حیطان سبعہ

ویکی شیعہ سے

حیطان سبعہ یا صدقات رسول اللہ سے مراد وہ سات باغات ہیں جو مُخَیْریق یا مدینہ کے دوسرے یہودیوں نے پیغمبر خدا(ص) کو بخش دیے تھے اور نبی مکرم اسلام(ص) نے انہیں وقف کر دیا تھا۔ ایک روایت کے مطابق رسول خدا(ص) نے یہ باغات حضرت فاطمہ زہرا(س) کے نام وقف کیے تھے۔ پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد، حضرت فاطمہ (س) نے ابوبکر سے خیبر کی زرعی زمین اور فدک سمیت ان باغات کا انتظام ان کے سپرد کرنے کا کہا جسے ابوبکر نےمسترد کرتے ہوئے اس کی مخالفت کی۔

بعض روایتوں کے مطابق عمر بن خطاب کے دور خلافت میں امام علیؑ نے ان سے حیطان سبعہ، خبیر اور فدک ان کے حوالے کرنے کو کہا۔ لیکن عمر نے صرف حیطان سبعہ امام علیؑ کے حوالے کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ حضرت فاطمہ زہرا (س) نے اپنی وصیتوں میں ان باغات کا انتظام امام علیؑ، امام حسنؑ اور امام حسینؑ اور پھر ان کی اولاد میں سے آنے والے ائمہ کے حوالہ کرنے کی تاکید کی تھی۔

یہ باغات عباسیوں کے دور تک حضرت فاطمہ(س) کی اولاد کے ہاتھوں میں تھے۔ تیسری صدی ہجری کے بعض مصنفین نے ان باغات کے بارے میں گفتگو کی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ، ان میں سے کچھ باغات کے نام اور مقامات ابہام کا شکار ہوگئے ہیں۔

تعارف

حیطان سبعہ وہ سات باغات تھے جو رسول خدا(ص) کوعطا کیے گئے تھے۔[1] ان باغات کے اسامی یہ ہیں: اَعْواف، بُرْقَہ، حُسْنی یا حَسنیٰ، دَلال، صافیَہ، مَشْرَبَۃُ اُم‌ِ‌ ابراہیم اور مِیْثَب۔[2] منابع تاریخی میں ان باغات کے دوسرے اسامی بھی آئے ہیں۔[3] یہ باغات جنہیں حَوائطِ رسول‌الله(ص) کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے،[4] مدینہ کے علاقے میں بہترین نخلستانوں میں شامل تھے۔[5] اس وقت یہ باغات بنیادی طور پر مدینہ کے جنوب میں اور مشربہ ام ابراہیم کے جنوب مشرق میں واقع تھے۔[6] صافیہ، برقہ، دلال اور میثب ایک ساتھ اور عوالی[7] یا عالیہ نامی ایک علاقے میں[8] مروان بن حکم کے محل کی پشت میں تھے۔[9] ان باغات کے دیگر محل وقوع کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔[10] سوائے مشربہ ام ابراہیم کے یہ سارے باغات بارشوں کے دوران جمع ہونے والے پانی جو "وادی مہزور"[11] سے گزرتے تھے، سیراب ہوتے تھے۔[12]

حیطان سبعہ اموی خلیفہ عمر بن عبد العزیز (99-101ھ) کے دور تک زرخیز تھا، عمر بن عبد العزیز اور اس کے ساتھیوں نے اس کی کھجوریں تناول کی ہیں۔[13] اہل سنت کے فقہائے چہارگانہ میں سے ایک فقیہ شافعی(متوفیٰ: 204ھ) نے اپنے زمانے تک ان سات باغوں کے موجود ہونے کی بات کی ہے۔[14] مدینہ کے اولین جغرافیہ دان عمر ابن شبہ (متوفی: 263ھ) نے ان باغات اور ان کے محل وقوع کو بیان کیا ہے۔[15] کہتے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور مختلف لوگوں کی نگرانی قرار پانے کی وجہ سے حیطان سبعہ کے نام اور مقام ابہام کا شکار ہوگئے ہیں۔[16] آٹھویں اور نویں صدی ہجری کے بعض مصنفین نے بعض باغات جیسے میثب اور حسنی کے محل وقوع کو نامعلوم قرار دیا ہے۔[17] بعض نے یہ کوشش کی ہے کہ یا ان باغات کو اپنے زمانے کے کچھ مشہور باغات سے ملالیں[18] یا پچھلے مصنفین کی رائے پر تنقید کی جائے۔[19] 13ویں اور 14ویں صدی کے محقق ایوب صبری پاشا کا خیال ہے کہ یہ سات باغات ان کے زمانے تک قائم تھے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان میں سے کچھ کے نام تبدیل ہوگئے ہیں۔[20]

مشربہ اُم‌ ابراہیم

مشربہ ام ابراہیم ان سات باغوں میں سے ایک ہے جو رسول خدا(ص) کو عطا کیے گئے تھے۔[21] یہ جگہ نبی کریم (ص) کی زوجہ ماریہ قبطیہ کے یہاں قیام اور پیغمبر خدا (ص) کے بیٹے ابراہیم کی پیدائش کی وجہ سے مشربہ ام ابراہیم کے نام سے معروف ہوئی۔[22] نبی اسلام(ص) نے اس باغ میں نماز پڑھی تھی۔[23] بعد میں وہاں ایک مسجد بنائی گئی جو اسی نام سے مشہور ہوئی۔[24] بعض روایات میں اس مکان میں نماز پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے۔[25] آج اس باغ کی جگہ قبرستان بنی ہوئی ہے۔[26] کہا جاتا ہے کہ امام کاظمؑ کی والدہ حمیدہ بربیریہ اور امام رضاؑ کی والدہ نجمہ کی قبریں اس جگہ پر واقع ہیں۔[27]

حیطان سبعہ کا سابقہ مالک

بعض مصنفین نے کا کہنا ہے کہ ان سات باغوں کا مالک مُخَیْریق یہودی تھا۔[28] عمر بن عبد العزیز دعویٰ کرتا تھا کہ انہوں نے یہ بات مدینہ کے مہاجرین و انصار کے بزرگوں سے سنی ہے۔[29] بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ مورخین کے نزدیک معروف ہے۔[30] مخیرق، یہودی عالم[31] اور قبیلہ بنو نضیر[32] یا بنو قینقاع[33] سے تھا جو جنگ احد میں پیغمبر اسلام (ص) کے پاس گیا اور اسلام کا اظہارکرنے کے بعد[34] شہید ہوا تھا۔[35] اپنی شہادت سے پہلے[36] یا اپنی وفات سے پہلے اپنی اموال کو پیغمبر خدا(ص) کو دینے کی وصیت کی۔[37] بعض کا کہنا ہے کہ مخیرق نے اپنی شہادت سے پہلے اپنے اموال پیغمبر اسلام(ص) کو بخش دیے تھے۔[38]

دوسری اور تیسری صدی ہجری کے مورخ محمد بن عمر واقدی نے مذکورہ باغات کو بنی نضیر قبیلے کی جائیداد کا حصہ سمجھا ہے جو کہ غزوہ بنی نضیر میں حاصل کیا گیا تھا اور نبی مکرم اسلام(ص) نے احد سے واپسی پر یہ جائیداد مسلمانوں کے درمیان تقسیم کردیں۔[39] دوسری طرف بعض نے کہا ہے کہ پیغمبر خدا(ص) نے بنو نضیر کی جائیداد کو مہاجرین اور دو غریب انصار میں تقسیم کر دیا تھا۔[40] بعض کا خیال ہے کہ حیطان سبعہ کی ملکیت میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ وہ بنو نضیر سے تعلق رکھتی تھی یا بنو قریظہ سے۔[41]

بعض مورخین کا کہنا ہے کہ ان سات باغوں میں سے ہر ایک کا ایک خاص فرد یا قبیلہ مالک ہوا کرتا تھا۔[42] مثال کے طور پر اعواف نامی باغ کا مالک بنی قریظہ کے حنافہ نامی کا ایک یہودی شخص تھا۔[43] برقہ اور مثیب بنو قریظہ کے ایک فرد زبیر بن باطا کی جائیداد کا حصہ تھا۔[44] دلال اور حسنی کے مالک بنو ثعلبہ تھے۔[45] کہا جاتا ہے کہ دلال نامی باغ بنو نضیر کی ایک عورت سے تعلق رکھتا تھا جو سلمان فارسی کو اپنا غلام بنا رکھا تھا اور سلمان نے اس زمین کے احیاء کرنے کو اپنی آزادی کا معاوضہ قرار دیا۔ پیغمبر خدا(ص) نے اس سلسلے میں حضرت سلمان کی مدد کی۔[46] بعض نے مذکورہ باغ کو مثیب قرار دیا ہے[47] نیز بعض کا خیال ہے کہ برقہ اور مثیب دونوں کو سلمان فارسی نے احیاء کیا تھا۔[48]

پیغمبر اسلام(ص) کے توسط سے ان باغات کا وقف

مؤرخین کے مطابق، پیغمبر اسلام (ص) نے ان سات باغات کو وقف کیا تھا۔[49] حیطان کو صدقات رسول خدا(ص) کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔[50] بعض مورخین کا کہنا ہے کہ صدقات پیغمبر خدا(ص)[51] حتیٰ کہ وہ سب[52] مخیریق کے سات باغ تھے۔ کہتے ہیں کہ پیغمبر خدا(ص) نے ان باغات کو مدینہ کی جانب ہجرت کرنے کے 22 مہینے بعد[53] یا ساتویں ہجری[54] وقف کیا ہے۔

کتاب قرب الاسناد اور الکافی میں ایک روایت نقل کی گئی ہے کہ امام رضاؑ نے احمد بن ابی نصر بزنطی کے ایک سوال کے جواب میں حیطان سبعہ کو پیغمبر اکرم (ص) کی جانب سے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ الزہرا(س) کو دیے گئے موقوفات میں سے قرار دیا۔ رسول خدا (ص) اس کی آمدنی کا کچھ حصہ اپنے مہمانوں اور ناگہانی واقعات کے لیے استعمال کرتے تھے۔[55] امام صادقؑ کی ایک اور روایت کے مطابق رسول خدا (ص) کے صدقات بنی ہاشم اور بنی مطلب کے ساتھ مختص تھے۔[56]

بعض منابع میں یہ بھی مذکور ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) نے حضرت زہرا (س) کو باغ فدک اور باغ عوالی عطا کیا تھا۔[57] کہتے ہیں کہ عوالی نامی باغ ایک وسیع علاقہ پر مشتمل تھا جو حیطان سبعہ کو بھی شامل تھا۔[58]

پیغمبر اسلام(ص) کے بعد حیطان کا سرانجام

رسول خدا(ص) کی وفات کے بعد حضرت فاطمہ الزہرا(س) نے ابوبکر سے فدک سمیت سات باغات ان کے حوالے کرنے کو کہا؛ لیکن ابوبکر نے اس کی مخالفت کی۔[59] اس مسئلے پر حضرت فاطمہ (س) غضبناک ہوئیں۔[60] ابو بصیر نے امام محمد باقرؑ سے روایت کی ہے کہ حضرت فاطمہ (س) نے وصیت کی تھی کہ ان سات باغات کے انتظامات امام علیؑ کے سپرد کیے جائیں اور پھر حسنینؑ اور پھر ان کی بڑی اولاد کو یہ حق دیا جائے۔ اسی طرح کی روایت امام جعفر صادقؑ سے بھی منقول ہے۔[61]

عمر بن خطاب کی خلافت کے دوران، امام علیؑ اور عباس بن عبد المطلب نے خلیفہ سے باغ فدک، خیبر اور حیطان سبعہ کا مطالبہ کیا تھا، عمر نے صرف حیطان سبعہ امام علیؑ کے حوالہ کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔[62] بعد میں یہ باغات حضرت فاطمہ (س) کی اولاد کو منتقل کر دیے گئے۔[63] ایک اور روایت کے مطابق امام علیؑ نے عمر سے کہا کہ وہ حیطان کا انتظام ان کے حوالے کر دیں، لیکن عباس نے بھی ان باغوں اور فدک پر اپنے حق کی بات کی۔ جب تنازعہ شدید ہونے کا احتمال ہوا تو امامؑ نے خلیفہ سے کہا کہ وہ یہ باغات اپنے پاس رکھیں تاکہ اس کی وجہ سے لوگوں کے مابین دشمنی میں اضافہ نہ ہو۔[64] امام رضاؑ کی ایک روایت کے مطابق جب امام علیؑ نے اپنے حق کی گواہی پیش کی کہ یہ حضرت زہرا (س) کے موقوفات میں سے ہیں، عباس اپنے دعوے سے پیچھے ہٹے۔[65]

کہتے ہیں کہ امام علیؑ کے بعد حیطان سبعہ کا انتظام امام حسنؑ اور پھر امام حسینؑ اور پھر امام زین العابدینؑ اور اس کے بعد امام حسنؑ کے بیٹے حسن مثنی کے پاس تھا۔ یہاں تک کہ بنی عباس نے حضرت فاطمہ(س) کی اولاد کے ہاتھوں سے یہ باغات چھین لیے اور خود نے ان کے انتظامات سنبھال لیے۔[66]

حوالہ جات

  1. صبری پاشا، موسوعۃ مرآۃ الحرمین الشریفین و جزیرۃ العرب، 1424ھ، ج4، ص806۔
  2. کافی، کلینی، 1407ھ، ج7، ص 51؛ ابن‌ حجر، الاصابہ، 1415ھ، ج6، ص46؛ یاقوت حموی، معجم البلدان، 1995ء، ج5، ص241، 290-291۔
  3. برای نمونہ: بلاذری، انساب الاشراف، 1996ء، ج1، ص518؛ ابن‌ سید الناس، عیون الاثر، 1993ء، ج1، ص240؛ سمہودی، وفاء الوفاء، 2006ء، ج3، ص152۔
  4. صالحی شامی، سبل الہدی، 1993ء، ج8، ص407؛ ابن‌ سعد، الطبقات الکبری، 1990ء، ج1، ص389۔
  5. کردعلی، خطط الشاء، 1403ھ، ج5، ص90۔
  6. کعکی، معالم المدینۃ المنورۃ بین المعمارۃ و التاریخ، 1419ھ، ج3، ص120۔
  7. کعکی، معالم المدینۃ المنورۃ بین المعمارۃ و التاریخ، 1419ھ، ج3، ص121۔
  8. صبری پاشا، موسوعۃ مرآۃ الحرمین الشریفین و جزیرۃ العرب، 1424ھ، ج4، ص806۔
  9. ابن شبہ، تاریخ المدینۃ المنورہ، 1410ھ، ج1، ص173؛ سمہودی، وفاء الوفاء، 2006ء، ج3، ص150۔
  10. ابن شبہ، تاریخ المدینۃ المنورہ، 1410ھ، ج1، ص174؛ سمہودی، وفاء الوفاء، 2006ء، ج3، ص150-151؛ شُرّاب، المعالم الاثیرۃ فی السنۃ و السیرہ، 1411ھ، ص31، 100۔
  11. شُرّاب، المعالم الاثیرۃ فی السنۃ و السیرہ، 1411ھ، ص283۔
  12. کعکی، معالم المدینۃ المنورۃ بین المعمارۃ و التاریخ، 1419ھ، ج3، ص120؛ صبری پاشا، موسوعۃ مرآۃ الحرمین الشریفین و جزیرۃ العرب، 1424ھ، ج4، ص806۔
  13. ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 1415ھ، ج10، ص229۔
  14. سمہودی، وفاء الوفاء، 2006ء، ج3، ص157۔
  15. ابن شبہ، تاریخ المدینۃ المنورہ، 1410ھ، ج1، ص173-174۔
  16. مراغی شافعی، تحقیق النصرۃ بتلخیص معالم دار الہجرہ، 1430ھ، ص593۔
  17. مراغی شافعی، تحقیق النصرۃ بتلخیص معالم دار الہجرہ، 1430ھ، ص592۔
  18. مراغی شافعی، تحقیق النصرۃ بتلخیص معالم دار الہجرہ، 1430ھ، ص592؛ سمہودی، وفاء الوفاء، 2006ء، ج3، ص153-154۔
  19. سمہودی، وفاء الوفاء، 2006ء، ج3، ص154۔
  20. صبری پاشا، موسوعۃ مرآۃ الحرمین الشریفین و جزیرۃ العرب، 1424ھ، ج4، ص806-807۔
  21. ابن شبہ، تاریخ المدینۃ المنورہ، 1410ھ، ج1، ص174-175؛ ورثیلانی، الرحلۃ الورثیلانیہ، 1429ھ، ج2، ص545۔
  22. ابن شبہ، تاریخ المدینۃ المنورہ، 1410ھ، ج1، ص173؛ ورثیلانی، الرحلۃ الورثیلانیہ، 1429ھ، ج2، ص545۔
  23. سمہودی، وفاء الوفاء، 2006ء، ج3، ص35۔
  24. شُرّاب، المعالم الاثیرۃ فی السنۃ و السیرہ، 1411ھ، ص253۔
  25. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج4، ص560۔
  26. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، 1386شمسی، ص263۔
  27. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، 1386شمسی، ص263۔
  28. ابن شبہ، تاریخ المدینۃ المنوره، 1410ھ، ج1، ص173؛ شُرّاب، المعالم الاثیرة فی السنۃ و السیره، 1411ھ، ص156۔
  29. ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 1415ھ، ج10، ص229۔
  30. صبری پاشا، موسوعۃ مرآة الحرمین الشریفین و جزیرۃ العرب، 1424ھ، ج4، ص807۔
  31. ابن‌ہشام، السیره النبویہ، بی‌تا، ج1، ص518؛ بلاذری، انساب الاشراف، 1996ء، ج1، ص325، 518؛ ابن‌ حجر، الاصابہ، 1415ھ، ج6، ص46۔
  32. بلاذری، انساب الاشراف، 1996ء، ج1، ص285، 325، 518؛ ابن‌ سید الناس، عیون الاثر، 1993ء، ج1، ص240؛‌ صالحی شامی، سبل الہدی، 1993ء، ج4، ص212۔
  33. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1990ء، ج1، ص389؛ بلاذری، انساب الاشراف، 1996ء، ج1، ص285، 325، 518؛ ابن‌حجر، الاصابہ، 1415ھ، ج6، ص46، 47۔
  34. ابن‌ ہشام، السیره النبویہ، بی‌تا، ج1، ص514؛ بلاذری، انساب الاشراف، 1996ء، ج1، ص266، 285، 518؛ مقریزی، امتاع الاسماع، 1999ء، ج1، ص65-66، ج14، ص369۔
  35. ابن‌ ہشام، السیره النبویہ، بی‌تا، ج1، ص518، ج2، ص88؛ ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1990ء، ج1، ص389؛ طبری، تاریخ طبری، 1967ء، ج2، ص 531۔
  36. ابن‌ ہشام، السیره النبویہ، بی‌تا، ج1، ص518، ج2، ص89؛ بلاذری، انساب الاشراف، 1996ء، ج1، ص325؛ طبری، تاریخ طبری، 1967ء، ج2، ص 531۔
  37. ابن‌ سعد، الطبقات الکبری، 1990ء، ج1، ص388-389۔
  38. صبری پاشا، موسوعه مرآة الحرمین الشریفین، 1424ھ، ج4، ص805۔
  39. ابن شبہ، تاریخ المدینۃ المنورہ، 1410ھ، ج1، ص175۔
  40. بلاذری، فتوح البلدان، 1988ء، ص27-28۔
  41. ابن شبہ، تاریخ المدینۃ المنورہ، 1410ھ، ج1، ص174؛ سمہودی، وفاء الوفاء، 2006ء، ج3، ص151۔
  42. سمہودی، وفاء الوفاء، 2006ء، ج3، ص152۔
  43. ابن شبہ، تاریخ المدینۃ المنورہ، 1410ھ، ج1، ص175؛ سمہودی، وفاء الوفاء، 2006ء، ج3، ص151۔
  44. ابن شبہ، تاریخ المدینۃ المنورہ، 1410ھ، ج1، ص174؛ سمہودی، وفاء الوفاء، 2006ء، ج3، ص151۔
  45. ابن شبہ، تاریخ المدینۃ المنوره، 1410ھ، ج1، ص174۔
  46. ابن شبہ، تاریخ المدینۃ المنورہ، 1410ھ، ج1، ص174؛ سمہودی، وفاء الوفاء، 2006ء، ج3، ص151۔
  47. سمہودی، وفاء الوفاء، 2006ء، ج3، ص152۔
  48. ابن شبہ، تاریخ المدینۃ المنورہ، 1410ھ، ج1، ص174؛ سمہودی، وفاء الوفاء، 2006ء، ج3، ص151۔
  49. ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 1415ھ، ج10، ص229؛ صبری پاشا، موسوعۃ مرآۃ الحرمین الشریفین و جزیرۃ العرب، 1424ھ، ج4، ص806؛ سمہودی، وفاء الوفاء، 2006ء، ج3، ص151۔
  50. مراغی شافعی، تحقیق النصرۃ بتلخیص معالم دار الہجرہ، 1430ھ، ص593۔
  51. ابن شبہ، تاریخ المدینۃ المنورہ، 1410ھ، ج1، ص175؛ کعکی، معالم المدینۃ المنورۃ بین المعمارۃ و التاریخ، 1419ھ، ج3، ص120۔
  52. صبری پاشا، موسوعۃ مرآۃ الحرمین الشریفین و جزیرۃ العرب، 1424ھ، ج4، ص805۔
  53. سمہودی، وفاء الوفاء، 2006ء، ج4، ص42۔
  54. ابن شبہ، تاریخ المدینۃ المنورہ، 1410ھ، ج1، ص175۔
  55. حمیری، قرب الاسناد، 1413ھ، ص363-364؛ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج7، ص47-48۔
  56. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج7، ص48۔
  57. ابن‌شہر آشوب، مناقب آل ابی‌طالب(ع)، 1379ھ، ج1، ص169؛ سید بن طاووس، کشف المحجہ، 1375شمسی، ص182؛ حسکانی، شواہد التنزیل، 1411ھ، ج1، ص441۔
  58. حسینی جلالی، فدک و العوالی او الحوائط السبعۃ فی الکتاب و السنۃ و التاریخ و الادب، 1426ھ، ص64۔
  59. خطیب عمری، الروضہ الفیحاء فی تواریخ النساء، 1420ھ، ص230-231؛ صبری پاشا، موسوعہ مرآۃ الحرمین الشریفین، 1424ھ، ج4، ص807-808؛ سمہودی، وفاء الوفاء، 2006ء، ج3، ص155۔
  60. سمہودی، وفاء الوفاء، 2006ء، ج3، ص155؛ صبری پاشا، موسوعہ مرآۃ الحرمین الشریفین، 1424ھ، ج4، ص808۔
  61. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج7، ص49۔
  62. سمہودی، وفاء الوفاء، 2006ء، ج3، ص155۔
  63. صبری پاشا، موسوعہ مرآۃ الحرمین الشریفین، 1424ھ، ج4، ص807۔
  64. سمہودی، وفاء الوفاء، 2006ء، ج4، ص809۔
  65. حمیری، قرب الاسناد، 1413ھ، ص363-364؛ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج7، ص47-48۔
  66. صبری پاشا، موسوعۃ مرآۃ الحرمین الشریفین و جزیرۃ العرب، 1424ھ، ج4، ص808۔

مآخذ

  • ابن‌حجر، احمد بن علی، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، تحقیق عادل احمد عبد الموجود و علی محمد معوض، بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1415ھ، ج6، ص46۔
  • ابن‌سعد، محمد بن منیع، الطبقات الکبری، تحقیق محمد عبدالقادر عطا، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1990ء۔
  • ابن‌سید الناس، ابوالفتح محمد، عیون الاثر فی فنون المغازی و الشمائل و السیر، تعلیق ابراہیم محمد رمضان، بیروت، دارالقلء۔ 1993ء۔
  • ابن‌شبہ، عمر بن شبہ نمیری، ‏تاریخ المدینۃ المنورہ، تحقیق فہیم محمد شلتوت، قم، دار الفکر، 1410ھ۔
  • ابن‌شہر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب(ع)، قم، علامہ، 1379ھ۔
  • ابن‌عساکر، علی بن حسن، تاریخ مدینۃ دمشق، تحقیق علی شیری، بیروت، دارالفکر، 1415ھ۔
  • ابن‌منظور، محمد بن مکرء۔ لسان العرب، بیروت، دار صادر، چاپ سوم، 1414ھ۔
  • ابن‌ہشاء۔ عبدالملک بن ہشام حمیری، السیرۃ النبویہ، تحقیق مصطفی السقا و دیگران، بیروت، دارالمعرفہ، بی‌تا۔
  • اسکندری، نصر بن عبدالرحمن، الأمکنۃ و المیاہ و الجبال و الآثار، ریاض، مرکز الملک فیصل للبحوث و الدراسات الاسلامیہ، 1425ھ۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، تحقیق سہیل زکار و ریاض زرکلی، بیروت، 1996ء۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، فتوح البلدان، بیروت، دار و مکتبۃ الہلال، 1988ء۔
  • جعفریان، رسول، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، تہران، نشر مشعر، چاپ ہشتم، 1386ہجری شمسی۔
  • حازمی، محمد بن موسی، الاماکن او ما اتفق لفظہ و افترق مسماہ من الامکنہ، بی‌نا، بی‌تا۔
  • حسکانی، عبیداللہ بن عبیداللہ، شواہد التنزیل لقواعد التفضیل، تحقیق محمدباقر محمودی، تہران، مجمع احیاء الثقافۃ الاسلامیہ، 1411ھ۔
  • حسینی جلالی، محمدباقر، فدک و العوالی او الحوائط السبعۃ فی الکتاب و السنۃ و التاریخ و الادب، مشہد، دبیرخانہ کنگرہ میراث علمی و معنوی حضرت فاطمہ زہرا(س)، 1426ھ۔
  • حسینی حنبلی، عبد الرحمن بن ابراہیم، قلائد الاجیاد، تحقیق ولید عبداللہ منیس، کویت، مرکز البحوث و الدراسات الکویتیہ، 1430ھ۔
  • حمیری، عبد اللہ بن جعفر، قرب الإسناد، تحقیق مؤسسۃ آل البیت(ع)، قم، مؤسسۃ آل البیت(ع)، 1413ھ۔
  • خطیب عمری، یاسین، الروضۃ الفیحاء فی تواریخ النساء۔ تحقیق حسام ریاض‌عبدالحکیء۔ بیروت، مؤسسۃ الکتب الثقافیہ، 1420ھ۔
  • سمہودی، علی بن احمد، وفاء الوفاء باخبار دار المصطفی، تحقیق خالد عبدالغنی‌محفوظ، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 2006ء۔
  • سید بن طاووس، علی بن موسی، کشف المحجۃ لثمرۃ المہجہ، تحقیق محمد حسون، قم، بوستان کتاب، چاپ دوم، 1375ہجرہی شمسی۔
  • شرّاب، محمد محمدحسن، المعالم الأثیرۃ فی السنۃ و السیرہ، بیروت-دمشق‏، دار القلم-دار الشامیہ، 1411ھ۔
  • صالحی شامی، محمد بن یوسف، سبل الہدی و الرشاد فی سیرۃ خیر العباد، تحقیق عادل احمد عبد الموجود و علی محمد معوض، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، 1993ء۔
  • صبری پاشا، ایوب، موسوعہ مرآۃ الحرمین الشریفین و جزیرۃ العرب‏، قاہرہ، دار الافاق العربیہ‏، 1424ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیء۔ بیروت، دار التراث، چاپ ہشتم، 1967ء۔
  • کردعلی، محمد، خطط الشاء۔ بیروت، مکتبہ النوری‏، چاپ سوم، 1403ھ۔
  • کعکی، عبدالعزیز، معالم المدینۃ المنورۃ بین العمارۃ و التاریخ‏، بیروت، دار و مکتبۃ الہلال، 1419ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق علی‌اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
  • مراغی شافعی، ابوبکر بن حسین، تحقیق النصرۃ بتلخیص معالم دار الہجرہ، تحقیق ابویعقوب نشات کمال، فیوم، دار الفلاح للبحث العلمی و تحقیق التراث، 1430ھ۔
  • مقریزی، احمد بن علی، امتاع الاسماع بما للنبی من الأحوال و الأموال و الحفدۃ و المتاع، تحقیق محمد عبد الحمید النمیسی، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1999ء۔
  • ورثیلانی، حسین بن محمد، الرحلۃ الورثیلانیہ، قاہرہ، مکتبۃ الثقافۃ الدینیہ، 1429ھ۔
  • یاقوت حموی، یاقوت بن عبداللہ، معجم البلدان، بیروت، دار صادر، چاپ دوم، 1995ء۔