سورہ فاطر

ویکی شیعہ سے
سباء سورۂ فاطر یس
ترتیب کتابت: 35
پارہ : 22
نزول
ترتیب نزول: 43
مکی/ مدنی: مکی
اعداد و شمار
آیات: 45
الفاظ: 780
حروف: 3228

سورہ فاطر یا ملائکہ قرٓن پاک کی پینتیسویں35ویں سورت ہے جو قرآن کے 22 ویں پارے میں واقع ہے نیز یہ مَکّی سورتوں میں سے ہے۔ حمد الہی سے شروع ہونے کی وجہ سے اس سورے کو حامدات میں سے قرار دیتے ہیں۔ سورہ فاطر میں معاد، قیامت کے حالات، کافروں کی ندامت و پشیمانی بیان ہوئی ہے نیز دنیا کے ظواہری فریب اور انسان کو شیطانی وسوسوں سے ڈراتی ہے۔ اس سورے میں انعام الہی شمار ہوئے، تلاوت قرآن، اقامۂ نماز اور انفاق کو ایک ایسی تجارت کہا گیا ہے جس میں کسی قسم کا نقصان نہیں ہے۔

اس سورے کی مشہور آیات میں سے پندرھویں ( 15ویں) آیت ہے جس میں خدا کی بے نیازی بیان ہوئی ہے اور لوگوں کو خدا کا نیازمند کہا گیا ہے۔ اٹھارھویں آیت عدل الہی اور قیامت کے روز اس کی شدید پکڑ کی بیان گر ہے۔اس سورے کی تلاوت کی فضیلت میں رسول اللہ سے روایت مروی ہے: جو اس سور کی تلاوت کرے گا قیامت کے روز جنت کے تین دروازے اسے اپنی جانب بلائیں گے وہ جس سے چاہے وارد بہشت ہو جائے۔


تعارف

  • وجہ تسمیہ

این سورہ کو فاطر اور ملائکہ کہتے ہیں کہ یہ دونوں نام سورے کی پہلی آیت سے لئے گئے ہیں۔[1] اس آیت میں «فاطر» خالق اور زمین آسمان کے پروردگار کے معنا میں ہے۔[2]

  • مقام اور ترتیب نزول

سورہ فاطر سورہ‌ہای مکی سورتوں میں سے ہے اور ترتیب نزول کے لحاظ سے تینتالیسواں (43واں) سورہ ہے کہ جو پیامبر(ص) پر نازل ہوا ہے۔ قرآن کی موجودہ ترتیب میں یہ سورت پینتیسویں نمبر پر ہے۔[3] و در جزء بیست‌ودوم جای دارد.

  • تعداد آیات و کلمات

فاطر کی پینتالیس (45) آیتیں، 780 کلمے اور 3228 کلمات ہیں۔ حامدات کہلانے والے سورتوں میں پانچواں اور آخری سورہ ہے کہ جو الحمدللہ یعنی خدا کی حمد دے شروع ہوتا ہے۔ حجم کے لحاظ سے سورہ فاطر مثانی سورے کا حصہ ہے اور قرآن کے حزب پر مشتمل ہے۔[4]

مضامین

سورہ فاطر کے مضامین[5]
 
 
 
 
انسانی زندگی کے مدبر خدا پر ایمان لانے کی ضرورت
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
تیسرا گفتار: آیہ ۳۶-۴۵
اللہ اور پیغمبر کی مخالفت پر مشرکوں کی ضد
 
دوسرا گفتار: آیہ ۱۸-۳۵
صرف متقی لوگ ہی اللہ اور پیغمبر پر ایمان لاتے ہیں
 
پہلا گفتار: آیہ ۱-۱۷
انسانی زندگی کی تدبیر صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
پہلا مطلب: آیہ ۳۶-۳۸
قرآنی تعلیمات کی مخالفت کی سزا
 
پہلا مطلب: آیہ ۱۸
پیغمبر کے انذار کا مؤمنوں پر اثر
 
پہلا مطلب: آیہ ۱-۳
انسانی زندگی کا مدبر خدا ہے
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
دوسرا مطلب: آیہ ۳۹
کافروں کا کفر ان کے ضرر میں ہے
 
دوسرا مطلب: آیہ ۱۹-۲۳
کافروں پر پیغمبر کی باتوں کا اثر نہ کرنا
 
دوسرا مطلب: آیہ ۴-۸
خدا کی ربوبیت کے انکار کی سزا
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
تیسرا مطلب: آیہ ۴۰-۴۱
اللہ کا شریک قرار دینے میں مشرکوں کی لجاجت
 
تیسرا مطلب: آیہ ۲۴-۲۶
کافروں کا دائمی طریقہ پیغمبروں کو جھٹلانا
 
تیسرا مطلب: آیہ ۹-۱۷
اللہ کا انسانی زندگی کی تدبیر کے جلوے
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
چوتھا مطلب: آیہ ۴۲-۴۳
پیغمبر پر ایمان لانے میں مشرکوں کا تکبر
 
چوتھا مطلب: آیہ ۲۷-۲۸
صرف اہل علم ہی اللہ کی آیات پر ایمان لاتے ہیں
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
پانچواں مطلب: آیہ ۴۴-۴۵
مشرکوں کا اپنے آبا و اجداد کی عاقبت سے عبرت نہ لینا
 
پانچواں مطلب: آیہ ۲۹-۳۰
اللہ کی کتاب کی پیروی کرنے کا اجر
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
چھٹا مطلب: آیہ ۳۱-۳۲
برگزیدہ بندوں کا قرآنی حقایق سے فائدہ اٹھانا
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
ساتواں مطلب: آیہ ۳۳-۳۵
برگزیدہ بندوں کا اجر

سورہ فاطر دنیا کے ظاہری فریب، فتنوں اور شیطانی وسوسوں سے ڈراتی ہے، انسان کو فقیر اور خدا کو بے نیاز کہتی ہے۔ انسان نعمتوں کے ولی کو پہچنوانے اور اس کی شکر گزاری کرنے کی خاطر خدا کی بعض نعمتیں بیان ہوئی ہیں،[6] مثلا بارش کی نعمت، انتخاب زوج کا اختیار اور میٹھے اور کھارے پانی کے ذخیرے کہ جن سے لوگ فائدے حاصل کرت ہیں۔

اس سورے میں معاد اور قیامت کے بعض احوال، کافروں کی پشیمنای اور ندامت، کفار کے دنیا میں واپس لوٹ کر اپنے گذشتہ کے تلافی کرنے کی جانب اشارہ ہوا ہے۔[7] اسی طرح اس سورہ کی آیات میں مشرکوں، جھوٹے خداؤں اور ان کی ناتوانی کا تذکرہ ہوا ہے۔ تلاوت قرآن، اقامۂ نماز اور ظاہری اور مخفی انفاقِ کو ضرر کے بغیر تجارت کہا گیا ہے۔

تفسیر

لوگوں کی ہدایت کیلئے رسول اللہ کی کوشش

سورے کی آٹھویں آیت میں خدا رسول اللہ سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے: پس ان (بدبختوں) کے بارے میں افسوس کرتے کرتے آپ کی جان نہ چلی جائے۔ مفسرین اس آیت کے مفہوم کو سورہ شعراء کی تیسری آیت کی مانند سمجھتے ہیں[8] کہ جس میں خدا فرماتا ہے: شاید آپ (اس غم میں) جان دے دیں گے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔[9] قرآن میں اس تعبیر سے ظاہر ہوتا ہے کہ پیامبر اسلام(ص) کس قدر لوگوں کی نسبت شفیق اور دلسوز تھے نیز وہ اپنے رسالتی امور کی انجام دہی میں کس قدر سنجیدگی کے ساتھ پابند تھے۔[10]


ہدایت اور گمراہی

آٹھویں آیت میں آیا ہے:بے شک اللہ جسے چاہتا ہے گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔اس آیت کے ظاہری معنا کی بنا پر انسان کی اختیار کی نفی ہوتی ہے لیکن امام ہادی کے اہواز کے لوگوں کے نام خط کہ جسے طبرسی نے کتاب الاحتجاج میں نقل کیا ہے، کو دیکھتے ہوئے اس آیت کے معنا کو دو طرح سے بیان کر سکتے ہیں:

  1. خدا اگر ہر کسی کو ہدایت یا گمراہ کرے تو اس صورت میں جزا و سزا کا کوئی معنا نہیں ہو گا جبکہ انسان کے اعمال کی جزا و سزا ہے۔
  2. خدا اپنے بندوں کی راہ ہدایت کی طرف رہنمائی کرتا ہے مثلا سورہ فصلت کی سترھویں آیت؛[11] اس حالت میں بھی ان میں سے کسی کا اختیار کرنا انسان کے ارادہ و اختیار میں ہے۔[12]

بعض مفسرین نے ہدایت و ضلالت (گمراہی) کے دو مرحلے بیان کئے ہیں:

پہلا مرحلہ: اس مرحلے میں خدا انسان کو مجبور نہیں کرتا ہے اور انسان اختیار رکھتا ہے

دوسرا مرحلہ: گمراہی اختیار کرنے کی صورت میں اس گمراہی پر مرتب ہونے والے آثار اور عقوبتیں اس مرحلے میں شامل ہیں۔ یہ آثار اور عقوبتیں فرمان خدا کے تابع ہیں۔ حقیقت میں یہ مسیر حق سے انسان کی نافر- مانی کا عکس العمل ہے۔ پس جن آیات میں گمراہی کے اختیار خدا میں ہونے کا کہا گیا ہے وہ یہ دوسری گمراہی ہے۔ اسی طرح ہدایت کے بھی دو مرحلے ہیں۔[13]

قبولیف اعمال کا معیار

«إِلَیہِ یصْعَدُ الْکلِمُ الطَّیبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یرْ‌فَعُہُ: اچھے اور پاکیزہ کلام اس کی طرف بلند ہوتے ہیں اور نیک عمل انہیں بلند کرتا ہے (یا اللہ نیک عمل کو بلند کرتا ہے)[14] اس آیت کی تفسیر میں آنے والی روایات میں آیا ہے : «الکلم الطیب:یعنی اچھی گفتار سے توحید، نبوت اور ولایت امیر المومین اور دیگر آئمہ کی گواہی مراد ہے اور «والعمل الصالح» سے مراد ان پر قلبی ایمان رکھنا ہے[15] شیخ کلینی کتاب کافی میں لکھتے ہیں: امام صادق(ع) نے اس آیت کے بارے میں فرمایا: اہنے ہاتھ سے اپنے سینے ک طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس سے ہم اہل بیت کی ولایت مراد ہے۔ پس جس کسی کے سینے میں ہماری ولای نہیں ہے اس کا کوئی عمل خدا اوپر نہیں لے جائے گا یعنی اسے قبول نہیں کرے گا۔[16]

مُردوں سے توسل کی ممنوعیت پر وہابی استدلال

اسی سورت کی 22ویں آیت میں آیا ہے: اور نہ ہی زندے (مؤمنین) اور مردے (کافرین) برابر ہیں۔ بے شک اللہ جسے چاہتا ہے سنوارتا ہے (اے رسول) جو (کفار مردوں کی طرح) قبروں میں دفن ہیں آپ انہیں نہیں سنا سکتے۔

وہابی اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں: مرحومین سے توسل کرنا چاہے وہ ارواح انبیا اور اولیائے الہی ہی ہوں، باطل ہے۔کیونکہ اس آیت کے مطابق مردے آوازیں نہیں سنتے ہیں اور نہ ہی وہ زندہ انسانوں کی ضرورتوں کو برطرف کر سکتے ہیں۔[17] اس کے مقابلے میں شیعہ علما اور اہل سنت کے بہت سے علما اور صوفی معتقد ہیں کہ اس اس دنیا میں فوت ہونے والے افراد عالم برزخ میں برزخی زندگی رکھتے ہیں۔ قرآن میں اس سے متعلق بہت سی آیات موجود ہیں۔[18] وہ معتقد ہیں کہ (آیت 22 فاطر) میں کفار‌ کو قبروں میں موجود اجساد سے تشبیہ دی گئی ہے کہ جس طرح مردوں کیلئے (اب) ہدایت کوئی فائدہ نہیں رکھتی اور ان کیلئے ہدایت قبول کرنا ممکن نہیں (اسی طرح) گفتار پیامبر(ص) کفار کیلئے کوئی نفع نہیں رکھتی ہے۔[19]

مشہور آیات

  • یا أَیہَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَراءُ إِلَی اللَّہِ وَ اللَّہُ ہُوَ الْغَنِی الْحَمِید ( ۱۵)

ترجمہ:‌اے لوگو! تم (سب) اللہ کے محتاج ہو اور اللہ ہی بے نیاز ہے جو قابلِ تعریف ہے۔

یہ آیت خاص طور پر عُرَفا[20] اور فلاسفہ کے ہاں مورد توجہ رہی ہے اور بعض فلاسفہ اسے معروف برہان: فقر و امکان یا امکان و وجوب کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں کہ جس میں واجب الوجود کو ثابت کیا گیا ہے۔[21]

اس آیت کی توضیح میں آیا ہے کہ اس تمام جہان ہستی میں حقیقی بے نیاز اور قائم بالذات صرف ذات خدا ہے بلکہ تمام موجودات مکمل طور پر محتاج ہیں اور وہ تمام انسان بلکہ تمام موجودات اپنے وجود میں مکمل طور پر محتاج اور نیازمند ہیں اور وہ سب اُس مستقل وجود سے اس طرح وابستہ ہیں کہ اگر ایک لحظے کیلئے بھی ان کا رابطہ اس سے قطع ہو جائے تو وہ نہیں ہیں۔[22]

  • وَ لا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْری( ۱۸)

ترجمہ:اور کوئی بوجھ اٹھانے والا (گنہگار) کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا

یہ آیت عدل الہی کا پیغام دیتی ہے اور آگے چل کر قیامت کے روز سخت حساب کتاب کو بیان کرتی ہے کہ اس دن کوئی کسی دوسرے کا بوجھ اپنے کندھوں پر نہیں اٹھائے گا ہر چند وہ جس قدر بھی اس سے محبت رکھتا ہو۔[23]

  • إِنَّما یخْشَی اللَّہَ مِنْ عِبادِہِ الْعُلَماء( ۲۸)

ترجمہ: اور اللہ کے بندوں میں سے صرف علماء ہی اس سے ڈرتے ہیں بے

تعظیم کے ساتھ کسی سے ڈرنا خشیت ہے۔[24] اس آیت کی تفسیر میں امام سجاد سے منقول ہے: «علم اور عمل باہمی دو صمیمی دوست ہیں، جو خدا کی معرفت رکھتا ہے وہی اس سے ڈرتا ہے اور یہ ڈر اور خوف اسے خدا کی اطاعت اور فرمانبرداری کی ترغیب دیتا ہے۔ صاحبان علم اور انکے پیروکار وہ لوگ ہیں کہ جو اچھی طرح سے خدا کی معرفت رکھتے ہیں اور اسی کیلئے اعمال انجام دیتے ہیں اور وہ خدا سے عشق کرتے ہیں جیسا کہ ارشاد خدا ہے: إِنَّما یخْشَی اللَّہَ مِنْ عِبادِہِ الْعُلَماءُ».[25] اسی طرح تفسیری اور روائی کتب میں آیا ہے کہ اس آیت میں العلما سے امیر المومنین مراد ہیں۔[26]

فضیلت اور خواص

تفسیر مجمع البیان میں پیامبر(ص) سے مروی روایت کی بنا پر سورہ فاطر کی تلاوت کرنے والے کو قیامت کے دن بہشت کے تین دروازے اپنی جانب بلائیں گے یہاں تک کہ وہ جس دروازے سے وہ چاہے گا بہشت میں داخل ہو جائے گا۔[27] تفسیر نورالثقلین میں نیز امام صادق سے منقول ہے: جو کوئی رات کو اس کی تلاوت کرے گا خدا اس کی محافظت کرے گا اور جو کوئی اسے دن کو تلاوت کرے گا اسے کسی قسم کی کوئی ناراحتی نہیں پہنچے گی، اور خدا اسے دنیا و آخرت میں ایسی خیر سے ہمکنار کرے گا کہ اس نے ایسا سوچا بھی نہیں ہو گا اور نہ اس کی آرزو کی ہوگی۔[28]

متن اور ترجمہ

سورہ فاطر
ترجمہ
بِسْمِ اللَّـہِ الرَّ‌حْمَـٰنِ الرَّ‌حِيمِ

الْحَمْدُ لِلَّہِ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ جَاعِلِ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا أُولِي أَجْنِحَةٍ مَّثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ يَزِيدُ فِي الْخَلْقِ مَا يَشَاء إِنَّ اللَّہَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴿1﴾ مَا يَفْتَحِ اللَّہُ لِلنَّاسِ مِن رَّحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَہَا وَمَا يُمْسِكْ فَلَا مُرْسِلَ لَہُ مِن بَعْدِہِ وَہُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿2﴾ يَا أَيُّہَا النَّاسُ اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّہِ عَلَيْكُمْ ہَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللَّہِ يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاء وَالْأَرْضِ لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ ﴿3﴾ وَإِن يُكَذِّبُوكَ فَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّن قَبْلِكَ وَإِلَى اللَّہِ تُرْجَعُ الأمُورُ ﴿4﴾ يَا أَيُّہَا النَّاسُ إِنَّ وَعْدَ اللَّہِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَلَا يَغُرَّنَّكُم بِاللَّہِ الْغَرُورُ ﴿5﴾ إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوہُ عَدُوًّا إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَہُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِيرِ ﴿6﴾ الَّذِينَ كَفَرُوا لَہُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَہُم مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ كَبِيرٌ ﴿7﴾ أَفَمَن زُيِّنَ لَہُ سُوءُ عَمَلِہِ فَرَآہُ حَسَنًا فَإِنَّ اللَّہَ يُضِلُّ مَن يَشَاء وَيَہْدِي مَن يَشَاء فَلَا تَذْہَبْ نَفْسُكَ عَلَيْہِمْ حَسَرَاتٍ إِنَّ اللَّہَ عَلِيمٌ بِمَا يَصْنَعُونَ ﴿8﴾ وَاللَّہُ الَّذِي أَرْسَلَ الرِّيَاحَ فَتُثِيرُ سَحَابًا فَسُقْنَاہُ إِلَى بَلَدٍ مَّيِّتٍ فَأَحْيَيْنَا بِہِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا كَذَلِكَ النُّشُورُ ﴿9﴾ مَن كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّہِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا إِلَيْہِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُہُ وَالَّذِينَ يَمْكُرُونَ السَّيِّئَاتِ لَہُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَكْرُ أُوْلَئِكَ ہُوَ يَبُورُ ﴿10﴾ وَاللَّہُ خَلَقَكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ جَعَلَكُمْ أَزْوَاجًا وَمَا تَحْمِلُ مِنْ أُنثَى وَلَا تَضَعُ إِلَّا بِعِلْمِہِ وَمَا يُعَمَّرُ مِن مُّعَمَّرٍ وَلَا يُنقَصُ مِنْ عُمُرِہِ إِلَّا فِي كِتَابٍ إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللَّہِ يَسِيرٌ ﴿11﴾ وَمَا يَسْتَوِي الْبَحْرَانِ ہَذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ سَائِغٌ شَرَابُہُ وَہَذَا مِلْحٌ أُجَاجٌ وَمِن كُلٍّ تَأْكُلُونَ لَحْمًا طَرِيًّا وَتَسْتَخْرِجُونَ حِلْيَةً تَلْبَسُونَہَا وَتَرَى الْفُلْكَ فِيہِ مَوَاخِرَ لِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِہِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ﴿12﴾ يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّہَارِ وَيُولِجُ النَّہَارَ فِي اللَّيْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُّسَمًّى ذَلِكُمُ اللَّہُ رَبُّكُمْ لَہُ الْمُلْكُ وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِہِ مَا يَمْلِكُونَ مِن قِطْمِيرٍ ﴿13﴾ إِن تَدْعُوہُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ ﴿14﴾ يَا أَيُّہَا النَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَاء إِلَى اللَّہِ وَاللَّہُ ہُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ ﴿15﴾ إِن يَشَأْ يُذْہِبْكُمْ وَيَأْتِ بِخَلْقٍ جَدِيدٍ ﴿16﴾ وَمَا ذَلِكَ عَلَى اللَّہِ بِعَزِيزٍ ﴿17﴾ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى وَإِن تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلَى حِمْلِہَا لَا يُحْمَلْ مِنْہُ شَيْءٌ وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَى إِنَّمَا تُنذِرُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّہُم بِالغَيْبِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَمَن تَزَكَّى فَإِنَّمَا يَتَزَكَّى لِنَفْسِہِ وَإِلَى اللَّہِ الْمَصِيرُ ﴿18﴾ وَمَا يَسْتَوِي الْأَعْمَى وَالْبَصِيرُ ﴿19﴾ وَلَا الظُّلُمَاتُ وَلَا النُّورُ ﴿20﴾ وَلَا الظِّلُّ وَلَا الْحَرُورُ ﴿21﴾ وَمَا يَسْتَوِي الْأَحْيَاء وَلَا الْأَمْوَاتُ إِنَّ اللَّہَ يُسْمِعُ مَن يَشَاء وَمَا أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِي الْقُبُورِ ﴿22﴾ إِنْ أَنتَ إِلَّا نَذِيرٌ ﴿23﴾ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَإِن مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خلَا فِيہَا نَذِيرٌ ﴿24﴾ وَإِن يُكَذِّبُوكَ فَقَدْ كَذَّبَ الَّذِينَ مِن قَبْلِہِمْ جَاءتْہُمْ رُسُلُہُم بِالْبَيِّنَاتِ وَبِالزُّبُرِ وَبِالْكِتَابِ الْمُنِيرِ ﴿25﴾ ثُمَّ أَخَذْتُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَكَيْفَ كَانَ نَكِيرِ ﴿26﴾ أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّہَ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاء مَاء فَأَخْرَجْنَا بِہِ ثَمَرَاتٍ مُّخْتَلِفًا أَلْوَانُہَا وَمِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌ بِيضٌ وَحُمْرٌ مُّخْتَلِفٌ أَلْوَانُہَا وَغَرَابِيبُ سُودٌ ﴿27﴾ وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَابِّ وَالْأَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُہُ كَذَلِكَ إِنَّمَا يَخْشَى اللَّہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَاء إِنَّ اللَّہَ عَزِيزٌ غَفُورٌ ﴿28﴾ إِنَّ الَّذِينَ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّہِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاہُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً يَرْجُونَ تِجَارَةً لَّن تَبُورَ ﴿29﴾ لِيُوَفِّيَہُمْ أُجُورَہُمْ وَيَزِيدَہُم مِّن فَضْلِہِ إِنَّہُ غَفُورٌ شَكُورٌ ﴿30﴾ وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ ہُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْہِ إِنَّ اللَّہَ بِعِبَادِہِ لَخَبِيرٌ بَصِيرٌ ﴿31﴾ ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا فَمِنْہُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِہِ وَمِنْہُم مُّقْتَصِدٌ وَمِنْہُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ بِإِذْنِ اللَّہِ ذَلِكَ ہُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيرُ ﴿32﴾ جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَہَا يُحَلَّوْنَ فِيہَا مِنْ أَسَاوِرَ مِن ذَہَبٍ وَلُؤْلُؤًا وَلِبَاسُہُمْ فِيہَا حَرِيرٌ ﴿33﴾ وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِي أَذْہَبَ عَنَّا الْحَزَنَ إِنَّ رَبَّنَا لَغَفُورٌ شَكُورٌ ﴿34﴾ الَّذِي أَحَلَّنَا دَارَ الْمُقَامَةِ مِن فَضْلِہِ لَا يَمَسُّنَا فِيہَا نَصَبٌ وَلَا يَمَسُّنَا فِيہَا لُغُوبٌ ﴿35﴾ وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَہُمْ نَارُ جَہَنَّمَ لَا يُقْضَى عَلَيْہِمْ فَيَمُوتُوا وَلَا يُخَفَّفُ عَنْہُم مِّنْ عَذَابِہَا كَذَلِكَ نَجْزِي كُلَّ كَفُورٍ ﴿36﴾ وَہُمْ يَصْطَرِخُونَ فِيہَا رَبَّنَا أَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَيْرَ الَّذِي كُنَّا نَعْمَلُ أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم مَّا يَتَذَكَّرُ فِيہِ مَن تَذَكَّرَ وَجَاءكُمُ النَّذِيرُ فَذُوقُوا فَمَا لِلظَّالِمِينَ مِن نَّصِيرٍ ﴿37﴾ إِنَّ اللَّہَ عَالِمُ غَيْبِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِنَّہُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ ﴿38﴾ ہُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلَائِفَ فِي الْأَرْضِ فَمَن كَفَرَ فَعَلَيْہِ كُفْرُہُ وَلَا يَزِيدُ الْكَافِرِينَ كُفْرُہُمْ عِندَ رَبِّہِمْ إِلَّا مَقْتًا وَلَا يَزِيدُ الْكَافِرِينَ كُفْرُہُمْ إِلَّا خَسَارًا ﴿39﴾ قُلْ أَرَأَيْتُمْ شُرَكَاءكُمُ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّہِ أَرُونِي مَاذَا خَلَقُوا مِنَ الْأَرْضِ أَمْ لَہُمْ شِرْكٌ فِي السَّمَاوَاتِ أَمْ آتَيْنَاہُمْ كِتَابًا فَہُمْ عَلَى بَيِّنَةٍ مِّنْہُ بَلْ إِن يَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُہُم بَعْضًا إِلَّا غُرُورًا ﴿40﴾ إِنَّ اللَّہَ يُمْسِكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ أَن تَزُولَا وَلَئِن زَالَتَا إِنْ أَمْسَكَہُمَا مِنْ أَحَدٍ مِّن بَعْدِہِ إِنَّہُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا ﴿41﴾ وَأَقْسَمُوا بِاللَّہِ جَہْدَ أَيْمَانِہِمْ لَئِن جَاءہُمْ نَذِيرٌ لَّيَكُونُنَّ أَہْدَى مِنْ إِحْدَى الْأُمَمِ فَلَمَّا جَاءہُمْ نَذِيرٌ مَّا زَادَہُمْ إِلَّا نُفُورًا ﴿42﴾ اسْتِكْبَارًا فِي الْأَرْضِ وَمَكْرَ السَّيِّئِ وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَہْلِہِ فَہَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا سُنَّتَ الْأَوَّلِينَ فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّہِ تَبْدِيلًا وَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّہِ تَحْوِيلًا ﴿43﴾ أَوَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِن قَبْلِہِمْ وَكَانُوا أَشَدَّ مِنْہُمْ قُوَّةً وَمَا كَانَ اللَّہُ لِيُعْجِزَہُ مِن شَيْءٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ إِنَّہُ كَانَ عَلِيمًا قَدِيرًا ﴿44﴾ وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللَّہُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوا مَا تَرَكَ عَلَى ظَہْرِہَا مِن دَابَّةٍ وَلَكِن يُؤَخِّرُہُمْ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى فَإِذَا جَاء أَجَلُہُمْ فَإِنَّ اللَّہَ كَانَ بِعِبَادِہِ بَصِيرًا ﴿45﴾

(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

سب تعریفیں اللہ ہی کیلئے ہیں جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے (اور) فرشتوں کو پیغام رساں بنانے والا ہے جن کے دو دو، تین تین اور چار چار پر اور بازو ہیں۔ وہ (اپنی مخلوق کی) خلقت میں جب چاہتا ہے اضافہ کرتا ہے۔ بیشک اللہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ (1) اور اللہ لوگوں کیلئے (اپنی) رحمت (کا جو دروازہ) کھول دے اسے کوئی روکنے والا نہیں ہے اور جسے وہ بند کر دے اسے اس (اللہ) کے بعد کوئی کھولنے والا نہیں ہے وہ زبردست (اور) بڑا حکمت والا ہے۔ (2) اے لوگو! اللہ کے وہ احسانات یاد کرو جو اس نے تم پر کئے ہیں کیا اللہ کے سوا کوئی اور ہے جو تمہیں آسمان اور زمین سے روزی دیتا ہو؟ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے تم کہاں الٹے چلے جا رہے ہو؟ (3)(اے رسول(ص)!) اور اگر یہ لوگ آپ(ص) کو جھٹلاتے ہیں تو آپ(ص) سے پہلے بھی بہت سے پیغمبر جھٹلائے گئے اور تمام معاملات کی بازگشت خدا ہی کی طرف ہے۔ (4) اے لوگو! اللہ کا وعدہ یقیناً سچا ہے (خیال رکھنا) زندگانیٔ دنیا کہیں تمہیں دھوکے میں نہ ڈال دے اور نہ ہی بڑا دھوکہ باز (شیطان) تمہیں اللہ کے بارے میں دھوکہ دے۔ (5) بے شک شیطان تمہارا دشمن ہے۔ لہٰذا تم بھی اسے (اپنا) دشمن ہی سمجھو، وہ اپنے گروہ کو اس لئے بلاتا ہے کہ وہ دوزخیوں میں سے ہو جائیں۔ (6) جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان کیلئے سخت عذاب ہے اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے ان کیلئے مغفرت اور بڑا اجر ہے۔ (7) بھلا وہ شخص جس کا برا عمل (اس کی نگاہ میں) خوشنما بنا دیا گیا ہو اور وہ اسے اچھا سمجھنے لگے (کیا وہ ایک مؤمنِ صالح کی مانند ہو سکتا ہے؟ یا کیا اس کی اصلاح کی کوئی امید ہو سکتی ہے؟) بے شک اللہ جسے چاہتا ہے گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ پس ان (بدبختوں) کے بارے میں افسوس کرتے کرتے آپ کی جان نہ چلی جائے۔ جو کچھ یہ لوگ کر رہے ہیں یقیناً اللہ اسے خوب جانتا ہے۔ (8) اور اللہ ہی وہ (قادر) ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے تو وہ بادل کو حرکت میں لاتی (اٹھاتی) ہیں پھر ہم اسے ایک مردہ (اجاڑ) شہر کی طرف لے جاتے ہیں پھر ہم اس کے ذریعہ سے زمین کو اس کے مردہ (اجاڑ) ہونے کے بعد زندہ (سرسبز) کر دیتے ہیں اسی طرح (قیامت کے دن لوگوں کا) جی اٹھنا ہوگا۔ (9) جو کوئی عزت کا طلبگار ہے (تو وہ سمجھ لے) کہ ساری عزت اللہ ہی کیلئے ہے (لہٰذا وہ خدا سے طلب کرے) اچھے اور پاکیزہ کلام اس کی طرف بلند ہوتے ہیں اور نیک عمل انہیں بلند کرتا ہے (یا اللہ نیک عمل کو بلند کرتا ہے) اور جو لوگ (آپ کے خلاف) برائیوں کے منصوبے بناتے ہیں (بری تدبیریں کرتے ہیں) ان کیلئے سخت عذاب ہے (اور ان کا مکر و فریب آخرکار) نیست و نابود ہو جائے گا۔ (10) اور اللہ ہی نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا ہے پھر نطفے سے پھر تمہیں جوڑا جوڑا (نر و مادہ) بنا دیا اور کوئی عورت حاملہ نہیں ہوتی اور بچہ نہیں جنتی مگر اس (اللہ) کے علم سے اور نہ کسی شخص کی عمر میں زیادتی ہوتی ہے اور نہ کمی ہوتی ہے مگر یہ کہ وہ ایک کتاب (لوحِ محفوظ) میں موجود ہے اور یقیناً یہ بات اللہ کیلئے آسان ہے۔ (11) اور پانی کے دونوں (ذخیرے) برابر نہیں ہیں یہ ایک میٹھا پیاس بجھانے والا ہے (اور) پینے میں خوشگوار اور دوسرا سخت کھاری اور کڑوا ہے اور تم ہر ایک سے تازہ گوشت کھاتے ہو اور زیور برآمد کرکے پہنتے ہو اور تم اس کی کشتیوں کو دیکھتے ہو کہ وہ پانی کو چیرتی پھاڑتی چلی جاتی ہیں تاکہ تم اللہ کا فضل (رزق) تلاش کرو اور تاکہ شکر گزار بنو۔ (12) وہ رات کو دن کے اندر داخل کرتا ہے اور اسی نے سورج اور چاند کو مسخر کر رکھا ہے (ان میں سے) ہر ایک (اپنی) مقررہ میعاد تک رواں دواں ہے یہ ہے اللہ تمہارا پروردگار! اسی کی حکومت ہے اور اسے چھوڑ کر جنہیں تم پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے بھی مالک نہیں ہیں۔ (13) اگر تم انہیں پکارو تو وہ تمہاری پکار کو سن نہیں سکتے۔ اور اگر (بالفرض) سنیں بھی تو وہ تمہاری التجا کو قبول نہیں کر سکتے اور قیامت کے دن تمہارے اس شرک کا انکار کریں گے (اس سے بیزاری کا اعلان کریں گے) اور خدائے خبیر کی طرح تمہیں اور کوئی خبر نہیں دے سکتا۔ (14) اے لوگو! تم (سب) اللہ کے محتاج ہو اور اللہ ہی بے نیاز ہے جو قابلِ تعریف ہے۔ (15) وہ اگر چاہے تو تم سب کو (عدم آباد کی طرف) لے جائے اور (تمہاری جگہ) کوئی نئی مخلوق لے آئے۔ (16) اور ایسا کرنا اللہ کیلئے کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ (17) اور کوئی بوجھ اٹھانے والا (گنہگار) کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور اگر کوئی بھاری بوجھ والا اس کے اٹھانے کیلئے (کسی کو) بلائے گا تو اس میں سے کچھ بھی نہ اٹھایا جائے گا اگرچہ وہ رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو؟ (اے رسول(ص)!) آپ صرف انہی لوگوں کو ڈرا سکتے ہیں جو بے دیکھے اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں اور جو (باقاعدہ) نماز پڑھتے ہیں اور جو (گناہوں سے) پاکیزگی اختیار کرتا ہے تو وہ اپنے ہی فائدہ کیلئے پاکباز رہتا ہے (آخرکار) اللہ ہی کی طرف (سب کی) بازگشت ہے۔ (18) اور اندھا اور آنکھوں والا برابر نہیں ہیں۔ (19) اور نہ اندھیرا (کفر) اور اجالا (ایمان) برابر ہیں۔ (20) اور نہ ہی (ٹھنڈا) سایہ (بہشت) اور تیز دھوپ (جہنم) برابر ہیں۔ (21) اور نہ ہی زندے (مؤمنین) اور مردے (کافرین) برابر ہیں۔ بے شک اللہ جسے چاہتا ہے سنوارتا ہے (اے رسول) جو (کفار مردوں کی طرح) قبروں میں دفن ہیں آپ انہیں نہیں سنا سکتے۔ (22) آپ تو صرف ڈرانے والے ہیں۔ (23) بیشک ہم نے آپ کو حق کے ساتھ بشیر و نذیر (بشارت دینے والا اور ڈرانے والا) بنا کر بھیجا ہے اور کوئی امت ایسی نہیں (گزری) جس میں کوئی ڈرانے والا نہ گزرا ہو۔ (24) اور اگر یہ لوگ آپ کو جھٹلاتے ہیں (تو یہ کوئی نئی بات نہیں) ان سے پہلے والے لوگ بھی جھٹلا چکے ہیں ان کے رسول(ع) ان کے پاس کھلے ہوئے نشان (معجزے) اور (آسمانی) صحیفے اور روشن (واضح ہدایت دینے والی) کتابیں لے کر آئے تھے۔ (25) پھر میں نے کافروں کو پکڑ لیا (دیکھو) میری سزا کیسی سخت تھی؟ (26) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا اور پھر ہم نے اس کے ذریعہ سے مختلف رنگوں کے پھل نکالے اور (اسی طرح) پہاڑوں میں بھی مختلف رنگوں کی گھاٹیاں ہیں کوئی سفید اور کوئی سرخ اور بعض حصے گہرے سیاہ۔ (27) اور انسانوں، چلنے پھرنے والے جانوروں اور چوپایوں میں بھی اسی طرح مختلف رنگ پائے جاتے ہیں اور اللہ کے بندوں میں سے صرف علماء ہی اس سے ڈرتے ہیں بے شک اللہ غالب ہے (اور) بڑا بخشنے والا ہے۔ (28) بے شک جو لوگ (کماحقہٗ) کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیں اور باقاعدہ نماز پڑھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے اس سے پوشیدہ اور اعلانیہ طور پر خرچ کرتے ہیں وہ ایک ایسی تجارت کے امیدوار ہیں جس میں تباہی (خسارہ) نہیں۔ (29) تاکہ وہ (اللہ) انہیں پورا پورا اجر عطا فرمائے اور اپنے فضل و کرم سے اور زیادہ دے۔ بیشک وہ بڑا بخشنے والا، بڑا قدر دان ہے۔ (30) اور جو کتاب ہم نے بذریعۂ وحی آپ(ص) کی طرف بھیجی ہے وہ برحق ہے اور اپنے سے پہلے والی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے بیشک اللہ اپنے بندوں (کے حالات) سے باخبر (اور) بڑا دیکھنے والا نگران ہے۔ (31) پھر ہم نے اس کا وارث ان کو بنایا جن کو ہم نے اپنے بندوں میں سے منتخب کر لیا ہے پس ان بندوں سے بعض تو اپنے نفس پر ظلم کرنے والے ہیں اور بعض معتدل ہیں اور بعض اللہ کے اذن (اور اس کی توفیق) سے نیکیوں میں سبقت لے جانے والے ہیں یہی تو بہت بڑا فضل ہے۔ (32) (ان کا صلہ) سدا بہار بہشت ہیں جن میں وہ داخل ہوں گے وہاں ان کو سونے کے کنگن اور موتی پہنائے جائیں گے اور وہاں ان کا لباس ریشمی ہوگا۔ (33) اور وہ (بطور شکرانۂ نعمت کہیں گے سب تعریف اللہ) کیلئے ہے (اور اس کا شکر ہے) جس نے ہم سے رنج و غم دور کر دیا ہے بیشک ہمارا پروردگار بڑا بخشنے والا، بڑا قدر دان ہے۔ (34) جس نے ہمیں اپنے فضل و کرم سے ایسی دائمی قیامت کی جگہ پر اتارا ہے جہاں نہ کوئی زحمت ہوتی ہے اور نہ ہی تھکن محسوس ہوتی ہے۔ (35) اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان کیلئے دوزخ کی آگ ہے (وہاں) نہ ان کی موت کا فیصلہ کیا جائے گا کہ وہ مر جائیں اور نہ ہی ان کیلئے عذابِ جہنم میں کوئی کمی کی جائے گی ہم اسی طرح ہر ناشکرے کو سزا دیتے ہیں۔ (36) اور وہ (دوزخی) اس میں چیخیں چلائیں گے اے ہمارے پروردگار! ہمیں یہاں سے نکال (اور دارِ دنیا میں بھیج) تاکہ ہم نیک عمل کریں ایسے نہیں جیسے پہلے کرتے تھے (ارشادِ قدرت ہوگا) کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی جس میں نصیحت قبول کرنے والا نصیحت قبول کر سکتا تھا؟ اور (علاوہ بریں) تمہارے پاس ڈرانے والا بھی آیا تھا اب (اپنے کئے کا) مزہ چکھو (آج) ظالموں کا کوئی یار و مددگار نہیں ہے۔ (37) بیشک اللہ آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ چیزوں کا جاننے والا ہے۔ یقیناً وہ دلوں کے رازوں سے خوب واقف ہے۔ (38) وہ وہی ہے جس نے تمہیں (گزشتہ لوگوں کا) جانشین بنایا سو جو کوئی کفر کرے گا۔ تو اس کے کفر (کا وبال) اسی پر پڑے گا اور کافروں کا کفران کے پروردگار کے ہاں سوائے قہر و غضبِ الٰہی کے اور کسی چیز میں اضافہ نہیں کرتا اور کافروں کا کفر صرف ان کے خسارے اور گھاٹے میں اضافہ کرتا ہے۔ (39) آپ(ص) کہہ دیجئے! (اے مشرکو) کیا تم نے کبھی اپنے (خودساختہ) شریکوں کو دیکھا بھی ہے جنہیں تم اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہو مجھے دکھاؤ انہوں نے زمین میں کیا پیدا کیا ہے؟ یا ان کی آسمانوں میں شرکت ہے یا ہم نے انہیں کوئی کتاب دی ہے کہ وہ اس کی بناء پر (اپنے شرک کے جواز کی) کوئی سند رکھتے ہوں؟ (کچھ بھی نہیں) بلکہ (یہ) ظالم لوگ ایک دوسرے سے محض پُر فریب وعدے کرتے ہیں۔ (40) بے شک اللہ (اپنی قدرتِ کاملہ) سے آسمانوں اور زمین کو تھامے ہوئے ہے کہ وہ اپنی جگہ سے ہٹ نہ جائیں اور اگر وہ (بالفرض) ہٹ جائیں تو اس کے سوا انہیں کون تھام سکتا ہے؟ بے شک وہ (اللہ) بڑا بردبار (اور) بڑا بخشنے والا ہے۔ (41) اور یہ لوگ (کفارِ مکہ) بڑی سخت قَسمیں کھا کر کہتے تھے کہ اگر ان کے پاس کوئی ڈرانے والا (پیغمبر) آیا تو وہ ہر ایک قوم سے بڑھ کر ہدایت قبول کرنے والے ہوں گے لیکن جب ان کے پاس ڈرانے والا آگیا تو اس (کی آمد) نے ان کی نفرت۔ (42) زمین میں سرکشی کرنے اور بری سازشیں کرنے میں اضافہ ہی کیا حالانکہ بری سازشیں تو اس کو گھیرتی ہیں جو بری سازش کرتا ہے سو کیا اب یہ لوگ پہلے والے لوگوں کے ساتھ خدا کے طریقۂ کار کا انتظار کر رہے ہیں (کہ ان کے ساتھ بھی وہی ہو) تم خدا کے دستور (طریقۂ کار) میں کوئی تبدیلی نہیں پاؤگے (کہ مقررہ قاعدے سے پھر جائے)۔ (43) کیا یہ لوگ زمین میں چلتے پھرتے نہیں ہیں کہ وہ دیکھتے کہ ان سے پہلے والے لوگوں کا انجام کیا ہوا تھا حالانکہ وہ قوت و طاقت میں ان سے بڑھے ہوئے تھے آسمانوں اور زمین میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو اللہ کو عاجز (بے بس) کر سکے۔ وہ بڑا جاننے والا، بڑا قدرت رکھنے والا ہے۔ (44) اور اگر خدا لوگوں کا ان کے (برے) اعمال کی پاداش میں جلدی مواخذہ کرتا (پکڑتا) تو روئے زمین پر کوئی جاندار نہ چھوڑتا لیکن ان کو ایک مقررہ مدت تک مہلت دیتا ہے تو جب ان کی مدت پوری ہو جائے گی تو اللہ اپنے بندوں کو خوب دیکھنے والا (نگران) ہے۔ (45)

پچھلی سورت: سورہ سبا سورہ فاطر اگلی سورت:سورہ یس

1.فاتحہ 2.بقرہ 3.آل‌عمران 4.نساء 5.مائدہ 6.انعام 7.اعراف 8.انفال 9.توبہ 10.یونس 11.ہود 12.یوسف 13.رعد 14.ابراہیم 15.حجر 16.نحل 17.اسراء 18.کہف 19.مریم 20.طہ 21.انبیاء 22.حج 23.مؤمنون 24.نور 25.فرقان 26.شعراء 27.نمل 28.قصص 29.عنکبوت 30.روم 31.لقمان 32.سجدہ 33.احزاب 34.سبأ 35.فاطر 36.یس 37.صافات 38.ص 39.زمر 40.غافر 41.فصلت 42.شوری 43.زخرف 44.دخان 45.جاثیہ 46.احقاف 47.محمد 48.فتح 49.حجرات 50.ق 51.ذاریات 52.طور 53.نجم 54.قمر 55.رحمن 56.واقعہ 57.حدید 58.مجادلہ 59.حشر 60.ممتحنہ 61.صف 62.جمعہ 63.منافقون 64.تغابن 65.طلاق 66.تحریم 67.ملک 68.قلم 69.حاقہ 70.معارج 71.نوح 72.جن 73.مزمل 74.مدثر 75.قیامہ 76.انسان 77.مرسلات 78.نبأ 79.نازعات 80.عبس 81.تکویر 82.انفطار 83.مطففین 84.انشقاق 85.بروج 86.طارق 87.اعلی 88.غاشیہ 89.فجر 90.بلد 91.شمس 92.لیل 93.ضحی 94.شرح 95.تین 96.علق 97.قدر 98.بینہ 99.زلزلہ 100.عادیات 101.قارعہ 102.تکاثر 103.عصر 104.ہمزہ 105.فیل 106.قریش 107.ماعون 108.کوثر 109.کافرون 110.نصر 111.مسد 112.اخلاص 113.فلق 114.ناس


حوالہ جات

  1. علی‌بابایی، برگزیدہ تفسیر نمونہ، ۱۳۸۲ش، ج۴، ص۵۵.
  2. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۸، ص۶۲۵.
  3. معرفت، مقدمہ‌ای بر علوم قرآن، ۱۳۸۸ش، ج۱، ص۱۸۸
  4. دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ۱۳۷۷ش، ج۲، ص۱۲۴۷
  5. خامہ‌گر، محمد، ساختار سورہ‌ہای قرآن کریم، تہیہ مؤسسہ فرہنگی قرآن و عترت نورالثقلین، قم، نشر نشرا، چ۱، ۱۳۹۲ش.
  6. دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ۱۳۷۷ش، ج۲، ص۱۲۴۷
  7. دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ۱۳۷۷ش، ج۲، ص۱۲۴۷
  8. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۸، ص۶۲۸.
  9. «لَعَلَّک باخِعٌ نَفْسَک أَلَّا یکونُوا مُؤْمِنِینَ»
  10. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج۱۵، ص۱۸۵.
  11. «رہے ثمود! ہم نے ان کی راہنمائی کی مگر انہوں نے ہدایت پر اندھے پن (گمراہی) کو ترجیح دی۔
  12. بحرانی، البرہان، ترجمہ، ج۷، ص۵۷۷.
  13. علامہ طباطبایی، ترجمہ تفسیر المیزان، ۱۳۷۴ش، ج۱، ص۷۰-۷۱؛ ج۱۱، ۴۸۱-۴۸۳. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۸۰ش، ج۱، ص۱۵۱-۱۵۲.
  14. فاطر: ۱۰.
  15. رجوع کریں: بحرانی، البرہان، ترجمہ، ج۷، ص۵۷۸.
  16. عَنْ أَبِی عَبْدِ اللَّہِ ع فِی قَوْلِ اللَّہِ عَزَّ وَ جَلَّ "إِلَیہِ یصْعَدُ الْکلِمُ الطَّیبُ وَ الْعَمَلُ الصَّالِحُ یرْفَعُہُ": وَلَایتُنَا أَہْلَ الْبَیتِ وَ أَہْوَی بِیدِہِ إِلَی صَدْرِہِ فَمَنْ لَمْ یتَوَلَّنَا لَمْ یرْفَعِ اللَّہُ لَہُ عَمَلا (کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۴۳۰، ح۸۵).
  17. جریسی، سلسلة فتاوی علماء البلدالحرام، ۱۴۳۲ق، ص۴۵۶؛ فتاوی اللجنۃ، ۱۴۲۴ق، ص۳۱۴.
  18. امین، سیدمہدی. مرگ و برزخ از دیدگاہ قرآن و حدیث (تفسیر موضوعی المیزان) آستان قدس رضوی، شرکت بہ نشر، ۱۳۸۹.
  19. قوی‌دست، «مسئلہ توسل بہ اموات با نگاہی بہ آیہ ۲۲ سورہ مبارکہ فاطر»، ۱۳۹۲ش، ص۱۵۸-۱۶۴؛ مصلحی، «سماع موتی و رابطہ آن با توسل بہ ارواح اولیای الہی»، ۱۳۹۲ش، ص۱۱۷-۱۱۸.
  20. رک: امین، مخزن العرفان، ج۱۰، ص۳۴۲.
  21. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج۱۸، ص۲۲۲.
  22. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج۱۸، ص۲۲۰.
  23. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج۱۸، ص۲۲۵.
  24. راغب اصفہانی، مفردات، بہ نقل از: مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج۱۸، ص۲۴۷.
  25. عروسی حویزی، تفسیر نور الثقلین، ج۴، ص۳۵۹.
  26. رک: بحرانی، البرہان، ج۴، ص۵۴۵.
  27. طبرسی، مجمع البیان، ج۸، ص۶۲۴.
  28. عروسی حویزی، تفسیر نور الثقلین، ۱۴۱۵ق، ج۴، ص۳۴۵.

مآخذ

  • قرآن کریم، ترجمہ محمد حسین نجفی (سرگودھا)۔
  • قرآن کریم، ترجمہ محمدمہدی فولادوند، تہران، دارالقرآن الکریم، ۱۴۱۸ق/۱۳۷۶ش.
  • امین اصفہانی، سیدہ نصرت، مخزن العرفان در تفسیر قرآن، تہران، نہضت زنان مسلمان، ۱۳۶۱ش.
  • بحرانی، سید ہاشم، البرہان، تحقیق: قسم الدراسات الاسلامیہ موسسۃ البعثۃ ـ قم، تہران، بنیاد بعثت، ۱۴۱۶ق.
  • بحرانی، سیدہاشم، البرہان، ترجمہ رضا ناظمیان، علی گنجیان و صادق خورشا، تہران، کتاب صبح، نہاد کتابخانہ‌ہای عمومی کشور، ۱۳۸۸ش.
  • جریسی، خالد بن عبدالرحمان، سلسلۃ فتاوی علماء البلدالحرام، قسم العقیدۃ، باب الثامن، ریاض، مکتبۃ ملک فہد الوطنيۃ، چاپ یازدہم، ۱۴۳۲ق/۲۰۱۱م.
  • دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ج۲، بہ کوشش بہاء الدین خرمشاہی، تہران: دوستان-ناہید، ۱۳۷۷ش.
  • ہطباطبائی، سیدمحمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ترجمہ سیدمحمدباقر موسوى ہمدانی، قم، دفتر انتشارات اسلامى جامعہ‏ مدرسين حوزہ علميہ قم‏، چ۵، ۱۳۷۴ش.
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، بہ تصحیح فضل‌اللہ یزدی ہطباطبائی و ہاشم رسولی، تہران، ناصر خسرو، چاپ سوم، ۱۳۷۲ش.
  • عروسی حویزی، عبد علی بن جمعہ، تفسیر نور الثقلین، تحقیق: سید ہاشم رسولی محلاتی، قم، انتشارات اسماعیلیان، چ۴، ۱۴۱۵ق.
  • علی‌بابایی، احمد، برگزیدہ تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چ۱۳، ۱۳۸۲ش.
  • قوی‌دست، کریمہ، مسألہ توسل بہ اموات با نگاہی بہ آیہ ۲۲ سورہ مبارکہ فاطر، سراج منیر، سال سوم، بہار ۱۳۹۲، ش۹.
  • کلینی، محمد بن‌یعقوب، الکافی، محقق: علی‌اکبر غفارى و محمد آخوندى، تہران، دار الكتب الإسلاميۃ، چ۴، ۱۴۰۷ق‏.
  • فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والإفتاء، المحقق: احمد بن عبدالرزاق الدویش، دارالمؤید للنشر والتوزیع، ریاض، ۱۴۲۴ق.
  • معرفت، محمدہادی، مقدمہ‌ای بر علوم قرآن: ترجمہ التمہید فی علوم القرآن، جواد ایروانی، قم، انتشارات التمہید، ۱۳۸۸ش.
  • مصلحی، صادق، سماع موتی و رابطہ آن با توسل بہ ارواح اولیای الہی، سراج منیر، بہار۱۳۹۲ش، سال سوم، ش۹.
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، چ۱، ۱۳۸۰ش.