شیطان
شیطان ہر شرور اور سرکش موجود کو کہا جاتا ہے۔ ابلیس جسے حضرت آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کرنے پر درگاہ خداوندی سے نکالا گیا تھا، کو بھی شیطان کہا جاتا ہے۔ شیطان کی حقیقت کے بارے میں علما کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے لیکن اکثر مفسرین اسے جن قرار دیتے ہیں۔
قرآن میں شیطان یا شیاطین کا لفظ 88 بار آیا ہے جن میں سے اکثر موارد میں اس سے مراد ابلیس ہے۔ قرانی آیات کے مطابق شیطان نے خدا کی نا فرمانی کرتے ہوئے حضرت آدم کو سجدہ نہیں کیا یوں اسے اس کے مقام و منزلت سے عزل کرکے خدا کی بارگاہ سے نکالا گیا۔ اس کے بعد اس نے خدا سے قیامت تک کی مہلت مانگی جسے خدا نے قبول کیا اور اسے ایک معین دن تک مہلت دی گئی۔ خداوند متعال نے متعدد آیات میں انسان کو شیطان کی طرف متوجہ کرتے ہوئے اس کے دھوکے میں نہ آنے کی سفارش کی ہے تاکہ وہ انسان کو خدا کی بندگی سے خارج نہ کر دے۔
شیطان سے متعلق بہت زیادہ احادیث بھی نقل ہوئی ہیں۔ ان احادیث میں شیطان سے متعلق متعدد موضوعات من جملہ بعض انبیا اور ائمہ کے ساتھ شیطان کی گفتگو، شیطان سے دوری کے اسباب اور شیطان کے اوصاف اور خصوصیات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق شیطان صرف انسان کے دل میں وسوسہ ایجاد کر کے اسے گناہ کی طرف ترغیب دلاتا ہے اس سے زیادہ اسے انسان پر کوئی قدرت اور تسلط حاصل نہیں ہے بنا براین وہ کسی انسان کو گناہ پر مجبور نہیں کر سکتا ہے۔ شیطان اور اس کی اطاعت کرنے والے سب کے سب دوزخ میں جائیں گے۔
لغوی اور اصطلاحی معنی
اسلامی تعلیمات میں خدا کے حکم کی نافرمانی اور لوگوں کو منحرف کرنے والے موجود کو شیطان کہا جاتا ہے جو انسان بھی ہو سکتا ہے اور جن بھی۔ لیکن ابلیس اسم خاص ہے اس شیطان کا جس نے بہشت میں آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کیا تھا اور دوسرے شیاطین کے ساتھ مل کر انسان کو منحرف کرنے کے در پے ہے۔[1] قرآن کریم میں شیطان کو انسان کے دائمی دشمن کے طور پر معرفی کیا گیا ہے جو ہمیشہ انسان کو گمراہ کرنے کی کوشش میں رہتا ہے۔[2] شیطان عالم تشریع میں انسان کو گمراہ کر سکتا ہے لیکن عالم تکوین میں اسے انسان پر کوئی تسلط حاصل نہیں ہے؛ کیونکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق شیطان فقط انسان کے دل میں وسوسہ ڈال سکتا ہے اور اسے گناہ کی ترغیب دے سکتا ہے اور اس سے زیادہ اسے انسان پر کوئی تسلط حاصل نہیں ہے یعنی وہ انسان کو مجبور کر کے ہاتھ پکڑ کر گناہ کی طرف نہیں لے جا سکتا ہے۔[3]
شیطان کا لفظ قرآن میں 88 بار آیا ہے؛ 70 بار مفرد اور 18 بار جمع یعنی شیاطین کی صورت میں آیا ہے۔[4] قرآن میں لفظ شیطان اور لفظ ملائکہ کی تعداد برابر ذکر ہوا ہے۔[5] یہ لفظ بعض موارد من جملہ سورہ بقرہ آیت نمبر 36 میں ابلیس کے لئے اسم خاص کے عنوان سے جبکہ بعض دوسرے موارد من جملہ سورہ انعام کی آیت نمبر 121 میں ابلیس کے لشکروں اور پیروکاروں کے عنوان سے استعمال ہوا ہے۔[6]
علامہ طباطبایی تفسیر المیزان میں شیطان جو انسان کو بدی اور معصیت کی طرف دعوت دیتا ہے، کو کائنات اور ہستی کا ایک رکن قرار دیتے ہیں کیونکہ یہ شیطان کا وجود ہے جو کمال کے راستے پر گامزن ہونے میں انسان کے مختار ہونے پر دلالت کرتا ہے۔[7]
شیطان کی اصل حقیقت آیا یہ جنّات میں سے ہے یا ملائکہ میں سے، قدیم زمانے سے مورد بحث واقع رہی ہے۔ اکثر مفسرین اسے جنّات میں سے قرار دیتے ہیں لیکن ابن عبّاس، ابن مسعود، قتادہ، سعید بن مسیب، ابن جریح، ابن انباری، ابن جریر طبری، شیخ طوسی اور بیضاوی وغیرہ اسے ملائک میں سے قرار دتیے ہیں۔[8]
خصوصیات
قرآن کریم میں شیطان کے بعض اوصاف بیان ہوئے ہیں من جملہ وہ صفات درج ذیل ہیں:
علامہ مجلسی نے بحار الانوار میں شیطان (یا ابلیس) سے متعلق معصومینؑ 177 احادیث نقل کئے ہیں جن کے مطابق کاموں کی ابتداء میں خدا کا نام لینا اور بسم اللہ کہنا شیطان کی دوری کا موجب بنتا ہے؛ من جملہ ان کاموں میں کھانا کھانا،[27] سفر اور گھر سے خارج ہونا،[28] وضو کرنا،[29] نماز پڑھنا،[30] اور جماع (ہمبستری) وغیرہ شامل ہیں۔[31] امام علیؑ نے خطبہ قاصعہ میں شیطان کے بعض اوصاف کا ذکر فرمایا ہے من جملہ ان صفات میں حسادت، بےجا تعصب، عیب جویی، طعنہزنی، تکبر اور لالچ وغیرہ شامل ہیں۔[32]
قرآن کریم کی آیات کے مطابق ابلیس اور اس کے پیروکاروں کا ٹھکانہ دوزخ اور خدا کے عذاب میں مبتلا ہونا ہے۔[33]
قرآن کریم میں انسانوں کو گمراہ کرنے کے شیطانی طریقے بھی بیان ہوئے ہیں؛ من جملہ ان میں درج ذیل طریقے قابل ذکر ہیں: آپس میں دشمنی پیدا کرنا،[34] خدا کے ذکر خاص کر نماز سے غافل رکھنا،[35] اور فقر اور تنگدستی وغیرہ کا خوف دلانا۔[36]
گناہ اور باطل اعمال و افکار کو خوبصورت جلوہ دینا،[37] دنیاوی مال و دولت نیز بال بچوں کو زیادہ محبوب قرار دینا،[38] دلوں میں لمبی اور طولانی آرزو پیدا کرنا،[39] فساد پھیلانا اور فحشا اور منکرات کی ترویج[40] وغیرہ شیطان کے مزید طور و طریقے ہیں جن کے ذریعے وہ انسانوں کو گمراہ کرتا ہے اور ان کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے۔
خلقت اور مہلت دینے کے دلایل
قرآن کریم کے مطابق شیطان جب حضرت آدم کو سجدہ نہ کرنے کی بنا پر شیطان کو بارگاہ خداوندی سے نکالا گیا تو اس نے خدا سے سے قیامت تک کی مہلت مانگی، شیطان کی دخواست قبول ہوئی اور اسے مہلت دے دی گئی۔[41] شیطان کی خلقت نیز بارگاہ خداوندی سے نکال دینے کے بعد اسے ایک مقررہ مدت تک فرصت دئے جانے کے بارے میں مسلمان مفسرین نے مختلف جوابات دئے ہیں؛[42] من جملہ یہ کہ شیطان خلقت کی ابتداء سے پلید اور پست نہیں تھا یا یہ کہ شیطان کی خلقت اور اسے مہلت دیا جانا انسان کو آزمانے اور اس کا امتحان لینے کی خاطر ہے۔
شیطان پلید خلق نہیں ہوا
خدا نے شیطان کو پلید خلق نہیں فرمایا اور خلقت کی ابتداء ہی سے وہ انسانوں کو گمراہ کرنے کے درپے نہیں تھا؛ چنانچہ شیطان نے چھ ہزار سال خدا کی عبادت کی، فرشتوں کا ہمنشین اور اہل عبادت تھا، لیکن تکبر کی وجہ سے خدا کی نافرمانی کی یوں وہ خدا کی رحمت سے دور ہوا۔[43] علامہ طباطبایی تفسیر المیزان میں اس بات کے معتقد ہیں کہ ابلیس کا وجود شرّ محض نہیں ہے، بلکہ اس کی خلقت میں خیر کا پہلوں بھی نہفتہ ہے۔[44]
انسان کے امتحان کا ذریعہ
قرآن کریم کے مطابق ابلیس کی خلقت انسانوں کی آزمائش کیلئے ہے۔[45] اسی طرح خدا نے شیطان کے القائات اور الہامات کو بیمار اور سنگدل افراد کی آزمائش کا ذریعہ قرار دیئے ہیں۔[46]
توانایی اور میدان فعالت کی وسعت
قرآن کریم میں شیطان یعنی ابلیس اور اس کے کارندوں کی تأثیر کو نہایت محدود اور ضعیف گردانا گیا ہے؛[47] ابلیس، شیاطین اور جنّات عالم غیب اور مخفی امور سے آگاہ نہیں ہو سکتے اور آسمانی امور کے حالات سے با خبر ہونے کی توانائی نہیں رکھتے ہیں۔[48]
قرآن کریم کی بعض آیات کے مطابق ابلیس اور اس کے کارندے خدا کے خالص بندوں پر کوئی تسلط نہیں رکھتے؛ کیونکہ خدا نے شیطان کی طرف سے انسانوں کو گمراہ کئے جانے کی دھمکی کے جواب میں خدا کے خالص بندوں پر اس کا تسلط نہ ہونے کی خبر دی ہے اور فرمایا کہ شیطان صرف ان لوگوں پر مسلط ہو سکتے ہیں جو اس کی پیروی کریں۔[49] علامہ طباطبایی اور آیت اللہ مکارم شیرازی اس بات کے معتقد ہیں کہ شیطان ہر شکل و صورت میں ظاہر ہو سکتا ہے سوائے انبیا اور اوصیا کے۔[50]
متعلقہ صفحات
حوالہ جات
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۵ش، ج۲۹، ص۱۹۲۔
- ↑ سورہ زخرف، آیہ ۶۲؛ سورہ یوسف، آیہ ۵؛ سورہ کہف، آیہ ۵۰؛ سورہ اسراء، آیہ ۵۳؛ سورہ بقرہ، آیہ ۱۶۸۔
- ↑ و ما کان لی علیکم من سلطان الا ان دعوتکم فاستجبتم لی (سورہ ابراہیم، آیہ ۲۲)۔
- ↑ عسگری، «معناشناسی نوین از واژہ شیطان»، ص۲۱۴۔
- ↑ مصطفوی، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، ۱۴۱۷ق، ج۶، ص۶۱-۶۳؛ واعظزادہ خراسانی، المعجم فی فقہ لغۃ القرآن، ۱۴۱۹ق، ج۱، ص۱۵۸۔
- ↑ عسگری، «معناشناسی نوین از واژہ شیطان»، ص۲۱۴۔
- ↑ علامہ طباطبایی، المیزان، ۱۳۷۴ش، ج۸، ص۳۸۔
- ↑ شیخ طوسی، التبیان، بیروت، ج۱، ص۱۵۰؛ بیضاوی، أنوار التنزیل، دار الفکر، ج۱، ص۲۹۴؛ طبری، جامع البیان، ۱۴۱۵ق، مج ۱، ج۱، ص۳۲۱۔
- ↑ سورہ بقرہ، آیہ ۳۴۔
- ↑ سورہ بقرہ، آیہ ۳۴؛ سورہ ص، آیہ ۷۴۔
- ↑ سورہ اسراء، آیہ ۲۷۔
- ↑ سورہ کہف، آیہ ۵۰۔
- ↑ سورہ مریم، آیہ ۴۴۔
- ↑ سورہ صافات، آیہ ۷؛ سورہ نساء، آیہ ۱۱۷۔
- ↑ سورہ اعراف، آیہ ۱۸۔
- ↑ سورہ تکویر، آیہ ۲۵؛ سورہ ص، آیہ ۷۷؛ سورہ نحل، آیہ ۹۸۔
- ↑ سورہ اعراف، آیہ ۱۸۔
- ↑ سورہ ص، آیہ ۷۸؛ سورہ حجر، آیہ ۳۵۔
- ↑ سورہ اعراف، آیہ ۱۵۔
- ↑ سورہ یس، آیہ ۶۰؛ سورہ کہف، آیہ ۵۰؛ سورہ فاطر، آیہ ۶؛ سورہ بقرہ، آیہ ۲۰۸ و ۱۶۸؛ سورہ انعام، آیہ ۱۴۲؛ سورہ یوسف، آیہ ۵۔
- ↑ سورہ نساء، آیہ ۳۸۔
- ↑ سورہ فرقان، آیہ ۲۹۔
- ↑ سورہ قصص، آیہ ۱۵؛ سورہ ص، آیہ ۸۲۔
- ↑ سورہ اعراف، آیہ ۷ و ۲۲ و ۲۷؛ سورہ طہ، آیہ ۲۰ و ۱۲۰۔
- ↑ سورہ نساء، آیہ ۴ و ۱۲۰۔
- ↑ سورہ لقمان، آیہ ۳۱ و ۲۱۔
- ↑ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۶۰، باب ذکر ابلیس و قصصہ، ص۲۰۳، ح۲۵ و۲۶۔
- ↑ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۶۰، باب ذکر ابلیس و قصصہ، ص۲۰۱-۲۰۲، ح۲۱۔
- ↑ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۶۰، باب ذکر ابلیس و قصصہ، ص۲۰۳، ح۲۷۔
- ↑ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۶۰، باب ذکر ابلیس و قصصہ، ص۲۰۲، ح۲۴۔
- ↑ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۶۰، باب ذکر ابلیس و قصصہ، ص۲۰۱، ح۱۹؛ ص۲۰۲، ح۲۳؛ ص۲۰۷، ح۴۲۔
- ↑ نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، خطبہ ۱۹۲، ص۲۸۵-۳۰۳۔
- ↑ قَالَ فَالحقُّ وَالحَقَّ أَقولُ لاَملأنَّ جَہنّمَ مِنکَ و مِمَّن تَبِعَکَ مِنہُم أَجمعین (سورہ ص، آیہ ۸۴ و ۸۵)؛ قالَ اذہَبْ فمَن تَبِعکَ مِنہُم فَإِنَّ جَہنَّم جَزاؤُکُم جَزاءً مَوفوراً (سورہ اسراء، آیہ ۶۳)۔
- ↑ إِنَّما یریدُ الشَّیطَنُ أَن یوقِعَ بَینَکم العَدَ وۃَ والبَغضَاءَ فِی الخَمرِ والمَیسرِ و یصدَّکُم عَن ذکرِاللہِ و عَن الصَّلوَۃِ فَہل أَنتم مُنتہونَ (سورہ مائدہ، آیہ ۹۱)۔
- ↑ إِنَّما یریدُ الشَّیطَنُ أَن۔۔۔ یصدَّکُم عَن ذکرِ اللہِ و عَن الصَّلَوۃِ (سورہ مائدہ، آیہ ۹۱)؛ استَحوذَ عَلیہِمُ الشَّیطَنُ فأَنسَہُم ذِکرَاللہِ أُولَلِکَ حِزبُ الشَّیطَنِ أَلا إِنَّ حِزبَ الشَّیطَنِ ہمُ الخَسِرونَ (سورہ مجادلہ، آیہ ۱۹)؛ مَا أَنسَنِیہُ إلاَّ الشَّیطَنُ (سورہ کہف، آیہ ۶۳)؛ سورہ یوسف، آیہ ۴۲۔
- ↑ الشَّیطَنُ یعدِکُم الفَقَر (سورہ بقرہ، آیہ ۲۶۸)۔
- ↑ قَالَ ربِّ بِما أَغویتَنِی لاَُزَیننَّ لَہم فِی الأَرضِ (سورہ حجر، آیہ ۳۹)۔
- ↑ سورہ بقرہ، آیہ ۲ و ۱۴؛ سورہ آل عمران، آیہ ۳۔
- ↑ ولاَُضِلَّنَّہم ولاَُمنِّینَّہم (سورہ نساء، آیہ ۱۱۹)؛ فخر الرازی، التفسیر الکبیر، ۱۴۱۱ق، ج۱۱، ص۳۸-۳۹؛ طبری، جامع البیان، ۱۴۱۵ق، ج۴، ص۳۸۱۔
- ↑ و مَن یتَّبِع خُطُوتِ الشَّیطَنِ فإِنّہُ یأمرُ بِالفَحشاءِ والمُنکَرِ (سورہ نور، آیہ ۲۱)۔
- ↑ قَالَ رَبِّ فَأَنظِرنِی إِلَی یومِ یبعثونَ قَالَ فَإِنّکَ مِن المُنظَرینَ (سورہ حجر، آیہ ۳۶ و ۳۷)۔
- ↑ علامہ طباطبایی، المیزان، ۱۳۷۴ش، ج۸، ص۵۴ - ۶۹۔
- ↑ نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، خطبہ ۱۹۲، ص۲۸۵-۲۸۶۔
- ↑ علامہ طباطبایی، المیزان، ۱۳۷۴ش، ج۸، ص۳۷۔
- ↑ و مَا کَانَ لہُ عَلیہم مِن سُلطَن إِلاَّ لِنعلمَ مَن یؤمنُ بِالأَخرۃِ مِمّن ہُوَ مِنہا فِی شَکّ (سورہ سبأ، آیہ ۲۱)۔
- ↑ لِیجعَلَ مَا یلقِی الشَّیطَنُ فِتنۃً لِلَّذینَ فِی قلوبِہم مَرضٌ والقَاسِیۃِ قُلوبُہم (سورہ حج، آیہ ۵۳)۔
- ↑ إِنَّ کَیدَ الشَّیطَنِ کانَ ضَعیفاً (سورہ نساء، آیہ ۷۶)۔
- ↑ و حَفظنہا مِن کلِّ شیطن رجیم إِلاَّ مَنِ استَرقَ السَّمعَ فَأَتبَعَہُ شِہابٌ مُبِینٌ (سورہ حجر، آیہ ۱۷ و ۱۸)؛ سورہ صافات، آیہ ۶-۱۰؛ سورہ ملک، آیہ ۵۔
- ↑ إِنَّ عِبادِی لَیسَ لَکَ عَلیہِم سُلطَنٌ إِلاَّ مَنِ اتَّبَعکَ مِن الغَاوینَ (سورہ حجر، آیہ ۴۲)؛إِنَّ عِبادی لَیسَ لَکَ عَلیہِم سُلطَنٌ و کَفَی بِربِّکَ وَکِیلا (سورہ اسراء، آیہ ۶۵)؛ سورہ نحل، آیہ ۹۹۔
- ↑ علامہ طباطبایی، المیزان، ۱۳۷۴ش، ج۸، ص۶۲؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۵ش، ج۷، ص۲۰۲۔
مآخذ
- بیضاوی، ناصر الدین، أنوار التنزیل و أسرار التأویل، بیروت، دار الفکر، بی تا۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بی تا۔
- طبری، محمد بن جریر، جامع البیان عن تأویل آي القرآن، بہ کوشش جمیل العطار صدقی، بیروت، دار الفکر، ۱۴۱۵ھ
- عسگری، انسیہ، «معنا شناسی نوین از واژہ شیطان»، در مجلہ قبسات، ش۶۴، زمستان ۱۳۸۹ش۔
- علامہ طباطبایی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، جامعہ مدرسین، ۱۳۷۴ش۔
- فخر الرازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر أو مفاتیح الغیب، ج۱۱، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، ۱۴۱۱ق/۱۹۹۰ء
- مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۳ھ
- مصطفوی، سید حسن، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، ۱۴۱۷ھ
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران،دار الکتب الاسلامیۃ، ۱۳۷۵ش۔
- نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، بیروت، دار الکتاب اللبنانی، ۱۹۸۰ء
- واعظ زادہ خراسانی، محمد، المعجم فی فقہ لغۃ القرآن و سرّ بلاغتہ، مشہد، بنیاد پژوہشہای آستان قدس، ۱۴۱۹ھ