A7%D8%A6%D8%B3_%D9%85%D8%A4%D8%B1%D8%AE_%D8%A7%D9%84%D9%85%D9%88%D8%B5%D9%84/ ۔
- ↑ http://www.alalam.ir/news/1608462 ۔
- ↑ http://www.vetogate.com/1091655 ۔
- ↑ http://www.syrianmasah.net/arabic/www.syrianmasah.net/arabic/articaldetails44318.html ۔
- ↑ http://www.annahar.com/article/157285-%D8%AF%D8%A7%D8%B9%D8%B4-%D9%8A%D9%81%D8%AC%D8%B1-%D9%85%D9%82%D8%A7%D9%85-%D8%A7%D9%84%D8%B3%D9%8A%D8%AF%D8%A9-%D8%B2%D9%8A%D9%86%D8%A8-%D9%81%D9%8A-%D8%BA%D8%B1%D8%A8-%D8%A7%D9%84%D9%85%D9%88%D8%B5%D9%84 ۔
- ↑ الدولۃ الإسلاميۃ ص 14 ۔
- ↑ الدولۃ الاسلاميۃ في العراق والشام ص32-35۔
- ↑ http://alwatan.sy/archives/29261۔
- ↑ الدولۃ الاسلاميۃ في العراق والشام ص35-39۔
- ↑ http://www.lebaneseinfo.com/ar/article/live/id/762158/--%D8%A7%D9%84%D8%AF%D8%A7%D8%B9%D8%B4%D9%8A%D8%A9-%D9%85%D8%B4-%D8%B3%D9%86%D8%A9---%D9%83%D9%81%D9%89-%D9%87%D8%B1%D8%A7%D8%A1%D9%8B:-%D8%AF%D8%A7%D8%B9%D8%B4-%D8%AA%D8%B9%D8%AF%D9%85-%D8%A7%D9%84%D8%B9%D9%84%D9%85%D8%A7%D8%A1-%D8%A7%D9%84%D9%85%D8%B3%D9%84%D9%85%D9%8A%D9%86-%D9%84%D8%B1%D9%81%D8%B6%D9%87%D9%85-%D8%A7%D9%84%D9%85%D8%A8%D8%A7%D9%8A%D8%B9%D8%A9---- ۔
- ↑ http://www.sistani.org/arabic/statement/24906/۔
- ↑ http://www.sistani.org/arabic/archive/24918/۔
- ↑ http://iraq.shafaghna.com/of-the-day/item/40294-%D8%A7%D9%84%D8%A3%D8%B2%D9%87%D8%B1-%D9%8A%D8%AD%D8%B1%D9%85-%D8%A7%D8%B9%D9%85%D8%A7%D9%84-%D8%AF%D8%A7%D8%B9%D8%B4-%D9%88%D8%A7%D8%AC%D8%AA%D9%85%D8%A7%D8%B9-%D8%B2%D8%B9%D9%85%D8%A7%D8%A1-%D8%A7%D9%84%D8%B4%D9%8A%D8%B9%D8%A9-%D9%88%D8%A7%D9%84%D8%B3%D9%86%D8%A9-%D8%A8%D8%A7%D9%84%D8%B9%D8%B1%D8%A7%D9%82-%D9%8A%D8%AF%D8%B9%D9%88-%D9%84%D9%84%D9%88%D8%AD%D8%AF%D8%A9-%D8%A7%D9%84%D9%88%D8%B7%D9%86%D9%8A%D8%A9.html 2. تعدى المحتوى الحالي إلى أعلى الصفحۃ↑ ۔
- ↑ http://www.alsumaria.tv/mobile/news/103083/%D8%AC%D9%85%D8%A7%D8%B9%D8%A9-%D8%B9%D9%84%D9%85%D8%A7%D8%A1-%D8%A7%D9%84%D8%B9%D8%B1%D8%A7%D9%82-%D8%A8%D8%A7%D9%84%D8%A8%D8%B5%D8%B1%D8%A9-%D8%A7%D9%87%D9%84-%D8%A7%D9%84%D8%B3%D9%86%D8%A9-%D9%88%D8%A7%D9%84/ar۔
- ↑ http://www.raialyoum.com/?p=21448۔
- ↑ http://rihabnews.com/%D8%A7%D9%84%D8%A5%D9%81%D8%AA%D8%A7%D8%A1-%D8%A7%D9%84%D9%85%D8%B5%D8%B1%D9%8A%D8%A9-%D8%AF%D8%A7%D8%B9%D8%B4-%D8%B4%D9%88%D9%87%D8%AA-%D8%B5%D9%88%D8%B1%D8%A9-%D8%A7%D9%84%D8%AF%D9%8A%D9%86-%D8%A7/۔
- ↑ http://www.alalam.ir/news/1860774۔
- ↑ أبو قتادۃ، ص3۔
- ↑ نباتيان، ص257۔
- ↑ طارق عبد الحليم، 1435و2۔
- ↑ نباتيان، ص258۔
- ↑ نباتيان، ص262۔
- ↑ نباتيان، ص264۔
- ↑ http://da3ich.wordpress.com/2014/07/05/%۔
- ↑ http://da3ich.wordpress.com/2014/07/01/تعليق-هيئۃ-علماء المسلمين-في-العراق- ۔
- ↑ نباتيان، ص271 ۔
- ↑ Cordesman A.H, Burke A.A. The Islamists and the "Zarqawi Factor". center for sterategic international studies. 2006:1-26 ۔
- ↑ ایضا ۔
- ↑ فيروز آبادي، ص50۔
- ↑ اللواء قاسم سليماني يعلن رسميًّا انتهاء داعش ۔
- ↑ «نامه سرلشکر قاسم سلیمانی به رهبر انقلاب درباره پایان سیطره داعش».۔
- ↑ «و ما رمیت اذ رمیت ولکن الله رمی به بشریت خدمتی بزرگ کردید»۔
مآخذ
- ابو قتاده فلسطینی، ثیاب الخلافۃ، 1435ھ۔
- الاثری، ابو همام ابوبکر عبدالعزیز، مد الایادی لبیعۃ البغدادی، بیجا، بینا، 1435ھ۔
- کرمی چرمہ، کامران، سلفی گری و خاورمیانہ عربی، تهران، خبرگزاری فارس، 1393شمسی۔
- علی زاده موسوی، سید مهدی، تبار شناسی سلفی گری و وهابیت، قم، آوای منجی، چاپ چهارم، 1393شمسی۔
- فیروز آبادی، سید حسن، تکفیری های داعش را بهتر بشناسیم، تهران، دانشگاه عالی ملی، 1393شمسی۔
- «نامہ سرلشکر قاسم سلیمانی بہ رهبر انقلاب درباره پایان سیطره داعش»، در پایگاه اطلاع رسانی دفتر حفظ و نشر آثار آیت الله خامنہ ای، تاریخ درج مطلب: 30 آبان 1396 ش، تاریخ بازدید: 1 آذر 1396شمسی۔
- نباتیان، محمد اسماعیل و مختار شیخ حسینی، زمینہ های فکری- سیاسی جریان بعثی-تکفیری داعش، مجمع جہانی اهل بیت، اسفند 93 شمسی۔
- زیاده، نیکلا، دمشق در عصر ممالیک، ترجمہ جلال الدین اعلم، تهران، بنگاه ترجمہ و نشر کتاب، 1351شمسی۔
- «و ما رمیت اذ رمیت ولکن الله رمی بہ بشریت خدمتی بزرگ کردید»، در پایگاه اطلاع رسانی دفتر مقام معظم رهبری، تاریخ درج مطلب: 30 آبان 1396 ش، تاریخ بازدید: 1 آذر 1396 شمسی۔