تحدی
تَحَدّی، علم کلام اور علوم قرآن کی ایک اصطلاح ہے جس کے معنی انبیاء کی طرف سے نبوت کے منکروں کو انبیاء کے معجزات کی طرح کوئی معجزہ پیش کرنے کی دعوت دینا ہے۔ تحدی معجزے کے ذریعے انبیاء کی نبوت کو ثابت کرنے کے لئے انجام دیا جاتا ہے۔ قرآن مجید کی 6 آیتوں میں تحدی کا بیان آیا ہے جو آیات تحدی کے نام سے مشہور ہیں۔ آیات تحدی میں پیغمبر اکرمؐ کی نبوت کے منکروں کو دعوت دی گئی ہے کہ قرآن یا کم از کم اس کی ایک سورت جیسی کوئی سورت لے آئے۔
قرآن کی تحدی کے بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔ بعض کا کہنا ہے کہ قرآن ادبی اور مضمون دونوں کے اعتبار سے تحدی کرتا ہے؛ جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ قرآن صرف ادبی لحاظ سے منکروں کو اس جیسا متن لانے کا کہہ رہا ہے۔
مفہومشناسی
تَحَدّی لغت میں رقیب کی کمزوری کو آشکار کرنے کی غرض سے اسے مقابلے کی دعوت دینے کو کہا جاتا ہے۔[1] تحدی، علوم قرآن[2] اور کلام اسلامی[3] کی ایک اصطلاح ہے جس کا معنی انبیاء کا نبوت کے منکروں سے اپنے معجزات جیسے معجزے لانے کی دعوت دینا ہے۔[4]
تحدی، معجزے کی شرط
آٹھویں صدی ہجری کے اہل سنت متکلم عضدالدین ایجی کا کہنا ہے کہ بعض متکلمین نے تحدی کو معجزہ کی شرائط میں سے قرار دیا ہے اور انبیاء کے معجزوں کا اولیاء کے کرامات سے فرق یہی بیان کیا ہے کہ معجزہ، تحدی کے ساتھ ہوتا ہے لیکن غیر معجزہ، تحدی کے بغیر ہوتا ہے۔[5]
تحدی قرآن
قرآن مجید کی چھ آیات میں قرآن کا معجزہ ہونے اور پیغمبر اکرمؐ کی نبوت کا سچا ہونے کو اثبات کرنے کے لیے تحدی ہوئی ہے۔اور ان آیات کو آیات تحدی نام دیا گیا ہے۔[6] آیات تحدی میں سے تین میں ان لوگوں کو قرآن جیسی کتاب لانے کا کہا گیا ہے جو قرآن کو اللہ تعالی کی جانب سے آنے کو انکار کرتے تھے،[7] ایک آیت میں منکروں سے کہا گیا ہے کہ قرآن کی دس سورتوں کی مانند کوئی لے آئیں[8]اور دیگر دو آیات میں قرآن کی ایک سورت جیسی سورہ لے آنے کی تحدی ہوئی ہے۔[9]
تحدی قرآن کے بارے میں نظریات
مسلم علماء، قرآن کی تحدید کے بارے میں اختلاف نظر رکھتے ہیں۔ بعض کا کہنا ہے کہ تحدی قرآن صرف ادبی اعتبار سے ہے؛ یعنی مخالفوں کو اس طرح کا فصیح اور بلیغ متن لانے کی دعوت دی گئی ہے؛[10] لیکن علامہ طباطبایی جیسے بعض علما کا کہنا ہے کہ تحدی قرآن میں ہر وہ چیز شامل ہے جو قرآن مجید میں شامل ہے؛ جیسے فصاحت، بلاغت، غیب کی خبریں اور دلائل۔[11]
محمد ہادی معرفت بھی پہلے نظرئے کو رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اگر تحدی، قرآن کے الفاظ سے مختص ہوتا تو اللہ تعالی اسے صرف عربوں سے منحصر کرتا اور مطلق طور پر بیان نہ کرتا۔[12]
نظریہ صرفہ
بعض متکلمین نے تحدی کا ایک اور معنی بیان کیا ہے کہ ان کی نظر میں تحدی قرآن کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص قرآن سے معارضہ اور مقابلہ کرنا چاہے تو اللہ تعالی اس کے ارادے کو کمزور کرتا ہے اور اسے اس کام کی اجازت نہیں دیتا ہے۔[13]اس نظرئے کو نظریہ نظریہ «صَرفہ» کہا جاتا ہے۔[14]
تحدی قرآن کا مقابلہ
تفسیر کی کتابوں اور علوم قرآن کے مآخذ کے مطابق بعض لوگوں نے تحدی قرآن کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی۔ اور مُسَیلَمہ کذّاب[15] اور نضر بن حارث انہی افراد میں سے تھے۔[16] آٹھویں صدی ہجری کے مفسر، ابنکثیر لکھتا ہے کہ نضر بن حارث نے رسم و اسفندیار کے قصوں کو قرآن کی ہمتائی کا دعوی کیا ہے۔[17]
نیز یہ بھی کہا گیا ہے کہ عبداللہ بن مُقَفَّع بھی قرآن کے مشابہ لانے کی کوشش کرتا تھا لیکن کچھ مدت کے بعد منصرف ہوا۔[18] ایک مسیحی پادری نے نے بھی سورہ حمد و سورہ کوثر سے کاپی کرتے ہوئے دو سورتیں لے آیا، جنکو مفسرین قرآن میں سے آیت اللہ خویی[19] اور رشید رضا[20] نے نقد کیا ہے۔ رشید رضا کا کہنا ہے کہ ان سورتوں کا لکھنے والا عربی زبان سے آشنا نہیں تھا۔[21]
«الفُرقان الحق» نامی ایک کتاب بھی امریکہ میں نشر ہوئی جس میں قرآن مجید کی نقل کرتے ہوئے یہودی اور مسیحی تعلیمات کو قرآنی تعلیمات سے ملاکر کچھ سورتیں تدوین کی گئیں۔[22] اس پر کئی نقد لکھے گئے جن میں صالح الخالدی کی کتاب الانتصار للقرآن بھی شامل ہے۔
مونوگراف
قاسم ہاشمی نے کتاب الإعجاز و التحدی فی القرآن الکریم میں ان مطالب کو جمع کیا ہے جو علامہ طباطبایی نے المیزان میں مختلف جگہوں پر اعجاز اور تحدی قرآن کے بارے میں بیان کیا ہے۔ اس کتاب کو مؤسسہ الأعلمی للمطبوعات نے چھاپ اور نشر کیا ہے۔
حوالہ جات
- ↑ جمعی از نویسندگان، شرح المصطلحات الکلامیہ، ۱۴۱۵ق، ص۶۴.
- ↑ جواہری، «واکاوی ملاک تحدی در قرآن و نقد منطق تنزّلی»، ص۱۱۲.
- ↑ مولفین کا ایک گروہ، شرح المصطلحات الکلامیہ، ۱۴۱۵ق، ص۶۴.
- ↑ مؤدب، اعجاز قرآن در نظر اہل بیت، ۱۳۷۹ش، ص۱۷.
- ↑ ایجی، شرح المواقف، ۱۳۵ق، ج۸، ص۲۲۴.
- ↑ خرم شاہی، دانشنامہ قرآن و قرآنپژوہی، ۱۳۷۷ش، ج۱، ص۴۸۱.
- ↑ سورہ طور، آیہ ۳۴؛ سورہ قصص، آیہ۴۹؛ سورہ اسرا، آیہ۸۸.
- ↑ سورہ ہود، آیہ۱۳.
- ↑ سورہ بقرہ، آیہ۲۳؛ سورہ یونس، آیہ۳۸.
- ↑ معرفت، التمہید، ۱۳۸۸ش، ج۶، ص۳۰-۳۱.
- ↑ ملاحظہ فرمائیں: طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۰، ص۱۶۲.
- ↑ معرفت، التمہید، ۱۳۸۸ش، ج۶، ص۳۴.
- ↑ سید مرتضی، رسائل الشریف المرتضی، ۱۴۰۵ق، ص۳۲۳-۳۲۷؛ شیخ مفید، اوائل المقالات، ۱۴۱۳ق، ص۶۳.
- ↑ ملاحظہ کریں: سید مرتضی، رسائل الشریف المرتضی، ۱۴۰۵ق، ص۳۲۳-۳۲۷.
- ↑ ابنکثیر، تفسیر القرآن العظیم، ۱۴۱۹ق، ج۱، ص۱۱۲.
- ↑ ابنکثیر، تفسیر القرآ ن العظیم، ۱۴۱۹ق، ج۴، ص۴۱.
- ↑ ابنکثیر، تفسیر القرآ ن العظیم، ۱۴۱۹ق، ج۴، ص۴۱.
- ↑ باقلانی، اعجاز القرآن، ۱۴۲۱ق، ص۲۷.
- ↑ خویی، البیان، ۱۴۳۰ق، ص۵۹-۱۰۲.
- ↑ رشیدرضا، تفسیر المنار، ۱۹۹۰م، ج۱، ص۶۶ و ۱۸۸.
- ↑ رشیدرضا، تفسیر المنار، ۱۹۹۰م، ج۱، ص۱۸۸.
- ↑ امینناجی و دیگران، «تحلیل انتقادی «الفرقان الحق» در حوزہ وحیانیت و جامعیت در معارضہ با قرآن»، ص۱۴۷-۱۵۴.
مآخذ
- امینناجی، محمدہادی و دیگران، «تحلیل انتقادی الفرقان الحق در حوزہ وحیانیت و جامعیت در معارضہ با قرآن» در پژوہشنامہ نفسیر و زبان قرآن، شمارہ۲، تابستان ۱۳۹۶ہجری شمسی۔
- ایجی، عضد الدین، جرجانی، میرسید شریف، شرح المواقف، تصحیح بدرالدین نعسانی، الشریف الرضی، قم، ۱۳۵ھ۔
- ابن کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، تفسیر القرآن العظیم، تحقیق محمدحسین شمس الدین، بیروت، دار الکتب العلمیہ منشورات محمدعلی بیضون، ۱۴۱۹ھ۔
- باقلانی، محمد بن طیب، اعجاز القرآن، تصحیح صلاح محمد عویضہ، دار الکتب العلمیہ منشورات محمدعلی بیضون، بیروت، ۱۴۲۱ق/۲۰۰۱ء۔
- جمعی از نویسندگان، شرح المصطلحات الکلامیہ، بہ کوشش مجمع البحوث الاسلامیة، مشہد، آستانہ رضویہ، ۱۴۱۵ھ۔
- جواہری، سیدمحمدحسن، «واکاوی ملاک تحدی در قرآن و نقد منطق تنزّلی»، پژوہشہای قرآنی، ش۲، ۱۳۹۵ہجری شمسی۔
- خرمشاہی، بہاءالدین، دانشنامہ قرآن و قرآنپژوہی، تہران، نشر ناہید-دوستان، ۱۳۷۷ہجری شمسی۔
- خویی، سید ابوالقاسم، البیان فی تفسیر القرآن، مؤسسہ احیاء آثار الامام الخویی، قم، ۱۴۳۰ھ۔
- رشیدرضا، محمدرشید بن علی، تفسیر القرآن الکریم( تفسیر المنار)، الہیئة المصریة العامة للکتاب، ۱۹۹۰ء۔
- سید مرتضی، رسائل الشریف المرتضی، تحقیق سید مہدی رجائی، قم، دار القرآن الکریم، ۱۴۰۵ھ۔
- طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج علی اہل اللجاج، تصحیح محمدباقر خرسان، مشہد، نشر مرتضی، ۱۴۰۳ھ۔
- طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۴۱۷ھ۔
- معرفت، محمدہادی، التمہید فی علوم القرآن، قم، مؤسسہ اسلامی التمہید، ۱۳۸۸ہجری شمسی۔
- مفید، محمد بن محمد، اوائل المقالات فی المذاہب و المختارات، قم، المؤتمر العالمی للشیخ المفید، ۱۴۱۳ھ۔
- مؤدب، سیدرضا، اعجاز قرآن در نظر اہل بیت عصمت و بیست نفر از علمای بزرگ اسلام، قم، احسن الحدیث، ۱۳۷۹ہجری شمسی۔