سورہ لقمان
روم | سورۂ لقمان | سجدہ | |||||||||||||||||||||||
|
سورہ لقمان قرآن پاک کی اکتیسویں سورت ہے جو ۲۱ویں پارے میں واقع ہے۔ حضرت لقمان کے نام اور ان کی اپنے بیٹے کو کی جانے والی نصیحتوں کے ذکر کی وجہ سے اس کا نام سورہ لقمان رکھا گیا ہے۔ اس سورہ میں حضرت لقمان کی زندگی، ان کی حکیمانہ اور اخلاقی نصیحتوں کے ضمن میں توحید، نیک لوگوں کے احوال، مستکبرین اور منکرین کی خصوصیات، تقوا کی نصیحت اور قیامت کے اوصاف بیان ہوئے ہیں۔
اس سورت کی ۱۹ویں اور ۲۲ویں آیتیں مشہور آیات میں سے ہیں۔ اس کی چھٹی آیت کے ذیل میں فقہا نے فائدے سے خالی گفتگو کرنے اور غنا کی بحث ذکر کی ہے۔
اس سورت کی تلاوت کی فضیلت میں آیا ہے کہ جو بھی اس سورہ کی تلاوت کرے گا وہ قیامت کے روز حضرت لقمان اس کے دوست ہونگے اور وہ نیکی کرنے والے اور بدی سے دور رہنے والوں میں ہر شخص کے دس برابر اجر کا مستحق ہو گا۔
تعارف
وجہ تسمیہ
اس آیت کی وجہ تسمیہ سورت کی 12ویں آیت [یادداشت 1] ہے۔[1] یہ سورت حضرت لقمان کی اہنے بیٹے کو کی جانے والی نصیحتوں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے لقمان کہلاتی ہے۔[2]
ترتیب و مقام نزول
سوره لقمان مکی سورتوں میں حساب ہوتی ہے نیز رسول خدا پر نازل ہونے والی سورتوں کی ترتیب میں ستاون ویں(57ویں) سورت ہے۔ قرآن کی موجودہ ترتیب میں یہ سورت ترپن ویں(53ویں) نمبر پر اور ۲۱ ویں پارے میں واقع ہے۔[3]
تعداد آیات اور دیگر خصوصیات
سوره لقمان ۳۴ آیات، ۵۵۰ کلمات اور ۲۱۷۱ حروف پر مشتمل ہے۔ حروف مقطعات سے شروع ہونے والی سترھویں سورت ہے۔ سور لامات کہلانے والی سورتوں میں ساتویں نمبر پر ہے کہ جو «الم» سے شروع ہوتی ہے۔ مثانی سورتوں میں سے سورہ لقمان ایک حزب سے کم پر مشتمل ہے۔[4] بعض معتقد ہیں کہ اس سورت کی ۲۷ اور ۲۸ ویں آیات مدینہ میں نازل ہوئی ہیں۔[5]
حجاز کے قاریوں کے نزدیک ۳۳ اور دیگر کے نزدیک ۳۴ آیتیں ہیں۔ دوسرا نظریہ زیادہ مشہور ہے[6] بعض مفسرین کے نزدیک خداوند نے سوره روم کو نبوت رسول خدا پر دلالت کرنے والی آیات پر ختم کیا ہے اور اس سورت میں انہیں کے تسلسل سے شروع کیا ہے۔[7]
مضامین
مجموعی طور پر اکثر مکی سورتوں کی مانند توحید الہی کے ذیل میں حکمت اور اخلاق، معاد پر ایمان اور دینی مذاہب پر عمل کرنے کی دعوت دی ہے۔[8]
مضامین سورت:
- ہدایت بشر میں قرآن کی عظمت و اهمیت؛
- مغرور اور نیک انسانوں کے دو گروہ اور ان کا انجام؛
- مخلوقات خداوند کے متعلق گفتگو؛
- توحید اور شرک نہ کرنے کے متعلق لقمان کی اپنے بیٹے کو نصیحتیں اور مواعظ، احترام والدین اور ان کی اطاعت، اقامۂ نماز، نیکی کا حکم اور برائی سے منع کرنا، صبر، تواضع، عدم تکبر اور نیک خوئی سے پیش آنا.
- موجودات کی ابتدا اور قیامت پر ایمان کے دلائل؛
- خدا سے مخصوص علوم جیسے موت اور قیامت کا علم.[9]
چند آیات کا شان نزول
لغو کلام کے خریدار
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یشْتَری لَهْوَ الْحَدیثِ لِیضِلَّ عَنْ سَبیلِ اللَّهِ بِغَیرِ عِلْمٍ وَ یتَّخِذَها هُزُواً أُولئِک لَهُمْ عَذابٌ مُهینٌ
ترجمہ:اور انسانوں میں سے کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جو اللہ سے غافل کر دینے والا فضول کلام خریدتا ہے تاکہ بغیر سوچے سمجھے لوگوں کو خدا کی راہ سے بھٹکائے اور اس (راہ یا آیتوں) کا مذاق اڑائے۔ ایسے لوگوں کیلئے رسوا کرنے والا عذاب ہے۔
اس آیت کے دو شان نزول ذکر ہوئے ہیں:
- بعض نے کہا کہ یہ آیت نضر بن حارث کے متعلق نازل ہوئی ہے۔ وہ تجارت کیلئے ایران جاتا تھا اور وہاں ان کے قصے اور داستانیں یاد کرتا اور واپسی پر انہیں قریش کے سامنے نقل کرتا اور کہتا: محمد عاد و ثمود کے واقعات تمہارے لئے نقل کرتا ہے اور میں رستم و اسفندیار کی داستانیں نقل کرتا ہوں ۔ قریش نے ان قصوں کے سننے کی وجہ سے قرآن سننا چھوڑ دیا۔[10]
- بعض نے یہ نقل کیا ہے کہ قریش کے ایک شخص نے مغنیہ(گانے والی) کنیز خریدی تھی۔لوگ اسے سننے کیلئے جاتے اور رسول خدا کو سننے کیلئے نہ آتے۔[11] یا ایسے افراد کی وجہ سے آیت نازل ہوئی جو گانے والے غلاموں اور کنیزوں کی خریدارے کرتے تھے۔[12]
علم خدا لامحدود
لَوْ أَنَّ ما فِی الْأَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ أَقْلامٌ وَ الْبَحْرُ یمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ ما نَفِدَتْ کلِماتُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ عَزیزٌ حَکیمٌ﴿٢٧﴾
اور جتنے درخت زمین میں ہیں اگر وہ سب قَلمیں بن جائیں اور سمندر (سیاہی بن جائیں) اور اس کے علاوہ سات سمندر اسے سہارا دیں (سیاہی مہیا کریں) تب بھی اللہ کے کلمات ختم نہیں ہوں گے بے شک اللہ بڑا غالب (اور) بڑا حکمت والا ہے۔
آیت کا یہ حصہ: بے شک اللہ بڑا غالب (اور) بڑا حکمت والا ہے، مدینہ کے یہودیوں سے رسول خدا کی سورہ اسراء کی آیت نمبر ۸۵: ما أُوتِیتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِیلًا (تمہیں صرف معمولی سا علم یدیا گیا گیا) کے متعلق ہونے والی گفتگو کے بارے میں نازل ہوا ہے۔[13] یہودیوں کے بزرگوں نے سوره اسراء کی ۸۵ ویں آیت کے مصداق کے بارے میں سوال کیا کہ اس مراد یہودی ہیں یا مسلمان؟ پیغمبر نے اس کے جواب میں فرمایا: تمام مراد ہیں۔ یہودیوں نے کہا: تم نے خود کہا تھا خدا نے ہم پر تورات نازل کی ہے اور اس میں ہر چیز کا بیان ہے۔اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی۔[14]
علم غیب کااختیار
إِنَّ اللَّـہَ عِندَہُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ ۚ إِنَّ اللَّـہَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ ﴿٣٤﴾ بے شک اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے اور وہی بارش برساتا ہے اور وہی جانتا ہے کہ ماؤں کے رحموں میں کیا ہے؟ اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ کس سرزمین میں مرے گا۔ بے شک اللہ بڑا جاننے والا (اور) بڑا باخبر ہے۔
کہتے ہیں: بنی مازن کا ایک شخص بنام «وراث» پیامبر(ص) کی خدمت میں آیا اور اس نے کہا:اے محمد! کب قیامت برپا ہو گی؟ ہمارے شہروں میں خشک سالی نے گھر کیا ہوا ہے کب نعمتوں کی فراوانی ہوگی؟ جب میں آیا تو میری زوجہ حاملہ تھی۔ اس کے ہاں کب فرزند کی ولادت ہو گی؟میں جانتا ہوں کہ میں نے آج کیا کیا ہے میں کل کیا کروں گا؟ میں اپنی پیدائش کی جگہ جانتا ہوں۔تم بتاؤ میں کہاں فوت ہوں گا؟اس وقت مذکورہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا : ان تمام امور کا علم خدا کے پاس تھا۔[15]
مشہور آیات
آیت اعتدال پسندی
وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِن صَوْتِكَ ۚ إِنَّ أَنكَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ﴿١٩﴾
اور اپنی رفتار (چال) میں میانہ روی اختیار کر اور اپنی آواز دھیمی رکھ۔ بے شک سب آوازوں میں سے زیادہ ناگوار آواز گدھوں کی ہوتی ہے۔
«قصد» کا معنا ہر چیز میں اعتدال پسندی اور میان روی کی رعایت کرنا[16] اور «عض» آواز اور دیکھنے میں کمی کرنے کو کہتے ہیں۔[17] اس بنا پر آیت پہلے دو جملوں میں راستہ چلنے میں میانہ روی اور آواز کو مناسب حد تک رکھنے کا ترجمہ کرتے ہیں۔[18]
بہت سے مفسرین مفسران اس آیت میں راستہ چلنے میں میانہ روی کے حکم کو اعتدال پسندی کے مصادیق میں سے ایک مصداق سمجھتے ہیں ورنہ اس میانہ روی کو ایک عام حکم قرار دیتے ہیں لذا ہر چیز میں میانہ روی کو نظر میں رکھنا چاہئے۔[19]
اس آیت میں بے شک سب آوازوں میں سے زیادہ ناگوار آواز گدھوں کی ہوتی ہے، یہ مراد ہے کہ آواز کو بلند کرنا انسان کی بزرگی اور طاقتور ہونے کی علامت نہیں ہے۔ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ گدھے کی آواز اگرچہ سب سے زیادہ بلند ہے لیکن یہ بلندی نہ کمال کی علامت ہے اور نہ بزرگی کی علامت ہے بلکہ یہ ناپسندیدہ آواز ہے اور بلندی کے ساتھ ساتھ وہ ناگوار بھی ہے۔ یہ نکتہ قابل ذکر ہے کہ قرآن پاک میں اس طرح کی تشبیہات میں صرف مشابہت کا پہلو مدنظر ہے اور سب اسے قبول کرتے ہیں نیز ان حیوانات کی نسبت فہم و عقل نہ ہونے کی وجہ سے ایسے مقامات پر صرف انہیں ایک مثال کے تناظر میں دیکھا جائے گا اور ان موجودات میں کسی قسم کی تحقیر اور اہانت کا پہلو پیش نظر نہیں ہو گا۔[20]
آیت عروة الوثقی
وَمَن يُسْلِمْ وَجْهَه إِلَى اللَّه وَهُوَ مُحْسِنٌ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ ۗ وَإِلَى اللَّہِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ﴿٢٢﴾
اور جو کوئی اپنا رخ اللہ کی طرف جھکا دے (اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کر دے) درآنحالیکہ وہ نیکوکار بھی ہو تو اس نے مضبوط راستہ (سہارا) پکڑ لیا ان (سب) نے ہماری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔
مفسرین کے درمیان «عروة الوثقی» کی مراد میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔بعض قائل ہیں کہ
- ایمان اور عمل صالح انسانی نجات کامحکم ترین وسیلہ ہو گا۔[21]
- تفسیر قمی میں مذکور روایت کی بنا پر عروہ الوثقی سے مراد ولایت ہے۔[22] تفسیر البرہان میں مذکور پیامبر(ص) اور آئمہ معصومین ؑ کی روایات کی روشنی میں ولایت امام علی(ع)، ائمہ اور ان کی مودت و محبت عروہ الوثقی ہے۔[23]
- تفسیر الکاشف میں واجبات کے انجام دینے، محرمات کو چھوڑنے اور نیکی کا حکم دینے کو عروہ الوثقی کہا ہے۔[24]
آیات احکام
وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ۚ أُولَـٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ﴿٦﴾
اور انسانوں میں سے کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جو اللہ سے غافل کر دینے والا بے ہودہ کلام خریدتا ہے تاکہ بغیر سوچے سمجھے لوگوں کو خدا کی راہ سے بھٹکائے اور اس (راہ یا آیتوں) کا مذاق اڑائے۔ ایسے لوگوں کیلئے رسوا کرنے والا عذاب ہے۔
مقدس اردبیلی نے زبده البیان فی احکام القرآن میں اس آیت کے ذیل میں لہو ہر ا س باطل چیز کو کہا ہے جو انسان کو خیر اور ہدف انسانی سے دور کرے نیز خرافات، غنا اور کسی اساس اور بنیاد کے بغیر قصے اور داستانوں کو اس لہو کے مصادیق میں شمار کیا ہے اور اس طرح کی لہویات اس کے نزدیک حرمت ہیں۔[25] طبرسی نے مجمع البیان میں اکثر مفسرین لہو حدیث سے مراد غنا اور گانا گانا مراد لیتے ہیں اس وجہ سے طبرسی نے بھی لہو الحدیث کی یہی تفسیر کی ہے۔[26] لیکن محمدجواد مغنیہ نے تفسیر الکاشف امام صادق ؑ سے مروی روایتی کی بنا پر ہر طرح کی حق پر طعنہ زنی اور اس کے خاتمے کیلئے اقدام کرنا مراد لیا ہے۔[27] فقہا نے اس آیت کے ذیل میں لہو حدیث کے مصادیق کے متعلق مفصل بحث ذکر کی ہے۔[28]
فضیلت اور خواص
اس سورے کی تلاوت میں مروی ہے کہ اس کے تلاوت کرنے والا قیامت کے روز حضرت لقمان اس کے دوست ہونگے نیز اجر کے لحاظ سے اسے نیکیاں انجام دینے اور برائی سے دور رہنے والے شخص کو ملنے والے اجر سے دس گنا زیادہ اجر دیا جائے گا۔[29] اسی طرح منقول ہے کہ جو شخص اس سورت کی ہر رات تلاوت کرے گا اللہ اس رات اس شخص کو صبح تک شیطان اور اس کی افواج کے سے محفوظ رکھنے کیلئے فرشتے مقرر فرمائے گا۔ دن میں اس سورت کی تلاوت کی بنا پر رات تک اسے شیطان اور اس کے ساتھیوں سے محفوظ رکھے گا۔[30]
متن اور ترجمہ
سورہ لقمان
|
ترجمہ
|
---|
پچھلی سورت: سورہ روم | سورہ لقمان | اگلی سورت:سورہ سجدہ |
1.فاتحہ 2.بقرہ 3.آلعمران 4.نساء 5.مائدہ 6.انعام 7.اعراف 8.انفال 9.توبہ 10.یونس 11.ہود 12.یوسف 13.رعد 14.ابراہیم 15.حجر 16.نحل 17.اسراء 18.کہف 19.مریم 20.طہ 21.انبیاء 22.حج 23.مؤمنون 24.نور 25.فرقان 26.شعراء 27.نمل 28.قصص 29.عنکبوت 30.روم 31.لقمان 32.سجدہ 33.احزاب 34.سبأ 35.فاطر 36.یس 37.صافات 38.ص 39.زمر 40.غافر 41.فصلت 42.شوری 43.زخرف 44.دخان 45.جاثیہ 46.احقاف 47.محمد 48.فتح 49.حجرات 50.ق 51.ذاریات 52.طور 53.نجم 54.قمر 55.رحمن 56.واقعہ 57.حدید 58.مجادلہ 59.حشر 60.ممتحنہ 61.صف 62.جمعہ 63.منافقون 64.تغابن 65.طلاق 66.تحریم 67.ملک 68.قلم 69.حاقہ 70.معارج 71.نوح 72.جن 73.مزمل 74.مدثر 75.قیامہ 76.انسان 77.مرسلات 78.نبأ 79.نازعات 80.عبس 81.تکویر 82.انفطار 83.مطففین 84.انشقاق 85.بروج 86.طارق 87.اعلی 88.غاشیہ 89.فجر 90.بلد 91.شمس 92.لیل 93.ضحی 94.شرح 95.تین 96.علق 97.قدر 98.بینہ 99.زلزلہ 100.عادیات 101.قارعہ 102.تکاثر 103.عصر 104.ہمزہ 105.فیل 106.قریش 107.ماعون 108.کوثر 109.کافرون 110.نصر 111.مسد 112.اخلاص 113.فلق 114.ناس |
یادداشت
حوالہ جات
- ↑ صفوی، «سوره لقمان»، ص۷۹۹.
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۷، ص۶.
- ↑ ثعلبی نیشابوری، الکشف و البیان، ۱۴۲۲ق، ج۷، ص۳۰۹.
- ↑ صفوی، «سوره لقمان»، ص۷۹۹.
- ↑ فخر رازی، التفسیر الکبیر، ۱۴۲۰ق، ج۲۵، ص۱۱۴.
- ↑ خرمشاهی، «سوره لقمان»، ج۲، ص۱۲۴۶-۱۲۴۵.
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۸، ص۴۸۸.
- ↑ صفوی، «سوره لقمان»، ص ۷۹۹.
- ↑ قرائتی، تفسیر نور،۱۳۸۳ق، ج۹، ص۲۲۵.
- ↑ قمی، تفسیر القمی، ۱۴۰۴ق، ج۲، ص۱۶۱.
- ↑ ابن العربی، أحکام القرآن، ۱۴۰۸ق، ج۳، ص۱۴۹۴.
- ↑ واحدی، اسباب نزول القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۳۵۶.
- ↑ طبری، جامع البیان، ۱۴۱۲، ج۲۱، ص۵۱.
- ↑ واحدی، اسباب نزول القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۳۵۸.
- ↑ سیوطی، الدر المنثور، ۱۴۰۴، ج۵، ص۱۶۹.
- ↑ راغب اصفہانی، المفردات، ذیل واژہ قصد.
- ↑ راغب اصفہانی، المفردات، ذیل واژہ غض.
- ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۶، ص۲۱۹.
- ↑ فخر رازی، تفسیر الکبیر، ۱۴۲۰ق، ج۲۵، ص۱۲۲؛مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۷،ص۵۷-۵۸؛ قرائتی، تفسیر نور، ۱۳۸۸ش، ح۷، ص۲۸۰.
- ↑ کاشانی، منہج الصادقین، ۱۳۳۶ش، ج۷، ص۲۱۲.
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۷، ص۶۸.
- ↑ قمی، تفسیر قمی، ۱۳۶۳ش، ج۲، ص۱۶۶.
- ↑ بحرانی، البرہان، ۱۴۱۵ق، ج۴، ص۳۷۹.
- ↑ مغنیہ، الکاشف، ۱۴۱۴ق، ج۶، ص۱۶۶.
- ↑ مقدس اردبیلی، زبده البیان، ۱۳۸۶ق، ص۴۱۳.
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۸، ص۴۹۰.
- ↑ مغنیہ، الکاشف، ۱۴۲۴ق، ج۶، ص۱۵۷.
- ↑ فیض نسب، آیات الاحکام فی التراث الامام الخمینی، ۱۳۸۴ش، ص۶۷۹-۶۹۲.
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۸، ص۴۸۸.
- ↑ صدوق، ثواب الأعمال و عقاب الأعمال، ۱۴۰۶ق، ص۱۱۰.
نوٹ
- ↑ وَلَقَدْ آتَيْنَا لُقْمَانَ الْحِكْمَةَ أَنِ اشْكُرْ لِلَّـهِ ۚ وَمَن يَشْكُرْ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّـهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ﴿١٢﴾ (ترجمہ: اور ہم نے لقمان کو حکمت (و دانائی) عطا کی (اور کہا) کہ خدا کا شکر ادا کرو اور جو شکر ادا کرتا ہے وہ اپنے ہی فائدہ کیلئے شکر ادا کرتا ہے اور جو کفرانِ نعمت (ناشکری) کرتا ہے (وہ اپنا نقصان کرتا ہے کیونکہ) بے شک اللہ بے نیاز ہے (اور) لائقِ حمد و ثنا ہے۔ سے لیا گیا ہے۔ لفظ لقمان اس سورت میں دو مرتبہ آیا ہے نیز دیگر کسی سورت میں استعمال نہیں ہوا)
مآخذ
- قرآن کریم، ترجمہ محمد حسین نجفی (سرگودھا)۔
- ابن العربی، محمد بن عبداللہ بن ابوبکر، احکام القرآن، بیروت، دار الجیل، ۱۴۰۸.
- ثعلبی نیشابوری، ابو اسحاق احمد بن ابراہیم، الکشف و البیان عن تفسیر القرآن، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، ۱۴۲۲ق.
- خرمشاہی، قوام الدین، «سورہ لقمان»، در دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، تہران، دوستان-ناہید، ۱۳۷۷ش.
- راغب اصفہانی، حسین بن محمد، مفردات ألفاظ القرآن، بیروت، دار الشامیہ، ۱۴۱۲ق.
- سیوطی، جلال الدین، الدر المنثور فی تفسیر المأثور، قم، کتابخانہ آیۃ اللہ مرعشی نجفی، ۱۴۰۴ق.
- صدوق، محمد بن علی، ثواب الأعمال و عقاب الأعمال، قم، دار الشریف الرضی للنشر، ۱۴۰۶ق.
- صفوی، سلمان، «سورہ لقمان»، در دانشنامہ معاصر قرآن کریم، قم، انتشارات سلمان آزادہ، ۱۳۹۶ش.
- طباطبایی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، موسسہ الاعلمی للمطبوعات، ۱۳۹۰ق.
- طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، مقدمہ محمدجواد بلاغی، تہران، ناصر خسرو، ۱۳۷۲ش.
- طبری، ابو جعفر محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار المعرفۃ، ۱۴۱۲ق.
- فخرالدین رازی، ابوعبداللہ محمد بن عمر، مفاتیح الغیب، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۲۰ق.
- فیض نسب، عباس، آیات الاحکام فی التراث الامام الخمینی، تہران، موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ۱۳۸۴ش.
- قرائتی، محسن، تفسیر نور، تہران، مرکز فرہنگی درسہایی از قرآن، ۱۳۸۶ش.
- قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، محقق، مصحح، موسوی جزائری، سید طیب، قم، دار الکتاب، ۱۴۰۴ق.
- کاشانی، فتح اللہ، منہج الصادقين في إلزام المخالفين، تہران، کتاب فروشی اسلامیہ، ۱۳۳۶ش.
- مغنیہ، محمدجواد، تفسیر الکاشف، قم، دارالکتاب الاسلامیہ، ۱۴۲۴ق.
- مقدس اردبیلی، احمد بن محمد، زبدہ البیان فی احکام القرآن، محقق محمدباقر بہبودى، تہران، مكتبۃ المرتضويۃ، ۱۳۸۶ق.
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، ۱۳۷۱ش.
- واحدی، علی بن احمد، اسباب نزول القرآن، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۱ق.