شب قدر

wikishia سے
اسلام
اللہ
اصول دین توحید • عدل  • نبوت  • امامت  • قیامت
فروع دین نماز  • روزہ  • حج  • زکٰوۃ  • خمس  • جہاد  • امر بالمعروف  • نہی عن المنکر  • تولی  • تبری
اسلامی احکام کے مآخذ قرآن  • سنت  • عقل  • اجماع  • قیاس(اہل سنت)
اہم شخصیات پیغمبر اسلامؐ  • اہل بیت  • ائمہؑ  • خلفائے راشدین(اہل سنت)
اسلامی مکاتب شیعہ: امامیہ  • زیدیہ  • اسماعیلیہ  •
اہل سنت: سلفیہ  • اشاعرہ  • معتزلہ  • ماتریدیہ  • خوارج
ازارقہ  • نجدات  • صفریہ  • اباضیہ
مقدس شہر مکہ  • مدینہ  • قدس  • نجف  • کربلا  • کاظمین  • مشہد  • سامرا  • قم
مقدس مقامات مسجد الحرام  • مسجد نبوی  • مسجد الاقصی  • مسجد کوفہ  • حائر حسینی
اسلامی حکومتیں خلافت راشدہ  • اموی  • عباسی  • قرطبیہ  • موحدین  • فاطمیہ  • صفویہ  • عثمانیہ
اعیاد عید فطر  • عید الاضحی  • عید غدیر  • عید مبعث
مناسبتیں پندرہ شعبان  • تاسوعا  • عاشورا  • شب قدر  • یوم القدس

شب قدر یا لیلۃ القدر مسلمانوں کے درمیان سال کی سب سے زیادہ با فضیلت رات ہے۔ قرآن و احادیث کی روشنی میں یہ رات ہزار مہینوں سے افضل اور برتر ہے۔ مسلمانوں کے مطابق اس رات قرآن دفعی طور پر حضرت محمدؐ کے قلب مطہر پر نازل ہوا۔ اس کے علاوہ یہ رات رحمتوں کے نزول، گناہوں کی مغفرت اور زمین پر ملائکہ کے نزول کی رات ہے۔ بعض شیعہ احادیث کے مطابق اس رات بندوں کے ایک سال کے مقدرات امام زمانہ(عج) کے حضور پیش کیے جاتے ہیں۔ اللہ تعالی نے قرآن کے سورہ قدر اور سورہ دخان میں شب قدر کا تذکرہ کیا ہے۔

یہ دقیق نہیں معلوم کہ شب قدر کون سی رات ہے، لیکن بہت ساری احادیث کے مطابق یہ بات یقینی ہے کہ شب قدر ماہ مبارک رمضان میں واقع ہے اور زیادہ احتمال یہ دیا جاتا ہے کہ رمضان کی انیسویں، اکیسویں یا تئیسویں رات میں سے ایک شب قدر ہے۔ شیعہ رمضان المبارک کی تئیسویں رات جبکہ اہل سنت رمضان کی ستائیسویں رات کو شب قدر ہونے پر زیاده زور دیتے ہیں۔ بعض روایات کے مطابق پندرہ شعبان کی رات شب قدر ہے۔

شیعہ چودہ معصومین کی پیروی کرتے ہوئے ان تینوں راتوں کو شب بیداری یعنی جاگ کر عبادت کی حالت میں گزارتے ہیں۔ شیعہ منابع میں شب قدر کے اعمال کے عنوان سے بعض مخصوص اعمال جن میں مأثور اور غیر مأثور دعائیں، نمازیں اور دیگر اعمال جیسے قرآن سر پر اٹھانا وغیره شامل ہیں۔ اسکے علاوہ رمضان کی انیسویں اور اکیسویں رات حضرت علیؑ کے سر اقدس پر ضربت لگنے اور شہید ہونے کی مناسبت سے مجالس عزاداری بھی شب قدر کے اعمال میں شامل ہوتی ہے۔

وجہ تسمیہ

"قدر" عربی لغت میں اندازہ، تقدیر اور قسمت کے معنی میں آتا ہے۔[1] شب قدر کو شب قدر کہنے کی مختلف وجوہات بیان کی گئی ہیں:

  • بعض کہتے ہیں: چونکہ انسانوں کے ایک سال کے مقدرات اسی رات کو متعین ہوتے ہیں اس لئے اسے شب قدر کہا جاتا ہے۔[2]
  • بعض معتقد ہیں کہ اگر کوئی شخص اس رات کو شب بیداری کی حالت میں گزارے تو وہ صاحب عظمت و منزلت قرار پاتا ہے اس لئے اس رات کو شب قدر کہا جاتا ہے۔ [3]
  • بعض کہتے ہیں: اس قدر کی رات سے موسوم ہونے کی وجہ اس رات کی شرافت اور عظمت ہے۔[4] اسی بنا پر شب قدر کو "لیلة‌ العظمه" اور "لیلة‌ الشرف" سے بھی یاد کیا گیا ہے۔[5]

اہمیت اور منزلت

اسلامی تعلیمات کی رو سے شب قدر پورے سال کی سب سے افضل اور برتر رات ہے۔[6] پیغمبر اکرمؐ سے منقول ایک حدیث کے مطابق شب قدر، مسلمانوں پر خدا کا لطف اور احسان ہے جس سے گذشتہ امتیں محروم تھیں۔[7] قرآن کریم میں مکمل ایک سورہ شب قدر کے بارے میں نازل ہوا ہے اور اسی نام (سوره قدر) سے موسوم ہوا ہے۔ [8] اس سورے میں شب قدر کو ہزار مہینوں سے افضل اور برتر قرار دیا گیا ہے۔[9] سورہ دخان کی پہلی چھے آیتوں میں بھی شب قدر کی اہمیت اور اس میں رونما ہونے والے واقعات کو بیان کیا گیا ہے۔[10]

امام صادقؑ سے منقول ایک حدیث میں آیا ہے کہ سال کا بہترین مہینہ رمضان ہے اور رمضان کا دل شب قدر ہے۔[11] اسی طرح پیغمبر اکرمؐ سے منقول ایک حدیث میں شب قدر کو تمام راتوں کا سردار قرار دیا گیا ہے۔[12] احادیث اور فقہی کتابوں کے مطابق ان راتوں کے ایام بھی خود ان راتوں کی طرح با فضیلت اور با عظمت ہیں۔[13] بعض احادیث میں آیا ہے کہ شب قدر کا راز، حضرت فاطمہؑ ہیں۔[14] اور جس نے بھی آپؑ کے قدر و منزلت کو درک کیا گویا اس نے شب قدر کو درک کیا ہے۔[15] امام علیؑ کی شہادت جیسے عظیم واقعات کا اس مہینے کے آخری عشرے میں واقع ہونے سے شیعوں کے نزدیک ان راتوں کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوتا ہے اور شیعہ ان راتوں میں شب قدر کے اعمال کے ساتھ ساتھ حضرت علیؑ کی شہادت کے حوالے سے عزاداری بھی کرتے ہیں۔[16]

نزول قرآن

سورہ قدر کی پہلی آیت اور سورہ دخان کی تیسری آیت کے مطابق قرآن شب قدر میں نازل ہوا ہے۔[17] محمد عبدہ کہتے ہیں کہ قرآن کا تدریجی نزول رمضان المبارک میں ہوا ہے؛[18] لیکن اکثر مفسرین کے مطابق شب قدر کو پورا قرآن لوح محفوظ سے بیت المعمور یا پیغمبر اکرمؐ کے قلب مطہر پر نازل ہوا جسے قرآن کا نزول دفعی یا نزول اجمالی کہا جاتا ہے۔[19]

مقدرات

امام باقرؑ، سورہ دخان کی چوتھی آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: آنے والے سال میں ہر انسان کے مقدرات شب قدر کو متعین کئے جاتے ہیں۔[20] اسی لئے بعض احادیث میں شب قدر کو سال کا آغاز قرار دیا گیا ہے۔[21] علامہ طباطبائی فرماتے ہیں: قدر سے مراد تقدیر اور اندازہ گیری ہے اور خداوند متعال انسانوں کی زندگی، موت، رزق، سعادت اور شقاوت کو اسی رات تعیین فرماتا ہے۔[22] بعض احادیث کے مطابق امام علیؑ اور اہل‌ بیتؑ کی ولایت بھی اسی رات کو مقدر ہوئی ہے۔[23]

گناہوں کی مغفرت

اسلامی منابع کی رو سے، شب قدر خدا کی خاص رحمت کے نزول، گناہوں کی مغفرت، شیطان کو زنجیروں میں جکڑنے اور مؤمنین کیلئے بہشت کے دروازوں کے کھولنے کی رات ہے۔[24] پیغمبرؐ سے منقول ہے: جو بھی شب قدر کو احیا (شب بیداری) کرنے کے ساتھ ساتھ مؤمن اور قیامت پر بھی اعتقاد رکھتا ہو تو اس کے تمام گناہ بخش دیے جائیں گے۔[25]

فرشتوں کا نزول

سورہ قدر کی آیات کی روشنی میں شب قدر کو فرشتے اور روح القدس کا نزول ہوتا ہے۔[26] اور بعض احادیث کے مطابق فرشتے اور روح ایک سال کے مقدرات کو پہنچاننے کیلئے زمانے کے امام کے یہاں حاضر ہوتے ہیں۔ فرشتے ان مقدرات کو امام کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔[27] امام باقرؑ فرماتے ہیں: شب قدر کو فرشتے ہمارے ارد گرد طواف کرتے ہیں یوں ہمیں شب قدر کا علم ہوتا ہے[28] بعض دیگر روایات میں شیعوں کیلئے اس مسئلے کے ذریعے شیعوں کی حقانیت اور ائمہ معصومین کی امامت پر استدلال کرنے کی سفارش ہوئی ہے اور وہ اس طرح کہ ہر زمانے میں کسی امام کا ہونا ضروری ہے جس تک اس سال کے مقدرات پہنچائے جاتے ہیں۔[29]

شب قدر کی تعیین

امام رضاؑ کے حرم میں شب قدر کے مراسم

شب قدر کون سی رات ہے؟ اس حوالے سے اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔

اہل تشیع کا نظریہ

شیعہ مفسرین، سورہ قدر کی آیات کے ظاہر پر استناد کرتے ہوئے اس بات کے معتقد ہیں کہ شب قدر پیغمبر اکرمؐ کے زمانے میں نزول قرآن کے ساتھ مختص نہیں بلکہ شب قدر ہر سال تکرار ہوتی ہے۔ اس بات پر بعض معتبر اور متواتر احادیث میں بھی تاکید کی گئی ہے۔[30] لیکن اس کے باوجود یہ دقیق معلوم نہیں کہ شب قدر کونسی رات ہے اور قرآن اور احادیث میں بھی اس بات کے اوپر کوئی تصریح نہیں کی گئی ہے۔ البتہ بہت ساری احادیث میں یہ بات آئی ہے کہ شب قدر رمضان المبارک کے مہینے میں موجود ہے۔[31]

شیعہ احادیث میں رمضان المبارک کی تین راتوں 19ویں، 21ویں اور 23ویں کو شب بیداری کرنے پر زیادہ تاکید کی گئی ہے اور ان تین راتوں میں سے 23ویں رات کے بارے میں دوسری راتوں کی نسبت شب قدر ہونے کا احتمال زیادہ پایا جاتا ہے۔[32] بعض احادیث کے مطابق 19ویں رات مقدرات لکھے جاتے ہیں اور 21ویں رات ان مقدرات کو یقینی قرار دیے جاتے ہیں جبکہ 23ویں رات ان مقدرات کو حتمی شکل دی جاتی ہے۔ [33] رمضان کی 27ویں رات اور پندرہ شعبان کی رات کے بارے میں بھی شب قدر ہونے کا احتمال دیا جاتا ہے۔[34]

اہل سنت کا نظریہ

اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ حدیث نبوی کے مطابق رمضان المبارک کی آخری دس راتوں میں سے ایک رات شب قدر ہے اور کتب صحاح[35] میں منقول احادیث کے مطابق، اغلب ستائیسویں رمضان کو شب قدر مانتے ہیں اور اس رات کو دعا اور شب بیداری میں بسر کرتے ہیں. بعض کا خیال ہے کہ جب تک حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم زندہ تھے، یہ رات ہر سال تکرار ہوا کرتی تھی لیکن آپ کی رحلت کے بعد کوئی شب قدر نہیں ہے۔[36] اہل سنت میں سے بعض کا کہنا ہے کہ شب قدر کوئی معین رات نہیں ہوا کرتی بلکہ ہر سال ایک نا مشخص رات شب قدر ہوا کرتی ہے ان کا کہنا ہے کہ بعثت کے سال شب قدر رمضان المبارک میں واقع ہوئی تھی لیکن اس کے بعد دوسرے سالوں میں ممکن ہے کسی دوسرے مہینے میں واقع ہو۔[37]

افق کا اختلاف اور شب قدر کا تعین

ہر سال صرف ایک رات، شب قدر ہے۔[38] لیکن مختلف ممالک کے افق میں اختلاف (جیسے ایران اور سعودی عرب کا افق) کی وجہ سے مختلف ممالک میں رمضان المبارک کے آغاز میں بھی اختلاف پیش آتا ہے جس کے نتیجے میں رمضان المبارک کی جس رات کو بھی شب قدر قرار دی جائے اس میں بھی اختلاف پیش آتا ہے۔[39] اس مسئلے میں فقہاء فرماتے ہیں کہ مختلف ممالک کے افق میں اختلاف کا پایا جانا شب قدر کے تعدد کا باعث نہیں بنتا اور ہر مملک کے باشندوں کو چاہئیے کہ وہ شب قدر اور دوسرے ایام جیسے عید فطر یا عید قربان وغیرہ کو اپنے ملک کے افق کے مطابق منائیں۔[40] آیت اللہ مکارم شیرازی فرماتے ہیں کہ رات کی حقیقت، زمین کے نصف حصے کا دوسرے نصف حصے پر پڑنے والا سایہ ہے اور یہ سایہ زمین کی حرکت کے ساتھ 24 گھنٹوں میں اپنا ایک چکر پورا کرتا ہے۔[41] بنابر این ممکن ہے شب قدر، زمین کا اپنے محور کے گرد ایک چکر پورا کرنے کا دورانیہ ہو یعنی وہ تاریکی ہے جو 24 گھنٹے زمین کو اپنے لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ پس شب قدر ایک ملک سے شروع ہوتی ہے اور 24 گھنٹوں کے دورانیے میں زمین کا ہر حصہ شب قدر کو درک کرتا ہے۔[42]

معصومین کی سیرت

ایک حدیث میں امام علیؑ سے منقول ہے کہ پیغمبر اکرمؐ، رمضان المبارک کے تیسرے عشرے میں اپنا بستر جمع کرتے تھے اور اعتکاف کیلئے مسجد تشریف لے جاتے تھے اور باوجود اس کے کہ اس وقت مسجد نبوی پر چھت بھی نہیں تھی بارش کے ایام میں بھی مسجد کو ترک نہیں کرتے تھے۔[43] اسی طرح منقول ہے کہ پیغمبر اکرمؐ شب قدر کی راتوں کو بیدار رہتے تھے اور جن لوگوں کو نیند آتی تھے ان کے چہرے پر پانی چھڑکتے تھے۔[44]

حضرت فاطمہ(س) کی یہ سیرت تھی کہ شب قدر کو صبح تک عبادت کی حالت میں گزارتی تھیں اور اپنے بچوں اور گھر والوں کو بھی بیدار رہنے اور عبادت انجام دینے کی تاکید فرماتی تھیں اور دن کے وقت سلانے اور کھانے میں کمی کے ذریعے رات کو نیند سے مقابلہ کرنے کی کوشش فرماتی تھیں۔[45] چودہ معصومینؑ شب قدر کی راتوں کو مسجد میں شب بیداری کو ترک نہیں فرماتے تھے؛[46] ایک حدیث میں آیا ہے کہ ایک دفعہ شب قدر کو امام صادقؑ سخت علیل تھے اس کے باوجود آپ نے مسجد جا کر عبادت بجا لانے کی خواہش ظاہر کی۔[47]

شب قدر کے اعمال

شب قدر کے اعمال
مشترک اعمال
انیسویں رات
  • سو دفعہ "اَستَغفِرُالله رَبّی و اَتوبُ اِلیه" پڑھنا
  • سو دفعہ "اَلّلهمَّ العَن قَتَلَة اَمیرِالمُؤمِنینَ" کا ورد کرنا
  • دعائے: "اَللّهمَّ اْجْعَلْ فیما تَقْضی وَتُقَدِّرُ مِنَ الاَْمْرِ الْمَحْتُومِ..." پڑھنا
اکیسویں رات
  • رمضان المبارک کے آخری عشرے سے مربوط دعاؤوں کا پڑھنا
  • دعائے: "یا مُولِجَ اللَّیلِ فِی النَّهارِ..." پڑھنا
تئیسویں رات

رسومات

اہل تشیع ہر سال رمضان کی 19ویں، 21ویں اور 23ویں رات کو مساجد، امام بارگاہوں، ائمہ معصومین یا امام زادوں کے روضات مقدسات میں شب قدر کے اعمال بجا لاتے ہیں اور ان راتوں کو صبح تک شب بیداری اور عبادت کی حالت میں گزارتے ہیں۔[48] علمائے کرام کے وعظ و نصیحت پر مبنی تقاریر، نماز جماعت اور اجتماعی طور پر مختلف دعاؤں جیسے دعائے افتتاح، دعائے ابو حمزہ ثمالی اور دعائے جوشن کبیر وغیرہ کا پڑھنا نیز قرآن سروں پر اٹھانا ان راتوں کے اہم اعمال میں سے ہیں۔[49] اس کے علاوہ روزہ داروں کو افطاری اور سحری دینا، اپنے گذشتگان کیلئے نذر و نیاز دینا، غریبوں اور ضرورت مندوں کی ضروریات پوری کرنا نیز قیدیوں کو رہائی دلانا جیسے امور بھی ان راتوں میں انجام پاتے ہیں۔[50]

رمضان المبارک کے انہی ایام میں شیعوں کے پہلے امام حضرت علیؑ کی شہادت بھی واقع ہوئی ہے اس بنا پر عزاداری کی مجالس بھی ان راتوں میں منعقد ہوتی ہیں۔[51]

حوالہ جات

  1. قرشی، سید علی اکبر، قاموس قرآن، ج ۵، ص۲۴۶-۲۴۷.
  2. طباطبایی، تفسیر المیزان، ۱۳۶۳شمسی، ج۲۰، ص۵۶۱.
  3. قدمیاری، «شب قدر در غزلیات حافظ»، ص۱۸۰.
  4. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۵شمسی، ج۲۷، ص۱۸۸.
  5. مجیدی خامنہ، «شبہای قدر در ایران»، ص۱.
  6. تربتی، «ہمراه با معصومان در شب قدر»، ص۳۳.
  7. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۵شمسی، ج۲۷، ص۱۹۰.
  8. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۵شمسی، ص۱۷۸.
  9. سورہ قدر، آیت نمبر2.
  10. سورہ دخان، آیات ۱-۶.
  11. حویزی، تفسیر نور‌ الثقلین، ۱۴۱۵ھ، ج‌۵، ص۹۱۸.
  12. مجلسی، بحار‌الانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۴۰، ص۵۴.
  13. شیخ طوسی، التہذیب، ۱۳۶۵شمسی، ج۴، ح۱۰۱، ص۳۳۱.
  14. مجلسی، بحار النوار، ج۲۵، ص۹۷، بہ نقل از: عابدین زادہ، «امام و شب قدر»، ص۶۴.
  15. حسن‌زادہ، ممد الہمم، بہ نقل از: مطلبی و صادقی، «شب قدر در نگاہ مفسران»، ص۲۳.
  16. مجیدی خامنہ، «شب‌ ہای قدر در ایران»، ص۱۹.
  17. شاکر، «شبی برتر از ہزار ماہ»، ص۵۰.
  18. انصاری، «نزول اجمالی قرآن»، ص۲۲۷.
  19. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۵شمسی، ص ۱۸۲.
  20. سید رضی، «بازخوانی فضائل شب قدر»، ص۹۱.
  21. عابدین زادہ، «امتیازات و آداب شب قدر»، ص۸۵.
  22. طباطبایی، تفسیر المیزان، ۱۳۶۳شمسی، ج۲۰، ص۵۶۱.
  23. صدوق، معانی‌الاخبار، ۱۳۷۹شمسی، ص۳۱۵، بہ نقل از سید رضی، «بازخوانی فضائل شب قدر»، ص۹۵.
  24. سید رضی، «بازخوانی فضائل شب قدر»، ص۹۴.
  25. کاشانی، تفسیر منہج الصادقین، ۱۳۴۰شمسی، ج۱۰، ص۳۰۸.
  26. سورہ قدر، آیت۴.
  27. وفا، «شب قدر از منظر قرآن»، ص۸۷.
  28. وفا، «شب قدر از منظر قرآن»، ص۸۷.
  29. عابدین زادہ، «امام و شب قدر»، ص۶۲.
  30. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۵شمسی، ج۲۷، ص۱۹۰.
  31. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲شمسی، ج۱۰، ص۷۸۶.
  32. اتفق مشایخنا [فی لیلة القدر] علی انها اللیلة الثالثة و العشرون من شهر رمضان. صدوق، الخصال، ۱۳۶۲ش، ص۵۱۹.
  33. کلینی، اصول کافی، ۱۳۷۵شمسی، ج۲، ص۷۷۲.
  34. کاشانی، منہج الصادقین، ۱۳۴۴شمسی، ج۴، ص۲۷۴ بہ نقل از افتخاری، «دعا و شب قدر از منظر موسی صدر»، ص۱۷.
  35. مسلم، صحیح مسلم، ج،۸ ص۶۵.
  36. القاسمی، تفسیر القاسمی‌، ج۱۷، ص۲۱۷.
  37. ابن المفتاح، عبدالله، شرح الازهار، ج۱، ص۵۷.
  38. سورہ قدر، آیت ۱ و شیخ طوسی، تہذیب، ج۳، ص۸۵.
  39. مختاری و صادقی، رضا و محسن، رؤیت ہلال، ۱۴۲۶ھ، ج۴، ص۲۹۷۲.
  40. مکارم شیرازی، استفتائات جدید، ۱۴۲۷ھ، ج۳، ص۱۰۳.
  41. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۵شمسی، ص۱۹۲.
  42. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۵شمسی، ص۱۹۲.
  43. مجلسی، بحار الانوار، ج۹۵، ص۱۴۵، بہ نقل از: تربتی، «ہمراہ با معصومان در شب قدر»، ص۳۳.
  44. مجلسی، بحار الانوار، ج۹۷، ص۹-۱۰، بہ نقل از: شاکر، «شبی برتر از ہزار ماہ»، ص۵۲.
  45. مستدرک الوسائل، ج۷، ص۴۷۰، بہ نقل از: تربتی، «ہمراہ با معصومان در شب قدر»، ص۳۴.
  46. تربتی، «ہمراہ با معصومان در شب قدر»، ص۳۲.
  47. مجلسی، بحارالانوار، ج۹۷،ص۴، بہ نقل از: شاکر، «شبی برتر از ہزار ماہ»، ص۵۲.
  48. مجیدی خامنہ، «شب‌ہای قدر در ایران»، ص۲۱.
  49. مجیدی خامنہ، «شب‌ہای قدر در ایران»، ص۲۲.
  50. مجیدی خامنہ، «شب‌ہای قدر در ایران»، ص۲۲.
  51. مجیدی خامنہ، «شب‌ہای قدر در ایران»، ص۱۹.


منابع

  • ابن المفتاح، عبدالله، شرح الازہار، الحجاز، قاہره، بی‌تا.
  • حویزی، علی بن جمعہ، تفسیر نور الثقلین، قم، اسماعیلیان.
  • صحیفہ کاملہ سجادیہ، ترجمہ محسن غرویان، قم، الہادی، ۱۳۷۸ش.
  • طباطبایی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، اسماعیلیان، ۱۳۷۱ش.
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصرخسرو، ۱۳۷۲ش.
  • طوسی، محمد بن حسن (شیخ طوسی)، التہذیب، تہران،‌دار الکتب الإسلامیہ، ۱۳۶۵ش.
  • فراہیدی، خلیل بن احمد، کتاب العین
  • فیض کاشانی، ملا محسن، تفسیر صافی، ترجمہ عبدالرحیم عقیقی بخشایشی، قم، نوید اسلام، ۱۳۵۸ش.
  • قرشی، علی اکبر، قاموس قرآن، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، بی‌تا.
  • القاسمی، محمد جمال‌الدین، تفسیر القاسمی، بیروت، بی‌تا.
  • قمی، شیخ عباس، مفاتیح الجنان، ذیل اعمال شبہای قدر.
  • کاشانی، ملا فتح الله، تفسیر منہج الصادقین، تہران، علمی، ۱۳۴۰ش.
  • کلینی، محمد بن یعقوب، اصول کافی، ترجمہ محمد باقر کمره‌ای، قم، اسوه، ۱۳۷۵ش.
  • مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، بیروت، دارالاحیاء التراث العربی.
  • مسلم، صحیح مسلم، دارالکتب العلمیہ، بیروت.
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۳۷۱ش.
  • ملکی تبریزی، مرزا جواد، المراقبات فی اعمال االسنہ، بیروت، دارالاعتصام.
  • ابن بابویہ، محمد علی، الخصال، مصحح: غفاری، علی اکبر، جامعہ مدرسین، قم، ۱۳۶۲ش.