مندرجات کا رخ کریں

"قرآن کریم" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی شیعہ سے
imported>E.musavi
imported>E.musavi
سطر 1,326: سطر 1,326:
== قصص القرآن ==
== قصص القرآن ==


قرآن کا ایک ہمہ گیر اور مسلسل دہرایا جانے والا موضوع قرآن میں منقولہ قصے اور کہانیاں ہیں جن کا تعلق [[انبیاء علیہم السلام|انبیاء]] اور اقوام سے ہے یا دوسرے قصے کہانیاں، جو نکات اور عبرتوں سے بھرپور ہیں۔ قرآنی قصوں کا جائزہ لینا اور ان کی معرفت پانا، علوم قرآنی کا جزء ہے۔ جیسا کہ اسلوب قرآن میں کہا گیا ہے، قرآنی بیان مسلسل، مربوط اور جاری، پیوستہ اور متحد المضمون نہیں ہے بلکہ ایک گلدستے کی مانند ہے جو رنگ برنگے پھولوں سے تشکیل پایا ہے اور مجموعہ ہے مختلف مضامین کا اور بہت کم ایسا ہوا ہے کہ ایک داستان ابتداء سے انتہا تک مسلسل یکجا ذکر ہوئی ہو۔ البتہ استثنائات بھی موجود ہیں اور [[حضرت یوسف علیہ السلام|حضرت یوسف]](ع) اور ان کے بھائیوں کی داستان ایک پیوستہ اور ہمہ جہت بیان کی صورت میں پوری [[سورہ یوسف]] میں آئی ہے؛ اور [[حضرت موسی علیہ السلام|حضرت موسی(ع)]] کا قصہ [[سورہ طہ]] میں، [[حضرت داؤد علیہ السلام|داؤود(ع)]] کی دستان [[سورہ ص]] میں، [[حضرت سلیمان علیہ السلام|سلیمان(ع)]] کا قصہ [[سورہ نمل]] میں، [[حضرت نوح علیہ السلام|حضرت نوح(ع)]] کا فصہ [[سورہ نوح]] میں اور [[حضرت ہود علیہ السلام|حضرت ہود(ع)]] کا قصہ [[سورہ ہود]] میں آیا ہے لیکن [[سورہ یونس]] میں [[حضرت یونس علیہ السلام|حضرت یونس(ع)]] کا قصہ صرف چند ہی آیات کریمہ میں آيا ہے اور [[حضرت ابراہیم علیہ السلام|حضرت ابراہیم(ع) کی داستان صرف [[سورہ ابراہیم]] میں ہی نہیں آئی بلکہ اس داستان کا بڑا حصہ [[سورہ بقرہ]] اور دیگر سورتوں ميں آیا ہے۔ مجموعی طور پر قرآن کی 15 سورتوں میں [[حضرت ابراہیم علیہ السلام|حضرت ابراہیم(ع)]] کی طرف اشارے موجود ہیں نیز حضرت موسی(ع) کی داستان 21 سورتوں میں پھیلی ہوئی ہے۔<ref name= "Korram2-1641">خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1641۔</ref>
قرآن کا ایک ہمہ گیر اور مسلسل دہرایا جانے والا موضوع قرآن میں منقولہ قصے اور کہانیاں ہیں جن کا تعلق [[انبیاء علیہم السلام|انبیاء]] اور اقوام سے ہے یا دوسرے قصے کہانیاں، جو نکات اور عبرتوں سے بھرپور ہیں۔ قرآنی قصوں کا جائزہ لینا اور ان کی معرفت پانا، علوم قرآنی کا جزء ہے۔ جیسا کہ اسلوب قرآن میں کہا گیا ہے، قرآنی بیان مسلسل، مربوط اور جاری، پیوستہ اور متحد المضمون نہیں ہے بلکہ ایک گلدستے کی مانند ہے جو رنگ برنگے پھولوں سے تشکیل پایا ہے اور مختلف مضامین کا مجموعہ ہے اور بہت کم ایسا ہوا ہے کہ ایک داستان ابتداء سے انتہا تک مسلسل یکجا ذکر ہوئی ہو۔ البتہ استثنائات بھی موجود ہیں اور [[حضرت یوسف علیہ السلام|حضرت یوسف]](ع) اور ان کے بھائیوں کی داستان ایک پیوستہ اور ہمہ جہت بیان کی صورت میں پوری [[سورہ یوسف]] میں آئی ہے؛ اور [[حضرت موسی علیہ السلام|حضرت موسی(ع)]] کا قصہ [[سورہ طہ]] میں، [[حضرت داؤد علیہ السلام|داؤود(ع)]] کی دستان [[سورہ ص]] میں، [[حضرت سلیمان علیہ السلام|سلیمان(ع)]] کا قصہ [[سورہ نمل]] میں، [[حضرت نوح علیہ السلام|حضرت نوح(ع)]] کا فصہ [[سورہ نوح]] میں اور [[حضرت ہود علیہ السلام|حضرت ہود(ع)]] کا قصہ [[سورہ ہود]] میں آیا ہے لیکن [[سورہ یونس]] میں [[حضرت یونس علیہ السلام|حضرت یونس(ع)]] کا قصہ صرف چند ہی آیات کریمہ میں آيا ہے اور [[حضرت ابراہیم علیہ السلام|حضرت ابراہیم(ع) کی داستان صرف [[سورہ ابراہیم]] میں ہی نہیں آئی بلکہ اس داستان کا بڑا حصہ [[سورہ بقرہ]] اور دیگر سورتوں ميں آیا ہے۔ مجموعی طور پر قرآن کی 15 سورتوں میں [[حضرت ابراہیم علیہ السلام|حضرت ابراہیم(ع)]] کی طرف اشارے موجود ہیں نیز حضرت موسی(ع) کی داستان 21 سورتوں میں پھیلی ہوئی ہے۔<ref name= "Korram2-1641">خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1641۔</ref>


قرآن میں انبیاء کے قصوں کے ساتھ ساتھ دوسرے قصے بھی ہیں جن میں [[اصحاب کہف]] شامل ہیں اور ان کا ذکر [[سورہ کہف]] میں آیات ہے یا [[قارون]] کی داستان جو [[سورہ قصص]] میں بیان ہوئی ہے۔<ref name= "Korram2-1641"/>
قرآن میں انبیاء کے قصوں کے ساتھ ساتھ دوسرے قصے بھی ہیں جن میں [[اصحاب کہف]] شامل ہیں اور ان کا ذکر [[سورہ کہف]] میں آیا ہے یا [[قارون]] کی داستان جو [[سورہ قصص]] میں بیان ہوئی ہے۔<ref name= "Korram2-1641"/>


قرآن مجید کے قصص کی بعض شخصیات یا أعلام کے نام کچھ یوں ہیں: [[حضرت آدم علیہ السلام|آدم]]، [[آزر]]، [[ابلیس]]، [[حضرت ادریس علیہ السلام|ادریس]]، [[ارم ذات العماد]]، [[حضرت اسحق علیہ السلام|اسحق]]، [[حضرت اسمعیل علیہ السلام|اسمعیل]]، [[اصحاب الاخدود]]، [[اصحاب الرسّ]]، [[اصحاب الرقیم]] (جو اصحاب کہف ہی ہیں)، [[اصحاب السبت]]، [[اصحاب السفینہ]]، [[اصحاب کہف]]، [[بنو آدم|بنی آدم]]، [[بنو اسرا‏ئیل|بنی اسرائیل]]، [[قوم تبع|تبّع]]، [[قوم ثمود|ثمود]]، [[جالوت]]، [[جن]]، [[حضرت حواء علیہا السلام|حواء]] (جن کا نام ذکر نہیں ہوا ہے)، [[حواریون]]، [[حضرت خضر|خضر]] (رجل صالح)، [[حضرت داؤد علیہ السلام|داؤد]]، [[ذوالقرنین]]، [[ذوالکفل]]، [[روم]]، [[حضرت زکریا علیہ السلام|زکریا]]، [[زلیخا]] (ان کا نام ذکر نہیں ہوا ہے)، [[زید بن حارثہ]]، [[زینب بنت جحش]] (جن کا نام ذکر نہیں ہوا ہے)، [[سامری]]، [[سبأ]]، [[سحرہ]]، [[حضرت سلیمان علیہ السلام|سلیمان]]، [[حضرت شعیب علیہ السلام|شعیب]]، [[حضرت صالح علیہ السلام|صالح]]، [[طالوت]]، [[عاد]]، [[حضرت عزیر علیہ السلام|عزیر]]، [[حضرت عیسی علیہ السلام|عیسی بن مریم]]، [[فرعون]]، [[قارون]]، [[کنعان بن نوح]] (جس کا نام ذکر نہیں ہوا ہے)، [[لقمان]]، [[حضرت لوط علیہ السلام|لوط]]، [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|حضرت محمد(ص)]]، [[مدین]]، [[حضرت مریم سلام اللہ علیہا|مریم]]، [[مؤتفکات]] ([[حضرت لوط علیہ السلام|قوم لوط]] کے شہر)، [[حضرت موسی علیہ السلام|موسی]]، [[نصاریٰ]]، [[نمرود]]، [[حضرت نوح علیہ السلام|نوح]]، [[ہابیل و قابیل]]، [[ہاروت و ماروت]]، [[حضرت ہارون علیہ السلام|ہارون]]، [[ہامان]]، [[حضرت ہود علیہ السلام|ہود]]، [[یأجوج و مأجوج]]، [[حضرت یحیح علیہ السلام|یحیی]]، [[حضرت یعقوب علیہ السلام|یعقوب]]، [[حضرت یونس علیہ السلام|یونس]]، [[یہود]]۔<ref name= "Korram2-1641"/>
قرآن مجید کے قصص کی بعض شخصیات یا أعلام کے نام کچھ یوں ہیں: [[حضرت آدم علیہ السلام|آدم]]، [[آزر]]، [[ابلیس]]، [[حضرت ادریس علیہ السلام|ادریس]]، [[ارم ذات العماد]]، [[حضرت اسحق علیہ السلام|اسحق]]، [[حضرت اسمعیل علیہ السلام|اسمعیل]]، [[اصحاب الاخدود]]، [[اصحاب الرسّ]]، [[اصحاب الرقیم]] (جو اصحاب کہف ہی ہیں)، [[اصحاب السبت]]، [[اصحاب السفینہ]]، [[اصحاب کہف]]، [[بنو آدم|بنی آدم]]، [[بنو اسرا‏ئیل|بنی اسرائیل]]، [[قوم تبع|تبّع]]، [[قوم ثمود|ثمود]]، [[جالوت]]، [[جن]]، [[حضرت حواء علیہا السلام|حواء]] (جن کا نام ذکر نہیں ہوا ہے)، [[حواریون]]، [[حضرت خضر|خضر]] (رجل صالح)، [[حضرت داؤد علیہ السلام|داؤد]]، [[ذوالقرنین]]، [[ذوالکفل]]، [[روم]]، [[حضرت زکریا علیہ السلام|زکریا]]، [[زلیخا]] (ان کا نام ذکر نہیں ہوا ہے)، [[زید بن حارثہ]]، [[زینب بنت جحش]] (جن کا نام ذکر نہیں ہوا ہے)، [[سامری]]، [[سبأ]]، [[سحرہ]]، [[حضرت سلیمان علیہ السلام|سلیمان]]، [[حضرت شعیب علیہ السلام|شعیب]]، [[حضرت صالح علیہ السلام|صالح]]، [[طالوت]]، [[عاد]]، [[حضرت عزیر علیہ السلام|عزیر]]، [[حضرت عیسی علیہ السلام|عیسی بن مریم]]، [[فرعون]]، [[قارون]]، [[کنعان بن نوح]] (جس کا نام ذکر نہیں ہوا ہے)، [[لقمان]]، [[حضرت لوط علیہ السلام|لوط]]، [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|حضرت محمد(ص)]]، [[مدین]]، [[حضرت مریم سلام اللہ علیہا|مریم]]، [[مؤتفکات]] ([[حضرت لوط علیہ السلام|قوم لوط]] کے شہر)، [[حضرت موسی علیہ السلام|موسی]]، [[نصاریٰ]]، [[نمرود]]، [[حضرت نوح علیہ السلام|نوح]]، [[ہابیل و قابیل]]، [[ہاروت و ماروت]]، [[حضرت ہارون علیہ السلام|ہارون]]، [[ہامان]]، [[حضرت ہود علیہ السلام|ہود]]، [[یأجوج و مأجوج]]، [[حضرت یحیح علیہ السلام|یحیی]]، [[حضرت یعقوب علیہ السلام|یعقوب]]، [[حضرت یونس علیہ السلام|یونس]]، [[یہود]]۔<ref name= "Korram2-1641"/>

نسخہ بمطابق 07:13، 14 مئی 2017ء

قرآن
حضرت امام علی(ع) سے منسوب قرآنی نسخہ
معلومات

عنوان: کتاب مقدس دین اسلام
اسامی مشہور: قرآن، فرقان، الکتاب اور مُصحَف شریف
سپاروں کی تعداد : ۳۰ جزء
سوروں کی تعداد : ۱۱۴ سورہ
آیاتوں کی تعداد : ۶۲۳۶ آیت

قرآن کریم یا قرآن [عربی میں القرآن الکریم] دین اسلام کی مقدس کتاب ہے۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن خدا کا کلام ہے جسے فرشتہ وحی، جبرائیل کے ذریعے حضرت محمد(ص) پر نازل کیا گیا ہے۔ مسلمان قرآن کے الفاظ اور معانی دونوں کو خدا کی طرف سے نازل شدہ جانتے ہیں۔ پیغمبر اکرم(ص) کے زمانے میں قرآن کی آیتیں مختلف چیزوں جیسے حیوانات کی کھال، کھجور کی شاخیں، کاغذ اور کپڑے وغیرہ پر جدا جدا طور پر لکھی ہوئی تھیں جنہیں آپ(ص) کے بعد صحابہ نے اکٹھا کر کے کتاب کی شکل دے دی۔

قرآن کے متعدد اسامی ذکر کئے گئے ہیں جن میں قرآن، فرقان، الکتاب اور مُصحَف زیادہ مشہور ہیں۔ قرآن کو ۱۱۴ سورتوں، تقریبا چھ ہزار آیتوں، تیس سپاروں اور ۱۲۰ احزاب میں تقسیم کیا گیا ہے۔

چوتھی صدی ہجری تک قرآن کی مختلف قرائتیں مسلمانوں کے درمیان رائج تھیں جس کی اصل وجہ قرآن کے مختلف نسخوں کی موجودگی، عربی رسم الخط کا ابتدائی مراحل میں ہونا اور مختلف قاریوں کا ذاتی سلیقوں کی پیروی کرنا وغیرہ ہے۔ چوتھی صدی میں مختلف قرائتوں میں سے صرف سات قرائتوں (قراء سبعہ) کو انتخاب کیا گیا۔ مسلمانوں کے درمیان اس وقت سب سے زیادہ مشہور اور رائج قرائت، قرائت عاصم بمطابق روایت حفص ہے۔

قرآن عربی زبان میں نازل ہوا ہے جس کی وجہ سے غیر عرب مسلمان اسے آسانی سے سمجھ نہیں سکتے اس بنا پر دنیا کے تقریبا تمام زندہ زبانوں میں قرآن کا ترجمہ کیا گیا ہے تاکہ ہر مسلمان اسے با آسانی سمجھ سکے۔ ترجمہ قرآن کی تاریخ بہت پرانی ہے جس کی اصل صدر اسلام تک جا پہنچتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ قرآن کے پہلے مترجم سلمان فارسی تھے جنہوں نے چوتھی صدی میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کا فارسی میں ترجمہ کیا اور چھٹی صدی میں قرآن کا لاتینی زبان میں ترجمہ ہوا۔

اس وقت قرآن سے متعلق مختلف علوم مسلمانوں کے درمیان رائج ہیں جن میں تفسیر قرآن، تاریخ قرآن، علم لغات قرآن، علم اِعراب و بلاغت قرآن، قصص القرآن اور اعجاز القرآن وغیرہ شامل ہیں۔

ختم قرآن پیغمبر اکرم(ص) کے زمانے سے ہی مسلمانوں کے درمیان رائج سنتوں میں سے ہے۔ یہ کام انفرادی اور اجتماعی دونوں طریقوں سے انجام پاتا ہے۔ قرآن سر پر اٹھانا شب قدر کے اعمال میں سے ایک ہے جس میں قرآن کو سروں پر اٹھا کر خود خدا، قرآن اور معصومین (ع) کا واسطہ دے کر خدا سے گناہوں کی مغفرت کی درخواست کرتے ہیں۔

کلام خدا

مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق قرآن خدا کا کلام ہے جو وحی کے ذریعے پیغمبر اسلام(ص) پر 23 سال کے عرصے میں نازل ہوا۔[1] تمام مسلمان قرآن کے الفاظ اور معانی دونوں کو خدا کی طرف سے نازل شدہ مانتے ہیں۔[2]

کیفیت دریافت

خود قرآن میں انبیاء پر ہونے والی وحی کی تین قسمیں بیان ہوئی ہیں: الہام، پردے کے پیچھے سے اور فرشتوں کے ذریعے۔[3] بعض سورہ بقرہ کی آیت قُلْ مَن كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَىٰ قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّـهِ (ترجمہ: اے رسول کہہ دیجئے کہ جو شخص بھی جبریل کا دشمن ہے اسے معلوم ہونا چاہئے کہ جبریل نے آپ کے دل پر قرآن حکم خدا سے اتارا ہے۔)[4] سے استناد کرتے ہوئے کہتے ہیں: قرآن کا نزول صرف اور صرف "جبرئیل" کے ذریعے انجام پایا ہے؛[5] لیکن مشہور نظریہ کے مطابق دوسرے طریقوں منجملہ براہ راست حضرت محمد(ص) کے قلب مطہر پر نازل ہوا ہے۔[6]

کیفیت نزول

قرآن کی بعض آیات کے مطابق قرآن، رمضان المبارک کے مہینے میں شب قدر کو نازل ہوا ہے۔[7] اس بنا پر مسلمانوں کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے کہ کیا قرآن دفعتا(ایکبارگی) نازل ہوا ہے یا تدریجا(موقع محل اور حالات کی نزاکت کے مطابق) نازل ہوا ہے۔ [8] بعض کہتے ہیں: قرآن دفعی طور پر بھی نازل ہوا ہے اور تدریجی طور پر بھی؛[9] اسی طرح بعض کا عقیدہ ہے کہ ہر سال جس مقدار میں نازل ہونا تھا وہ اسی سال شب قدر کو ایک ساتھ نازل ہوتا تھا؛[10] جبکہ اس کے مقابلے میں بعض یہ کہتے ہیں کہ قرآن صرف اور صرف تدریجی طور پر نازل ہوا ہے جس کا آغاز رمضان اور شب قدر میں ہوا تھا۔[11]

قرآن کے اسماء اور صفات

قرآن کے بہت سارے اسماء ذکر کئے گئے ہیں جن میں سے "فرقان"،[12] "ذکر"،[13] "تنزیل،[14] "الکتاب"،[15] اور "کلام اللہ"[16] قرآن کے مشہور نام ہیں۔ نیز قرآن کو دوسری صفات سے بھی یاد کیا گیا ہے جیسے: "القرآن المجید"،[17] "القرآن العظیم،[18] "القرآن الحکیم"،[19] "القرآن الکریم"،[20] "قرآن مبین"۔[21]۔[22]

قرآنی تقسیمات کا حجم و مقدار

قرآن دوسری کتب کی نسبت متوسط الحجم ہے اور کہا جاسکتا ہے کہ اس کا حجم (اناجیل اربعہ اور متعلقہ رسائل پر مشتمل) عہد جدید(New Testament) یا پھر صحیح ترین اعداد و شمار کے مطابق دیوان حافظ کے برابر ہے۔ قرآن کے الفاظ کی تعداد 77807 ہے۔[23] قرآن 114 سورتوں اور مجموعی طور پر 30 پاروں پر مشتمل ہے۔ ہر پارہ چار (یا دو) حزبوں پر مشتمل ہے۔ نیز ہر پانچ آیات کو خُمس (=خ) اور ہر دس آیات کو عُشر (=ع اس عمل کو تعشیر) کا نام دیا گیا ہے۔[24]

قرآن کی ایک اندرونی اور تفصیلی تقسیم، "رکوعات" میں تقسیم ہے۔ رکوع سے مقصود آیات کا ایک حصہ اور ایک گروہ ہے جو ایک موضوع کے بارے میں نازل ہوا ہے اور ان کے درمیان مضمون کے اعتبار سے اتحاد پایا جاتا ہے؛ جہاں سے اس موضوع کا آغاز ہوتا ہے رکوع کا آغاز بھی وہیں سے ہوتا ہے اور کلام کے دوسرے موضوع میں تغیر و تبدیلی کے ساتھ رکوع بھی اختتام پذیر ہو جاتا ہے۔ رکوع کو رکوع کا نام اس لئے دیا گیا ہے کہ نماز ميں سورہ حمد کے بعد [بعض اسلامی فرقوں کے ہاں] کوئی ایک سورت یا پھر قرآن کی چند آیات پر اکتفا کیا جاتا ہے اور اس عقیدے کے پیروکاروں میں بعض ماہرین قرآن نے ایک موضوع اور عنوان کے تحت آنے والی چند آیات کو معین کیا اور چونکہ نماز میں سورہ حمد کے بعد دوسری سورت یا چند آیات پڑھنے کے بعد نماز گزار رکوع میں چلا جاتا ہے، آیات کے اس مجموعے کو رکوع کا نام دیا ہے۔ مشہور روایات کے مطابق قرآن کے رکوعات کی تعداد 540 ہیں۔[25]

پارہ 1۔
فاتحہ
پارہ 2۔
بقرہ، آیت 142
پارہ 3۔
بقرہ، آیت 253
پارہ 4 ۔
آل عمران، آیت 93
پارہ 5 ۔
نساء، آیت 24
پارہ 6 ۔
نساء، آیت 148
پارہ 7 ۔
مائدہ، آیت 82
پارہ 8 ۔
أنعام، آیت 111
پارہ 9 ۔
أعراف، آیت 88
پارہ 10 ۔
أنفال، آیت 41
پارہ 11 ۔
توبہ، آیت 93
پارہ 12 ۔
ہود، آیت 6
پارہ 13 ۔
یوسف، آیت 53
پارہ 14 ۔
حجر، آیت 1
پارہ 15 ۔
إسراء، آیت 1
پارہ 16 ۔
كہف، آیت 75
پارہ 17 ۔
أنبياء، آیت 1
پارہ 18 ۔
مؤمنون، آیت 1
پارہ 19 ۔
فرقان، آیت 21
پارہ 20 ۔
نمل، آیت 56
پارہ 21 ۔
عنكبوت، آیت 46
پارہ 22 ۔
أحزاب، آیت 31
پارہ 23 ۔
يـس، آیت 28
پارہ 24 ۔
زمر، آیت 32
پارہ 25 ۔
فصلت، آیت 47
پارہ 26 ۔
أحقاف، آیت 1
پارہ 27 ۔
ذاريات، آیت 31
پارہ 28 ۔
مجادلہ، آیت 1
پارہ 29 ۔
مـلك، آیت 1
پارہ 30 ۔
نبأ، آیت 1

قرآن کے مندرجات

قرآن کے مضامین اور معاین بہت متعدد، متنوع [مختلف النوع]، ایک دوسرے سے وابستہ اور "دہرائی و اعادت کی تازگی سے سرشار" ہیں۔ قرآن میں توحید اور خداوند متعال کے بارے میں تفکر و تدبر کی طرف دعوت، ایمان کی طرف بلاوا شرک، نفاق اور ارتداد کی نفی اور ان سے نہی کے ہمراہ، رب النوعوں سے انکار، شیطان کے اعمال کی تردید، بت پرستی کا انکار، اور آدم سے خاتم(ص) تک قصص انبیاء کے بعض گوشوں کی طرف اشارہ، پیغمبر(ص) کے معاصر عام عربوں کی زندگی اور ان کے سوالات کی طرف اشارہ منجملہ: اہلۀ قمر (یا مہینے کے دوران چاند کی مختلف کیفیات) کے بارے میں یا حتی حیض کے مسائل کے بارے میں؛ زندگی کے قلیل و مختصر اور اس کے مظاہر ـ جیسے مال دنیا (مال پرستی اور مال اندوزی سے نہی کے ساتھ)، اور اس کے عیش و آرام اور بیٹوں کے مالک ہونے اور باغ و بستان پر فخر کرنے ـ کے لہو و لعب ہونے؛ وحی اور قرآن کی تنزیل و تاویل کی جانب اشاروں سے ـ میراث اور ترکے کی ترتیب و تنظیم اور سہم الارث کے تعین، زناکاروں کو درے مارنے، چوروں کے ہاتھ کاٹنے، مختلف قسم کی تحلیل اور تحریم (حلال کرنا اور حرام کرنے) جیسے ـ فقہی احکام تک؛ اور اخلاقی احکام ـ جیسے بےنواؤں کی دستگیری اور مسکینوں کا پیٹ بھرنے سے حقوق والدین کی رعایت اور ان کے غیر معمولی احترام تک، اور اخلاقی مفاسد اور برائیوں ـ منجملہ افلاس کے خوف سے یا جاہلی روایات کی بنیاد پر، سودخوری ـ سے نہی اور اخلاقی نیکیوں کو رو بہ عمل لانے کی تلقین تک؛ صدق و اخلاص سے فرشتوں اور ان کی مختلف قسموں کی توصیف اور ان کے اعمال اور فرائض، اور دسوں اور سینکڑوں موضوعات کو ایک دوسرے سے مربوط انداز میں بیان کیا گیا ہے۔[26]

نتیجہ یہ کہ قرآن کے اصل مضامین کچھ یوں ہیں:

  1. غزوات، ہجرت رسول اللہ(ص) وغیرہ جیسے تاریخی واقعات کی طرف اشارہ،
  2. قصص انبیاء [انبیاء کے قصے] اور دیگر حکایات،
  3. توحیدی تفکر اور ایمان اور اسلام کی دعوت،
  4. شرک و نفاق سے نہی،
  5. معاد شناسی (اخروی عالموں (realm) اور حیات بعد از موت کی توصیف،
  6. فرشتہ شناسی (نیز شیطان اور شیاطین نیز جنات کے بارے میں بحث)،
  7. فقہی احکام،
  8. اخلاقی احکام (منجملہ: وعظ و ارشاد اور امر و نہی کی مختلف قسمیں)،
  9. آیات الہی اور آفاق و انفس کے حیران کرنے والے حالات و کیفیات کی طرف توجہ دلانا (جو برہان نظم اور اتقان صنع کے مشابہ ہے)
  10. سابقہ شریعتوں اور کتب و صحف کی طرف اشارہ،
  11. انسان کی خلقت کی داستان اور نفسیاتی انسان شناسی۔[27]

آیت اور سورہ

لکڑی کے اوپر لگے دُرِّ نجف کے 80 قطعوں پر کندہ کیا ہوا قرآن
قرآن کا قلمی نسخہ، کتابت تیسری صدی ہجری
کشود بن املاس کا قران

قرآن کو مختلف اکائیوں میں تقسیم کیا گیا ہے جن میں پارہ، حزب اور رکوع کی طرف اشارہ کیا گیا نیز قرآن کو ایک لحاظ سے سورتوں اور آیات میں تقسیم کیا گیا ہے۔

آیت

قرآن کی سب سے چھوٹی اکائی "آیت" ہے۔ زیادہ تر مواقع پر ہر ایک آیت ایک ہی جملہ ہے لیکن کبھی ایک آیت چند جملوں پر مشتمل ہوتی ہے جس کو اگر پیرا (یا پیراگراف) کہا جائے تو زیادہ صحیح ہے؛ (مثلا آیۃ الکرسی [28] یا آیت نور[29]) اور بعض آیات کریمہ کئی پیراگرافوں پر مشتمل ہیں، جیسے آیت دَین (جس کو آیت تداین اور آیت مداینہ بھی کہا گیا ہے)[30] اور عثمان طہ کی کتاب (مصحف المدینہ) میں ٹھیک 15 سطروں پر مشتمل صفحے پر محیط ہے۔ یا پھر بعض آیات ایک جملے سے بھی کم بلکہ ایک لفظ کی صورت میں ہیں جیسے "اَلرَّحْمَنُ" اور "مُدْهَامَّتَانِ"[31] یا پھر "طہ"، "یس"، یا "الم" جیسے فواتح سُوَر (سورتوں کے شروعات)۔ آیت کی حد کی شناخت "توقیفی" اور شارع کی جانب سے ہے؛ کیونکہ حتی کہ فواتح سور میں مثال کے طور پر "المص' کو ایک آیت شمار کیا گیا ہے، لیکن اسی کی مانند "المر" بھی ہے جس کو ایک آیت قرار نہیں دیا گیا ہے۔ یا "حمعسق» [= حم ٭ عسق] کو دو آیتیں قرار دیا گیا ہے لیکن پھر "کهیعص" کو ایک آیت سمجھا گیا ہے۔ لفظ "آیت" یا اس کی جمع (یعنی لفظ) "آیات" ان ہی جملوں یا پیراگرافوں یا پھر الفاظ کے معنی میں، قرآن مجید میں مذکور ہيں:

[32] قرآن کی سب سے زيادہ آیات پر مشتمل سورت "سورہ بقرہ ہے جس کی آیات کی تعداد 286 ہے اور سب سے کم آیات پر مشتمل سورت "سورہ کوثر" ہے جس کی آیات کی تعداد صرف تین ہے۔ قرآن کی تمام آیات کریمہ کی تعداد کے بارے میں کئی اقوال ہیں۔ معتبر ترین قول ـ جو ابوعبدالرحمن بن حبیب سُلَمی نے حضرت امیرالمؤمنین(ع) سے نقل کیا ہے اور امام شاطبی نے اپنی کتاب "ناظمۃ الزہر" میں اس سے استناد کیا ہے، قرآنی آیات کی کل تعداد 6236 ہے۔[33]

سورہ (سورت)

قرآن کریم کی بڑی اکائی "سورة" (یا سورت یا سورہ) ہے۔ سورہ کے معنی لغت میں "منقطع شدہ" (کٹا ہوا) کے ہیں اور اصطلاح میں آیات قرآن کا ایک مستقل گروہ ہے جس کا اپنا مطلع اور مقطع ہوتا ہے۔ اور منقول ہے کہ یہ لفظ اس معنی میں "سُورُ المدينة" سے مشتق ہوا ہے جس کے معنی "شہر کی فصیل کے ہیں۔ لفظ "سورة" اسی معنی میں، قرآن مجید میں بھی استعمال ہوا ہے۔[34] نیز اس کی جمع لفظ "سُوَر" (بر وزن گُُهَر) بھی قرآن میں بروئے کار لایا گیا ہے۔[35] قرآن مجید میں سورتوں کی تعداد 114 ہے جو کم و بیش طوالت کی ترتیب سے مرتب ہوئی ہیں۔ قرآن کی طویل ترین سورت "سورہ بقرہ" ہے جو (286 آیات اور عثمان طہ کی کتابت (یعنی مصحف المدینہ کے حساب سے 48 صفحات) پر مشتمل ہے؛ اور سب سے چھوٹی سورت سورہ کوثر ہے؛ (جس کی آیات کی تعداد تین) ہے۔[36]

قرآن کی سورتوں کا آغاز سورہ حمد سے اور اختتام سورہ ناس پر ہوتا ہے۔ان کے تسلسل اور ترتیب کے توقیفی ( شارع کی طرف سے) ہونے یا صحابہ کے اجتہاد پر مبتنی اور جمع و تدوین کرنے والوں کی رائے کی بنیاد پر استوار ہونے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ توقیفی اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ(رسول اللہ(ص) کے حکم و ارشاد اور وحی پر استوار ہے اور بعض کا کہنا ہے کہ سورتوں کی ترتیب و تسلسل کی یہ روش اجتہادی ہے اور اس کا تعلق "عثمانی دور میں مصحف عثمانی کی تدوین کرنے والوں سے ہے؛[37] کیونکہ حضرت رسول(ص) نے قرآن کی کتابت اور و جمع کرنے کا کام ضرور سرانجام دیا تھا مگر بین الدفتین (اور دو جلدوں کے درمیان) تدوین کا کام نامعلوم وجوہات کی بنا پر انجام نہیں پایا تھا۔ بعض دوسروں کا کہنا ہے کہ یہ ترتیب توقیف و اجتہاد کا آمیزہ ہے؛ اور یہ رائے زيادہ قابل قبول ہے۔ قرآن کی 114 سورتوں کا نام و نشان بیشتر تاریخ قرآن (منجملہ "تاریخ قرآن"، بقلم "رامیار"، صفحہ 583 اور بعد کے صفحات) نیز ڈاکٹر محمود روحانی کی کتاب "فرہنگ آماری قرآن کریم" میں ہر سورت کے الفاظ و حروف سے متعلق اعداد و شمار کے حوالے سے اور طبع جدید کے تمام نسخہ ہائے قرآن کے آخر میں، ثبت ہے۔[38]

حروف مقطعات یا فواتح السُوَر

مفصل مضمون: حروف مقطعات

حروف مقطعات یا ایک دوسرے سے الگ الگ حروف، اور فواتح السور یعنی سورتوں کا آغاز کرنے والے حروف یا الفاظ۔ حروف مقطعات یا فواتح السور کا اطلاق قرآن کے ان حروف پر ہوتا ہے جو مرموز (coded) ہیں۔ بالفاظ دیگر ان حروف کے معنی نزول وحی کے زمانے سے آج تک اس طرح سے واضح نہیں ہوئے ہیں کہ قرآنی محققین کے نزدیک قابل قبول ہوں۔ یہ حروف 29 ہیں یا یوں کہئے کہ ایسے حروف کا مجموعہ ہے جو 29 سورتوں کے آغاز میں آئے ہیں، جو سب مکی سورتیں ہیں سوائے "بقرہ" اور "آل عمران کے جو مدنی ہیں۔[39] نیز یہ حروف تمام سورتوں میں پہلی آیت کے طور پر آئے ہیں سوائے سورہ شوریٰ کے جہاں پہلی آیت میں حم اور دوسری آیت میں عسق ہے۔

حروف مقطعات
نمبر شمار ترتیب نام حروف مقطعات نمبر شمار ترتیب نام حروف مقطعات
1 2 بقرہ الم 16 30 روم الم
2 3 آل عمران الم 17 31 لقمان الم
3 7 اعراف المص 18 32 سجدہ الم
4 10 یونس الر 19 36 یس يس
5 11 ہود الر 20 38 ص ص
6 12 یوسف الر 21 40 مؤمن حم
7 13 رعد المر 22 41 فصلت حم
8 14 ابراہیم الر 23 42 شوری حم ۔ عسق
9 15 حجر الر 24 43 زخرف حم
10 19 مریم كهيعص 25 44 دخان حم
11 20 طٰہٰ طه 26 45 جاثیہ حم
12 26 شعراء طسم 27 46 احقاف حم
13 27 نمل طس 28 50 ق ق
14 28 قصص طسم 29 68 قلم ن
15 29 عنکبوت الم

وحی اور نزولِ قرآن کی کیفیت

وحی

قرآن مجید فرشتۂ وحی (یعنی) جبرائیل کے توسط سے، خداوند متعال کی جانب سے، لوح محفوظ پر مکتوب نسخے کے عین مطابق، ان ہی الفاظ میں، رسول خدا(ص) کے قلب (یعنی ادراک کی قوتوں) پر وحی (یا نازل) ہوا ہے۔ وحی ایک واقعی، عینی اور روحانی حقیقت ہے جو اللہ کی جانب سے انبیاء کو پیغام رسانی سے عبارت ہے اور قرآن کے حوالے سے وحی سے مراد وہ پیغام رسانی ہے جو اللہ کی جانب سے خاتم الانبیاء(ص) کو انجام پا چکی ہے۔[40]

علامہ طباطبائی لکھتے ہیں: قرآن کی گواہی کے مطابق، یہ آسمانی کتاب خدا کی طرف سے رسول خدا(ص) پر نازل ہونے والی وحی کے نتیجے میں حاصل ہوئی ہے اور وحی ایک آسمانی (اور غیر مادی) تکلیم کا نام ہے جس کا ادراک حس اور عقلی تفکر کے ذریعے ممکن نہیں ہے بلکہ ایک مختلف قسم کے ادراک اور شعور کے ذریعے ممکن ہے جو کبھی اللہ کی مشیت کی بنا پر بعض افراد میں معرض وجود میں آتا ہے اور ادراک و شعور ـ حس و عقل سے اوجھل ـ غیبی احکام کو وحی اور الہی تعلیم سے وصول کرتا ہے [ان قوتوں سے بہرہ وری اور] اس امر کی عہدہ داری کا نام نبوت ہے۔[41] علامہ طباطبائی لکھتے ہیں: وحی قرآن [اور نزول قرآن] کے بارے میں عام مسلمانوں کا عقیدہ ـ جو قرآن کے ظاہر پر مبنی ہے ـ یہ ہے کہ قرآن مجید اپنے لفظ میں ہی خدا کا کلام ہے جو ملائکۂ مقرب ـ جو آسمانی موجودات ہیں ـ میں سے ایک کے ذریعے رسول اکرم(ص) پر اترا ہے۔ اس مقرب فرشتے کا نام جبرائیل اور روح الامین ہے جس نے اللہ کے کلام کو تدریجی طور پر 23 سال کے عرصے کے دوران پیغمبر اکرم(ص) تک پہنچایا ہے اور اسی کلام کے توسط سے رسول اکرم(ص) کو حکم دیا ہے کہ آیات کے لفظ کو لوگوں کے لئے پڑھ لیں اور اس کے مضامین و مفاہیم انہیں سمجھا دیں اور انہیں معاشرتی ضوابط، مدنی قوانین اور فردی فرائض کی طرف بلا دیں جو قرآن نے بیان کئے ہیں۔[42]

رامیار کا کہنا ہے کہ "انبیاء پر وحی ایک حقیقت ہے جو تاریخی تواتر تک پہنچ گئی ہے اور انبیاء کے اصحاب اور ساتھیوں (نیز ان کے دشمنوں) نے بھی اس کی تائید کی ہے گوکہ اس کی توصیف و تشریح و توجیہ کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔[43]

نزول

نزول قرآن سے مراد ۔۔۔۔ مختلف (یعنی تدریجا اور مرحلہ وار یا قدم بقدم) وحی کا اترنا مراد ہے بعثت کے پہلے سال کی لیلۃ القدر (یعنی ماہ مبارک رمضان کے تیسرے عشرے کی کسی طاق رات) سے لے کر وصال رسول اللہ(ص) سے کچھ دیر قبل تک کے 23 سالہ عہد رسالت کے دوران، مصدر وحی (یعنی خداوند متعال) کی طرف سے، "مہبط وحی" (یعنی قلب رسول اللہ(ص) پر۔ قرآن مجید میں چونکہ نزول وحی کو خداوند متعال سے منسوب کیا جاتا ہے اسی لئے اس کو "انزال" اور "تنزیل" کہا جاتا ہے۔ سب سے پہلی سورت سورہ علق (اقرأ) ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ سب سے پہلے اس سورت کی پہلی 5 آیتیں نازل ہوئی ہیں اسی طرح بعض محققین کا کہنا ہے کہ ابتداء میں جو مکمل سورت نازل ہوئی تھی وہ سورہ حمد ہے۔[44]

قرآن کی سب سے آخری سورت سورہ نصر ہے، تاہم بعض قرآنی محققین کا کہنا ہے کہ قرآن مجید پورا کا پورا لیلۃ القدر کو "جملۃ واحدہ" کی صورت میں (یعنی یکبارگی سے) لوح محفوظ سے (چوتھے آسمان میں) بیت العزہ یا بیت المعمور پر نازل ہوا ہے؛ اور پھر نجوماً یا منجماً یعنی مختلف حصوں میں اور رفتہ رفتہ اور مختلف صورتوں میں، 23 سال کے عرصے کے دوران تفصیلی صورت میں نازل ہوا ہے۔[45] ملامحسن فیض کاشانی نے کہا ہے کہ نزول [کی ان دو کیفیات] سے مراد "قلب رسول(ص) پر قرآن کے معانی کا نزول، ہے... اور اس کے بعد 23 سال کے عرصے میں ـ جب بھی جبرائیل آپ(ص) کے سامنے ظاہر ہوئے ہیں اور وحی لائے ہیں اور الفاظ کو آپ(ص) کے لئے پڑھتے رہے ہیں، قرآن کے اجزاء آپ(ص) کے باطن قلب سے آپ(ص) کی زبان پر ظاہر ہوتے رہے ہیں۔[46]

نمبرشمار ابجدی ترتیب نام سورہ تعداد آیات ترتیب نزول مکی/مدنی
1 63 فاتحہ 7 5 مکی
2 16 بقرہ 286 87 مدنی
3 1 آل عمران 200 89 مدنی
4 104 نساء 176 92 مدنی
5 84 مائدہ 120 112 مدنی
6 12 انعام 165 55 مکی
7 7 اعراف 206 39 مکی
8 13 انفال 75 88 مدنی
9 23 توبہ 129 113 مدنی
10 114 یونس 109 51 مکی
11 110 ہود 123 52 مکی
12 113 یوسف 111 53 مکی
13 37 رعد 43 96 مدنی
14 2 ابراہیم 52 72 مکی
15 30 حِجر 99 54 مکی
16 103 نحل 128 70 مکی
17 6 اسراء 111 50 مکی
18 80 کہف 110 69 مکی
19 90 مریم 98 44 مکی
20 54 طہ 135 45 مکی
21 9 انبیاء 112 73 مکی
22 29 حج 78 103 مدنی
23 98 مؤمنون 118 74 مکی
24 108 نور 64 102 مدنی
25 67 فرقان 77 42 مکی
26 45 شعراء 227 47 مکی
27 106 نمل 93 48 مکی
28 75 قصص 88 49 مکی
29 60 عنکبوت 69 85 مکی
30 38 روم 60 84 مکی
31 82 لقمان 34 57 مکی
32 43 سجدہ 30 75 مکی
33 3 احزاب 73 90 مدنی
34 42 سبأ 54 58 مکی
35 64 فاطر 45 43 مکی
36 112 یس 83 41 مکی
37 49 صافات 182 56 مکی
38 48 ص 88 38 مکی
39 41 زمر 75 59 مکی
40 62 غافر 85 60 مکی
41 68 فصّلت 54 61 مکی
42 47 شوری 53 62 مکی
43 39 زخرف 89 63 مکی
44 34 دخان 59 64 مکی
45 25 جاثیہ 37 65 مکی
46 4 احقاف 35 66 مکی
47 87 محمد 38 95 مدنی
48 65 فتح 29 111 مدنی
49 31 حجرات 18 106 مدنی
50 71 ق 45 34 مکی
51 35 ذاریات 60 67 مکی
52 55 طور 49 76 مکی
53 102 نجم 62 23 مکی
54 77 قمر 55 37 مکی
55 36 الرحمن 78 97 مدنی
56 111 واقعہ 96 46 مکی
57 32 حدید 29 94 مدنی
58 86 مجادلہ 22 105 مدنی
59 33 حشر 24 101 مدنی
60 96 ممتحنہ 13 91 مدنی
61 50 صف 14 109 مدنی
62 26 جمعہ 11 110 مدنی
63 97 منافقون 11 104 مدنی
64 20 تغابن 18 108 مدنی
65 53 طلاق 12 99 مدنی
66 19 تحریم 12 107 مدنی
67 95 مُلک 30 77 مکی
68 76 قلم 52 2 مکی
69 28 حاقہ 52 78 مکی
70 94 معارج 44 79 مکی
71 107 نوح 28 71 مکی
72 27 جن 28 40 مکی
73 91 مزّمّل 20 3 مکی
74 88 مدثر 56 4 مکی
75 78 قیامہ 40 31 مکی
76 10 انسان 31 98 مدنی
77 89 مرسلات 50 33 مکی
78 101 نبأ 40 80 مکی
79 99 نازعات 46 81 مکی
80 57 عبس 42 24 مکی
81 22 تکویر 29 7 مکی
82 14 انفطار 19 82 مکی
83 93 مطففین 36 86 مکی
84 11 انشقاق 25 83 مکی
85 15 بروج 22 27 مکی
86 52 طارق 17 36 مکی
87 8 اعلی 19 8 مکی
88 61 غاشیہ 26 68 مکی
89 66 فجر 30 10 مکی
90 17 بلد 20 35 مکی
91 46 شمس 15 26 مکی
92 83 لیل 21 9 مکی
93 51 ضحی 11 11 مکی
94 44 شرح 8 12 مکی
95 24 تین 8 28 مکی
96 59 علق 19 1 مکی
97 73 قدر 5 25 مکی
98 18 بینہ 8 100 مدنی
99 40 زلزال 8 93 مدنی
100 56 عادیات 11 14 مکی
101 72 قارعہ 11 30 مکی
102 21 تکاثر 8 16 مکی
103 58 عصر 3 13 مکی
104 109 ہمزہ 9 32 مکی
105 70 فیل 5 19 مکی
106 74 قریش 4 29 مکی
107 85 ماعون 7 17 مکی
108 81 کوثر 3 15 مکی
109 79 کافرون 6 18 مکی
110 105 نصر 3 114 مدنی
111 92 مسد 5 6 مکی
112 5 اخلاص 4 22 مکی
113 69 فلق 5 20 مکی
114 100 ناس 6 21 مکی

جمع و تدوین قرآن

قرآن کی جمع و تدوین سے مراد یہ ہے کہ 23 سالہ وحی ـ جو 2 سے 5 آیتوں کی صورت میں نازل ہوتی رہی ہے؛ ـ آخر کار کس طرح کس طرح بین الدفتین اور "مصحف" (موجودہ کتاب) کی صورت میں تدوین ہوئی ہے۔[47]

قرآن کو ایک "مصحف" کی صورت میں، مختلف زمانوں میں جمع کیا گیا جن کی تفصیل کچھ یوں ہے:

عصر نبوی(ص)

پورے عرصۂ نزول، عصر وحی اور حیات نبوی(ص) کے دوران، قرآن مکتوب مگر منتشر تھا، یعنی صحیفہ ـ صحیفہ تھا۔ اور ابتدائی وسائل تحریر کے ذریعے چمڑے کے ٹکڑوں، شانے کی ہڈیوں یا بھیڑ بکریوں اور اونٹوں کی پسلیوں، کھجور کے درخت کی لکڑیوں اور ہموار شدہ پتھروں، حریر کے ٹکڑوں اور تھوڑا بہت کاغذ کے اوپر تحریر ہوا تھا۔ اس مرحلے میں اہم بات یہ تھی کہ بہت سے صحابہ حافظ قرآن تھے۔ قرآن کی سورتیں مکمل تھیں اور سورتوں کے نام بھی تھے، لیکن رسول اللہ(ص) کی حیات طیبہ کے آخر اور آپ(ص) کے وصال تک "بین الدفتین" جمع نہیں ہوا تھا۔

سوال یہ ہے کہ رسول اللہ(ص) نے قرآن کو کتاب و مصحف کی صورت میں جمع کرنے کا اہتمام کیوں نہیں کیا تھا؟

جواباً کہنا چاہئے کہ آپ(ص) کی طرف سے اس سلسلے میں عدم اہتمام کا سبب دو مسائل تھے:

  1. وحی کا باب کھلا تھا اور وحی کے ہر مرحلے میں قرآن کی کچھ آیات نازل ہوجایا کرتی تھیں اور آپ(ص) کاتبین وحی سے فرما دیتے تھے کہ ان آیات کو فلاں سورت میں فلاں آیات کے درمیان جگہ دیں۔
  2. دوسری بات یہ کہ رسول اللہ(ص) کے خطابی کلام کے مطابق، آپ ہر وقت قرآن کے بعض احکام کے ممکنہ نسخ (منسوخی) یا قرآن کے کسی حصے کی تلاوت کے نسخ کے منتظر رہتے تھے۔[48]

چنانچہ جب تک وحی کا سلسلہ منقطع نہ ہوتا، تدوین اور مصحف سازی کا کام ممکن نہ تھا۔ بعض لوگوں کی رائے ہے کہ ـ یہ جو کہا جاتا ہے کہ جمع قرآن کا کام رسول اللہ(ص) کے زمانے میں ہی انجام پایا تھا ـ اس سے [مسلمانوں کے] دلوں میں قرآن کی تحفیظ ہی مراد تھی۔[49] رسول اللہ(ص) کے زمانے میں جمع قرآن سے کو اصطلاحی طور پر "تألیف" کہا جاتا ہے۔[50] قرآن کے نزول و کتابت کے پورے ایام میں رسول اللہ(ص) ہمہ جہت نگرانی کرتے تھے اور قرآن کی کتابت اور حفظ (ازبر کرنے) کی تعلیم دیتے اور ترغیب دلاتے تھے۔ آپ(ص) کے زمانے میں 37 افراد حفاظ قرآن تھے۔[51]

عصر نبوی میں کاتبین وحی ـ جن میں سے بعض حافظ بھی تھے ـ اور وہ جو اپنے لئے ایک نسخہ اخذ کرتے تھے، 50 افراد تھے۔[52] نتیجہ یہ ہوا کہ جیسا کہ آخری بار قرائت نبوی سے ثابت ہوچکا تھا، قرآن کی تالیف اور تجمیع کا کام آپ(ص) کے زمانے میں مکمل ہوچکا تھا؛ اس دور میں قرآن اپنے صحیح معنی میں اسی دور میں تالیف ہوا۔ واضح رہے کہ رسول اللہ(ص) ہر سال ایک بار قرآن جبرائیل کو پڑھ کر سناتے تھے اور وصال کے سال آپ نے دو بار پڑھ کر سنایا۔[53]

مصحف امام علی

مفصل مضمون: مصحف امام علی(ع)

رسول اللہ(ص) کے وصال کے بعد امام علی(ع) نے ـ جو نصّ قطعی اور تصدیق [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|نبوی(ص)] کے مطابق قرآن مجید سے سب سے زیادہ واقف اور اس کے سب سے بڑے عالم تھے ـ گوشہ نشینی کی زندگی اختیار کرکے گھر کے گوشے میں بیٹھ کر قرآن مجید کو ترتیب نزول کی بنیاد پر ایک مصحف میں جمع کیا اور ابھی وصال [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ(ص)] کے چھ مہینے ہی گذرے تھے کہ اس مہم سے فراغت پاچکے اور اپنا جمع کردہ مصحف ایک اونٹ پر لاد کر لوگوں کو دکھایا۔[54]

ابوبکر کا دور

یمامہ کی روداد (اور "ردہ" کی جنگوں کے نام سے مشہور، لڑائیوں میں ابوبکر کے ہاتھوں اسلام سے پلٹنے والے باغیوں ـ منجملہ نبوت کے جھوٹے دعویداروں (متنبیوں) ـ کی سرکوبی) ميں بڑی تعداد میں حفاظ قرآن قتل ہوئے (جن کی تعداد ستر تک بھی بتائی گئی ہے)، اور اسلام کے نوبنیاد معاشرے کو بہت بڑا دھچکا لگا۔ ابوبکر نے عمر کی اس تجویز سے اتفاق کیا کہ قرآن کے تحفظ کی غرض سے اس کی تجمیع اور تدوین کے لئے فوری اقدام عمل میں لایا جانا چاہئے۔ اس کام کے لئے زید بن ثابت کا تعین کیا گیا جو نہایت محنتی اور نوجوان ترین کاتب وحی ہونے کے ساتھ حافظ قرآن بھی تھے، اور اپنا خاص مصحف بھی رکھتے تھے۔[55] زید نے قرآن کے منتشر مکتوبات کو جمع کیا اور ہر آیت پر دو گواہ و شاہد (ایک شاہد کتابت سے اور ایک حفظ سے) سے قائم کئے؛ خواہ دسوں حفاظ قرآن اور کاتبین وحی نے اس آیت کی تصدیق کیوں نہ کی ہو۔ زید کا قرآن جمع ہوا لیکن پھر بھی صحیفوں کی صورت میں تھا اور مصحف (وکتاب) کی صورت میں نہ تھا۔ آخر کار اس قرآن کو ایک صندوق میں رکھا گیا اور ایک شخص کو اس کی نگہبانی اور حفاظت کے لئے متعین کیا۔ زید بن ثابت کا یہ کام 14 مہینوں کے عرصے تک یا زیادہ سے زیادہ سنہ 13 ہجری میں ابوبکر کی وفات تک جاری رہا۔ ابوبکر کی وصیت کے مطابق قرآن کا یہ نسخہ عمر کی تحویل میں دیا گیا اور عمر کی وفات کے بعد اس کو ان کی زوجۂ رسول(ص) حفصہ بنت عمر کے سپرد کیا گیا۔[56]

عثمان کا دور

مفصل مضمون: مصحف عثمانی

عثمان کو سنہ 24 ہجری میں عہدہ خلافت ملا۔ اس دور میں مسلمانوں کو حیرت انگیز فتوحات نصیب ہوئیں اور قرآن تازہ مفتوحہ سرزمینوں تک بھی پہنچ گیا اور کلمات قرآن کی قرائت کے سلسلے میں شدید مشکلات اور اختلافات ظہور پذیر ہوئے۔ یہ صورت حال عثمان کے لئے خطرے کی گھنٹی تھی کہ وہ جمع و تدوین قرآن کا ناقص کام کسی نتیجے پر پہنچانے کا اہتمام کریں اور قرآن اور اسلامی معاشرے کو اتنشار سے تحفظ فراہم کریں۔ عثمان نے اس کام کے لئے زید بن ثابت، سعید بن عاص، عبداللہ بن زبیر]] اور عبدالرحمن بن حارث پر مشتمل انجمن تشکیل دی۔ اس انجمن نے اپنا کام قریش اور انصار کے 12 افراد کے تعاون سے شروع کیا۔ اس کام میں حضرت علی(ع) ایک لحاظ سے ناظر و نگران کا کردار ادا کررہے تھے اور ان افراد کو واضح نویسی کی ترغیب دلا رہے تھے۔[57] ان افراد نے قرآن کے قطعی اور حتمی نسخے کی کتابت کا آغاز کیا۔ ان افراد نے سب سے پہلے رسول اللہ(ص) کے دور کے تمام صحیفوں اور مکتوبات قرآنی کو جمع کیا؛ اس کے بعد ابوبکر کے زمانے میں زید بن ثابت کے جمع کردہ نسخہ ـ جو حفصہ بنت عمر کے پاس محفوظ تھا ـ امانتاً اخذ کیا۔ طے یہ پایا تھا کہ ہرگاہ انجمن کے تین افراد نے کسی لفظ یا کلمے کی کتابت میں اختلاف کیا، اس کلمے کو قریش کے لہجے کے مطابق تحریر کیا جائے۔ یوں حتمی تدوین کا کام رسول اللہ(ص) کے دور سے باقیماندہ صحیفوں، اور افراد کے مخصوص نسخوں، حفصہ کے پاس رکھے زيد کے تدوین کردہ مجموعے، نیز زید کے مخصوص صحیفے، حفاظ کے حفظ اور شاہدوں کی شہادت کے سہارے آگے بڑھا اور یوں مصحف امام (یعنی) باضابطہ اور حتمی نسخہ ـ جو مصحف عثمانی کے نام سے مشہور ہوا، 4 سے 5 سال (سنہ 24 ہجری کے بعد سے سنہ 30 ہجری سے قبل تک) کے عرصے میں مکمل ہوا اور اس مصحف سے نسخہ برداری کرتے ہوئے 5 یا 6 مزید نسخے تیار کیا گئے جن میں دو نسخے مدینہ اور مکہ میں رہے اور 3 یا چار نسخوں میں سے ہر ایک کو، ایک حافظ قرآن کے ہمراہ اہم اسلامی مراکز (یعنی) "بصرہ، "کوفہ"، "شام" اور "بحرین" بھجوایا گیا۔ اس کے بعد عثمان کے حکم پر تمام کتبے اور مکتوبات، کھالوں، سفید رنگ کے نازک پتھروں، ہڈیوں، چمڑوں، حریروں وغیرہ کو ـ جنہیں حتمی نسخے کی تدوین کے لئے صحابہ سے اخذ کیا گیا تھا ـ پانی اور سرکے میں ابال کر محو کیا گیا۔ بعض محققین نے کہا ہے کہ ان منتشر آثار کو آگ لگا کر جلا دیا گیا یا پھر کسی اور روش سے مٹا دیا گیا تا کہ اختلاف کی جڑ اکھڑ جائے اور اصطلاحاً "توحید نصّ" کا امکان میسر ہو [یعنی مصحف امام = مصحف عثمانی کو ہی پورے عالم اسلام میں واحد حتمی نسخے کے طور پر تسلیم کیا جائے]۔[58]

یہ مصحف ابتدائی شکل کے خط کوفی میں لکھا گیا تھا اور اعراب اور حروف کی حرکات کے علائم کا اندراج تو در کنار، اس کے حروف پر نقطے تک نہيں لگے تھے اور بعد کی دو صدیوں کے دوران، اس مصحف سے نسخہ برداری شدہ نسخوں میں حروف نے نقطے پا لئے۔ (مزید تفصیل مصحف امام یا مصحف عثمانی کے ساتھ ساتھ دیگر نسخوں ـ منجملہ حضرت علی(ع) سے منسوب مصحف، ابن مسعود اور دیگر صحابہ کے اختصاصی نسخوں ـ کی کیفیت جاننے، اور عثمان کی کاوش کی صحت و درستی اور ان کے اس عمل کی امیرالمؤمنین(ع) کی طرف سے تصدیق و تائید نیز ائمہ معصومین علیہم السلام کی طرف سے مصحف عثمانی کو تسلیم کئے جانے کے بارے میں مزید اطلاعات کے لئے رجوع کریں: قرآن کی تحریف ناپذیری[59]

قرائت اور بڑے قرّاء

مشاورت اور غور و تدبر کے باوجود قرآن مجید میں اختلاقِ قرائات [قرائتیں جعل کرنے] کا سلسلہ شروع ہوا؛ اور یہ سلسلہ شروع ہونا ناگزیر تھا۔ درحقیقت اس سلسلے نے موجودہ قرائات سے جنم لیا تھا۔ حتی حیات رسول اللہ(ص) اور آپ کی موجودگی میں کبھی دو قسم کے تلفظات کا اختلاف دکھائی دیتا تھا؛ اور آپ ان میں سے ایک تلفظ یا کبھی دونوں تلفظات کو منظور کرلیتے تھے۔ اور حدیث سبعة اَحرُف (یعنی یہ کہ قرآن کی سات مقبول صورتیں ہیں) اسی تناظر میں وارد ہوئی ہے۔ یعنی آپ(ص) عسر و حرج [اور تنگی اور دشواری] کو ختم کرنا چاہتے تھے حتی کہ قرآن ہمہ گیر ہوجائے اور کوئی بھی صاحب لہجہ اپنے آپ کو قرآن سے اور قرآن کو اپنے آپ سے بیگانہ تصور نہ کرے؛ چنانچہ آپ اس حوالے سے سخت گیری نہیں کرتے تھے اور تلفظ کے اختلاف کو ـ اس حد تک کہ معنی میں خلل نہ ڈالے ـ خطیر یا خطرناک قرار نہيں دیتے تھے۔ قرائتوں کے اختلاف کے اہم ترین اسباب کچھ یوں تھے:

  1. لہجوں کا اخلاف۔ مثال کے طور پر بنو تمیم "حتی حین" کو "عتّی عین" پڑھتے تھے۔
  2. عربی خط اور مصاحف امام میں اعراب کا نہ ہونا۔ حتی کہ ابوالاسود دؤلی نے امام علی(ع) کی ہدایت پر بعض اقدامات انجام دیئے لیکن اس کے کمال و تکمیل میں دو یا تین صدیوں کا عرصہ لگا۔
  3. حروف پر اعجام یا نقطوں اور نشانات کا نہ ہونا۔ اس نقص کے خاتمہ کے لئے حجاج بن یوسف [کی عراق پر حکومت] کے دوران بعض کوششیں ہوئیں جن کی تکمیل تیسری صدی کے اواخر تک طول کھینچ گئی۔
  4. صحابہ اور قراء اور مجموعی طور پر قرآنی محققین کے فردی اجتہادات؛ جن میں سے ہر ایک آیت یا اس کے کلمات کے بارے میں اپنا خاص نحوی، معنوی اور تفسیری استنباط رکھتا تھا۔
  5. اسلام کے عہد اول [اور صدر اول] اور مہد اول (یعنی مکہ اور مدینہ) سے دوری۔
  6. سجاوندی علائم[60] اور وقف و ابتداء اور ہر قسم کے وصل و فصل ـ جن کو وجود میں لانے کا کام بعد میں علم تجوید و قرائت نے اپنے عہدے لیا ـ کا نہ ہونا۔ دوسری صدی ہجری کے اواخر اور تیسری صدی کے اوائل تدوین قرائات کی تحریک شروع ہوئی اور بہت سے قرا‏ئت شناسوں نے موجودہ قرائتوں میں سے صحیح ترین اور بہترین قرائات کو منتخب اور ثبت کرنے کا عزم کیا۔ سب سے پہلے جن لوگوں نے اس کام کا اہتمام کیا ان میں ہارون بن موسی (پیدائش 201 وفات291ہجری) اور ابوعبید قاسم بن سلّام (پیدائش 157- وفات 224ہجری) تھے جنہوں نے 25 ثقہ اور قابل اعتماد قاریوں کا سراغ لگایا اور ان کی قرا‏ئات کو ثبت کیا جن میں قراء سبعہ (سات قاری) بھی شامل تھے۔ ایک صدی بعد ابوبکر بن مجاہد (پیدائش 245 وفات 324 ہجری) ـ جو قرآن کے نمایاں محقق تھے ـ نے سنہ 322 ہجری میں بہت سے قاریوں میں سے قراء سبعہ [61] کو منتخب کیا جو اس کے بعد قرائت قرآن کا پہلے درجے کے مرجع اور حوالے کے طور پر تسلیم کئے گئے۔ اس کے بعد 3 مزید بڑے قراء[62] کو اس گروہ سے ملحق کیا گیا اور یوں درجہ اول کے قراء قراء عشرہ کے نام سے مشہور ہوئے۔ البتہ چودہ قراء اور 20 قراء جیسے نام اور عناوین بھی بعد کی تاریخ میں دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم 10 قراء یا قراء عشرہ وہ افراد ہیں جن کی روایت تبع تابعین (یعنی تابعین کے بعد آنے والی نسل سے تعلق رکھنے والے) کے توسط سے تابعین تک اور تابعین کے توسط سے صحابہ ـ منجملہ کاتبین وحی، حفاظ قرآن اور دیگر ـ تک اور پھر رسول اللہ(ص) تک پہنچتی ہے۔[63]

قرائے سبعہ اور قرائے عشرہ

بہت سے قاریوں نے قرائے سبعہ سے قرائت نقل کی ہے لیکن بعد کے محققین قرآن اور علمائے قرائت نے ہر قاری کے لئے ـ ضبط و صحت سند، نیز سات قاریوں اور ان کے ، اور ان کے مُقریوں، کے ساتھ معیت و ہمراہی اور شاگردی کی مدت، کے لحاظ سے زيادہ قابل قبول اور صحیح و دقیق ـ دو راویوں کو معیار قرار دیا اور یوں روایات کی تعداد 14 ہوئی۔

قرائے سبعہ (سات قاریوں) اور ان کے چودہ راویوں کے نام

  1. عبداللہ بن عامر دمشقی (م 118ہجری)
    1. ان کا پہلا راوی: ہشام بن عمار
    2. دوسرا راوی: ابن ذکوان
  2. عبداللہ بن کثیر مکی (45-120ہجری)
    1. پہلا راوی: البَزّی، احمد بن محمد (170-ح 243ہجری)
    2. دوسرا راوی: ابوعمرو محمد بن عبدالرحمن ملقب به قُنبُل (195-291ہجری)
  3. عاصم بن ابی النجود (76-128ہجری)
    1. پہلا راوی: حفص بن سلیمان (90-ح 180ہجری)
    2. دوسرا راوی: شعبہ بن عیّاش (95-194ہجری)
  4. زبّان بن علاء ابوعمرو بصری (ح68-154ہجری)
    1. پہلا راوی: حفص بن عمر الدوری (م246ہجری)
    2. دوسرا راوی: ابوشعیب سوسی، صالح بن زیاد (190-261ہجری)
  5. حمزه بن حبیب کوفی (80-156ہجری)
    1. پہلا راوی: خلّاد بن خالد کوفی، ابوعیسی شیبانی (142-220ہجری)
    2. دوسرا راوی: خلف بن ہشام (150-220ہجری)
  6. نافع بن عبدالرحمن مدنی (70-169ہجری)
    1. پہلا راوی: وَرش، عثمان بن سعید مصری (110-197ہجری)
    2. دوسرا راوی: قالون، عیسی بن مینا (120-ح220ہجری)
  7. کسائی، علی بن حمزہ (119-189ہجری)
    1. پہلا راوی: لیث بن خالد (م 240ہجری)
    2. دوسرا راوی: حفص بن عمر الدوری (حفص بر عمر الدوری ابو عمرو البصری یعنی زبّان بن علاء کے راوی بھی تھے)۔

ان سات قاریوں کے ساتھ تین مزید قاریوں کا اضافہ کیا جائے تو قراء عشرہ بن جاتے ہیں:

خلف بن هشام (150-229ہجری)

  1. پہلا راوی: اسحاق (ابویعقوب اسحاق بن ابراهیم بغدادی) (م286ہجری)
  2. دوسرا راوی: ادریس، ابوالحسن عبدالکریم.

یعقوب بن اسحاق (117-205ہجری)

  1. پہلا راوی: رُوَیس، محمد بن متوکل (م234ہجری)
  2. دوسرا راوی: روح، ابوالحسن روح بن عبدالمؤمن هذلی (م234ہجری)

10۔ ابوجعفر یزید بن قعقاع (م130ہجری)

  1. پہلا راوی: عیسی، ابوالحارث عیسی بن وردان مدنی (م160ہجری)
  2. دوسرا راوی: ابن جماز، سلیمان بن مسلم (م ب170ہجری)

قرآن کے شیعہ محققین اور زمرہ:شیعہ اصولیون نے قرائے سبعہ اور قرائے عشرہ کی حجیت (حجت ہونے) کے بارے میں بحث کی ہے۔[64]

مکی اور مدنی

مفصل مضمون: مکی اور مدنی

قرآن کے شیعہ اور سنی محققین نے مکیی اور مدنی سورتوں اور آیتوں کی شناخت کے لئے تین قواعد اور معیار وضع کئے ہیں:

  1. "مکانی قاعدہ"، اس قاعدے کے مطابق "وہ سورتیں اور آیتیں جو مکہ اور اس کے اطراف میں نازل ہوئی ہیں خواہ وہ ہجرت سے قبل نازل ہوئی ہوں خواہ ہجرت کے بعد، وہ مکی ہیں اور جو سورتیں اور آیتیں مدینہ اور اس کے اطراف میں نازل ہوئی ہیں وہ مدنی ہیں"۔
  2. "انسانی قاعدہ"، اس قاعدے کے مطابق وہ سورتیں اور آیتیں جن میں خطاب مکی عوام سے ہے، ان میں عام طور پر "یا ایها الناس" یا "یا بنی آدم" جیسے خطابات بروئے کار لائے گئے ہیں اور جن آیات اور سورتوں میں خطاب مدنی عوام سے ہے ان میں عام طور پر "یا ایها الذین آمنوا" جیسا خطاب استعمال ہوا ہے۔
  3. "زمانی قاعدہ"، محققین نے اس قاعدے کو زیادہ جامع اور مانع قرار دیا ہے۔ اس قاعدے کے مطابق وہ سورتیں اور آیتیں جو ہجرت سے قبل نازل ہوئی ہیں وہ مکی آیات ہیں اور وہ سورتیں اور آیتیں جو ہجرت کے بعد نازل ہوئی ہیں وہ مدنی ہیں خواہ وہ مکہ میں غزوات اور سفروں کے دوران ہی کیوں نہ نازل ہوئی ہوں۔[65] مکی اور مدنی کی شناخت "سماعی" ہے اور قاعدہ و معیار وہی ہے جو رسول اللہ(ص) اور صحابہ اور تابعین سے ہم تک پہنچا ہے۔

ناسخ و منسوخ

مفصل مضمون: نسخ

نسخ کے معنی لغت میں ابطال اور ازالہ کے ہیں اور علوم قرآنی کی اصطلاح میں سابقہ تشریع (اور حکم) ـ جو بظاہر دوام کا متقاضی تھا ـ کی تنسیخ ہے لاحقہ تشریع و حکم کے ذریعے۔ [یعنی ایک حکم جو بظاہر دائم و باقی ہے کو بعد میں نئے آنا والا حکم، منسوخ کردے]، یوں کہ ان دو احکام و تشریعات ذاتا جمع نہیں کئے جاسکتے یا انہيں جمع کرنا صریح و آشکار تنافی وتضاد یا اجماع یا نص صریح (واضح شرعی حکم) کی وجہ سے، ممکن نہ ہو۔[66] [اس صورت میں سابقہ حکم منسوخ ہوجاتا ہے] واضح تر یہ کہ "ایک شرعی حکم دوسرے شرعی حکم کے ذریعے منسوخ ہوجائے"۔[67] یا "ایک آیت کی قرائت یا اس میں نازل ہونے والے حکم کی نسبت مؤمنین کے تعبد کا خاتمہ یا اس آیت کی قرائت اور اس کے ضمن میں آنے والے حکم، دونوں کا خاتمہ۔[68]

اللہ تعالی نے خود بھی قرآن میں نسخ کے واقع ہونے کی تصریح کی ہے۔ ارشاد فرماتا ہے:

"مَا نَنسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا أَوْ مِثْلِهَا أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللّهَ عَلَىَ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ"۔[69]
ترجمہ: جس آیت کو ہم منسوخ کر دیتے ہیں یا وہ بھلا دی جاتی ہے۔ تو ہم اس سے بہتر یا اس کے مثل دوسری نازل کر دیتے ہیں۔ کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ ہر بات پر قادر ہے۔ یا

"وَإِذَا بَدَّلْنَا آيَةً مَّكَانَ آيَةٍ وَاللّهُ أَعْلَمُ بِمَا يُنَزِّلُ قَالُواْ إِنَّمَا أَنتَ مُفْتَرٍ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لاَ يَعْلَمُونَ"۔[70]
ترجمہ: اور جب بدل کر لے آتے ہیں ہم ایک آیت کو دوسری آیت کی جگہ اور اللہ ہی خوب جانتا ہے اسے جو وہ اتارتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ تم تو بس اپنے دل سے گھڑتے ہو بلکہ ان میں سے اکثر علم نہیں رکھتے۔ نیز
"يَمْحُو اللّهُ مَا يَشَاء وَيُثْبِتُ وَعِندَهُ أُمُّ الْكِتَابِ"۔[71]
اللہ جو چاہتا ہے مٹاتا ہے اور برقرار رکھتا ہے اور اس کے پاس ام الکتاب [اصل نوشتہ] ہے۔ شیعہ محققین کے نزدیک بھی اور سنی محققین کے نزدیک بھی، نسخ قرآن میں بھی اور سنت میں بھی روا ہے۔[72]

شأن نزول (= اسباب نزول)

مفصل مضمون: اسباب نزول

آیات قرآنی کو دو اہم قسموں میں تقسیم کیا جاتا ہے؛ قرآنی آیات کا بڑا حصہ ان آیات پر مشتمل ہے جو صرف اللہ کی مشیت سے ـ بغیر تحفظات و محرکات کے ـ رسول اللہ(ص) پر نازل ہوئی ہیں۔ دوسری قسم کی آیات ـ جن کی تعداد پہلی قسم سے کم ہے ـ وہ آیات ہیں جو کسی واقعے اور حادثے کے رونما ہونے یا کسی سوال کے پیش آنے کی بنا پر نازل ہوئی ہیں۔ سبب نزول یا شأن نزول در حقیقت اسی واقعے اور حادثے یا سوال کا نام ہے جو عصر رسالت میں پیش آئے ہیں اور کسی آیت یا آیات کے نزول کا سبب یا محرک قرار پائے ہیں۔ اور کس قدر زیادہ ہی وہ آیات قرآنی جو لفظ "يسئلونك" [= وہ آپ سے پوچھتے ہیں] یہ لفظ "سؤال" کے مشتقات یا "يستفتونك" [وہ آپ سے استفتاء کرتے ہیں] سے شروع ہوئی ہیں۔ یہ آیات ایسے وقت رسول اکرم(ص) پر نازل ہوئی ہیں جب آپ(ص) سے کسی حکم یا حکمت کے بارے میں سوال کیا گیا ہے۔[73]

محکم اور متشابہ

مفصل مضامین محکم و متشابہ، تأویل و راسخون فی العلم

"محکم" اِحکام سے ہے اور اس کے معنی "إتقان" کے ہیں اور "کلمۂ محکمہ" اور "آیت محکمہ" سے مراد وہ کلمہ اور آیت ہے جس کے معنی واضح ہیں اور یہ کلمہ یا آیت ذومعانی اور مبہم نہیں ہے؛ اور راغب اصفہانی کے بقول "ان میں لفظ اور معنی کے لحاظ سے کسی شک کی گنجائش نہیں ہے"، جیسے: تشریعِ احکام کی آیات "آیات الاحکام" اور قرآنی مواعظ، آداب و اخلاقیات سے متعلق آیات۔ متشابہ "تشابہ" سے ہے۔ تشابہ کے معنی ایک جیسے ہونے اور ایک دوسرے کے مانند ہونے کے ہیں۔ تشابہ شبہہ اور اشتباہ کی جڑ اور مادہ ایک ہے۔ راغب کے بقول "متشابہ آیت وہ ہے جس کا ظاہر اس کے باطن کو بیان نہیں کرتا"۔ "شیخ طوسی" کہتے ہیں: "محکم وہ ہے جس کی مراد اس کے وضوح کی بنا پر، کسی بیرونی دلیل یا قرینے کے بغیر، صرف اس کے ظاہر کی طرف توجہ کرکے، سمجھی جاسکے... اور متشابہ وہ ہے کہ اس کے ظاہر کو توجہ دینے سے اس کی اصل مراد کا ادراک نہ کیا جاسکے مگر یہ کہ کسی بیرونی قرینے (اور نشانی) کو اس سے ملادیا جائے جو اس کی مراد و معنی کو واضح کردے۔[74]

بالفاظ دیگر، متشابہ وہ لفظ ہے جس میں معانی کی ایسی مختلف صورتوں کا احتمال پایا جاتا ہے جن کو شک و شبہے کا سامنا ہو چنانچہ یہ لفظ تاویل کا محتاج ہے اور وہ صحیح تاویل کے قابل بھی ہے اور فاسد و غلط تاویل کے قابل بھی۔ خلقت (یعنی انسانوں، آسمانوں، تقدیر و صفات و افعال پروردگار) کی اکثر آیات کریمہ[75] اور آیات قرآنی کی عظيم اکثریت محکم اور قلیل آیات قرآنی (تقریبا 200 آیات)[76] متشابہ ہیں۔

بعض متکلمین اور جدل پسندوں نے بعض آیات سے استناد کرکے قرآن میں متشابہ آیات کا کلی طور پر انکار کیا ہے۔ انھوں نے جن آیات کا سہارا لیا ہے وہ کچھ یوں ہیں:
"هَذَا بَيَانٌ لِّلنَّاسِ"
(ترجمہ: یہ تمام لوگوں کے لیے واضح تذکرہ ہے)۔[77]
"كِتَابٌ أُحْكِمَتْ آيَاتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِن لَّدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ" (ترجمہ: وہ کتاب ہے جس کی آیتیں مضبوط اتاری گئی ہیں، پھر یہ کہ انہیں واضح بنایا گیا ہے اس ٹھیک ٹھیک کام کرنے والے کی طرف سے جو بڑا باخبر ہے)۔[78]
اور بعض دوسروں نے بعض دیگر آیات کریمہ کا حوالہ دے کر دعوی کیا ہے کہ قرآن کی پوری آیات ہی متشابہات ہیں۔ یہ افراد جن آیات سے استناد کرتے ہیں ان میں ذیل کی آیت شامل ہے:
"اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَاباً مُّتَشَابِهاً"
(ترجمہ: اللہ نے بہترین کلام اتارا ہے، وہ کتاب ایک جو پوری ایک ہی طرح کی ہے)۔[79]
اخباریون کا تقریبا یہی خیال ہے کیونکہ وہ معصوم سے منقولہ روایات و احادیث کا سہارا لئے بغیر قرآن کی تفسیر کو جائز نہيں سمجھتے۔[80]
بہر حال خداوند متعال فصیح ترین اور حسین ترین انداز سے قرآن میں محکمات و متشبابہات پر تصریح فرماتا ہے اور ہر ایک کی وضاحت بھی کرتا ہے:
"هُوَ الَّذِيَ أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ فَأَمَّا الَّذِينَ في قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاء الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاء تَأْوِيلِهِ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلاَّ اللّهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ" (ترجمہ: وہ [خدا] وہی ہے جس نے آپ پر یہ کتاب اتاری، اس میں سے کچھ محکم آیتیں ہیں جو کتاب کی بنیاد کی حیثیت رکھتی ہیں اور دوسری آیتیں متشابہ ہیں،سو وہ لوگ جن کے دلوں میں کجی ہے وہ صرف متشابہ آیات کی پیروی کرتے ہیں فتنہ انگیزی [اور گمراہ کرنے] کی غرض سے اور من پسند تاویلیں کرنے [اور معنی گڑھنے کی نیت سے]، حالانکہ اس کے اصل معنی کو کوئی نہیں جانتا سوا اللہ اور ان کے جو علم میں کامل پختگی رکھنے والے [اور راسخ] ہیں)۔[81]

تحدّی (چیلنج یا للکار) اور اعجاز قرآن

تحدّی (چیلنج یا للکار)

مفصل مضمون: تحدی

"وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا قَالُواْ قَدْ سَمِعْنَا لَوْ نَشَاء لَقُلْنَا مِثْلَ هَـذَا إِنْ هَـذَا إِلاَّ أَسَاطِيرُ الأوَّلِينَ (ترجمہ: اور جب ان کے سامنے ہماری آیتوں کی تلاوت ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سن لیا ہے۔ اگر ہم چاہیں تو ہم بھی ایسا ہی کلام پیش کریں۔ یہ نہیں ہیں مگر اگلے زمانوں کی فرضی کہانیاں)[؟–31]

کفار مکہ رسول اللہ(ص) کی دعوت اور کلام اللہ کا سامنا کرنے کے بعد یا تو اس کے استماع سے اجتناب کرتے تھے اور دوسروں کو بھی قرآن سننے سے منع کرتے تھے[82] یا پھر کہتے تھے کہ "یہ آدمیوں کا کلام نہیں ہے۔[83] یا کہتے تھے کہ "اگر ہم چاہتے تو ایسا ہی کلام پیش کرتے، یہ نہیں ہے مگر اگلے زمانوں کی فرضی داستانیں"۔[84] اس مقام پر آکر خداوند متعال تحدی فرماتا اور لوگوں کو چیلنج کرتا اور للکارتا ہے؛ یعنی منکرین اور معاندین سے کہتا ہے کہ "اگر قرآن کو غیر وحیانی اور غیر الہی سمجھتے ہو تو اس کے لئے کوئی مثل و نظیر لاؤ"۔[85] نیز: " کیا وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اس کو گھڑ لیا ہے؟ کہئے کہ پھر لے آؤ اس کے مثل دس ہی سورہ گھڑے ہوئے اور بلالو جنہیں بلاسکو اللہ کے سوا اگر تم سچے ہو ٭ تو وہ اگر تمہاری دعوت پر لبیک نہ کہیں تو جان لو کہ وہ بس اللہ کے علم سے اتارا گیا ہے، ..."۔[86] اور بالآخر ارشاد فرماتا ہے: "اور اگر تم اس کی طرف سے جو ہم نے اپنے بندے پر اتارا شک میں مبتلاہو تو اس قبیل کا ایک سورہ لے آؤاور جو اللہ کو چھوڑ کے ہمارے حامی ہیں انہیں بھی بلا لو اگر تم سچے ہو ٭ اب اگر تم نے ایسا نہ کیا، اور ہرگز نہ کرو گے، تو پھر بچنے کا سامان کرو اس آگ سے جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں اور وہ کافروں کے لیے مہیا ہے"۔[87] یہ تحدی اور للکار تمام اانسانوں کے لئے ہے خواہ وہ عرب ہوں خواہ غیر عرب ہوں۔ دوران رسالت کے قریب کے زمانے میں بھی اور بعد کے زمانوں میں بھی بعض لوگ ـ منجملہ مسیلمہ کذاب وغیرہ قرآن کے مقابلے پر آئے اور بعض تاہم وہ کچھ سست الفاظ و کلمات کو اکٹھے کرکے جو نہ تو معمولی کلام سے مشابہت رکھتے تھے اور نہ ہی قرآن کے مشابہ تھے۔ اور یوں قرآن کا اعجاز ثابت ہوچکا ہے۔[88]

اعجازِ قرآن

مفصل مضمون: اعجاز قرآن

اعجاز قرآن کے معنی میں چند صورتیں بیان کی گئی ہیں:

  1. بے مثل فصاحت و بلاغت، جس کی نہ کوئی مثال ہے اور نہ ہی کوئی نظیر [= زبانی اعجاز کا نظریہ]۔
  2. موسیقیائی اور صوتیاتی انفرادیت۔
  3. معارف و تعلیمات کے لحاظ سے انفرادیت۔
  4. قرآنی تشریعات [اور قانون سازیاں]] فطرت اور عقل سلیم کے عین مطابق اور دو جہانوں کی سعادت و خوشبختی کی ضمانت ہیں۔
  5. قرآنی دلائل و براہین قاطع اور فصل الخطاب کے حامل ہیں۔
  6. قرآن غیبی خبروں پر مشتمل ہیں ماضی کے بارے میں بھی اور مستقبل کے بارے میں بھی۔
  7. اسرار خلقت کے سلسلے میں علمی [سائنسی] اشارات پر مشتمل ہے۔
  8. قرآنی بیان استقامت و استواری کا حامل ہے اور اس میں تضاد اور اختلاف نہيں ہے، حالانکہ قرآن 23 سالہ عرصے میں بہت سارے حوادث و واقعات میں نازل ہوا ہے۔
  9. یہ قول کہ "خداوند متعال نے مخالفین کے دلوں اور ہمتوں کو مثل قرآن لانے سے منصرف کردیا ہے (= نظریہ صرفہ۔

سابقہ انبیاء کے معجزات زيادہ تر حسّی تھے جبکہ قرآن ـ جو اسلام اور رسول اللہ(ص) کا زندہ جاوید اور ابدی معجزہ ـ ایک عقلی، علمی و سائنسی اور ثقافتی و تہذیبی معجزہ ہے۔ ایک مشہور قول کے مطابق ہر پیغمبر کا معجزہ اس کے اپنے زمانے کی ترقی وپیشرفت سے مطابقت رکھتا تھا، اور چونکہ ہمارے پیغمبر(ص) کے زمان ےمیں قوم عرب کے درمیان شعر و ادب اعلی فن و ہنر سمجھتا جاتا تھا، خداوند متعال نے آپ(ص) کے لئے ایک زبانی و ادبی معجزہ منتخب فرمایا ہے۔[89]

اعجاز قرآنی کی صورتوں کے درمیان دو صورتیں بہت نمایاں سمجھی گئی ہیں:

  1. زبانی ـ ادبی اعجاز، علمائے امامیہ کی غالب اکثریت اس نظریئے کے قائل ہیں نیز جاحظ، قاضی عبدالجبار، زمخشری، عبدالقاہر جرجانی اور سکاکی نیز خواجه شمس الدین محمد حافظ، بھی اسی نظریئے کے قائل ہیں۔
  2. نظریۂ صرفہ، اعجاز قرآنی کے اس نظریئے کے مطابق اعجاز قرآن صرف اس کی فصاحت اور اس کی بے مثل ادبی ـ زبانی فصاحت ہی میں نہیں ہے بلکہ یہ اعجاز اس حقیقت میں ہے کہ خداوند متعال نے خود ہی ان لوگوں کی فکر اور سوچ کو منصرف کیا (اور پلٹا دیا) ہے جو قرآن کی برابری اور اس کی مثل و نظیر لانے کے درپے ہیں۔ علمائے امامیہ میں سے سید مرتضی اور شیخ مفید اس نظریئے کے قائل ہیں لیکن یہ نظریہ ضعیف اور خدشہ پذیر ہے کیونکہ یہ نظریہ قرآن کی ذاتی اور ادبی = زبانی اور مضمونی اور اسلوبی منزلت کو قرآن کے معجز ہونے کے لئے کافی نہيں سمجھتا۔ ان شیعہ اکابرین کے علاوہ اس نظریئے کے بانی نظّام معتزلی، اور ابن حزم ظاہری سمیت اشاعرہ کے بعض بزرگ بھی اس نظريئے کے حامی ہیں اور شاید ان نظریۂ صرفہ کی طرف ان بزرگوں کے مائل ہونے کا سبب یہ ہے کہ وہ زبانی ـ ادبی اعجاز کے نظریئے کو ناکافی سمجھتے ہیں اور یہ لوگ اس نظریئے کے قائل ہیں کہ مثال کے طور پر ہر قوم کی عمدہ کاوشیں معجزنما، مخالفت ناپذیر اور بےمثل ہیں۔[90]

قرآن کا حادث یا قدیم ہونا

مفصل مضمون: قرآن کا حادث یا قدیم ہونا

کلامی ـ عقیدتی مباحث میں ایک بحث ـ جو قرآن مجید کے سلسلے میں انجام پائی ہے ـ یہ ہے کہ کیا قرآن ـ جو اللہ تعالی کا کلام ہے ـ ہمیشہ اور پیوستہ صاحب کلام کے ساتھ ساتھ اور اس کی ذات کی طرح قدیم اور خلق ناپذیر ہے یا اس عالم اور تمام مخلوقات کی طرف حادث اور مخلوق ہے؟ یہ بحث اسلامی کلام کی ابتداء ہی سے وجود میں آئی ہے؛ بلکہ بعض کا خیال ہے کہ علم کلام کی بنیاد ہی کلام الہی کے بارے میں اسی بحث کے آغاز سے وجود میں آیا ہے۔ قرآن مجید کے مطابق "تکلم" اللہ کی صفات میں سے ہے۔[91]۔[92] اشعریوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن خدا کا کلامِ نفسی ہے اور اللہ کی ذات پر قائم و استوار ہے اور اللہ کے قِدَم (قدیم ہونے) کی بنا پر قدیم ہے اور اس کی ذاتی صفات [93] میں سے ہے؛ لیکن معتزلہ اور شیعہ کا اعتقاد ہے کہ اللہ کا تکلم یا کلام اس کی صفات فعلیہ [94] اور قرآن اللہ کا لفطی کلام اور حادث ہے۔[95] یہ مسئلہ مسلمانوں کے اصول دین یا فروع دین کا جزء یا دین و مذہب کی ضروریات میں شمار نہیں ہوتا پحر بھی تیسری صدی ہجری میں مسلمانوں کے درمیان اس کو بہت زيادہ اچھالا گیا اور ان کی وسیع عکاسی ہوئی۔ اس مسئلے کا آغاز عباسی بادشاہ ہارون عباسی کے دور سے ہوا تھا اور مامون عباسی، معتصم عباسی، واثق عباسی کے زمانے میں عروج کو پہنچا اور متوکل عباسی کے دور میں زوال پذیر ہوا۔[96]

ظواہر قرآن کی حجیت

مفصل مضمون: ظواہر قرآن کی حجیت

"ظواہر کتاب یا قرآن کی حجیت" ایک موضوع بحث اور ایک اصطلاح ہے جو عام طور پر علم اصول میں زیر بحث آتا ہے؛ اور اس سے مراد یہ ہے کہ کیا قرآن کے مخاطَبین ـ جو کسی حد تک تہذیب و ثقافت رکھتے ہیں اور عربی زبان سے واقف ہیں وہ ـ قرآن کو درست سمجھ سکتے ہیں؟ یا پھر انہیں دوسرے منابع و مآخذ سے رجوع کرنا پڑتا ہے؟ آیت اللہ خوئی اسی سلسلے میں اپنے ایک مضمون میں رقمطراز ہیں: اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت رسول(ص) نے اپنے مقاصد کے افہام و تفہیم کے لئے کوئی خاص طریقہ وضع نہیں کیا تھا بلکہ آپ(ص) بلکہ اپنی قوم سے اسی تکلم اور افہام و تفہیم کی اسی روش سے تکلم فرماتے تھے جس سے افراد قوم واقفیت رکھتے تھے اور آپ(ص) ان کے لئے قرآن لارہے تھے تاکہ وہ اس کے معانی کو سمجھیں اور اس کی آیات میں غور و تدبر کریں اور اس کے اوامر پر عمل کریں اور اس کے نواہی سے باز رہیں۔ اور یہ موضوع قرآن کی متعدد آیات کریمہ میں آشکارا بیان ہوا ہے۔[97]۔[98]۔[99] اور دوسری آیات کریمہ جو قرآن کے مضامین پر عمل کو واجب سمجھتی ہیں اور ان مفاہیم کو اخذ کرنے کو لازمی سمجھتی ہیں جو اس کے ظاہری سے سمجھے جاتے ہیں۔[100]

تفسیر و تأویل

سانچہ:تفسیر

مفصل مضامین : تفسیر، تأویل و راسخون فی العلم]]

تفسیر کے لغوی معنی شرح، بیان، توضیح اور تشریح کے ہیں اور قرآن میں بھی یہ لفظ اسی معنی میں آیا ہے۔[101] علوم قرآنی کی اصطلاح میں تفسیر کی مختلف تعاریف پیش کی گئی ہیں:

  1. "علم قرآن"۔[102]
  2. "قرآن سے اللہ کی مراد، کی تفہیم ہے جو انسان استطاعت کے مطابق، لسان عرب کے قواعد اور اسلوب اور کتاب اللہ، رسول اللہ(ص) اور آپ(ص) کے اوصیاء کے آثار مرفوعہ سے مستند ہو اور عقل و کتاب و سنت اور اجماع سے متصادم نہ ہو"۔[103]
  3. "وہ علم ہے جو اپنی دلالت کے لحاظ سے، بنی نوع انسان کی قوت و صلاحیت کے مطابق، کلام اللہ سے اللہ تعالی کی مراد پر بحث کرتا ہے"۔[104]
  4. "وہ علم ہے جو نزول، سند، اداء، الفاظ اور ان کے متعلقہ معانی اور احکام سے متعلق معانی، پر بحث کرتا ہے"۔[105]

سیوطی لکھتے ہیں: مفسر کے لئے لازم ہے کہ 15 علوم اور فنون سے واقفیت کاملہ رکھتا ہو:

  1. لغت
  2. نحو
  3. صرف
  4. اشتقاق
  5. معانی
  6. بیان
  7. بدیع
  8. علم قرائت [اور اختلاف قرائات]
  9. اصول دین [اور وسیع تر سطح پر "علم کلام"]
  10. اصول فقہ
  11. اسباب نزول
  12. ناسخ و منسوخ کی شناخت
  13. فقہ
  14. وہ احادیث جو مجمل و مبہم کو بیان کرتی ہیں۔
  15. علم موہبت؛ اور وہ ایسا علم ہو جو اللہ تعالی ایسے افراد کو ورثے کے طور پر عطا کرتا ہے جو اپنے علم پر عمل کرتے ہیں؛ جو رسول اکرم(ص) کی اس حدیث کی طرف اشارہ ہے کہ "جو شخص عمل کرے ان چیزوں پر جنہیں وہ جانتا ہے خداوند متعال اسے ان چیزوں کے علم کا وارث قرار دیتا ہے جنہیں وہ نہیں جانتا [بالفاظ دیگر جو اپنی معلومات پر عمل کرے خداوند متعال اس کو مجہولات کا علم عطا کرتا ہے]۔[106]

سیوطی مفسر کے لئے ان علوم و فنون کی ضرورت کی طرف اشارہ کرنے کے بعد کہتے ہیں: جو شخص ان علوم و فنون کے بغیر تفسیر قرآن کے سلسلے میں اقدام کرے اس نے گویا تفسیر بالرأي کا ارتکاب کیا ہے اور تفسیر بالرأي سے باز رکھا گیا ہے۔[107]

تاویل "اول" سے مشتق ہے اور اس کے لغوی معنی "رجوع" [پلٹنے] کے ہیں؛[108] یہ لفظ قرآن میں کئی آیات کریمہ کے ضمن میں بروئے کارآیا ہے۔[109] ابتدائی صدیوں میں تاویل اور تفسیر میں کوئی فرق نہ تھا۔ جیساکہ حتی طبری اپنی تفسیر ميں کئی مرتبہ لفظ "تاویل" سے استفادہ کرتے ہیں اور اس سے طبری کی مراد "تفسیر" ہے۔ جیسا کہ آیات متشابہ اور کبھی تعبیر رؤیا (تعبیر خواب)، و احکام ـ جیسا سورہ یوسف میں ہے ـ اور کبھی اعمال کی تاویل میں ـ جیسا کہ حضرت موسی اور رجل صالح (خضر(ع)) کی داستان میں ہے ـ اور اصطلاح میں تاویل سے مراد یہ ہے کہ لفظ کی دلالت کو حقیقی دلالت سے مجازی دلالت میں منتقل کیا جائے، بغیر اس کے، تجوز کے حوالے سے لسان العرب کے کی عادت اور کارکردگی سے عدول کیا جائے؛ اور بہرحال مجازی تعلق کے متعلقہ قواعد کے عین مطابق ہو؛ جیسے کسی شیئے کو اس کے مشابہ کا نام دینا، یا اس کے سبب کا نام دینا یا اس کے لاحق کا نام دینا، یا اس کے مقارن کا نام دینا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ تاویل کا مقصد "متشابہات" کی توجیہ کرنا "اور کلام کے ثانوی معنی کشف کرنا، جس کو "بطن" بھی کہا جاتا ہے، اس کے ظاہری معنی کے مقابلے میں جس کو "ظہر" کہتے ہیں"۔[110] علامہ محمد ہادی معرفت تاویل کے دیگر معانی پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں: تاویل سے مراد ظاہر کلام سے مخفی اور چھپے ہوئے معنی و مفاہیم ہیں جس کے لئے ـ اس لفظ سے باہر سے ـ ایک صریح و آشکار دلالت کی ضرورت ہے۔[111] راغب اصفہانی مفردات القرآن میں لکھتے ہیں: "لفظ "تفسیر" کا اکثر استعمال "الفاظ" میں اور لفظ "تاویل" کا اکثر استعمال معانی میں ہوتا ہے؛ تفسیر کا تعلق الفاظ کے مفردات سے ہے اور تاویل کا جملوں اور فقروں سے"۔ بعض نے کہا ہے کہ تفسیر کا تعلق عبارت کی حالت و صورت سے ہے اور تاویل کا تعلق اس معانی سے ہے جو اشارات سے حاصل ہوتے ہیں۔[112] محمد حسین ذہبی تفسیر و تاویل کی مختلف تعریفیں پیش کرنے اور ان کے درمیان فرق بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں: "تفسیر روایت کی طرف پلٹی ہے اور تاویل درایت کی طرف"۔[113] تاویل کی ضرورت کے سلسلے میں قرآن بھی تصدیق کرتا ہے اور ائمہ(ع)، صحابہ اور بعد کے زمانوں کے قرآنی محققین بھی کردار ادا کرتے ہیں لیکن قرآن کی تاویل ہر کسی کا کام نہیں ہے۔[114]

تجوید اور ترتیل

مفصل مضمون: تجوید

مفصل مضمون: ترتیل

سادہ سی تعریف یہ ہے کہ "تجوید" قرآن درست پڑھنے کا علم اور اس کے قواعد کا نام ہے اور "ترتیل" قرآن مجید کو درست اور صحیح پڑھنے کا فن یا ہنر ہے۔ تجوید شرعی اور قرآنی علوم میں سے ہے۔ اس کی تاریخ عصر نبوی جتنی پرانی ہے کیونکہ حضرت رسول اکرم(ص) قرآنی کلمات کی درست قرائت کرنے کا خاص لحاظ رکھتے تھے اور دوسروں کو بھی صحیح تلاوت سکھا دیتے تھے۔ جس طرح کہ اسلامی امت قرآن کے معانی کے فہم و ادراک اور ان کی حدود کی رعایت کے پابند تھے، الفاظ کو درست پڑھنے ـ اور اصطلاحاً حروف کو بپا رکھنے کے لئے اسی طرح کوشاں تھے ـ جس طرح کہ وہ ائمۂ قرائت سے سیکھ لیا کرتے تھے۔ اور یہ زبانی اور شفاہی سینہ بہ سینہ سلسلہ تعلیم و تعلم قاریوں اور مقریوں کے توسط سے بالآخر رسول اللہ(ص) کی سنت و قرائت تک پہنچ جایا کرتی تھی جس کی مخالفت اور اس سے روگردانی جائز نہیں ہے اور اسی کی صحیح معنوں میں تقلید اور پیروی جوید کا مقصد اعلی ہے۔[115]

تجوید در اصل علم قرائت کا ایک شعبہ ہے اور قرائت کے ساتھ اس کا فرق یہ ہے کہ علم قرائت الفاظ قرآن کو صحیح ضبط و ثبت کرنے کی ذمہ داری اپنے کاندھوں پر لئے ہوئے ہے، جس کا إعراب بھی صحیح ہو اور ثبت و ضبط الفاظ بھی صحیح ہو کہ مثلا "طلح" درست ہے یا "طلع" درست ہے۔ جبکہ تجوید علم قرائت کے بعد اور متن کو ضبط و ثبت کرنے کے بعد میدان میں آنے کے قابل ہوجاتی ہے۔ اس کا تعلق الفاظ کی صحیح زبانی ادائیگی سے ہے۔ ترتیل قرآن مجید کی صحیح، آہستہ آہستہ اور حسن و خوبصورت سے قرآن مجید کی تلاوت کا نام ہے جس کی قرآن نے ہمیں تلقین بھی کی ہے جیسا کہ سورہ مزمل میں ارشاد فرماتا ہے: "وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلاً"۔ (ترجمہ: اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پوری طرح واضح کرکے [اور خوبصورتی سے] پڑھا کیجئے)۔ قرآن کی اس آیت کریمہ کے بارے میں حضرت امیرالمؤمنین(ع) سے سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: "الترتيل تجويد الحروف ومعرفة الوقوف"۔ (ترجمہ: ترتیل حروف کی صحیح ادائیگی اور قرآن کے وقوف [= جمع وقف] سے صحیح آگہی، کا نام ہے)۔[116] ابن الجزری ترتیل کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "ترتیل قرآن کو بغیر عجلت کے، پیوستہ اور آہستہ پڑھنا ہے اور قرآن بغیر عجلت کے آہستہ آہستہ نازل ہوا ہے۔ [چنانچہ اس کو آہستہ آہستہ اور بغیر کسی عجلت کے پڑھنا چاہئے]۔[117]

قصص القرآن

قرآن کا ایک ہمہ گیر اور مسلسل دہرایا جانے والا موضوع قرآن میں منقولہ قصے اور کہانیاں ہیں جن کا تعلق انبیاء اور اقوام سے ہے یا دوسرے قصے کہانیاں، جو نکات اور عبرتوں سے بھرپور ہیں۔ قرآنی قصوں کا جائزہ لینا اور ان کی معرفت پانا، علوم قرآنی کا جزء ہے۔ جیسا کہ اسلوب قرآن میں کہا گیا ہے، قرآنی بیان مسلسل، مربوط اور جاری، پیوستہ اور متحد المضمون نہیں ہے بلکہ ایک گلدستے کی مانند ہے جو رنگ برنگے پھولوں سے تشکیل پایا ہے اور مختلف مضامین کا مجموعہ ہے اور بہت کم ایسا ہوا ہے کہ ایک داستان ابتداء سے انتہا تک مسلسل یکجا ذکر ہوئی ہو۔ البتہ استثنائات بھی موجود ہیں اور حضرت یوسف(ع) اور ان کے بھائیوں کی داستان ایک پیوستہ اور ہمہ جہت بیان کی صورت میں پوری سورہ یوسف میں آئی ہے؛ اور حضرت موسی(ع) کا قصہ سورہ طہ میں، داؤود(ع) کی دستان سورہ ص میں، سلیمان(ع) کا قصہ سورہ نمل میں، حضرت نوح(ع) کا فصہ سورہ نوح میں اور حضرت ہود(ع) کا قصہ سورہ ہود میں آیا ہے لیکن سورہ یونس میں حضرت یونس(ع) کا قصہ صرف چند ہی آیات کریمہ میں آيا ہے اور [[حضرت ابراہیم علیہ السلام|حضرت ابراہیم(ع) کی داستان صرف سورہ ابراہیم میں ہی نہیں آئی بلکہ اس داستان کا بڑا حصہ سورہ بقرہ اور دیگر سورتوں ميں آیا ہے۔ مجموعی طور پر قرآن کی 15 سورتوں میں حضرت ابراہیم(ع) کی طرف اشارے موجود ہیں نیز حضرت موسی(ع) کی داستان 21 سورتوں میں پھیلی ہوئی ہے۔[118]

قرآن میں انبیاء کے قصوں کے ساتھ ساتھ دوسرے قصے بھی ہیں جن میں اصحاب کہف شامل ہیں اور ان کا ذکر سورہ کہف میں آیا ہے یا قارون کی داستان جو سورہ قصص میں بیان ہوئی ہے۔[118]

قرآن مجید کے قصص کی بعض شخصیات یا أعلام کے نام کچھ یوں ہیں: آدم، آزر، ابلیس، ادریس، ارم ذات العماد، اسحق، اسمعیل، اصحاب الاخدود، اصحاب الرسّ، اصحاب الرقیم (جو اصحاب کہف ہی ہیں)، اصحاب السبت، اصحاب السفینہ، اصحاب کہف، بنی آدم، بنی اسرائیل، تبّع، ثمود، جالوت، جن، حواء (جن کا نام ذکر نہیں ہوا ہے)، حواریون، خضر (رجل صالح)، داؤد، ذوالقرنین، ذوالکفل، روم، زکریا، زلیخا (ان کا نام ذکر نہیں ہوا ہے)، زید بن حارثہ، زینب بنت جحش (جن کا نام ذکر نہیں ہوا ہے)، سامری، سبأ، سحرہ، سلیمان، شعیب، صالح، طالوت، عاد، عزیر، عیسی بن مریم، فرعون، قارون، کنعان بن نوح (جس کا نام ذکر نہیں ہوا ہے)، لقمان، لوط، حضرت محمد(ص)، مدین، مریم، مؤتفکات (قوم لوط کے شہر)، موسی، نصاریٰ، نمرود، نوح، ہابیل و قابیل، ہاروت و ماروت، ہارون، ہامان، ہود، یأجوج و مأجوج، یحیی، یعقوب، یونس، یہود۔[118]

فقہ یا احکام قرآن

مفصل مضمون: احکام القرآن

مفصل مضمون: آیات الاحکام

فقہ اور اصول کی اصطلاح میں قرآن کو "کتاب" کہا جاتا ہے جو تشریع احکام اور فقہ اسلامی کا اولین اور اصلی ترین ذریعہ اور منشأ و سرچشمہ ہے۔ "قرآن اللہ کے قوانین کا مجموعہ کاملہ اور اخبار (یعنی روایات و احادیث کی صحت و سقم جاننے کے لئے معیار اور پیمانے کا کردار ادا کرتا ہے۔ اسی بنا پر قرآن رسول اللہ(ص) پر نازل ہونے سے لے کر آج تک ہمیشہ ہمیشہ کے لئے فقہائے اسلام کی توجہ کا مرکز رہا ہے اور رہے گا اور فقاہت و اجتہاد کی تاریخ خود اس حقیقت کی گواہی دیتی ہے"۔[119]

مشہور یہی ہے کہ قرآن کی فقہی آیات آیات الاحکام کی تعداد 500 ہے۔[120] تاہم قرآن سے استنباط [استخراج] احکام کے لئے بہت سے معارف پر عبور اور بہت سے ادبی علوم (منجملہ لغت، نحو اور معانی و بیان)، اور قرآنی علوم (منجملہ ناسخ منسوخ اور محکم و متشابہ نیز اسباب نزول کی شناخت)، اور شرعی علوم اور فقہ کے اصول و مبادی پر مکمل احاطہ رکھنا، ضروری ہے؛ تاکہ مثلاً محقق جان لے کہ قرآن میں آیا ہوا ہر امر (حکم) وجود پر دلالت نہیں کرتا اور ہر وجوب لفظ امر کے واسطے سے بیان نہیں ہوتا۔ اور کبھی حتی نہی، نفی کے سانچے میں آتی ہے اور خبر، انشاء کی جانشین ہوتی ہے۔ عملی طور پر اگر کوئی درجۂ اجتہاد پر فائز نہ ہوا ہو یا کم از کم قریب الاجتہاد نہ ہو، تو قرآن سے اس کا فقہی استنباط علمی استحکام و اعتبار نہیں رکھتا؛ یہی بات ہے کہ ظواہر قرآن کی حجیت کو آسانی سے قبول نہیں کیا جاسکتا؛ اور ظواہر قرآن کی حجیت میں یہ تردد اخباریون کے موقف کی تائید یا تقویت کے مترادف نہیں ہے ـ جو کتاب کو سنت کی شرط پر اور صرف و صرف سنت کے واسطے سے قابل فہم سمجھتے ہیں؛ اور اس حقیقت سے غافل ہیں کہ ائمۂ اطہار علیہم السلام نے قرآن کو اپنے اقوال کی صداقت کا معیار و میزان سمجھتے ہیں؛ ـ بلکہ ہمارا مقصد و مطلب اصولیون کے موقف کی تائید اور اجتہاد کی ضرورت و اہمیت بیان کرنا ہے۔ مختصر یہ کہ فقہاء اور قرآنی محققین نے کہا ہے کہ گوکہ قرآن "قطعی الصدور" ہے لیکن "ظنی الدلالہ"[121] تمام اسلامی مذاہب کے فقہاء اور قرآن کے فقہی محققین نے فقہ القرآن اور احکام القرآن کے موضوع پر متعدد کتب تالیف کی ہیں۔[122]

قرآن کا ترجمہ

ترجمۂ قرآن کے جواز کے سلسلے میں اسلامی مذاہب کے علماء اور فقہاء کے درمیان بحث و مباحثہ اور اختلاف رائے صدیوں تک جاری تھا اور چونکہ اہل سنت کے ائمۂ اربعہ کے اکثر فقہاء (سوا ابو حنیفہ کے جنہوں نے ابتداء میں جواز کا فتوی دیا تھا اور بعد میں جواز کو عربی سے ناواقفیت سے مشروط کردیا) نے فتوی دیا ہے کہ سورہ فاتحہ نماز میں عربی کے سوا کسی دوسری زبان میں پڑھنا، جائز نہیں ہے؛ لہذا بعض نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اصولی طور پر قرآن کا کسی بھی زبان میں ترجمہ، جائز نہیں ہے۔ اس کے باوجود ترجمۂ قرآن کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ اور مشہور ہے کہ حضرت سلمان فارسی نے بسملہ کا فارسی میں یوں ترجمہ کیا تھا: "بہ نام یزدان بخشایندہ"۔[123] اس سلسلے میں ایک اہم قول موجود ہے۔ سرخسی اپنے کتاب "المبسوط"[124] میں لکھتے ہیں: "اہلیان فارس نے سلمان فارسی کو خط لکھا کہ فاتحہ کو ان کے لئے فارسی میں تحریر کریں؛ چنانچہ انھوں نے فاتحہ کو فارسی میں لکھا۔ اس کے بعد اہلیان فارس سلمان کے نوشتے کو نماز میں پڑھتے تھے حتی کہ ان کی زبان نرم [ہوکر عربی تلفظ کے لئے آمادہ] ہوئی۔ سلمان فارسی نے اس بات کی خبر رسول اللہ(ص) کو پہنچادی تو آپ(ص) نے کوئی انکار نہيں فرمایا"۔ عبداللطیف طیباوی (1910-1981عیسوی) نے نے "احکام ترجمة القرآن الکریم و تاریخها" کے عنوان کے تحت ایک مقالہ تحریر کیا ہے۔[125] طیباوی سرخسی کی روایت پر تاریخی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ "ایرانی رسول اللہ(ص) کے دور میں مسلمان نہيں ہوئے تھے چنانچہ ان کے لئے اس طرح کی کوئی مشکل پیش نہیں آئی تھی" اور یوں اس قول کو رد کرتے ہیں۔ محمد حمید اللہ جنہوں نے اسی مجلے میں طیباوی کے مقالے پر کچھ استدراکات[126] تحریر کئے ہیں، طیباوی کی نقد و جرح کو رد کرتے ہیں اور کہتے ہیں: "روایات میں "بلاد فارس" کا ذکر نہيں ہوا بلکہ "قومٌ مِنَ الفُرسِ" (فارسی بولنے والوں کی ایک جماعت) کا ذکر آیا ہے اور صحابہ اور یمن کے باشندوں میں مسلم ایرانیوں کی کافی تعداد تھی۔[127]

ابو حنیفہ پہلے مشہور فقیہ ہیں جنہوں نے نماز میں فارسی قرائت کے جواز کا فتوی دیا ہے اور ان کی رائے کی بنیاد پر ان کے بعض اصحاب نے نماز میں قرآن کے ترکی، ہندی، سریانی اور عبری وغیرہ جیسی زبانوں میں تراجم کے جواز کے فتاوی جاری کئے۔ ابو یوسف اور الشیبانی جو ابو حنیفہ کے معاصرین میں سے تھے، نے ان کی مخالفت کرتے ہوئے فارسی میں قرائت قرآن کا جواز ایسے افراد سے مشروط کیا جو عربی زبان سے واقف نہیں ہیں۔ بعض محققین کا کہنا ہے کہ ابو حنیفہ بعد میں اپنے فتوے سے پلٹ گئے تھے۔[128] قدماء میں سے السیوطی اور معاصرین میں محمد رشید رضا، تفسیر المنار میں[129] اس حکم سے ابو حنیفہ کے پلٹنے کے قائل ہوئے ہیں۔ گویا ابو حنیفہ کے پیروکاروں نے ـ نہ ماضی میں اور نہ ہی حال میں ـ ان کے اس فتوے پر عمل نہيں کیا ہے اور اپنی نمازیں عربی میں پڑھتے رہے ہیں۔ ترجمۂ قرآن کے جواز کے قائلین کی قوی ترین دلیل قرآن مجید کی آیت کریمہ ہے کہ: "لاَ يُكَلِّفُ اللّهُ نَفْساً إِلاَّ وُسْعَهَا[130] اس کے باوجود شافعی نے فتوی دیا ہے کہ "قرائت قرآن عربی زبان کے سوا کسی دوسری زبان میں جائز نہیں ہے، کیونکہ عربی میں نازل ہوا ہے اور اور دوسری زبان میں اور ترجمے میں یہ مزید قرآن نہیں ہوگا؛ اور قرآن کا اعجاز [اور معجزہ ہونا] اس کے عربی میں ہونے پر موقوف ہے اور جب اس کا دوسری زبان میں ترجمہ کیا جائے تو اس کی صفت اعجاز ختم ہوکر رہ جاتی ہے؛ تاہم جو عربی کی قرائت [اور عربی کو پڑھنے] سے عاجز ہو، اس کو نماز میں قرآنی سورتوں کے بجائے تسبیح (سبحان اللہ) اور تہلیل (لا الہ الا اللہ) پر اکتفا کرنا چاہئے۔ جاحظ کا کہنا ہے کہ عربی شاعری کا دوسری زبان میں ترجمہ ممکن نہیں ہے کیونکہ جب عربی حکمت غیر عرب زبان میں منتقل ہوجائے تو اس کا اعجاز اور ہنر برباد ہوکر رہ جاتا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ قرآن کا ترجمہ عربی اشعار کے ترجمے سے بھی زیادہ دشوار ہے اور اس کا خطرہ عظیم تر ہے۔[131]

شیعہ علماء ـ سوائے نماز کے ـ ہمیشہ قرآن کے دوسری زبانوں میں تراجم اور ان کے جواز حتی ضرورت پر تاکید کرتے آئے ہیں۔[132]

قرآنی علوم

علوم قرآنی ایک اصطلاح ہے جو نسبتاً تازہ اور جدید ہے گوکہ اس کا مصداق قدیم اور اس کی تاریخ، قرآن جتنی پرانی ہے اور علوم قرآنی سے مراد وہ علوم ہیں جن کا محور اور مرکزہ قرآن ہے اور یہ علوم قرآن کے مدار میں ہی پروان چڑھے اور پھلے پھولے ہیں اور ان کا ہدف و مقصد یہ ہے کہ قرآن کی تاریخ، تفسیر، ظاہری صورت، مفاہیم و مضامین اور تفسیر و تاویل کی شناخت ممکن ہوسکے اور شرعی علوم اور دینی تعلیمات و معارف میں قرآن سے بہترین انداز سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔ درج ذیل قرآنی علوم کے زمرے میں آتے ہیں:

  1. تاریخ قرآن
  2. علم تفسیر
  3. [[علم قرائت|علم قرأت]، تجوید اور ترتیل
  4. رسم عثمانی کا علم؛ یعنی قرآن کے پرانے اور ثابت رسم الخط کی کیفیت و املا کا علم
  5. اعجاز قرآن کا علم
  6. اسباب نزول کا علم
  7. ناسخ و منسوخ کا علم
  8. محکم و متشابہ کا علم
  9. مکی و مدنی کی شناخت کا علم
  10. علم اعراب
  11. غریب القرآن، مفردات قرآن اور وجوہ و نظائر قرآن کا علم (اصطلاحات و الفاظ کی شناخت)
  12. قصص قرآن کا علم
  13. فقہ قرآن یا احکام القرآن

شاید ترجمۂ قرآن کو علم تفسیر کے ملحقات میں شمار کیا جاسکے۔

علوم قرآنی کا پس منظر بہت قدیم ہے اور بعض قرآنی علوم ـ جو عام طور پر نقلی ہیں اور حدیث پر مبنی ہیں جیسے ناسخ و منسوخ کا علم، اسباب النزول کا علم ـ علم حدیث اور معصومین علیہم السلام سے مروی احادیث جتنے پرانے ہیں؛ تاہم رسم عثمانی کا علم عثمانی جمع و تدوین اور قرآن کے باضآبطہ نسخے (مصحف امام یا مصحف عثمانی کی تیاری) کے زمانے سے تعلق رکھتا ہے اور بہت سے مسلم فقہاء نے اس رسم کی تبدیلی کو شرعی لحاظ سے جائز قرار نہيں دیا ہے اور موجودہ زمانے میں عالم اسلام کا باضآبطہ قرآنی نسخہ ـ عصر جدید میں قدیمی منابع و ذرائع کے سہارے چھپ کر شائع ہوا ہے ـ اسی رسم یا عثمانی رسم الخط کی بنیاد پر استوار ہے۔ ظاہر ہے کہ اس رسم الخط اور موجودہ زمانے کے عربی اور فارسی رسم الخط میں کئی حوالوں سے فرق پایا جاتا ہے؛ اور فارسی [اور اردو پڑھنے والوں] کے لئے ـ خواہ وہ پڑھے لکھے کیوں نہ ہوں ـ یہ رسم الخط پڑھنے میں کافی مشکل ہے کیونکہ عثمانی رسم میں بہت سے الفاظ پر "الف" درج نہيں کیا جاتا مثلاً "سلطان" کو "سلطن" لکھا جاتا ہے (جس کے حرف "ط" پر چھوٹا الف یا کھڑا زبر درج کیا جاتا ہے)، اور "یا نوح" کے بجائے "ینوح" ("ی" پر کھڑے زبر کے ساتھ) لکھا جاتا ہے تاہم وہی لوگ حق بجانب ہیں جو رسم عثمانی کو معیار و پیمانہ سمجھتے ہیں کیونکہ مختلف قسم کے زبانی اور زبان شناسانہ مکاتب کے تفکرات اور سلائق اور ذائقوں کی بنیاد پر املائی اصلاحات یا رسم الخط میں اصلاح و تصحیح کا سلسلہ کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے اور اصولی طور پر ہم جو بھی کریں اور جو بھی تدبیر کریں صحیح قرآن خوانی کے لئے خاص قسم کی تعلیم کی ضرورت ہے اور صرف قرآن خوانی کے لئے صرف تعلیم یافتہ اور مہذب ہونا کافی نہیں ہے۔[133]

علم قرأت اور قرائتوں کے اختلاف کی شناخت کے علم کا پس منظر صدر اول اور عصر نبوی و عصر صحابہ سے تعلق رکھتا ہے۔ لیکن علم اعجاز قرآن اور اعراب قرآن جیسے علوم کا زمانہ علم قرائت کی نسبت مؤخر ہے۔ زرقانی لکھتے ہیں: علوم القرآن میں سب سے پہلے تالیف ہونے والی کاوش "البرهان فی علوم القرآن ہے جس کے مؤلف کا نام علی بن ابراہیم بن سعید المعروف الحوفی (متوفّی' 330ہجری) ہے۔ یہ کتاب 30 مجلدات پر مشتمل تھی اور اس کا 15 مجلدات پر مشتمل نسخہ مصر کے دارالکتب میں محفوظ ہے۔ قرآنی علوم کے سلسلے میں لکھی گئی کتب ـ جو مذکورہ تمام یا اکثر قرآنی علوم و فنون پر مشتمل ہیں ـ میں سے بعض کچھ یوں ہیں:

جدید دور میں بھی عالم اسلام میں علوم القرآن کے ضمن ميں کئی عمدہ اور قابل توجہ کتب شائع ہوئی ہیں جن میں اہم ترین کاوشیں درج ذیل ہیں:

قرآن کی طباعت

قرآن کی طباعت کی تاریخ یورپ اور دنیا میں طباعت کے رواج کی تاریخ جتنی پرانی ہے [جبکہ عربی زبان میں کسی بھی متن کی طباعت سلطنت عثمانیہ کی حدود میں ممنوع تھا اور اس کے لئے (1483 سے 1729 عیسوی تک) سزائے موت مقرر تھی]۔ قرآن کا عربی متن سب سے پہلے "پاگانینو پاگانینی (Paganino Paganini) آلیساندرو پاگانینی (Alessandro Paganini) نے 1503 سے 1523 عیسوی (اور بقولے 1537 سے 1538 عیسوی) کے اٹلی کے شہر ونیس (Venice) دوران زیور طبع سے آراستہ کیا ہے۔[135] اور اس زمانے میں قرآن کے تمام مطبوعہ نسخے "پوپ جولیوس 2" (Pope Julius II) کے حکم پر جمع کرکے نابود کئے گئے۔ اس کے بعد ابراہام ہنکلمین نے سنہ 1694عیسوی میں جرمن شہر ہیمبرگ سے طباعت قرآن کا اہتمام کیا۔ یورپ میں چھپنے والا معتبر ترین اور صحیح ترین قرآنی نسخہ "گوستاو فلوگل" کا تھا جو انھوں نے سنہ 1834 میں جرمن شہر "لیپزگ" سے شائع کیا۔ اٹلی اور جرمنی کے علاوہ سب سے پہلے قرآن کا متن مسلمانوں کے لئے 1787 میں روس کے شہر سینٹ پیٹرز برگ سے شائع ہوا۔[136]۔[137]

ایران میں قرآن کی سب سے پہلی طباعت کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض محققین کا کہنا ہے کہ قرآن کریم ایران میں پہلی بار سنہ 1242 ہجری (1827عیسوی) میں شہر تبریز میں زیور طبع سے آراستہ ہوا(اور بقولے ایران میں قرآن کی طباعت 1828عیسوی[138][139] اور بعض محققین نے کہا ہے کہ [ایران میں] قرآن کی پہلی طباعت کا کام 1246 ہجری کو انجام پایا ہے۔[140]

قرآن کریم کی طباعت میں اہم نقطۂ عود (اور نقطۂ عروج) قاہرہ کی علمی اور منقح و مہذب طباعت ہے۔ صبحی صالح لکھتے ہیں: "قاہرہ میں سنہ 1342ہجری/بمطابق1923عیسوی کو الازہر کے مشائخ کے زیر نگرانی اور ملک فؤاد اول کے تعیین کردہ بورڈ کے زیر اہتمام، قرآن مجید کی نہایت حسین و جمیل طباعت و اشاعت انجام پائی۔ یہ مصحف حفص کی روایت اور عاصم کی قرائت کے مطابق تدوین ہوا تھا اور عالم اسلام نے اس کا زبردست خیر مقدم کیا"۔[141] یوں "مصحف قاہرہ" شام کے نامور خُوش نَويس عثمان طٰہٰ کی کتابت کی بنیاد ٹہرا اور شام ميں وسیع سطح پر شائع ہوا؛ اور اس کے بعد پندرہویں صدی ہجری کے آغاز میں "ملک فہد کمپلیکس برائے طباعت مصحف شریف، مدینہ منورہ" [142] نے قرآن شناس علماء کا ایک بورڈ متعین کرکے بہت زیادہ باریک بینیوں کے بعد عثمان طٰہٰ کے کتابت کردہ مصحف کو ـ جو درحقیقت وہی "مصحف قاہرہ ہی ہے ـ بہترین فنی اور جدید ترین وسائل کی مدد سے بہترین روش سے طبع کیا اور طباعت کا یہ سلسلہ جاری ہے اور ہر سال قرآن کریم کے 20 لاکھ نسخے اس ادارے کے توسط سے طباعت و اشاعت کے مراحل سے گذر کر دنیا بھر کے حجاج کرام اور دینی اداروں میں بانٹ دیئے جاتے ہیں۔ یوں یہ مصحف عثمانی رسم الخط کے مطابق لکھا گیا ہے اور خوش قسمتی سے اس کی قرائت (جو حفص کی قرائت ہے اور اس کے راوی عاصم ہیں) امامیہ کے نزدیک بھی قابل قبول ہے اور شیعہ امامیہ اس سے استناد کرتے چلے آئے ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ یہ نسخہ دنیا بھر میں مقبول عام و خاص واقع ہوا ہے اور اس کو عالم اسلام کا رسمی اور تسلیم شدہ نسخہ قرار دیا جاسکتا ہے اور یہ امر پوری دنیا میں شیعہ سنی اتحاد و ائتلاف]] میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔[143]

قرآن تحقیق و مطالعہ کے مآخذ

الف) لغات قرآن

"لسان العرب" اور اس سے قبل شائع ہونے والے سے لے کر "المعجم الوسیط" اور اس کے بعد شائع ہونے والے لغت ناموں تک، اکثر عربی لغت نامے، سب کے سب قرآن کے مفردات اور ترکیبات کے نمونوں پر مشتمل ہیں۔ ان عمومی مآخذ کے علاوہ، قرآن کے خاص لغتنامے بھی صدر اول ہی سے مدون ہوتے آئے ہیں۔ قدیم ترین قرآنی لغت نامہ "مسائل نافع بن الأزرق" (یعنی ابن عباس سے نافع بن ازرق کے لغوی سوالات) ہے جو پورا کا پورا "عبدالرحمن سیوطی" کی کتاب "ﺍﻹﺗﻘﺎﻥ ﻓﻲ ﻋﻠﻮﻡ ﺍﻟﻘﺮﺁﻥ" میں درج ہوا ہے۔[144] ان لغات کی دوسری روایت وہی ہے جو "معجم غریب القرآن" ہے جو صحیح بخاری سے استخراج ہوکر طبع ہوئی ہے اور تقریبا ان ہی اصطلاحات کو ابن عباس سے "ابن ابی طلحہ" کے توسط سے نقل کرتی ہے۔ قرآن کے دوسرے لغت ناموں میں درج ذیل لغت نامے قابل ذیکر ہیں:

"ابوعبید معمر بن مثنیٰ" (متوفٰی سنہ 210ہجری) کی کتاب "مجاز القرآن" (جو درحقیقت لغتنامے سے زیادہ وسیع ہے اور دشوار عبارات و ترکیبات کی وضاحت بھی کرتی ہے)؛ * "ابن قتیبہٰ" (متوفٰی سنہ 276ہجری) کی کتابیں "تاویل مشکل القرآن اور تفسیر غریب القرآن۔ مذکورہ لغت ناموں کے بعد مفرداتِ راغب اصفہانی (متوفٰی سنہ 410ہجری) کی باری آتی ہے جس کا مکمل نام معجم مفردات الفاظ القرآن ہے۔ بعض دوسرے لغت ناموں میں "دامغانی" کی قاموس القرآن، اور "ابو الفضل‌ حبيش‌ ‌بن‌ ابراهيم‌ تفليسي‌" کی کتاب "وجوہ القرآن" ـ جو لسان التنزیل (مجہول المؤلف) اور میر سید علی جرجانی کی کتاب "ترجمان القرآن" کی طرح ـ عربی ـ فارسی لغنتامہ ہے۔ شیعہ مؤلفین میں سے شیخ فخر الدين الطریحی (متوفى 1085ہجری) کی کتاب مجمع البحرین ـ جو قرآن و حدیث کا لغت نامہ ہے ـ نیز ان ہی کی کتاب "تفسیر غریب القرآن معتبر ہیں۔ عصر جدید میں شیعہ مؤلفین کے سید علی اکبر قرشی (ولادت 1928عیسوی) کی سات مجلدات پر مشتمل، قاموس قرآن اور مرحوم علامه میرزا حسن مصطفوی 1426- 1334 ہجری) کی 14 مجلدات پر مشتمل کتاب التحقیق فی کلمات القرآن الکریم خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

ب) قرآنی موسوعات اور دوائر المعارف

  1. الموسوعۃ القرآنیۃ، تجمیع و تصنیف: ابراہیم الابیاری (11 مجلد، 1405ہجری)؛
  2. دائرة الفرائد در فرہنگ قرآن، سید محمد باقر محقق.

ج) فہارسِ قرآن

قرآنی فہرستیں دو قسموں پر منقسم ہیں: یا وہ لفظی ہیں یا موضوعی۔ لفظی فہرست سے مراد ـ یعنی کلمات قرآنی کی فہرست ـ کو کشاف الآیات (یا کشف الآیات) بھی کہا گیا ہے جن کی تدوین کی تاریخ تین سے چار صدیوں تک پرانی ہے۔ کشف الآیات ـ جس کے ذریعے آیات کو ڈھونڈا جاتا ہے ـ فنی لحاظ سے کشف الکلمات (یا لفظ نما (= Concordance) سے مختلف ہے؛ کیونکہ اول الذکر آیت کا کچھ حصہ ذکر کرکے اس کو ڈھونڈ لیتا ہے، صرف کلیدی الفاظ کو فہرست کی صورت میں مرتب کرتا ہے اور غیر کلیدی الفاظ (جیسے الذی اور الذین تک) کو نظر انداز کرتا ہے جبکہ مؤخر الذکر تمام قرآنی الفاظ (حتی واو تک) پر مشتمل فہرست فراہم کرتا ہے۔ تاہم خواہ ناخواہ ان کے درمیان کچھ اشتراکات اور ساخت کے لحاظ سے بعض شباہتیں موجود ہیں:۔

  • قرآن کریم کے اہم ترین کواشف الکلمات میں سے ایک، جرمن مستشرق اور قرآنی محقق "گوستاو فلوگل" (1802ـ1870 عیسوی) کا کشف الکلمات ہے جس کو انھوں اپنے تصحیح کردہ قرآن کریم کے ہمراہ شائع کیا ہے۔ [ان کے قرآن کو یورپ میں شائع ہونے والے قرآن کا بہترین اور صحیح ترین نسخہ قرار دیا گیا ہے۔
  • جدید دور میں قرآنی مطالعات کے نامور محقق اور فارسی زبان میں بہترین "تاریخ قرآن" کے مؤلف مرحوم ڈاکٹر محمود رامیار (1922-1984) نے "فہرست الفاظ" (یا فہرست کلمات) تدوین کی جو کشف الآیات کی طرف "ابجدی" (اور الفبائی) ہے۔ اس کاوش کی الفبائی ترتیب الفاظ و کلمات کے ظواہر سے مطابقت رکھتی ہے نہ کہ مادۂ الفاظ سے۔ چنانچہ یہ فارسی دانوں [اور حقیقی معنوں میں اردو پڑھنے والوں] کو زیادہ آسان طریقے سے کلمات قرآنی تک پہنچا دیتی ہے۔ یہ کتاب مصطفی نظیف (قدرغه‌لی) کے کتابت کردہ قرآنی نسخے کے ہمراہ سنہ 1966 (لگ بھگ) شائع ہوئی ہے؛ بعنوان: "قرآن مبین و فہارس القرآن).
  • مشہور ترین اور معروف ترین کشف الآیات محمد فؤاد عبد الباقی (1882-1967عیسوی) کی کتاب المعجم المفهرس لالفاظ القرآن الکریم، ہے جس میں قرآن کے کلیدی الفاظ و کلمات کو بمع "مادہ" (اور جڑ) کے الفبائی ترتیب سے ـ آیات کے کچھ حصے کے ہمراہ ـ مرتب کیا گیا ہے۔ یہ حجم و ضخامت کے لحاظ سے ہلکی اور افادیت کے لحاظ سے بہت گرانقدر کتاب ہے۔ واضح رہے کہ اس کتاب کے مطابق آیات کی تعداد ملک فؤاد کے قرآن (=مصحف قاہرہ) کے عین مطابق ہے اور (چونکہ مصحف مدینہ، درحقیقت مصحف قاہرہ کی نقل ہے لہذا) مصحف مدینہ کے ساتھ بھی مطابقت رکھتی ہے۔
  • اس سلسلے میں تازہ ترین حصول یابی قرآن کریم کا تین مجلدات پر مشتمل شماریاتی لغت نامہ "المعجم الاحصائی لالفاظ القرآن الکریم" جس کے مؤلف "ڈاکٹر سید محمود روحانی" ہیں۔ یہ لغت نامہ ظاہری الفاظ کی بنیاد پر الفبائی ترتیب سے مدون کیا گیا ہے ( اور الفاظ کا مادہ مد نظر نہیں رکھا گیا ہے)۔

قرآن کریم کی بعض موضوع فہرستوں کو "فہرس المطالب"، یا "کشف المطالب" یا "تفصیل الآیات" کے نام سے تدوین کیا گیا ہے۔

د) مطالعہ قرآنی کی کاوشوں کی فہرست اور قرآنی کتابیات

تحقیق کے مفید ترین اور ضروری ترین اوزاروں میں سے ایک کتابیات اور فہرستیں ہیں جن میں قرآنی مطالعات و تحقیقات کے سلسلے میں مکتوبہ و مطبوعہ کاوشوں اور آثار کی فہرستیں ثبت و درج ہوئی ہیں۔ فہرست ابن ندیم، حاجی خلیفہ کی کشف الظنون اور آقا بزرگ طہرانی کی کاوش الذریعہ میں سینکڑوں قرآنی کاوشوں کو فہرست وار ـ مگر غیر منظم انداز سے، متعلقہ عناوین یا موضوعات کے ذیل میں ـ متعارف کرایا گیا ہے؛ جیسا کہ الذریعہ میں لفظ "تفسیر" کے ذیل میں 340 شیعہ تفاسیر کا تعارف کرایا گیا ہے؛ چنانچہ مستقل و منفرد کاوش کی حیثیپ سے قرآنی کتابیات شناسی کا کام ـ جس میں صرف قرآنی کاوشوں کا تعارف کرایا گیا ہو ـ نئے زمانے کی تخلیق ہے۔ بعض کتب خانوں اور بعض عام کتابیات کے ضمن میں قرآن مطالعات کے سلسلے میں معرض وجود میں آنے والی بہت سی کاوشوں کو ثبت کیا گیا ہے۔ ان فہرستوں میں اہم ترین اور بامعنی ترین فہارس کتب درج ذیل ہیں:

  1. تاريخ التراث العربي. تالیف: فؤاد سرگین، ج1۔
  2. فارسی کے قلمی نسخوں کی فہرست، بقلم احمد منزوی(تہران، 1348ہجری شمسی) ج1/1ـ1310 میں قرآنی مطالعات کے حوالے سے 1151 تالیفات کا تعارف کرایا گیا ہے۔
  3. "فهرس مخطوطات دارالکتب الظاهریة، وضع و تدوین صلاح محمد الخیمی (دمشق، 1404ـ1405ہجری)، اس کتب ظاہریہ کی طویل فہرست پیش کرنے والی اس تفصیلی فہرست نامے کی تین جلدوں کو قرآنی کتب و تالیفات کے لئے مختص کیا گیا ہے۔
  4. ادبیات فارسی، سی اے اسٹوری (1888-1967) کی تالیف کی بنیاد پر۔ ترجمہ یو اے برگل،۔ ترجمہ یحی آرین پور و دیگر۔ تحریر احمد منزوی (تہران 1362 ہجری شمسی)۔ (واضح رہے کہ یہاں ادبیات سے ادبی فن و ہنر نہیں بلکہ منابع و مآخذ اور متون مراد ہیں)۔
  5. اسلامی جمہوریہ ایران کے کتب خانوں میں موجودہ عربی زبانی کے قلمی نسخوں کی موضوعی فہرست، علوم قرآنی، حصہ اول: قرائت و تجوید۔ تالیف: سید محمد باقر حجتی، (تهران، 1370ہجری شمسی)۔

نیز قرآنی کتابیات یا کتاب شناسی کے سلسلے میں عصر جدید میں بھی بعض کوششیں ہوئی ہیں جن میں اہم ترین درج ذیل ہیں:

  1. "معجم مصنفات القرآن الکریم"، تدوین شواخ اسحق (4 مجلدات، الریاض، 1403ہجری).
  2. "معجم الدراسات القرآنیة"، جو ہر زبان میں لکھی گئی کتب، مقالات و مضامین کے تقریبا 20000 مطبوعہ و غیر مطبوعہ (قلمی) نسخوں پر مشتمل ہے۔ یہ کاوش "عبدالجبار الرفاعی" کی ہے جس کے دو مجلدات ایران کے "قرآن کے ثقافتی اور تعلیمی مرکز" کی جانب سے 1990 کے عشرے کے نصف اول میں زیور طبع سے آراستہ ہوئے ہیں اور باقی مجلدات کی طباعت جاری ہے۔
  3. معجم الدراسات القرآنیة عندالشیعة الامامیة، تالیف: عامر الحلو۔
  4. جامع ترین اور اہم ترین کتابیاتی مجموعوں میں سے ایک "محمد حسن بکائی کا "کتابنامہ بزرگ قرآن کریم" (قرآن کریم کا بڑا کتاب نامہ) ہے۔ جو شائع ہوچکا ہے۔ علاوہ ازیں اردو میں بھی قرآنی کتابیات کے سلسلے میں ایک مجموعہ شائع ہوا ہے [جس کا نام و نشان مضمون ہذا کے فارسی متن میں مذکور نہ تھا]۔

متعلقہ مآخذ

حوالہ جات

  1. مصباح یزدی، قرآن‌شناسی، ۱۳۸۹، ج۱، ص۱۱۵-۱۲۲.
  2. میرمحمدی زرندی، تاریخ و علوم قرآن، ۱۳۶۳ش، ص۴۴؛ مصباح یزدی، قرآن‌شناسی، ۱۳۸۹، ج۱، ص۱۲۳.
  3. قرآن، سورہ شورا، آیت۵۱.
  4. قرآن، بقره، ۹۷.
  5. میرمحمدی زرندی، تاریخ و علوم قرآن، ۱۳۶۳ش، ص۷.
  6. یوسفی غروی، علوم قرآنی، ۱۳۹۳ش، ص۴۶؛ معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ص۵۵و۵۶.
  7. قرآن، بقرہ، ۱۸۵؛ قدر، ۱.
  8. اسکندرلو، علوم قرآنی، ۱۳۷۹ش، ص۴۱.
  9. مصباح یزدی، قرآن‌شناسی، ۱۳۸۹، ج۱، ص۱۳۹؛ اسکندرلو، علوم قرآنی، ۱۳۷۹ش، ص۴۱.
  10. اسکندرلو، علوم قرآنی، ۱۳۷۹ش، ص۴۲.
  11. اسکندرلو، علوم قرآنی، ۱۳۷۹ش، ص۴۲و۴۹.
  12. سورہ فرقان،آیت 1۔
  13. سورہ انبیاء، آیت 50۔
  14. سورہ شعراء، آیت 192۔
  15. سورہ بقره، آیت 2؛ حجر، آیت 1۔
  16. سورہ توبہ، آیت 6؛ سورہ فتح، آیت 15۔
  17. سورہ "ق"، آیت 2؛ سورہ بروج، آیت 21۔
  18. سورہ حجر، آیت 78۔
  19. سورہ یس، آیت 2۔
  20. سورہ واقعہ آیت 77۔
  21. سورہ حجر، آیت 1۔
  22. خرمشاہی، دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ج2، ص 1631۔
  23. فرهنگ آماری کلمات قرآن کریم، دکتر محمود روحانی، ج 23/1؛ بحوالہ خرمشاهی، دانشنامه...، ج 2، ص 1631۔
  24. تاریخ قرآن، رامیار، 543؛ به نقل خرمشاهی، دانشنامه...، ج 2، ص 1631۔
  25. خرمشاهی، دانشنامه قرآن و قرآن پژوهی، ج2، ص 1631۔
  26. خرمشاهی، دانشنامه قرآن و قرآن پژوهی، ج2، ص 1631-1632۔
  27. خرمشاهی، دانشنامه قرآن و قرآن پژوهی، ج2، ص1632۔
  28. سورہ بقرہ آیت 155: اللّهُ لاَ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ لاَ تَأْخُذُهُ سِنَةٌ...۔
  29. سورہ نور آیت 35: اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ...۔
  30. سورہ بقرہ آیت 282: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوهُ...۔
  31. سورہ رحمن آیات 1 و 64۔
  32. "آیۃ": سورہ بقرہ، آیت 106؛ سورہ نحل، آیت 101؛ "آیات": سورہ بقره، آیت 252؛ سورہ آل عمران، آیت 7؛ سورہ یوسف، آیت 1؛ سورہ نور، آیت 1۔
  33. تاریخ قرآن، رامیار، 570؛ به نقل خرمشاهی، دانشنامه...، ج 2، ص 1632۔
  34. منجملہ سورہ بقرہ کی آیت 23، سورہ توبہ کی آیت 64 اور 86 اور سورہ نور کی آیت 1۔
  35. سورہ ہود، آیت 13۔
  36. خرمشاہی، دانشنامہ...، ج2، ص1632۔
  37. بعض علماء و محققین قرآن کی تدوین و تجمیع کو مکمل طور پر توقیقی اور شارع مقدس کے عزم و فعل پر استوار سمجھتے ہیں: رجوع کریں: توقیفی بودن سوره های قرآن۔
  38. خرمشاهی، دانشنامه...، ج2، ص1632-1633۔
  39. خرمشاهی، دانشنامه قرآن و قرآن پژوهی، ج2، ص 1633۔
  40. خرمشاهی، دانشنامه قرآن و قرآن پژوهی، ج2، ص 1633۔
  41. طباطبائی، قرآن در اسلام، ص 76۔
  42. طباطبائی، قرآن در اسلام، ص 64۔
  43. تاریخ قرآن، ص 133؛ به نقل خرمشاهی، دانشنامه قرآن و قرآن پژوهی، ج2، ص 1633۔
  44. التمهید، ج 93/1-98؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج 2، ص 1634۔
  45. بحار الانوار، ج 253/18-254؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه، ج 2، ص 1634۔
  46. مقدمه نهم از تفسیر صافی؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج 2، ص 1634۔
  47. خرمشاهی، دانشنامه قرآن...، ج 2، ص 1634۔
  48. ترجمه اتقان، ج 200/1؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه قرآن و قرآن پژوهی، ج2، ص 1634۔
  49. تاریخ قرآن، رامیار، ص 211؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه قرآن و قرآن پژوهی، ج2، ص 1634۔
  50. تاریخ قرآن، رامیار، ص 213؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه قرآن و قرآن پژوهی، ج2، ص 1634۔
  51. تاریخ قرآن، رامیار، ص 255؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه قرآن و قرآن پژوهی، ج2، ص 1634۔
  52. تاریخ قرآن، رامیار، ص 280؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه قرآن و قرآن پژوهی، ج2، ص 1634۔
  53. تاریخ قرآن، رامیار، ص 281؛ نیز ترجمه اتقان، ج 201/1، 205؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه قرآن و قرآن پژوهی، ج2، ص 1634۔
  54. طباطبائی، قرآن در اسلام، ص113؛ السجستانی، کتاب المصاحف، ص16؛ سیوطی، الاتقان، ج1، ص161۔
  55. خرمشاهی، دانشنامه قرآن و قرآن پژوهی، ج2، ص1634۔
  56. خرمشاهی، دانشنامه قرآن و قرآن پژوهی، ج2، ص1635۔
  57. تاریخ قرآن، رامیار، ص423؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه قرآن و قرآن پژوهی، ج2، ص1635۔
  58. تاریخ قرآن، رامیار، ص407-431؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه قرآن و قرآن پژوهی، ج2، ص1635۔
  59. خرمشاهی، دانشنامه قرآن و قرآن پژوهی، ج2، ص1635۔
  60. رموز اوقاف :۔ تلاوت اور تجوید کی سہولت کے لیے مختلف قرآنی جملوں پر ایسے اشارے لکھ دیئۓ گئے جن سے یہ معلوم ہو سکے کہ اس جگہ وقف کرنا (سانس لینا) کیسا ہے؟ ان اشارات کو "رموزِ اوقاف" کہتے ہیں، اور ان کا مقصد یہ ہے کہ ایک غیر عربی داں انسان بھی جب تلاوت کرے تو صحیح مقام پر وقف کر سکے، اور غلط جگہ سانس توڑنے سے معنی میں کوئی تبدیلی پیدا نہ ہو، اس میں سے اکثر رموز سب سے پہلے ابوعبد اللہ محمد بن طیفور سجاوندی نے وضع کئے ہیں۔(النشری القر آت العشر ج1 ص225)۔
  61. عبد الله بن كثير المكي، نافع بن أبي نعيم المدني، عبد الله بن عامر الشامي، أبو عمرو بن العلاء البصري، عاصم، حمزة والكسائي جو سب کوفی تھے۔
  62. ابو جعفر، یعقوب اور خلف۔
  63. خرمشاهی، دانشنامه قرآن و قرآن پژوهی، ج2، ص1636۔
  64. خرمشاہی، دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ج2، ص1636-1637۔
  65. ترجمه اتقان، 46/1-47؛ مناهل العرفان، 186/1-187؛ تاریخ قرآن، رامیار، ص601-603؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه قرآن و قرآن پژوهی، ج2، ص1637۔
  66. التمهید، ج270/2؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه قرآن و قرآن پژوهی، ج2، ص1637۔
  67. مناهل العرفان، ج72/2؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه قرآن و قرآن پژوهی، ج2، ص1637۔
  68. تفسیر بیضاوی؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه قرآن و قرآن پژوهی، ج2، ص1637۔
  69. سورہ بقرت آیت 106۔
  70. سورہ نحل، آیت 101۔
  71. سورہ رعد آیت 39۔
  72. خرمشاهی، دانشنامه قرآن و قرآن پژوهی، ج2، ص1637۔
  73. خرمشاهی، دانشنامه قرآن و قرآن پژوهی، ج2، ص1637۔
  74. تبیان، ذیل تفسیر آیه 7 سورہ آل عمران؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه قرآن...، ج2، ص1637-1638۔
  75. التمهید، ج8/3؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه قرآن...، ج2، ص1638۔
  76. التمهید، ج14/3؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه قرآن...، ج2، ص1638۔
  77. سورہ آل عمران آیت 138۔
  78. سورہ ہود آیت 1۔
  79. سورہ زمر آیت 23۔
  80. التمهید، ج15/3؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه قرآن...، ج2، ص1638۔
  81. سورہ آل عمران آیت 7۔
  82. فصلت، 26: "وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَسْمَعُوا لِهَذَا الْقُرْآنِ وَالْغَوْا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُونَ"۔ ترجمہ: اور کہا ان لوگوں نے جو کافر ہیں کہ اس قرآن کی نہ سنو اور اس کے پڑھے جانے میں ادھر ادھر کی فضول باتیں کیا کرو، شاید تم فتح پاؤ۔
  83. سورہ مدثر، آیت 25: "إِنْ هَذَا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ"۔ ترجمہ: یہ انسانوں کا کلام نہیں ہے ۔۔
  84. سورہ انفال، آیت 31۔
  85. سورہ طور، آیات 33-34: "أَمْ يَقُولُونَ تَقَوَّلَهُ بَل لَّا يُؤْمِنُونَ ٭ فَلْيَأْتُوا بِحَدِيثٍ مِّثْلِهِ إِن كَانُوا صَادِقِينَ"۔ ترجمہ: یا وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اسے گھڑ لیا ہے؟ بلکہ وہ ایمان لانے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں ٭ تو پھر وہ ایسا ہی کلام لے آئیں، اگر وہ سچے ہیں۔
  86. سورہ ہود، آیات 13-14: "أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَأْتُواْ بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهِ مُفْتَرَيَاتٍ وَادْعُواْ مَنِ اسْتَطَعْتُم مِّن دُونِ اللّهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ٭ فَإِن لَّمْ يَسْتَجِيبُواْ لَكُمْ فَاعْلَمُواْ أَنَّمَا أُنزِلِ بِعِلْمِ اللّهِ وَأَن لاَّ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ فَهَلْ أَنتُم مُّسْلِمُونَ"۔
  87. بقره، 23-24؛ ترجمہ سید علی نقی نقوی(نقن)۔ "وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُواْ بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ وَادْعُواْ شُهَدَاءكُم مِّن دُونِ اللّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ ٭ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُواْ وَلَن تَفْعَلُواْ فَاتَّقُواْ النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِين"۔
  88. خرمشاهی، دانشنامه قرآن...، ج2، ص1638۔
  89. خرمشاهی، دانشنامه قرآن...، ج2، ص1638-1639۔
  90. خرمشاهی، دانشنامه قرآن...، ج2، ص1639۔
  91. سورہ نساء، آیت164: "وَكَلَّمَ اللّهُ مُوسى تَكليماً"۔ ترجمہ: اور اللہ نے موسیٰ سے کلام کیا جیسا کلام کرنے کا حق تھا۔۔
  92. "وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْياً أَوْ مِن وَرَاء حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولاً فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاء"۔ ترجمہ: اور کسی آدمی کے لیے یہ بات حاصل نہیں کہ اللہ اس سے بات کرے مگر بطور وحی یا پردے کے پیچھے سے یا کوئی فرشتہ بھیجے تو وہ اس کے حکم سے جو چاہے وحی پہنچائے۔
  93. جن صفات سے ہم اللہ کو متصف کرتے ہیں اور ان سے مراد ان کی متضاد صفات کی نفی ہوتی ہے وہی ہیں جو ازل سے ہیں اور قدیم ہیں اور انہیں ذاتی صفات کہا جاتا ہے جیسے: حق تعالى "سميع" [سننے والا]، "بصير" [ہر چیز کو دیکھنے والا چاہے اس چیز کا تعلق مستقبل سے ہو]، "حيّ" [زندہ جاوید]، "عليم" [ہرچيز سے آگاہ]، "حكيم" [ہرچیز پر دانا اور حکمت والا]، اور "قيّوم" [یعنی اپنی ذات پر قائم]، "واحد"، [یگانہ و یکتا]، اور "قديم" [بغیر کسی حد اور وقتی مبدء کے یعنی نہ تو وہ کسی چیز سے وجود میں آیا اور نہ ہی اس کے لئے کسی آغاز کا تصور ممکن ہے نیز بعض دوسری صفات] اور یہ سب اس کی ذات کی صفات ہیں۔ (رجوع کریں: اعتقادات شيخ صدوق مترجم: میر محمّد علی حسنی طباطبائی یزدی متوفی' 1240ہجری)۔ صفات ذاتی قدیم و صفات فعلی حادث؟۔
  94. اور ہم نہیں کہتے کہ اللہ ازل میں کام کرنے والا، کچھ کسی سے چاہنے والا اور خواہش کرنے والا اور خوشنود ہونے والا اور غضب کرنے والا اور روزی دینے والا اور بخشنے والا اور "کلام کرنے والا اور بولنے والا" [متکلم] تھا کیونکہ یہ اس کے افعال کی صفات ہیں اور حادث ہیں [یعنی وجود میں آئی ہیں] اور جائز نہیں ہے کہ انسان ازل میں ان صفات سے اللہ کے متصف ہونے کا قائل ہوجائے [کیونکہ اللہ کی مخلوقات میں سے کوئی بھی قدیم اور ازلی نہیں ہے؛ اور اگر انہیں قدیم سمجھا جائے تو یہ صفات جو صرف کسی شئ اور کسی مخلوق کی نسبت سے وجود میں آتی ہیں مہمل ہونگی۔ گوکہ اہل سنت کی اکثریت یعنی اشاعرہ قرآن کریم کے قدیم ہونے کے قائل ہیں اور ان کا یہ اعتقاد اس توہم پر استوار ہے کہ "تکلم اللہ کی ذاتی اور قدیم صفت ہے اور صفت فعلی نہيں ہے؛ [تکلم اور کلام صرف اس وقت ممکن ہے جب کوئی سننے والا اور وصول کرنے والا موجود ہو]۔ (وہی ماخذ)۔ ذاتی قدیم و صفات فعلی حادث؟۔
  95. سید ابوالقاسم خوئی، البیان، "حدوث القرآن وقِدَمُہُ"، ص432؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه قرآن، ج2، ص1639۔
  96. خرمشاهی، دانشنامه قرآن...، ج2، ص1639۔
  97. سورہ محمد(ص) آیت 24: "أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَى قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا"؛ (ترجمہ: تو کیا وہ قرآن میں غوروفکر سے کام نہیں لیتے یا کچھ دلوں پر ان کے قفل لگے ہوئے ہیں)۔
  98. سورہ زمر آیت 27: "وَلَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِي هَذَا الْقُرْآنِ مِن كُلِّ مَثَلٍ لَّعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ"۔ (ترجمہ: تو کیا پوچھنا اس کا جو اپنے کو بچائے عذاب کی برائی سے قیامت کے دن، اور کہا جائے گا ظالموں سے کہ چکھو اسے جو تم کرتوت کرتے تھے)۔
  99. سورہ شعراء آیات 192 تا 195: "وَإِنَّهُ لَتَنزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ ٭ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ ٭ عَلَى قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنذِرِينَ ٭ بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِينٍ"۔ ترجمہ: اور بلاشبہ یہ اسی پروردگار عالمیان کی طرف سے اتاری ہوئی چیز ہے ٭ جسے روح الامین نے آپ کے دل پر اتارا ٭ تاکہ آپ عذاب الٰہی سے ڈرانے والوں میں ہوں ٭ کھلی ہوئی عربی زبان میں)۔
  100. خرمشاهی، دانشنامه قرآن و قرآن پژوهی، ج2، ص1639۔
  101. فرقان، 32۔
  102. کمالی، سیدعلی، قانون تفسیر، ص27؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1639۔
  103. کمالی، سیدعلی، قانون تفسیر، ص46-47؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1640-1639۔
  104. زرقانی، مناهل العرفان، ج471/1؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1640۔
  105. زرقانی، مناهل العرفان، ج471/1؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1640۔
  106. "مَن عَمِلَ بِما يَعلَمُ وَرَّثَهُ اللَّهُ عِلمَ ما لَم يَعلَم"۔ الکلینی کی "الکافی" پر محمد باقر مجلسی کی توشیح: "مِرآةُ العُقول فی شرحِ أخبار آلِ الرَسول، ج3،ص286"۔
  107. ترجمه اتقان، ج570/2-572؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1640۔
  108. قاموس۔
  109. سورہ آل عمران آیت 7: "فَأَمَّا الَّذِينَ في قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاء الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاء تَأْوِيلِهِ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلاَّ اللّهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ"۔ سورہ نساء آیت 59: "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً"۔ اور دیگر آیات۔
  110. التمهید، ج28/3؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1640۔
  111. محمد هادی معرفت، التمهيد في علوم القرآن، ج30/3-31؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1640۔
  112. قانون تفسیر، ص31؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1640۔
  113. التفسیر و المفسرون، ج22/1؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1640۔
  114. خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1640۔
  115. خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1640۔
  116. النشر، ابن الجزری، ج209/1؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1640۔
  117. النشر، ابن الجزری، ج207/1؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1640۔
  118. اس تک اوپر جائیں: 118.0 118.1 118.2 خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1641۔
  119. جناتی، محمدابراهیم، منابع اجتهاد از دیدگاه مذاهب اسلامی، ص6؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1641۔
  120. جناتی، محمدابراهیم، منابع اجتهاد از دیدگاه مذاهب اسلامی، ص13، 14؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1641۔
  121. قران قطعی الصدور و ظنی الدلالہ ہے: وضاحت یہ کہ کسی چیز کے بارے میں انسان کی آگہی کی چار حالتیں ہیں: 1۔ یا قطع ہے یعنی 100٪ اطمینان بخش (قطع و یقین)، 2۔ یا ظنّ ہے یعنی اس میں 51٪ سے 99٪ اطمینان کا امکان ہے (احتمال قوی)، 3۔ یا شک ہے یعنی 50٪ تک اطمینان بخش اور 50٪ تک عدم اطمینان (احتمال مساوی)، 4۔ یا وہم ہے یعنی اس میں اطمینان بخشی کی صلاحیت 1٪ سے 49٪ تک ہے۔ (احتمال ضعیف)... قطع حجت اور نافذ العمل ہے، اور ظن کی دو قسموں مں سے ظن معتبر، حجت ہے اور ظن غیر معتبر حجت نہيں ہے؛ شک اور وہم بھی حجت نہیں ہیں۔ چنانچہ جب کہتے ہیں کہ "قرآن قطعی الصدور" ہے یعنی ہمیں 100٪ یقین ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے نازل ہوکر ہم تک آپہنچا ہے؛ اور جب کہتے ہیں کہ "قرآن ظنی الدلالہ" ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ قرآن کی بہت سی آیات کی دلالت ظنی ہے۔ (کیونکہ بہت سے آیات دوسری آیات کی ناسخ ہیں اور بہت سی آیات دوسری آیات کو تخصیص دیتی ہیں اور بہت سی مجمل ہیں...چنانچہ نہیں کہا جاسکتا تمام آیات کی دلالت 100٪ اور قطعی ہے؛ بلکہ بہت سی آیات کی دلالت ظنی ہے یعنی ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ فلاں آیت کے معنی 100٪ یہ یا وہ ہیں کیونکہ نسخ، یا تخصیص یا اجمال کا امکان پایا جاتا ہے)۔ رجوع کریں: پرتال تخصصی فقه و حقوق
  122. خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1642۔
  123. رامیار، تاریخ قرآن، ص653؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1642۔
  124. سرخسی، المبسوط، ط قاهره، 1324ق، 37/1؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1642۔
  125. مجلة مجمع اللغة العربیة بدمشق، المجلد 54، جزء 3، شعبان 1399ق/1979م، ص635-660۔
  126. مجلة مجمع اللغة العربیة بدمشق، المجلد 55، جزء 1، صفرالخیر 1400ق/1980م، ص362-365۔
  127. خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1642۔
  128. ر.ک:المرغینانی، علی، الهدایه فی الفروع، هند، 1302ق، ج86/1؛ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1642۔
  129. ج 313/9، 319-320۔
  130. سورہ بقرہ آیت 286: ترجمہ: اﷲ کسی پر اس کی طاقت سے بڑھ کر ذمہ داری عائد نہیں کرتا۔
  131. رجوع کریں: کتاب الحیوان، تحقیق عبدالسلام محمد هارون، قاهره، 1353ق، ج74/1-75؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه قرآن...، ج2، ص1643۔
  132. منجملہ دیکھئے: آیت اللہ سید ابوالقاسم خوئی کی رائے: تفسیر البیان، تعلیقة 5؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه قرآن...، ج2، ص1643۔
  133. خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1643۔
  134. خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1643-1644۔
  135. دائرة المعارف فارسی؛ صبحی صالح، کا کہنا ہے کہ پہلی طباعت 1538 عیسوی میں ہوئی ہے۔ بحوالۂ خرمشاهی، بهاء الدین، دانشنامه قرآن...، ج2، ص1646۔
  136. خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1644۔
  137. طباعت قرآن کی مختصر تاریخ
  138. طباعت قرآن کی مختصر تاریخ۔
  139. تاریخ جمع قرآن کریم، جلالی نایینی، 406؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1644۔
  140. "قرآنهای چاپی" تالیف کاظم مدیر شانه چی، مشکوة، شماره 2، ص135؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1644۔
  141. مباحث في علوم القرآن، ص100؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1644۔
  142. [King Fahd Complex for the Printing of the Holy Quran|مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف بالمدينة المنورة]۔
  143. خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1644۔
  144. متن اصلی، ج2/ 67ـ105۔

مآخذ

مذاہب اسلامی تفاسیر
شیعہ کی نگاہ میں تفسیر مجمع البیان (671 ھ) تفسیر جوامع الجامع (671 ھ) تفسیر تبیان (774 ھ) تفسیر المیزان (1402 ھ)
اہل سنت کی نگاہ میں تفسیر طبری (310 ھ) تفسیر ابن عطیہ (541 ھ) تفسیر قرطبی (671 ھ) تفسیر ابن کثیر (774 ھ) تفسیر جلالین (864ـ911 ھ)
شیعہ تفاسیر تفسیر ابو حمزه ثمالی، ابو حمزہ ثمالی (148 ھ) امام عسکری (ع) سے منسوب تفسیر (260 ھ) تفسیر عیاشی، محمد بن مسعود عیاشی (320 ھ) تفسیر قمی، علی بن ابراہیم قمی (329 ھ) تفسیر تبیان، شیخ طوسی (460 ھ) روض الجنان، ابو الفتوح رازی (535 ھ) مجمع البیان، فضل بن حسن طبرسی (548 ھ) الصافی فی تفسیر کلام اللہ الوافی، فیض کاشانی (1091 ھ) تفسیر نور الثقلین، عبد علی حویزی (1112 ھ) المیزان فی تفسیر القرآن، سید محمد حسین طباطبائی (1402 ھ) الامثل فی تفسیر کلام الله المنزل، ناصر مکارم شیرازی
اہل سنت کی تفسیریں تفسیر ابن عباس (68 ھ) تفسير ابن منذر (318 ھ) تفسير بغوي (510 ھ) تفسير ابن عطيہ (546 ھ) تفسير ابن جوزي (592 ھ) تفسير كبير فخر رازي (606 ھ) تفسير بيضاوي (685 ھ) تفسير ثعالبي (786 ھ) فسير نسفي (1310 ھ) فتح القدير (1250 ھ) تفسير السعدي (1956 ھ) التحرير والتنوير (1879-1972) في ظلال القرآن (1387 ھ) تفهيم القرآن (1903-1979) تدبر القرآن (1904–1997)
صوفیہ کی تفسیریں تفسیر تستری (283 ھ) تفسیر ابن عربی (558،668 ھ) تفسیر لطائف الاشارات (465 ھ)

تفسیر روح البیان (1127 ھ)

معتزلہ کی تفسیریں الکشاف (538 ھ)
علم تفسیر کی اصطلاحات اسباب نزول ناسخ و منسوخ محکم اور متشابہ تحدی اعجاز قرآن