سورہ طہ

ویکی شیعہ سے
مریم سورۂ طہ انبیاء
ترتیب کتابت: 20
پارہ : 16
نزول
ترتیب نزول: 44
مکی/ مدنی: مکی
اعداد و شمار
آیات: 135
الفاظ: 1534
حروف: 5399

سورہ طہ قرآن کی بیسویں اور مکی سورتوں میں سے ہے جو سولھویں پارے میں واقع ہے۔ اس سورت کی ابتداء حروف مقطعہ "طا" اور "ہاء" سے ہوتی ہے اسی مناسبت سے اس کا نام "سورہ طہ" رکھا گیا ہے۔ پیغمبر اکرمؐ کو زیادہ مشقت میں ڈالے بغیر وحی کی تبلیغ کرنے نیز تمام امور من جملہ دعا اور عبادت میں میانہ روی اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اسی طرح حضرت آدم اور آپ کا بہشت سے نکالا جانا نیز حضرت موسی کی داستان اس سورہ کے عمدہ مضامین میں سے ہیں۔

اس سورت کی تلاوت کے بارے میں پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا: جو شخص سورہ طہ کی تلاوت کرے، خدا قیامت کے دن تمام مہاجرین اور انصار کا ثواب اس شخص کو عطا فرمائے گا۔

تعارف

نامگذاری

اس سورت کی ابتداء حروف مقطعہ "طا" اور "ہاء" سے ہوتی ہے اسی مناسبت سے اس کا نام "سورہ طہ" رکھا گیا ہے۔[1] اس سورہ کا دوسرا نام "کلیم" بھی ہے جو حضرت موسی کے لقب سے لیا گیا ہے کیونکہ اس میں حضرت موسی کا خدا کے ساتھ ہمکلام ہونے کی داستان بھی بیان ہوئی ہے۔[2]

ترتیب اور محل نزول

سورہ طہ مکی سورتوں میں سے ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے 45ویں جبکہ مُصحَف کی موجودہ ترتیب کے اعتبار سے بیسوں سورہ ہے۔[3] یہ سورہ قرآن کے سولھویں پارے میں موجود ہے۔

آبات کی تعداد اور دوسری خصوصیات

سورہ طہ 135 آیات، 1534 کلمات اور 5399 حروف پر مشتمل ہے۔ حجم کے اعتبار سے اس کا شمار سور مئون میں ہوتا ہے اور نستبا متوسط حجم سورتوں میں سے ہے۔[4] یہ سورہ حروف مُقَطَّعہ سے شروع ہونے والی سورتوں میں سے گیارہواں سورہ ہے۔[5]

مفاہیم

علامہ طباطبائی کے مطابق اس سورہ کا اصل مقصد گذشتہ اقوام اور انبیاء جیسے حضرت موسی کی داستانوں کے ذریعے نیک اعمال کی انجام دہی اور برائی سے پرہیز کرنے کی دعوت دینا ہے؛ اس سورت کی بعض آیاتیں عقل کو حجت قرار دیتی ہیں جس کا لازمہ توحید پر اعتراف اور حق کی دعوت کو قبول کرنا ہے۔ اسی طرح اس سورت میں قیامت کے دن زیانکاروں اور ظالمین کے انجام سے بھی انسانوں کو آگاہ کی جاتی ہے۔[6]

تفسیر نمونہ کے مطابق سورہ طہ میں بھی دوسری مکی سورتوں کی طرح مبدا اور معاد کے بارے میں زیادہ گفتگو کرتے ہوئے توحید کے فوائد اور شرک کے نقصات سے آگاہ کی گئی ہے۔[7]

سورہ طہ کے مفاہیم کو درج ذیل حصوں میں خلاصہ کیا جا سکتا ہے:

  • تبلیغ کے حوالے سے پیغمبر اسلامؐ کا وظیفہ لوگوں کو خدا کی وحدانیت کی طرف دعوت دینا ہے لذا اس سلسلے میں اپنے آپ کو زیادہ سختیوں میں نہ ڈالنے کا حکم؛
  • زندگی کے تمام امور حتی دعا اور عبادت میں بھی اعتدال اور میانہ روی کا حکم؛
  • قرآن کی بعض عظمتوں اور خدا کے بعض صفات جلال و جمال کا بیان؛
  • حضرت موسی کی داستان اور آپ کا فرعون، جادوگروں اور سامری کے ساتھ مقابلہ؛
  • معاد اور قیامت کی بعض خصوصیات؛
  • حضرت آدم و حوا کی داستان، شیطان کا وسوہ اور ان دونوں کو بہشت سے نکالا جانا؛
  • تمام مؤمنین کو غفلت سے بیدار کرنے کی نصیحتیں۔[8]
سورہ طہ کے مضامین[9]
 
 
 
 
 
 
 
 
انسانوں کو تذکر دینے کے قرآنی طریقے
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
خاتمہ؛ آیہ ۱۳۰-۱۳۵
قرآن کے مخالفوں کے مقابلے میں پیغمبر کی ذمہ داری
 
تیسرا طریقہ؛ آیہ ۱۱۵-۱۲۹
اللہ کی یاد سے غفلت اور روگردانی کے آثار کی یادآوری
 
دوسرا طریقہ؛ آیہ ۱۰۵-۱۱۴
قیامت میں اعمال کے انجام کی نسبت انتباہ
 
پہلا طریقہ؛ آیہ ۹-۱۰۴
حضرت موسی اور دیگر انبیا کے واقعات
 
مقدمہ؛ آیہ ۱-۸
قرآن کے نزول کا ہدف تذکر دینا ہے
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
پہلی ذمہ داری؛ آیہ ۱۳۰
مخالفتوں پر صبر کرنا
 
پہلا مطلب؛ آیہ ۱۱۵-۱۲۳
حضرت آدم اور حوا کا اللہ کے فرمان کی طرف بےتوجہی کے آثار
 
پہلا مطلب؛ آیہ ۱۰۵-۱۰۷
قیامت بپا ہوتے ہوئے پہاڑ ریزہ ہونا
 
پہلا مطلب؛ آیہ ۹-۴۱
حضرت موسی کی بعثت
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
دوسری ذمہ داری؛ آیہ ۱۳۱
مخالفوں کی ظاہری طاقت کی نسبت بے توجہی
 
دوسرا مطلب؛ آیہ ۱۲۴-۱۲۹
انسانی زندگی میں اللہ کی یاد سے روگردانی کے نتائج
 
دوسرا مطلب؛ آیہ ۱۰۸
قیامت کے دن اللہ کے فرمان کے سامنے سب تسلیم ہونا
 
دوسرا مطلب؛ آیہ ۴۲-۵۶
حضرت موسی کی فرعون کو توحید کی دعوت دینے کی ذمہ داری
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
تیسری ذمہ داری؛ آیہ ۱۳۲
نماز اور عبادت کی تشویق
 
 
 
 
 
تیسرا مطلب؛ آیہ ۱۰۹-۱۱۲
قیامت کے دن انسان کا انجام
 
تیسرا مطلب؛ آیہ ۵۷-۷۶
فرعون کے ساحروں کا ایمان لانا
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
چوتھی ذمہ داری؛ آیہ ۱۳۳-۱۳۵
اللہ کے حتمی عذاب کی یادآوری
 
 
 
 
 
چوتھا مطلب؛ آیہ ۱۱۳-۱۱۴
قرآن میں معادی کی حقیقت بیان کرنے کا طریقہ
 
چوتھا مطلب؛ آیہ ۷۷-۹۸
بنی اسرائیل کی بچھڑا پرستی
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
پانچواں مطلب؛ آیہ ۹۹-۱۰۴
انبیا کے واقعات بیان کرنے کا ہدف، تذکر ہے
 
 
 
 


داستانیں اور تاریخی واقعات

سورہ طہ کی تقریبا 80 سے زیادہ آیتوں میں حضرت موسی کی نبوت اور تبلیغ کے بارے میں گفتگو ہوتی ہے اور اس سورت کی آخری آیتوں میں حضرت آدم کا بہشت سے زمین پر اتر آنے کا تذکرہ بھی آیا ہے۔

  • داستان حضرت موسی:
    • وادی مقدس طُویٰ میں آگ کا معجزہ، خدا سے حضرت موسی کی گفتگو اور آپ کو بطور نبی انتخاب کرنا، عصا کا سانپ میں تبدیل ہونا، ید بیضاء، فرعون کو تبلیغ کرنے کا حکم، حضرت ہارون کا حضرت موسی کی ہمراہی کرنا(آیات ۹-۳۲)؛
    • حضرت موسی کی پیدائش اور ان کی ماں کا انہیں دریائے نیل کے سپرد کرنا، حضرت موسی کا فرعون کے محل میں پہنچنا اور حضرت موسی کو اپنی ماں کے پاس لوٹا دینا(آیات ۳۸-۴۰)؛
    • کسی دشمن کو قتل کرنا، مدین میں زندگی گزارنا اور نبوت پر فائز ہونا (آیات ۴۰-۴۱)؛
    • فرعون کی طرف تبلیغ کے لئے جانا، فرعون سے آپ کی گفتگو، ساحروں سے مقابلہ، ساحروں کا ایمان لے آنا اور فرعون کی دھمکیاں(آیات ۴۲-۷۳)؛
    • بنی‌اسرائیل کا دریا سے گزر جانا اور فرعونیوں کا غرق ہونا(آیات ۷۷-۷۸)؛
    • بنی‌اسرائیل پر نعمتوں کا نزول، سامری کا بچھڑا، بنی اسرائیل کی حضرت ہارون سے گفتگو، حضرت موسی کا حضرت ہارون پر اعتراض کرنا، حضرت موسی اور سامری کی گفتگو(آیہ‌ہای ۸۰-۹۷)۔
  • حضرت آدم کی داستان: فرشتوں کا حضرت آدم کے لئے سجدہ کرنا اور ابلیس کا سجدہ کرنے سے انکار، حضرت آدم کو ابلیس کے بارے میں خبردار کرنا، ابلیس کا وسوسہ اور شجرہ ممنوعہ کا تناول، بہشت سے زمین کی طرف ہبوط(آیہ‌ہای ۱۱۵-۱۲۳)۔

بعض آیتوں کی شأن نزول

سورہ طہ کی ابتدائی آیات اور آیت نمبر 131 کی شأن نزول بیان کی گئی ہے۔

عبادات میں اعتدال

احادیث میں آیا ہے کہ وحی اور قرآن کے نزول کے بعد پیغمبر اسلامؐ بہت زیادہ عبادت کیا کرتے تھے، یہاں تک آپ عبادت کی حالت میں کھڑے رہتے تھے کہ آپ کے پاؤں ورم پڑ جاتے تھے؛ اسی سلسلے میں سوره طه کی ابتدائی آیت نازل ہوئیں اور پیغمبر اکرمؐ کو عبادت کی راہ میں زیادہ سختیاں جھیلنے سے منع فرماتے ہوئے عبادات اور دعا میں میانہ روی اختیار کرنے کا حکم دیا گیا۔[10]

واحدی نیشابوری کی کتاب اسباب نزول القرآن میں بھی آیا ہے کہ ابوجہل، نضر بن حارث اور بعض کفار قریش پیمبر اکرمؐ اور مسلمانوں کو یہ طعنہ دیتے تھے کہ محمدؐ نے ہمارے دین کو ترک کرکے خود کو مشقت میں ڈال دیا ہے اور قرآن کا نزول مسلمانوں کی سخصتی کا باعث بنا ہے۔ اسی سلسلے میں سورہ طہ کی یہ آیتیں نازل ہوئیں اور مسلمانوں اور پیغمبر اکرمؐ کو عبادت میں اعتدال کی رعایت کرنے اور میانہ روی اختیار کرنے کا حکم دیا گیا۔[11]

پیغمبر اکرمؐ کو تسلی

سورہ طہ کی آیت نمبر 131: وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَىٰ مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِّنْهُمْ زَهْرَ‌ةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِ...؛ (ترجمہ: اور جو کچھ ہم نے مختلف لوگوں کو آزمائش کیلئے دنیا کی زیب و زینت اور آرائش دے رکھی ہے اس کی طرف نگاہیں اٹھا کر بھی نہ دیکھیں اور آپ کے پروردگار کا دیا ہوا رزق بہتر ہے اور زیادہ پائیدار ہے۔)[؟؟] کے بارے میں رسول اللہؐ کے خادم ابو رافع سے نقل ہوا ہے کہ: ایک دن پیغمبر اکرمؐ کے یہاں ایک مہمان آیا تو آپ نے مجھے کسی یہودی کے پاس بھیجا تاکہ اس سے کھانا تیار کرنے کے لئے کچھ چیزیں بطور قرض لیا جائے اور یہ کہ یہ قرض ماہ رجب کی پہلی تاریخ تک واپس کرنے کا وعدہ دیا گیا؛ لیکن یہودی نے کہا کہ میں محمدؐ کے ساتھ یہ معاملہ انجام نہیں دونگا مگر یہ کہ وہ کوئی چیز میرے پاس بطور گروی رکھ لیں۔ ابو رافع کہتا ہے کہ جب یہ خبر پیغمبر اکرمؐ کو دی گئی تو آپ نے فرمایا زمین و آسمان کے مالک خدا کی قسم اگر یہ شخص یہ معاملہ انجام دیتا تو اس چیز کے بدلے میں اسے سونا یا چاندی دی دیتا۔ اس واقعے کے بعد رسول خدا کی تسلی کے لئے یہ آیت نازل ہوئی۔[12]

تفسیر نکات

عرش پر خدا کا اقتدار(آیت 5)

مفسرین سورہ طہ کی آیت نمبر 5: الرَّ‌حْمَـٰنُ عَلَى الْعَرْ‌شِ اسْتَوَىٰ؛ (ترجمہ: وہ خدائے رحمن ہے جس کا عرش پر اقتدار قائم ہے۔)[؟؟] کو اس سے مشابہ دوسری آیات جن میں "عرش پر استواء" جیسے عبارات استعمال ہوئے ہیں، کو تمام کائنات پر خدا کی عمومی حکمرانی اور تمام چھوٹے بڑے امور میں خدا کی تدبیر کی گشتردگی کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں جو توحید ربوبیت کی نشانیوں میں سے ہے۔[13] اس آیت میں لفظ "الرحمن" خدا کی عمومی رحمت کی طرف اشارہ ہے جو تمام کائنات پر اس کی حکمرانی اور تدبیر کے ساتھ سازگار ہے۔[14]

اسماءالحسنی (آیت 8)

علامہ طباطبائی سورہ طہ کی آیت نمبر 8: اللَّهُ لا إِلهَ إِلَّا هُوَ لَهُ الْأَسْماءُ الْحُسْنى‏ (ترجمہ: وہ الٰہ ہے اس کے سوا کوئی الہ نہیں ہے۔ سب اچھے اچھے نام اسی کے لئے ہیں۔)[؟؟] کو اس سورت کی سب سے بلند مرتبت آیت قرار دیتے ہیں۔[15]

اس آیت میں اسماء الحسنی سے خدا کے نیک اسماء مراد لئے جاتے ہیں؛ اگرچہ خدا کے تمام اسامی نیک ہیں، لیکن خدا کے اسما و صفات میں سے بعض خاص اہمیت کے حامل ہیں جنہیں "اسماء‌الحسنی" کہا جاتا ہے۔[16] خدا کے اسماء اور صفات میں سے علیم، حی اور قدیر وغیرہ ایسے اسماء ہیں جو خدا کے کمال محض اور ہر عیب و نقص سے خالی ہونے پر دلالت کرتے ہیں، کو اسماء حسنی میں شمار کئے جاتے ہیں۔۔[17]

مشہور آیات

حضرت موسی کی دعا، سورہ طہ کی آیت 25 سے 29 تک خط کوفی میں

آیہ شرح صدر

قَالَ رَ‌بِّ اشْرَ‌حْ لِی صَدْرِ‌ی وَیسِّرْ‌ لِی أَمْرِ‌ی وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّن لِّسَانِی یفْقَهُوا قَوْلِی
 (ترجمہ: موسیٰ نے کہا اے میرے پروردگار! میرا سینہ کشادہ فرما۔ (حوصلہ فراخ کر)۔ اور میرے کام کو میرے لئے آسان کر۔ اور میری زبان کی گرہ کھول دے۔ تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں۔)[؟؟]

ان آیات میں حضرت موسی کی ان درخواستوں کا تذکرہ ہے جسے انہوں نے فرعون کے ساتھ گفتگو کے لئے جانے سے پہلے خدا سے طلب کئے تھے۔[18] تفسیر الکاشف میں آیا ہے کہ زندگی میں پیش آنے والے مصیبتوں اور سختیوں کی وجہ سے حضرت موسی بے حوصلہ ہو گئے تھے اور آپ کو جلدی غصہ آ جاتا تھا۔ اس سلسلے میں جھگڑے کے دوران کسی فرعونی کو قتل کرنا، عبد صالح(حضرت خضر) کے کاموں پر صبر نہ کرنا اور جب بنی اسرائیل نے گوسالہ پرستی شروع کی تو اپنے بھائی حضرت ہارون کو دھاڑی پکڑ کر گھسیٹنے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اسی بنا پر رسالت کے عظیم وظائف کو بطور احسن پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے خدا سے صبر، شرح صدر، قوت گویائی اور ثابت قدمی کی درخواست کرتے ہیں۔[19]

آیت 114

فَتَعَالَى اللَّـهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ ۗ وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْ‌آنِ مِن قَبْلِ أَن يُقْضَىٰ إِلَيْكَ وَحْيُهُ ۖ وَقُل رَّ‌بِّ زِدْنِي عِلْمًا
 (ترجمہ: بلند و برتر ہے اللہ جو حقیقی بادشاہ ہے اور (اے پیغمبر(ص)) جب تک قرآن کی وحی آپ پر پوری نہ ہو جائے اس (کے پڑھنے) میں جلدی نہ کیا کیجئے۔ اور دعا کیجئے کہ (اے پروردگار) میرے علم میں اور اضافہ فرما۔)[؟؟]

تفاسیر میں آیا ہے کہ جب بھی جبرئیل پیغمبر اکرمؐ کی خدمت میں قرآن لے کر آتا تھا آپؐ قرآن کو فراموش کرنے کے خوف اور اسے مسلمانوں تک پہنچانے اور انہیں تعلیم دینے کے لئے جلدی کرتے تھے اور جبرئیل کی گفتگو ختم ہونے سے پہلے لوگوں کے لئے بیان کرنا شروع کرتے تھے؛ اسی بنا پر خدا نے اس آیت میں اپنے پیارے حبیب کو یہ سفارش کرتے ہیں کہ پہلے وحی کو مکمل سنیں پھر اس کے بعد اسے لوگوں کے لئے بیاں کریں۔[20]

تفسیر مجمع البیان میں وحی کے ابلاغ میں جلدی نہ کرنے کی تین دلیل بیان ہوئی ہے:

  • جبرئیل وحی کو ختم کرنے سے پہلے اس کی تلاوت کرنے میں جلدی نہ کریں جیسا کہ سورہ قیامت کی آیت نمبر 15 میں بھی اس بات کی تاکید کی گئی ہے۔
  • جب تک قرآن کا مفہوم آپ کے لئے واضح نہ ہو اسے اپنے ماننے والوں کے لئے بیان نہ کریں۔
  • آپ پر وحی نازل ہونے سے پہلے نزول وحی کی دعا نہ کریں کیونکہ خدا قرآن کو اپنی مصلحت کے تحت نازل کرتا ہے۔[21]

اس آیت کے آخری حصے: وَ قُلْ رَبِّ زِدْنِي عِلْماً (ترجمہ: اور دعا کیجئے کہ (اے پروردگار) میرے علم میں اور اضافہ فرما۔)[؟؟] کے بارے میں پیغمبر اکرمؐ سے ایک حدیث نقل ہوئی ہے جس میں آیا ہے کہ وہ دن جس میں میرے علم میں اضافہ نہ ہو اور خدا کی بارگاہ میں تقرب حاصل نہ ہو اس دن کا سورج میرے لئے مبارک نہیں ہے۔[22]

آیت 124

وَمَنْ أَعْرَ‌ضَ عَن ذِکرِ‌ی فَإِنَّ لَهُ مَعِیشَةً ضَنکا وَنَحْشُرُ‌هُ یوْمَ الْقِیامَةِ أَعْمَیٰ
 (ترجمہ: اور جو کوئی میری یاد سے روگردانی کرے گا تو اس کے لئے تنگ زندگی ہوگی۔ اور ہم اسے قیامت کے دن اندھا محشور کریں گے۔)[؟؟]

اس آیت میں زنگی کی تنگی سے مراد معنویات کی کمی، فقر معنوی اور حد سے زیادہ مادیات سے وابستہ ہونا اور نابود ہونے کا خوف جانا گیا ہے اور وہ شخص جو خدا پر ایمان رکھتا ہے اور اس کے دل میں خدا کے سوا کسی اور کے لئے جگہ ­نہیں وہ اس طرح کی پریشانیوں سے مبرا ہے۔[23] مفسرین زمنی قوانین کو اس تنگ‌ دستی کا سبب قرار دیتے ہیں یعنی یہ انسان کے اپنے اعمال ہیں جو حق اور عدالت کو نابود کر دیتے ہیں پس اگر لوگ خدا کے بھیجے ہوئے قوانین کی پیروی کرتے تو روی زمین پر کوئی محتاج دکھائی نہیں دیتا۔[24]

آیات الاحکام

سورہ طہ کی آیت نمبر 14، 130 اور 132 کو اس سورت کی آيات الاحکام میں سے قرار دی گئی ہیں۔ ان آیات میں دن اور رات کے مختلف اوقات میں نماز پڑھنے پر زیادہ تاکید کی گئی ہیں۔[25]

فضیلت اور خواص

سورہ طہ کی تلاوت کے بارے میں پیغمبر اسلام سے نقل ہوا ہے کہ جو شخص اس سورہ کی تلاوت کرے، قیامت کے دن تمام مہاجرین اور انصار کا ثواب اسے عطا کیا جائے گا۔[26] امام صادقؑ سے بھی نقل ہوا ہے کہ سورہ طہ کی تلاوت ترک نہ کی جائے کیونکہ یہ خدا کو بہت پسند ہے اور جو شخص اس کی تلاوت کرے اسے بھی خدا پسند فرمائے گا اور جو شخص اس کی تلاوت پر مداومت کرے قیامت کے دن اس کا نامہ عمل اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا اور اس کے نامہ عمل میں سختی سے پیش نہیں آئے گا اور اسے اس قدر ثواب عطا فرمائے گا کہ وہ خوش ہو جائے۔[27]

تفسیر برہان میں اس کی تلاوت کے لئے آثار و برکات کا تذکرہ ہوا ہے جن میں شادی بیاہ میں آسانی اور بڑی حاجتوں کی برآوری قابل ذکر ہیں۔[28]

متن اور ترجمہ

سورہ طہ
ترجمہ
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّ‌حْمَـٰنِ الرَّ‌حِيمِ

طه ﴿1﴾ مَا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَى ﴿2﴾ إِلَّا تَذْكِرَةً لِّمَن يَخْشَى ﴿3﴾ تَنزِيلًا مِّمَّنْ خَلَقَ الْأَرْضَ وَالسَّمَاوَاتِ الْعُلَى ﴿4﴾ الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى ﴿5﴾ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَمَا تَحْتَ الثَّرَى ﴿6﴾ وَإِن تَجْهَرْ بِالْقَوْلِ فَإِنَّهُ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفَى ﴿7﴾ اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ لَهُ الْأَسْمَاء الْحُسْنَى ﴿8﴾ وَهَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ مُوسَى ﴿9﴾ إِذْ رَأَى نَارًا فَقَالَ لِأَهْلِهِ امْكُثُوا إِنِّي آنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّي آتِيكُم مِّنْهَا بِقَبَسٍ أَوْ أَجِدُ عَلَى النَّارِ هُدًى ﴿10﴾ فَلَمَّا أَتَاهَا نُودِي يَا مُوسَى ﴿11﴾ إِنِّي أَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ إِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى ﴿12﴾ وَأَنَا اخْتَرْتُكَ فَاسْتَمِعْ لِمَا يُوحَى ﴿13﴾ إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي ﴿14﴾ إِنَّ السَّاعَةَ ءاَتِيَةٌ أَكَادُ أُخْفِيهَا لِتُجْزَى كُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعَى ﴿15﴾ فَلاَ يَصُدَّنَّكَ عَنْهَا مَنْ لاَ يُؤْمِنُ بِهَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ فَتَرْدَى ﴿16﴾ وَمَا تِلْكَ بِيَمِينِكَ يَا مُوسَى ﴿17﴾ قَالَ هِيَ عَصَايَ أَتَوَكَّأُ عَلَيْهَا وَأَهُشُّ بِهَا عَلَى غَنَمِي وَلِيَ فِيهَا مَآرِبُ أُخْرَى ﴿18﴾ قَالَ أَلْقِهَا يَا مُوسَى ﴿19﴾ فَأَلْقَاهَا فَإِذَا هِيَ حَيَّةٌ تَسْعَى ﴿20﴾ قَالَ خُذْهَا وَلَا تَخَفْ سَنُعِيدُهَا سِيرَتَهَا الْأُولَى ﴿21﴾ وَاضْمُمْ يَدَكَ إِلَى جَنَاحِكَ تَخْرُجْ بَيْضَاء مِنْ غَيْرِ سُوءٍ آيَةً أُخْرَى ﴿22﴾ لِنُرِيَكَ مِنْ آيَاتِنَا الْكُبْرَى ﴿23﴾ اذْهَبْ إِلَى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَى ﴿24﴾ قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي ﴿25﴾ وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي ﴿26﴾ وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّن لِّسَانِي ﴿27﴾ يَفْقَهُوا قَوْلِي ﴿28﴾ وَاجْعَل لِّي وَزِيرًا مِّنْ أَهْلِي ﴿29﴾ هَارُونَ أَخِي ﴿30﴾ اشْدُدْ بِهِ أَزْرِي ﴿31﴾ وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي ﴿32﴾ كَيْ نُسَبِّحَكَ كَثِيرًا ﴿33﴾ وَنَذْكُرَكَ كَثِيرًا ﴿34﴾ إِنَّكَ كُنتَ بِنَا بَصِيرًا ﴿35﴾ قَالَ قَدْ أُوتِيتَ سُؤْلَكَ يَا مُوسَى ﴿36﴾ وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلَيْكَ مَرَّةً أُخْرَى ﴿37﴾ إِذْ أَوْحَيْنَا إِلَى أُمِّكَ مَا يُوحَى ﴿38﴾ أَنِ اقْذِفِيهِ فِي التَّابُوتِ فَاقْذِفِيهِ فِي الْيَمِّ فَلْيُلْقِهِ الْيَمُّ بِالسَّاحِلِ يَأْخُذْهُ عَدُوٌّ لِّي وَعَدُوٌّ لَّهُ وَأَلْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةً مِّنِّي وَلِتُصْنَعَ عَلَى عَيْنِي ﴿39﴾ إِذْ تَمْشِي أُخْتُكَ فَتَقُولُ هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى مَن يَكْفُلُهُ فَرَجَعْنَاكَ إِلَى أُمِّكَ كَيْ تَقَرَّ عَيْنُهَا وَلَا تَحْزَنَ وَقَتَلْتَ نَفْسًا فَنَجَّيْنَاكَ مِنَ الْغَمِّ وَفَتَنَّاكَ فُتُونًا فَلَبِثْتَ سِنِينَ فِي أَهْلِ مَدْيَنَ ثُمَّ جِئْتَ عَلَى قَدَرٍ يَا مُوسَى ﴿40﴾ وَاصْطَنَعْتُكَ لِنَفْسِي ﴿41﴾ اذْهَبْ أَنتَ وَأَخُوكَ بِآيَاتِي وَلَا تَنِيَا فِي ذِكْرِي ﴿42﴾ اذْهَبَا إِلَى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَى ﴿43﴾ فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَى ﴿44﴾ قَالَا رَبَّنَا إِنَّنَا نَخَافُ أَن يَفْرُطَ عَلَيْنَا أَوْ أَن يَطْغَى ﴿45﴾ قَالَ لَا تَخَافَا إِنَّنِي مَعَكُمَا أَسْمَعُ وَأَرَى ﴿46﴾ فَأْتِيَاهُ فَقُولَا إِنَّا رَسُولَا رَبِّكَ فَأَرْسِلْ مَعَنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَا تُعَذِّبْهُمْ قَدْ جِئْنَاكَ بِآيَةٍ مِّن رَّبِّكَ وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى ﴿47﴾ إِنَّا قَدْ أُوحِيَ إِلَيْنَا أَنَّ الْعَذَابَ عَلَى مَن كَذَّبَ وَتَوَلَّى ﴿48﴾ قَالَ فَمَن رَّبُّكُمَا يَا مُوسَى ﴿49﴾ قَالَ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطَى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدَى ﴿50﴾ قَالَ فَمَا بَالُ الْقُرُونِ الْأُولَى ﴿51﴾ قَالَ عِلْمُهَا عِندَ رَبِّي فِي كِتَابٍ لَّا يَضِلُّ رَبِّي وَلَا يَنسَى ﴿52﴾ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْدًا وَسَلَكَ لَكُمْ فِيهَا سُبُلًا وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاء مَاء فَأَخْرَجْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِّن نَّبَاتٍ شَتَّى ﴿53﴾ كُلُوا وَارْعَوْا أَنْعَامَكُمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّأُوْلِي النُّهَى ﴿54﴾ مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَى ﴿55﴾ وَلَقَدْ أَرَيْنَاهُ آيَاتِنَا كُلَّهَا فَكَذَّبَ وَأَبَى ﴿56﴾ قَالَ أَجِئْتَنَا لِتُخْرِجَنَا مِنْ أَرْضِنَا بِسِحْرِكَ يَا مُوسَى ﴿57﴾ فَلَنَأْتِيَنَّكَ بِسِحْرٍ مِّثْلِهِ فَاجْعَلْ بَيْنَنَا وَبَيْنَكَ مَوْعِدًا لَّا نُخْلِفُهُ نَحْنُ وَلَا أَنتَ مَكَانًا سُوًى ﴿58﴾ قَالَ مَوْعِدُكُمْ يَوْمُ الزِّينَةِ وَأَن يُحْشَرَ النَّاسُ ضُحًى ﴿59﴾ فَتَوَلَّى فِرْعَوْنُ فَجَمَعَ كَيْدَهُ ثُمَّ أَتَى ﴿60﴾ قَالَ لَهُم مُّوسَى وَيْلَكُمْ لَا تَفْتَرُوا عَلَى اللَّهِ كَذِبًا فَيُسْحِتَكُمْ بِعَذَابٍ وَقَدْ خَابَ مَنِ افْتَرَى ﴿61﴾ فَتَنَازَعُوا أَمْرَهُم بَيْنَهُمْ وَأَسَرُّوا النَّجْوَى ﴿62﴾ قَالُوا إِنْ هَذَانِ لَسَاحِرَانِ يُرِيدَانِ أَن يُخْرِجَاكُم مِّنْ أَرْضِكُم بِسِحْرِهِمَا وَيَذْهَبَا بِطَرِيقَتِكُمُ الْمُثْلَى ﴿63﴾ فَأَجْمِعُوا كَيْدَكُمْ ثُمَّ ائْتُوا صَفًّا وَقَدْ أَفْلَحَ الْيَوْمَ مَنِ اسْتَعْلَى ﴿64﴾ قَالُوا يَا مُوسَى إِمَّا أَن تُلْقِيَ وَإِمَّا أَن نَّكُونَ أَوَّلَ مَنْ أَلْقَى ﴿65﴾ قَالَ بَلْ أَلْقُوا فَإِذَا حِبَالُهُمْ وَعِصِيُّهُمْ يُخَيَّلُ إِلَيْهِ مِن سِحْرِهِمْ أَنَّهَا تَسْعَى ﴿66﴾ فَأَوْجَسَ فِي نَفْسِهِ خِيفَةً مُّوسَى ﴿67﴾ قُلْنَا لَا تَخَفْ إِنَّكَ أَنتَ الْأَعْلَى ﴿68﴾ وَأَلْقِ مَا فِي يَمِينِكَ تَلْقَفْ مَا صَنَعُوا إِنَّمَا صَنَعُوا كَيْدُ سَاحِرٍ وَلَا يُفْلِحُ السَّاحِرُ حَيْثُ أَتَى ﴿69﴾ فَأُلْقِيَ السَّحَرَةُ سُجَّدًا قَالُوا آمَنَّا بِرَبِّ هَارُونَ وَمُوسَى ﴿70﴾ قَالَ آمَنتُمْ لَهُ قَبْلَ أَنْ آذَنَ لَكُمْ إِنَّهُ لَكَبِيرُكُمُ الَّذِي عَلَّمَكُمُ السِّحْرَ فَلَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُم مِّنْ خِلَافٍ وَلَأُصَلِّبَنَّكُمْ فِي جُذُوعِ النَّخْلِ وَلَتَعْلَمُنَّ أَيُّنَا أَشَدُّ عَذَابًا وَأَبْقَى ﴿71﴾ قَالُوا لَن نُّؤْثِرَكَ عَلَى مَا جَاءنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالَّذِي فَطَرَنَا فَاقْضِ مَا أَنتَ قَاضٍ إِنَّمَا تَقْضِي هَذِهِ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا ﴿72﴾ إِنَّا آمَنَّا بِرَبِّنَا لِيَغْفِرَ لَنَا خَطَايَانَا وَمَا أَكْرَهْتَنَا عَلَيْهِ مِنَ السِّحْرِ وَاللَّهُ خَيْرٌ وَأَبْقَى ﴿73﴾ إِنَّهُ مَن يَأْتِ رَبَّهُ مُجْرِمًا فَإِنَّ لَهُ جَهَنَّمَ لَا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا يَحْيى ﴿74﴾ وَمَنْ يَأْتِهِ مُؤْمِنًا قَدْ عَمِلَ الصَّالِحَاتِ فَأُوْلَئِكَ لَهُمُ الدَّرَجَاتُ الْعُلَى ﴿75﴾ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَذَلِكَ جَزَاء مَن تَزَكَّى ﴿76﴾ وَلَقَدْ أَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى أَنْ أَسْرِ بِعِبَادِي فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيقًا فِي الْبَحْرِ يَبَسًا لَّا تَخَافُ دَرَكًا وَلَا تَخْشَى ﴿77﴾ فَأَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ بِجُنُودِهِ فَغَشِيَهُم مِّنَ الْيَمِّ مَا غَشِيَهُمْ ﴿78﴾ وَأَضَلَّ فِرْعَوْنُ قَوْمَهُ وَمَا هَدَى ﴿79﴾ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ قَدْ أَنجَيْنَاكُم مِّنْ عَدُوِّكُمْ وَوَاعَدْنَاكُمْ جَانِبَ الطُّورِ الْأَيْمَنَ وَنَزَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَى ﴿80﴾ كُلُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَلَا تَطْغَوْا فِيهِ فَيَحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبِي وَمَن يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي فَقَدْ هَوَى ﴿81﴾ وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِّمَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدَى ﴿82﴾ وَمَا أَعْجَلَكَ عَن قَوْمِكَ يَا مُوسَى ﴿83﴾ قَالَ هُمْ أُولَاء عَلَى أَثَرِي وَعَجِلْتُ إِلَيْكَ رَبِّ لِتَرْضَى ﴿84﴾ قَالَ فَإِنَّا قَدْ فَتَنَّا قَوْمَكَ مِن بَعْدِكَ وَأَضَلَّهُمُ السَّامِرِيُّ ﴿85﴾ فَرَجَعَ مُوسَى إِلَى قَوْمِهِ غَضْبَانَ أَسِفًا قَالَ يَا قَوْمِ أَلَمْ يَعِدْكُمْ رَبُّكُمْ وَعْدًا حَسَنًا أَفَطَالَ عَلَيْكُمُ الْعَهْدُ أَمْ أَرَدتُّمْ أَن يَحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبٌ مِّن رَّبِّكُمْ فَأَخْلَفْتُم مَّوْعِدِي ﴿86﴾ قَالُوا مَا أَخْلَفْنَا مَوْعِدَكَ بِمَلْكِنَا وَلَكِنَّا حُمِّلْنَا أَوْزَارًا مِّن زِينَةِ الْقَوْمِ فَقَذَفْنَاهَا فَكَذَلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُّ ﴿87﴾ فَأَخْرَجَ لَهُمْ عِجْلًا جَسَدًا لَهُ خُوَارٌ فَقَالُوا هَذَا إِلَهُكُمْ وَإِلَهُ مُوسَى فَنَسِيَ ﴿88﴾ أَفَلَا يَرَوْنَ أَلَّا يَرْجِعُ إِلَيْهِمْ قَوْلًا وَلَا يَمْلِكُ لَهُمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا ﴿89﴾ وَلَقَدْ قَالَ لَهُمْ هَارُونُ مِن قَبْلُ يَا قَوْمِ إِنَّمَا فُتِنتُم بِهِ وَإِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمَنُ فَاتَّبِعُونِي وَأَطِيعُوا أَمْرِي ﴿90﴾ قَالُوا لَن نَّبْرَحَ عَلَيْهِ عَاكِفِينَ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَيْنَا مُوسَى ﴿91﴾ قَالَ يَا هَارُونُ مَا مَنَعَكَ إِذْ رَأَيْتَهُمْ ضَلُّوا ﴿92﴾ أَلَّا تَتَّبِعَنِ أَفَعَصَيْتَ أَمْرِي ﴿93﴾ قَالَ يَا ابْنَ أُمَّ لَا تَأْخُذْ بِلِحْيَتِي وَلَا بِرَأْسِي إِنِّي خَشِيتُ أَن تَقُولَ فَرَّقْتَ بَيْنَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَمْ تَرْقُبْ قَوْلِي ﴿94﴾ قَالَ فَمَا خَطْبُكَ يَا سَامِرِيُّ ﴿95﴾ قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوا بِهِ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِّنْ أَثَرِ الرَّسُولِ فَنَبَذْتُهَا وَكَذَلِكَ سَوَّلَتْ لِي نَفْسِي ﴿96﴾ قَالَ فَاذْهَبْ فَإِنَّ لَكَ فِي الْحَيَاةِ أَن تَقُولَ لَا مِسَاسَ وَإِنَّ لَكَ مَوْعِدًا لَّنْ تُخْلَفَهُ وَانظُرْ إِلَى إِلَهِكَ الَّذِي ظَلْتَ عَلَيْهِ عَاكِفًا لَّنُحَرِّقَنَّهُ ثُمَّ لَنَنسِفَنَّهُ فِي الْيَمِّ نَسْفًا ﴿97﴾ إِنَّمَا إِلَهُكُمُ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَسِعَ كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا ﴿98﴾ كَذَلِكَ نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنبَاء مَا قَدْ سَبَقَ وَقَدْ آتَيْنَاكَ مِن لَّدُنَّا ذِكْرًا ﴿99﴾ مَنْ أَعْرَضَ عَنْهُ فَإِنَّهُ يَحْمِلُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وِزْرًا ﴿100﴾ خَالِدِينَ فِيهِ وَسَاء لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حِمْلًا ﴿101﴾ يَوْمَ يُنفَخُ فِي الصُّورِ وَنَحْشُرُ الْمُجْرِمِينَ يَوْمَئِذٍ زُرْقًا ﴿102﴾ يَتَخَافَتُونَ بَيْنَهُمْ إِن لَّبِثْتُمْ إِلَّا عَشْرًا ﴿103﴾ نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُونَ إِذْ يَقُولُ أَمْثَلُهُمْ طَرِيقَةً إِن لَّبِثْتُمْ إِلَّا يَوْمًا ﴿104﴾ وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ يَنسِفُهَا رَبِّي نَسْفًا ﴿105﴾ فَيَذَرُهَا قَاعًا صَفْصَفًا ﴿106﴾ لَا تَرَى فِيهَا عِوَجًا وَلَا أَمْتًا ﴿107﴾ يَوْمَئِذٍ يَتَّبِعُونَ الدَّاعِيَ لَا عِوَجَ لَهُ وَخَشَعَت الْأَصْوَاتُ لِلرَّحْمَنِ فَلَا تَسْمَعُ إِلَّا هَمْسًا ﴿108﴾ يَوْمَئِذٍ لَّا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَنُ وَرَضِيَ لَهُ قَوْلًا ﴿109﴾ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيطُونَ بِهِ عِلْمًا ﴿110﴾ وَعَنَتِ الْوُجُوهُ لِلْحَيِّ الْقَيُّومِ وَقَدْ خَابَ مَنْ حَمَلَ ظُلْمًا ﴿111﴾ وَمَن يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا يَخَافُ ظُلْمًا وَلَا هَضْمًا ﴿112﴾ وَكَذَلِكَ أَنزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا وَصَرَّفْنَا فِيهِ مِنَ الْوَعِيدِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ أَوْ يُحْدِثُ لَهُمْ ذِكْرًا ﴿113﴾ فَتَعَالَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ مِن قَبْلِ أَن يُقْضَى إِلَيْكَ وَحْيُهُ وَقُل رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا ﴿114﴾ وَلَقَدْ عَهِدْنَا إِلَى آدَمَ مِن قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْمًا ﴿115﴾ وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَى ﴿116﴾ فَقُلْنَا يَا آدَمُ إِنَّ هَذَا عَدُوٌّ لَّكَ وَلِزَوْجِكَ فَلَا يُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقَى ﴿117﴾ إِنَّ لَكَ أَلَّا تَجُوعَ فِيهَا وَلَا تَعْرَى ﴿118﴾ وَأَنَّكَ لَا تَظْمَأُ فِيهَا وَلَا تَضْحَى ﴿119﴾ فَوَسْوَسَ إِلَيْهِ الشَّيْطَانُ قَالَ يَا آدَمُ هَلْ أَدُلُّكَ عَلَى شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَمُلْكٍ لَّا يَبْلَى ﴿120﴾ فَأَكَلَا مِنْهَا فَبَدَتْ لَهُمَا سَوْآتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِن وَرَقِ الْجَنَّةِ وَعَصَى آدَمُ رَبَّهُ فَغَوَى ﴿121﴾ ثُمَّ اجْتَبَاهُ رَبُّهُ فَتَابَ عَلَيْهِ وَهَدَى ﴿122﴾ قَالَ اهْبِطَا مِنْهَا جَمِيعًا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَى ﴿123﴾ وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى ﴿124﴾ قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْمَى وَقَدْ كُنتُ بَصِيرًا ﴿125﴾ قَالَ كَذَلِكَ أَتَتْكَ آيَاتُنَا فَنَسِيتَهَا وَكَذَلِكَ الْيَوْمَ تُنسَى ﴿126﴾ وَكَذَلِكَ نَجْزِي مَنْ أَسْرَفَ وَلَمْ يُؤْمِن بِآيَاتِ رَبِّهِ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَشَدُّ وَأَبْقَى ﴿127﴾ أَفَلَمْ يَهْدِ لَهُمْ كَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُم مِّنَ الْقُرُونِ يَمْشُونَ فِي مَسَاكِنِهِمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّأُوْلِي النُّهَى ﴿128﴾ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ لَكَانَ لِزَامًا وَأَجَلٌ مُسَمًّى ﴿129﴾ فَاصْبِرْ عَلَى مَا يَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا وَمِنْ آنَاء اللَّيْلِ فَسَبِّحْ وَأَطْرَافَ النَّهَارِ لَعَلَّكَ تَرْضَى ﴿130﴾ وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَى مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِّنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَيَاةِ الدُّنيَا لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِ وَرِزْقُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَأَبْقَى ﴿131﴾ وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا لَا نَسْأَلُكَ رِزْقًا نَّحْنُ نَرْزُقُكَ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَى ﴿132﴾ وَقَالُوا لَوْلَا يَأْتِينَا بِآيَةٍ مِّن رَّبِّهِ أَوَلَمْ تَأْتِهِم بَيِّنَةُ مَا فِي الصُّحُفِ الْأُولَى ﴿133﴾ وَلَوْ أَنَّا أَهْلَكْنَاهُم بِعَذَابٍ مِّن قَبْلِهِ لَقَالُوا رَبَّنَا لَوْلَا أَرْسَلْتَ إِلَيْنَا رَسُولًا فَنَتَّبِعَ آيَاتِكَ مِن قَبْلِ أَن نَّذِلَّ وَنَخْزَى ﴿134﴾ قُلْ كُلٌّ مُّتَرَبِّصٌ فَتَرَبَّصُوا فَسَتَعْلَمُونَ مَنْ أَصْحَابُ الصِّرَاطِ السَّوِيِّ وَمَنِ اهْتَدَى ﴿135﴾۔

(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

طا۔ ھا۔ (1) ہم نے اس لئے آپ پر قرآن نازل نہیں کیا کہ آپ مشقت میں پڑ جائیں۔ (2) بلکہ (اس لئے نازل کیا ہے کہ) جو (خدا سے) ڈرنے والا ہے اس کی یاددہانی ہو۔ (3) (یہ) اس ہستی کی طرف سے نازل ہوا ہے جس نے زمین اور بلند آسمانوں کو پیدا کیا ہے۔ (4) وہ خدائے رحمن ہے جس کا عرش پر اقتدار قائم ہے۔ (5) جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے اور جو کچھ زمین کے نیچے ہے سب اسی کا ہے۔ (6) اگر تم پکار کر بات کرو (تو تمہاری مرضی) وہ تو راز کو بلکہ اس سے بھی زیادہ مخفی بات کو جانتا ہے۔ (7) وہ الٰہ ہے اس کے سوا کوئی الہ نہیں ہے۔ سب اچھے اچھے نام اسی کے لئے ہیں۔ (8) کیا آپ(ص) تک موسیٰ کا واقعہ پہنچا ہے؟ (9) جب انہوں نے آگ دیکھی تو انہوں نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ تم (یہیں) ٹھہرو۔ میں نے آگ دیکھی ہے شاید تمہارے لئے ایک آدھ انگارا لے آؤں یا آگ کے پاس راستہ کا کوئی پتّہ پاؤں؟ (10) تو جب اس کے پاس گئے تو انہیں آواز دی گئی کہ اے موسیٰ! (11) میں ہی تمہارا پروردگار ہوں! پس اپنی جوتیاں اتار دو (کیونکہ) تم طویٰ نامی ایک مقدس وادی میں ہو۔ (12) اور میں نے تمہیں (پیغمبری کیلئے) منتخب کیا ہے۔ پس (تمہیں) جو کچھ وحی کی جاتی ہے اسے غور سے سنو۔ (13) بےشک میں ہی اللہ ہوں۔ میرے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے پس میری عبادت کرو اور میری یاد کیلئے نماز قائم کرو۔ (14) یقیناً قیامت آنے والی ہے میں اسے پوشیدہ رکھنا چاہتا ہوں تاکہ ہر شخص کو اس کی سعی و کوشش کا معاوضہ مل جائے۔ (15) پس (خیال رکھنا) کہیں وہ شخص جو اس پر ایمان نہیں رکھتا اور اپنی خواہش نفس کا پیرو ہے تمہیں اس کی فکر سے روک نہ دے ورنہ تم تباہ ہو جاؤگے۔ (16) اور اے موسیٰ! تمہارے دائیں ہاتھ میں کیا ہے؟ (17) کہا وہ میرا عصا ہے میں اس پر ٹیک لگاتا ہوں اور اس سے اپنی بکریوں کیلئے (درختوں سے) پتے جھاڑتا ہوں اور میرے لئے اس میں اور بھی کئی فائدے ہیں۔ (18) ارشاد ہوا اے موسیٰ! اسے پھینک دو۔ (19) چنانچہ موسیٰ نے اسے پھینک دیا تو وہ ایک دم دوڑتا ہوا سانپ بن گیا۔ (20) ارشاد ہوا اسے پکڑ لو۔ اور ڈرو نہیں ہم ابھی اسے اس کی پہلی حالت کی طرف پلٹا دیں گے۔ (21) اور اپنے ہاتھ کو سمیٹ کر اپنے بازو کے نیچے (بغل میں) کر لو وہ کسی برائی و بیماری کے بغیر چمکتا ہوا نکلے گا یہ دوسری نشانی ہوگی۔ (22) تاکہ ہم آپ کو اپنی بڑی نشانیوں سے کچھ دکھائیں۔ (23) جاؤ فرعون کے پاس کہ وہ بڑا سرکش ہو گیا ہے۔ (24) موسیٰ نے کہا اے میرے پروردگار! میرا سینہ کشادہ فرما۔ (حوصلہ فراخ کر)۔ (25) اور میرے کام کو میرے لئے آسان کر۔ (26) اور میری زبان کی گرہ کھول دے۔ (27) تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں۔ (28) اور میرے خاندان میں سے میرے بھائی۔ (29) ہارون کو میرا وزیر بنا۔ (30) اس کے ذریعے سے میری کمر کو مضبوط بنا۔ (31) اسے میرے کام (رسالت) میں میرا شریک بنا۔ (32) تاکہ ہم کثرت سے تیری تسبیح کریں۔ (33) اور کثرت سے تیرا ذکر کریں۔ (34) بےشک تو ہمارے حال کو خوب دیکھ رہا ہے۔ (35) خدا نے فرمایا اے موسیٰ! تمہاری درخواست منظور کر لی گئی ہے۔ (36) اور ہم ایک مرتبہ اور بھی تم پر احسان کر چکے ہیں۔ (37) جب ہم نے تمہاری ماں کی طرف وحی بھیجی جو بھیجنا تھی (جو اب بذریعہ وحی تمہیں بتائی جا رہی ہے)۔ (38) کہ اس (موسیٰ) کو صندوق میں رکھ اور پھر صندوق کو دریا میں ڈال دے پھر دریا اسے کنارہ پر پھینک دے گا (اور) اسے وہ شخص (فرعون) اٹھائے گا جو میرا بھی دشمن ہے اور اس (موسیٰ) کا بھی دشمن ہے میں نے تم پر اپنی محبت کا اثر ڈال دیا۔ (جو دیکھتا وہ پیار کرتا) اور اس لئے کہ تم میری خاص نگرانی میں پرورش پائے۔ (39) اور وہ وقت یاد کرو جب تمہاری بہن چل رہی تھی اور (فرعون کے اہل خانہ سے) کہہ رہی تھی کہ کیا میں تم لوگوں کو ایسی (دایہ) بتاؤں جو اس کی پرورش کرے؟ اور اس طرح ہم نے تمہیں تمہاری ماں کی طرف لوٹا دیا تاکہ اس کی آنکھ ٹھنڈی ہو اور رنجیدہ نہ ہو اور تم نے ایک شخص کو قتل کر دیا تھا تو ہم نے تمہیں اس غم سے نجات دی اور ہم نے تمہاری ہر طرح آزمائش کی۔ پھر تم کئی برس تک مدین کے لوگوں میں رہے اور پھر اے موسیٰ! تم اپنے معین وقت پر (یہاں) آگئے۔ (40) اور میں نے تمہیں اپنی ذات کیلئے منتخب کر لیا۔ (41) (سو اب) تم اور تمہارا بھائی میری نشانیوں کے ساتھ (فرعون کے پاس) جاؤ اور میری یاد میں سستی نہ کرنا۔ (42) تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ کہ وہ سرکش ہوگیا ہے۔ (43) اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا کہ شاید وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے۔ (44) ان دونوں نے کہا اے ہمارے پروردگار! ہمیں اندیشہ ہے کہ وہ ہم پر زیادتی کرے یا سرکشی کرے؟ (45) ارشاد ہوا تم ڈرو نہیں میں تمہارے ساتھ ہوں۔ سب کچھ سن رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں۔ (46) تم (بے دھڑک) اس کے پاس جاؤ۔ اور کہو کہ ہم تیرے پروردگار کے پیغمبر ہیں۔ سو تو بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ روانہ کر اور ان کو تکلیف نہ پہنچا۔ ہم تیرے پاس تیرے پروردگار کی طرف سے معجزہ لے کر آئے ہیں اور سلامتی ہے اس کے لئے جو ہدایت کی پیروی کرے۔ (47) بےشک ہماری طرف یہ وحی کی گئی ہے کہ عذاب اس کیلئے ہے جو (آیات اللہ کو) جھٹلائے اور (اس کے احکام سے) روگردانی کرے۔ (48) (چنانچہ وہ گئے) اور فرعون نے کہا اے موسیٰ! تمہارا پروردگار کون ہے؟ (49) موسیٰ نے کہا ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر چیز کو خلقت بخشی پھر راہنمائی فرمائی۔ (50) فرعون نے کہا پھر ان نسلوں کا کیا ہوگا جو پہلے گزر چکی ہیں؟ (51) موسیٰ نے کہا ان کا علم میرے پروردگار کے پاس ایک کتاب میں ہے میرا پروردگار نہ بھٹکتا ہے اور نہ بھولتا ہے۔ (52) وہ وہی ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو گہوارہ بنایا ہے اور اس میں تمہارے لئے راستے بنائے اور آسمان سے پانی برسایا۔ تو ہم نے اس سے مختلف اقسام کے نباتات کے جوڑے پیدا کئے۔ (53) خود بھی کھاؤ اور اپنے مویشیوں کو بھی چراؤ۔ بےشک اس (نظام قدرت) میں صاحبانِ عقل کیلئے بہت سی نشانیاں ہیں۔ (54) اسی زمین سے ہم نے تمہیں پیدا کیا ہے اور اسی میں ہم تمہیں لوٹائیں گے اور اسی سے دوبارہ تمہیں نکالیں گے۔ (55) اور ہم نے اس (فرعون) کو اپنی سب نشانیاں دکھائیں مگر اس پر بھی اس نے جھٹلایا اور انکار کیا۔ (56) اور کہا اے موسیٰ! کیا تم اس لئے ہمارے پاس آئے ہو کہ اپنے جادو کے زور سے ہمیں ہماری سرزمین سے نکال دو؟ (57) سو ہم بھی تمہارے مقابلہ میں ویسا ہی جادو لائیں گے لہٰذا تم (مقابلہ کیلئے) ہمارے اور اپنے درمیان ایک وعدہ گاہ مقرر کرو۔ جس کی نہ ہم خلاف ورزی کریں گے اور نہ تم۔ اور وہ وعدہ گاہ ہو بھی ہموار اور کھلے میدان میں۔ (58) موسیٰ نے کہا تمہارے لئے وعدہ کا دن جشن والا دن ہے اور یہ کہ دن چڑھے لوگ جمع کر لئے جائیں۔ (59) اس کے بعد فرعون واپس چلا گیا اور اپنے سب مکر و فریب (داؤ) جمع کئے اور پھر (مقابلہ کیلئے) آگیا۔ (60) موسیٰ نے (فرعونیوں سے) کہا افسوس ہے تم پر۔ اللہ پر جھوٹا بہتان نہ باندھو۔ ورنہ وہ کسی عذاب سے تمہارا قلع قمع کر دے گا۔ اور جو کوئی بہتان باندھتا ہے وہ ناکام و نامراد ہوتا ہے۔ (61) پھر وہ اپنے معاملہ میں باہم جھگڑنے لگے اور پوشیدہ سرگوشیاں کرنے لگے۔ (62) (آخرکار) انہوں نے کہا کہ یہ دونوں جادوگر ہیں جو چاہتے ہیں کہ اپنے جادو کے زور سے تمہیں تمہاری سرزمین سے نکال دیں اور تمہارے اعلیٰ و مثالی طریقہ کار کو مٹا دیں۔ (63) لہٰذا تم اپنی سب تدبیریں (داؤ پیچ) جمع کرو۔ اور پرا باندھ کر (مقابلہ میں) آجاؤ۔ یقیناً فلاح وہی پائے گا جو غالب آئے گا۔ (64) ان لوگوں (جادوگروں) نے کہا اے موسیٰ تم پہلے پھینکوگے یا پہلے ہم پھینکیں؟ (65) موسیٰ علیہ السلام نے کہا: نہیں۔ بلکہ تم ہی (پہلے) پھینکو! پس اچانک ان کی رسیاں اور لاٹھیاں ان کے جادو کی وجہ سے موسیٰ کو دوڑتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ (66) (یہ منظر دیکھ کر) موسیٰ نے اپنے دل میں کچھ خوف محسوس کیا۔ (67) ہم نے کہا (اے موسیٰ) ڈرو نہیں بےشک تم ہی غالب رہوگے۔ (68) اور جو تمہارے دائیں ہاتھ میں (عصا) ہے اسے پھینک دو۔ یہ ان کی سب بناوٹی چیزوں کو نگل جائے گا۔ جو کچھ انہوں نے بنایا ہے وہ جادوگر کا فریب ہے اور جادوگر کہیں بھی آئے (جائے) کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ (69) چنانچہ (ایسا ہی ہوا کہ) سب جادوگر (بے ساختہ) سجدے میں گرا دیئے گئے (اور)کہنے لگے کہ ہم ہارون اور موسیٰ کے پروردگار پر ایمان لائے ہیں۔ (70) فرعون نے کہا تم اس پر ایمان لے آئے قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دوں یہی تمہارا وہ بڑا (جادوگر) ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا ہے اب میں ضرور تمہارے ہاتھ پاؤن مخالف سمت سے کٹواتا ہوں اور تمہیں کھجور کے تنوں پر سولی دیتا ہوں پھر تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ ہم (دونوں) میں اور موسیٰ میں سے کس کا عذاب سخت اور دیرپا ہے؟ (71) جادوگروں نے کہا ہمارے پاس جو کھلی نشانیاں آچکی ہیں ہم ان پر اور اس ذات پر جس نے ہمیں پیدا کیا ہے۔ کبھی تجھے ترجیح نہیں دیں گے بےشک تو جو فیصلہ کرنا چاہتا ہے وہ تو (زیادہ سے زیادہ) اسی دنیاوی زندگی (کے ختم کرنے) کا فیصلہ کر سکتا ہے۔ (72) ہم تو اپنے پروردگار پر ایمان لا چکے ہیں تاکہ وہ ہماری خطاؤں کو اور اس جادوگری کو جس پر تو نے ہمیں مجبور کیا تھا معاف کر دے۔ ہمارے لئے اللہ ہی بہتر ہے اور وہی زیادہ دیرپا ہے۔ (73) بےشک جو کوئی مجرم بن کر اپنے پروردگار کی بارگاہ میں حاضر ہوگا اس کیلئے وہ جہنم ہے جس میں وہ نہ مرے گا اور نہ جیئے گا۔ (74) اور جو کوئی مؤمن بن کر اس کی بارگاہ میں حاضر ہوگا۔ جب کہ اس نے نیک عمل بھی کئے ہوں گے ان کے لئے بڑے بلند درجے ہیں۔ (75) (اور) ہمیشہ رہنے والے باغات جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ اس کی جزاء ہے جو پاکباز رہا۔ (76) اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی کہ میرے بندوں (بنی اسرائیل) کو لے کر نکل جاؤ پھر (عصا مار کر) ان کیلئے سمندر سے خشک راستہ بناؤ۔ نہ تمہیں پیچھے سے ان کے پکڑے جانے کا خطرہ ہو اور نہ ہی (غرق وغیرہ کا) کوئی اندیشہ۔ (77) پھر فرعون نے اپنی فوجوں کے ساتھ ان کا پیچھا کیا تو انہیں سمندر نے ڈھانپ لیا جیساکہ ڈھانپنے کا حق تھا۔ (78) اور فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ ہی کیا کوئی راہنمائی نہیں کی۔ (79) اے بنی اسرائیل! ہم نے تمہیں تمہارے دشمن سے نجات دی اور تم سے کوہ طور کی دائیں جانب توریت دینے کا قول و قرار کیا۔ اور تم پر من و سلویٰ نازل کیا۔ (80) تم سے کہا گیا کہ جو پاکیزہ روزی تمہیں دی گئی ہے اس سے کھاؤ اور اس کے بارے میں سرکشی نہ کرو (حد سے نہ گزرو) ورنہ تم پر میرا غضب نازل ہوگا اور جس پر میرا غضب نازل ہو جائے وہ ہلاک ہی ہوگیا۔ (81) اور جو کوئی توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک عمل بجا لائے اور پھر راہِ راست پر قائم رہے تو میں اس کو بہت ہی بخشنے والا ہوں۔ (82) اے موسیٰ! اپنی قوم سے پہلے کیا چیز تمہیں جلدی لے آئی؟ (83) موسیٰ نے کہا: وہ لوگ میرے نقش قدم پر آرہے ہیں۔ اور اے میرے پروردگار! میں اس لئے جلدی تیری بارگاہ میں حاضر ہوگیا ہوں کہ تو خوش ہو جائے۔ (84) ارشاد ہوا۔ ہم نے تمہارے بعد تمہاری قوم کو آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ اور سامری نے انہیں گمراہ کر دیا ہے۔ (85) پس موسیٰ غصہ میں افسوس کرتے ہوئے اپنی قوم کی طرف لوٹے (اور) کہا اے میری قوم! کیا تمہارے پروردگار نے تم سے بڑا اچھا وعدہ نہیں کیا تھا؟ تو کیا تم پر (وعدہ سے) زیادہ مدت گزر گئی؟ یا تم نے چاہا کہ تمہارے رب کا غضب تم پر نازل ہو؟ اس لئے تم نے مجھ سے وعدہ خلافی کی؟ (86) قوم نے کہا کہ ہم نے اپنے اختیار سے تو آپ سے وعدہ خلافی نہیں کی (البتہ بات یوں ہوئی) کہ ہمیں اس جماعت کے زیورات جمع کرکے لانے پر آمادہ کیا گیا اور یہ سامری ایک (سنہرا) بچھڑا نکال کر لایا۔ جس سے گائے کی سی آواز نکلتی تھی۔ (87) تو لوگوں سے کہا یہی تمہارا خدا ہے اور موسیٰ کا بھی جسے وہ بھول گئے ہیں۔ (88) کیا وہ اتنا بھی نہیں دیکھتے کہ وہ (گؤ سالہ) ان کی کسی بات کا جواب نہیں دیتا اور نہ ہی وہ ان کو نقصان یا نفع پہنچانے کا کوئی اختیار رکھتا ہے۔ (89) اور ہارون نے اس سے پہلے ہی ان سے کہہ دیا تھا کہ اے میری قوم! تم اس (گو سالہ) کی وجہ سے آزمائش میں پڑ گئے ہو۔ اور یقیناً تمہارا پروردگار خدائے رحمن ہے سو تم میری پیروی کرو۔ اور میرے حکم کی تعمیل کرو۔ (90) مگر قوم نے کہا کہ ہم تو برابر اس کی عبادت پر جمے رہیں گے یہاں تک کہ موسیٰ ہماری طرف آجائیں۔ (91) موسیٰ نے کہا اے ہارون! جب تم نے دیکھا کہ یہ لوگ گمراہ ہوگئے ہیں۔ (92) تو تمہیں کس چیز نے میری پیروی کرنے سے روکا؟ کیا تم نے میرے حکم کی خلاف ورزی کی ہے؟ (93) ہارون نے کہا: اے میرے ماں جائے! میری ڈاڑھی اور میرا سر نہ پکڑئیے! مجھے تو یہ ڈر تھا کہ کہیں آپ یہ نہ کہیں کہ تم نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا۔ اور میری بات کا خیال نہیں کیا (یا میرے حکم کا انتظار نہ کیا؟)۔ (94) (بعد ازاں) کہا اے سامری! تیرا کیا معاملہ ہے؟ (95) اس نے کہا کہ میں نے ایک ایسی چیز دیکھی جو اور لوگوں نے نہیں دیکھی تو میں نے (خدا کے) فرستادہ کے نقش قدم سے ایک مٹھی (خاک) اٹھا لی۔ اور اسے (اس گو سالہ میں) ڈال دیا۔ میرے نفس نے مجھے یہ بات سجھائی (اور میرے لئے آراستہ کر دی)۔ (96) موسیٰ نے کہا جا چلا جا! تیرے لئے اس زندگی میں یہ (سزا) ہے کہ تو کہتا رہے گا کہ مجھے کوئی نہ چھوئے (کہ میں اچھوت ہوں) اور تیرے لئے (آخرت میں عذاب) کا ایک وعدہ ہے جو تجھ سے ٹلنے والا نہیں ہے۔ اور اب دیکھ اپنے اس معبود کو جس کی پرستش پر تو جما بیٹھا رہا۔ ہم (پہلے) اسے جلائیں گے اور پھر اس کی راکھ کو اڑا کر سمندر میں بہائیں گے۔ (97) اے لوگو! تمہارا الٰہ تو بس اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی الہ نہیں ہے۔ اور وہ ہر چیز کا علمی احاطہ کئے ہوئے ہے۔ (98) (اے رسول) ہم اسی طرح گزرے ہوئے واقعات کی کچھ خبریں آپ سے بیان کرتے ہیں اور ہم نے اپنی طرف سے آپ کو ایک نصیحت نامہ (قرآن) عطا کیا ہے۔ (99) جو کوئی اس سے روگردانی کرے گا تو وہ قیامت کے دن (اپنے اس جرم کا) بوجھ خود اٹھائے گا۔ (100) ایسے لوگ ہمیشہ اسی حالت میں گرفتار رہیں گے اور قیامت کے دن یہ بوجھ بڑا برا بوجھ ہوگا۔ (101) جس دن صور پھونکا جائے گا تو ہم مجرموں کو اس طرح محشور کریں گے کہ ان کی آنکھیں نیلی ہوں گی۔ (102) وہ آپس میں چپکے چپکے کہیں گے کہ تم (دنیا و برزخ میں) کوئی دس دن ہی رہے ہوگے۔ (103) ہم خوب جانتے ہیں جو وہ کہہ رہے ہوں گے جبکہ ان کا سب سے زیادہ صائب الرائے یہ کہتا ہوگا کہ تم تو بس ایک دن رہے ہو۔ (104) (اے رسول(ص)) لوگ آپ سے پہاڑوں کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ (قیامت کے دن کہاں جائیں گے)؟ تو آپ کہہ دیجئے! کہ میرا پروردگار ان کو (ریزہ ریزہ کرکے) اڑا دے گا۔ (105) پھر ان کی جگہ زمین کو اس طرح چٹیل میدان بنا دے گا۔ (106) کہ تم اس میں نہ کوئی ناہمواری دیکھوگے اور نہ بلندی۔ (107) اس روز لوگ ایک پکارنے والے (اسرافیل) کے پیچھے اس طرح سیدھے آئیں گے جس میں کوئی کجی نہ ہوگی اور خدا کے سامنے اور سب آوازیں دب جائیں گی پس تم قدموں کی آہٹ کے سوا کچھ نہیں سنوگے۔ (108) اس دن کوئی شفاعت فائدہ نہیں دے گی سوائے اس کے جس کو خدا اجازت دے گا اور اس کے بولنے کو پسند کرے گا۔ (109) جو کچھ لوگوں کے آگے ہے (آنے والے حالات) اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے (گزرے ہوئے واقعات) وہ سب کچھ جانتا ہے مگر لوگ اپنے علم سے اس کا احاطہ نہیں کر سکتے۔ (110) سب کے چہرے حی و قیوم کے سامنے جھکے ہوئے ہوں گے اور جو شخص ظلم کا بوجھ اٹھائے گا وہ ناکام و نامراد ہو جائے گا۔ (111) اور جو کوئی نیک کام کرے درآنحالیکہ وہ مؤمن بھی ہو تو اسے نہ ظلم و زیادتی کا اندیشہ ہوگا اور نہ کمی و حق تلفی کا۔ (112) اور اس طرح ہم نے اس (کتاب) کو عربی زبان میں قرآن بنا کر نازل کیا ہے اس میں وعید و تہدید بیان کی ہے تاکہ وہ پرہیزگار بن جائیں یا وہ ان میں نصیحت پذیری پیدا کر دے۔ (113) بلند و برتر ہے اللہ جو حقیقی بادشاہ ہے اور (اے پیغمبر(ص)) جب تک قرآن کی وحی آپ پر پوری نہ ہو جائے اس (کے پڑھنے) میں جلدی نہ کیا کیجئے۔ اور دعا کیجئے کہ (اے پروردگار) میرے علم میں اور اضافہ فرما۔ (114) اور ہم نے اس سے پہلے آدم سے عہد لیا تھا مگر وہ بھول گئے اور ہم نے ان میں عزم و ثبات نہ پایا۔ (115) اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم (ع) کے سامنے سجدہ میں گر جاؤ۔ (چنانچہ) ابلیس کے سوا سب سجدے میں گر گئے۔ (116) سو ہم نے کہا اے آدم (ع)! یہ آپ کا اور آپ کی زوجہ کا دشمن ہے یہ کہیں آپ دونوں کو جنت سے نکلوا نہ دے؟ ورنہ مشقت میں پڑ جائیں گے۔ (117) بیشک تم اس میں نہ کبھی بھوکے رہوگے اور نہ ننگے۔ (118) اور نہ یہاں پیاسے رہوگے اور نہ دھوپ کھاؤگے۔ (119) پھر شیطان نے ان کے دل میں وسوسہ ڈالا (اور) کہا اے آدم! کیا میں تمہیں بتاؤں ہمیشگی والا درخت اور نہ زائل ہونے والی سلطنت؟ (120) پس ان دونوں نے اس (درخت) میں سے کچھ کھایا۔ تو ان پر ان کے قابل ستر مقامات ظاہر ہوگئے اور وہ اپنے اوپر جنت کے پتے چپکانے لگے اور آدم نے اپنے پروردگار (کے امر ارشادی) کی خلاف ورزی کی اور (اپنے مقصد میں) ناکام ہوئے۔ (121) اس کے بعد ان کے پروردگار نے انہیں برگزیدہ کیا (چنانچہ) ان کی توبہ قبول کی اور ہدایت بخشی۔ (122) فرمایا (اب) تم زمین پر اتر جاؤ ایک دوسرے کے دشمن ہوکر پھر اگر تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت پہنچے تو جو کوئی میری ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ گمراہ ہوگا اور نہ بدبخت ہوگا۔ (123) اور جو کوئی میری یاد سے روگردانی کرے گا تو اس کے لئے تنگ زندگی ہوگی۔ اور ہم اسے قیامت کے دن اندھا محشور کریں گے۔ (124) وہ کہے گا اے میرے پروردگار! تو نے مجھے اندھا کیوں محشور کیا ہے حالانکہ میں آنکھوں والا تھا؟ (125) ارشاد ہوگا اسی طرح ہماری آیات تیرے پاس آئی تھیں اور تو نے انہیں بھلا دیا تھا اسی طرح آج تجھے بھی بھلا دیا جائے گا اور نظر انداز کر دیا جائے گا۔ (126) اور جو کوئی حد سے تجاوز کرے اور اپنے پروردگار کی بات پر ایمان نہ لائے تو ہم اسے اسی طرح (دنیا میں) سزا دیتے ہیں اور آخرت کا عذاب تو اور بھی بڑا سخت اور پائیدار ہے۔ (127) کیا (اس بات سے بھی) انہیں ہدایت نہ ملی کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی نسلیں (ان گناہوں کی پاداش میں) ہلاک کر دیں جن کے مکانوں میں (آج) یہ چلتے پھرتے ہیں بےشک اس میں صاحبان عقل کیلئے خدا کی قدرت کی بڑی نشانیاں ہیں۔ (128) اور (اے رسول(ص)) اگر آپ کے پروردگار کی طرف سے ایک بات طے نہ کر دی گئی ہوتی اور ایک (مہلت کی) مدت معین نہ ہو چکی ہوتی تو (عذاب) لازمی طور پر آچکا ہوتا۔ (129) سو آپ ان کی باتوں پر صبر کیجئے اور طلوع آفتاب سے پہلے اور غروب آفتاب سے پہلے اور رات کے اوقات میں بھی اور دن کے اول و آخر میں بھی اپنے پروردگار کی حمد و ثناء کے ساتھ تسبیح کیجئے تاکہ آپ راضی ہو جائیں۔ (130) اور جو کچھ ہم نے مختلف لوگوں کو آزمائش کیلئے دنیا کی زیب و زینت اور آرائش دے رکھی ہے اس کی طرف نگاہیں اٹھا کر بھی نہ دیکھیں اور آپ کے پروردگار کا دیا ہوا رزق بہتر ہے اور زیادہ پائیدار ہے۔ (131) اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیں اور خود بھی اس پر قائم و برقرار رہیں ہم آپ سے روزی طلب نہیں کرتے۔ ہم تو خود آپ کو روزی دیتے ہیں اور انجام بخیر تو پرہیزگاری کا ہی ہے۔ (132) اور یہ لوگ (اہل مکہ) کہتے ہیں کہ یہ (رسول) ہمارے پاس اپنے پروردگار کی طرف سے کوئی نشانی (معجزہ) کیوں نہیں لاتے۔ کیا ان کے پاس اگلی کتابوں کا کھلا ہوا ثبوت نہیں آیا؟ (133) اور اگر ہم اس (رسول) سے پہلے انہیں عذاب سے ہلاک کر دیتے تو یہ کہتے اے ہمارے پروردگار! تو نے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہ بھیجا؟ کہ ہم ذلیل و رسوا ہونے سے پہلے تیری آیتوں کی پیروی کرتے۔ (134) آپ کہہ دیجئے! کہ ہر ایک اپنے (انجام کا) انتظار کر رہا ہے سو تم بھی انتظار کرو۔ عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ سیدھی راہ والے کون ہیں؟ اور ہدایت یافتہ کون ہیں۔ (135)

پچھلی سورت: سورہ مریم سورہ طہ اگلی سورت:سورہ انبیاء

1.فاتحہ 2.بقرہ 3.آل‌عمران 4.نساء 5.مائدہ 6.انعام 7.اعراف 8.انفال 9.توبہ 10.یونس 11.ہود 12.یوسف 13.رعد 14.ابراہیم 15.حجر 16.نحل 17.اسراء 18.کہف 19.مریم 20.طہ 21.انبیاء 22.حج 23.مؤمنون 24.نور 25.فرقان 26.شعراء 27.نمل 28.قصص 29.عنکبوت 30.روم 31.لقمان 32.سجدہ 33.احزاب 34.سبأ 35.فاطر 36.یس 37.صافات 38.ص 39.زمر 40.غافر 41.فصلت 42.شوری 43.زخرف 44.دخان 45.جاثیہ 46.احقاف 47.محمد 48.فتح 49.حجرات 50.ق 51.ذاریات 52.طور 53.نجم 54.قمر 55.رحمن 56.واقعہ 57.حدید 58.مجادلہ 59.حشر 60.ممتحنہ 61.صف 62.جمعہ 63.منافقون 64.تغابن 65.طلاق 66.تحریم 67.ملک 68.قلم 69.حاقہ 70.معارج 71.نوح 72.جن 73.مزمل 74.مدثر 75.قیامہ 76.انسان 77.مرسلات 78.نبأ 79.نازعات 80.عبس 81.تکویر 82.انفطار 83.مطففین 84.انشقاق 85.بروج 86.طارق 87.اعلی 88.غاشیہ 89.فجر 90.بلد 91.شمس 92.لیل 93.ضحی 94.شرح 95.تین 96.علق 97.قدر 98.بینہ 99.زلزلہ 100.عادیات 101.قارعہ 102.تکاثر 103.عصر 104.ہمزہ 105.فیل 106.قریش 107.ماعون 108.کوثر 109.کافرون 110.نصر 111.مسد 112.اخلاص 113.فلق 114.ناس


حوالہ جات

  1. صفوی، «سورہ طہ»، ص۷۶۰.
  2. خرمشاہی، «سورہ طہ»، ص۱۲۴۲.
  3. معرفت، آموزش علوم قرآن، ۱۳۷۱ش، ج۲، ص۱۶۶.
  4. خرمشاہی، «سورہ طہ»، ص۱۲۴۲.
  5. صفوی، «سورہ طہ»، ص۷۶۰.
  6. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۴، ص۱۱۸۔
  7. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۳، ص۱۵۴۔
  8. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۴، ص۱۱۸؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۳، ص۱۵۴۔
  9. خامہ‌گر، محمد، ساختار سورہ‌ہای قرآن کریم، تہیہ مؤسسہ فرہنگی قرآن و عترت نورالثقلین، قم، نشر نشرا، چ۱، ۱۳۹۲ش.
  10. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۳، ص۱۵۶.
  11. واحدی، اسباب نزول القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۳۱۲.
  12. واحدی، اسباب نزول القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۳۱۲.
  13. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۴، ص۱۲۰-۱۲۱؛ مغنیه، الکاشف، ۱۴۲۴ق، ج۵، ص۲۰۵؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۳، ص۱۶۰؛ صادقی تہرانی، الفرقان، ۱۴۰۶ق، ج۱۹، ص۱۹.
  14. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۴، ص۱۲۱.
  15. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۴، ص۱۱۹.
  16. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۳، ص۱۶۳.
  17. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۴، ص۱۲۴.
  18. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۴، ص۱۴۵.
  19. مغنیہ، الکاشف، ۱۴۲۴ق، ج۵، ص۲۱۲.
  20. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۳، ص۳۱۲؛ مغنیہ، الکاشف، ۱۴۲۴ق، ج۵، ص۲۴۸.
  21. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۷، ص۵۱-۵۲.
  22. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۷، ص۵۲.
  23. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۸۷ش، ج۱۳، ص۳۲۷.
  24. مغنیہ، الکاشف، ۱۴۲۴ق، ج۵، ص۲۵۲.
  25. اردبیلی، زبدۃ البیان، مکتبہ المرتضویہ، ص۵۰-۵۱، ۶۰، ۱۱۰.
  26. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۳ش، ج۷، ص۵.
  27. صدوق، ثواب الاعمال، ۱۴۰۶ق، ص۱۰۸.
  28. بحرانی، تفسیرالبرهان، ۱۴۱۵ق، ج۳، ص۷۴۵.

مآخذ

  • قرآن کریم، ترجمہ محمد حسین نجفی (سرگودھا)۔
  • اردبیلی، احمد بن محمد، زبدۃ البیان فی احکام القرآن، محقق محمدباقر بہبودی، تہران، مکتبہ المرتضویہ، بی تا۔
  • بحرانی، ہاشم بن سلیمان، البرہان فی تفسیر القرآن، قم، مؤسسہ البعثہ، قسم الدراسات الاسلامیہ، ۱۳۸۹ش۔
  • خرمشاہی، قوام الدین، «سورہ طہ»، در دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، بہ کوشش بہاء الدین خرمشاہی، تہران، دوستان-ناہید، ۱۳۷۷ش۔
  • صادقی تہرانی، محمد، الفرقان فی تفسیر القرآن بالقرآن و السنۃ، قم، فرہنگ اسلامی، ۱۴۰۶ق۔
  • صدوق، محمد بن علی، ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، قم، دار الشریف الرضی للنشر، ۱۴۰۶ق۔
  • صفوی، سلمان، «سورہ طہ»، در دانشنامہ معاصر قرآن کریم، قم، انتشارات سلمان آزادہ، ۱۳۹۶ش۔
  • طباطبایی، سیدمحمدحسین، المیزان فی تفسیرالقرآن، بیروت، موسسہ الاعلمی للمطبوعات، ۱۳۹۰ق۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تحقیق و مقدمہ محمد جواد بلاغی، انتشارات ناصر خسرو، تہران، ۱۳۷۳ش۔
  • معرفت، محمدہادی، آموزش علوم قرآن، [بی‌جا]، مرکز چاپ و نشر سازمان تبلیغات اسلامی، چ۱، ۱۳۷۱ش۔
  • مغنیہ، محمدجواد، تفسیر الکاشف، قم، دارالکتاب الاسلامیہ، ۱۴۲۴ق۔
  • مكارم شيرازى، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الكتب الإسلاميۃ، ۱۳۷۱ش۔
  • واحدی، علی بن احمد، اسباب نزول القرآن‏، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۱ق۔

بیرونی روابط