سورہ محمدقرآن کریم کی مدنی سورتوں میں سے سینتالیسواں سورہ ہے کہ جو ۲۶ویں جزو میں واقع ہے۔ اس سورہ کا نام محمدؐ نام رکھنے کی وجہ اس سورے کی دوسری آیت میں مذکور ہونا ہے۔
مؤمنین، کفار اور آخرت میں ان کی عاقبت اس سورے کے اصلی مضمون ہیں۔ نصرت الہی کے پہنچنے کی کیفیت کی طرف اشارہ اس سورے کی ساتویں آیت میں اشارہ موجود ہے نیز یہی آیت مشہور آیات احکام میں سے اور وجہ تسمیہ کی آیت بھی ہے۔ چوتھی آیت قیدیوں کے قتل کی ممنوعیت، انہیں فدیہ لے کر یا کسی چیز کو بدلے میں لئے بغیر آزاد کرنے کے احکام پر مشتمل ہے۔
بہشتی چشموں سے سیراب ہونا اور بہشت میں فقیری کا نہ ہونا اس سورے کی تلاوت کے اجر و ثواب میں سے ہے۔
تعارف
وجہ تسمیہ
سورے کی دوسری آیت میں محمدؐ کے ذکر کو اس سورت کا وجہ تسمیہ کہا جاتا ہے۔ اس سورت کا دوسرا نام قتال ہے کیونکہ اس سورت کی اکثر آیات میں جہاد سے متعلق احکام بیان ہوئے ہیں۔[1] نیز اس سورت کا آغاز «الذین کفروا» کے الفاظ سے ہونے کی بنا پر اس کا نام «الذین کفروا» بھی مذکور ہوا ہے۔[2]
مقام و ترتیب نزول
سوره محمد مدنی سورتوں کا حصہ ہے اور رسول خدا پر قرآن کے نازل ہونے والی ترتیب کے مطابق پچانویں نمبر ہے۔ اس وقت قرآن کی موجودہ ترتیب میں سینتالیسواں سورہ ہے جو قرآن کے ۲۶ویں پارے میں واقع ہے۔[3]
تعداد آیات اور دیگر خصوصیات
سوره محمد ۳۸ آیات، ۵۴۲ کلمات اور ۲۴۲۴ حروف پر مشتمل ہے۔ حجم کے لحاظ سے مثانی سورتوں کا حصہ ہے اور ایک حزب سے کم پر مشتمل ہے۔[4]
مضامین
مؤمنین و کفار کی صفات، قیامت کے دن دونوں گروہوں کا عاقبت کے لحاظ سے مقائسہ، جہاد کا مسئلہ اور اسلام دشمنوں سے جنگ اس سورت کے اصلی موضوعات ہیں۔[5]جنگ احد کے موقع پر اس سورت کے نازل ہونے کی وجہ سے اس کی اکثر آیات میں جنگ سے متعلق گفتگو کی گئی ہے۔[6]
اے ایمان والو! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا (اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا)۔
اس آیت میں مسلمانوں کو جہاد کی رغبت دلائی گئی ہے۔ بعض شیعی تفاسیر کے مطابق آیت میں ایمان کا سہارا لینا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حق کے دشمنوں سے برسر پیکار ہونا سچے ایمان کی علامات میں سے ہے اور خدا کی مدد کرنے کی تعبیر واضح طور پر دین الہی کی مدد کرنے کے معنا میں ہے۔ جیسا کہ تفاسیر میں رسول خدا کی مدد کرنا، شریعت اور اس کی تعلیمات، اور اسی طرح دیگر مقام پر جیسے (سورہ حشر کی آیت ۸) میں خدا اور اس کے رسول کی مدد ایک ساتھ ذکر ہوئے ہیں۔[8]
نہجالبلاغہ میں امام علیؑ سے منقول ہے: اگر خدا کی مدد کرو گے تو خدا تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدموں کو راہ راست پر رکھے گا نیز خداوند خوارى اور ناچارى کی بنا پر تم سے مدد کا طلبگار نہیں ہے۔ خدا خود عزیز و حکیم ہے اور زمینی اور آسمانی لشکر اس کے فرمان کے تابع ہیں اس کے باوجود وہ تم سے مدد چاہتا ہے۔ تمہیں آزمانے کیلئے وہ تم سے مدد کو چاہتا ہے اور تم میں سے بہترین عمل کرنے والوں متعین کرنا چاہتا ہے۔[9]
پیغمبرؐ سے مروی ہے کہ اگر کوئی اس سورت کی تلاوت کرے گا تو وہ شخص قیامت کے روزاپنی قبر سے اٹھ کر جس طرف نگاہ دوڑائے گا تو وہ رسول خدا کی زیارت کرے گا نیز خدا اسے بہشت کے چشموں سے سیراب کرے گا۔[10]دین میں تردید کا شکار نہ ہونا، فقر میں مبتلا نہ ہونا،خداوند و پیامبر کی امان میں ہونا اس سورت کی تلاوت کے ان انعامات میں سے ہے کہ جن کی طرف امام صادق(ع) کی روایت میں اشارہ کیا گیا ہے۔[11]
آیات احکام
اس سورت کی چوتھی آیتآیات احکام کا حصہ سمجھی جاتی ہے کہ جس میں جنگ کے بعد اسیروں کا حکم بیان ہوا ہے۔[12] اس آیت میں اسیروں کو قتل کرنے سے منع کیا ہے اور مسلمانوں کے رہبر کو فدیہ لے کر انہیں آزاد کرنے یا کسی عوض کے بغیر آزاد کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔[13]
(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
جن لوگوں نے کفر کیا اور (دوسرے لوگوں کو بھی) اللہ کے راستے سے روکا اس (اللہ) نے ان کے اعمال کو رائیگاں کر دیا۔ (1) اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بھی کئے اور اس (قرآن) پر بھی ایمان لائے جو (حضرت) محمد (ص) پر نازل کیا گیا ہے جو کہ ان کے پروردگار کی طرف سے حق ہے تو اللہ نے ان کی برائیوں کا کفارہ ادا کر دیا (برائیاں دور کر دیں) اور انکی حالت کو درست کر دیا۔ (2) یہ اس لئے ہوا کہ جن لوگوں نے کفر کیا انہوں نے باطل کی پیروی کی اور جو ایمان لائے انہوں نے اپنے پروردگار کی طرف سے حق کی پیروی کی اسی طرح خدا لوگوں کے حالات و اوصاف بیان کرتا ہے۔ (3) پس جب کافروں سے تمہاری مڈبھیڑ ہوجائے تو ان کی گردنیں اڑاؤ۔ یہاں تک کہ جب خوب خون ریزی کر چکو (خوب قتل کر لو) تو پھر ان کو مضبوط باندھ لو اس کے بعد (تمہیں اختیار ہے)یا تو احسان کرو (رہا کردو)یا فدیہلے لو یہاں تک کہ جنگ میں اپنے ہتھیار ڈال دے (یہ حکم) اسی طرح ہے اور اگر خدا چاہتا تو خود ہی ان سے انتقاملے لیتا لیکن وہ تم لوگوں کے بعض کو بعض سے آزمانا چاہتا ہے اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہو گئے تو اللہ ان کے اعمال کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا۔ (4) اور (منزلِ مقصود کی طرف) ان کی راہنمائی کرے گا اور ان کی حالت کو درست کرے گا۔ (5) اور ان کو بہشت میں داخل کرے گا جس کا وہ ان سے تعارف کرا چکا ہے۔ (6) اے ایمان والو! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا (اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا)۔ (7) اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا تو ان کیلئے ہلاکت ہے اور اللہ نے ان کے اعمال کو رائیگاں کر دیا۔ (8) یہ اس لئے ہے کہ انہوں نے اسے ناپسند کیا جو اللہ نے نازل کیا ہے۔ پس اس (اللہ) نے ان کے سب اعمال اکارت کر دئیے۔ (9) کیا یہ لوگ زمین میں چلتے پھرتے نہیں کہ دیکھتے کہ ان لوگوں کا انجام کیا ہوا جو ان سے پہلے تھے اللہ نے ان کو ہلاک کر دیا اور ان کافروں کیلئے بھی ایسے ہی انجام ہیں۔ (10) یہ اس لئے ہے کہ اللہ اہلِ ایمان کا سرپرست ہے اور جو کافر ہیں ان کا کوئی سرپرست اور کارساز نہیں ہے۔ (11)
بےشک اللہ ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے ان بہشتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور جن لوگوں نے کفر کیا وہ (دنیا میں) بہرہ مند ہو رہے ہیں (عیش کر رہے ہیں) اور اس طرح کھا رہے ہیں جس طرح چوپائے کھاتے ہیں اور (ان کا آخری) ٹھکانہ دوزخ ہے۔ (12) اور کتنی ہی ایسی بستیاں تھیں جو تمہاری اس بستی سے زیادہ طاقتور تھیں جس نے تمہیں نکالا ہے کہ ہم نے انہیں ہلاک کر دیا پس ان کا کوئی مددگار نہ تھا۔ (13) کیا وہ جو اپنے پروردگار کی طرف سے واضح دلیل پر ہے اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جس کی بدعملی اس کی نگاہ میں خوشنما بنا دی گئی ہے اور وہ اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں؟ (14) وہ جنت جس کا پرہیزگاروں سے وعدہ کیا گیا ہے اس کی صفت یہ ہے کہ اس میں ایسے پانی کی نہریں ہیں جس میں تغیر نہیں ہوتا اور ایسے دودھ کی نہریں ہیں جس کا مزہ نہیں بدلتا اور ایسے شراب کی نہریں ہیں جو پینے والوں کے لئے لذیذ ہے اور ایسے شہد کی نہریں ہیں جو صاف شفاف ہے اور ان کیلئے وہاں ہر قسم کے پھل ہیں اور ان کے پروردگار کی طرف سے بخشش ہے کیا ایسے (پرہیزگار) لوگ ان لوگوں جیسے ہو سکتے ہیں جو ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے اور ان کو ایسا گرم پانی پلایا جائے گا جو ان کی آنتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا۔ (15) اور ان میں سے ایسے لوگ بھی ہیں جو (بظاہر) تمہاری طرف کان لگا کر (بات سنتے ہیں) یہاں تک کہ جب آپ کے پاس سے باہر جاتے ہیں تو ان (خاص) لوگوں سے پوچھتے ہیں جن کو علم عطا کیا گیا ہے کہ انہوں (رسول(ص)) نے ابھی کیا کہاتھا؟ یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں پر خدا نے مہر لگا دی ہے اور اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں۔ (16) اور جن لوگوں نے ہدایت طلب کی ہے اللہ ان کی ہدایت میں اور اضافہ کرتا ہے اور ان کو (ان کے حصے کی) پرہیزگاری عطا کرتا ہے۔ (17) سو یہ لوگ تو بس اب قیامت کا انتظار کر رہے ہیں کہ اچانک ان پر آجائے تو اس کے آثار و علا مات تو آہی چکے ہیں اور جب وہ آجائے گی تو پھر ان کو نصیحت حاصل کرنے کاموقع کہاں رہے گا؟ (18) (اے رسول(ص)) خوب جان لیں کہ اللہ کے سوا کوئی خدانہیں ہے اور خدا سے اپنے ذنب اور مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کی مغفرت طلب کریں۔ اللہ تمہاری گردش (چلنے پھر نے) کی جگہ کو اور تمہارے ٹھکانے کو جانتا ہے۔ (19)
اور جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ کہتے ہیں کہ (جہاد کے بارے میں) کوئی سورہ کیوں نازل نہیں کی جاتی؟ پس جب ایک محکم سورہ نازل کی جاتی ہے اور اس میں قتل و قتال کا ذکر ہوتا ہے تو آپ(ص) ان لوگوں کو دیکھئے گا کہ جن کے دلوں میں (نفاق کی) بیماری ہے وہ آپ(ص) کی طرف اس طرح دیکھتے ہیں جس طرح وہ شخص دیکھتا ہے جس پر موت کی غشی طاری ہو۔ (20) ان کے لئے بہتر تو یہ تھا کہ اطاعت کرتے اور اچھی بات کہتے اور جب (جہاد کا) قطعی فیصلہ ہو جاتا تو اگر یہ اللہ سے (اپنے عہد میں) سچے ثابت ہوتے تو ان کے لئے بہتر ہوتا۔ (21) پھرتم سے یہی توقع ہے کہ اگر تم حاکم بن جاؤ (تمہیں اقتدار مل جائے) تو تم زمین میں فساد برپا کرو۔اور اپنی قرابتوں کو قطع کرو۔ (22) یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے اور انہیں بہرا بنا دیا ہے اور ان کی آنکھوں کو اندھا کر دیا ہے۔ (23) کیا یہ لوگ قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے؟ یا ان کے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں۔ (24) جو لوگ پیٹھ پھیر کر (کفر کی طرف) پیچھے پلٹ گئے بعد اس کے کہ ان پر ہدایت واضح ہو گئی تھی۔ شیطان نے انہیں فریب دیا اورانہیں دور دور کی سجھائی۔ (25) یہ اس لئے ہے کہ انہوں نے ان لوگوں سے کہا جو اللہ کی نازل کردہ (کتاب) کو ناپسند کرتے ہیں کہ ہم بعض معاملات میں تمہاری بات مان لیں گے اللہ ان کی رازداری کو جانتا ہے۔ (26) اس وقت ان کا کیا حال ہوگا جب فرشتے ان کی روحیں قبض کریں گے اور ان کے چہروں اور پشتوں پر مارتے ہوں گے۔ (27) یہ سب اس وجہ سے ہوگا کہ انہوں نے اس چیز کی پیروی کی جو اللہ کی ناراضی کا با عث تھی اور اس کی خوشنودی کو ناپسند کیا پس اللہ نے ان کے اعمال کو اکارت کر دیا۔ (28) کیا وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے یہ خیال کرتے ہیں کہ اللہ کبھی ان کے (سینوں کے) کینوں کو ظاہر نہیں کرے گا۔ (29)
اگر ہم چاہیں تو وہ لوگ آپ کو دکھا دیں اور آپ انہیں علامتوں سے پہچان لیں اور (خاص کر) آپ انہیں ان کے اندازِ گفتگو سے تو ضرور پہچان لیں گے اور اللہ تم سب کے اعمال کو جانتا ہے۔ (30) اور ہم ضرور تم لوگوں کو آزمائیںگے تاکہ ہم تم میں سے جہاد کرنے والوں اور ثابت قدم رہنے والوں کو معلوم (و ممیز) کریں اور تمہارے حالات کی جانچ کر لیں۔ (31) بےشک جن لوگوں نے کفر کیا اور (دوسرے لوگوں کو) اللہ کی راہ سے روکا اور پیغمبر کی مخالفت کی بعد اس کے کہ ان پر ہدایت واضح ہو چکی تھی وہ اللہ کو ہرگز کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے (ہاں البتہ) اللہ ان کے اعمال کو اکارت کر دے گا۔ (32) اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول(ص) کی اور (ان کی مخالفت کر کے) اپنے اعمال کو برباد نہ کرو۔ (33) بےشک جن لوگوں نے کفر کیا اور (لوگوں کو) اللہ کے راستے سے روکا اور پھر وہ کفر ہی کی حالت میں مر گئے اللہ ان کو کبھی نہیں بخشے گا۔ (34) پس تم کمزور نہ پڑو (اور ہمت نہ ہارو) اور (دشمن کو) صلح کی دعوت نہ دو حالانکہ تم ہی غالب رہو گے اور اللہ تمہارے اعمال (کے ثوا ب) میں ہرگز کمی نہیں کرے گا۔ (35) یہ دنیا کی زندگی تو بس کھیل اور تماشا ہے اگر تم ایمان لاؤ اور تقویٰ اختیار کرو تو وہ (خدا) تمہیں تمہارے اجر عطا کرے گا اور تم سے تمہارے مال نہیں مانگے گا۔ (36) اور اگر وہ تم سے وہ (مال) مانگے اورپھر اصرار بھی کرے تو تم بخل کرو گے اور وہ تمہارے دلی کینوں (اور دلی ناگواریوں) کو ظاہر کر دے گا۔ (37) ہاں تم ہی ایسے لوگ ہو کہ تمہیں دعوت دی جاتی ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرو تو تم میں سے کچھ لوگ بُخل کرنے لگتے ہیں اور جو بُخل کرتا ہے وہ (دراصل) اپنے ہی نفس سے بُخل کرتا ہے اور اللہ بےنیاز ہے البتہ تم (اس کے) محتاج ہو اور اگر تم رُوگردانی کروگے تو وہ تمہاری جگہ دوسری قوم کولے آئے گا پھر وہ تم جیسے نہیں ہوں گے۔ (38)