علامہ اقبال

ویکی شیعہ سے

محمد اقبال لاہوری (1878۔1938ء) ایک مسلمان ، مفکر،مذہبی روشن خیال ،شاعر اور سیاست مدار تھے۔ اقبال دین اسلام کو اسلامی تمدن سے الگ نہیں سمجھتے تھے اور ان کا ماننا تھا کہ تمدن کے تجدید کے بغیر دین کی تعمیر ممکن نہیں ہے۔ ان کا یقین تھا کہ اسلام ایک ثقافت،تمدن اور دستور زندگی کے عنوان سے اسی صورت ہی باقی رہ سکتا ہے جب وہ زمانے کی تبدیلیوں کے ساتھ آگے بڑھے اور جدید علوم میں پیشرفت کرے۔ اقبال علم کلام میں نئے علوم کی بنیاد پر تحقیق ار فقہی مسائل کو زمانے اور ضرورت کے مطابق ان کا حل کرنے کو ضروری سمجھتے تھے۔ ان کی نظر میں مسلمانوں کی سب سے بڑی مشکل اپنی شناخت کو کھودینا اور اسلامی تعلیمات سے دور ہونا ہے۔ وہ کہتے تھے کہ مسلمان اس وقت اپنے وجود پر فخر کر سکتے ہیں جب وہ مسلمان علاقوں میں اسلام کے اصولوں کے مطابق الگ حکومت قائم کر سکیں۔ اقبال قرآن کو زندگی اور اسلام کی معتبر سند سمجھتے تھے اور پیغمبر اسلامؐ کے سچے عاشق تھے۔ انہوں نے پیغمبرؐ کی شان میں بہت سے اشعار کہے۔ اقبال اہل سنت تھے انہوں نے ]] حضرت علیؑ ]] اور حضرت فاطمہ کی شان میں بھی اشعار کہے ہیں۔ اقبال نے واقعہ کربلا کے بارے میں جو اشعار کہے ہیں ان میں امام حسینؑ کو ایسے شخص کے طور پر پیش کرتے ہیں جنہوں نے ہمیں قیامت تک استبداد سے رہائی دلائی اور اس تعبیر سے انہیں یاد کرتے ہیں «رمز قرآن ازحسین آموختیم »۔ اقبال نے فارسی اور اردود زبان میں بہت سے اشعار کہے۔ کچھ لوگ انہیں معاصر فارسی زبان کا بہترین شاعر سمجھتے ہیں۔ اقبال نے 1915ء میں فارسی منظوم کلام «اسرار خودی »اور اس کے تین سال بعد «رموز بی خودی »لکھی ااقبال کو تصوف سے بہت لگاو تھا۔ اقبال کے صوفیانہ اور عرفانی اصول عشق و محبت ،معتدل عرفانی سلوک، مادیت اور معنویت میں ٹکراو کے بغیر تھا۔

حیات

علامہ محمد اقبال 9 نومبر 1877 عیسوی کو پاکستان کی ریاست پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے کشمیری محلے میں ایک مسلمان خاندان میں پیدا ہوئے۔ [1]ان کے والد شیخ نور محمد ایک درزی تھے۔ وہ اہل سلوک تھے اور عرفانی شعر و ادب سے آشنا تھے۔ [2]۔ اقبال نے عربی فارسی زبان اپنے شہر میں ہی سیھکی اور اسلامی علوم اور قرآنی تعلیمات سے اشنا ہوئے [3] انہوں نے ابتدائی تعلیم ایک عیسائی مشنری سکول سے حاصل کی جسے اسکاٹلنڈ کے عیسائی مبلغین کی بنایا تھا۔ [4] اقبال نے لاہور یونیورسٹی سے انگریزی زبان و ادب میں تعلیم حاصل کی اور اور 1899 میں فلسفہ میں ایم ۔اے امتیازی نمبروں سے پاس کیا [5]وہ اسی کے ساتھ علم اقتصاد کے اصولوں اور قانون کے مطالعے میں مصروف رہے ۔[6]1905 عیسوی میں اقبال اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان چلے لے گئے اور اپنے کیمرج یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے لئے تحقیقی مقالہ ((ایران میں مما بعد الطبیعیات کی نشوونما )) کے موضوع لکھا ۔ [7] اس کے بعد جرمنی میں فلسفہ میں استاد کا درجہ پایا۔ ref>مجتبائی، «اقبال لاہوری»، ص625۔</ref> وہ 1908 میں پاکستان واپس لوٹے اور تدریس اور وکالت میں مصروف ہو گئے۔ [8]۔ اقبال اپنی خاندانی روایات کے مطابق 16 سال کی عمر میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے [9] اقبال کی زوجہ ایک ثروت مند خاندان سے تعلق رکھتی تھی [10]یہ شادی طلاق کے بغیر جدائی پرختم ہوئی [11] رسم و روایات پر مبنی زبردستی کی شادی اور اس کی ناکامی نے اقبال پر گہرا اثر ڈالا [12]اقبال نے 1910 میں دوسری [13] اور 1913 میں تیسری شادی کی [14]اور دونوں بیویوں کے ساتھ ایک گھر میں زندگی بسر کی [15] اقبال کو کبوتروں سے بہت لگاؤ تھا۔ ان کے دوست مختلف نسلوں کے کبوتر انہیں بھیجتے تھے اور وہ خود ان کا خیال رکھتے تھے تھے [16] 1914 میں اقبال کی والدہ کےانتقال سے ان کو گہرا صدمہ ہوا اور وہ کافی عرصے تک اس کی وجہ سے افسردہ [17] )اقبال کا تعلق اہل سنت سے تھا [18]اور ہل بیت سے بہت محبت و اردات رکھتے تھے [19] اقبال 21 اپریل 1938 عیسوی کی صبح بیماری کی وجہ سے وفات پا گئے [20] ان کو لاہور میں بادشاہی مسجد کی سیڑھیوں کے بائیں جانب جنوب مشرقی مینار کے زیر سایہ اور شاہی قلعہ کے سامنے حضوری باغ میں سپرد خاک کیا گیا [21]

دینی اصلاح اور اسلامی تمدن کی تعمیر نو کی ضرورت

اقبال دین اسلام کو اسلامی تمدن سے الگ نہیں سمجھتے تھے اور ان کا ماننا تھا دین کا احیا تمدن کی تجدید کے بغیر ممکن نہیں۔ [22] اقبال کا اسلامی تمدن کے احیا کے سلسلے میں ماننا تھا کہ مسلمانوں کو علم اور صنعت مغرب سے سیکھنی چاہیے۔

دین زمانے کے مطابق

اقبال کا ماننا تھا اگر تبدیلیاں زمانے کے مطابق نہیں ہوں گی تو اسلام بھی باقی ادیان کی طرح صرف ایک دین کے عنوان سے باقی رہے گا لیکن ایک ثقافتی تمدن اور نظام زندگی کے عنوان سے باقی نہیں رہ سکے گا

علامہ اقبال، زندگی و افکار علامہ اقبال لاہوری، 1372ش، ج1، ص271

قوت افرنگ از علم و فن است از ہمین آتش چراغش روشن است علم و فن را ای جوان شوخ و شنگ مغز میباید نہ ملبوس فرنگ [23] اقبال اس بات کی طرف بھی توجہ دیتے ہیں کہ مغرب کے ظاہر سے متاثر نہیں ہونا چاہیے۔ ظاہرش تابندہ و گیرندہ ایست دل ضعیف است و نگہ را بندہ ایست چشم بیند دل بلغرد اندرون پیش این بتخانہ افتد سرنگون [24] اقبال کی نظر میں نسل جدید کے مسلمان کے لئے یونانی فلسفے پر مبنی علم کلام بالکل بھی مفید نہیں ہوسکتا کیوںکہ یہ علم فرسودہ اور پرانا ہے اور جدید علوم کی بنیاد پر جدید علم کلام کو تخلیق کرنا چاہیے۔ [25] اقبال کا یہ ماننا تھا کہ زندگی میں تبدیلیوں اور تحول کی وجہ سے مذہبی اصولوں کی تایید کے لیے جدید علم کلام کی ضرورت ہے [26] اقبال کی نظر میں اسلامی فقہ کی بھی تعمیر نو ہونی چاہیے [27] وہ چاہتے تھے مسلمانوں کی جدید نسل زمانے کے تقاضوں کے مطابق فقہی مسائل کو حل کرے۔ ان کی نظر میں مسلمانوں کی جدید نسل گذشتہ نسلوں کے فقہی تعبیر یا اجماع پر کابند نہیں رہنا چاہیے۔ ref>اقبال، زندگی و افکارعلامہ اقبال لاہوری، 1372ش، ج2، ص867۔</ref> اقبال مانتے تھے کہ اسلامی ممالک کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونا چاہیئے لیکن ثقافتی،اقتصادی اور فوجی حساب سے معاہدوں کے ذریعے ایک زندہ خاندان کی طرح متحد ہوں۔ [28] اقبال کا خیال تھا کہ پسماندہ ممالک کو اپنی حفاظت کی خاطر اور مغرب کے اقتصادی اور سیاسی تسلط سے نجات کے لیے ایک الگ بین القوامی ادارہ کی ضرورت ہے اور انہوں تہران کی جغرافیائی مرکزیت کی بنا پر اس کی تجویز پیش کی۔ [29]

قرآن اور پیغمبرؐ اقبال کی نظر میں

اقبال کو ان کے اشعار کی وجہ سے پیغمبر اسلامؐ کا عاشق مانا جاتا ہے۔ [30] در دل مسلم مقام مصطفی است آبروی ما ز نام مصطفی است اسی طرح انہوں نے پیغمبر اسلامﷺ کے لیے یہ اشعار کہے ہیں حق تعالی پیکر ما آفرید وز رسالت در تن ما جان دمید [31]| اقبال قرآن کو اسلام اور زندگی کا معتبر ترین دستور سمجھتے تھے اور اس پر عمل کی بہت تاکید کرتے تھے[32] گر تو میخواہی مسلمان زیستن نیست ممکن جز بقرآن زیستن [33]}} وہ مغرب کی دل فریبی سے فرار کے لیے قرآن میں پناہ لینے کی تلقین کرتے تھے ای بہ تقلیدش اسیر آزاد شو دامن قرآن بگیر آزاد شو [34]}}

اقبال اور تصوف

اقبال اپنے والد کے ابن عربی کی کتاب سے محبت کی وجہ سے نوجوانی ہی سے تصوف سے لگاو رکھتے تھے[35] انہوں نے اپنے ڈاکٹڑیٹ کے علمی مقالے میں ایک مفصل باب تصوف کے بارے میں مختص کیا ہے۔ [36]اقبال تصوف سے لگاو اور اس کے دفاع کے ساتھ اس بر تنقید بھی کرتے تھے[37] اقبال قبا پوشد در کار جھان کوشد درباب کہ درویشی با دلق و کلاہی نیست[38]}} اقبال بعض صوفی تفکرات کو جو کہ سستی اور کاہلی پر مبنی تھے، طاقتور اسلام کےمنافی سمجھتے تھے۔ref>سرگل‌زایی، محمد، «انتقاد تند اقبال لاہوری از تصوف»، پرتال جامع علوم انسانی، </ref> اقبال کے تصوف اور عرفان سے متعلق خیالات میں عشق و محبت،معتدل عرفانی سلوک،مادیت اور معنویت کا عدم تصادم یا دنیا و آخرت کو متعارف کیا گیا ہے۔ [39] اقبال کو مولانا روم سے بہت متاثر سمجھا جاتا ہے۔ ا [40] انہیں حافظ سے کوئی لگاو نہیں تھا بلکہ ان پر تنقید کی ہے۔ [41]۔

افکار

عصر حاضر کے ایرانی روشن خیال ڈاکٹر سروش اقبال کو ایک مذہبی روشن خیال کے عنوان سے متعارف کرواتے ہیں اور کہتے ہیں ان کے نظریات اصلاحی تھے۔ [42] اقبال برصغیر کے اس زمانے کے ماحول میں بھی خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم پر زور دیتے تھے۔ [43] اور وہ کہتے تھے کہ ازواج کی تعداد کے قانون کی اصلاح ہونی چاہیے کیونکہصدراسلام میں یہ کام وہاں کے اقتصادی اور سیاسی حالات کے پیش نظر ضروری تھا لیکن موجودہ زمانے میں اس کی ضرورت نہیں ہے ۔ [44] علامہ اقبال «گذشتہ 35 برسوں سے میں نے اپنی زندگی اسلامی تہذیب و تمدن کو دور حاضر کی تہذیب و تمدن کے ساتھ تطبیق کے تئیں تدبر کرنے میں وقف کی۔ ان برسوں میں میرا صرف یہی ایک مقصد تھا »۔۔) »۔[45] اقبال کو اپنے معاصرین میں پہلی شخصیت سمجھا جاتاہے جنہوں نے اسلامی قومیت کے نظریے کو قبول کرنے کے بعد ہندوستان میں مختلف قومیت کے نظریے کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا [46] اقبال کی نظر میں قومیت بت پرستی کی ایک بہت دلپذیر شکل ہے، وطن پرست ایک مادہ چیز کی پرستش کرتے ہیں جبکہ اسلام کسی بھی صورت میں بت پرستی کو پسند نہیں کرتا بلکہ ہر قسم کی بت پرستی کے خلاف جہاد کرتا ہے ۔ [47]: نہ افغانیم و نی ترک و تتاریم چمن زادیم و از یک شاخساریم تمیز رنگ و بو بر ما حرام است کہ ما پروردہ یک نو بہاریم اقبال اسلام کی عالمی وحدت اور ہندوستان کے مسلمانوں کو دنیا ئے اسلام کے ساتھ وصل کرنے کا عقیدہ رکھتے تھے [48]اقبال1930ء میں «مسلم لیگ »کے صدر منتخب ہوئے اور اس کے ایک جلسے میں ایک اسلامی ملک پاکستان کی تشکیل کا نظریہ پیش کیا۔ [49] اقبال کے مطابق مسلمانوں کی سب سے بڑی مشکل شناخت کی مشکل اور اسلامی تعلیمات سے دوری ہے [50] ان کے مطابق مسلمان اسی صورت میں اپنے وجود پر فخر کر سکتے ہیں اور دوسری قوموں کے درمیان شرمسار ہونے سے بچ سکتے ہیں جب وہ اسلامی اصولوں کے مطابق مسلمان علاقوں میں ایک الگ حکومت کو قائم کریں ۔ [51]

وحی اور خاتمیت

اقبال نے اپنے دور کے مسلمان مفکریں میں سب سے پہلے خاتمیت کے فلسفے کو بیان کیا۔ مغربی فلسفی کانٹ اور ہینری کے افکار سے آشنائی اور تاثیر نے خاتمیت کے باب کو اقبال کی نگاہ میں خصوصی اہمیت بخشی۔ [52] اقبال وحی کو ایک اندرونی اور اجتماعی تجربے کے عنوان سے متعارف کراتے ہیں جو پیغمبرﷺ کو حاصل ہوا [53] اسی طرح ممکن ہے کہ کوئی عارف بھی اس کے کسی مرتبہ تک پہنچے۔ [54] وحی ایک طرح کی جبلت ہے جو کائنات کی تمام زندہ موجودات کے لئے ممکن ہے۔اور ہر ایک میں اس کے تکاملی مراحل کے لحاظ سے ظاہر ہوتی ہے۔ [55] اقبال کی نظر میں انسانی عقل نے اسی قدر رشد اور کمال حاصل کر لیا ہے کہ انسان اس کے ذریعے سعادت اور ہدایت کے راستے کو طے کر سکتا ہے۔ اسی لئے عقل وحی کی جانشین قرار پائی ہے۔ ؛لہٰذا پیغمبروں کے بھیجنے یا نبوت کی اب ضرورت نہیں ہے۔[56] اقبال کے مطابق پیغمبراسلامؐ قدیم اور جدید دنیا کے درمیان کھڑے ہیں کہ جہاں ان کا سرچشمہ الہام ہے وہاں تک جہان قدیم سے متعلق ہے اور جہاں عقل سے تعلق ہے وہاں جہان جدید ہے۔[57] مرتضی مطہری اس نظریے کے مخالف ہیں[58] جبکہ عبدالکریم سروش اس نظریے کے حامیوں میں سے ہیں [59]

خودی کا فلسفہ یا اپنی طرف بازگشت

اقبال نے 1915 میں فارسی نظموں کا مجموعہ «اسرار خودی» اور اس کے تین سال بعد«رموز بی خودی»لکھا۔[60] ان دو مجموعوں میں جو ان کی فکر کا محور رہا ہے وہ نظریہ «خودی »ہے۔اور اس کے بعد اقبال کی کوشش رہی ہے کہ اپنے تمام شعری مجموعوں میں اسی نظریے کو بیان کریں۔ان کے مطابق معاشرہ بھی فرد کی طرح روح اور شخصیت کا حامل ہے اوراس کی طرح اس کی شخصیت بھی تنزلی کا شکار ہوتی ہے[61]اقبال کے مطابق اسلامی معاشرہ دور حاضر میں مغربی ثقافت کی وجہ سے بیماری اور شخصیت کی تنزلی کا شکار ہوا ہے اور اپنی حقیقت کو کھو بیٹھا ہے [62]اور سب سے پہلا کام جو مصلحین کو کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ اس معاشرے کا ایمان اور عقیدہ اس کی «اصل» کی طرف لوٹائیں یعنی اسلامی ثقافت اور معنویت ۔[63]اقبال اس سوال کے جواب میں کہ آپ کا فلسفہ خودی کیا ہے؟سورہ مائدہ کی آیت 105 کو اس کا حوالہ پیش کرتے ہیں۔ ’’ اے ایمان والو !اپنی فکر کرو، اگر تم خود راہ راست پر ہو تو جو گمراہ ہے وہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑے گا، تم سب کو پلٹ کر اللہ کی طرف جانا ہے پھر وہ تمہیں آگاہ کرے گا جو کچھ تم کرتے رہے ہو۔ ‘‘ [64]

اقبال کے شاعری

بہ آن رازی کہ گفتم پی نبردند ز شاخ نخل من خرما نخورندند من ای امیر امم داد از تو خواھم مرا یاران غزانخوانی شمردند [65] اقبال نے فارسی میں بہت سے اشعار کہے جو کہ (زبور عجم) [66]اور (پیام مشرق ) [67]کے نام سے نشر ہوئے ہیں۔ بعض لوگ انہیں عصر حاضر کے بہترین فارسی شاعر کے عنوان سے پیش کرتے ہیں [68] شعر سروش در صف اقبال سرمہ توحید برچشمان او کافران در حسرت ایمان او غرب را و شرق را پیمودہای عمر در اصلاح دین فرسودہ ای[69] موج ز خود رفتہ نی تیر خرامید و گفت ھستم اگر میروم گر نروم نیستم[70]}} اقبال اپنے شعر میں جوانان عجم کو آزادی کی خوشخبری دیتے ہیں[71] اسی طرح «محاورہ ما بین خدا و انسان » بھی اقبال کے اشعارمیں اہم ہے [72]۔

ائمہ طاہرین اقبال کے اشعار میں

اقبال نے امام علیؑ کی شان اور فصیلیت میں اس طرح اشعار کہے ہیں: مسلم اول شہ مردان علی عشق را سرمایہ ایمان علی از ولای دودمانش زندہ ام در جھان مژل گھر تابندہ ام ہر کہ دانای رموز زندگیست سر اسمای علی داند کہ چیسیت[73]}} حضرت فاطمہؑ مریم از یک نسبت عیسی عزیز از سہ نسبت حضرت زہرا عزیز[74] واقعہ کربلا رمز قرآن از حسین آموختیم زاتش او شعلہ ھا اندوختیم[75]

کتابیں

اردو زبان میں ارمغان حجاز،بانگ درا، بال جبریل اور ضرب کلیم اقبال کے شعری مجموعے ہیں جبکہ دو کتابیں علم اقتصاد اور تاریخ ہند نثر میں ہیں [76] انگریزی میں ان کے آثار میں «سیر فلسفہ در ایران» جو کہ ان کےٖ ڈاکٹریٹ کا تحقیقی مقالہ ہے اور 1908 میں مونیخ یونیورسٹی سے فلسفے کی ڈگری لینے کے لیے لکھا گیا اس کتاب کو امیر حسین آریان پور نے فارسی میں ترجمہ کیا ہے [77] اس کے علاوہ اردو اور فرانسیسی میں بھی اس کا ترجمہ ہوا ہے [78]

فارسی کتابیں

  • مثنوی اسرار خودی:یہ مجموعہ ان کے نظریہ خودی یا اپنی تلاش کے بارے میں ہے اور اس میں خلیفتہ اللہ اور ولی خدا کی صفات بھی بیان ہوئی ہیں جو کہ امام غائب کے صفات ہیں۔ [79]
  • مثنوی رموز بے خودی :یہ اسرارخودی کا تتمہ ہے جس میں فرد کے اجتماع کے ساتھ رابطہ کو پیش کیا گیا ہے اور اس خیال کا اظہار کیا گیا ہے کہ خودی کی وحدت سے ایک اجتماعی وحدت تشکیل دی جا سکتی ہیں۔[80]
  • زبورعجم:اقبال کے عرفانی اشعارپر مشتمل ہے۔[81]
  • گلشن راز جدید: یہ کتاب شخیخ محمود شبستری کی گلشن راز کی طرز پر لکھی گئی ہے ۔ [82] اور اس میں اقبال نے 9 عرفانی سوالات اٹھائے اور ان کا کے جواب دئے ہیں۔ [83]
  • پیام مشرق:یہ کتاب جرمنی شاعر گوئٹےکی کتاب کے جواب میں لکھی گئی ہے۔ [84]
  • جاوید نامہ: اپنے بیٹے سے مخاطب ہو کر لکھی ہے۔ [85]
  • پس چہ باید کرد ای اقوام شرق: اس میں مشرق کی سرزمین خاص کر کے مسلمان اقوام کی رہنمائی کی گئی ہے۔ [86]
  • مثنوی مسافر: یہ مثنوی اقبال کے افغانستان کے یادگار سفر کو پیش کرتی ہے۔[87]
  • ارمغان حجاز:یہ اقبال کی فارسی کی آخری کتاب ہے جس میں ان کے سیاسی ،دینی، معاشرتی نظریات شامل ہیں اور اس میں ایک حصے کے اشعار اردو زبان میں بھی ہیں ۔[88]

حوالہ جات

  1. اقبال، زندگی و افکار علامہ اقبال لاہوری، 1372ش، ج1، ص79؛ احمدپور، ستاره شرق، 1383ش۔
  2. اقبال، زندگی و افکار علامہ اقبال لاہوری، 1372ش، ج1، ص84-85۔
  3. اقبال، زندگی و افکار علامہ اقبال لاہوری، 1372ش، ج1، ص82۔
  4. اقبال، زندگی و افکار علامہ اقبال لاہوری، 1372ش، ج1، ص107-108؛ احمدپور، ستاره شرق، 1383ش۔
  5. اقبال، زندگی و افکار علامہ اقبال لاہوری، 1372ش، ج1، ص118-119۔
  6. مجتبائی، «اقبال لاہوری»، ص624۔
  7. مجتبائی، «اقبال لاہوری»، ص625۔
  8. اقبال، زندگی و افکار علامہ اقبال لاہوری، 1372ش، ج1، ص192 و 199۔
  9. اقبال، زندگی و افکار علامہ اقبال لاہوری، 1372ش، ج1، ص233۔
  10. اقبال، زندگی و افکار علامہ اقبال لاہوری، 1372ش، ج1، ص234۔
  11. اقبال، زندگی و افکار علامہ اقبال لاہوری، 1372ش، ج1، ص233-234۔
  12. اقبال، زندگی و افکار علامہ اقبال لاہوری، 1372ش، ج1، ص236۔
  13. اقبال، زندگی و افکار علامہ اقبال لاہوری، 1372ش، ج1، ص240۔
  14. اقبال، زندگی و افکار علامہ اقبال لاہوری، 1372ش، ج1، ص241۔
  15. اقبال، زندگی و افکار علامہ اقبال لاہوری، 1372ش، ج1، ص241۔
  16. اقبال، زندگی و افکار علامہ اقبال لاہوری، 1372ش، ج1، ص395۔
  17. اقبال، زندگی و افکار علامہ اقبال لاہوری، 1372ش، ج1، ص302۔
  18. خسروشاهی، «شعر زیبای «اقبال» درباره حضرت زہرا(س)»، سایت تابناک۔
  19. اقبال، زندگی و افکار علامہ اقبال لاہوری، 1372ش، ج1، ص140۔
  20. احمدپور، ستاره شرق، 1383ش۔
  21. جاوید اقبال، زندہ رود، 2000م، ص797۔
  22. اقبال، زندگی و افکارعلامہ اقبال لاہوری، 1372ش، ج2، ص866۔
  23. اقبال لاہوری، جاویدنامہ، «نمودار میشود روح ناصر خسرو علوی و غزلی مستانه سرائیده غائب میشود»، سایت گنجور۔
  24. اقبال لاہوری، جاویدنامہ، «نمودار میشود روح ناصر خسرو علوی و غزلی مستانہ سرائیده غائب میشود»
  25. اقبال، زندگی و افکارعلامہ اقبال لاہوری، 1372ش، ج2، ص866۔
  26. اقبال، زندگی و افکار علامہ اقبال لاہوری، 1372ش، ج1، ص270۔
  27. اقبال، زندگی و افکارعلامہ اقبال لاہوری، 1372ش، ج2، ص867۔
  28. اقبال، زندگی و افکارعلامہ اقبال لاہوری، 1372ش، ج2، ص872۔
  29. اقبال، زندگی و افکارعلامہ اقبال لاہوری، 1372ش، ج2، ص873۔
  30. سروش، «غوری در غزل‌ہای اقبال» جلسه1۔
  31. اقبال لاہوری، رموز بیخودی، «رکن دوم:رسالت»
  32. سرگل‌زایی، محمد، «انتقاد تند اقبال لاہوری از تصوف»، پرتال جامع علوم انسانی۔
  33. اقبال لاہوری، رموز بیخودی، «در معنی اینکہ نظام ملت غیر از آئین صورت نبندد و آئین ملت محمدیہ قرآن است»، سایت گنجور۔
  34. اقبال لاہوری، جاویدنامہ، «حکومت الہی»، سایت گنجور۔
  35. اقبال، زندگی و افکار علامہ اقبال لاہوری، 1372ش، ج1، ص84-85۔
  36. مجتبائی، «اقبال لاہوری»، ص626۔
  37. اقبال لاہوری، رموز بیخودی، «در معنی اینکہ نظام ملت غیر از آئین صورت نبندد و آئین ملت محمدیہ قرآن است»، سایت گنجور۔
  38. اقبال لاہوری، زبور عجم، «علمی کہ تو آموزی مشتاق نگاہی نیست»، سایت گنجور۔
  39. سرگل‌زایی، محمد، «انتقاد تند اقبال لاہوری از تصوف»، پرتال جامع علوم انسانی۔
  40. مجتبائی، «اقبال لاہوری»، ج9، ص626؛ «اقبال و حافظ در گفت‌وگو با دکتر فتح الله مجتبائی»، مرکز دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی؛ سروش، «غوری در غزل‌ہای اقبال» جلسه2۔
  41. اقبال، زندگی و افکار علامہ اقبال لاہوری، 1372ش، ج1، ص304۔
  42. سروش، «غوری در غزل‌ہای اقبال» جلسه2۔
  43. اقبال، زندگی و افکار علامہ اقبال لاہوری، 1372ش، ج1، ص269۔
  44. اقبال، زندگی و افکار علامہ اقبال لاہوری، 1372ش، ج1، ص269۔
  45. اقبال، زندگی و افکارعلامہ اقبال لاہوری، 1372ش، ج2، ص690۔
  46. اقبال، زندگی و افکار علامہ اقبال لاہوری، 1372ش، ج1، ص285۔
  47. اقبال، زندگی و افکار علامہ اقبال لاہوری، 1372ش، ج1، ص276۔
  48. اقبال لاہوری، اشعار فارسی اقبال لاہوری، 1366ش، ص11؛ مجتبائی، «اقبال لاہوری»، ص626۔
  49. موسوی بجنوردی، «پاکستان»، ج13، ص523؛ حقیقت، اقبال شرق، 1357ش، ص36۔
  50. اقبال لاہوری، اشعار فارسی اقبال لاہوری، 1366ش، ص12۔
  51. احمدپور، ستاره شرق، 1383ش۔
  52. عباسی، «وحی و خاتمیت»، ص161۔
  53. اقبال لاہوری، احیای فکر دینی در اسلام، 1346ش، ص145۔
  54. اقبال لاہوری، احیای فکر دینی در اسلام، 1346ش، ص143۔
  55. اقبال لاہوری، احیای فکر دینی در اسلام، 1346ش، ص145۔
  56. اقبال لاہوری، احیای فکر دینی در اسلام، 1346ش، ص145-146۔
  57. اقبال لاہوری، احیای فکر دینی در اسلام، 1346ش، ص145-146۔
  58. مطہری، وحی و نبوت، 1385ش، ص45-57؛ مطہری، نبوت، 1387ش، ص22۔
  59. سروش، بسط تجربه نبوی، 1385ش، ص66۔
  60. حقیقت، اقبال شرق، 1357ش، ص42-46۔
  61. حقیقت، اقبال شرق، 1357ش، ص42-46۔
  62. حقیقت، اقبال شرق، 1357ش، ص42-46۔
  63. حقیقت، اقبال شرق، 1357ش، ص42-46۔
  64. یزدان‌منش، «زن از دیدگاه علامہ اقبال لاہوری»، ص86۔
  65. اقبال لاہوری، ارمغان حجاز، «به آن رازی که گفتم پی نبردند»، سایت گنجور۔
  66. اقبال لاہوری، اشعار فارسی اقبال لاہوری، 1366ش، ص14۔
  67. اقبال لاہوری، اشعار فارسی اقبال لاہوری، 1366ش، ص14۔
  68. سروش، «غوری در غزل‌ہای اقبال» جلسه 3۔
  69. سروش، «غوری در غزل‌ہای اقبال» جلسه2۔
  70. اقبال، پیام مشرق، «زندگی و عمل در جواب آینہ موسوم بہ «سؤالات»»، سایت گنجور۔
  71. اقبال، زبور عجم، «چون چراغ لاله سوزم در خیابان شما»، سایت گنجور۔
  72. اقبال، پیام مشرق، «محاورهٔ ما بین خدا و انسان»، سایت گنجور۔
  73. اقبال لاہوری، اشعار فارسی اقبال لاہوری، 1366ش، ص114؛ اقبال لاہوری، اسرار خودی، «در شرح اسرار اسمای علی مرتضی»، سایت گنجور۔
  74. اقبال لاہوری، اشعار فارسی اقبال لاہوری، 1366ش، ص186، اقبال لاہوری، رموز بیخودی، «در معنی اینکہ سیدة النساء فاطمۃ الزہراء اسوه کاملهہ ای است برای نساء اسلام»، سایت گنجور۔
  75. اقبال لاہوری، اشعار فارسی اقبال لاہوری، 1366ش، ص186، اقبال لاہوری، رموز بیخودی، «در معنی حریت اسلامیه و سر حادثهٔ کربلا»، سایت گنجور۔
  76. اقبال لاہوری، اشعار فارسی اقبال لاہوری، 1366ش، ص15۔
  77. اقبال لاہوری، اشعار فارسی اقبال لاہوری، 1366ش، ص15۔
  78. اقبال لاہوری، اشعار فارسی اقبال لاہوری، 1366ش، ص15۔
  79. اقبال لاہوری، اشعار فارسی اقبال لاہوری، 1366ش، ص14۔
  80. اقبال لاہوری، اشعار فارسی اقبال لاہوری، 1366ش، ص14۔
  81. اقبال لاہوری، اشعار فارسی اقبال لاہوری، 1366ش، ص14۔
  82. اقبال لاہوری، اشعار فارسی اقبال لاہوری، 1366ش، ص14۔
  83. اقبال لاہوری، اشعار فارسی اقبال لاہوری، 1366ش، ص14۔
  84. اقبال لاہوری، اشعار فارسی اقبال لاہوری، 1366ش، ص14۔
  85. اقبال لاہوری، اشعار فارسی اقبال لاہوری، 1366ش، ص14۔
  86. اقبال لاہوری، اشعار فارسی اقبال لاہوری، 1366ش، ص14۔
  87. اقبال لاہوری، اشعار فارسی اقبال لاہوری، 1366ش، ص15۔
  88. اقبال لاہوری، اشعار فارسی اقبال لاہوری، 1366ش، ص15۔

مآخذ

سانچہ:بر صغیر