سورہ مریم

ویکی شیعہ سے
کہف سورۂ مریم طہ
ترتیب کتابت: 19
پارہ : 16
نزول
ترتیب نزول: 44
مکی/ مدنی: مکی
اعداد و شمار
آیات: 98
الفاظ: 972
حروف: 3935

سورہ مریم قرآن کی 19ویں اور مکی سورتوں میں سے ہے اور 16ویں پارے میں واقع ہے۔ اس سورے میں حضرت مریم کی داستان نقل ہوئی ہے اسی مناسبت سے اس کا نام "سورہ مریم" رکھا گیا ہے۔ اس سورت کا اصلی پیغام بشارت اور انتباہ ہے جسے حضرت زکریا، حضرت یحیی، حضرت ابراہیم، حضرت موسی اور حضرت عیسی کی داستان کے ضمن میں بیان کیا گیا ہے۔ قیامت اور اس کی کیفیت، خدا کے صاحب اولاد ہونے کی نفی اور شفاعت سے مربوط مسائل اس سورے میں ذکر ہونے والے دیگر موضوعات ہیں۔

سورہ مریم کی آیت نمیر 96 اس کی مشہور آیات میں سے ہے جو آیت ود کے نام سے جانا جاتا ہے۔ سورہ مریم کی تلاوت پر مداومت انسان کو اپنی جان، مال اور اولاد سے بے نیاز قرار دیتا ہے۔

تعارف

سورہ مریم کی آیت نمبر 58 کا ایک حصہ خط ثلث میں: "جب ان کے سامنے خدائے رحمن کی آیتین پڑھی جاتی تھیں تو وہ روتے ہوئے سجدے میں گر پڑتے تھے۔"

وجہ تسمیہ

اس سورت کی آیت نمبر 16، 27 اور 34 میں حضرت مریم کی داستان بیان ہوئی ہے اسی مناسبت سے اس کا نام "سورہ مریم" رکھا گیا ہے۔[1] اس سورے کا دوسرا نام کهیعص ہے؛ کیونکہ انہی حروف کے ساتھ اس کا آغاز ہوتا ہے۔[2] بطور اختصار اسے سوره کٰهـٰ بھی کہا جاتا ہے۔[3]

محل اور ترتیب نزول

سورہ مریم مکی سورتوں میں سے ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے 44ویں جبکہ مُصحَف کی موجودہ ترتیب کے اعتبار سے 19ویں سورہ ہے جو قرآن کے 16ویں پارے میں واقع ہے۔[4]

آیات کی تعداد اور دوسری خصوصیات

سورہ مریم 98 آیات، 972 کلمات اور 3935 حروف پر مشتمل ہے۔ حجم کے اعتبار سے اس کا شمار سور مَثانی میں ہوتا ہے اور ایک پارے کے نصف سے کم اس کا حجم ہے۔ حروف مُقَطَّعہ سے شروع ہونے والی سورتوں میں سے دسویں سورہ ہے۔[5]

سورہ مریم دو خصوصیات پر مشتمل ہے: پہلی خصوصیت یہ کہ انبیاء اور حضرت مریم کی داستان کی ابتداء لفظ "اُذْکُر" کے ذریعے ہوتا ہے جس کے معنی خدا کی طرف سے یاد کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ دوسری خصوصیت یه کہ خدا کی صفات میں سے لفظ "رحمان" اس سورت میں 16 بار تکرار ہوا ہے جس کے بارے میں مفسرین کا بیان ہے کہ یہ چیز اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ خدا کی وسیع رحمت تمام موجودات خاص کر انبیاء اور مؤمنین کو شامل ہے۔[6]

مفاہیم

علامہ طباطبایی تفسیر المیزان میں فرماتے ہیں کہ اس سورہ کا اصلی مقصد انبیاء کی داستانوں کے ضمن میں بشارت و انذار دینا ہے۔[7]

تفسیر نمونہ کے مطابق سورہ مریم کے مضامین کو درج ذیل تین حصوں میں خلاصہ کیا جا سکتا ہے:

  1. اس سورت کا عمدہ حصہ حضرت زکریا، حضرت مریم، حضرت عیسی، حضرت یحیی، حضرت ابراہیم، حضرت اسماعیل، حضرت ادریس اور بعض دیگر انبیاء کے داستانوں کا بیان ہے؛
  2. قیامت اور اس کی کیفیت سے مربوط مسائل، مجرمین کا انجام اور پرہیزگاروں کو دیا جانے والا ثواب وغیرہ کے علاوہ مواعظ و نصایح بھی اس حصے میں شامل ہیں؛
  3. قرآن، خدا کا اولاد سے بے نیاز ہونا اور شفاعت مربوط مسائل کا مجموعاً جو انسان کو ایمان، نیکی اور تقوا کی طرف مائل کرنے میں مؤثر کردار ادا کرتے ہیں۔[8]
سورہ مریم کے مضامین[9]
 
 
 
 
 
عزت اور نعمت کے واحد راستہ اللہ کی بندگی
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
خاتمہ؛ آیہ ۹۶-۹۸
دینا میں مؤمنین اور کافروں کا انجام
 
دوسرا گفتار؛ آیہ ۶۶-۹۵
دنیا طلب کافروں کے باطل خیالات
 
پہلا گفتار؛ آیہ ۱-۶۵
مخلص بندوں پر اللہ کے لطف کے بعض نمونے
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
پہلا تصور؛ آیہ ۶۶-۷۲
دینا کو سب کچھ سمجھنا اور دوسری بار زندہ ہونے کا انکار
 
پہلا نمونہ؛ آیہ ۱-۱۵
نیک اولاد، حضرت زکریا کے خضوع کا اجر
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
دوسرا تصور؛ آیہ ۷۳-۷۶
مالدار کافروں کا مومنین سے افضل ہونے کا دعوا
 
دوسرا نمونہ؛ آیہ ۱۶-۴۰
حضرت مریم کو عبادت اور بندگی کا اجر
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
تیسرا تصور؛ آیہ ۷۷-۸۰
کفر کی وجہ سے مال زیادہ ہونے کا دعوا
 
تیسرا نمونہ؛ آیہ ۴۱-۵۰
حضرت ابراہیم کو کاوشوں کا اجر
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
چوتھا تصور؛ آیہ ۸۱-۸۷
غیر خدا کی بندگی سے عزت حاصل کرنے کا گمان
 
چوتھا نمونہ؛ آیہ ۵۱-۵۳
حضرت موسی کے اخلاص کا اجر
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
پانچواں تصور؛ آیہ ۸۸-۹۵
اللہ کا بیٹا ہونے کا عقیدہ
 
پانچواں نمونہ؛ آیہ ۵۴-۵۵
حضرت اسماعیل کو بندگی کا اجر
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
چھٹا نمونہ؛ آیہ ۵۶-۵۸
حضرت ادریس کی سچائی کا اجر
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
ساتواں نمونہ؛ آیہ ۵۹-۶۳
توبہ کرنے والوں کا اجر
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
نتیجہ؛ آیہ ۶۴-۶۵
وحی کے فرشتے کی عصمت کے پیش نظر قرآنی معارف کی حقانیت

تاریخی واقعات اور داستانیں

سورہ مریم انبیاء اور حضرت مریم سے مربوط متعدد داستانوں اور تاریخی واقعات پر مشتمل ہے۔

بعض آیات کی شأن نزول

سورہ مریم کی بعض آیات کی شأن نزول بیان کی گئی ہے۔

خدا کے حکم سے فرشتہ وحی کا نزول(64)

سورہ مریم کی آیت نمبر 64 وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلَّا بِأَمْرِ‌ رَ‌بِّكَ...؛ (ترجمہ: (اے رسول(ص)) ہم (فرشتے) آپ کے پروردگار کے حکم کے بغیر (زمین پر) نازل نہیں ہوتے...)[؟؟] کے سبب نزول کے بارے میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلامؐ سے اصحاب کہف، ذوالقرنین اور روح الامین کے بارے میں سوال کیا گیا، اس دوران کچھ مدت کے لئے جبرئیل نازل نہیں ہوا جس کی وجہ سے مذکورہ سوالوں کے جواب دینے میں پیغمبر اکرمؐ پر گراں گزرنے لگا۔ کچھ عرصہ بعد فرشتہ وحی نازل ہوا تو پیغمبر اکرم نے ان سے وحی آنے میں تأخیر کی وجہ دریافت فرمائی جس پر جبرئیل نے جواب دیا میں آپ کی دیدار کا مشتاق ہوں لیکن یہ چیز خدا کی اجازت پر موقوف ہے جب بھی مجھے اجازت ملتی ہے میں آپ یک خدمت میں حاضر ہوتا ہوں۔[10]

مردوں کا زندہ ہونا(66-67)

سورہ مریم کی آیت نمبر 66 اور 67 وَيَقُولُ الْإِنسَانُ أَإِذَا مَا مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَ‌جُ حَيًّا...؛ (ترجمہ: اور (غافل) انسان کہتا ہے کہ جب میں مر جاؤں گا تو کیا پھر زندہ کرکے نکالا جاؤں گا؟)[؟؟] کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ آیات ابیّ بن خلف جمحی کے بارے میں نازل ہوئیں جو بوسیدہ ہڈیوں کو پیستے ہوئے کہتے تھے کہ "محمدؐ کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد ہم دوبارہ زندہ ہونگے جبکہ اس ہڈی کی طرح گل سڑ جائیں گے؛ یہ اصلا ناممکن ہے۔ ان آیات میں انہیں جواب دیتے ہوئے موت کے بعد انسانوں کے زندہ ہونے پر تاکید کرتے ہیں جس طرح خدا نے ہمیں شروع میں عدم سے وجود میں لایا ہے۔[11]

قیامت کے دن وصول کرنے کا مطالبہ(77-80)

ابواسحاق ثعالبی خباب بن ارت کے حوالے سے روایت کرتے ہیں کہ عاص بن وائل کو کچھ قرض دیا ہوا تھا مطلوبہ قرضہ واپس لینے کے لئے گیا تو اس نے کہا جب تک محمدؐ کی نبوت کا انکار نہیں کرو گے تمہارا قرض واپس نہیں دونگا۔ خباب کہتے ہیں کہ اس سے کہا خدا کی قسم تم مر جاؤ اور دوبارہ زندہ ہوجاؤ لیکن میں محمدؐ کی نبوت کا انکار نہیں کرونگا۔ اس نے کہا: تم کہتے ہو کہ مرنے کے بعد ہم دوبارہ زندہ ہونگے اور بہشت میں سونا، چاندے اور ریشم کے ملبوسات ہونگے؛ پس مجھے مہلت دے دو تاکہ میں بہشت میں تمہارا قرض واپس کر دوں؛ کیونکہ اگر تمہاری بات صحیح ہو تو بہشت میں میرا حصہ تم سے زیادہ ہو گا۔ سورہ مریم کی آیت نمبر 77 سے 80 عاص بن وائل کے جواب میں نازل ہوئیں ہیں۔[12]

کہیعص سے مراد

سورہ مریم کے آغاز میں موجود حروف مُقَطَّعہ (کہیعص) کے بارے میں دو طرح کی روایات اسلامی منابع میں نقل ہوئی ہیں:

  1. بعض احادیث کے مطابق ان حروف میں سے ہر ایک کو خدا کے اسما و صفات کی طرف اشارہ ہیں: "ک" سے مراد کافی، "ہ" سے مراد ہادی، "ی" سے مراد ولی، "ع" سے مراد عالم اور "ص" سے مراد صادق الوعد (وہ ذات جو وعدہ خلافی نہیں کرتی) ہے۔[13]
  2. بعض احادیث میں ان حروف کو واقعہ کربلا کی تفسیر قرار دیتے ہیں: "ک" سے "کربلا"، "ہاء" سے "خاندان پیغمبر کی شہادت"، "ی" سے "یزید"، "ع" سے "عطش" اور "ص" سے امام حسینؑ اور آپ کی اصحاب کی "صبر و استقامت" مراد لیتے ہیں۔[14]

علامہ طباطبایی پہلی قسم کی احادیث کو صحیح نہیں سمجھتے کیونکہ ان میں یا سے ولی کی طرف اشارہ سمجھا گیا ہے جن کے آپس میں کوئی رابطہ ہی نہیں ہے۔[15] اہل سنت کے بعض علماء سورہ مریم کی ابتداء میں موجود حروف مقطعہ کو خدا کے اسامی سے تعبیر کرتے ہیں۔[16]

آیات مشہور

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَنُ وُدًّ
 (ترجمہ: بےشک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل بجا لائے۔ ان کیلئے عنقریب خدائے رحمن (لوگوں کے دلوں میں) محبت قرار دے گا۔)[؟؟]

سورہ مریم کی آیت نمبر 96 آیت ود کے نام سے مشہور ہے۔ علماء اور مفسرین اس آیت کی شأن نزول کو امام علیؑ کے بارے میں قرار دیتے ہوئے اس سلسلے میں یہت ساری احادیث ذکر کئے ہیں۔[17] امام صادقؑ سے منقول ایک حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ امام علیؑ کے حق میں دعا کرتے ہوئے خدا سے درخواست کرتے ہیں کہ مؤمنین کے دلوں میں حضرت علیؑ کی محبت الفت قرار دے اور منافقین کے دلوں میں آپ کی ہیبت اور عظمت قرار دے۔ اس دعا کے بعد یہ آیت نازل ہوئی۔[18]

فضیلت اور خواص

امام صادقؑ سے نقل ہوا ہے کہ: "جو شخص سورہ مریم کی تلاوت پر مداومت کرے گا یہ شخص اس دنیا سے نہیں جائے گا مگر یہ کہ خدا اس سورت کی برکت سے اس شخص کو اس کے جان، مال اور اولاد سے بے نیاز کر دے گا"۔[19]

متن اور ترجمہ

سورہ مریم
ترجمہ
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّ‌حْمَـٰنِ الرَّ‌حِيمِ

كهيعص ﴿1﴾ ذِكْرُ رَحْمَةِ رَبِّكَ عَبْدَهُ زَكَرِيَّا ﴿2﴾ إِذْ نَادَى رَبَّهُ نِدَاء خَفِيًّا ﴿3﴾ قَالَ رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْبًا وَلَمْ أَكُن بِدُعَائِكَ رَبِّ شَقِيًّا ﴿4﴾ وَإِنِّي خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِن وَرَائِي وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا فَهَبْ لِي مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا ﴿5﴾ يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّا ﴿6﴾ يَا زَكَرِيَّا إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ اسْمُهُ يَحْيَى لَمْ نَجْعَل لَّهُ مِن قَبْلُ سَمِيًّا ﴿7﴾ قَالَ رَبِّ أَنَّى يَكُونُ لِي غُلَامٌ وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا وَقَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْكِبَرِ عِتِيًّا ﴿8﴾ قَالَ كَذَلِكَ قَالَ رَبُّكَ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ وَقَدْ خَلَقْتُكَ مِن قَبْلُ وَلَمْ تَكُ شَيْئًا ﴿9﴾ قَالَ رَبِّ اجْعَل لِّي آيَةً قَالَ آيَتُكَ أَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلَاثَ لَيَالٍ سَوِيًّا ﴿10﴾ فَخَرَجَ عَلَى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرَابِ فَأَوْحَى إِلَيْهِمْ أَن سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا ﴿11﴾ يَا يَحْيَى خُذِ الْكِتَابَ بِقُوَّةٍ وَآتَيْنَاهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا ﴿12﴾ وَحَنَانًا مِّن لَّدُنَّا وَزَكَاةً وَكَانَ تَقِيًّا ﴿13﴾ وَبَرًّا بِوَالِدَيْهِ وَلَمْ يَكُن جَبَّارًا عَصِيًّا ﴿14﴾ وَسَلَامٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا ﴿15﴾ وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مَرْيَمَ إِذِ انتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا مَكَانًا شَرْقِيًّا ﴿16﴾ فَاتَّخَذَتْ مِن دُونِهِمْ حِجَابًا فَأَرْسَلْنَا إِلَيْهَا رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِيًّا ﴿17﴾ قَالَتْ إِنِّي أَعُوذُ بِالرَّحْمَن مِنكَ إِن كُنتَ تَقِيًّا ﴿18﴾ قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلَامًا زَكِيًّا ﴿19﴾ قَالَتْ أَنَّى يَكُونُ لِي غُلَامٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ وَلَمْ أَكُ بَغِيًّا ﴿20﴾ قَالَ كَذَلِكِ قَالَ رَبُّكِ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ وَلِنَجْعَلَهُ آيَةً لِلنَّاسِ وَرَحْمَةً مِّنَّا وَكَانَ أَمْرًا مَّقْضِيًّا ﴿21﴾ فَحَمَلَتْهُ فَانتَبَذَتْ بِهِ مَكَانًا قَصِيًّا ﴿22﴾ فَأَجَاءهَا الْمَخَاضُ إِلَى جِذْعِ النَّخْلَةِ قَالَتْ يَا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هَذَا وَكُنتُ نَسْيًا مَّنسِيًّا ﴿23﴾ فَنَادَاهَا مِن تَحْتِهَا أَلَّا تَحْزَنِي قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِيًّا ﴿24﴾ وَهُزِّي إِلَيْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسَاقِطْ عَلَيْكِ رُطَبًا جَنِيًّا ﴿25﴾ فَكُلِي وَاشْرَبِي وَقَرِّي عَيْنًا فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَدًا فَقُولِي إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمَنِ صَوْمًا فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنسِيًّا ﴿26﴾ فَأَتَتْ بِهِ قَوْمَهَا تَحْمِلُهُ قَالُوا يَا مَرْيَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا ﴿27﴾ يَا أُخْتَ هَارُونَ مَا كَانَ أَبُوكِ امْرَأَ سَوْءٍ وَمَا كَانَتْ أُمُّكِ بَغِيًّا ﴿28﴾ فَأَشَارَتْ إِلَيْهِ قَالُوا كَيْفَ نُكَلِّمُ مَن كَانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا ﴿29﴾ قَالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتَانِيَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِي نَبِيًّا ﴿30﴾ وَجَعَلَنِي مُبَارَكًا أَيْنَ مَا كُنتُ وَأَوْصَانِي بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيًّا ﴿31﴾ وَبَرًّا بِوَالِدَتِي وَلَمْ يَجْعَلْنِي جَبَّارًا شَقِيًّا ﴿32﴾ وَالسَّلَامُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدتُّ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّا ﴿33﴾ ذَلِكَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ يَمْتَرُونَ ﴿34﴾ مَا كَانَ لِلَّهِ أَن يَتَّخِذَ مِن وَلَدٍ سُبْحَانَهُ إِذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُ ﴿35﴾ وَإِنَّ اللَّهَ رَبِّي وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ هَذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيمٌ ﴿36﴾ فَاخْتَلَفَ الْأَحْزَابُ مِن بَيْنِهِمْ فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ كَفَرُوا مِن مَّشْهَدِ يَوْمٍ عَظِيمٍ ﴿37﴾ أَسْمِعْ بِهِمْ وَأَبْصِرْ يَوْمَ يَأْتُونَنَا لَكِنِ الظَّالِمُونَ الْيَوْمَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ﴿38﴾ وَأَنذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ إِذْ قُضِيَ الْأَمْرُ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ وَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ﴿39﴾ إِنَّا نَحْنُ نَرِثُ الْأَرْضَ وَمَنْ عَلَيْهَا وَإِلَيْنَا يُرْجَعُونَ ﴿40﴾ وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا ﴿41﴾ إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ يَا أَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْمَعُ وَلَا يُبْصِرُ وَلَا يُغْنِي عَنكَ شَيْئًا ﴿42﴾ يَا أَبَتِ إِنِّي قَدْ جَاءنِي مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ يَأْتِكَ فَاتَّبِعْنِي أَهْدِكَ صِرَاطًا سَوِيًّا ﴿43﴾ يَا أَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّيْطَانَ إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلرَّحْمَنِ عَصِيًّا ﴿44﴾ يَا أَبَتِ إِنِّي أَخَافُ أَن يَمَسَّكَ عَذَابٌ مِّنَ الرَّحْمَن فَتَكُونَ لِلشَّيْطَانِ وَلِيًّا ﴿45﴾ قَالَ أَرَاغِبٌ أَنتَ عَنْ آلِهَتِي يَا إِبْراهِيمُ لَئِن لَّمْ تَنتَهِ لَأَرْجُمَنَّكَ وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا ﴿46﴾ قَالَ سَلَامٌ عَلَيْكَ سَأَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّي إِنَّهُ كَانَ بِي حَفِيًّا ﴿47﴾ وَأَعْتَزِلُكُمْ وَمَا تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ وَأَدْعُو رَبِّي عَسَى أَلَّا أَكُونَ بِدُعَاء رَبِّي شَقِيًّا ﴿48﴾ فَلَمَّا اعْتَزَلَهُمْ وَمَا يَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ وَهَبْنَا لَهُ إِسْحَقَ وَيَعْقُوبَ وَكُلًّا جَعَلْنَا نَبِيًّا ﴿49﴾ وَوَهَبْنَا لَهُم مِّن رَّحْمَتِنَا وَجَعَلْنَا لَهُمْ لِسَانَ صِدْقٍ عَلِيًّا ﴿50﴾ وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مُوسَى إِنَّهُ كَانَ مُخْلَصًا وَكَانَ رَسُولًا نَّبِيًّا ﴿51﴾ وَنَادَيْنَاهُ مِن جَانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ وَقَرَّبْنَاهُ نَجِيًّا ﴿52﴾ وَوَهَبْنَا لَهُ مِن رَّحْمَتِنَا أَخَاهُ هَارُونَ نَبِيًّا ﴿53﴾ وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِسْمَاعِيلَ إِنَّهُ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَكَانَ رَسُولًا نَّبِيًّا ﴿54﴾ وَكَانَ يَأْمُرُ أَهْلَهُ بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ وَكَانَ عِندَ رَبِّهِ مَرْضِيًّا ﴿55﴾ وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِدْرِيسَ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا ﴿56﴾ وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا ﴿57﴾ أُوْلَئِكَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ مِن ذُرِّيَّةِ آدَمَ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ وَمِن ذُرِّيَّةِ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْرَائِيلَ وَمِمَّنْ هَدَيْنَا وَاجْتَبَيْنَا إِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُ الرَّحْمَن خَرُّوا سُجَّدًا وَبُكِيًّا ﴿58﴾ فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا ﴿59﴾ إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَأُوْلَئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلَا يُظْلَمُونَ شَيْئًا ﴿60﴾ جَنَّاتِ عَدْنٍ الَّتِي وَعَدَ الرَّحْمَنُ عِبَادَهُ بِالْغَيْبِ إِنَّهُ كَانَ وَعْدُهُ مَأْتِيًّا ﴿61﴾ لَا يَسْمَعُونَ فِيهَا لَغْوًا إِلَّا سَلَامًا وَلَهُمْ رِزْقُهُمْ فِيهَا بُكْرَةً وَعَشِيًّا ﴿62﴾ تِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي نُورِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَن كَانَ تَقِيًّا ﴿63﴾ وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلَّا بِأَمْرِ رَبِّكَ لَهُ مَا بَيْنَ أَيْدِينَا وَمَا خَلْفَنَا وَمَا بَيْنَ ذَلِكَ وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيًّا ﴿64﴾ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا فَاعْبُدْهُ وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِهِ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ﴿65﴾ وَيَقُولُ الْإِنسَانُ أَئِذَا مَا مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا ﴿66﴾ أَوَلَا يَذْكُرُ الْإِنسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاهُ مِن قَبْلُ وَلَمْ يَكُ شَيْئًا ﴿67﴾ فَوَرَبِّكَ لَنَحْشُرَنَّهُمْ وَالشَّيَاطِينَ ثُمَّ لَنُحْضِرَنَّهُمْ حَوْلَ جَهَنَّمَ جِثِيًّا ﴿68﴾ ثُمَّ لَنَنزِعَنَّ مِن كُلِّ شِيعَةٍ أَيُّهُمْ أَشَدُّ عَلَى الرَّحْمَنِ عِتِيًّا ﴿69﴾ ثُمَّ لَنَحْنُ أَعْلَمُ بِالَّذِينَ هُمْ أَوْلَى بِهَا صِلِيًّا ﴿70﴾ وَإِن مِّنكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا كَانَ عَلَى رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِيًّا ﴿71﴾ ثُمَّ نُنَجِّي الَّذِينَ اتَّقَوا وَّنَذَرُ الظَّالِمِينَ فِيهَا جِثِيًّا ﴿72﴾ وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ قَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا أَيُّ الْفَرِيقَيْنِ خَيْرٌ مَّقَامًا وَأَحْسَنُ نَدِيًّا ﴿73﴾ وَكَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُم مِّن قَرْنٍ هُمْ أَحْسَنُ أَثَاثًا وَرِئْيًا ﴿74﴾ قُلْ مَن كَانَ فِي الضَّلَالَةِ فَلْيَمْدُدْ لَهُ الرَّحْمَنُ مَدًّا حَتَّى إِذَا رَأَوْا مَا يُوعَدُونَ إِمَّا الْعَذَابَ وَإِمَّا السَّاعَةَ فَسَيَعْلَمُونَ مَنْ هُوَ شَرٌّ مَّكَانًا وَأَضْعَفُ جُندًا ﴿75﴾ وَيَزِيدُ اللَّهُ الَّذِينَ اهْتَدَوْا هُدًى وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِندَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ مَّرَدًّا ﴿76﴾ أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ بِآيَاتِنَا وَقَالَ لَأُوتَيَنَّ مَالًا وَوَلَدًا ﴿77﴾ أَاطَّلَعَ الْغَيْبَ أَمِ اتَّخَذَ عِندَ الرَّحْمَنِ عَهْدًا ﴿78﴾ كَلَّا سَنَكْتُبُ مَا يَقُولُ وَنَمُدُّ لَهُ مِنَ الْعَذَابِ مَدًّا ﴿79﴾ وَنَرِثُهُ مَا يَقُولُ وَيَأْتِينَا فَرْدًا ﴿80﴾ وَاتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّهِ آلِهَةً لِّيَكُونُوا لَهُمْ عِزًّا ﴿81﴾ كَلَّا سَيَكْفُرُونَ بِعِبَادَتِهِمْ وَيَكُونُونَ عَلَيْهِمْ ضِدًّا ﴿82﴾ أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّيَاطِينَ عَلَى الْكَافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا ﴿83﴾ فَلَا تَعْجَلْ عَلَيْهِمْ إِنَّمَا نَعُدُّ لَهُمْ عَدًّا ﴿84﴾ يَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِينَ إِلَى الرَّحْمَنِ وَفْدًا ﴿85﴾ وَنَسُوقُ الْمُجْرِمِينَ إِلَى جَهَنَّمَ وِرْدًا ﴿86﴾ لَا يَمْلِكُونَ الشَّفَاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِندَ الرَّحْمَنِ عَهْدًا ﴿87﴾ وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَنُ وَلَدًا ﴿88﴾ لَقَدْ جِئْتُمْ شَيْئًا إِدًّا ﴿89﴾ تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا ﴿90﴾ أَن دَعَوْا لِلرَّحْمَنِ وَلَدًا ﴿91﴾ وَمَا يَنبَغِي لِلرَّحْمَنِ أَن يَتَّخِذَ وَلَدًا ﴿92﴾ إِن كُلُّ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمَنِ عَبْدًا ﴿93﴾ لَقَدْ أَحْصَاهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدًّا ﴿94﴾ وَكُلُّهُمْ آتِيهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَرْدًا ﴿95﴾ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَنُ وُدًّا ﴿96﴾ فَإِنَّمَا يَسَّرْنَاهُ بِلِسَانِكَ لِتُبَشِّرَ بِهِ الْمُتَّقِينَ وَتُنذِرَ بِهِ قَوْمًا لُّدًّا ﴿97﴾ وَكَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُم مِّن قَرْنٍ هَلْ تُحِسُّ مِنْهُم مِّنْ أَحَدٍ أَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزًا ﴿98﴾۔

(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

کاف۔ ہا۔ یا۔ عین۔ صاد۔ (1) (اے رسول (ص)) آپ کے پروردگار نے اپنے (خاص) بندے زکریا(ع) پر جو (خاص) رحمت کی تھی یہ اس کا تذکرہ ہے۔ (2) جب انہوں نے اپنے پروردگار کو چپکے چپکے پکارا۔ (3) کہا اے میرے پروردگار! میری ہڈیاں کمزور ہوگئی ہیں اور سر میں بڑھاپے کے شعلے بھڑک اٹھے ہیں۔ (بال سفید ہوگئے ہیں) اور میرے پروردگار میں کبھی تجھ سے دعا مانگ کر نامراد نہیں رہا ہوں۔ (4) اور میں اپنے بعد بھائی بندوں سے ڈرتا ہوں۔ اور میری بیوی بانجھ ہے سو تو ہی مجھے (خاص) اپنے پاس سے ایک وارث عطا کر۔ (5) جو میرا بھی وارث بنے اور آل یعقوب کا بھی اور اے میرے پروردگار! تو اسے پسندیدہ بنا۔ (6) (ارشاد ہوا) اے زکریا! ہم تمہیں ایک لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں۔ جس کا نام یحییٰ ہوگا جس کا اس سے پہلے ہم نے کوئی ہمنام نہیں بنایا۔ (7) زکریا نے (از راہ تعجب) کہا اے میرے پروردگار! میرے ہاں لڑکا کیسے ہوگا؟ جبکہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں بڑھاپے کی انتہا کو پہنچا ہوا ہوں۔ (8) ارشاد ہوا: ایسا ہی ہوگا۔ تمہارا پروردگار فرماتا ہے کہ وہ مجھ پر آسان ہے اور میں نے ہی اس سے پہلے تمہیں پیدا کیا جبکہ تم کچھ بھی نہ تھے۔ (9) زکریا (ع) نے عرض کیا: اے میرے پروردگار! میرے لئے کوئی علامت قرار دے۔ ارشاد ہوا تمہارے لئے علامت یہ ہے کہ تم تندرست ہوتے ہوئے بھی برابر تین رات (دن) تک لوگوں سے بات نہیں کر سکوگے۔ (10) پس وہ عبادت گاہ سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے اور انہیں اشارہ سے کہا کہ صبح و شام (خدا کی) تسبیح و تقدیس کرو۔ (11) (جب حکم خدا کے مطابق وہ لڑکا پیدا ہوا اور بڑھا تو ہم نے کہا) اے یحییٰ! کتاب کو مضبوطی سے پکڑو اور ہم نے اسے بچپن ہی میں علم و حکمت سے نوازا۔ (12) اور وہ اپنے والدین سے نیکی کرنے والا تھا وہ سرکش اور نافرمان نہ تھا۔ (13) اور ہم نے خاص اپنے پاس سے (اسے) رحمدلی اور پاکیزگی عطا کی اور وہ پرہیزگار تھا۔ (14) سلام ہو اس پر جس دن وہ پیدا ہوا اور جس دن وفات پائے گا اور جس دن وہ زندہ کرکے اٹھایا جائے گا۔ (15) (اے رسول(ص)) اس کتاب میں مریم کا ذکر کیجئے۔ جب کہ وہ اپنے گھر والوں سے الگ ہوکر ایک مشرقی مکان میں گئیں۔ (16) پھر اس نے ان لوگوں کی طرف سے پردہ کر لیا پس ہم نے اس کی طرف اپنی جانب سے روح (یعنی فرشتہ) کو بھیجا تو وہ اس کے سامنے ایک تندرست انسان کی صورت میں نمودار ہوا۔ (17) مریم نے (گھبرا کر) کہا کہ اگر تو پرہیزگار آدمی ہے تو میں تجھ سے خدائے رحمن کی پناہ مانگتی ہوں۔ (18) اس (فرشتہ) نے کہا میں تو تمہارے پروردگار کا فرستادہ ہوں تاکہ تمہیں ایک پاکیزہ لڑکا دوں۔ (19) مریم نے کہا میرے ہاں لڑکا کیسے ہو سکتا ہے جبکہ کسی بشر نے مجھے چھوا تک نہیں ہے اور نہ ہی میں بدکردار ہوں۔ (20) فرشتہ نے کہا یونہی ہے (مگر) تمہارے پروردگار نے فرمایا ہے وہ کام میرے لئے آسان ہے۔ اور یہ اس لئے بھی ہے کہ ہم اسے لوگوں کے لئے (اپنی قدرت کی) ایک نشانی قرار دیں اور اپنی طرف سے رحمت اور یہ ایک طے شدہ بات ہے۔ (21) پس وہ اس (لڑکے) کے ساتھ حاملہ ہوگئی پھر وہ اس حمل کو لئے ہوئے دور جگہ چلی گئی۔ (22) اس کے بعد دردِ زہ اسے کھجور کے درخت کے تنا کے پاس لے گیا (اور) کہا کاش میں اس سے پہلے مر گئی ہوتی اور بالکل نسیاً منسیاً (بھول بسری) ہوگئی ہوتی۔ (23) اور ایک منادی نے اس کے نیچے سے آواز دی کہ (اے مریم) رنجیدہ نہ ہو۔ تیرے پروردگار نے تیرے نیچے ایک چھوٹی سی نہر جاری کر دی ہے۔ (24) اور کھجور کے تنا کو پکڑ کر اپنی طرف ہلا۔ وہ تم پر تر و تازہ اور پکی ہوئی کھجوریں گرائے گی۔ (25) پس تو (خرمے) کھا اور (نہر کا پانی) پی اور (بیٹے کو دیکھ کر) اپنی آنکھیں ٹھنڈی کر۔ پھر اگر کسی آدمی کو دیکھے اور (وہ تم سے کچھ پوچھے) تو (اشارہ سے) کہہ دینا کہ میں نے خدائے رحمن کے لئے (چپ کے) روزہ کی منت مانی ہے تو میں آج کسی آدمی سے بات نہیں کروں گی۔ (26) اس کے بعد وہ بچہ کو (گود میں) اٹھائے اپنی قوم کے پاس لائی۔ انہوں نے کہا اے مریم تو نے بڑا برا کام کیا ہے۔ (27) اے ہارون کی بہن! نہ تیرا باپ برا آدمی تھا اور نہ ہی تیری ماں بدکار تھی۔ (28) مریم نے (نومولود) بچہ کی طرف اشارہ کیا (کہ اس سے پوچھو کہ کہاں سے آیا؟) وہ لوگ کہنے لگے کہ ہم اس سے کس طرح بات کریں گے جو ابھی گہوارہ میں (کمسن) بچہ ہے؟ (29) (مگر) وہ بچہ بولا: میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب عطا کی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے۔ (30) اور اس نے مجھے نماز (پڑھنے) اور زکوٰۃ (دینے) کا حکم دیا ہے جب تک کہ میں زندہ ہوں۔ (31) اور اس نے مجھے اپنی ماں کے ساتھ نیک سلوک کرنے والا بنایا ہے اور مجھے سرکش اور بدبخت نہیں بنایا۔ (32) سلامتی ہے مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا، جس دن میں مروں گا اور جس دن زندہ کرکے اٹھایا جاؤں گا۔ (33) یہ ہے عیسیٰ بن مریم (اور یہ ہے) اس کے بارے میں وہ سچی بات جس میں لوگ شک کرتے ہیں۔ (34) یہ بات اللہ کے شایانِ شان نہیں ہے کہ وہ کسی کو اپنا بیٹا بنائے۔ پاک ہے اس کی ذات جب وہ کسی کام کا فیصلہ کر لیتا ہے تو اسے کہتا ہے ہو جا تو وہ (کام) ہو جاتا ہے۔ (35) (عیسیٰ نے کہا) بےشک میرا اور تمہارا پروردگار اللہ ہے پس تم اس کی عبادت کرو۔ یہی سیدھا راستہ ہے۔ (36) پھر مختلف گروہ آپ کے بارے میں اختلاف کرنے لگے تو جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان کے لئے ہلاکت ہے جب وہ ایک بہت بڑے سخت دن کا سامنا کریں گے۔ (37) جس دن وہ ہمارے پاس آئیں گے تو اس دن ان کے کان کیسے سننے والے اور آنکھیں کیسی دیکھنے والی ہوں گی۔ مگر آج یہ ظالم کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا ہیں۔ (38) اور (اے رسول(ص)) انہیں حسرت و ندامت کے دن سے ڈرائیں جبکہ ہر بات کا (آخری) فیصلہ کر دیا جائے گا۔ اور یہ لوگ غفلت میں پڑے ہیں اور ایمان نہیں لاتے۔ (39) (آخرکار) ہم ہی زمین کے اور جو کچھ اس کے اوپر ہے اس کے وارث ہوں گے اور سب ہماری طرف لوٹائے جائیں گے۔ (40) اور قرآن میں ابراہیم (ع) کا ذکر کیجئے۔ بےشک وہ بڑے راست باز تھے۔ (41) جب انہوں نے اپنے (منہ بولے) باپ (حقیقی چچا) آذر سے کہا کہ اے باپ! آپ ان چیزوں کی عبادت کیوں کرتے ہیں جو نہ سنتی ہیں اور نہ دیکھتی ہیں اور نہ آپ کو کوئی فائدہ پہنچا سکتی ہیں۔ (42) اے باپ! میرے پاس وہ علم آیا ہے جو آپ کے پاس نہیں آیا۔ آپ میری پیروی کیجئے میں آپ کو سیدھا راستہ دکھا دوں گا۔ (43) اے باپ! شیطان کی پرستش نہ کیجئے (کیونکہ) بےشک خدائے رحمن کا وہ نافرمان ہے۔ (44) اے باپ! مجھے اندیشہ ہے کہ آپ پر خدائے رحمن کا عذاب نازل نہ ہو جائے اور آپ شیطان کے ساتھی بن جائیں۔ (45) آزر نے کہا: اے ابراہیم کیا تم میرے خداؤں سے روگردانی کرتے ہو؟ اگر تم باز نہ آئے تو میں تمہیں سنگسار کر دوں گا۔ اور تم ایک مدت تک مجھ سے دور ہو جاؤ۔ (46) ابراہیم نے کہا: (اچھا خدا حافظ) آپ پر میرا سلام! میں عنقریب اپنے پروردگار سے آپ کے لئے مغفرت طلب کروں گا۔ بےشک وہ مجھ پر بڑا مہربان ہے۔ (47) اور میں آپ لوگوں سے اور ان سے جنہیں آپ اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہیں کنارہ کرتا ہوں۔ میں تو اپنے پروردگار کو ہی پکاروں گا۔ مجھے امید ہے کہ میں اپنے پروردگار کی دعا و پکار کی برکت سے نامراد نہیں رہوں گا۔ (48) پس جب وہ ان لوگوں کے اور ان کے خداؤں سے کنارہ کش ہوگئے تو ہم نے ان کو اسحاق و یعقوب جیسی اولاد عنایت فرمائی اور ہم نے سب کو نبی بنایا۔ (49) اور ہم نے ان ہستیوں کو اپنی (خاص) رحمت سے حصہ عطا کیا اور ان کے لئے سچائی کی زبان کو بلند قرار دیا۔ (یعنی آئندہ نسلوں میں ان کے ذکر جمیل کی آواز بلند کی)۔ (50) اور (اے رسول) کتاب (قرآن) میں موسیٰ کا ذکر کیجئے! بےشک وہ اللہ کے برگزیدہ بندے اور نبی مرسل تھے۔ (51) اور ہم نے کوہِ طور کی دائیں جانب سے آواز دی اور راز و نیاز کی باتیں کرنے کیلئے انہیں اپنا مقرب بنایا۔ (52) اور ہم نے انہیں اپنی خاص رحمت سے آواز دی اور راز و نیاز کی باتیں کرنے کے لئے اپنا مقرب بنایا اور (بطور وزیر) ان کو ان کا بھائی ہارون عطا کیا جو نبی تھا۔ (53) اور (اے پیغمبر(ص)) آپ کتاب (قرآن) میں اسماعیل (ع) کا ذکر کیجئے جو وعدہ کے سچے اور نبی مرسل تھے۔ (54) اور اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتے تھے اور وہ اپنے پروردگار کے نزدیک پسندیدہ تھے۔ (55) اور (اے رسول(ص)) کتاب (قرآن) میں ادریس کا ذکر کیجئے بےشک وہ بڑے سچے نبی تھے۔ (56) اور ہم نے انہیں بڑے ہی اونچے مقام تک بلند کیا تھا۔ (57) یہ وہ نبی ہیں جن پر اللہ نے انعام فرمایا۔ آدم (ع) کی نسل سے اور ان کی نسل سے جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ کشتی میں سوار کیا تھا اور ابراہیم و اسرائیل (یعقوب) کی نسل سے اور (یہ سب) ان لوگوں میں سے تھے جنہیں ہم نے راہ رست دکھائی اور منتخب کیا جب ان کے سامنے خدائے رحمن کی آیتین پڑھی جاتی تھیں تو وہ روتے ہوئے سجدے میں گر پڑتے تھے۔ (58) پھر ان کے بعد کچھ وہ ناخلف ان کے جانشین ہوئے جنہوں نے نمازوں کو ضائع کیا اور خواہشات کی پیروی کی پس وہ عنقریب گمراہی (کے انجام) سے دوچار ہوں گے۔ (59) ہاں البتہ جو توبہ کر لیں، ایمان لائیں اور نیک عمل بجا لائیں تو یہ لوگ بہشت میں داخل ہوں گے اور ان پر کچھ بھی ظلم نہیں کیا جائے گا۔ (60) وہ ہمیشہ رہنے والی جنتیں جن کا خدائے رحمن نے غائبانہ وعدہ کر رکھا ہے۔ بےشک اس کا وعدہ (سامنے) آنے والا ہے۔ (61) وہ وہاں سلامتی کی صداؤں کے سوا کوئی بے ہودہ بات نہیں سنیں گے اور ان کا مقررہ رزق انہیں صبح و شام ملتا رہے گا۔ (62) یہ ہے وہ بہشت جس کا وارث ہم اپنے بندوں میں سے اس کو بنائیں گے جو پرہیزگار ہوگا۔ (63) (اے رسول(ص)) ہم (فرشتے) آپ کے پروردگار کے حکم کے بغیر (زمین پر) نازل نہیں ہوتے جو کچھ ہمارے آگے ہے یا جو کچھ ہمارے پیچھے ہے اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کچھ اسی کا ہے اور آپ کا پروردگار بھولنے والا نہیں ہے۔ (64) وہ آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کا پروردگار ہے پس اسی کی عبادت کرو اور اس کی عبادت پر ثابت قدم رہو کیا تم اس کا کوئی ہمنام و ہمسر جانتے ہو؟ (65) اور (غافل) انسان کہتا ہے کہ جب میں مر جاؤں گا تو کیا پھر زندہ کرکے نکالا جاؤں گا؟ (66) کیا انسان کو یاد نہیں رہا کہ ہم ہی نے اس کو اس سے پہلے پیدا کیا جبکہ وہ کچھ بھی نہیں تھا۔ (67) تو قسم ہے تمہارے پروردگار کی کہ ہم ان کو اور شیطانوں کو اکٹھا کریں گے پھر ان سب کو جہنم کے اردگرد گھٹنوں کے بل حاضر کریں گے۔ (68) پھر ہم ہر گروہ میں سے اس شخص کو جدا کریں گے جو خدائے رحمن کے مقابلہ میں زیادہ سرکش تھا۔ (69) پھر ہم ہی زیادہ بہتر جانتے ہیں کہ کون اس (جہنم) میں داخل ہونے کا زیادہ سزاوار ہے؟ (70) اور تم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو جہنم پر وارد نہ ہو (جو وہاں سے نہ گزرے) یہ حتمی طے شدہ فیصلہ ہے جس کا پورا کرنا تمہارے پروردگار کے ذمہ ہے۔ (71) پھر جو پرہیزگار ہوں گے ہم انہیں نجات دے دیں گے اور ظالموں کو اس میں گھٹنوں کے بل گرا چھوڑ دیں گے۔ (72) جب ان کے سامنے ہماری واضح آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو کافر لوگ ایمان لانے والوں سے کہتے ہیں کہ (دیکھو ہم) دونوں گروہوں میں سے رہائش گاہ کس کی اچھی ہے اور محفل کس کی زیادہ شاندار ہے؟ (73) حالانکہ ہم ان سے پہلے کتنی ایسی قوموں کو ہلاک کر چکے ہیں جو ساز و سامان اور ظاہری شان و شوکت میں ان سے بڑھی ہوئی تھیں۔ (74) آپ کہہ دیجئے! کہ جو کوئی گمراہی میں مبتلا ہو تو خدائے رحمن اسے برابر ڈھیل دیتا رہتا ہے یہاں تک کہ جب یہ لوگ اسے دیکھیں گے جس کا ان سے وعدہ وعید ہوا ہے خواہ وہ (یہاں کا) عذاب ہو یا قیامت کی گھڑی! تب انہیں معلوم ہوگا کہ مکان کے لحاظ سے زیادہ برا کون ہے اور لاؤ لشکر کے اعتبار سے زیادہ کمزور کون ہے؟ (75) اور اللہ ہدایت یافتہ لوگوں کی ہدایت میں اور اضافہ کرتا ہے اور جو باقی رہنے والی نیکیاں ہیں وہ تمہارے پروردگار کے نزدیک ثواب اور انجام کے اعتبار سے بہتر ہیں۔ (76) کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے ہماری آیتوں کا انکار کیا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے مال ضرور دیا جائے گا اور اولاد بھی۔ (77) کیا وہ غیب پر مطلع ہوگیا ہے؟ یا اس نے خدائے رحمن سے کوئی عہد و پیمان حاصل کر لیا ہے؟ (78) ہرگز ایسا نہیں ہے جو کچھ یہ کہتا ہے ہم اسے لکھ لیں گے۔ اور اس کے عذاب میں برابر اضافہ کرتے جائیں گے۔ (79) وہ جو کہتا ہے (کہ اس کے پاس مال و اولاد ہے) اس کے وارث ہم ہی ہوں گے۔ اور یہ تو اکیلا ہماری بارگاہ میں حاضر ہوگا۔ (80) اور ان لوگوں نے خدا کو چھوڑ کر بہت سے خدا بنا رکھے ہیں تاکہ وہ ان کیلئے عزت و قوت کا باعث ہوں۔ (81) ہرگز ایسا نہیں ہے وہ عنقریب ان کی عبادت کا انکار کریں گے اور ان کے مخالف ہوں گے۔ (82) اے (رسول(ص)) کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ ہم نے شیطانوں کو کافروں پر چھوڑ رکھا ہے جو انہیں برابر اکساتے رہتے ہیں۔ (83) آپ ان کے بارے میں جلدی نہ کیجئے ہم تو اچھی طرح ان کے دن گن رہے ہیں۔ (84) جس دن ہم پرہیزگاروں کو اپنے حضور مہمانوں کی طرح لائیں گے۔ (85) اور مجرموں کو پیاسے جانوروں کی طرح جہنم کی طرف ہانک کر لے جائیں گے۔ (86) انہیں شفاعت کا کوئی اختیار نہ ہوگا سوائے اس کے جس نے اللہ سے عہد لے لیا ہوگا۔ (87) اور وہ (نصاریٰ) کہتے ہیں کہ خدا نے اپنا ایک بیٹا بنا رکھا ہے۔ (88) تم نے یہ ایسی سخت بُری بات کہی ہے۔ (89) کہ قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گر پڑیں۔ (90) کیونکہ وہ کہہ رہے ہیں کہ خدائے رحمن کا بیٹا ہے۔ (91) اور یہ بات رحمن کے شایانِ شان نہیں ہے کہ وہ کسی کو اپنا بیٹا بنائے۔ (92) آسمانوں اور زمین میں جو کوئی بھی ہے وہ خدائے رحمن کی بارگاہ میں بندہ بن کر حاضر ہونے والے ہیں۔ (93) اس (اللہ) نے ان سب کا احاطہ کر رکھا ہے اور انہیں اچھی طرح شمار کر رکھا ہے۔ (94) اور قیامت کے دن ان میں سے ہر ایک تنہا تنہا اس کی بارگاہ میں حاضر ہوگا۔ (95) بےشک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل بجا لائے۔ ان کیلئے عنقریب خدائے رحمن (لوگوں کے دلوں میں) محبت قرار دے گا۔ (96) اے (رسول(ص)) ہم نے اس (قرآن) کو آپ کی زبان میں آسان کر دیا ہے تاکہ آپ پرہیزگاروں کو خوشخبری سنائیں اور جھگڑالو قوم کو ڈرائیں۔ (97) اور ہم نے ان سے پہلے کتنی ہی قومیں ہلاک کی ہیں کیا آپ ان میں سے کسی کو بھی محسوس کرتے ہیں یا ان کی کوئی بھنک بھی سنتے ہیں۔ (98)

پچھلی سورت: سورہ کہف سورہ مریم اگلی سورت:سورہ طہ

1.فاتحہ 2.بقرہ 3.آل‌عمران 4.نساء 5.مائدہ 6.انعام 7.اعراف 8.انفال 9.توبہ 10.یونس 11.ہود 12.یوسف 13.رعد 14.ابراہیم 15.حجر 16.نحل 17.اسراء 18.کہف 19.مریم 20.طہ 21.انبیاء 22.حج 23.مؤمنون 24.نور 25.فرقان 26.شعراء 27.نمل 28.قصص 29.عنکبوت 30.روم 31.لقمان 32.سجدہ 33.احزاب 34.سبأ 35.فاطر 36.یس 37.صافات 38.ص 39.زمر 40.غافر 41.فصلت 42.شوری 43.زخرف 44.دخان 45.جاثیہ 46.احقاف 47.محمد 48.فتح 49.حجرات 50.ق 51.ذاریات 52.طور 53.نجم 54.قمر 55.رحمن 56.واقعہ 57.حدید 58.مجادلہ 59.حشر 60.ممتحنہ 61.صف 62.جمعہ 63.منافقون 64.تغابن 65.طلاق 66.تحریم 67.ملک 68.قلم 69.حاقہ 70.معارج 71.نوح 72.جن 73.مزمل 74.مدثر 75.قیامہ 76.انسان 77.مرسلات 78.نبأ 79.نازعات 80.عبس 81.تکویر 82.انفطار 83.مطففین 84.انشقاق 85.بروج 86.طارق 87.اعلی 88.غاشیہ 89.فجر 90.بلد 91.شمس 92.لیل 93.ضحی 94.شرح 95.تین 96.علق 97.قدر 98.بینہ 99.زلزلہ 100.عادیات 101.قارعہ 102.تکاثر 103.عصر 104.ہمزہ 105.فیل 106.قریش 107.ماعون 108.کوثر 109.کافرون 110.نصر 111.مسد 112.اخلاص 113.فلق 114.ناس


حوالہ جات

  1. صفوی، «سورہ مریم»، ص۸۰۸.
  2. خرمشاہی، «سورہ مریم»، ص۱۲۴۲.
  3. خرمشاہی، «سورہ مریم»، ص۱۲۴۲.
  4. معرفت، آموزش علوم قرآن، ۱۳۷۱ش، ج۲، ص۱۶۶.
  5. خرمشاہی، «سورہ مریم»، ص۱۲۴۲.
  6. صفوی، «سورہ مریم»، ص۸۰۹.
  7. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ش، ج۱۴، ص۶۔
  8. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۳، ص۳۔
  9. خامہ‌گر، محمد، ساختار سورہ‌ہای قرآن کریم، تہیہ مؤسسہ فرہنگی قرآن و عترت نورالثقلین، قم، نشر نشرا، چ۱، ۱۳۹۲ش.
  10. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۶، ص۸۰۴؛ واحدی، اسباب نزول القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۳۰۸.
  11. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۶، ص۸۰۸؛ واحدی، اسباب نزول القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۳۰۹.
  12. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۶، ص۸۱۶؛ واحدی، اسباب نزول القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۳۱۰.
  13. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ۱۳۷۱ش، ج۱۳، ص۶-۷.
  14. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۳، ص۶-۷؛ بحرانی، البرہان فی تفسیر القرآن، ۱۳۸۹ش، ج۳، ص۶۹۷؛ قمی، تفسیر القمی، ۱۳۶۳ق، ج۲، ص۴۸.
  15. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ش، ج۱۴، ص۲۲.
  16. سیوطی، الدرالمنثور، ۱۴۰۴ق، ج۴، ص۲۵۸؛ ثعلبی، الکشف و البیان، ۱۴۲۲ق، ج۶، ص۲۰۵.
  17. مراجعہ کریں: کوفی، تفسیر فرات الکوفی، ۱۴۱۰، ص۲۴۸؛ حسکانی، شواہد التنزیل لقواعد التفضیل، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۴۶۴؛ جرجانی، درج الدرر فی تفسیر القرآن العظیم، ۱۴۳۰ق، ج۲، ص۲۸۳.
  18. قمی، تفسیر القمی، ۱۳۶۳ش، ج۲، ص۵۶؛ عیاشی، تفسیر عیاشی، ۱۳۸۰ق، ج۲، ص۱۴۲.
  19. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۳، ص۴.

مآخذ

  • قرآن کریم، ترجمہ محمد حسین نجفی (سرگودھا)۔
  • بحرانی، ہاشم بن سلیمان، البرہان فی تفسیر القرآن، قم، مؤسسہ البعثہ، قسم الدراسات الاسلامیہ، ۱۳۸۹ش۔
  • ثعلبى، احمد بن ابراہيم، الكشف و البيان عن تفسير القرآن، بیروت، دار احیا التراث العربی، ۱۴۲۲ق۔
  • جرجانی، عبدالقاہر بن عبدالرحمن، درج الدرر فی تفسیر القرآن العظیم، اردن، دارالفکر، ۱۴۳۰ق۔
  • حسکانی، عبیداللہ بن عبداللہ، شواہد التنزیل لقواعد التفضیل، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، ۱۴۱۱ق۔
  • خامہ‌گر، محمد، ساختار سورہ‌ہای قرآن کریم، تہیہ مؤسسہ فرہنگی قرآن و عترت نورالثقلین، قم، نشر نشرا، ۱۳۹۲ش۔
  • خرمشاہی، قوام الدین، «سورہ مریم»، در دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، انتشارات دوستان، تہران، ۱۳۷۷ش۔
  • سیوطی، عبدالرحمن بن ابی‌‌بکر، الدر المنثور فی التفسیر بالمأثور، قم، کتابخانہ عمومی آیت‌اللہ مرعشی نجفی، ۱۴۰۴ق۔
  • صفوی، سلمان، «سورہ مریم»، در دانشنامہ معاصر قرآن کریم، قم، انتشارات سلمان آزادہ، ۱۳۹۶ش۔
  • طباطبایی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، موسسہ الاعلمی للمطبوعات، ۱۳۹۰ق۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، مقدمہ محمدجواد بلاغی‏، تہران، ناصر خسرو، ۱۳۷۲ش۔
  • عیاشی، محمد بن مسعود، تفسیر العیاشی، تحقیق ہاشم رسولی محلاتی، تہران، المطبعہ العمیہ، ۱۳۸۰ق۔
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، قم، دارالکتاب، چاپ سوم، ۱۳۶۳ش۔
  • کوفی، فرات بن ابراہیم، تفسیر فرات الکوفی، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، ۱۴۱۰ق۔
  • معرفت، محمدہادی، آموزش علوم قرآنی، ترجمہ ابومحمد وکیلی، مرکز چاپ و نشر سازمان تبلیغات اسلامی، ۱۳۷۱ش۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، ۱۳۷۱ش۔
  • واحدی، علی بن احمد، اسباب نزول القرآن‏، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۱ق۔

بیرون روابط