سورہ لقمان

ویکی شیعہ سے
روم سورۂ لقمان سجدہ
ترتیب کتابت: 31
پارہ : 21
نزول
ترتیب نزول: 57
مکی/ مدنی: مکی
اعداد و شمار
آیات: 34
الفاظ: 550
حروف: 2171

سورہ لقمان قرآن پاک کی اکتیسویں سورت ہے جو ۲۱ویں پارے میں واقع ہے۔ حضرت لقمان کے نام اور ان کی اپنے بیٹے کو کی جانے والی نصیحتوں کے ذکر کی وجہ سے اس کا نام سورہ لقمان رکھا گیا ہے۔ اس سورہ میں حضرت لقمان کی زندگی، ان کی حکیمانہ اور اخلاقی نصیحتوں کے ضمن میں توحید، نیک لوگوں کے احوال، مستکبرین اور منکرین کی خصوصیات، تقوا کی نصیحت اور قیامت کے اوصاف بیان ہوئے ہیں۔

اس سورت کی ۱۹ویں اور ۲۲ویں آیتیں مشہور آیات میں سے ہیں۔ اس کی چھٹی آیت کے ذیل میں فقہا نے فائدے سے خالی گفتگو کرنے اور غنا کی بحث ذکر کی ہے۔

اس سورت کی تلاوت کی فضیلت میں آیا ہے کہ جو بھی اس سورہ کی تلاوت کرے گا وہ قیامت کے روز حضرت لقمان اس کے دوست ہونگے اور وہ نیکی کرنے والے اور بدی سے دور رہنے والوں میں ہر شخص کے دس برابر اجر کا مستحق ہو گا۔

تعارف

وجہ تسمیہ

اس آیت کی وجہ تسمیہ سورت کی 12ویں آیت [یادداشت 1] ہے۔[1] یہ سورت حضرت لقمان کی اہنے بیٹے کو کی جانے والی نصیحتوں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے لقمان کہلاتی ہے۔[2]

ترتیب و مقام نزول

سوره لقمان مکی سورتوں میں حساب ہوتی ہے نیز رسول خدا پر نازل ہونے والی سورتوں کی ترتیب میں ستاون ویں(57ویں) سورت ہے۔ قرآن کی موجودہ ترتیب میں یہ سورت ترپن ویں(53ویں) نمبر پر اور ۲۱ ویں پارے میں واقع ہے۔[3]

تعداد آیات اور دیگر خصوصیات

سوره لقمان ۳۴ آیات، ۵۵۰ کلمات اور ۲۱۷۱ حروف پر مشتمل ہے۔ حروف مقطعات سے شروع ہونے والی سترھویں سورت ہے۔ سور لامات کہلانے والی سورتوں میں ساتویں نمبر پر ہے کہ جو «الم» سے شروع ہوتی ہے۔ مثانی سورتوں میں سے سورہ لقمان ایک حزب سے کم پر مشتمل ہے۔[4] بعض معتقد ہیں کہ اس سورت کی ۲۷ اور ۲۸ ویں آیات مدینہ میں نازل ہوئی ہیں۔[5]
حجاز کے قاریوں کے نزدیک ۳۳ اور دیگر کے نزدیک ۳۴ آیتیں ہیں۔ دوسرا نظریہ زیادہ مشہور ہے[6] بعض مفسرین کے نزدیک خداوند نے سوره روم کو نبوت رسول خدا پر دلالت کرنے والی آیات پر ختم کیا ہے اور اس سورت میں انہیں کے تسلسل سے شروع کیا ہے۔[7]

مضامین

مجموعی طور پر اکثر مکی سورتوں کی مانند توحید الہی کے ذیل میں حکمت اور اخلاق، معاد پر ایمان اور دینی مذاہب پر عمل کرنے کی دعوت دی ہے۔[8]
مضامین سورت:

چند آیات کا شان نزول

لغو کلام کے خریدار

وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یشْتَری لَهْوَ الْحَدیثِ لِیضِلَّ عَنْ سَبیلِ اللَّهِ بِغَیرِ عِلْمٍ وَ یتَّخِذَها هُزُواً أُولئِک لَهُمْ عَذابٌ مُهینٌ

ترجمہ:اور انسانوں میں سے کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جو اللہ سے غافل کر دینے والا فضول کلام خریدتا ہے تاکہ بغیر سوچے سمجھے لوگوں کو خدا کی راہ سے بھٹکائے اور اس (راہ یا آیتوں) کا مذاق اڑائے۔ ایسے لوگوں کیلئے رسوا کرنے والا عذاب ہے۔

اس آیت کے دو شان نزول ذکر ہوئے ہیں:

  • بعض نے کہا کہ یہ آیت نضر بن حارث کے متعلق نازل ہوئی ہے۔ وہ تجارت کیلئے ایران جاتا تھا اور وہاں ان کے قصے اور داستانیں یاد کرتا اور واپسی پر انہیں قریش کے سامنے نقل کرتا اور کہتا: محمد عاد و ثمود کے واقعات تمہارے لئے نقل کرتا ہے اور میں رستم و اسفندیار کی داستانیں نقل کرتا ہوں ۔ قریش نے ان قصوں کے سننے کی وجہ سے قرآن سننا چھوڑ دیا۔[10]
  • بعض نے یہ نقل کیا ہے کہ قریش کے ایک شخص نے مغنیہ(گانے والی) کنیز خریدی تھی۔لوگ اسے سننے کیلئے جاتے اور رسول خدا کو سننے کیلئے نہ آتے۔[11] یا ایسے افراد کی وجہ سے آیت نازل ہوئی جو گانے والے غلاموں اور کنیزوں کی خریدارے کرتے تھے۔[12]

علم خدا لامحدود

لَوْ أَنَّ ما فِی الْأَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ أَقْلامٌ وَ الْبَحْرُ یمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ ما نَفِدَتْ کلِماتُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ عَزیزٌ حَکیمٌ﴿٢٧﴾

اور جتنے درخت زمین میں ہیں اگر وہ سب قَلمیں بن جائیں اور سمندر (سیاہی بن جائیں) اور اس کے علاوہ سات سمندر اسے سہارا دیں (سیاہی مہیا کریں) تب بھی اللہ کے کلمات ختم نہیں ہوں گے بے شک اللہ بڑا غالب (اور) بڑا حکمت والا ہے۔

آیت کا یہ حصہ: بے شک اللہ بڑا غالب (اور) بڑا حکمت والا ہے، مدینہ کے یہودیوں سے رسول خدا کی سورہ اسراء کی آیت نمبر ۸۵: ما أُوتِیتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِیلًا (تمہیں صرف معمولی سا علم یدیا گیا گیا) کے متعلق ہونے والی گفتگو کے بارے میں نازل ہوا ہے۔[13] یہودیوں کے بزرگوں نے سوره اسراء کی ۸۵ ویں آیت کے مصداق کے بارے میں سوال کیا کہ اس مراد یہودی ہیں یا مسلمان؟ پیغمبر نے اس کے جواب میں فرمایا: تمام مراد ہیں۔ یہودیوں نے کہا: تم نے خود کہا تھا خدا نے ہم پر تورات نازل کی ہے اور اس میں ہر چیز کا بیان ہے۔اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی۔[14]

علم غیب کااختیار

إِنَّ اللَّـہَ عِندَہُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ ۚ إِنَّ اللَّـہَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ ﴿٣٤﴾ بے شک اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے اور وہی بارش برساتا ہے اور وہی جانتا ہے کہ ماؤں کے رحموں میں کیا ہے؟ اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ کس سرزمین میں مرے گا۔ بے شک اللہ بڑا جاننے والا (اور) بڑا باخبر ہے۔

کہتے ہیں: بنی مازن کا ایک شخص بنام «وراث» پیامبر(ص) کی خدمت میں آیا اور اس نے کہا:‌اے محمد! کب قیامت برپا ہو گی؟ ہمارے شہروں میں خشک سالی نے گھر کیا ہوا ہے کب نعمتوں کی فراوانی ہوگی؟ جب میں آیا تو میری زوجہ حاملہ تھی۔ اس کے ہاں کب فرزند کی ولادت ہو گی؟میں جانتا ہوں کہ میں نے آج کیا کیا ہے میں کل کیا کروں گا؟ میں اپنی پیدائش کی جگہ جانتا ہوں۔تم بتاؤ میں کہاں فوت ہوں گا؟اس وقت مذکورہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا : ان تمام امور کا علم خدا کے پاس تھا۔[15]

مشہور آیات

آیت اعتدال پسندی

وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِن صَوْتِكَ ۚ إِنَّ أَنكَرَ‌ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ‌﴿١٩﴾

اور اپنی رفتار (چال) میں میانہ روی اختیار کر اور اپنی آواز دھیمی رکھ۔ بے شک سب آوازوں میں سے زیادہ ناگوار آواز گدھوں کی ہوتی ہے۔

«قصد» کا معنا ہر چیز میں اعتدال پسندی اور میان روی کی رعایت کرنا[16] اور «عض» آواز اور دیکھنے میں کمی کرنے کو کہتے ہیں۔[17] اس بنا پر آیت پہلے دو جملوں میں راستہ چلنے میں میانہ روی اور آواز کو مناسب حد تک رکھنے کا ترجمہ کرتے ہیں۔[18]

بہت سے مفسرین مفسران اس آیت میں راستہ چلنے میں میانہ روی کے حکم کو اعتدال پسندی کے مصادیق میں سے ایک مصداق سمجھتے ہیں ورنہ اس میانہ روی کو ایک عام حکم قرار دیتے ہیں لذا ہر چیز میں میانہ روی کو نظر میں رکھنا چاہئے۔[19]
اس آیت میں بے شک سب آوازوں میں سے زیادہ ناگوار آواز گدھوں کی ہوتی ہے، یہ مراد ہے کہ آواز کو بلند کرنا انسان کی بزرگی اور طاقتور ہونے کی علامت نہیں ہے۔ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ گدھے کی آواز اگرچہ سب سے زیادہ بلند ہے لیکن یہ بلندی نہ کمال کی علامت ہے اور نہ بزرگی کی علامت ہے بلکہ یہ ناپسندیدہ آواز ہے اور بلندی کے ساتھ ساتھ وہ ناگوار بھی ہے۔ یہ نکتہ قابل ذکر ہے کہ قرآن پاک میں اس طرح کی تشبیہات میں صرف مشابہت کا پہلو مدنظر ہے اور سب اسے قبول کرتے ہیں نیز ان حیوانات کی نسبت فہم و عقل نہ ہونے کی وجہ سے ایسے مقامات پر صرف انہیں ایک مثال کے تناظر میں دیکھا جائے گا اور ان موجودات میں کسی قسم کی تحقیر اور اہانت کا پہلو پیش نظر نہیں ہو گا۔[20]

آیت عروة الوثقی

وَمَن يُسْلِمْ وَجْهَه إِلَى اللَّه وَهُوَ مُحْسِنٌ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْ‌وَةِ الْوُثْقَىٰ ۗ وَإِلَى اللَّہِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ‌﴿٢٢﴾

اور جو کوئی اپنا رخ اللہ کی طرف جھکا دے (اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کر دے) درآنحالیکہ وہ نیکوکار بھی ہو تو اس نے مضبوط راستہ (سہارا) پکڑ لیا ان (سب) نے ہماری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔

مفسرین کے درمیان «عروة الوثقی» کی مراد میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔بعض قائل ہیں کہ

آیات احکام

وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِ‌ي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ بِغَيْرِ‌ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ۚ أُولَـٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ﴿٦﴾

اور انسانوں میں سے کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جو اللہ سے غافل کر دینے والا بے ہودہ کلام خریدتا ہے تاکہ بغیر سوچے سمجھے لوگوں کو خدا کی راہ سے بھٹکائے اور اس (راہ یا آیتوں) کا مذاق اڑائے۔ ایسے لوگوں کیلئے رسوا کرنے والا عذاب ہے۔

مقدس اردبیلی نے زبده البیان فی احکام القرآن میں اس آیت کے ذیل میں لہو ہر ا س باطل چیز کو کہا ہے جو انسان کو خیر اور ہدف انسانی سے دور کرے نیز خرافات، غنا اور کسی اساس اور بنیاد کے بغیر قصے اور داستانوں کو اس لہو کے مصادیق میں شمار کیا ہے اور اس طرح کی لہویات اس کے نزدیک حرمت ہیں۔[25] طبرسی نے مجمع البیان میں اکثر مفسرین لہو حدیث سے مراد غنا اور گانا گانا مراد لیتے ہیں اس وجہ سے طبرسی نے بھی لہو الحدیث کی یہی تفسیر کی ہے۔[26] لیکن محمدجواد مغنیہ نے تفسیر الکاشف امام صادق ؑ سے مروی روایتی کی بنا پر ہر طرح کی حق پر طعنہ زنی اور اس کے خاتمے کیلئے اقدام کرنا مراد لیا ہے۔[27] فقہا نے اس آیت کے ذیل میں لہو حدیث کے مصادیق کے متعلق مفصل بحث ذکر کی ہے۔[28]

فضیلت اور خواص

اس سورے کی تلاوت میں مروی ہے کہ اس کے تلاوت کرنے والا قیامت کے روز حضرت لقمان اس کے دوست ہونگے نیز اجر کے لحاظ سے اسے نیکیاں انجام دینے اور برائی سے دور رہنے والے شخص کو ملنے والے اجر سے دس گنا زیادہ اجر دیا جائے گا۔[29] اسی طرح منقول ہے کہ جو شخص اس سورت کی ہر رات تلاوت کرے گا اللہ اس رات اس شخص کو صبح تک شیطان اور اس کی افواج کے سے محفوظ رکھنے کیلئے فرشتے مقرر فرمائے گا۔ دن میں اس سورت کی تلاوت کی بنا پر رات تک اسے شیطان اور اس کے ساتھیوں سے محفوظ رکھے گا۔[30]

متن اور ترجمہ

سورہ لقمان
ترجمہ
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّ‌حْمَـٰنِ الرَّ‌حِيمِ

الم ﴿1﴾ تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْحَكِيمِ ﴿2﴾ هُدًى وَرَحْمَةً لِّلْمُحْسِنِينَ ﴿3﴾ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُم بِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ ﴿4﴾ أُوْلَئِكَ عَلَى هُدًى مِّن رَّبِّهِمْ وَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿5﴾ وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ ﴿6﴾ وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِ آيَاتُنَا وَلَّى مُسْتَكْبِرًا كَأَن لَّمْ يَسْمَعْهَا كَأَنَّ فِي أُذُنَيْهِ وَقْرًا فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ﴿7﴾ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَهُمْ جَنَّاتُ النَّعِيمِ ﴿8﴾ خَالِدِينَ فِيهَا وَعْدَ اللَّهِ حَقًّا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿9﴾ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا وَأَلْقَى فِي الْأَرْضِ رَوَاسِيَ أَن تَمِيدَ بِكُمْ وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَابَّةٍ وَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاء مَاء فَأَنبَتْنَا فِيهَا مِن كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ ﴿10﴾ هَذَا خَلْقُ اللَّهِ فَأَرُونِي مَاذَا خَلَقَ الَّذِينَ مِن دُونِهِ بَلِ الظَّالِمُونَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ﴿11﴾ وَلَقَدْ آتَيْنَا لُقْمَانَ الْحِكْمَةَ أَنِ اشْكُرْ لِلَّهِ وَمَن يَشْكُرْ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ ﴿12﴾ وَإِذْ قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ ﴿13﴾ وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَى وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ ﴿14﴾ وَإِن جَاهَدَاكَ عَلى أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴿15﴾ يَا بُنَيَّ إِنَّهَا إِن تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَكُن فِي صَخْرَةٍ أَوْ فِي السَّمَاوَاتِ أَوْ فِي الْأَرْضِ يَأْتِ بِهَا اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ ﴿16﴾ يَا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلَاةَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنكَرِ وَاصْبِرْ عَلَى مَا أَصَابَكَ إِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ ﴿17﴾ وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ ﴿18﴾ وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِن صَوْتِكَ إِنَّ أَنكَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ ﴿19﴾ أَلَمْ تَرَوْا أَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً وَمِنَ النَّاسِ مَن يُجَادِلُ فِي اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَلَا هُدًى وَلَا كِتَابٍ مُّنِيرٍ ﴿20﴾ وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءنَا أَوَلَوْ كَانَ الشَّيْطَانُ يَدْعُوهُمْ إِلَى عَذَابِ السَّعِيرِ ﴿21﴾ وَمَن يُسْلِمْ وَجْهَهُ إِلَى اللَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى وَإِلَى اللَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ ﴿22﴾ وَمَن كَفَرَ فَلَا يَحْزُنكَ كُفْرُهُ إِلَيْنَا مَرْجِعُهُمْ فَنُنَبِّئُهُم بِمَا عَمِلُوا إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ ﴿23﴾ نُمَتِّعُهُمْ قَلِيلًا ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ إِلَى عَذَابٍ غَلِيظٍ ﴿24﴾ وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ﴿25﴾ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ ﴿26﴾ وَلَوْ أَنَّمَا فِي الْأَرْضِ مِن شَجَرَةٍ أَقْلَامٌ وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِن بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ كَلِمَاتُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴿27﴾ مَّا خَلْقُكُمْ وَلَا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ وَاحِدَةٍ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ ﴿28﴾ أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِي إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى وَأَنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ ﴿29﴾ ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ مَا يَدْعُونَ مِن دُونِهِ الْبَاطِلُ وَأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ ﴿30﴾ أَلَمْ تَرَ أَنَّ الْفُلْكَ تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِنِعْمَتِ اللَّهِ لِيُرِيَكُم مِّنْ آيَاتِهِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ ﴿31﴾ وَإِذَا غَشِيَهُم مَّوْجٌ كَالظُّلَلِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ فَمِنْهُم مُّقْتَصِدٌ وَمَا يَجْحَدُ بِآيَاتِنَا إِلَّا كُلُّ خَتَّارٍ كَفُورٍ ﴿32﴾ يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ وَاخْشَوْا يَوْمًا لَّا يَجْزِي وَالِدٌ عَن وَلَدِهِ وَلَا مَوْلُودٌ هُوَ جَازٍ عَن وَالِدِهِ شَيْئًا إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَلَا يَغُرَّنَّكُم بِاللَّهِ الْغَرُورُ ﴿33﴾ إِنَّ اللَّهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ ﴿34﴾۔

(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

الف، لام، میم۔ (1) یہ کتابِ حکیم کی آیتیں ہیں۔ (2) جو (سراپا) ہدایت اور رحمت ان نیکوکار لوگوں کیلئے ہے۔ (3) جو پورے اہتمام سے نماز ادا کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے کچھ (میری راہ میں) خرچ کرتے ہیں اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ (4) یہی لوگ اپنے پروردگار کی ہدایت پر (قائم) ہیں اور یہی وہ ہیں جو (آخرت میں) فلاح پانے والے ہیں۔ (5) اور انسانوں میں سے کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جو اللہ سے غافل کر دینے والا بے ہودہ کلام خریدتا ہے تاکہ بغیر سوچے سمجھے لوگوں کو خدا کی راہ سے بھٹکائے اور اس (راہ یا آیتوں) کا مذاق اڑائے۔ ایسے لوگوں کیلئے رسوا کرنے والا عذاب ہے۔ (6) اور جب اس کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو وہ تکبر سے اس طرح منہ موڑ لیتا ہے کہ گویا اس نے انہیں سنا ہی نہیں گویا کہ اس کے کانوں میں گرانی (بہرہ پن) ہے تو اسے دردناک عذاب کی خبر سنا دیں۔ (7) بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے ان کیلئے نعمت (اور آرام) والی جنتیں ہیں۔ (8) جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہ اللہ کا سچا (اور پکا) وعدہ ہے۔ وہ بڑا غالب ہے (اور) بڑا حکمت والا ہے۔ (9) اس نے آسمانوں کو ایسے ستونوں کے بغیر پیدا کیا ہے جو تمہیں نظر آئیں اور اس نے زمین میں بھاری پہاڑ گاڑ دیئے تاکہ وہ تمہیں لے کر (ایک طرف) ڈھلک نہ جائے اور اس میں ہر قسم کے چلنے پھرنے والے (جانور) پھیلا دیئے اور ہم نے آسمانوں (بلندی) سے پانی برسایا اور اس سے زمین میں ہر قسم کی عمدہ چیزیں اگائیں۔ (10) یہ تو ہے اللہ کی تخلیق! (اور اس کی پیدا کی ہوئی چیزیں)۔ اب تم مجھے دکھاؤ کہ جو اس کے علاوہ (تمہارے شرکاء) ہیں انہوں نے کیا پیدا کیا ہے؟ بلکہ ظالم لوگ کھلی ہوئی گمراہی میں ہیں۔ (11) اور ہم نے لقمان کو حکمت (و دانائی) عطا کی (اور کہا) کہ خدا کا شکر ادا کرو اور جو شکر ادا کرتا ہے وہ اپنے ہی فائدہ کیلئے شکر ادا کرتا ہے اور جو کفرانِ نعمت (ناشکری) کرتا ہے (وہ اپنا نقصان کرتا ہے کیونکہ) بے شک اللہ بے نیاز ہے (اور) لائقِ حمد و ثنا ہے۔ (12) اور (وہ وقت یاد کرو) جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ اے بیٹے! (خبردار کسی کو) اللہ کا شریک نہ بنانا۔ بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ (13) اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے بارے میں (حسنِ سلوک کرنے کا) تاکیدی حکم دیا (کیونکہ) اس کی ماں نے کمزوری پر کمزوری سہہ کر اسے (پیٹ میں) اٹھائے رکھا اور دو برس میں اس کا دودھ چھوٹا (وہ تاکیدی حکم یہ تھا کہ) میرا اور اپنے ماں باپ کا شکریہ ادا کر (آخرکار) میری ہی طرف (تمہاری) بازگشت ہے۔ (14) اور اگر وہ تجھ پر دباؤ ڈالیں کہ تو کسی ایسی چیز کو میرا شریک ٹھہرائے جس کا تجھے کوئی علم نہیں ہے تو پھر ان کی اطاعت نہ کر اور دنیا میں ان کے ساتھ نیک سلوک کر اور اس شخص کے راستہ کی پیروی کر جو (ہر معاملہ میں) میری طرف رجوع کرے پھر تم سب کی بازگشت میری ہی طرف ہے۔ تو (اس وقت) میں تمہیں بتاؤں گا کہ جو کچھ تم کیا کرتے تھے۔ (15) اے بیٹا! اگر کوئی (نیک یا بد) عمل رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو اور کسی پتھر کے نیچے ہو یا آسمانوں میں یا زمین میں تو اللہ اسے لے ہی آئے گا بے شک اللہ بڑا باریک بین اور بڑا باخبر ہے۔ (16) اے بیٹا! نماز قائم کر اور نیکی کا حکم دے اور برائی سے منع کر اور جو مصیبت پیش آئے اس پر صبر کر۔ بے شک یہ (صبر) عزم و ہمت کے کاموں میں سے ہے۔ (17) اور (تکبر سے) اپنا رخسار لوگوں سے نہ پھیر اور زمین پر ناز و انداز سے نہ چل۔ بے شک خدا تکبر کرنے والے (اور) بہت فخر کرنے والے کو دوست نہیں رکھتا۔ (18) اور اپنی رفتار (چال) میں میانہ روی اختیار کر اور اپنی آواز دھیمی رکھ۔ بے شک سب آوازوں میں سے زیادہ ناگوار آواز گدھوں کی ہوتی ہے۔ (19) کیا تم نہیں دیکھتے کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اللہ تعالیٰ نے سب کو تمہارے لئے مسخر کر دیا ہے اور اپنی سب ظاہری اور باطنی نعمتیں تم پر تمام کر دی ہیں اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو علم، ہدایت اور روشن کتاب کے بغیر خدا کے بارے میں بحث و تکرار کرتے ہیں۔ (20) اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اس چیز کی پیروی کرو جو اللہ نے نازل کی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ (نہیں) بلکہ ہم تو اس کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔ کیا (یہ جب بھی انہی کی پیروی کریں گے) اگرچہ شیطان ان (بڑوں) کو بھڑکتی آگ کے عذاب کی طرف بلا رہا ہو؟ (21) اور جو کوئی اپنا رخ اللہ کی طرف جھکا دے (اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کر دے) درآنحالیکہ وہ نیکوکار بھی ہو تو اس نے مضبوط راستہ (سہارا) پکڑ لیا ان (سب) نے ہماری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔ (22) اور جو کوئی کفر اختیار کرے تو (اے رسول(ص)) اس کا کفر آپ کو غمگین نہ کرے۔ پس (اس وقت) ہم انہیں بتائیں گے کہ جو کچھ وہ کیا کرتے تھے۔ بے شک اللہ سینوں کے اندر کی باتوں کو خوب جاننے والا ہے۔ (23) ہم انہیں چند روزہ عیش کا موقع دیں گے اور پھر انہیں سخت عذاب کی طرف کشاں کشاں لے جائیں گے۔ (24) (اے رسول(ص)) اگر آپ ان (مشرکین) سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے؟ تو وہ (جواب میں) ضرور کہیں گے کہ اللہ نے! آپ کہئے! الحمدﷲ مگر ان میں سے اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ (25) جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ سب اللہ ہی کا ہے۔ بے شک اللہ بے نیاز ہے اور لائقِ حمد و ثنا ہے۔ (26) اور جتنے درخت زمین میں ہیں اگر وہ سب قَلمیں بن جائیں اور سمندر (سیاہی بن جائیں) اور اس کے علاوہ سات سمندر اسے سہارا دیں (سیاہی مہیا کریں) تب بھی اللہ کے کلمات ختم نہیں ہوں گے بے شک اللہ بڑا غالب (اور) بڑا حکمت والا ہے۔ (27) تم سب کا پیدا کرنا اور دوبارہ زندہ کرکے اٹھانا (اللہ کیلئے) ایک شخص کے پیدا کرنے اور دوبارہ اٹھانے کی مانند ہے بے شک اللہ بڑا سننے والا، بڑا دیکھنے والا ہے۔ (28) کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کر دیتا ہے اور اس نے سورج اور چاند کو مسخر کر رکھا ہے۔ ہر ایک اپنے مقررہ وقت تک (اپنے مدار میں) چل رہا ہے۔ اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے۔ (29) یہ سب اس لئے ہے کہ اللہ ہی حق ہے اور اس کے سوا جن چیزوں کو (مشرک) پکارتے ہیں وہ سب باطل ہیں اور بے شک اللہ بلند (شان والا) ہے اور بزرگ ہے۔ (30) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ محض اللہ کے فضل سے سمندر میں کشتی چلتی ہے۔ تاکہ وہ تمہیں اپنی قدرت کی کچھ نشانیاں دکھائے۔ بے شک اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ہر بہت صبر و شکر کرنے والے کیلئے۔ (31) اور جب انہیں ایک موج سائبانوں کی طرح ڈھانپ لیتی ہے تو یہ اپنے دین کو اللہ کیلئے خالص کرکے اسے پکارتے ہیں پھر جب وہ ان کو نجات دے کر خشکی تک پہنچا دیتا ہے تو پھر ان میں سے کچھ تو اعتدال پر رہتے ہیں (اور اکثر انکار کر دیتے ہیں) اور ہماری نشانیوں کا انکار نہیں کرتا مگر وہی شخص جو بڑا غدار (بے وفا) اور بڑا ناشکرا ہے۔ (32) اے لوگو! اپنے پروردگار (کی نافرمانی) سے ڈرو۔ اور اس دن کا خوف کرو۔ جب نہ کوئی باپ اپنے بیٹے کو فائدہ پہنچا سکے گا اور نہ کوئی بیٹا اپنے باپ کو کوئی فائدہ پہنچا سکے گا۔ بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے تو تمہیں دنیا کی (عارضی) زندگی دھوکہ نہ دے اور نہ ہی کوئی دھوکہ باز (شیطان وغیرہ) تمہیں اللہ کے بارے میں دھوکہ دے۔ (33) بے شک اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے اور وہی بارش برساتا ہے اور وہی جانتا ہے کہ ماؤں کے رحموں میں کیا ہے؟ اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ کس سرزمین میں مرے گا۔ بے شک اللہ بڑا جاننے والا (اور) بڑا باخبر ہے۔ (34)

پچھلی سورت: سورہ روم سورہ لقمان اگلی سورت:سورہ سجدہ

1.فاتحہ 2.بقرہ 3.آل‌عمران 4.نساء 5.مائدہ 6.انعام 7.اعراف 8.انفال 9.توبہ 10.یونس 11.ہود 12.یوسف 13.رعد 14.ابراہیم 15.حجر 16.نحل 17.اسراء 18.کہف 19.مریم 20.طہ 21.انبیاء 22.حج 23.مؤمنون 24.نور 25.فرقان 26.شعراء 27.نمل 28.قصص 29.عنکبوت 30.روم 31.لقمان 32.سجدہ 33.احزاب 34.سبأ 35.فاطر 36.یس 37.صافات 38.ص 39.زمر 40.غافر 41.فصلت 42.شوری 43.زخرف 44.دخان 45.جاثیہ 46.احقاف 47.محمد 48.فتح 49.حجرات 50.ق 51.ذاریات 52.طور 53.نجم 54.قمر 55.رحمن 56.واقعہ 57.حدید 58.مجادلہ 59.حشر 60.ممتحنہ 61.صف 62.جمعہ 63.منافقون 64.تغابن 65.طلاق 66.تحریم 67.ملک 68.قلم 69.حاقہ 70.معارج 71.نوح 72.جن 73.مزمل 74.مدثر 75.قیامہ 76.انسان 77.مرسلات 78.نبأ 79.نازعات 80.عبس 81.تکویر 82.انفطار 83.مطففین 84.انشقاق 85.بروج 86.طارق 87.اعلی 88.غاشیہ 89.فجر 90.بلد 91.شمس 92.لیل 93.ضحی 94.شرح 95.تین 96.علق 97.قدر 98.بینہ 99.زلزلہ 100.عادیات 101.قارعہ 102.تکاثر 103.عصر 104.ہمزہ 105.فیل 106.قریش 107.ماعون 108.کوثر 109.کافرون 110.نصر 111.مسد 112.اخلاص 113.فلق 114.ناس


یادداشت

حوالہ جات

  1. صفوی، «سوره لقمان»، ص۷۹۹.
  2. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۷، ص۶.
  3. ثعلبی نیشابوری، الکشف و البیان، ۱۴۲۲ق، ج۷، ص۳۰۹.
  4. صفوی، «سوره لقمان»، ص۷۹۹.
  5. فخر رازی، التفسیر الکبیر، ۱۴۲۰ق، ج۲۵، ص۱۱۴.
  6. خرمشاهی، «سوره لقمان»، ج۲، ص۱۲۴۶-۱۲۴۵.
  7. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۸، ص۴۸۸.
  8. صفوی، «سوره لقمان»، ص ۷۹۹.
  9. قرائتی، تفسیر نور،۱۳۸۳ق،‌ ج۹، ص۲۲۵.
  10. قمی، تفسیر القمی، ۱۴۰۴ق، ج۲، ص۱۶۱.
  11. ابن العربی، أحکام القرآن، ۱۴۰۸ق، ج۳، ص۱۴۹۴.
  12. واحدی، اسباب نزول القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۳۵۶.
  13. طبری، جامع البیان، ۱۴۱۲، ج۲۱، ص۵۱.
  14. واحدی، اسباب نزول القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۳۵۸.
  15. سیوطی، الدر المنثور، ۱۴۰۴، ج۵، ص۱۶۹.
  16. راغب اصفہانی، المفردات، ذیل واژہ قصد.
  17. راغب اصفہانی، المفردات، ذیل واژہ غض.
  18. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۶، ص۲۱۹.
  19. فخر رازی، تفسیر الکبیر، ۱۴۲۰ق، ج۲۵، ص۱۲۲؛مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۷،ص۵۷-۵۸؛ قرائتی، تفسیر نور، ۱۳۸۸ش، ح۷، ص۲۸۰.
  20. کاشانی، منہج الصادقین، ۱۳۳۶ش، ج۷، ص۲۱۲.
  21. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۷، ص۶۸.
  22. قمی، تفسیر قمی، ۱۳۶۳ش، ج۲، ص‍۱۶۶.
  23. بحرانی، البرہان، ۱۴۱۵ق، ج۴، ص۳۷۹.
  24. مغنیہ، الکاشف، ۱۴۱۴ق، ج۶، ص۱۶۶.
  25. مقدس اردبیلی، زبده البیان، ۱۳۸۶ق، ص۴۱۳.
  26. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۸، ص۴۹۰.
  27. مغنیہ، الکاشف، ۱۴۲۴ق، ج۶، ص۱۵۷.
  28. فیض نسب، آیات الاحکام فی التراث الامام الخمینی، ۱۳۸۴ش، ص۶۷۹-۶۹۲.
  29. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۸، ص۴۸۸.
  30. صدوق، ثواب الأعمال و عقاب الأعمال، ۱۴۰۶ق، ص۱۱۰.

نوٹ

  1. وَلَقَدْ آتَيْنَا لُقْمَانَ الْحِكْمَةَ أَنِ اشْكُرْ لِلَّـهِ ۚ وَمَن يَشْكُرْ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّـهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ﴿١٢﴾  (ترجمہ: اور ہم نے لقمان کو حکمت (و دانائی) عطا کی (اور کہا) کہ خدا کا شکر ادا کرو اور جو شکر ادا کرتا ہے وہ اپنے ہی فائدہ کیلئے شکر ادا کرتا ہے اور جو کفرانِ نعمت (ناشکری) کرتا ہے (وہ اپنا نقصان کرتا ہے کیونکہ) بے شک اللہ بے نیاز ہے (اور) لائقِ حمد و ثنا ہے۔ سے لیا گیا ہے۔ لفظ لقمان اس سورت میں دو مرتبہ آیا ہے نیز دیگر کسی سورت میں استعمال نہیں ہوا)

مآخذ

  • قرآن کریم، ترجمہ محمد حسین نجفی (سرگودھا)۔
  • ابن العربی، محمد بن عبداللہ بن ابوبکر، احکام القرآن، بیروت، دار الجیل، ۱۴۰۸.
  • ثعلبی نیشابوری، ابو اسحاق احمد بن ابراہیم، الکشف و البیان عن تفسیر القرآن، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، ۱۴۲۲ق.
  • خرمشاہی، قوام الدین، «سورہ لقمان»، در دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، تہران، دوستان-ناہید، ۱۳۷۷ش.
  • راغب اصفہانی، حسین بن محمد، مفردات ألفاظ القرآن‏، بیروت، دار الشامیہ، ۱۴۱۲ق.
  • سیوطی، جلال الدین، الدر المنثور فی تفسیر المأثور، قم، کتابخانہ آیۃ اللہ مرعشی نجفی، ۱۴۰۴ق.
  • صدوق، محمد بن علی، ثواب الأعمال و عقاب الأعمال، قم، دار الشریف الرضی للنشر، ۱۴۰۶ق.
  • صفوی، سلمان، «سورہ لقمان»، در دانشنامہ معاصر قرآن کریم، قم، انتشارات سلمان آزادہ، ۱۳۹۶ش.
  • طباطبایی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، موسسہ الاعلمی للمطبوعات، ۱۳۹۰ق.
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، مقدمہ محمدجواد بلاغی‏، تہران، ناصر خسرو، ۱۳۷۲ش.
  • طبری، ابو جعفر محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار المعرفۃ، ۱۴۱۲ق.
  • فخرالدین رازی، ابوعبداللہ محمد بن عمر، مفاتیح الغیب، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۲۰ق.
  • فیض نسب، عباس، آیات الاحکام فی التراث الامام الخمینی، تہران، موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ۱۳۸۴ش.
  • قرائتی، محسن، تفسیر نور، تہران، مرکز فرہنگی درسہایی از قرآن، ۱۳۸۶ش.
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، محقق، مصحح، موسوی جزائری، سید طیب،‏ قم، دار الکتاب، ۱۴۰۴ق.
  • کاشانی، فتح اللہ، منہج الصادقين في إلزام المخالفين‏، تہران، کتاب فروشی اسلامیہ، ۱۳۳۶ش.
  • مغنیہ، محمدجواد، تفسیر الکاشف، قم، دارالکتاب الاسلامیہ، ۱۴۲۴ق.
  • مقدس اردبیلی، احمد بن محمد، زبدہ البیان فی احکام القرآن، محقق محمدباقر بہبودى، تہران، مكتبۃ المرتضويۃ، ۱۳۸۶ق.
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، ۱۳۷۱ش.
  • واحدی، علی بن احمد، اسباب نزول القرآن‏، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۱ق.