میر انیس

یہ مقالہ 3 جولائی 2021 تاریخ کو منتخب مقالہ کے عنوان سے منتخب ہوا ہے۔ مزید وضاحت کے لئے کلک کریں۔
ویکی شیعہ سے
میر انیس
کوائف
ناممیر ببر علی انیس
لقب/کنیتانیس
مذہبشیعہ
شہرتمرثیہ نگار
نسبرضوی سادات
مشہور اقاربمیر خلیق (والد) میر نفیس (بیٹا)
تاریخ پیدائشسنہ 1803ء
جائے پیدائشاترپردیش، فیض آباد ہندوستان
سکونتفیض آباد
آرامگاہلکھنؤ
علمی معلومات
اساتذہمیر خلیق
آثارمجموعہ مرثیہ میر انیس (5 جلدیں)
دیگر معلومات
تخصصشعر و ادب
مہارتمرثیہ نگاری
پیشہمرثیہ گوئی


میر انیس (1803_1874ء) برصغیر کے مشہور و معروف شاعر، مرثیہ نگار اور مرثیہ گو ہیں۔ انیس نے شاعری کا آغاز غزل سے کیا لیکن جوانی سے ہی صرف مرثیہ پڑھنا شروع کیا۔ میر انیس عربی اور فارسی زبان پر بھی عبور رکھتے تھے۔ انیس کے پوتے کے مطابق آپ نے ایک رات میں واقعہ کربلاء کے بارے میں 1182 مصرعوں پر مشتمل ایک طویل مرثیہ لکھ دیا۔ انیس اپنے زمانے کے سلاطین اور حکمرانوں کی تعریف میں شعر نہیں پڑھتے تھے اور اپنے بیٹے کو بھی ایسا رویہ اختیار کرنے کی نصیحت کی۔ انیس کے خاندان میں متعدد شعرا تھے۔ ان کا سلسلہ نسب، امام علی رضاؑ سے ملتا ہے۔ میر انیس سنہ 1874ء میں 72 سال کی عمر میں لکھنؤ میں وفات پاگئے اور یہاں سپرد خاک ہوئے۔ آپ کے کلام پر مشتمل بہت ساری کتابیں چھپ چکی ہیں۔ سالہا سال گزرنے کے بعد آج بھی انیس کے مرثیے منبروں سے پڑھے جاتے ہیں۔

سوانح حیات

میر ببر علی انیس ولد میر مَستَحسَن خَلیق سنہ 1803ء میں ہندوستان کی ریاست اترپردیش کے ضلع فیض آباد کے محلہ گلاب باڑی میں پیدا ہوئے۔[1] والد نے آپ کا نام میر سید ببرعلی رضوی رکھا۔[2] میر انیس متناسب جسامت کے مالک تھے، خوبصورت کتابی چہرہ، بڑی بڑی آنکھیں، صراحی دار گردن، ذرا بڑی مونچھیں اور باریک داڑھی کہ جو دور سے تراشی ہوئی محسوس ہو۔[3] انیس کا پسندیدہ لباس دو پلی ٹوپی، لمبا گھیردار کرتا اور شکن دار پاجامہ تھے کہ یہی اس زمانے کے شرفاء اور ذی علم افراد کا لباس ہوا کرتا تھا۔[4]

آپ کا خاندانی سلسلہ امام رضاؑ سے جا ملتا ہے۔[5] انیس کے اجداد میں سے «میر امامی»، شاہ جہاں(حکومت:1628-1656ء)[یادداشت 1] کے عہد سلطنت میں ایران سے ہندوستان آئے۔[6]

میر انیس نے فیض آباد میں تعلیم حاصل کی اور صرف و نحو، معانی و بیان اور دیگر علوم سیکھے۔[7] آپ کو فارسی اور عربی زبان پر بھی عبور حاصل تھا۔[8] آپ کے اساتذہ میں «میر نجف علی» اس دور کے شیعہ عالم دین، «مولوی حیدر علی فیض آبادی» اس دور کے حنفی عالم اور «حکیم میرکلو» شامل ہیں۔[9] کہا جاتا ہے کہ میر انیس نے تعلیم اور شاعری اپنے والد اور دیگر اساتذہ سے سیکھی لیکن آپ کی تربیت میں آپ کی والدہ کا بڑا کردار تھا۔[10] آپ کی والدہ دینی مسائل سے آگاہ تھیں، انہیں فارسی زبان پر بھی کسی حد تک عبور حاصل تھا اور «جامع عباسی» کی تدریس کرتی تھیں۔[11]

میر انیس نے 19 سال کی عمر میں شادی کی اور آپ کی چھے اولاد تھیں۔[12] بعض نے میر انیس کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ذکر کی ہیں۔[13] چالیس سال کی عمر میں لکھنؤ چلے گئے۔[14] 45 برس میں جنگ آزادی کی تباہی کے بعد وہ لکھنؤ چھوڑ کر کچھ عرصہ کاکوری میں مقیم رہے۔ پھر لکھنؤ دوبارہ امن و امان برقرار ہونے کے بعد یہاں واپس آئے اور محلہ سبزی منڈی میں رہائش اختیار کی۔[15]

کہا جاتا ہے کہ انیس نماز اول وقت کے پابند تھے۔ بعض اوقات جلسات میں شاعری چھوڑ کر نماز پڑھتے تھے اور پھر دوبارہ سے شاعری شروع کرتے تھے۔[16] میر انیس 29 شوال سنہ 1291ھ مطابق 10 دسمبر 1874ء کو 72 سال کی عمر میں لکھنؤ میں انتقال کر گئے[17] اور لکھنؤ میں اپنے مکان میں ہی دفن ہوئے۔[18] 1963ء میں ان کے مزار پر ایک عالیشان مقبرہ تعمیر کروایا گیا۔[19]

شعر و مرثیہ نگاری

انیس کو بچپن ہی سے شاعری کا شوق تھا۔[20] آپ نے شاعری کو اپنے والد اور «شیخ امام بخش ناسخ»(لکھنؤ کے ایک مشہور مرثیہ نگار) سے سیکھا۔[21] کہا جاتا ہے کہ آپ کا تخلص «حزین» تھا جسے استاد «ناسخ» نے «انیس» میں بدل دیا۔[22]

انیس کو ابتدا میں غزل پڑھنے کا بہت شوق تھا اور کسی مشاعرے میں آپ کی غزل کو بڑی داد ملی۔ آپ کے والد بھی وہ غزل سن کر بہت خوش ہوئے اور کہا: اب کے بعد غزل کو خیر باد کہہ کر اس شغل کو وقت دو جہاں دین اور دنیا کا سرمایہ ہے۔[23] والد کی نصیحت اور امام حسینؑ سے محبت کی بنا پر غزل کو ترک کیا اور مرثیہ نگاری شروع کی اور پھر کبھی غزل کی طرف مڑ کر بھی نہیں دیکھا۔[24] انیس کا دور مرثیے کا سنہرا دور تھا۔ اس دور میں مرثیہ گوئی کے ساتھ ساتھ مرثیہ خوانی کے فن کو بھی عروج حاصل ہوا۔[25]

انیس کے مشہور مرثیوں میں «جب قطع کی مسافت شب آفتاب نے» والا مرثیہ اور «جب لشکر خدا کا علم سرنگوں ہوا» والا مرثیہ بہت مشہور ہیں۔[26]

اشعار کی تعداد

مجموعہ مرثیہ میر انیس کی تیسری جلد

انیس کے مرثیوں کی تعداد لگ بھگ 1200 بیان کی جاتی ہے۔ آپ کئی مرثیے غیر مطبوعہ ہیں اور مختلف بیاضوں کے صفحات کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ انیس نے مرثیوں کے علاوہ قصیدے، سلام، نوحے اور رباعیات کا ایک بڑا ذخیرہ بھی چھوڑا ہے۔ رباعیات[27] کی تعداد کو 600 تک بتایا گیا ہے۔ میر انیس کے نواسے کے بقول، سنہ1857ء کے اواخر میں انیس نے 157 بند یعنی 1182 مصرعے کا مرثیہ ایک ہی رات میں لکھا۔[28] یہ انیس کے مشہور و معروف مرثیوں میں سے ایک ہے جو «جب قطع کی مسافت شب آفتاب نے سے شروع ہوتا ہے۔ جس میں شہدائے کربلا کا میدان کی طرف جانے کو بیان کیا ہے۔[29]

انیس نے ایک مرثیہ بغیر نقطے کے بھی لکھا۔[30] محمد حسین آزاد نے تذکرہ آب حیات میں لکھا ہے کہ میر انیس نے مرثیے کے کم سے کم دس ہزار مصرعے پڑھے ہیں۔[حوالہ درکار]

انیس مرثیہ نگاری کے علاوہ مرثیہ خوانی بھی کرتے تھے۔[31] میر انیسؔ کا کلام پانچ جلدوں میں نول کشور پریس لکھنو سے شائع ہوا۔ آپ کے مرثیوں کے مجموعے مختلف ناموں سے چھپ چکے ہیں۔[32]

انیس کا پہلا اور آخری شعر

انیس نے زندگی میں پہلا شعر آٹھ سال کی عمر میں پڑھا جسے سن کر آپ کے والد جو خود بھی معروف شاعر تھے، ششدر رہ گئے اور اس وقت شاعر ناسخ بھی موجود تھے۔ اس شعر کو سن کر ناسخ نے یہی کہا کہ ایک دن آئے گا انیس کی شاعری کو عالمگیر شہرت ملے گی اور یہ بچہ سلطنت شعر کا بادشاہ بنے گا۔ آپ کا پہلا شعر یہ تھا:[33]

کھلا باعث یہ اس بیداد کے آنسو نکلنے کادھواں لگتا ہے آنکھوں میں کسی کے دل کے جلنے کا

میر انیس کے پہلے شعر کے بارے میں ایک اور قول بھی ہے؛ کہا جاتا ہے کہ میر انیس نے سات سال کی عمر میں ایک بکری پال رکھی تھی جس سے آپ بے پناہ مانوس تھے۔ ایک دن بکری مر گئی تو بہت ملال ہوا اور ایک شعر لکھا۔[34]

افسوس کہ دنیا سے سفر کر گئی بکریآنکھیں تو کھلی رہ گئیں پر مر گئی بکری

انیس کے والد کو خبر ہوئی تو انہیں بلا کر مکرر اس شعر کو پڑھوایا اور خوب داد دی اور دل بڑھایا۔ اپنے بیگانوں میں مٹھائی تقسیم کی اور یوں بڑی دھوم دھام سے میر انیس کی شاعری کی ابتدا ہوئی۔[35]

انیس نے آخری سلام موت کے بارے میں پڑھا اس کے بعد پھر کوئی کلام نہیں پڑھا ہے۔ اس کے دو مصرعے یہ ہیں:[36]

[37]
سب عزیز و آشنا، نا آشنا ہوجائیں گےقبر میں پیوند جتنے ہیں جدا ہوجائیں گے

اس کے علاوہ موت کے بارے میں چار مصرعے یوں لکھتے ہیں:

دردا کہ فراق روح و تن میں ہوگاتنہا تن ناتواں کفن میں ہوگا
اس وقت کریں گے یاد رونے والےجس دن نہ انیس انجمن میں ہوگا

انداز شعر

میر انیس کے دور میں شعر کے دو سبک اور انداز عام تھے۔ ایک تغزل میں داخلی افکار کی پیشکش جسے عرف عام میں فصاحت کہا جاتا ہے۔ اس انداز کو دہلوی شعرا کا سبک کہا جاتا تھا۔ دوسرا سبک الفاظ کی شعبدہ بازی اور صناعت کو زیادہ دخل حاصل تھا اور یہ انداز لکھنؤ میں ناسخ اور ان کے شاگردوں میں پایا جاتا تھا۔ انیس کی شاعری لکھنؤ کے اس دور میں رائج انداز شاعری کے برعکس تھی۔ انیس صرف دعوی کے نہیں بلکہ عمل کے بھی معتقد تھے۔ اس حوالے سے ان کا ایک شعر کچھ اس طرح سے ہے:

ہے کجی عیب مگر حسن ہے ابرو کے لیے تیرگی بد ہے مگر نیک ہے گیسو کے لیے
سرمہ زیبا ہے فقط نرگسِ جادو کے لیے زیب ہے خالِ سیہ چہرہٴ گل رو کے لیے
داند آں را کہ فصاحت بہ کلامے دارد ہر سخن موقع و ہر نقطہ مقامے دارد

میر انیس نے جا بجا اپنے اشعار میں قرآنی آیات اور احادیث شریفہ کا اشارہ کیا ہے۔[38]

انیس کے کلام کے محاسن

انیس نے اپنی شاعری میں صرف واقعہ کربلا ہی بیان نہیں کیا بلکہ واقعہ کربلا کے بہادروں کے بارے میں بھی کہا اور ہر ایک کو خاص تشبیہ کے ساتھ بیان کیا ہے۔[39] اور واقعہ کربلا کے کرداروں اور ان ذوات مقدسہ کے احترام میں کمی کاستی کے بغیر مقامی رنگ میں انہیں پیش کیا ہے۔[40]

آپ ہمیشہ امام حسینؑ کے اصحاب کو شجاعت اور بہادری سے توصیف کرتے تھے۔[41] اپنے مرثیوں میں صرف عزاداری ہی نہیں بلکہ نماز، جہاد اور محبت اہلبیتؑ جیسی دینی تعلیمات کو بھی بیان کرتے تھے۔[42] آپ کے مرثیوں میں عربی اور فارسی ادبی ترکییبات بھی شامل رہتی تھیں۔[43]آپ غیر مانوس اور غیر فصیح الفاظ کے استعمال سے گریز کرتے تھے۔[44] شاعری کے اصولوں کی رعایت کے ساتھ ساتھ سادہ الفاظ کا انتخاب، تشبیہ و استعارے کا مناسب استعمال، منظر نگاری، لفظوں کا اختصار اور جزئیات پر نظر، غیر مانوس اور غیر فصیح الفاظ سے اجتناب اور واقعہ کربلا کو برصغیر کی ثقافت میں بیان کرنا انیس کے کلام کے محاسن میں ذکر کئے گئے ہیں۔[45] ذیل کے شعر میں صندل اور مانگ کو برصغیر کے تہذیب سے لیتے ہوئے عربی ماحول کو اپنے معاشرے سے پیوست کیا ہے:

زینب کی یہ دعا ہے کہ اے رب ذوالجلالبچ جائے اس فساد سے خیر النسا کا لال
بانوئے نیک نام کی کھیتی ہری رہےصندل سے مانگ بچوں سے گودی بھری رہے

کئی سال گزرنے کے باوجود آج بھی شعرا اور خطباء آپ کے اشعار کو عزاداری میں بیان کرتے ہیں۔[46] انیس نے کسی حاکم یا بادشاہ کی مدحت میں شعر نہیں کہا بلکہ اپنی اولاد کو بھی اس سے بچے رہنے کی تلقین کی۔[47]

تشبیہ و تمثیل واقعہ کربلا

واقعہ کربلا کے کرداروں کی کمال کی تشبیہ دی ہے اور ذوالجناح کے بارے میں یوں لکھا ہے:

خوشرو و خوش خرام و خوش اندام و خوش لجامخوش خود و خوش جمال و ادا فهم و تیز گام

تلوار کے بارے میں کچھ یوں لکھا ہے:

ناز اس کی سب کو بهائی کرشمے بهلے لگےچهوڑے نہ بے لہو پیئے جس کے گلے لگے

امام حسینؑ کے بارے میں یوں گویا ہوا ہے:

یوں برچھیاں تھیں چار طرف اس جناب کےجیسے کرن نکلتی ہے گرد آفتاب کے
میر انیس کی قبر

خیمے سے نکلے شہ کے عزیزاں خوش خصال___________جن میں کئی تھے حضرتِ خیر النسا کے لال

قاسم سا گلبدن علی اکبر سا خوش جمال___________ اک جا عقیل و مسلم و جعفر کے نونہال

سب کے رخوں کا نور سپہر بریں پہ تھا ___________ اٹھارہ آفتابوں کا غنچہ زمیں پہ تھا

ایک اور مرثیہ «آج شبیرؑ پہ کیا عالمِ تنہائی ہے» جو زیادہ مشہور ہے اس میں عصر عاشورا کے وقت امام حسینؑ کی تنہائی کو بیان کیا ہے:[48]

آج شبیرؑ پہ کیا عالمِ تنہائی ہے ___________ ظلم کی چاند پہ زہراؔ کی گھٹا چھائی ہے

اس طرف لشکرِ اعدا میں صف آرائی ہے ___________ یاں نہ بیٹا نہ بھتیجا نہ کوئی بھائی ہے

برچھیاں کھاتے چلے جاتے ہیں تلواروں میں ___________ مار لو پیاسے کو ہے شور ستمگاروں میں


انیس کا شاعرانہ خاندان

میر انیس کا شمار ان شعرا میں ہوتا ہے جنہوں نے رثائی شاعری کو معراج بخشی ہے۔[49] میر انیس نے یہ ثابت کر دیا کہ شاعری صرف غزل میں نہیں بلکہ مرثیہ میں بھی کی جا سکتی ہے۔ انیس اردو شاعری میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے شعرا میں سے ایک ہیں۔[50]

انیس ایک خاندانی شاعر ہیں جس کی کئی پشتوں سے شاعری چلتی آ رہی ہے۔[51] میر انیس کے پردادا میر ضاحک، دادا میر حسن، والد میر خلیق، دو چچے میر خلق اور میر مخلوق نیز دو بھائی انس اور مونس سب شاعر تھے۔[52] میر ضاحک نے بہت ساری مثنویاں لکھیں۔[53] انیس کے دادا میر حسن، مثنوی کے مشہور شاعر تھے اور «مثنوی سحر البیان» کے مولف ہیں۔[54] آپ کے چچا «خلق» اور والد میرخلیق دونوں صاحبِ دیوان تھے۔[55] انیس کے والد نےشروع میں غزل کا دیوان کہہ ڈالا بعد میں مرثیہ گوئی کی طرف توجہ کی اور تا حیات اسی سے منسلک رہے۔[56] یوں شاعری انیس کو وراثت میں ملی ہے۔[57] اسی سبب انیس نے یہ شعر پڑھا

عمر گزری ہے اسی دشت کی سیّاحی میںپانچویں پشت ہے شبیر کی مداحی میں
انیس کے نام ہندوستان میں ڈاک ٹکٹ

فنون شہسواری

انیس کو عربی اور فارسی علوم و ادب کے علاوہ سپہ گری، ورزش اور گھڑسواری کا بھی بہت شوق تھا۔[58] اور سپہ گری کو دہلی کے ایک استاد سے سیکھا۔[59] ہندوستان کے قدیم رسم کے مطابق کھیل کے دوران بدن کے بعض حصے کو لباس سے باہر نکالنا ضروری ہوتا تھا لیکن میر انیس نے کھیل کے لئے ایک مخصوص لباس بنوایا اور کبھی نیم عریان نہیں ہوئے۔[60] انیس کے گھرانے میں اکثر ورزش کرنے والے تھے اسی سبب انیس کو بھی ورزش سے دلی لگاؤ تھا۔[61]

میر انیس کے ہاتھ کا لکھا ہوا ایک نسخہ

انیس اور دبیر

میر انیس اور مرزا دبیر ہم عصر مرثیہ نگار تھے۔ میر انیس کے استاد میر خلیق اور دبیر کے استاد میر ضمیر تھے۔ انیس اور دبیر دونوں نے مرثیہ کی طرف توجہ دی اور اپنے دائرہ شاعری کو سلام، رباعی اور مرثیہ تک محدود رکھا۔ البتہ دونوں کے خاص عقیدت مند تھے اسی سبب بعض نے ان دونوں مرثیہ نگاروں کے مرثیوں کا تقابلی جائزہ بھی پیش کیا ہے[62] اور ہر کسی نے اپنے مورد پسند مرثیہ نگار کو ترجیح دینے کی کوشش کی ہے۔ ذیل میں کچھ اشعار دبیر کے پیش کرتے ہیں اور اسی مضمون کو انیس کے کلام میں بھی دیکھ لیتے ہیں:

حضرت علیؑ کی فضیلت میں دونوں شعرا نے جو ایک جیسے کلمات استعمال کرتے ہوئے جن اشعار کو پڑھا ہے ان میں سے چار مصرعے درج ذیل ہیں:

دبیر:

اہل عطا میں تاج سر ھل اتی ہیں یہاغیار لاف زن ہیں شہ لافتی ہیں یہ
خورشید انور فلک انما ہیں یہکافی ہے یہ شرف کہ شہ قل کفی ہیں یہ

انیس:

حق نے کیا عطا پہ عطا ھل اتی کسےحاصل ہوا ہے مرتبہ لافتی کسے
کونین میں ملا شرف انما کسےکہتی ہے خلق، بادشہ قل کفی کسے

شاعری میں تشبیہات اور استعارات کا خاصا دخل ہوتا ہے لہذا اس حوالے سے بھی دونوں کے کلام پیش خدمت ہیں:

دبیر کہتے ہیں:

جب سرنگوں ہوا علم کہکشانِ شب خورشید کے نشاں نے مٹایا نشان ِشب
تیر شہاب سے ہوئی خالی کمان شب تانی نہ پھر شعاع قمر نے سنان شب
آئی جو صبح زیور جنگی سنوار کے شب نے زرہ ستاروں کی رکھ دی اتار کے

انیس کہتے ہیں:

خورشید چھپا گرد اڑی زلزلہ آیااک ابر سیاہ دشت پر آشوب میں چھایا
پھیلی تھی جہاں دھوپ وہاں ہو گیا سایہبجلی کو سیاہی میں چمکتا ہوا پایا
جو حشر کے آثار ہیں سارے نظر آئےگرتے ہوئے مقتل میں ستارے نظر آئے

انیس کے بارے میں شعرا کے کلام

مرزا سلامت علی دبیر نے انیس کی وفات پر یوں مرثیہ پڑھا:

داد خواهم یا غیاث المستغیثین الغیاث - از که دل مانوس گردد بی سخن ور بی انیس
عبرة للناظرین گردید افلاک و زمین - دیدنی نبود مه و خورشید و اختر بی انیس
وادریغا عینی و دینی دو بازویم شکست - بی نظیر اول شد و امسال و آخر بی انیس
یادگار رفتگان هستیم و مهمان جهان - چند روزه چند هفته بی برادر بی انیس
الوداع ای ذوق تصنیف الفراق ای شوق نظم - شد حواس خمسه دوده و عقل ششدر بی انیس

جوش ملیح آبادی نے انیس کی وفات پر یوں اشعار پڑھے:

اے دیار لفظ و معنی کے رئیس ابن رئیساے امین کربلا، باطل فگار و حق نویس
ناظم کرسی نشین و شاعر یزداں جلیسعظمت آل محمد کے مورخ اے انیس
تیری ہر موج نفس روح الامیں کی جان ہےتو مری اردو زباں کا بولتا قرآن ہے
میر انیس کا مقبرہ

مونوگراف

  • ہندوستان کے صف اول کے رسالہ ماہنامہ "نیا دور" کے 53ویں شمارے کو میر انیس سے مختص کیا گیا۔[63] یہ رسالہ ہندوستان کے اہم رسالوں میں سے ایک ہے جس نے 1955ء سے کام کا آغاز کیا۔[64]
  • کلام میر انیس، روح انیس: سید مسعود حسن رضوی ادیب
  • روح انیس: سید مسعود حسن رضوی ادیب
  • انیسیات: سید مسعود حسن رضوی ادیب

نوٹ

  1. گورکانیان کی سلطنت کا پانچواں حاکم جس نے ہندوستان کے بہت سارے علاقوں پر حکومت کی

حوالہ جات

  1. اردو زبان کے فردوسی میر ببر علی انیس کی وفات/ایک نظر، حوزہ نیوز ایجنسی
  2. نیر مسعود، میرانیس، ۲۰۱۱ء، ص۲۷–۲۸
  3. میر انیس از دیدگاہ بزرگان، اردو چینل ویب سائٹ۔
  4. میر انیس از دیدگاہ بزرگان، اردو چینل ویب سائٹ۔
  5. نیا دور اور میر انیس، آزاد میل حق کی آواز ویب سائٹ۔
  6. سید مسعود حسن رضوی ادیب، انیسیات، ص5 تا 12
  7. نیر مسعود، میرانیس، 2011ء، ص27–28
  8. سید مسعود حسن رضوی ادیب، انیسیات، ص 11۔
  9. نیر مسعود، میرانیس، 2011ء، ص29
  10. صالحہ عابدہ حسین، خواتین کربلا کلام انیس کے آئینے میں، ص4
  11. احمد تمیم داری، انیس، مجلہ دانش، شمارہ 23۔
  12. نیر مسعود، میرانیس، 2011ء، ص27–28
  13. نقوش، انیس نمبر، شمارہ 128، ص633
  14. احمد تمیم داری، انیس، مجلہ دانش، شمارہ 23۔
  15. اردو زبان کے فردوسی میر ببر علی انیس کی وفات/ایک نظر، حوزہ نیوز ایجنسی۔
  16. فضل امام، انیس شخصت اور فن، ص72
  17. احمد تمیم داری، انیس، مجلہ دانش، شمارہ 23۔
  18. اردو زبان کے فردوسی میر ببر علی انیس کی وفات/ایک نظر، حوزہ نیوز ایجنسی۔
  19. اردو زبان کے فردوسی میر ببر علی انیس کی وفات/ایک نظر، حوزہ نیوز ایجنسی۔
  20. میر انیس، اردو نوٹس ویب سائٹ۔
  21. نیر مسعود، میرانیس،2011ء، ص32۔
  22. نیر مسعود، میرانیس،2011ء ص 32۔
  23. محمد حسین آزاد، آب حیات، ص519۔
  24. محمد حسین آزاد، آب حیات، ص519۔
  25. اُردو مرثیہ نگاری...ایک تاریخی جائزہ، روزنامہ پاکستان۔
  26. محمد حسین آزاد، آب حیات، ص519۔
  27. میر ببر علی انیس، پنجند ڈاٹ کام۔
  28. شاعری که در یک شب ۱۵۷ بیت عاشورایی سرود، کرب و بلا پایگاه تخصصی امام حسین علیه‌السلام
  29. جب قطع کی مسافت شب آفتاب نے، ریختہ ویب سائٹ۔
  30. مجلہ نقوش انیس نمبر
  31. میر ببر علی انیس، پنجند ڈاٹ کام
  32. میر ببر علی انیس، پنجند ڈاٹ کام۔
  33. محمد رضا ایلیا، میر انیس از دیدگاہ بزرگان اردو چینل۔
  34. میر انیس کی شاعری کی ابتداء، ارتقاء حیات ویب سائٹ۔
  35. میر انیس کی شاعری کی ابتداء، ارتقاء حیات ویب سائٹ
  36. مسعود حسن رضوی ادیب، انیسیات، ص57۔
  37. مسعود حسن رضوی ادیب، انیسیات، ص57۔
  38. سید مسعود حسن رضوی ادیب، انیسیات، ص16،17۔
  39. شاعری که در یک شب ۱۵۷ بیت عاشورایی سرود، کرب و بلا پایگاه تخصصی امام حسین علیه‌السلام
  40. ریحانہ خاتون، «میر انیس کے کلام کے شعری محاسن»، انیس و دبیر حیات و خدمات، ص343 تا 356۔
  41. شاعری که در یک شب ۱۵۷ بیت عاشورایی سرود، کرب و بلا پایگاه تخصصی امام حسین علیه‌السلام
  42. شاعری که در یک شب ۱۵۷ بیت عاشورایی سرود، کرب و بلا پایگاه تخصصی امام حسین علیه‌السلام
  43. شاعری که در یک شب ۱۵۷ بیت عاشورایی سرود، کرب و بلا پایگاه تخصصی امام حسین علیه‌السلام
  44. ریحانہ خاتون، میر انیس کی کلام کی شعری محاسن، انیس و دبیر حیات و خدمات، ص ۳۴۳ تا ۳۵۶.
  45. ریحانہ خاتون، «میر انیس کے کلام کے شعری محاسن»، انیس و دبیر حیات و خدمات، ص 343 تا 356۔
  46. شاعری که در یک شب ۱۵۷ بیت عاشورایی سرود، کرب و بلا پایگاه تخصصی امام حسین علیه‌السلام
  47. فضل امام، انیس شخصیت اور فن، ص67–68
  48. آج شبیر پہ کیا عالم تنہائی ہے، ریختہ ویب سائٹ۔
  49. نکہت فاطمہ، اردو مرثیہ نگاری میں میر انیس کا درجہ، ادبی میراث ویب سائٹ۔
  50. میر ببر علی انیس، پنجند ڈاٹ کام۔
  51. سید مسعود حسن رضوی ادیب، انیسیات، ص5 تا 12۔
  52. سید مسعود حسن رضوی ادیب، انیسیات، ص5 تا 12۔
  53. سید مسعود حسن رضوی ادیب، انیسیات، ص5 تا 12
  54. میر ببر علی انیسؔ (اردو کے نام آور شاعر و مرثیہ نگار)، سیاست ویب سائٹ۔
  55. سید مسعود حسن رضوی ادیب، انیسیات، ص5 تا 12
  56. سید مسعود حسن رضوی ادیب، انیسیات، ص5 تا 12
  57. میر انیس، اردو نوٹس ویب سائٹ۔
  58. اردو زبان کے فردوسی میر ببر علی انیس کی وفات/ایک نظر، حوزہ نیوز ایجنسی۔
  59. احمد تمیم داری، انیس، مجلہ دانش، شمارہ 23۔
  60. احمد تمیم داری، انیس، مجلہ دانش، شمارہ 23۔
  61. احمد تمیم داری، انیس، مجلہ دانش، شمارہ 23۔
  62. حالی اور شبلی نعمانی کا موازنہ مشہور ہے: ملاحظہ کریں: مجلہ پیام رافت، شمارہ 4 و 5۔
  63. نیا دور اور میر انیس، آزاد میل حق کی آواز ویب سائٹ۔
  64. اردو کے بعض اہم ادبی رسائل و جرائد کے اشاریوں کی وضاحت، تعمیر نیوز۔

مآخذ

بیرونی روابط