علی بن حسین بن علی بن ابی‌ طالب(33ھ-61ھعلی اکبر کے نام سے مشہور امام حسین علیہ السلام کے فرزند اور واقعہ عاشورا کے ہاشمی شہداء میں سے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ آپ ظاہری شکل و شمائل اور باطنی سیرت کے لحاظ سے رسول اللہ سے بہت زیادہ مشابہت رکھتے تھے اسی لئے آپ کو شبیہ پیغمبرؐ بھی کہا جاتا تھا۔ اور امام حسین جب بھی پیغمبر اکرمؐ کے دیدار کے مشتاق ہوتے تو علی اکبر کے چہرے کی طرف نظر کرتے تھے۔ علی اکبر روز عاشورا شجاعت کے جوہر دکھاتے ہوئے یزیدی لشکر کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ تاریخی روایات کے مطابق آپ بنی ہاشم کے پہلے شہید ہیں۔ آپ کی قبر حضرت امام حسین علیہ السلام کے ساتھ ہے۔

علی اکبر علیہ السلام
نامعلی بن حسینؑ
وجہ شہرتامام زادہ، شہید کربلا، واقعۂ کربلا میں امام حسینؑ کا دفاع
کنیتابو الحسن
لقباکبر، شبیہ پیغمبر
تاریخ پیدائش11 شعبان سنہ 33 ہجری
جائے پیدائشمدینہ
شہادت10 محرم سنہ 61 ہجری
مدفنکربلا
سکونتمدینہ و کوفہ
والدامام حسین علیہ السلام
والدہلیلی بنت ابی مرۃ
عمر28 سال
مشہور امام زادے
حضرت عباس، حضرت زینب، حضرت معصومہ، علی اکبر، علی اصغر، عبد العظیم حسنی، احمد بن موسی، سید محمد، سیدہ نفیسہ

تعارف

محرم کی عزاداری
 
واقعات
امام حسینؑ کے نام کوفیوں کے خطوطحسینی عزیمت، مدینہ سے کربلا تکواقعۂ عاشوراواقعۂ عاشورا کی تقویمروز تاسوعاروز عاشوراواقعۂ عاشورا اعداد و شمار کے آئینے میںشب عاشورا
شخصیات
امام حسینؑ
علی اکبرعلی اصغرعباس بن علیزینب کبریسکینہ بنت الحسینفاطمہ بنت امام حسینمسلم بن عقیلشہدائے واقعہ کربلا
مقامات
حرم حسینیحرم حضرت عباسؑتل زینبیہقتلگاہشریعہ فراتامام بارگاہ
مواقع
تاسوعاعاشوراعشرہ محرماربعینعشرہ صفر
مراسمات
زیارت عاشورازیارت اربعینمرثیہنوحہتباکیتعزیہمجلسزنجیرزنیماتم داریعَلَمسبیلجلوس عزاشام غریبانشبیہ تابوتاربعین کے جلوس


حضرت علی اکبر 11 شعبان 33ھ کو مدینے میں پیدا پوئے۔ آپ امام حسینؑ کے بڑے بیٹے تھے۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام لیلی بنت ابی مرۃ مشہور ہے۔[1] تاریخی مصادر میں امام حسینؑ کے اس فرزند کا لقب اکبر اور کنیت ابو الحسن مذکور ہے۔[2]

حضرت علی اکبرؑ کی زندگی کے بعض پہلووں کے بارے میں مورخین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ مثلا بعض مورخین آپ کو امام حسینؑ کے سب سے بڑے بیٹے کے طور پر متعارف کراتے ہیں۔[3] جبکہ بعض آپ کو امام سجادؑ سے عمر میں چھوٹا تصور کرتے ہیں۔[4] اسی طرح آپ کی شادی اور اولاد کے بارے میں بھی تاریخ میں اختلاف پایا جاتا ہے بعض حضرات آپ کے زیارت نامے میں موجود ایک جملے کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ کے صاحب ہمسر و فرزند ہونے کے قائل ہیں۔[5] شیخ کلینی اپنی کتاب فروع کافی میں امام رضاؑ سے ایک حدیث نقل کرتے ہیں جو آپ کی ایک کنیز کے ساتھ شادی ہونے اور حسن نامی ایک بیٹے کی پیدائش سے حکایت کرتی ہے۔ جب کہ بعض دوسرے محققین تصریح کرتے ہیں کہ آپ کی کوئی اولاد نہیں ہے اور امام حسینؑ کی نسل حضرت امام زین العابدینؑ سے چلی ہے۔[6]

علی اکبر 10 محرم سنہ 61 ہجری قمری کو واقعہ عاشورا میں اپنے والد گرامی اور بنی ہاشم کے دوسرے شہداء کے ساتھ شہادت کے عظیم رتبے پر فائز ہوئے۔[7] اور امام حسینؑ کے قبر مطہر کے نزدیک کربلا میں مدفون ہیں۔

فضائل اور مناقب

نقل حدیث

اصفہانی کے بقول آپ اپنے جد بزرگوار حضرت علی علیہ السلام سے بہت زیادہ احادیث نقل کرنے کی وجہ سے محدث کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔[8]

دشمن کا اعترافِ شائستگی

شام کے حاکم معاویہ، حضرت علی اکبر کو خلافت کیلئے شائستہ اور اہل سمجھتے تھے۔ وہ کہتے ہیں:

اولی الناس بهذا الامر علی بن الحسین بن علی، جده رسول الله وفیه شجاعة بنی هاشم و سخاه بنی امیه و رهو ثقیف. [9] ترجمہ: حکومت کیلئے شائستہ ترین افراد میں سے علی اکبر ہیں کہ جن کے نانا رسول خدا ہیں اور ان میں بنی ہاشم کی شجاعت، بنی امیہ کی سخاوت اور بنی ثقیف کا حسن و جمال پایا جاتا ہے۔

آئینۂ رسول اللهؐ

امام حسین علیہ السلام کی گواہی اور تائید کے مطابق آپ تمام ظاہری اور باطنی صفات میں رسول اللہ کی شبیہ تھے۔[10] اسی بنا پر آپ شبیہ پیغمبر کے نام سے بھی مشہور تھے۔[11]

امام حسینؑ کی طرف داری

عاشورا کے روز جب حضرت علی اکبر میدان کارزار میں وارد ہوئے تو ایک شخص نے بلند آواز میں کہا:

اے علی! تم امیر المؤمنین یزید کے ساتھ رشتہ داری رکھتے ہو لہذا ہم اس کی پاسداری کرتے ہیں اگر تم چاہو تو ہم تمہیں امان دیتے ہیں۔

آپ نے جواب دیا: اِنَّ قَرابَةَ رَسولِ اللهِ اَحَقُّ اَنْ تُرعی [12] ترجمہ: رسول اللہ کی قرابت زیادہ رعایت کا حق رکھتی ہے۔

کربلا میں بنی ہاشم کے پہلے شہید

اصفہانی اور ابی مخنف نے حضرت علی اکبر کو کربلا میں بنی ہاشم کا پہلا شہید لکھا ہے۔[13] نیز شہداء کے معروف زیارت نامے میں بھی یہی آیا ہے: السَّلامُ علیکَ یا اوّل قتیل مِن نَسل خَیْر سلیل. [14]

راہِ حق میں استقامت

بنی مقاتل کے مقام پر حضرت امام حسینؑ کی آنکھ لگ گئی۔ کچھ دیر بعد آنکھ کھلی تو آپ انّا لله و انّا الیه راجعون و الحمد لله ربّ العالمین کی تکرار کرتے ہوئے بیدار ہوئے تو حضرت علی اکبر نے اس کا سبب دریافت کیا تو امام نے جواب میں ارشاد فرمایا:

اے بیٹے! مجھے اونگھ آ گئی تو میں نے ایک سوار کی صدا سنی وہ کہہ رہا تھا: یہ قوم سفر کر رہی ہے اور موت ان کے پیچھے پیچھے ہے۔ اس کی اس بات سے میں سمجھ گیا کہ موت ہمیں پا لے گی۔ علی اکبر نے سوال کیا: اللہ آپ کو ہر بدی سے بچائے! کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ امام نے جواب دیا: حق اسی کے ساتھ ہے جس کی طرف سب بندگان خدا کو جانا ہے۔ علی اکبر نے کہا: جب حق پر قائم ہیں تو ہمیں موت سے کوئی باک نہیں ہے۔ امام نے یہ جواب سن کر علی اکبر کے حق میں دعا کرتے ہوئے فرمایا: خدا وند کریم باپ کی طرف سے اپنے بیٹے کو بہترین اجر عطا فرمائے۔[15]

واقعہ کربلا میں علی اکبر کا کردار

علی‌ اکبر نے عاشورا کے دن بنی‌ ہاشم کے جوانوں میں سب سے پہلے آکر امام حسینؑ سے میدان میں جانے کی اجازت مانگی۔ اجازت ملنے کے بعد جب علی اکبر میدان کی طرف جا رہے تھے تو اس موقع پر امام حسینؑ نے فرمایا:

اَللهمَّ اشْهَدْ عَلَی هؤُلاءِ القوم، فَقَدْ بَرَزَ اِلَیهِمْ اَشْبَهُ النّاسِ بِرَسولِک مُحمّد خَلْقاً وَ خُلْقاً و مَنْطِقاً
پروردگارا! میں تجھے اس قوم پر گواہ بنا رہا ہوں ان کے مقابلے میں ایک ایسا شخص جا رہا ہے جو تمام انسانوں میں ظاہری شکل و شمائل اور باطنی اخلاقی صفات میں تیرے رسول سے سب سے زیادہ مشابہت رکھتا ہے۔[16][17]

نیز فرمایا:

وَ کنّا اِذا اشْتَقْنا اِلی رُؤیةِ نَبِیک نَظَرْنا اِلیهِ
جب بھی ہم تیرے رسول کے دیدار کے مشتاق ہوتے تھے تو ہم علی کی طرف نگاہ کرتے تھے۔

[18][19] عمر بن سعد نے علی اکبر کو میدان کارزار میں دیکھ کر آپ سے میدان سے چلے جانے اور آپ کو امان دینے کی بات کی تو اس وقت علی اکبر نے ان کے امان نامے کو ٹھکرا کر یوں رجز پڑھا:

میں علی کے بیٹے حسین کا فرزند ہوں؛ بیت اللہ کی قسم! ہم نبی سے زیادہ قرابتداری کا حق رکھتے ہیں۔

خدا کی قسم! یہ زنا زادہ! ہم پر حکم نہیں چلا سکتا؛ میں تلوار سے دشمن پر کاری ضرب لگاؤں گا اور اپنے باپ کی حمایت کروں گا۔

وہ بھی ایک ہاشمی اور قریشی جوان کی تلوار سے۔

نبرد آزمائی

پہلے حملے میں حضرت علی اکبر کبھی دائیں، بائیں اور کبھی قلب لشکر پر حملے کرتے تھے۔ کوئی گروہ بھی ان کے حملے کی تاب نہ لا سکتا تھا۔ کہتے ہیں اس حملے میں 120 افراد کو زمیں پر گرایا لیکن پیاس کی وجہ سے مزید حملے کی سکت نہ رہی۔ تو نئی توانائی حاصل کرنے کیلئے امام کی طرف لوٹ آئے اور اپنی پیاس سے اپنے والد کو آگاہ کیا۔

علی اکبر کی پیاس کو دیکھ کر امام کے آنسو نکل آئے آپ نے اپنی زبان چوسائی پھر اپنی انگوٹھی علی اکبر کو دی اور کہا اسے اپنے منہ میں رکھ لیں، امید ہے کہ تم اپنے جد سے جلد ہی ملاقات کرو گے وہ تمہیں آب کوثر سے سیراب کریں گے کہ جس کے بعد کبھی تشنگی نہ ہو گی۔[20] کچھ اختلاف کے ساتھ یہی عبارت سید بن طاووس نے بھی نقل کی ہے۔[21]

علی اکبر دوبارہ حملے کیلئے روانہ ہوئے، آپ کی شجاعت ایسی تھی کہ کوفہ کا کوئی فرد بھی آپ سے مقابلہ کرنے پر راضی نہیں تھا۔[22] یوں آپ نے تقریبا اہل کوفہ کے 200 افراد پچھاڑے۔[23]

شہادت

علی اکبر اس بہادری سے حملے کر رہے تھے اچانک مُرّةُ بن مُنقذ کی نگاہ حضرت علی اکبر پر پڑی تو اس نے آپ کو دیکھتے ہی کہا: اہل عرب کے تمام گناہ میری گردن پر، اگر میں اس کے باپ کو اس کے غم میں نہ بٹھا دوں۔[24] اس نے اچانک آپ کے فرق مبارک پر وار کیا کہ آپ اس کی تاب نہ لا سکے اسی اثنا میں دشمن کے دوسرے سپاہی بھی آپ پر حملہ ور ہوئے۔[25] لشکر نے ہر طرف سے آپ پر وار کرنا شروع کئے، اتنے میں علی اکبر کی فریاد بلند ہوئی: اے بابا! آپ پر میرا سلام ہو! یہ رسول خدا ہیں جنہوں نے مجھے جام کوثر سے سیراب کیا اور مجھے اپنی طرف جلدی بلایا ہے۔ یہ کہنے کے بعد علی اکبر نے ایک لمبی سانس لی اور اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔[26]

آپ کی شہادت کے طریقے کے بارے میں دوسری روایات بھی موجود ہیں جن کی بنا پر آپ کی شہادت، سینے میں برچھی کے پیوست ہونے سے ہوئی ہے.

امام حسینؑ علی اکبر کے سرہانے

امام حسین اپنے بیٹے کے پاس پہنچے وَ اَنکبَ علیهِ و اَصفا خَدَّهُ عَلی خَدِّهِ[27]ترجمہ: آپ نے اپنے آپ کو بیٹے پر گرا دیا اور اپنے رخسار بیٹے کے رخسار پر رکھ دیئے۔ امام نے قوم اشقیا کے حق میں یوں بد دعا کی: اللہ اس قوم کو قتل کرے جس نے تمہیں قتل کیا۔[28] پھر فرمایا: اے بیٹا! یہ قوم اپنے خدا کی نسبت کس قدر گستاخ اور بے شرم ہیں اور رسول اللہ کے حرم کی توہین کرتے ہیں۔ پھر فرمایا: اے میرے بیٹے! تیرے بعد اس دنیا پر تف ہے۔[29]

خون کا آسمان کی طرف پھینکنا

امام حسینؑ نے علی اکبر کے خون سے چلو بھر کر اسے آسمان کی طرف پھینک دیا جس کا کوئی قطرہ زمین پر نہیں گرا۔[30]

امام حسین علیہ السلام سے صحیح سند کے ساتھ وارد ہونے والی زیارت جسے امام صادقؑ نے ابو حمزہ ثمالی کو تعلیم دی اس میں یوں آیا ہے: بابی انت و امّی من مقدّمٍ بین یدی ابیک یحتسبک و یبکی علیک، محرقاً علیک قلبه، یرفع دمک بکفّه الی عنان السّماء لا ترجع منه قطرةٌ، و لا تسکن علیک من ابیک زفرةٌ [31] ترجمہ: میرے ماں اور باپ اس پر فدا ہوں جس نے شہادت میں اپنے باپ پر سبقت لی اور انہوں نے تجھ پر گریہ کیا، جس کے دل میں تیرے غم کی آگ بھڑکی، جس کے خون کا چلو بھر کر آسمان کی طرف پھینکا اور اس کا کوئی قطرہ زمین کی طرف واپس نہ آیا اور آہ! تمہاری شہادت پر تمہارے باپ کو ہرگز سکون نہیں آئے گا۔

علی اکبر کا لاشہ خیمگاہ میں

حضرت امام حسینؑ نے حضرت علی اکبر کے لاشے کو اٹھانے کیلئے جوانان اہل بیتؑ کو یوں حکم دیا: اپنے بھائی کے لاشے کو اٹھاؤ۔ حضرت علی اکبر کے لاشے کو اٹھانے کیلئے جوانان اہل بیت آگے بڑھے اور انہوں نے آپ کا جسد مبارک خیمۂ شہدا کے سامنے دیگر شہدا کے لاشوں کے پاس رکھ دیا۔[32]

حضرت زینب سلام اللہ علیہا دوسری خواتین کے ہمراہ آہ و بکا کرتی ہوئی آگے بڑھیں۔[33] آپ نے یا اخاه! یا اخاه؛ کہتے ہوئے اپنے آپ کو نعش علی اکبر پر گرا دیا۔ حضرت امام حسین نے اپنی بہن کو خیمہ گاہ کی طرف روانہ کیا اور جوانوں کو حکم دیا کہ اپنے بھائی کو اٹھائیں۔ انہوں نے علی اکبر کو قتل گاہ سے اٹھایا خیمۂ گاہ کے برابر رکھ دیا۔[34]

آپ کے قاتل پر امام کی لعنت

زیارت ناحیہ میں امامؑ کی جانب سے علی اکبر کے قاتل پر لعنت کا ذکر ان الفاظ میں ہوا ہے: ... حَکمَ اللهُ علی قاتِلکَ مُرّةِ بن مُنقِذِ بنِ نُعمان العبدی، لَعنهُ الله و أخزاهُ و مَن شَرَکَ فی قَتلِکَ و کانَ عَلیکَ ظَهیراً[35] ترجمہ: اللہ نے تیرے قاتل مرۃ بن منقذ بن نعمان عبدی لیثی پر لعنت کا حکم دیا ہے۔ اللہ اس پر لعنت کرے۔ اللہ اسے اور ہر اس شخص کو ذلیل کرے جس نے تمہیں قتل کرنے میں حصہ لیا اور تمہارے خلاف مدد کی۔

حوالہ جات

  1. اصفہانی، مقاتل الطالبین، ص۸۶؛ابی‌ مخنف، وقعۃ الطف، ص۲۷۶؛ یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۸۴.
  2. اصفہانی، مقاتل الطالبین ص 86
  3. تسمیۃ من قتل مع الحسین علیه‌السلام،ش ۸؛ ابن سعد، طبقات، ج۵، ص۲۱۱؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج۵، ص۴۴۶؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج۳، ص۳۶۱؛ قاموس الرجال، ج۷، ص۴۱۹ـ۴۲۰.
  4. شیخ مفید،الارشاد، ج۲، ص۱۱۴؛ شیخ طوسی، رجال، ص۷۶.
  5. کامل الزیارات/۲۳۹ب ۷۹ زیارت ۱۸.
  6. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۵، ص۲۱۱؛ یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۸۴.
  7. السماوی، سلحشوران طف، ص۶۱.
  8. ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبین، ص 86.
  9. اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص 86.
  10. ابن اعثم، الفتوح،ج5،ص114/ مثیر الاحزان، ص 68 .
  11. سید بن طاوس، لہوف،ص139/خوارزمی، مقتل الحسین،ج2ص34.
  12. الحسین ابن عساکر، ص 227.
  13. اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص 86،ابی مخنف، وقعۃ الطف،ص276
  14. شیخ عباس قمی، منتہیٰ الآمال، ج2ص867.
  15. ابی مخنف، وقعۃ الطف،ص276/ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج 3، ص 309.
  16. سید بن طاوس،اللہوف، ص۱۳۹.
  17. مثیر الاحزان، ص۶۸
  18. خوارزمی، مقتل الحسین، ج۲، ص۳۵.
  19. خوارزمی،مقتل الحسین، ج۲، ص۳۵: سید بن طاوس،اللہوف، ص۱۳۹.
  20. خوارزمی،مقتل الحسین ، ج 2، ص 35.
  21. لہوف ،49.
  22. شیخ مفید،الارشاد، ص459.
  23. مقتل الحسین مقرم،ج2 ص 36.
  24. شیخ مفید،الارشاد،ص459 ؛طبری،تاریخ الامم والملوک، ج 3، ص 335.
  25. اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص 115؛ شیخ مفید،الارشاد، ص459.
  26. اصفہانی، مقاتل الطالبین؛ ص 115؛سید بن طاوس،اللہوف، ص 49؛مجلسی، بحارالانوار،ج 45، ص 44.
  27. سید بن طاوس،اللہوف، ص 4.
  28. شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص 106 /حلی، ابن نما، مثیر الاحزان،ص247/ابی مخنف، وقعۃ الطف،278
  29. سید بن طاؤس،اللہوف، ، ص 139؛ شیخ مفید، الارشاد، ص 459.
  30. مقرم،حادثۂ کربلا در مقتل مقرم،ص257.
  31. ابن بابویہ، کامل الزیارات، ص 416.
  32. شیخ مفید،الارشاد،ص459؛طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج 3، ص 336.
  33. حلی، ابن نما، مثیر الاحزان،ص247/ مقتل الحسین مقرم،ج2 ص 36.
  34. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج 3، ص 336.
  35. اقبال الاعمال، ج 3، ص 74.

ماخذ

  • الکوفی،ابن اعثم، الفتوح،تحقیق علی شیری،بیروت، دار الاضواء،الاولی،1411ق/1991م.
  • ابی مخنف،وقعۃ الطف،تحقیق محمد ہادی الیوسفی الغروی،المجمع العالمی لاہل البیت،الثانیہ،1427ق.
  • ابن سعد،طبقات الکبری،بیروت،دار الفکر،بی تا.
  • طبری،تاریخ الامم و الملوک،بیروت، دار الکتب العلمیہ، الثانیہ،1408ق/1988م.
  • شیخ مفید،الارشاد،ترجمہ محمد باقر ساعدی،تہران، انتشارات اسلامیہ،1380ش.
  • شیخ طوسی،اختیار معرفۃ الرجال.
  • قاموس الرجال.
  • اصفہانی، ابوالفرج، مقاتل الطالبیین،تحقیق احمد صقر،بیروت، موسسہ الاعلمی للمطبوعات، الثانیہ،1408.
  • شیخ عباس قمی،منتہی الآمال،تحقیق ناصر باقری بیدہندی،قم،انتشارات دلیل،1379ش.
  • اقبال الاعمال.
  • مقرم،حادثۂ کربلا در مقتل مقرم،ترجمۂ محمد جواد مولای نیا،قم،انتشارات جلوه کمال،سوم،1387ش.
  • ابن عساکر، ترجمۂ الحسین.
  • خوارزمی،ابی الموید، مقتل الحسین،تحقیق محمد السماوی،قم، انوار الہدی،الاولی،1418ق.
  • حلی، ابن نما،مثیر الاحزان،ترجمہ علی کرمی،قم،نشر حاذق،اول،1380ش.
  • لؤلؤ و مرجان.
  • یعقوبی،احمدبن ابی واضح، تاریخ یعقوبی،ترجمۂ محمد ابراہیم آیتی،تہران،انتشارات علمی.وفرہنگی، ہشتم،1378ش.
  • فرسان الہیجاء.
  • السماوی، محمدبن طاہر، ترجمۂ عباس جلالی، قم، انتشارات زائر،اول، 1381ش.
  • مجلسی، محمد باقر،بحارالانوار.
  • موسوعۃ کلمات الامام الحسینؑ.
  • کامل الزیارات.
  • سید ابن طاوس،اللہوف،ترجمه عقیقی بخشایشی،قم،دفتر نشر نوید اسلام،پنجم، 1378.