سورہ قدر

ویکی شیعہ سے
علق سورۂ قدر بینہ
ترتیب کتابت: 97
پارہ : 30
نزول
ترتیب نزول: 25
مکی/ مدنی: مکی
اعداد و شمار
آیات: 5
الفاظ: 30
حروف: 114

سوره قَدْر یا انا انزلنا تیسویں پارے کی ستانوے ویں (97ویں) سورت ہے جو مکی سورتوں کا حصہ ہے۔اس سورت کا نام اس کی پہلی آیت سے لیا گیا ہے کہ جس میں نزول قرآن کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ سوره قدر شب قدر کی عظمت و فضیلت اور شب قدر میں فرشتوں کے نزول جیسے مطالب بیان کرتی ہے۔ شیعہ حضرات اس کے مضامین سے قیامت تک کے لئے وجود معصوم کی ضرورت پر استدلال کرتے ہیں۔
نماز یومیہ، بعض مستحب نمازوں اور شب قدر میں ہزار مرتبہ اس کی تلاوت کی تاکید بیان ہوئی ہے۔

تعارف

وجہ تسمیہ
اس سورت کی وجہ تسمیہ سورت کی پہلی آیت میں خدا کی طرف سے نزول قرآن کی طرف اشارے کا ہونا ہے۔ «انا انزلنا» کے الفاظ سے شروع ہونے کی وجہ سے اس کا دوسرا نام ہے۔ [1]

ترتیب و مقام نزول

سوره قدر مکی سورتوں کا حصہ ہے نیز رسول اللہ پر نازل ہونے کی ترتیب کے لحاظ سے پچیسواں نمبر کا سورہ ہے۔ قرآن کی موجودہ ترتیب میں اس کا نمبر ستانوے (97) اور تیسویں پارے کا حصہ ہے۔[2] بعض مفسرین کچھ روایات کی موجودگی کی بنا پر اس سورت کے مدینہ میں نازل ہونے کا احتمال دیتے ہیں کہ جب پیامبر اسلام(ص) نے خواب میں بنی امیہ کو اپنے منبر پر چڑھتے ہوئے دیکھ کر سخت ناراض ہوئے تو اس سورت کے نازل ہونے سے پیغمبر کو تسلی ہوئی۔[3]

تعداد آیات اور دیگر خصوصیات

سوره قدر ۵ آیات، ۳۰ کلمات اور ۱۱۴ حروف پر مشتمل ہے۔ حجم کے لحاظ سے مفصلات کے اواسط کا حصہ ہے اور اسے مختصر سورتوں میں شمار کرتے ہیں۔[4]

مضامین

مجموعی طور پر سورت قدر شب قدر میں نزول قرآن کی عظمت (جو ہزار مہینوں سے افضل) رکھتی ہے نیز اس رات رحمت کے فرشتوں اور روح کے نزول، اور تقدیر انسان کی تحریر اور اس رات کی برکات کے مضامین پر مشتمل ہے۔[5]


شأن نزول

اس سورت کے شان نزول میں مروی ہے کہ ایک روز رسول خدا نے اپنے اصحاب کے سامنے بنی اسرائیل کے ایک مرد کے ہزار سال تک راہ خدا میں جنگی لباس میں ملبوس رہنے کی داستان نقل کی۔ اصحاب نے اس داستان پر حیرانگی کا اظہار کیا۔ اس کے بعد خداوند نے سوره قدر نازل کی اور اس رات کے بیدار رہنے کو ہزار ماہ کی عبادت سے افضل قرار دیا۔[6]

وجود امام زمانؑ پر استدلال

شیعی کتب احادیث میں پیامبر اسلام(ص)، امام علی(ع) اور امام باقر(ع) سے روایات میں مروی ہے کہ ملائکہ شب قدر رسول خدا کے بعد حضرت علی اور انکے گیارہ فرزندوں کے پاس نازل ہوتے ہیں نیز ان روایات میں مروی ہے کہ شیعہ اس سے وجود امام زمان پر استدلال کریں۔ اسی بنا پر لہذا شیعہ حضرات ان روایات کی روشنی میں سورہ قدر کے ذریعے وجود امام زمان اور انکے زندہ ہونے پر استدلال کرتے ہیں کیونکہ آنے والے سال کے ابلاغ تقدیر کیلئے فرشتوں رسول اللہ سے مخصوص نہیں ہے بلکہ ہر سال ایسا ہونا ضروری ہے، اس بنا پر رسول خدا کے بعد ان جانشینوں کے پاس حاضر ہوتے ہیں جو سب سے زیادہ رسول کے ساتھ مشابہت رکھتے ہیں۔[7] شیعہ ایک جانب شب قدر کی ہمیشگی اور اس میں فرشتوں کے نزول کے حتمی و یقینی ہونے اور دوسری جانب یہ نزول ایک جگہ کا متقاضی ہے کی بنا پر قیامت کے تمام زمانوں میں وجود امام پر استدلال کرتے ہیں۔[8]

فقہی نکات

وحدت افق

بعض فقہا نے اس آیت «انا انزلناه فی لیله القدر» کے استناد کی بنا پر معتقد ہیں کہ دنیا میں کسی ایک نقطے کی رؤیت ہلال دیگر تمام علاقوں کیلئے کافی ہے کیونکہ شب قدر صرف ایک رات ہی ہے جس میں سب انسانوں کی تقدیریں لکھی جاتی ہیں اور واضح ہے کہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ایک جگہ شب قدر ہے اور دوسری جگہوں پر شب قدر نہیں ہے؛ اس بنا پر ایک ہی شب قدر ساری دنیا کیلئے واقع ہوتی ہے۔ البتہ اس کے جواب میں کہا گیا ہے کہ آیت صرف نزول قرآن کے شب قدر میں ہونے کو بیان کر رہی ہے لیکن شب قدر کے متعدد ہونے یا ایک ہونے کے بیان میں نہیں ہے۔[9]

مستحبی نماز میں قرات سورہ قدر

کچھ مستحبی نمازوں میں اس سورت کے پڑھنے کا توصیہ کیا گیا ہے۔ جیسے:

  1. نماز حضرت رسولؐ: دو رکعتی نماز ہے جس کی ہر رکعت میں سوره حمد ایک مرتبہ اور پندرہ مرتبہ إِنّٰا أَنْزَلْنٰاهُ پڑھتے ہیں۔[10]
  2. نماز حضرت فاطمہ: دو رکعت ہے۔پہلی رکعت میں سوره حمد ایک بار اور إِنّٰا أَنْزَلْنٰاهُ سو بار، دوسری رکعت میں سوره حمد ایک‌‌ بار اور سوره توحید سو بار پڑھی جاتی ہے۔[11]
  3. نماز وحشت: دو رکعت ہے۔ پہلی رکعت میں سوره حمد اور آیت الکرسی اور دوسری رکعت میں سوره حمد کے بعد دس مرتبہ اِنّا اَنْزَلْناهُ پڑھے۔[12]
  4. نماز اول ماه: دو رکعت ہے۔ پہلی رکعت میں سوره حمد کے بعد تیس مرتبہ سوره توحید اور دوسری رکعت میں سوره حمد کے بعد تیس مرتبہ اِنّا اَنْزَلْناهُ پڑھتے ہیں۔[13]

مونوگراف

قرآن کی تمام تفاسیر میں اگرچہ سورہ قدر کی تفسیر بیان ہوئی ہے لیکن بعض مصنفین نے مستقل یا چند سورتوں کے ضمن میں اس کی تفسیر لکھی ہیں۔ چند ایک مستقل تفسیروں کے اسما درج ذیل ہیں:

فضیلت

روایات میں اس سورت کی قرات کی بہت زیادہ فضیلت بیان ہوئی ہے۔ مثلا:

نماز یومیہ میں سورہ حمد کے بعد افضل ترین سورہ قدر و سورت اخلاص کی قرات ہے۔[19] حضرت امام محمد باقر سے منقول روایت کے مطابق جملۂ «إِنّٰا أَنْزَلْنٰاهُ» اور اس کی تفسیر پر ایمان رکھنے والا اس پر ایمان نہ رکھنے والے پر اس طرح فضیلت رکھتا ہے جس طرح انسان تمام حیوانات فضیلت رکھتا ہے۔ [20]
امام صادق (ع) سے مروی ہے: سورۂ «إنا أنزلناه» کو نماز واجب میں پڑھنے والے کو ہاتف غیبی اس طرح مخاطب ہوتا ہے:اے بندۂ خدا! ابھی تک جو تو نے گناہ کئے تھے خدا نے وہ سب بخش دئے ہیں اب تو نئے سرے سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کر۔[21]

متن سورہ

سوره قدر
ترجمہ
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّ‌حْمَـٰنِ الرَّ‌حِيمِ

إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ ﴿1﴾ وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ ﴿2﴾ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ ﴿3﴾ تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمْرٍ ﴿4﴾ سَلَامٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ ﴿5﴾

(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

بےشک ہم نے اس (قرآن) کوشبِ قدر میں نازل کیا۔ (1) اور آپ کو کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے؟ (2) شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ (3) اس میں فرشتے اور روح اپنے پروردگار کی اجازت سے (سال بھر کی) ہر بات کا حکم لے کر اترتے ہیں۔ (4) وہ (رات) سراسر سلامتی ہے طلوعِ صبح تک۔ (5)

پچھلی سورت: سورہ علق سورہ قدر اگلی سورت:سورہ بینہ

1.فاتحہ 2.بقرہ 3.آل‌عمران 4.نساء 5.مائدہ 6.انعام 7.اعراف 8.انفال 9.توبہ 10.یونس 11.ہود 12.یوسف 13.رعد 14.ابراہیم 15.حجر 16.نحل 17.اسراء 18.کہف 19.مریم 20.طہ 21.انبیاء 22.حج 23.مؤمنون 24.نور 25.فرقان 26.شعراء 27.نمل 28.قصص 29.عنکبوت 30.روم 31.لقمان 32.سجدہ 33.احزاب 34.سبأ 35.فاطر 36.یس 37.صافات 38.ص 39.زمر 40.غافر 41.فصلت 42.شوری 43.زخرف 44.دخان 45.جاثیہ 46.احقاف 47.محمد 48.فتح 49.حجرات 50.ق 51.ذاریات 52.طور 53.نجم 54.قمر 55.رحمن 56.واقعہ 57.حدید 58.مجادلہ 59.حشر 60.ممتحنہ 61.صف 62.جمعہ 63.منافقون 64.تغابن 65.طلاق 66.تحریم 67.ملک 68.قلم 69.حاقہ 70.معارج 71.نوح 72.جن 73.مزمل 74.مدثر 75.قیامہ 76.انسان 77.مرسلات 78.نبأ 79.نازعات 80.عبس 81.تکویر 82.انفطار 83.مطففین 84.انشقاق 85.بروج 86.طارق 87.اعلی 88.غاشیہ 89.فجر 90.بلد 91.شمس 92.لیل 93.ضحی 94.شرح 95.تین 96.علق 97.قدر 98.بینہ 99.زلزلہ 100.عادیات 101.قارعہ 102.تکاثر 103.عصر 104.ہمزہ 105.فیل 106.قریش 107.ماعون 108.کوثر 109.کافرون 110.نصر 111.مسد 112.اخلاص 113.فلق 114.ناس


حوالہ جات

  1. خرمشاہی، «سوره قدر»، ص۱۲۶۶.
  2. خرمشاہی، «سوره قدر»، ص۱۲۶۶.
  3. طباطبائی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۲۰، ص۳۳۰.
  4. خرمشاہی، «سوره قدر»، ص۱۲۶۶.
  5. صفوی،‌ «سوره قدر»، ص۷۸۶.
  6. واحدی، اسباب نزول القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۴۸۶.
  7. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۴۷-۲۵۲.
  8. رضوانی، موعود شناسی و پاسخ به شبهات، ۱۳۸۴ش، ص۲۸۷-۲۸۸.
  9. قمی، مبانی منهاج الصالحین، ۱۴۲۶ق، ج‌۶، ص۲۳۱
  10. کفعمی، المصباح، ۱۴۰۵ق، ص۴۰۹.
  11. کفعمی، المصباح، ۱۴۰۵ق، ص۴۱۰.
  12. مجلسی، زاد المعاد، ۱۴۲۳ق، ص۵۸۱.
  13. طوسی، مصباح المتہجد، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۵۲۳.
  14. مطہری، مجموعہ آثار، ۱۳۸۹ش، ج۲۸، ص۶۸.
  15. طالقانی، بر کرانہ قدر، ۱۳۷۷ش.
  16. حاج شریفی خوانساری، تفسیر سوره قدر، ۱۳۸۸ش.
  17. صفایی حائری، تفسیر سوره قدر، ۱۳۸۸ش.
  18. صدر، تفسیر قرآن، قدر، موسسه فرهنگی تحقیقاتی امام موسی صدر.
  19. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۵۰.
  20. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۵۰.
  21. صدوق، ثواب الأعمال و عقاب الأعمال، ۱۴۰۶ق، ص ۱۲۴.
  22. خامہ‌گر، محمد، ساختار سورہ‌ہای قرآن کریم، تہیہ مؤسسہ فرہنگی قرآن و عترت نورالثقلین، قم، نشر نشرا، چ۱، ۱۳۹۲ش.

مآخذ

  • قرآن کریم، ترجمہ محمد حسین نجفی (سرگودھا)۔
  • دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ج2، بہ کوشش بہاء الدین خرمشاہی، تہران: دوستان-ناہید، 1377ہجری شمسی۔
  • قرآن کریم، ترجمہ محمدمہدی فولادوند، تہران، دارالقرآن الکریم، ۱۴۱۸ق/۱۳۷۶ش.
  • خرمشاہی، قوام الدین، «سورہ قدر»، در دانشنامہ قرآن و قرآن‌پژوہی، تہران، دوستان-ناہید، ۱۳۷۷ش.
  • رضوانی، علی اصغر، موعودشناسی و پاسخ بہ شبہات، قم، انتشارات مسجد جمکران، ۱۳۸۴ش.
  • صدر، امام موسی، تفسیر قرآن، قدر، تہران، موسسہ فرہنگی- تحقیقاتی امام موسی صدر، بی تا.
  • صدوق، محمد بن علی، ثواب الأعمال و عقاب الأعمال، قم، دار الشریف الرضی للنشر، ۱۴۰۶ق.
  • صفایی حائری، علی، تفسیر سورہ قدر، قم، انتشارات لیلۃ القدر، ۱۳۸۸ش.
  • صفوی، سلمان، «سورہ لقمان»، در دانشنامہ معاصر قرآن کریم، قم، انتشارات سلمان آزادہ، ۱۳۹۶ش.
  • طالقانی، ہدایت اللہ، بر کرانہ قدر (بارقہ‌ہائی از سورہ قدر)، قم، انتشارات راسخون، ۱۳۷۷ش.
  • طباطبائی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، موسسہ الاعلمی للمطبوعات، ۱۳۹۰ق.
  • طوسی، محمد بن حسن، مصباح المتہجّد و سلاح المتعبّد، بیروت، مؤسسۃ فقہ الشيعۃ، ۱۴۱۱ق.
  • قمّى، سيد تقى طباطبايى‌، مبانی منہاج الصالحین، مصحح عباس حاجیانی، قم، قلم الشرق، ۱۴۲۶ق.
  • کفعمی، ابراہیم بن علی، المصباح للكفعمي( جنۃ الأمان الواقيۃ)، قم، دار الرضی، ۱۴۰۵ق.
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۴۰۷ق.
  • مجلسی، زاد المعاد، بیروت، موسسہ الاعلمی للمطبوعات، ۱۴۲۳ق.
  • مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار، تہران، انتشارات صدرا، ۱۳۸۹ش.
  • واحدی، علی بن احمد، اسباب نزول القرآن‏، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۱ق.