ام داؤد

ویکی شیعہ سے
ام‌ داوود
ذاتی کوائف
نام:حبیبہ یا فاطمہ بنت عبداللہ بن ابراہیم
کنیت:ام‌ خالد بربریہ اور ام‌ داوود
مشہوراقارب:حسن مثنی اور داود بن حسن
حدیثی معلومات
نقل حدیث:امام صادقؑ
موضوعات:ماہ رجب کے اعمال
شہرت:عمل ام‌ داؤد اور دعائے استفتاح کو نقل کرنے کی وجہ سے
متفرقات:مادر رضاعی امام صادقؑ


ام‌ّ داؤد، حسن مثنی کی زوجہ اور امام صادقؑ کی مادر رضاعی ہیں۔ آپ کی کنیت آپ کے بیٹے داود بن حسن کی نسبت سے ام داوود مشہور ہے۔ آپ کا نام حبیبہ یا فاطمہ تھا۔ دعائے استفتاح (دعائے ام‌ داوود) اور عمل ام‌ داؤد کو آپ نے امام صادقؑ سے نقل کیا ہے۔

امام صادقؑ نے اس عمل کو ام داؤد کے بیٹے داؤد بن حسن کی رہائی کے لئے انہیں تعلیم دی جس کی انجام دہی کے بعد ان کا بیٹا زندان سے آزاد ہو کر گھر لوٹ آیا۔

نام اور کنیت

حبیبہ یا بعض کے بقول فاطمہ جو ام ‌داؤد کے نام سے مشہور ہے، عبد اللہ بن ابراہیم کی بیٹی اور حسن مُثَنّیٰ کی زوجہ ہیں۔[1] ان کے بیٹے داؤد بن حسن کی وجہ سے آپ اس نام سے مشہور ہوئی ہیں۔[2] اعیان‌الشیعہ میں انہیں ام ‌خالد بربریہ کی کنیت کے ساتھ یاد کیا ہے۔[3]

ام‌ داؤد امام صادقؑ (83-148ھ) کے مادر رضاعی بھی ہیں۔[4] ان کے بیٹے داؤد کو امام باقرؑ یا امام صادقؑ کے اصحاب میں شمار کیا جاتا ہے۔[5]

عمل اور دعائے ام‌ داؤد

حدیثی مآخذ میں امام صادقؑ سے ایک حدیث نقل ہوئی ہے جس میں آپؑ ام داؤد کو رجب کے ایام البیض میں ایک مخصوص عمل بجا لانے کی سفارش فرماتے ہیں۔ یہ عمل، عمل ام ‌داؤد کے نام سے مشہور ہے۔ اسی طرح دعائے استفتاح یا دعائے ام ‌داؤد کے نام سے ایک دعا بھی نقل ہوئی ہے جو اس عمل کے آخر میں پڑھی جاتی ہے۔[6] اس حدیث کی راوی خود ام ‌داؤد ہیں۔[7]

پانچویں صدی ہجری کے اہل ‌سنت عالم دین حاکم حَسکانی کی کتاب فضائلُ شہرِ رجب میں بھی یہ دعا نقل ہوئی ہے۔[8]

عمل ام ‌داؤد کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے ایام البیض(رجب کی تیرہویں، چودہویں اور پندرہویں تاریخ) کو روزہ رکھا جاتا ہے؛ 15 تاریخ کو ظہر کے قریب غسل کیا جاتا ہے؛ نماز ظہر اور عصر کی ادائیگی کے بعد قرآن کی بعض سورتوں کی تلاوت کی جاتی ہے اور آخر میں دعائے ام ‌داؤد یا استفتاح پڑھی جاتی ہے۔[9]

شیخ طوسی، سید بن طاووس اور علامہ مجلسی جیسے شیعہ علماء کے مطابق دعائے ام‌ داؤد مصیبتوں کے خاتمے اور حاجتوں کی برآوری کے لئے انتہائی مؤثر ہے۔[10]

عمل ام داؤد کا واقعہ

عمل ام‌ داؤد کا امام صادقؑ سے صادر ہونے کا واقعہ ایک مفصل داستان کی صورت میں شیخ صدوق کی کتاب فضائل الاشہر الثلاثہ(رجب، شعبان اور رمضان کی فضیلت) اور سید بن طاووس کی کتاب اِقبال الاَعمال میں آیا ہے۔[11]

ان دو کتابوں کے مطابق بنی عباسی کے حاکم منصور دوانیقی کے دور خلافت میں ام‌ داؤد کا بیٹا داؤد اسیر ہو کر عراق منتقل کیا گیا جس کی وجہ سے ایک عرصہ تک ام‌ داؤد اپنے بیٹے کے بارے میں بے خبر رہیں۔ انہوں نے اپنے بیٹے کی رہائی کے لئے بہت دعائیں مانگی لیکن پھر بھی انہیں ان کے بیٹے کے بارے میں کوئی خبر نہیں ہوئی۔ مختلف عبادت گزاروں سے بھی اس بارے میں دعائیں کرائیں لیکن ان کی دعائیں بھی کسی مکشل کا مداوا نہیں کر سکیں؛[12] یہاں تک کہ وہ اپنے بیٹے کی دیدار سے ناامید ہو گئیں۔[13]

ایک دن امام صادقؑ جو اس وقت بیمار تھے، کی عیادت کے لئے آپ کے دولت سرا چلی جاتی ہیں۔ امامؑ داؤد کی خیریت دریافت فرماتے ہیں جس پر ام داؤد پورا قصہ سنا دیتی ہیں۔ امام صادقؑ فرماتے ہیں: کیوں دعائے استفتاح (دعائے ام‌ داؤد) نہیں پڑھتی؟ اس کے بعد فرماتے ہیں کہ رجب کے ایام البیض میں روزہ رکھیں اور آخری دن یعنی 15 رجب کو یہ مخصوص عمل انجام دیں اور یہ دعا پڑھیں۔[14]

ام‌ داؤد کہتی ہیں کہ اس عمل کی انجام دہی کے بعد رات کو پیغمبر اکرمؐ انہیں خواب میں ان کے بیٹے کی رہائی کی بشارت دیتے ہیں۔ اس کے کچھ مدت بعد داؤد گھر لوٹ آتا ہے۔ بعد میں پتہ چلتا ہے کہ وہ اسی رات رہا ہو گئے تھے جس دن یہ عمل انجام دیا گیا تھا۔[15]

حوالہ جات

  1. امین، اعیان‌ الشیعہ، ۱۴۰۶ق، ج۳، ص۴۷۶.
  2. امین، اعیان ‌الشیعہ، ۱۴۰۶ق، ج۳، ص۴۷۶.
  3. امین، اعیان‌ الشیعہ، ۱۴۰۶ق، ج۳، ص۴۷۶.
  4. امین، اعیان ‌الشیعہ، ۱۴۰۶ق، ج۶، ص۳۶۸.
  5. امین، اعیان ‌الشیعہ، ۱۴۰۶ق، ج۶، ص۳۶۸.
  6. کفعمی، المصباح، ۱۴۰۵ق، ص۵۳۰-۵۳۵؛ کفعمی، البلد الامین، ۱۴۱۸ق، ۱۸۰-۱۸۳؛ شیخ طوسی، مصباح المتحجد، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۸۰۷-۸۱۲؛ سید بن طاووس، اقبال الاعمال، ۱۳۷۶ش، ج۳، ص۲۴۲-۲۴۸۔
  7. کفعمی، المصباح، ۱۴۰۵ق، ص۵۳۰-۵۳۵؛ کفعمی، البلد الامین، ۱۴۱۸ق، ۱۸۰-۱۸۳؛ شیخ طوسی، مصباح المتہجد، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۸۰۷-۸۱۲؛ سید بن طاووس، اقبال الاعمال، ۱۳۷۶ش، ج۳، ص۲۴۲-۲۴۸۔
  8. اکبری و ربیع‌ نتاج، «کاوشی در دعای ام‌ داوود»، ص۸۸-۹۱۔
  9. قمی، مفاتیح الجنان، ذیل «اعمال ام‌ داوود»۔
  10. اکبری و ربیع ‌نتاج، «کاوشی در دعای ام ‌داوود»، ص۸۲۔
  11. رجوع کریں: صدوق، فضائل الاشہر الثلاثہ، ۱۳۹۶ق، ص۳۳و۳۴؛ سید بن طاووس، اقبال‌الاعمال، ۱۳۷۶ش، ج۳، ص۲۴۱و۲۴۲۔
  12. رجوع کریں: صدوق، فضائل الاشہر الثلاثہ، ۱۳۹۶ق، ص۳۳و۳۴؛ سید بن طاووس، اقبال‌الاعمال، ۱۳۷۶ش، ج۳، ص۲۴۱و۲۴۲۔
  13. رجوع کریں: صدوق، فضائل الاشہر الثلاثہ، ۱۳۹۶ق، ص۳۴۔
  14. رجوع کریں: صدوق، فضائل الاشہر الثلاثہ، ۱۳۹۶ق، ص۳۳و۳۴؛ سید بن طاووس، اقبال‌الاعمال، ۱۳۷۶ش، ج۳، ص۲۴۱و۲۴۲۔
  15. رجوع کریں: صدوق، فضائل الاشہر الثلاثہ، ۱۳۹۶ق، ص۳۳و۳۴؛ سید بن طاووس، اقبال‌الاعمال، ۱۳۷۶ش، ج۳، ص۲۵۰و۲۵۱۔

مآخذ

  • اکبری، زہرا، و سید علی‌ اکبر ربیع‌ نتاج، «کاوشی در دعای ام ‌داوود»، در مجلہ سفینہ، تہران، مؤسسہ فرہنگی نبأ مبین، شمارہ ۳۶، پاییز ۱۳۹۱۔
  • امین، سید محسن، اعیان‌ الشیعہ، تحقیق حسن الامین، بیروت، دار التعارف، ۱۴۰۶ق۔
  • سید بن طاووس، على بن موسی، الإقبال بالأعمال الحسنہ، تحقیق جواد قیومى اصفہانى، قم، ‏دفتر تبلیغات اسلامى، چاپ‏ اول، ۱۳۷۶ش۔‏
  • شیخ صدوق، محمد بن على، ‏فضائل الأشہر الثلاثۃ، تحقیق و تصحیح غلام رضا عرفانیان یزدى، قم، کتاب فروشى داورى‏، چاپ اول، ۱۳۹۶ق۔
  • طوسى، محمد بن الحسن، ‏مصباح المتہجّد و سلاح المتعبّد، بیروت، ‏مؤسسہ فقہ الشیعۃ، ۱۴۱۱ق۔‏
  • قمی، عباس، مفاتیح الجنان، اسوہ، قم۔ بی‌تا۔
  • کفعمى، ابراہیم بن على عاملی، البلد الأمین و الدرع الحصین، بیروت، ‏مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، چاپ اول، ۱۴۱۸ق۔
  • کفعمى، ابراہیم بن على عاملی، ‏مصباح الکفعمی، قم دارالرضی، چاپ دوم، ۱۴۰۵ق۔‏
  • مجلسى، محمد باقر،‏ بحار الأنوار الجامعۃ لدرر أخبار الأئمۃ الأطہار، تحقیق جمعى از محققان‏، بیروت، ‏دار إحیاء التراث العربی،‏ چاپ دوم، ۱۴۰۳ق۔‏