ام فضل بنت مامون

غیر جامع
ویکی شیعہ سے
(ام فضل سے رجوع مکرر)
ام فضل بنت مامون
کوائف
والد:مامون عباسی
مشہور اقارب:مامون عباسی(باپ) اور معتصم عباسی (چچا)
وجہ شہرت:امام محمد تقی کی زوجہ اور قاتل
وفات:220 ہجری کے بعد
مذہب:اسلام


ام فضل بنت مامون (سنہ 220 ھ میں حیات) امام محمد تقیؑ کی زوجہ تھی۔ بعض مآخذ میں اسے امام کا قاتل بھی بتایا گیا ہے۔ ان منابع کے مطابق ام فضل نے جعفر بن مامون کے ورغلانے پر شیعوں کے نویں امام کو زہر دے کر شہید کیا۔

امام محمد تقیؑ سے شادی

ام فضل مامون کی بیٹی اور امام محمد تقیؑ کی زوجہ تھی۔ مامون امام رضا ؑ کا ہم عصر اور بنی عباس کے خلفاء میں سے تھا۔[1]

مامون نے سنہ 202ھ کو[2] امام رضا ؑ کی زندگی میں ہی ام فضل کا نکاح امام محمد تقیؑ سے کر دیا تھا۔[3] کچھ مورخین کے مطابق خراسان میں امام رضاؑ کے قیام کے دوران امام محمد تقیؑ آپ سے ملنے خراسان تشریف لے گئے۔[4]اسی ملاقات میں مامون نے اپنی بیٹی کا عقد امام کے ساتھ کر دیا۔ لیکن مسعودی نے اس شادی کا وقت امام رضا ؑ کی شہادت کے بعد قرار دیا ہے۔[5]

شیخ مفید کے بقول مامون امام محمد تقیؑ کے اخلاق و علم و ادب سے متاثر ہوا تھا۔ اس لئے یہ شادی اس کی درخواست پر انجام پائی۔[6] امام محمد تقی نے حضرت فاطمہ ؑ کے مہر (500 درہم) کے برابر مہر معین فرمایا۔[7] اس شادی پر مامون کے کچھ اطرافیوں نے اس بنا پر اعتراض کیا کہ کہیں خلافت، بنی عباسی سے علویوں کی طرف منتقل نہ ہو جائے۔[8]

ام فضل سے امام کے یہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی۔[9]

امام محمد تقیؑ کی شہادت

مسعودی کے بقول معتصم اور جعفر بن مامون (ام فضل کا بھائی) مسلسل امام محمد تقیؑ کے قتل کے درپے تھے۔ آخر کار جب امام مدینہ سے بغداد معتصم کے پاس تشریف لائے تو جعفر کے کہنے پر ام فضل نے انگور میں زہر ملا کر امام کو کھلائی جس کے کھانے کے بعد امام شہید ہوگئے۔[10] ام فضل کے ہاتھوں امام محمد تقیؑ کو زہر دینے کی کیفیت کے بارے میں مزید تفصیلات بھی تاریخی منابع میں بیان کی گئی ہیں۔[11] شیخ مفید کہتے ہیں کہ: "اگرچہ کچھ لوگوں نے امام جوادؑ کو زہر سے شہید کئے جانے کا کہا ہے؛ لیکن یہ بات میرے نزدیک اس طرح ثابت نہیں ہوئی کہ میں اس کی گواہی دے سکوں۔"[12] بعض منابع معتصم کے یہاں قاضی بغداد کی چغلی کو امام کی شہادت کا سبب قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق معتصم نے اپنے کسی وزیر کے منشی کے ذریعہ امام کو زہر دے کر شہید کر دیا۔[13] چوتھی صدی ہجری کے مورخ علی بن حسین مسعودی کے مطابق ام فضل امام جوادؑ کو زہر دینے کے بعد پشیمان ہوئی اور گریہ کیا لیکن امام نے اس پر نفرین کی۔[14] معتصم نے امام محمد تقیؑ کی شہادت کے بعد ام فضل کو اپنے ساتھ لے گیا۔ [15] لیکن کچھ ہی دنوں کے بعد وہ کسی سخت بیماری میں مبتلا ہوگئی اور اسی بیماری میں دنیا سے چل بسی۔[16]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ۱۴۰۷ق، ج۱۰، ص۲۴۹۔
  2. طبری، تاریخ، ۱۳۸۷ق، ج۸، ص۵۶۶؛ ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ۱۴۰۷ق، ج۱۰، ص۲۶۹۔
  3. ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ۱۴۰۷ق، ج۱۰، ص۲۶۹۔
  4. ابن فندق، تاریخ بیہق، ص۴۶۔
  5. مسعودی، اثبات الوصیۃ، ۱۴۲۶ق، ص۲۲۳۔
  6. مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۸۱۔
  7. مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۸۵۔
  8. مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۸۱۔
  9. ابن شہر آشوب، المناقب، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۳۸۰؛ مسعودی، اثبات الوصیۃ، ۱۴۲۶ق، ص۲۲۷۔
  10. مسعودی، اثبات الوصیۃ، ص۲۲۷۔
  11. ابن شہر آشوب، المناقب، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۳۸۱۔
  12. مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۹۵۔
  13. عیاشی، التفسیر العیاشی، ج۱، ص۳۲۰۔
  14. مسعودی، اثبات الوصیۃ، ۱۴۲۶ق، ص۲۲۷۔
  15. اربلی، کشف الغمہ، ۱۳۸۱ق، ج۲، ص۳۴۵۔
  16. ابن شہر آشوب، المناقب، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۳۸۱۔

مآخذ

  • ابن شہر آشوب مازندرانی، مناقب آل أبی طالب (ع)، مؤسسہ انتشارات علامہ، قم، ۱۳۷۹ھ۔
  • ابن کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ، دار الفکر، بیروت، ۱۴۰۷ھ/۱۹۸۶ء۔
  • اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمۃ، چاپ مکتبۃ بنی ہاشمی، تبریز، ۱۳۸۱ھ۔
  • بیہقی، علی بن زید، تاریخ بیہق، تصحیح و تعلیق: احمد بہمنیار، مقدمہ: محمد بن عبد الوہاب قزوینی، کتاب فروشی فروغی، تہران۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق: محمد أبو الفضل ابراہیم، دار التراث، بیروت، ۱۳۸۷ھ/۱۹۶۷ء۔
  • عیاشی، محمد بن مسعود، التفسیر العیاشی، تصحیح: ہاشم رسولی محلاتی، المکتبۃ العلمیہ الاسلامیہ، تہران۔
  • مسعودی، علی بن حسین، إثبات الوصیۃ للإمام علی بن أبی طالب، انصاریان، قم، ۱۴۲۶ھ۔
  • مسعودی، علی بن حسین، مروج‌الذہب و معادن الجوہر، تحقیق: اسعد داغر، قم، دار الہجرۃ، ۱۴۰۹ھ۔
  • مفید، الإرشاد، انتشارات کنگرہ جہانی شیخ مفید، قم، ۱۴۱۳ھ۔