سورہ مطففین

ویکی شیعہ سے
انفطار سورۂ مطففین انشقاق
ترتیب کتابت: 83
پارہ : 30
نزول
ترتیب نزول: 86
مکی/ مدنی: مکی
اعداد و شمار
آیات: 36
الفاظ: 169
حروف: 751

سورہ مُطَفِّفین قرآن کریم کی 83ویں اور مکے میں نازل ہونے والی آخری سورت ہے۔ یہ سورت قرآن کے آخری پارے میں واقع ہے۔ اس کا نام اس کی پہلی آیت سے لی گئی ہے جس میں "مطففین" یعنی ناپ طول میں کمی کرنے والے کی مذمت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ لوگ گمان کرتے ہیں کہ آخرت نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے۔ قیامت کے دن رونما ہونے والے واقعات نیز نیکوکاروں اور گناہگاروں کی خصوصیات اس سورت کے مضامین میں شامل ہیں۔ تفاسیر میں آیا ہے کہ اس سورت کی تیسویں آیت امیرالمؤمنین حضرت علیؑ کے دشمنوں کی شان میں نازل ہوئی ہے۔

اس سورت کی تلاوت کے بارے میں احادیث میں آیا ہے کہ جو شخص اس سورت کی تلاوت کرے خدا قیامت کے دن ایسے پانی سے اسے سیرات کرے گا جس تک کسی اور کا ہاتھ نہ پہنچا ہو گا۔ اسی طرح یہ بھی منقول ہے کہ جو شخص اس سورت کو اپنی نمازوں میں پڑھے گا وہ جہنم کی آگ سے محفوظ رہے گا۔ اس سورت کی آخری آیتیں جو نیکوکاروں کے بارے میں ہیں ضریح حضرت عباس پر منقش آیات میں سے ہیں۔

تعارف

سورہ مطففین کی ابتدائی آیات خط ریحان میں، آستان قدس رضوی، 845ھ
  • نام

اس سورت کو مُطَفِّفین‌ کہا جاتا ہے کیونکہ یہ لفظ اس کی پہلی آیت میں آیا ہے۔[1] جس کے معنی ناپ طول میں کمی کرنے والے کے ہیں۔[2] اس سورت کو "تطفیف‌" بھی کہا جاتا ہے جو کہ "مطففین" کا مصدر ہے۔[3]

  • محل اور ترتیب نزول

سورہ مطففین مکے میں نازل ہونے والی سورتوں میں سے آخری سورت ہے۔ ترتیب نزول کے اعتبار سے 87ویں جبکہ موجودہ ترتیب کے اعتبار سے 83ویں سورت ہے اور یہ سورت قرآن کے آخری پارے میں موجود ہے۔[4]

  • آیتوں کی تعداد اور دوسری خصوصیات

سورہ مطففین 36 آیات، 169 کلمات اور 751 حروف پر مشتمل ہے اور اس کا شمار مُفصَّلات میں ہوتا ہے۔[5]

اس سورت کی آخری آیتیں جو نیکوکاروں کے بارے میں ہیں ضریح حضرت عباس پر منقش آیات میں سے ہیں۔[6]

مضامین

  • اس سورت کی پہلی تین آیتوں میں ڈنڈی مارنے، ناپ تول میں کمی کرنے اور لین دین میں لوگوں کے حقوق کی رعایت نہ کرنے کا فقہی حکم بیان کرتے ہوئے اسے حرام قرار دیا گیا ہے۔
  • اس سورت میں معاد کی توصیف، محشر اور عالم آخرت کے حالات کو بیان کیا گیا ہے۔
  • سورہ مطففین دو جماعتوں ابرار (نیکوکار) اور فجار (مجرمین) کو متعارف کراتے ہوئے اِس دنیا میں کافروں کی جانب سے مؤمنین کا مزاق اڑائے جانے اور آخرت میں مؤمنین کا کافروں پر ہنسنے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔[7]
سورہ مطففین کے مضامین[8]
 
 
دوسروں کے حقوق پامال کرنے میں قیامت کے انکار کا اثر
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
دوسرا گفتار: آیہ ۲۹-۳۶
دوسروں کے معنوی حقوق کی پامالی
 
پہلا گفتار: آیہ ۱-۲۸
دوسروں کے مادی حقوق کی پامالی
 
 
 
 
 
 
 
 
پہلا مطلب: آیہ ۲۹-۳۳
کافروں کا مومنوں سے توہین آمیز رویہ
 
پہلا مطلب: آیہ ۱-۶
کم فروشی میں قیامت پر اعتقاد نہ ہونے کا اثر
 
 
 
 
 
 
 
 
دوسرا مطلب: آیہ ۳۴-۳۶
قیامت میں مومنوں کا احترام اور کافروں کی اہانت
 
دوسرا مطلب: آیہ ۷-۱۷
گناہگاروں کے عذاب کے بارے میں قیامت کے منکروں کا غلط تصور
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
تیسرا مطلب: آیہ ۱۸-۲۸
قیامت کے منکروں کا نیکی کے اجر کے بارے میں میں غلط تصور


شأن نزول: مدینہ کے ناپ تول میں کمی کرنے والے

تفسیر نمونہ میں سورہ مطففین کی شأن نزول کے بارے میں آیا ہے: ابن عباس کہتے ہیں جس وقت پیغمبر اکرمؐ مدینہ تشریف لائے اسو وقت مدینہ کے بہت سارے لوگ ناپ تول میں کمی کرتے تھے۔ ایسے میں جب خداوندمتعال نے ان آیتوں کو نازل فرمایا تو انہوں نے دل و جان سے قبول کیا اور اس بری عادت کو چھوڑ دیا۔[9] کتاب مجمع البیان میں بھی آیا ہے کہ ابوجہینہ نامی ایک شخص جو مدینہ کا رہنے والا تھا، جس کے پاس ناپ تول کے دو پیمانے تھے: ایک چھوٹا اور دوسرا بڑا۔ خریدتے وقت بڑے پیمانے سے جبکہ بھیجتے وقت چھوٹے پیمانے سے استفادہ کرتا تھا۔[10]

آیت نمبر 30 کی شأن نزول

علامہ طباطبایی تفسیر مجمع البیان سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آیت "وَ إِذا مَرُّوا بِهِمْ يَتَغامَزُونَ" امام علیؑ کے مخالفین کی شأن میں نازل ہوئی ہے۔ اس بارے میں منقول ہے کہ ایک دن امیرالمؤمنین حضرت علیؑ مسلمانوں کے ایک گروہ کے ساتھ رسول خداؐ کی خدمت میں تشریف لائے۔ اس موقع پر منافقین نے ان کا مزاق اڑاتے ہوئے ان پر ہنسنے لگے اس کے بعد اپنے دوستوں کے پاس جا کر کہنے لگے: ہم نے آج اَصلَع (جس کے سر کے اگلے حصے پر بال نہ ہو اور ان کی مراد امام علی تھے) کا خوب مزاق اڑایا۔ اس واقعے کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ علامہ طباطبایی لکھتے ہیں کہ اس حدیث کو اہل سنت کے مشہور مفسر زمخشری نے بھی نقل کیا ہے۔[11]

گناہ کی کثرت قیامت کے انکار کا سبب

اس سورت کی آیت نمبر 12 میں آیا ہے کہ صرف حد سے گذرنے والے اور گناہ گار انسان کے کوئی اور قیامت کا انکار نہیں کرتا۔ علامہ طباطبایی المیزان میں اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: انسان کو گناہوں سے باز رکھنے کا واحد راستہ قیامت کے دن دوبارہ زندہ کئے جانے کا پر ایمان لانا ہے اور جو شخص شہوتوں میں ڈھوبا ہوا ہے اور اس کا دل گناہ کو پسند کرتا ہے وہ اس کام میں کسی بھی رکاوٹ کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ پس گناہوں کی کثرت اسے یہاں تک لے آتا ہے کہ وہ قیامت کا انکار کرنے لگتا ہے۔[12]

امام باقرؑ سے منقول ہے کہ کوئی چیز گناہ سے زیادہ انسان کے دل کو فاسد نہیں کرتی۔ جب انسان کا دل گناہ سے آشنا ہوتا ہے تو دن بہ دن اس کی طرف مائل ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ گناہ اس پر مکمل احاطہ کرتا ہے۔ اس وقت انسان کا دل زیر و رو ہو جاتا ہے۔[13]

فضیلت اور خصوصیات

تفسیر مجمع البیان میں سورہ مطففین کی تلاوت کے بارے میں پیغمبر اکرمؐ سے نقل ہوئی ہے کہ جو شخص اس سورت کی تلاوت کرے خدا قیامت کے دن اسے پاک اور خالص پینے کی چیزوں سے سیراب کرے گا جو آج تک کسی اور کو نصیب نہ ہوئی ہوگی۔[14] اسی طرح امام صادقؑ سے بھی ایک حدیث میں آیا ہے کہ جو شخص اپنی واجب نمازوں میں سورہ مطففین پڑھے گا تو خدا قیامت کے دن دوزخ کے عذاب سے اسے نجات دے گا نہ وہ جہنم کی آگ کو دیکھے گا اور نہ جہنم کی آگ اسے دیکھ سکے گی۔[15] تفسیر البرہان میں امام صادق سے ایک اور حدیث نقل ہوئی ہے جس میں آیا ہے کہ سورہ مطففین کو جس چیز پر بھی پڑھے تو وہ چیز روی زمین کے حشرات کی آفت سے محفوظ رہے گی۔[16]

متن اور ترجمہ

سورہ مطففین
ترجمہ
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّ‌حْمَـٰنِ الرَّ‌حِيمِ

وَيْلٌ لِّلْمُطَفِّفِينَ ﴿1﴾ الَّذِينَ إِذَا اكْتَالُواْ عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ ﴿2﴾ وَإِذَا كَالُوهُمْ أَو وَّزَنُوهُمْ يُخْسِرُونَ ﴿3﴾ أَلَا يَظُنُّ أُولَئِكَ أَنَّهُم مَّبْعُوثُونَ ﴿4﴾ لِيَوْمٍ عَظِيمٍ ﴿5﴾ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿6﴾ كَلَّا إِنَّ كِتَابَ الفُجَّارِ لَفِي سِجِّينٍ ﴿7﴾ وَمَا أَدْرَاكَ مَا سِجِّينٌ ﴿8﴾ كِتَابٌ مَّرْقُومٌ ﴿9﴾ وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِّلْمُكَذِّبِينَ ﴿10﴾ الَّذِينَ يُكَذِّبُونَ بِيَوْمِ الدِّينِ ﴿11﴾ وَمَا يُكَذِّبُ بِهِ إِلَّا كُلُّ مُعْتَدٍ أَثِيمٍ ﴿12﴾ إِذَا تُتْلَى عَلَيْهِ آيَاتُنَا قَالَ أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ ﴿13﴾ كَلَّا بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِهِم مَّا كَانُوا يَكْسِبُونَ ﴿14﴾ كَلَّا إِنَّهُمْ عَن رَّبِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوبُونَ ﴿15﴾ ثُمَّ إِنَّهُمْ لَصَالُوا الْجَحِيمِ ﴿16﴾ ثُمَّ يُقَالُ هَذَا الَّذِي كُنتُم بِهِ تُكَذِّبُونَ ﴿17﴾ كَلَّا إِنَّ كِتَابَ الْأَبْرَارِ لَفِي عِلِّيِّينَ ﴿18﴾ وَمَا أَدْرَاكَ مَا عِلِّيُّونَ ﴿19﴾ كِتَابٌ مَّرْقُومٌ ﴿20﴾ يَشْهَدُهُ الْمُقَرَّبُونَ ﴿21﴾ إِنَّ الْأَبْرَارَ لَفِي نَعِيمٍ ﴿22﴾ عَلَى الْأَرَائِكِ يَنظُرُونَ ﴿23﴾ تَعْرِفُ فِي وُجُوهِهِمْ نَضْرَةَ النَّعِيمِ ﴿24﴾ يُسْقَوْنَ مِن رَّحِيقٍ مَّخْتُومٍ ﴿25﴾ خِتَامُهُ مِسْكٌ وَفِي ذَلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُونَ ﴿26﴾ وَمِزَاجُهُ مِن تَسْنِيمٍ ﴿27﴾ عَيْنًا يَشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُونَ ﴿28﴾ إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا كَانُواْ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ ﴿29﴾ وَإِذَا مَرُّواْ بِهِمْ يَتَغَامَزُونَ ﴿30﴾ وَإِذَا انقَلَبُواْ إِلَى أَهْلِهِمُ انقَلَبُواْ فَكِهِينَ ﴿31﴾ وَإِذَا رَأَوْهُمْ قَالُوا إِنَّ هَؤُلَاء لَضَالُّونَ ﴿32﴾ وَمَا أُرْسِلُوا عَلَيْهِمْ حَافِظِينَ ﴿33﴾ فَالْيَوْمَ الَّذِينَ آمَنُواْ مِنَ الْكُفَّارِ يَضْحَكُونَ ﴿34﴾ عَلَى الْأَرَائِكِ يَنظُرُونَ ﴿35﴾ هَلْ ثُوِّبَ الْكُفَّارُ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ ﴿36﴾


(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

بربادی ہے ناپ تول میں کمی کرنے (ڈنڈی مارنے) والوں کے لئے۔ (1) جب وہ (اپنے لئے) لوگوں سےناپ کر لیں تو پورا لیتے ہیں۔ (2) اور جب لوگوں کو ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو انہیں گھاٹا دیتے ہیں۔ (3) کیا یہ لوگ خیال نہیں کرتے کہ وہ (دوبارہ زندہ کر کے) اٹھائے جائیں گے۔ (4) ایک بڑے (سخت) دن کیلئے۔ (5) جس دن تمام لوگ ربُ العالمین کی بارگاہ میں پیشی کیلئے کھڑے ہوں گے۔ (6) ہرگز نہیں! بےشک بدکاروں کا نامۂ اعمال سِجِّین (قید خانہ کے دفتر) میں ہے۔ (7) تمہیں کیا معلوم کہ سِجِّین کیا ہے؟ (8) یہ ایک لکھی ہوئی کتاب ہے (جس میں بدکاروں کے عمل درج ہیں)۔ (9) بربادی ہے اس دن جھٹلانے والوں کیلئے۔ (10) جو جزا و سزا کے دن (قیامت) کو جھٹلاتے ہیں۔ (11) اور اس دن کو نہیں جھٹلاتا مگر وہ شخص جو حد سے گزر نے والا (اور) گنہگار ہے۔ (12) کہ جب اس کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو وہ کہتا ہے کہ یہ تو پہلے زمانے والوں کے افسانے ہیں۔ (13) ہرگز نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کا زَنگ چڑھ گیا ہے جو وہ کرتے ہیں۔ (14) ہرگز (ایسا نہیں کہ جزا وسزا نہ ہو) یہ لوگ اس دن اپنے پروردگار (کی رحمت سے) (محجوب اور محروم) رہیں گے۔ (15) پھر یہ لوگ جہنم میں ڈالے جائیں گے۔ (16) پھر (ان سے) کہا جائے گا کہ یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھٹلاتے تھے۔ (17) ہرگز (ایسا) نہیں (کہ جزا و سزا نہ ہو) یقیناً نیکو کاروں کا نامۂ اعمال علیین (بلند مرتبہ لوگوں کے دفتر) میں ہے۔ (18) اور تمہیں کیا معلوم کہ علیین (بلند مرتبہ لوگوں کا دفتر) کیا ہے؟ (19) وہ ایک لکھی ہوئی کتاب ہے (جس میں نیکو کاروں کے عمل درج ہیں)۔ (20) جس کامشاہدہ مقرب فرشتے کرتے ہیں۔ (21) بےشک نیکوکار لوگ عیش و آرام میں ہوں گے۔ (22) اونچی مسندوں پر بیٹھ کر دیکھ رہے ہونگے (نظارے کر رہے ہوں گے)۔ (23) تم ان کے چہروں پر راحت و آرام کی شادابی محسوس کرو گے۔ (24) انہیں سر بمہر عمدہ شراب (طہور) پلائی جائے گی۔ (25) جس پر مشک کی مہر ہوگی۔ اس چیز میں سبقت لے جانے والوں کو سبقت (اور رغبت) کرنی چاہیے۔ (26) ور اس (شراب میں) تسنیم کی آمیزش ہوگی۔ (27) یہ وہ چشمہ ہے جس سے مقرب لوگ پئیں گے۔ (28) بےشک جو مجرم لوگ تھے وہ (دارِ دنیا میں) اہلِ ایمان پر ہنستے تھے۔ (29) جب ان کے پاس سے گزرتے تھے تو آنکھیں مارا کرتے تھے۔ (30) اور جب اپنے گھر والوں کی طرف لوٹتے تھے تو دل لگیاں کرتے ہوئے لوٹتے تھے۔ (31) اور جب ان (اہلِ ایمان) کو دیکھتے تھے تو کہتے تھے کہ یہ بھٹکے ہوئے لوگ ہیں۔ (32) حالانکہ وہ انکے نگران بنا کر نہیں بھیجے گئے تھے۔ (33) پس آج اہلِ ایمان کافروں (اور منکروں) پر ہنستے ہوں گے۔ (34) اونچی مسندوں پر بیٹھے ہوئے (ان کی حالت) دیکھ رہے ہونگے۔ (35) کیا کافروں کو ان کے کئے ہوئے (کرتوتوں) کا پورا بدلہ مل گیا ہے۔ (36)

پچھلی سورت: سورہ انفطار سورہ مطففین اگلی سورت:سورہ انشقاق

1.فاتحہ 2.بقرہ 3.آل‌عمران 4.نساء 5.مائدہ 6.انعام 7.اعراف 8.انفال 9.توبہ 10.یونس 11.ہود 12.یوسف 13.رعد 14.ابراہیم 15.حجر 16.نحل 17.اسراء 18.کہف 19.مریم 20.طہ 21.انبیاء 22.حج 23.مؤمنون 24.نور 25.فرقان 26.شعراء 27.نمل 28.قصص 29.عنکبوت 30.روم 31.لقمان 32.سجدہ 33.احزاب 34.سبأ 35.فاطر 36.یس 37.صافات 38.ص 39.زمر 40.غافر 41.فصلت 42.شوری 43.زخرف 44.دخان 45.جاثیہ 46.احقاف 47.محمد 48.فتح 49.حجرات 50.ق 51.ذاریات 52.طور 53.نجم 54.قمر 55.رحمن 56.واقعہ 57.حدید 58.مجادلہ 59.حشر 60.ممتحنہ 61.صف 62.جمعہ 63.منافقون 64.تغابن 65.طلاق 66.تحریم 67.ملک 68.قلم 69.حاقہ 70.معارج 71.نوح 72.جن 73.مزمل 74.مدثر 75.قیامہ 76.انسان 77.مرسلات 78.نبأ 79.نازعات 80.عبس 81.تکویر 82.انفطار 83.مطففین 84.انشقاق 85.بروج 86.طارق 87.اعلی 88.غاشیہ 89.فجر 90.بلد 91.شمس 92.لیل 93.ضحی 94.شرح 95.تین 96.علق 97.قدر 98.بینہ 99.زلزلہ 100.عادیات 101.قارعہ 102.تکاثر 103.عصر 104.ہمزہ 105.فیل 106.قریش 107.ماعون 108.کوثر 109.کافرون 110.نصر 111.مسد 112.اخلاص 113.فلق 114.ناس



حوالہ جات

  1. دانشنامہ قرآن و قرآن‌پژوہی، ۱۳۷۷ش، ج۲، ص۱۲۶۲
  2. راغب اصفہانی، المفردات، ج۱، ص۵۲۱.
  3. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱۰، ص۶۸۵؛ دانشنامہ قرآن و قرآن‌پژوہی، ۱۳۷۷ش، ج۲، ص۱۲۶۲.
  4. معرفت، آموزش علوم قرآن، ۱۳۷۱ش، ج۱، ص۱۶۷.
  5. دانشنامہ قرآن و قرآن‌پژوہی، ۱۳۷۷ش، ج۲، ص۱۲۶۲.
  6. «آج رات کربلا میں چاند سورج کو طعنہ دے رہا ہے»، خبرگزاری فارس.
  7. دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ج2، صص1262۔
  8. خامہ‌گر، محمد، ساختار سورہ‌ہای قرآن کریم، تہیہ مؤسسہ فرہنگی قرآن و عترت نورالثقلین، قم، نشر نشرا، چ۱، ۱۳۹۲ش.
  9. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۲۶، ص۲۴۴.
  10. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱۰، ص۶۸۷.
  11. طباطبایی، المیزان، ۱۹۷۴م، ج۲۰، ص۲۴۰.
  12. طباطبایی، المیزان، ۱۹۷۴م، ج۲۰، ص۲۳۳.
  13. طباطبایی، المیزان، ۱۹۷۴م، ج۲۰، ص۲۳۶-۲۳۷.
  14. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱۰، ص۶۸۵.
  15. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۲۶، ص۲۴۱‍.
  16. بحرانی، البرہان، ۱۴۱۶ق، ج۵، ص۶۰۳.

مآخذ

  • قرآن کریم، ترجمہ محمد حسین نجفی (سرگودھا)۔
  • بحرانی، سیدہاشم، البرہان فی تفسیر القرآن، تحقیق: قسم الدراسات الاسلامیۃ مؤسسۃ البعثۃ قم، چ۱، تہران، بنیاد بعثت، ۱۴۱۶ق.
  • دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ج۲، بہ کوشش بہاءالدین خرمشاہی، تہران، دوستان-ناہید، ۱۳۷۷ش.
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الأعلمي للمطبوعات، چاپ دوم، ۱۹۷۴م.
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، با مقدمہ محمدجواد بلاغی، تہران، انتشارات ناصر خسرو، چچاپ سوم، ۱۳۷۲ش.
  • معرفت، محمدہادی، آموزش علوم قرآن، [بی‌جا]، مرکز چاپ و نشر سازمان تبلیغات اسلامی، چاپ اول، ۱۳۷۱ش.
  • مکارم شیرازی، ناصر و جمعی از نویسندگان، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۳۷۴ش.

بیرونی روابط