ھل من ناصر ینصرنی
![]() | |
واقعات | |
---|---|
امام حسینؑ کے نام کوفیوں کے خطوط • حسینی عزیمت، مدینہ سے کربلا تک • واقعۂ عاشورا • واقعۂ عاشورا کی تقویم • روز تاسوعا • روز عاشورا • واقعۂ عاشورا اعداد و شمار کے آئینے میں • شب عاشورا | |
شخصیات | |
امام حسینؑ علی اکبر • علی اصغر • عباس بن علی • زینب کبری • سکینہ بنت الحسین • فاطمہ بنت امام حسین • مسلم بن عقیل • شہدائے واقعہ کربلا • | |
مقامات | |
حرم حسینی • حرم حضرت عباسؑ • تل زینبیہ • قتلگاہ • شریعہ فرات • امام بارگاہ | |
مواقع | |
تاسوعا • عاشورا • عشرہ محرم • اربعین • عشرہ صفر | |
مراسمات | |
زیارت عاشورا • زیارت اربعین • مرثیہ • نوحہ • تباکی • تعزیہ • مجلس • زنجیرزنی • ماتم داری • عَلَم • سبیل • جلوس عزا • شام غریبان • شبیہ تابوت • اربعین کے جلوس | |
هَلْ مِنْ ناصِرٍ یَنْصُرُنی یعنی (کیا کوئی مدد کرنے والا ہے جو میری مدد کرے)۔ یہ وہ جملہ ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ امام حسینؑ نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں روز عاشورا کو زبان پر جاری فرمایا۔ یہ جملہ بعینہ، تاریخ میں نہیں آیا ہے بلکہ یہ اس بات کا مفہوم بیان کرتا ہے جو امام حسینؑ نے کربلا میں کہی۔[1] لیکن اس جملہ سے ملتی جلتی عبارتیں کربلا سے متعلق تاریخ میں نقل ہوئی ہیں۔[2]
واقعہ کربلا کو نقل کرنے والوں کے نقل کے مطابق جب امام حسینؑ کے تمام اصحاب، شہید ہوگئے اور آپ اکیلے رہ گئے تو آپ نے یہ جملات زبان پر جاری فرمائے: «هَلْ مِنْ ذَابٍّ يَذُبُّ عَنْ حَرَمِ رَسُولِ اللَّهِؐ هَلْ مِنْ مُوَحِّدٍ يَخَافُ اللَّهَ فِينَا هَلْ مِنْ مُغِيثٍ يَرْجُو اللَّهَ بِإِغَاثَتِنَا هَلْ مِنْ مُعِينٍ يَرْجُو مَا عِنْدَ اللَّهِ فِي إِعَانَتِنَا: کیا کوئی دفاع کرنے والا ہے جو حرم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کا دفاع کرے؟ کیا کوئی خدا سے ڈرنے والا ہے جو ہمارے بارے میں خدا سے ڈرے؟ کیا کوئی فریاد کو پہنچنے والا ہے جو ہماری فریاد کو پہنچ کر اللہ سے امیدوار ہو؟ کیا کوئی مدد کرنے والا ہے جو ہماری مدد کرکے اللہ کی عطا کا امیدوار ہو؟[3]
امام حسینؑ نے اس سے پہلے قصر بنی مقاتل کے مقام پر عبید اللہ بن حر جعفی سے مدد چاہی اور اس نے عذر پیش کیا تو عبید اللہ سے کہا کہ وہاں سے کہیں اور چلا جائے کیونکہ اگر کوئی امام کے استغاثہ کی آواز سنے اور مدد نہ کرے تو خدا اس کو ہلاک کردے گا۔[4]
ایران کے ایک فیلمی ڈائرکٹر شہرام اسدی نے واقعہ کربلا کے بارے میں روز واقعہ نام کی فلم بنائی ہے۔ اس فلم کا پہلا کردار ایک نیا مسلمان ہے وہ ایک غیبی آواز سنتا ہے جو بار بار اس کے کانوں میں آتی ہے کہ "کوئی ہے جو میری مدد کرے؟" وہ اسی آواز کے تعاقب میں چل پڑتا ہے اور عصر عاشورا کو کربلا میں پہنچ جاتا ہے۔[5]
متعلقہ صفحات
حوالہ جات
مآخذ
- ابن نما حلی، مثیر الاحزان، قم، مدرسة الامام المهدی، ۱۴۰۶ھ۔
- سید ابن طاووس، اللهوف علی قتلی الطفوف، تهران، نشر جهان، ۱۳۴۸ش۔
- روز واقعہ فلم پر ایک نظر»، پاسدار اسلام میگزین، شماره ۱۶۴، مرداد ۱۳۷۴ش.
- طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، تحقیق محمد ابوالفضل ابراهیم، بیروت، دار التراث، ۱۹۶۷ء/۱۳۸۷ھ۔
- محدثی، جواد، فرهنگ عاشورا، قم، نشر معروف، ۱۳۷۶ش۔
|