عید میلاد النبی

ویکی شیعہ سے
(جشن میلاد پیغمبر سے رجوع مکرر)

عید میلاد النبی وہ جشن ہے جو پیغمبر اکرمؐ کی ولادت کے دن منایا جاتا ہے۔ شیعہ اور اہل سنت پیغمبر اکرمؐ کی ولادت کے دن جشن مناتے ہیں لیکن وہابیت اسے بدعت سمجھتی ہے کیونکہ پیغمبرؐ اور صحابہ کے زمانے میں اس طرح کے جشن نہیں منائے جاتے تھے۔ مسلمان دانشمندوں نے وہابیوں کے جواب میں کہا ہے کہ اگرچہ عصر پیغمبرؐ و صحابہ میں جشن نہیں منایا گیا لیکن شریعت میں اس کی کوئی ممانعت بھی نہیں آئی ہے لذا جشن میلاد النبیؐ منانا نہ فقط بدعت نہیں ہے بلکہ پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ اظہار محبت کے عنوان سے ایک مطلوب عمل ہے۔ اس کے علاوہ جشن میلاد النبی کے جواز کو قرآنی آیات اور قرآنی مفاہیم سے بھی ثابت کیا گیا ہے، جن میں پیغمبر اکرمؐ کی تکریم اور ان سے محبت کا حکم دیا ہے۔

چوتھی صدی ہجری سے مربوط تاریخی واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان پیغمبر اکرمؐ کی ولادت کے دن جشن منایا کرتے تھے۔ اسی طرح مکہ کے لوگ آپؐ کی ولادت کی سالگرہ کے موقع پر آپ کی جائے ولادت پر جمع ہو کر ذکر و دعا میں مشغول ہوتے اور آپؐ سے متبرک ہوتے تھے یہاں تک کہ آل سعود کے برسر اقتدار آنے کے بعد اس مکان کو مسمار کر دیا گیا۔

شیعہ حضرات 17 ربیع الاول اور اہل سنت حضرات 12 ربیع الاول کو پیغمبر اکرمؐ کا یوم ولادت مانتے ہیں۔ علمائے شیعہ اس دن صدقہ دینا، کار خیر انجام دینا، مؤمنین کو خوش کرنا جیسے امور کو مستحب سمجھتے ہیں۔ اہل سنت بھی اس دن تحفے دینے اور فقرا کو کھانا کھلانے کی تاکید کرتے ہیں۔ لہذا دنیا کے مختلف ممالک میں اس دن میلاد پیغمبرؐ کے سلسلہ میں جشن منایا جاتا ہے۔ اسی دن ایران، افغانستان، عراق، ہندوستان، پاکستان اور مصر میں سرکاری تعطیل ہوتی ہے۔

ملائشیا میں جشن عید میلاد النبی

اہمیت اور تاریخی حیثیت

جشن میلاد النبی، پیغمبر اکرمؐ کی ولادت کے روز منعقد کیا جاتا ہے۔ جشن میلاد النبی کا جائز یا بدعت ہونا مسلمانوں اور وہابیوں کے درمیان اختلافی موضوع ہے۔ مسلمانوں کے مطابق جشن میلاد النبی کو برپا کرنا جائز ہے۔ اس اعتبار سے مختلف مسلم ممالک میں میلاد النبی کے دن جشن منایا جاتا ہے۔[1] اسی طرح پیغمبر اکرمؐ کی ولادت کے دن بعض ممالک ایران،[2] ہندوستان،[3] پاکستان،[4] مصر[5] و...[6] سرکاری تعطیل ہوتی ہے۔ لیکن وہابی جشن میلاد النبی کو بدعت اور حرام سمجھتے ہیں۔[7]

آنحضرتؐ کے یوم ولادت منانے کی تاریخ چوتھی اور پانچویں صدی ہجری کی ہے۔ نویں صدی کے تاریخ نگار احمد علی مقریزی کے مطابق جشن میلاد النبی کا رواج مصر کے حکومت فاطمیان میں سنہ 297۔567 ہجری قمری میں شروع ہوا۔[8] تاریخی مآخذ کے مطابق صلاح الدین ایوبی کا کمانڈر اور اِربِل کا حاکم مظفر الدین کَوکُبری متوفی 630 ہجری، ربیع الاول کے مہینہ میں جشن میلاد النبی برپا کیا کرتا تھا۔[9]

جشن میلاد النبیؐ کے بدعت ہونے کا نظریہ

وہابی جشن میلاد النبیؐ کو بدعت سمجھتے ہیں۔[10] وہابیوں کے مفتی عبدالعزیز بن باز نے جشن میلاد النبیؐ منانے کو بدعت شمار کیا ہے۔[11] سلفی علما ایسے جشن میں شرکت، وہاں بیٹھنے اور شیرینی کھانے کو حرام قرار دیتے ہیں۔[12] بعض سلفی مصنفین نے جشن میلاد النبیؐ کے منعقد کرنے والے کو فاسق و بے دین کی نسبت کی دی۔[13] وہابیوں نے جشن میلاد النبیؐ کو بدعت قرار دینے کی دلیل یہ پیش کی ہے کہ یہ جشن پیغمبر اکرمؐ اور صحابہ کے زمانے میں نہیں منایا جاتا تھا۔[11]

پاکستان میں جشن عید میلاد النبی

شیعہ اور اہل سنت علما کا جواب

مخالفین کے نظریہ کے مطابق اگرچہ میلاد النبیؐ کے سلسلہ میں شریعت کی طرف سے کچھ بھی بیان نہیں ہوا ہے لیکن آیات قرآن سے یہ جشن مسرت تائید شدہ ہے۔[14] یہ لوگ قرآن کریم کے کلی مفاہیم جیسے رسول اللہؐ سے انس و محبت،[15] ان کے اکرام و تکریم[16] کو جشن میلاد کی مشروعیت پر بطور دلیل پیش کرتے ہیں۔[17] شیعہ عالم جعفر سبحانی کے مطابق جشن میلاد، پیغمبر اسلامؐ سے اظہار محبت کا ایک ذریعہ ہے جس کا حکم قرآن کریم نے دیا ہے۔[18] نیز سورہ مائدہ کی آخری آیات جس کے مطابق عیسیٰ علیہ السلام نے اس دن کو جشن منایا جب آسمانی کھانا حواریوں پر نازل ہوا اور عیسائی اب بھی اس دن کو مناتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ نبیؐ کی سالگرہ منائی جانی چاہیے کیونکہ انہوں نے دنیا کو بت پرستی اور جہالت سے بچایا اور اس نعمت کی حیثیت حواریوں کے آسمانی مائدہ سے زیادہ ہے۔[19]

عالم اہل سنت یوسف قرضاوی نے آیات قرآنی[20] سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ جشن میلاد النبیؐ منانا جائز ہے۔[21] ان کا ماننا ہے کہ میلاد النبی اور دیگر اسلامی تقریبات کے لئے جشن کا انعقاد درحقیقت ان نعمتوں کی یاد دہانی ہے جو خدا نے مسلمانوں کو عطا کی ہیں اور یہ یاد دہانی نہ صرف بدعت اور حرام نہیں ہے بلکہ مطلوب بھی ہے۔[20] ایک سنی عالم طاہر القادری کے مطابق کسی بھی جائز کام کو انجام دینے میں جو شریعت میں منع نہیں ہے اور معاشرے کی ثقافت بن چکا ہے اور اس کا مقصد بھی اس موقع پر پیغمبر اسلامؐ کی ولادت کی خوشی کا اظہار کرنا تو کوئی حرج نہیں ہے۔[22]

صنعا، یمن میں جشن عید میلاد النبی

نیز، ایک روایت کے مطابق جو کتاب اقبال الاعمال میں نقل ہوئی ہے کہ پیغمبر اکرمؐ کی ولادت کے دن روزہ رکھنے کا ثواب ایک سال کے روزے کے برابر ہے۔[23] اسی طرح شیعہ علما صدقہ دینے، مقامات مقدسہ کی زیارت،[24] نیک اعمال کی انجام دہی، مؤمنین کو مسرور کرنے و ۔۔۔۔۔ کو اس دن مستحب سمجھتے ہیں۔[25] شیعہ روایات میں میلاد النبیؐ کے دن ایک خاص نماز وارد ہوئی ہے۔[26] اہل سنت نے اس دن پیغمبر اسلام (ص) کے بارے میں تقاریر، قرآن کی تلاوت، سلامتی، تحائف دینے اور اس دن پیغمبر اسلامؐ کے اعزاز میں غریبوں کو کھانا کھلانے کی تاکید کی ہے۔[27]

ولادت کا زمان و مکان

پیغمبر اکرمؐ کی روز ولادت کے سلسلہ میں اختلاف پایا جاتا ہے۔[28] شیعوں کے درمیان معروف تاریخ 17 ربیع الاول اور اہل سنت کے درمیان 12 ربیع الاول ہے۔[29] ان دو تاریخ کے درمیان فاصلہ کا نام ہفتہ وحدت کہا جاتا ہے۔[30]

پیغمبر اکرمؐ کی ولادت شعب ابی طالب کے ایک گھر میں ہوئی۔[31] عالم شافعی محمد بن عمر بَحرَق متوفی 930 ہجری قمری کے مطابق اطراف مکہ کے لوگ میلاد پیغمبرؐ کے دن ان کے مکان ولادت پر آتے، ذکر و دعا کرتے اور اس مقام کو متبرک شمار کرتے تھے۔[32] گیارہویں صدی ہجری کے محدث علامہ مجلسی نقل کرتے ہیں کہ ان کے زمانے میں مکہ میں اس نام کی ایک جگہ تھی جہاں لوگ زیارت کرنے کے لئے آتے تھے۔[33] یہ مکان حکومت آل سعود کے زمانے تک باقی تھی۔ انہوں نے اسے مذہب وہابیت کے عقائد کی ترویج اور انبیا و صالحین سے توسل سے ممانعت کی وجہ سے مسمار اور تباہ کر دیا۔[34]

مونوگراف

نبی اکرم (ص) کی ولادت کے جشن کے جواز کو ثابت کرنے کے لئے کتابیں لکھی گئی ہیں، ان میں سے کچھ یہ ہیں:

  • محمود احمد الزین کی کتاب البیان النبوی عن فضل الاحتفال بمولد النبوی ہے جسے عربی زبان میں لکھا گیا ہے جس کا مقصد نبی اکرمؐ کی ولادت کے جشن کی شرعی حیثیت کو ثابت کرنا اور اس کے بارے میں شبہات کو دور کرنا ہے۔ اس کتاب میں مصنف اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سنی فقہاء اور محدثین، نبیؐ کی ولادت کے جشن کو مستحب سمجھتے ہیں۔ انتشارات دار البحوث لدراسات الاسلامیہ دُبَی نے اس کتاب کو سنہ 1426 ہجری قمری میں طبع کیا ہے۔[35]
  • عبدالرحیم موسوی کی تصنیف، جشن میلاد پیامبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جسے جشن میلادالنبی کی مشروعیت کے موضوع پر فارسی میں لکھا گیا ہے اور مخالفین کے نظریہ کو باطل کیا گیا ہے۔ مصنف کے مطابق جشن میلاد کا انعقاد در اصل پیغمبر اکرم کے احترام کا لازمہ ہے۔ یہ کتاب در حقیقت "در مکتب اہل بیت ع" کے مجموعہ کی ایک جلد ہے جو 57 صفحات پر مشتمل ہے اور انتشارات مجمع جہانی اہل بیت ع کی طرف سے سنہ 1390 ش ق میں شائع ہوئی۔ [36]

تصاویر

حوالہ جات

  1. «کشورہای عربی میلاد پیامبر(ص) را چگونہ جشن می‌ گیرند؟»، خبرگزاری ایکنا۔
  2. Time.ir۔
  3. Holidays
  4. Public Holidays in Pakistan 2018
  5. «عيد المولد النبوى الشريف»، عيد المولد النبوى الشريف۔
  6. «روز میلاد النبی میں سعودی عرب کے علاوہ تمام مسلم ممالک میں سرکاری تعطیل ہوتی ہے»، قدس‌آنلاین۔
  7. الدویش، فتاوی اللجنۃ الدائمۃ، ریاض، ج3، ص29۔
  8. مقریزی، المواعظ و الاعتبار، 1418ق. ج2، ص436۔
  9. ابن‌ کثیر، البدایہ و النہایہ، 1407ھ، ج13، ص137؛‌ مقریزی، السلوک لمعرفۃ دول الملوک، 1418ھ، ج1، ص368۔
  10. الدویش، فتاوی اللجنۃ الدائمۃ، ریاض، ج3، ص29۔
  11. 11.0 11.1 «الإمام ابن تیمیۃ لم یستحسن الاحتفال بالمولد النبوی»، سایت بن‌ باز۔
  12. شحاتۃ، المولد النبوی...، اسکندریہ، ص116۔
  13. دبیری، جشن میلاد رسول اللہ(ص)، 1437ھ، ص9۔
  14. کریمی سلیمی، «جشن و سرور در میلاد پیامبر گرامی(ص) از دیدگاہ قرآن و سنت»، ص126۔
  15. سورہ توبہ، آیہ23۔
  16. سورہ اعراف، آیہ157۔
  17. کریمی سلیمی، «جشن و سرور در میلاد پیامبر گرامی (ص) از دیدگاہ قرآن و سنت»، ص127-132۔
  18. «برگزاری جشن میلاد پیامبر اسلام(ص) محبت عملی بہ ایشان و انجام دستور قرآن است»، سایت شفقنا۔
  19. «برگزاری جشن میلاد پیامبر اسلام(ص) محبت عملی بہ ایشان و انجام دستور قرآن است»، سایت شفقنا۔
  20. 20.0 20.1 الاحتفال بمولد النبی والمناسبات الإسلامیۃ، سایت یوسف قرضاوی۔
  21. «القرضاوی: الاحتفال بالمولد النبوی لیس بدعۃ»، سلام اون لاين۔
  22. قادری، کیا میلاد النبی منانا بدعت ہے، 2008م، ص15 و 17.
  23. سید ابن طاووس، إقبال الأعمال، 1409ھ، ج2، ص603۔
  24. شیخ طوسی، مصباح المتہجد، تہران، ج2، ص791۔
  25. مجلسی، بحار الأنوار، 1403ھ، ج95، ص359۔
  26. سید ابن طاووس، إقبال الأعمال، 1409ھ، ج2، ص611 – 612۔
  27. «مولد النبی»، سایت بوابہ الازہر۔
  28. مسعودی، مروج الذہب، 1409ھ، ج1، ص362۔
  29. سبحانی، فروغ ابدیت، 1380ش، ج1، ص151۔
  30. دیکھئے امام خمینی، صحیفہ امام، 1378ش، ج15، ص440 و 455۔
  31. مقریزی، امتاع ‏الاسماع، 1420ھ، ج1، ص6۔
  32. بَحرَق، حدائق الانوار، 1409ھ، ص150۔
  33. مجلسی، مرآۃ العقول، 1404ھ، ج5، ص174۔
  34. عاملی، الصحیح من سیرہ النبی، 1385ش، ج2، ص147۔
  35. «البیان النبوی عن فضل الاحتفال بمولد النبوی»، پایگاہ تخصصی وہابیت‌ پژوہی و جریان‌ہای سلفی۔
  36. «در مکتب اهل بیت علیهم السلام - ج25- جشن میلاد پیامبر صلی الله علیه و آله و سلم». مجمع جهانی اهل‌بیت کی سائٹ

مآخذ