خولی بن یزید اصبحی
ذاتی کوائف | |
---|---|
نام | خولی بن یزید اصبحی ایادی دارمی |
محل زندگی | کوفہ |
نسب/قبیلہ | قبیلہ حمیر |
وفات | سنہ 66 ہجری، کوفہ |
کیفیت وفات | مختار کے سپاہیوں کے ہاتھوں مارا گیا |
واقعہ کربلا میں کردار | |
اقدامات | امام حسینؑ، عثمان بن علیؑ اور جعفر بن علیؑ کے قتل میں شریک، |
محرک | عمر سعد کی فوج کا تیر انداز۔ |
نمایاں کردار | امام حسینؑ کا سر اقدس ابن زیاد کے پاس لے جانے والا |
خولی بن یَزید اَصْبَحی اَیادی دارِمی کا تعلق قبیلۂ حمیر سے تھا[1]۔ یہ روز عاشور فرزندان امام علی ؑ اور اصحاب امام حسین کے قاتلین میں سے ہے [2]۔بعض روایات کے مطابق اس نے امام حسین ؑ کا سر تن سے جدا کیا نیز حضرتؑ کا سر عبید اللہ بن زیاد کے پاس لے جانے والا ہے۔
زندگی نامہ
اس کی ولادت کی تاریخ میں مذکور نہیں ہے اور یہ کوئی نامی گرامی شخصیت کا مالک نہیں تھا۔اس کے باپ کا نام "یزید اصبحی" تھا۔اس کا نام واقعہ کربلا میں قاتلین امام حسین ؑ میں گنا جاتا ہے ۔مختار ثقفی کے ساتھیوں کے ہاتھ سے اس کا قتل 66 ق میں ہوا ۔
کربلا
تاریخ نے روز عاشورا جعفر بن علی اور عثمان بن علی کے قاتلوں میں سے شمار کیا ہے ۔اس نے عثمان کی طرف تیر پھینکا اور بنی دارم کے ایک شخص نے اسے شہید کیا[3] ۔حضرت امام حسین ؑ کے زخموں سے چور ہو کر سانسیں رکنے کے بعد شمر بن ذی الجوشن یا سنان کے اکسانے پر اس نے امام کا سر تن سے جدا کرنا چاہا ۔جب ایسا کرنے لگا تو اس کے ہاتھ اور پاؤں کانپنے لگے اور وہ سر کو تن سے جدا کرنے میں ناکام رہا ۔یہ دیکھ کرسنان نے اسے برا بھلا کہا اور خود بڑھ کر اس نے آپ کا سر تن سے جدا کیا ۔بعض نے خولی کی طرف سر جدا کرنے کی نسبت دی ہے ۔بہر حال بیشتر نے اسے قاتلین امام حسین ؑ میں گردانا ہے ۔
عاشورا کے بعد
عمر بن سعد نے حضرت امام حسین ؑ کا سر مبارک اس کے حوالے کیا تا کہ وہ کوفہ میں عبید اللہ بن زیاد کے پاس لے جائے ۔خولی کوفہ میں رات کے وقت پہنچا لہذا اس نے ارادہ کیا کہ وہ سر مبارک گھر اپنے ہمراہ لے جائے اور صبح ابن زیاد کے پاس حاضر ۔پس اس نے سر مبارک کو گھر کے تنور میں مخفی کیا۔ لیکن اس کی زوجہ اس سے مطلع ہو گئی تو اس نے اسے برا بھلا کہا[4] ۔
موت
مختار نے کوفے پر قابض ہونے کے بعد قاتلان امام حسین ؑ کے تعاقب میں اپنے افراد روانہ کئے ۔ جب اسے افراد کے گھر آنے کا علم ہوا تو اس نے اپنے آپ کو تنور میں چھپا لیا لیکن زوجہ نے اس سے نفرت کی بناپر اسکی مخفی گاہ کی طرف اشارہ کیا ۔انہوں اسے گرفتار کیا اور مختار کے پاس لے گئے ۔ مختار نے اسے اس کے گھر کے نزدیک قتل کرنے اور اس کے جسد کو جلانے کا حکم دیا ۔پس ایسا ہی کیا گیا [5]۔
حوالہ جات
مآخذ
- بلاذری، احمد بن یحیی؛ انساب الاشراف؛ دار التعارف للمطبوعات؛ بیروت؛ 1977 م.
- ابن کثیر، اسماعیل بن عمر؛ البدایہ و النہایہ؛ دار الفکر؛ بیروت؛ 1407 ق.
- شوشتری، قاضی نورالله(1019ق)،إحقاق الحق و إزہاق الباطل، کتابخانہ آیۃ الله مرعشی نجفی، قم، 1409ق.
- طبری، محمد بن جریر؛ تاریخ الامم و الملوک؛ ج 7؛ دار التراث؛ بیروت؛ 1387 ق.
- محمد بن سعد بصری؛ طبقات الکبری؛ دار الکتب العلمیہ؛ بیروت؛ 1410 ق.