عبید اللہ بن زیاد، واقعہ عاشورا کے موقع پر یزید کی جانب سے کوفہ کا والی اور گورنر تھا. اس سے پہلے وہ والی کی حیثیت سے بصرہ میں موجود تھا. حضرت امام حسینؑ کے کوفے کے سفر کی اطلاع پاتے ہی یزید بن معاویہ نے اسے امام کی تحریک روکنے کیلئے بصرہ سے ہٹا کر کوفہ کا حاکم مقرر کر دیا.

ابن زیاد
ذاتی کوائف
نامعبید اللہ بن زیاد
وفاتمحرم الحرام 67ھ
واقعہ کربلا میں کردار
اقداماتامام حسینؑ کے مقابلے کے لئے کربلا کی طرف فوج بھیجنا، امام حسینؑ کے سر اقدس کی توہین کرنا، قیام توابین کو شکست دینا
نمایاں کرداربصرہ اور کوفہ کا گورنر

کربلا میں لشکر کشی اور کوفے میں اہل بیت آل محمدؑ سے برے سلوک سے پیش آنے کی وجہ سے خاص طور پر شیعوں کے نزدیک اور حضرت امام حسین ؑ کے سر مبارک کے ساتھ بے ادبی کرنے کی وجہ سے تمام مسلمانوں کے نزدیک منفور ترین شخص سمجھا جاتا ہے.

پیدائش اور خاندانی تعارف

عبید اللہ بن زیاد بن ابیہ کی کنیت ابو حفص تھی اور اس کی ماں "مرجانہ" نامی کنیز تھی[1] جس نے بعد میں ایک ایرانی فرد "شیرویہ" کے ساتھ شادی کی. عبیداللہ نے اسی کے گھر پرورش پائی. اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ اسکی زبان بعض عربی الفاظ کی ادائیگی سے قاصر تھی.[2] بعض ابن زیاد کو ماں کی نسبت سے طعن کرتے ہوئے ابن مرجانہ کہتے ہیں کہ جو اسکی ناپاک ولادت کی طرف اشارہ ہے. بعض ماخذ میں اس عورت کے بدنام اور زناکار ہونے کی تصریح موجود ہے. [3].

اس کا باپ "زیاد بن ابیہ" امویوں کے سرداروں اور حاکموں میں سے تھا جو اسلامی علاقوں میں تحریکوں کو روکنے میں اپنی قساوت قلبی اور بے رحمی میں مشہور تھا. ابن زیاد کے نسب میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے اور کوئی اسکے باپ کو نہیں جانتا ہے. اسی وجہ سے اسے "ابن ابیہ"(یعنی اپنے باپ کا بیٹا) کہا جاتا تھا. کہا گیا ہے ابو سفیان زیاد کو سمیہ نامی خاتون سے اپنے زنا کا نتیجہ سمجھتا تھا اسی مناسبت سے معاویہ زیاد کو اپنا بھائی کہتا تھا.[4]

اخلاقی خصوصیات

محرم کی عزاداری
 
واقعات
امام حسینؑ کے نام کوفیوں کے خطوطحسینی عزیمت، مدینہ سے کربلا تکواقعۂ عاشوراواقعۂ عاشورا کی تقویمروز تاسوعاروز عاشوراواقعۂ عاشورا اعداد و شمار کے آئینے میںشب عاشورا
شخصیات
امام حسینؑ
علی اکبرعلی اصغرعباس بن علیزینب کبریسکینہ بنت الحسینفاطمہ بنت امام حسینمسلم بن عقیلشہدائے واقعہ کربلا
مقامات
حرم حسینیحرم حضرت عباسؑتل زینبیہقتلگاہشریعہ فراتامام بارگاہ
مواقع
تاسوعاعاشوراعشرہ محرماربعینعشرہ صفر
مراسمات
زیارت عاشورازیارت اربعینمرثیہنوحہتباکیتعزیہمجلسزنجیرزنیماتم داریعَلَمسبیلجلوس عزاشام غریبانشبیہ تابوتاربعین کے جلوس


کہا گیا ہے کہ وہ بہت سخت مزاج، بے رحم اور بے باک تھا. بعض سیرت نگاروں نے اسے "جبار" کے نام سے یاد کیا ہے.[5] جیسا کہ منقول ہے کہ اس نے بصرہ میں خوارج کے خروج کے موقع پر عجیب خشونت کا مظاہرہ کیا. [6] یہی خصلت غیر مسلموں سے جنگوں میں کامیابیوں کا موجب بنی. [7]

سیاسی اور حکومتی منصب

عبیداللہ کی ساری زندگی کے حکومتی اور سیاسی عہدے کتابوں میں مذکور نہیں ہیں. بعض محققین کے مطابق ظاہر ہوتا ہے کہ بصرہ اور کوفہ کی حاکمیت کا قلمدان اموی حکومت نے اس سے نہیں لیا تھا.[8] معاویہ نے زیاد کے مرنے کے بعد، عبیداللہ کو خراسان کا والی مقرر کیا.[9]

معاویہ کا دور حکومت

معاویہ کے دور حکومت میں ایران کے شمال مشرق اور مشرق کی فتوحات میں عبیداللہ کا بنیادی کردار تھا. معاویہ کی جانب سے خراسان کا والی بننے کے بعد اس نے پہلی بار دریائے جیحون [10] عبور کرنے کے بعد بخارا کے رامیئن[11]، نَسَف اور بیگند[12] جیسے علاقوں کو اپنے قبضے میں لیا. بخارا کی "ملکۂ قبج خاتون" اور اسکے لشکر کو پسپائی پر مجبور کیا. معاویہ نے 55،56 یا 57 ق میں اسے خراسان سے ہٹا کر عبد اللہ بن عمرو بن غیالان کی بصرہ کا والی مقرر کیا. [13].

عبیداللہ نے خوارج کی طرف سے بصرہ میں ہونے والی بغاوتوں کا مقابلہ کیا اور یہ بغاوتیں 58ق میں اپنے عروج کو پہونچ گئیں تو اس نے انہیں حیران کن طریقے سے انکا مقابلہ کیا اور انہیں کچل دیا اور بہت سے خوارج کو قتل کیا.[14]

یزید کا دور حکومت

سنہ ساٹھ ہجری میں معاویہ کے مرنے کے بعد یزید چاہتا تھا کہ اسے بصرے سے ہٹا دے لیکن بصرہ اور کوفہ کے خراب سیاسی حالات نے اسے ایسا کرنے سے منع کیا. لیکن قیام امام حسین ؑ کے آغاز اور آپکی جانب سے مسلم بن عقیل کے کوفہ بھیجے جانے کے بعد، یزید نے عبید اللہ اور اس کے والد کی تحریکوں کو تشدد کے ساتھ کچلنے میں شہرت کی بنا پر اسے کوفے کا والی مقرر کر دیا. کہتے ہیں یزید نے اس اقدام کا فیصلہ اپنے مشیروں میں سے "سرجون" نامی عیسائی مشیر کے مشورے کے بعد کیا. [15].

عبید اللہ اور کوفہ

کوفیوں نے 60ویں ہجری کے اختتام پر حضرت امام حسینؑ کی بیعت کی آمادگی کا اعلان کیا اور آپ کے کوفہ آنے کے منتظر تھے کہ عبید اللہ بن زیاد اپنا چہرہ چھپائے وارد کوفہ ہوا. لوگوں نے سمجھا کہ حضرت امام حسین ؑ آئے ہیں لہذا انہوں نے اس کا پر تپاک استقبال کیا لیکن وہ جلد ہی حقیقت امر سے آگاہ ہو گئے.امام حسین ؑ کے نمائندے مسلم بن عقیل کی تلاش عبید اللہ کا پہلا اقدام تھا [16].

عبید اللہ نے کوفہ میں آتے ہی لوگوں سے ایک خطاب کیا اور انہیں ڈرانے اور دھمکانے کے بعد کہا کہ جو اس کی پیروی کرے گا اس سے اچھا برتاؤ سے پیش آئے گا [17].

یعقوبی کی روایت مطابق ہانی بن عروۃ پہلے سے عبید اللہ سے آشنائی رکھتا تھا اور وہ گمان کرتا تھا اس وجہ سے وہ اس کی عیادت کیلئے آئے گا. اس نے عبید اللہ کے قتل کی خاطر مسلم بن عقیل کو گھر میں پناہ دے رکھی تھی .[18]. ایک دوسری روایت کے مطابق کوفے کے نامور شیعہ رہنماؤں میں سے شریک بن اعور ہانی کے گھر میں مریض ہو گیا ؛ تو ہانی نے مسلم سے کہا کہ جب عبید اللہ اس کے گھر آئے تو وہ اسے قتل کر ڈالے[19].

اس کے باوجود ہانی اپنے گھر میں قتل کو پسند نہیں کرتا تھا اس لئے اس نے مسلم کو اس قتل سے روک دیا لہذا عبید اللہ صحیح و سالم واپس چلا گیا [20].

طبری کی گزارش کے مطابق عبید اللہ ہانی کے گھر آنے پر مسلم کی چھپائے جانے سے آگاہ ہو تھا لہذا اس نے واپسی پر ہانی کو "دار الامارہ' میں اسے طلب کیا اور اسے زندانی کیا اور جلد ہی مسلم کر گرفتار کر کے اسے قتل کیا اور اس کا سر یزید کے پاس شام روانہ کیا[21].

عبید اللہ نے کوفیوں ڈرانے اور لالچ دینے کے بعد "حر بن یزید ریاحی" کو سپاہیوں کے ہمراہ حضرت امام حسین ؑ کا راستہ روکنے کیلئے روانہ کیا نیز انہیں حکم دیا کہ حسین ؑ کو کسی ایسی جگہ پڑاؤ نہ ڈالنے دے جہاں پانی وغیرہ نہ ہو پھر عمر بن سعد بن ابی وقاص کو لشکر کے ہمراہ حسین ؑ کی جانب روانہ کیا [22].

عمر بن سعد اس وقت ری کا حاکم مقرر ہو چکا تھا اور ری جانے کیلئے تیار تھا لیکن عبید اللہ نے اسے یزید کی بیعت لینے کیلئے یا جنگ کرنے کی ذمہ داری کی سونپی اس کے حوالے کی عمر نے اس کام سے معذرت چاہی تو عبید اللہ نے ری کی حاکمیت کو اسی کام سے مشروط کر دیا[23].

عمر بن سعد نے حضرت امام حسین ؑ سے مذکرے کے بعد عبید اللہ کو لکھا کہ حسین ؑ واپسی کا ارادہ رکھتے ہیں لہذا ان سے جنگ کی ضرورت نہیں ہے. ابتدائی طور پر عبید اللہ یہ خبر سن کر خوشحال ہوا لیکن وہاں پر موجود شمر بن ذی الجوشن نے اسے اس صلح سے منع کیا.پس عبید اللہ نے عمر کو خط لکھا: "اگر حسین سے بیعت لے لو تو اسے کوفے روانہ کرو ورنہ اس سے جنگ کر اور تم حسین سے لڑنے پر راضی نہیں تو لشکر کی سرداری شمر کے حوالے کرو."[24]

اہل بیت ؑ کی اسیری

عبید اللہ کے حم کے مطابق حضرت امام حسین ؑ کی شہادت کے بعد خاندان امام حسین ؑ کو اسیری کی حالت میں کوفہ لایا گیا.اہل بیت پیغمبر ؐ کو اسیری کی حالت میں کوفہ لانا ایسے واقعات میں سے ہے جسے تاریخ و حدیث کی کتب میں ذکر کیا گیا ہے. ان واقعات میں سے عبید اللہ کی حضرت زینب سے گفتگو اور آپ کے دیے جانے والے جوابات بھی تاریخی اور دوسرے منابع میں مذکور ہیں. حضرت زینب اور عبید اللہ کی باہمی گفتگو دربار میں موجود حاضرین پر نہایت اثر انداز ہوئی. کوفے میں ہونے والے دلخراش واقعات میں سے ایک واقعہ یہ ہے کہ عبید اللہ کے پاس جب حضرت امام حسین ؑ کا سر پیش ہوا تو اس نے اپنے ہاتھ میں موجود چھڑی کے ساتھ آپ کے ہونٹوں اور دانتوں کی بے حرمتی کی تو دربار میں موجود صحابئ رسول خدا ؐ زید بن ارقم یہ گستاخی دیکھ کر رونے لگے اور کہنے لگے : اس چھڑی کو ان ہونٹوں سے اٹھا لو. خدا کی قسم! میں کئی مرتبہ ان ہونٹوں پر رسول اللہ کو بوسہ لیتے ہوئے دیکھا. عبید اللہ یہ سن کر خشمگین ہوا اور غصے سے بولا : خدا تجھے رلائے! کس چیز پر آنسو بہاتے ہو؟ فتح پر آنسو بہاتے ہو؟بخدا ! اگر میں یہ نہ جانتا ہوتا کہ تمہاری عقل زائل ہو چکی ہے تو میں تمہاری گردن اڑا دیتا. زید نے جب یہ سنا تو دربار سے نکل گئے[25].

حضرت زینب ؑ سے گفتگو

اہل بیت ؑ کو کوفہ میں اسیر کر کے لانے کے بعد انہیں عبید اللہ بن زیاد کے دربار میں لایا گیا. تاریخ کے مطابق کے مطابق ایک پرانے لباس میں تھین اور عبید اللہ اور اس کے دربار کی طرف توجہ کئے بغیر ایک کونے میں بیٹھ گئیں. عبید اللہ نے ان سے تین دفعہ پوچھا کہ تم کون ہو؟لیکن اس نے جواب نہ پایا. بالآخر اس نے اہل دربار میں کسی نے کہا :زینب بنت علی بن طالب ہے.ابن زیاد آپ کی اس بے اعتنائی سے غصہ میں آیا اور اس نے کہا :حمد و ثنا ہے اس پروردگار کی جس نے تمہیں رسوا کیا اور تمہارے جھوٹوں کو آشکار کیا.حضرت زینب ؑ نے جواب دیا : اس خدا کی حمد و ثنا ہے جس نے ہمیں پیغمبر کے ساتھ تکریم بخشی.اور ہمیں آلودگی اور پلیدگی پاک قرار دیا.وہ جو گناہگار ہے وہ رسوا ہو گا اور وہ جو کہ بدکار ہے جھوٹ بولتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے. ابن زیاد آپ سے مخاطب ہوا :دیکھا خدا نے بالآخر تمہارے ساتھ کیا کیا؟ حضرت زینب نے جواب دیا :ہم نے خدا سے نیکی اور خوبی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا.خدا نے ہمارے خاندان کیلئے شہادت کو مقدر کیا تھا اور وہ شجاعت کے ساتھ اپنی قتل گاہ کی طرف آئے. خدا جلد ہی انہیں اور تمہیں ایک جگہ اکٹھا کرے گا تا کہ اس کے حضور تمہارا محاکمہ کیا جا سکے گا.تم اس وقت دیکھو گے کہ اچھا انجام اور عاقبت کس کی ہے ؟ اے مرجانہ کے بیٹے تمہاری ماں تیرے عزا میں بیٹھے!. یہ سننا تھا کہ ابن زیاد خشمگین ہو گیا اور کہتے ہیں کہ اس نے حضرت زینب ؑ کے قتل کا ارادہ کیا لیکن عمرو بن حُریث کی وجہ سے باز رہا اور اس نے کہا :اے بار الہا!اس سرکش بھائی، دیگر باغیوں اور اسکے خاندان کے حامیوں کے قتل سے میرے دل کو آرام بخش.حضرت زینب ؑ نے کہا :خدا کی قسم ! تم نے میرے بھائی کو قتل کیا میرے نسل کو قتل کیا اور ہماری نسل کو جڑ سے اکھاڑا. اگر تمہارا دل اسی سے شفا پاتا ہے تو تو نے شفا پائی. عبید اللہ مخاطب ہوا : اپنے باپ کی مانند قافیہ کے ساتھ اور اس کی مانند مسجع گفتگو کرتی ہے.[26]

یزید کے بعد

عبید اللہ واقعہ عاشورا کے بعد اپنی ظالمانہ قوت سے استفادہ کرتے ہوئے کوفہ اور بصرہ کی حکومت پر باقی رہا لیکن یزید کے مرنے کے بعد وی تزلزل کا شکار ہو گیا. طبری اور ابو علی مسکویہ کے مطابق یزید کے مرنے کے بعد اس نے ایک رات خطبہ دیا جس سے ایک رات پہلے بصرے کو بزرگان کو اس نے لالچ دیا تھا.اس خطبے کے بعد وہ کھڑے ہوئے اور اسے اپنی حکومت کے جاری رکھنے کی خواہش کا اظہار کیا لیکن کچھ عرصہ بعد لوگوں نے اس سے منہ موڑ لیا اور وہ عبد اللہ بن زبیر کی بیعت کے طلبگار ہو گئے. [27]

بلاذری کے مطابق یزید کی موت کے بعد عبید اللہ نے اہالیان بصرہ سے تقاضا کیا کہ جب تک لوگ کسی نئے خلیفے پر اجماع نہیں کر لیتے اس وقت تک تم میری بیعت کر لو.جب بصرے کے لوگ اس کی بیعت کر رہے تھے اس نے کسی کو کوفہ بھیجا کہ وہ ان سے بھی بیعت لے لیکن کوفیوں نے اسے قبول نہیں کیا اس خبر کے معلوم ہو جانے پر بصریوں نے بھی اس سے انکار کر دیا.[28]

مروان بن حکم کی بیعت

جب عبد اللہ بن زبیر نے مدینہ میں قوت حاصل کر لی جیسا کہ شام کے کچھ علاقے بھی اسکی خلافت میں شامل ہو گئے یہانتک کہ مروان بن حکم مدینے اسکی بیعت کی غرض سے آیا.ابن زیاد نے بَثَنیہ کے مقام پر اس سے ملاقات کی اور اسے اس کام سے روکا اور اسے وعدہ دیا کہ اگر وہ خود مدعی خلافت ہوا تو وہ اس کی حمایت کرے گا.مروان واپس چلا گیا ابن زیاد بھی دمشق روانہ ہو گیا. اس نے وہاں ضحاک بن قیس کو شہر سے باہر نکال کیا جو ابن زبیر کیلئے لوگوں سے بیعت لے رہا تھا عبید اللہ نے مرون کیلے بیعت لی.ضحاک بن قیس نے دمشق کے نزدیک مرج راہط کے مقام پر مروانیوں سے جنگ کی جو اسکی شکست پر منتہی ہوئی ؛اس جنگ میں مروانیوں کی سپہ سالاری کے فرائض ابن زیاد کے ذمہ تھے.[29]

مروان کی حکومت کے دوران عبید اللہ دمشق میں تھا ۔ خون امام حسین کے انتقام کیلئے سلیمان بن صرد خزاعی کی سر کردگی میں توابین نے قیام کیا تو مروان نے ابن زیاد کو انکے مقابلے کیلئے روانہ کیا اور ابن زیاد کو غالب آنے کی صورت میں عراق کی حکومت دینے کا لالچ دیا[30] ۔ابن زیاد جب جزیرہ میں پہنچا تو اسے مروان کی موت (65ق)کی خبر لیکن اس نے اپنی پیش قدمی کو جاری رکھا ۔

قیامِ توابین کا خاتمہ

مفصل مضمون: قیام توابین 65ق کے جمادی الثانی میں عین الوردہ کے مقام پر ابن زیاد اور توابین کے درمیان گھمسان کا رن پڑا جو سلیمان اور اسکے ساتھیوں کی موت کے ساتھ اختتام ہوا ۔

ابن زیاد اور سپاہ مختار

اس کے بعد ابن زیاد جزیرہ کے شہروں کو تحت فرمان لانے میں مشضول ہو گیا کہ جہاں کے لوگوں نے پہلے عبد اللہ بن زبیر کی بیعت کی ہوئی تھی۔پھر اس نے مختار عاملین کے تابع موصل پر حملہ کیا ۔ مختار کے طرفدار تکریت میں عقن نشینی اختیار کی اور مختار کو اس حملے سے آگاہ کیا ۔ مختار نے اپنی سپاہ بھیجی جس نے ابن زیاد کی بھیجی ہوئی فوج کو شکست سے دو چار کیا ۔[31]

مرگ ابن زیاد

مختار کے لشکر کی کامیابی کے جواب میں ابن زیاد خود فوج کے ہمراہ ان کی طرف آیا ۔مختار بنیادی طور پر ابن زیاد اور کربلا کی جنگ حصہ لینے والوں کو ہلاک کرنے کے در پے تھا ،اس نے ابراہیم بن مالک اشتر کو ابن زیاد کے سپاہیوں سے مقابلے کیلئے روانہ کیا ۔ابراہیم ابن زاید سے پہلے عراق کی سر زمین پر پہنچنے کا ارادہ رکھتا تھا لہذا وہ دریائے خازر کے ساحل کے نزدیک موصل سے 5 فرسخ کے فاصلے پر باربیثا نامی دیہات میں لشکر شام کو جا پہنچا ۔ عراقیوں اور شامیوں کے درمیان شدید لڑائی ہوئی ۔ابن زیاد نے(محرم67) شکست کھائی ۔ وہ اپنے ساتھیوں سمیت یہاں قتل ہوا گیا ۔ابو مخنف کی روایت کے مطابق ابراہیم بن اشتر نے تن بہ تن لڑائی میں اسے قتل کیا ۔[32]

ابن زیاد اور شیعہ عقیدہ

عبید اللہ بن زیاد کے حضرت امام حسین ؑ کے خلاف اقدام کرنے اور واقعۂ عاشورا کی جنگ کو برپا کی وجہ سے وہ شروع سے ہی مسلمانوں کی نگاہوں میں منفور اوربدنام ہو گیا خاص طور پر کوفہ کے مسلمان اس سے بہت زیادہ ناراض تھے ۔جیسا کہ تاریخ کی نقل کے مطابق عبد اللہ بن عفیف ازدی کا واقعۂ کربلا کے بعد ابن زیاد کے پہلے خطبے کے درمیان اس نے ابن زیاد اور یزید کو برا بھلا کہا۔[33] یہانتک کہ کہتے ہیں کہ اس کی ماں مرجانہ نے اسے بہت نا سزا کہا ۔[34]

شیعوں کے نزدیک عبید اللہ ابن زیاد صدیوں سے تاریخ اسلام کی منفورترین شخصیات میں سے سمجھا جاتا ہے ۔چند مشہور زیارت ناموں میں اس کا نام ذکر ہوا جن میں اسے لعنت کا حق دار ٹھہرایا گیا ہے ۔[35]

حوالہ جات

  1. بلاذری احمد ،انساب الاشراف ج 4 ص 75
  2. جاحظ عمرو ، البیان و التبیین ج 1 ص 76
  3. مفید، الاختصاص ص 73
  4. دیکھیں: الاستیعاب ج 5 ص 525
  5. زرکلی، الاعلام ج 4 ص 193
  6. دينوری، الاخبار الطوال، ص 269-270؛ طبری، تاریخ، ج7، ص 185-187.
  7. دیکھیں: زرکلی، الاعلام، ج4، ص193.
  8. ابوعلی مسکویہ احمد، تجارب الامم، ج۲، ص۲۸.
  9. طبری، تاریخ الطبری، ج۷، ص۱۶۶- ۱۶۸.
  10. یعقوبی،احمد، تاریخ یعقوبی، ج 2 ص236
  11. ابوعلی مسکویہ احمد، تجارب الامم، ج۲، ص۳۲؛ بلاذری احمد، فتوح البلدان، ج۱، ص۴۱۰
  12. طبری، تاریخ الطبری، ج۷، ص۱۶۹.
  13. یعقوبی، تاریخ، ج۲، ص۲۳۷؛ طبری، تاریخ الطبری، ج۷، ص۱۷۲
  14. طبری، تاریخ الطبری، ج۷، ص۱۸۵-۱۸۷و ج۷، ص۲۲۸
  15. طبری، تاریخ الطبری، ج۷، ص۲۲۸
  16. طبری، تاریخ الطبری، ج۷، ص۲۲۹
  17. ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ج۱، ص۹۷
  18. یعقوبی، تاریخ، ج۲، ص۲۴۳
  19. طبری، تاریخ الطبری، ج۷، ص۲۴۸
  20. ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ج۱، ص۹۸ و ۹۹
  21. طبری، تاریخ الطبری، ج۷، ص۲۲۹-۲۳۱ و ۲۷۰
  22. طبری، تاریخ الطبری، ج۷، ص۳۰۸
  23. ابن سعد، طبقات الکبری، ج۵، ص۱۶۸؛ دینوری، اخبار الطوال، ج۱، ص۲۵۳
  24. طبری، تاریخ الطبری، ج۷، ص۳۱۵-۳۱۶؛ مفید، الارشاد، ج۱، ص۴۳۸
  25. مفید، الارشاد، ج2، ص114 و 115
  26. مفید، الارشاد، ج2، ص115 و 116
  27. طبری، تاریخ الطبری، ج۷، ص۴۳۹؛ ابوعلی مسکویہ احمد، تجارب الامم، ج۲، ص۸۳ -۸۴
  28. بلاذری، انساب الاشراف، ج۴، ص۷۹
  29. ابن سعد، طبقات الکبری، ج۵، ص۴۰-۴۲؛ طبری، تاریخ الطبری، ج۷، ص۴۷۶-۴۷۹
  30. یعقوبی ،تاریخ ، ج 2 ص 257
  31. طبری ، تاریخ الطبری،ج 8 صص:643،649،646و707،7013
  32. طبری ،تاریخ طبری،ج 8 صص:643،649،646 و707،713۔
  33. طبری، تاریخ الطبری، ج۷، ص۳۷۳-۳۷۴؛ ابن طاووس علی، اللہوف فی قتلی الطفوف، ج۱، ص۷۱-۷۲.
  34. طبری، تاریخ الطبری، ج۷، ص۴۰۸.
  35. کامل الزیارات، ص۱۷۶

مآخذ

  • طبری، محمد بن جریر؛ تاریخ الامم و الملوک؛ ج ۷؛ دار التراث؛ بیروت؛ ۱۳۸۷
  • مجلسی، محمد باقر؛ بحار الانوار الجامعہ لدرر الاخبار الائمہ الاطہار؛ دار احیاء التراث العربی؛ بیروت؛ ۱۴۰۳ ه.ق.
  • ابن قولویہ، جعفر بن محمد؛ کامل الزیارات؛ دار المرتضویہ؛ نجف اشرف؛ ۱۳۵۶ ه.ش.
  • محمد بن سعد بصری؛ طبقات الکبری؛ دار الکتب العلمیہ؛ بیروت؛ ۱۴۱۰ ه.ق.
  • احمد بن اعثم کوفی؛ الفتوح؛ دار الاضواء؛ بیروت؛ ۱۴۱۱ ه.ق.
  • ابن طاووس علی، اللہوف فی قتلی الطفوف، نجف، ۱۳۶۹ق.
  • بلاذری احمد، انساب الاشراف، به کوشش احسان عباس، بیروت، ۱۴۰۰ق.
  • جاحظ عمرو، البیان و التبیین، قاہره، ۱۳۵۱ق.
  • ابوعلی مسکویہ احمد، تجارب الامم، تہران، ۱۳۶۶ش.
  • یعقوبی احمد، تاریخ، بیروت، دارصادر.
  • دینوری احمد، اخبار الطوال، به کوشش عبدالمنعم عامر، بغداد، ۱۳۷۹ق.
  • ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، بہ کوشش احمد صقر، قاہره، ۱۳۶۸ق.
  • ابن سعد محمد، طبقات الکبری، بہ کوشش احسان عباس، بیروت، ۱۳۸۸ق/ ۱۹۶۸م.
  • مفید محمد، الارشاد، تہران، ۱۳۵۱ش.
  • ابن قتیبہ عبدالله، المعارف، بہ کوشش ثروت عکاشہ، قاہره، ۱۳۸۸ق /۱۹۶۹م.
  • یاقوت حموی، معجم البلدان،
  • مفيد، الإرشاد، انتشارات كنگره جہانى شيخ مفيد قم، 1413ق.