مفاتیح الجنان (کتاب)

ویکی شیعہ سے
مفاتیح الجنان
مفاتیح الجنان
مشخصات
مصنفشیخ عباس قمی(متوفی 1359 ھ)
موضوعدعا، مناجات و زیارت
زبانعربی و فارسی
تعداد جلد۱ جلد
طباعت اور اشاعت
سنہ اشاعت1344 ھ


دعا و مناجات

مفاتیح الجنان جس کے معنی جنت کی کنجیوں کے ہیں، شیعوں کے یہاں سب سے زیادہ معروف اور مشہور دعاؤں کی کتاب ہے جسے شیخ عباس قمی نے تالیف کیا ہے۔ یہ کتاب پیغمبر اکرمؐ، ائمہ معصومینؑ اور بعض جلیل القدر شیعہ علماء سے منقول مختلف دعاؤں، مناجاتوں، زیارتوں، سال کے مختلف مہینوں اور ایام کے مخصوص اعمال و عبادات پر مشتمل ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف دینی آداب و رسوم کا مجموعہ ہے۔ مؤلف نے اس کتاب کے اکثر مضامین کو سابقہ کتب منجملہ: اقبال الاعمال، زاد المعاد اور مصباح کفعمی سے اقتباس کیا ہے۔

مفاتیح الجنان پہلی مرتبہ سنہ 1344 ہجری کو مشہد مقدس میں شایع ہوئی اور مختصر عرصے میں ہمہ گیر ہوئی۔ یہ کتاب پوری دنیا کے شیعیان اہل بیت ؑ کے گھروں، مساجد و مقدس مقامات پر قرآن کے ساتھ ساتھ پائی جاتی ہے اور خاص دینی، مذہبی مواقع اور مناسبتوں میں مستحب اعمال کے لئے اس کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ فارسی میں مفاتیح الجنان کا مشہور ترین ترجمہ مہدی الہی قمشہ ای کا ترجمہ ہے جبکہ اردو سمیت دنیا کی تقریبا تمام زندہ زبانوں میں اس کتاب کا ترجمہ موجود ہے۔ محدث قمی نے اپنی کتاب باقیات الصالحات کو بھی مفاتیح کی طرز پر تحریر اور اس کے ساتھ ضمیمہ کیا ہے جو مختلف اشاعتوں میں مفاتیح کے حاشیے کے طور پر درج ہے۔

مفاتیح نوین اور منہاج الحیاۃ مفاتیح الجنان کے مضامین کی مستند سازی اور مفاتیح الحیات، مفاتیح الجنان کی تکمیل کی خاطر لکھی گئی ہے۔ اس کتاب کے مختلف خلاصے مختلف ناموں سے منظر عام پر آ چکے ہیں۔

مولف

شیخ عباس قمی کا مکمل نام عباس بن محمد رضا قمی (1294-1359 ھ) تھا۔ وہ اپنے زمانے کے ایک محدث، مورخ ہونے کے ساتھ ایک خطیب بھی تھے۔ انہوں نے مختلف موضوعات پر کتابیں تالیف کیں۔ مفاتیح الجنان، سفینۃ البحار اور منتہی الآمال ان کی معروف ترین تالیفات میں سے ہیں۔ محدث قمی سنہ 1359ھ کو نجف میں وفات پائے اور حرم امیرالمؤمنین میں مدفون ہیں۔[1] ان کے بیٹے کے مطابق شیخ عباس قمی نے مفاتیح الجنان کی مکمل تالیف وضو اور طہارت کے ساتھ انجام دی۔[2]

سبب تالیف

شیخ عباس قمی خود اس حوالے سے فرماتے ہیں کہ اس کتاب کو میں نے مِفتاح الجنان کی اصلاح کی خاطر لکھا جو اس زمانے میں دعاؤں کی رائج ترین کتاب تھی لیکن اس میں بغیر سند کے دعائیں مذکور تھیں۔ بعض مؤمنین نے مجھ سے تقاضا کیا کہ مفتاح الجنان کی سند پر مشتمل دعاوں کو جدا کر کے دیگر معتبر دعاوں کے ساتھ تحریر کروں۔[3]

لیکن اسکے باوجود شیخ عباس قمی نے مفاتیح میں بھی دعاوں کو ان کے اسناد کے ساتھ ذکر نہیں کیا ہے بلکہ صرف انکے مآخذ کے ذکر کرنے پر اکتفاء کیا۔[4] نیز مفاتیح الجنان میں بھی بعض ایسی دعائیں نقل کی ہیں جو ائمہ معصومین سے نقل نہیں ہوئیں بلکہ بعض علما کی زبان سے نقل ہوئی ہیں جیسے دعائے عدیلہ۔[5]

کتاب کا ڈھانچا و اجمالی فہرست

مفاتیح الجنان کے آغاز پر قرآن کریم کی چند سورتیں درج ہیں جس کے بعد یہ کتاب مختلف حصوں پر مشتمل ہے:

پہلا حصہ: دعائیں

یہ حصہ نمازوں کے بعد پڑھی جانے والی دعاؤں (تعقیبات) اور ہفتے کے شب و روز کے اعمال پر مشتمل ہے۔ اس حصے میں موجود مشہور نمازوں میں منجملہ: نماز رسول اکرم ؐ، نماز امیرالمؤمنین ؑ، نماز حضرت فاطمہ (س) اور نماز جعفر طیار قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ اس حصے میں ہفتے کے مختلف ایام میں معصومین ؑ کی زیارت، بعض دعائیں اور مناجاتیں جیسے: امام سجاد ؑ سے منقول مناجات خمسۃ عشر، مسجد کوفہ میں علی ؑ کی مناجات، دعائے سمات، دعائے کمیل، دعائے جوشن صغیر، دعائے جوشن کبیر اور دعائے مکارم الاخلاق وغیرہ ذکر ہوئی ہیں۔

دوسرا حصہ: سال کے اعمال

اس حصے میں ہجری قمری سال کی مختلف مناسبتوں کے مستحب اعمال بیان کئے گئے ہیں۔ اس حصے کا آغاز ماہ رجب کے اعمال کے بیان سے ہوا ہے اور آخر میں جمادی الثانی تک کے اعمال کو مفصل طور پر بیان کیا گیا ہے اور اس حصے کا خاتمہ نوروز اور رومی مہینوں کے اعمال کے بیان پر ہوا ہے۔

ماہ شعبان کے اعمال میں مناجات شعبانیہ، ماہ رمضان کے اعمال میں دعائے ابوحمزہ ثمالی، دعائے افتتاح، دعائے سحرِ معروف اور لیلۃ القدر کے اعمال اور ماہ ذوالحجہ کے اعمال کے ضمن میں مام حسینؑ کی دعائے عرفہ اس حصے میں مندرج مشہورترین اعمال اور دعائیں ہیں جو مفاتیح کی معروف ترین دعاؤں میں شمار ہوتی ہیں۔

تیسرا حصہ: زیارات

اس حصے کے آغاز میں سفر اور زیارت کے آداب نیز مراقد مقدسہ و مشاہد مشرفہ میں داخل ہونے کیلئے اذن دخول کو ذکر کیا گیا ہے۔

اس حصے کی پہلی زیارت رسول خداؐ کی زیارت ہے جس کے بعد حضرت فاطمہ(س) کی زیارت اور بعد ازاں ائمۂ بقیع کی زیارت درج ہے۔

ائمہ معصومینؑ کی زیارتوں کے علاوہ اس حصے میں امام زادگان، نیز بعض بزرگان دین اور شیعہ علمائے کرام کے زیارت نامے بھی شامل ہیں۔ حضرت حمزہ، مسلم بن عقیل، فاطمہ بنت اسد(س)، شہدائے احد، سلمان فارسی وغیرہ کے زیارتنامے، اور مسجد کوفہ اور مسجد صعصعہ سمیت بعض معروف و مشہور مساجد کے اعمال بھی اسی باب میں مندرج ہیں۔

اس باب کا طویل ترین حصہ زیارت امام حسین سے مختص کیا گیا ہے۔ امام حسینؑ کے مشہور ترین زیارت نامے اسی حصے میں مندرج ہیں جیسے: زیارت عاشورا، زیارت اربعین اور زیارت وارث۔

شیخ عباس قمی، نے دعائے ندبہ، دعائے عہد، اور زیارت جامعۂ کبیرہ کو زیارت امام زمانہ(عج) کے حصے میں قرار دیا ہے۔

امام زمانہ(عج) کے مختلف زیارتناموں کے بعد زیارت انبیاء، زیارت حضرت معصومہ(س) اور زیارت عبدالعظیم حسنی درج ہیں۔

مفاتیح کے اس حصے کا آخری موضوع جو مفاتیح کی ابتدائی نسخے کے مطابق مفاتیح کے آخری مطالب میں شمار ہوتے ہیں، زیارت قبور مؤمنین اور اس سے متعلقہ دعاؤں سے مربوط ہے۔

مفاتیح الجنان کے ملحقات

مؤلف نے دوسری اشاعت میں ملحقات مفاتیح الجنان کے عنوان سے ایک اور باب کا اضافہ کیا ہے جس میں مؤلف نے آٹھ مطالب کا اضافہ کیا ہے جن کی تفصیل یہ ہیں:

  1. دعا و وداع رمضان المبارک
  2. عید فطر کے خطبے
  3. زیارت جامعۂ ائمۃ المؤمنین
  4. زیارت کے بعد پڑھی جانے والی دعا
  5. زیارت وداع ائمہ ؑ
  6. رقعۂ حاجت
  7. غیبت امام زمانہ(عج) کی دعا
  8. نیابتی زیارت کے آداب

مؤلف نے اس کتاب میں مزید کسی چیز کے اضافے کی خوف سے ایسا کرنے والوں کو خدا و رسول اور ائمہ اطہار کی لعنت کا مستحق قرار دیا ہے۔[6] لیکن ان کے نہ چاہتے ہوئے اور ان کی اجازت کے بغیر مفاتیح کے ناشروں نے اس کتاب میں ملحقات دوم کے عنوان سی بعض اور مطالب کا اضافہ کئے ہیں۔ ان ناشروں نے اپنے اس کام کی علت یوں بیان کرتے ہیں کہ چونکہ مؤلف نے مفاتیح الجنان میں بعض دعاؤوں کو طولانی ہونے کی وجہ سے صرف ان کا نام یا کچھ حصہ ذکر کیا ہے۔ ہم نے ان دعاؤوں کے بقیہ حصوں کو بھی نشر کیا تاکہ اس کتاب کے ہوتے ہوئے لوگوں کو کسی اور کتاب کی ضرورت پیش نہ آئے۔ اس سلسلے میں چونکہ مفاتیح میں امام زادوں کیلئے کوئی زیارت نامہ نقل نہیں ہوا تھا اسلئے ہم نے یہاں پر ایک زیارت نامہ ان کیلئے بھی ذکر کئے ہیں۔ انہی ملحقات میں نماز امام حسین ؑ اور نماز امام محمد تقی ؑ کے بعد کی دعا اور حدیث کساء بھی ہیں۔[7]

کتاب باقیات الصالحات

یہ مؤلف کی مستقل کتاب ہے جسے انہوں نے مفاتیح کے حاشیے میں منتشر کیا ہے۔ خود مؤلف کے بقول مفاتیح کے اس حصے کی تحریر بروز جمعہ 19 محرم سن 1345 ہجری کو ختم ہوئی۔ یہ کتاب مفاتیح کے حاشیے کے عنوان سے چھ ابواب اور ایک ملحقہ پر مشتمل ہے۔

اس حصے کے مندرجات:

  • پہلا باب: روزانہ کے اعمال کا خلاصہ، جس میں دن اور رات کے مختلف اوقات کے اعمال اور دعائیں نیز نماز شب کی کیفیت و آداب مندرج ہے۔
  • دوسرا باب: اس باب میں نماز ہدیہ معصومین ؑ، لیلۃ الدفن کی نماز، حاجات کی نمازیں، استغاثہ کی نمازیں، ایام ہفتہ کی نمازیں اور بعض دیگر مستحب نمازیں مندرج ہیں۔ مؤلف نے استخارہ کی اقسام بھی اسی باب میں بیان کی ہیں۔
  • تیسرا باب: یہ باب مختلف بیماریوں، مشکلات اور پریشانیوں سے نجات کے لئے مخصوص دعاؤں اور تعویذات پر مشتمل ہے۔
  • چوتھا باب: یہ باب کتاب شریف الکافی کی منتخب دعاؤں پر مشتمل ہے اور اس باب کی بیشتر دعائیں مختلف مشکلات اور دشواریوں کے خاتمے اور دنیوی حوائج کی برآوردگی کیلئے مؤثر ہیں۔
  • پانچواں باب: یہ باب بعض مختصر احراز اور دعاؤں پر مشتمل ہے جنہيں مہج الدعوات و مجتنی سے منتخب کیا گیا ہے۔ اس باب میں بلاؤں سے دور رہنے کی دعائیں (احراز) نیز چند مناجاتیں اور وسعت رزق کی دعائیں شامل ہیں۔
  • چھٹا باب: بعض سورتوں اور آیات کریمہ کے خواص، چند دعاؤں اور متفرقہ موضوعات پر مشتمل ہے۔ اس باب میں قرآن کی بعض سورتوں اور آیات کے خواص بیان کئے گئے ہیں جو روزمرہ مشکلات و مسائل کے حل اور حاجات کے برآوردہ ہونے کے لئے مؤثر ہیں۔ مطلوبہ افراد کو خواب میں دیکھنے کا عمل، مطالعہ کے آداب، دعائے عقیقہ اور قرآن کریم سے استخارہ کی مختلف قسموں کو اسی باب میں بیان کیا گیا ہے۔
  • خاتمہ: اس باب میں احکام میت کو اجمالی طور پر بیان کیا گیا ہے۔

اشاعت و طباعت

مفاتیح الجنان میں خوشنویس طاہر افشاری کے قلم سے دعائے کمیل

شیخ عباس قمی نے مفاتیح الجنان کو سنہ 1344 ہجری میں تالیف کر کے پہلی مرتبہ مشہد مقدس سے شائع کیا۔[8]

یہ کتاب موجودہ دور میں مختلف ناشرین کی طرف سے مختلف اشکال، حجم و ضخامت میں شائع ہوتی ہے۔ چونکہ مفاتیح الجنان ایک حجیم اور بھاری کتاب ہے چنانچہ اس کو ساتھ لے کر گھومنا، سفر کرنا سخت اور مشکل کام ہے چنانچہ مختلف ناشروں نے اس میں مندرج اعمال اور دعاؤں کو منتخب کرکے منتخب مفاتیح کے عنوان سے شائع کرتے ہیں۔[9]

یہ کتاب مختلف عرب ممالک میں بھی شائع ہوتی رہتی ہے اور ایران میں اس کی نشر و اشاعت کا سلسلہ مسلسل جاری ہے اور میرزا طاہر خوشنویس، مصباح زادہ، میرزا احمد زنجانی کاتب وغیرہ جیسے مشہور و معروف خُوش نَويسوں نے خط نسخ اور خط نستعلیق مفاتیح الجنان کی خطاطی کی ہے۔ میرزا طاہر خوشنویس نے پانچ بار اس کتاب کی خطاطی کی ہے۔

تراجم

فارسی میں مفاتیح کا رائج ترین اور معروف ترین ترجمہ مہدی الہی قمشہ ای کا ہے۔ علاوہ ازیں سید ہاشم رسولی محلاتی اور حسین استاد ولی کے تراجم بھی شائع ہوئے ہیں۔

دوسری زبانوں میں بھی مفاتیح کے تراجم موجود ہیں اور انگریزی میں اس کتاب کے کم از کم چار تراجم دستیاب ہیں اور[10] فرانسیسی، ترکی اور ہسپانوی زبانوں میں بھی اس کے تراجم موجود ہیں۔ [11]

اردو زبان میں مفاتیح کے متعدد تراجم موجود ہیں جن میں تین تراجم برقی کتب کی صورت میں دستیاب ہیں جنہیں ورڈ کی صورت میں انٹرنیٹ سے بآسانی اخذ کیا جاسکتا ہے:

مربوطہ کتب

مفاتیح نوین
منہاج الحیاۃ مؤلف محمدہادی یوسفی غروی
مفاتیح الحیات

مفاتیح نوین

مفاتیح نوین (مفاتیح جدید) در حقیقت مفاتیح الجنان کا اصلاح شدہ نسخہ ہے جس کے مؤلف مرجع تقلید، آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی ہیں اور ان ہی کے توسط سے شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب کے مؤلف کے بقول اس کتاب کا اصل مقصد موجودہ دور کے تقاضوں کو مد نظر رکھنا اور بعض قابل اعتراض مطالب کو حذف کرنا ہے۔[13]

اس کتاب کے مقدمے میں اس کے بعض خصوصیات کا ذکر کیا گیا ہے وہ یہ ہیں:

  1. دعا کی اہمیت اور اس کے قبول ہونے اور نہ ہونے کے علل و اسباب۔
  2. دعاؤوں اور زیارات کے ہر حصے کی ابتداء میں ایک مقدمہ کا اضافہ۔
  3. دعاؤوں اور زیارتوں کے سندوں کو حاشیے میں درج کرنا۔
  4. بعض مشابہ اعمال کو حذف کرنا اور بہترین اعمال کا انتخاب
  5. مطالب کو نئے سرے سے مرتب کرنا۔
  6. بعض ضعیف مطالب کو حذف کرنا۔
  7. دعاؤوں اور زیارتوں کے انتخاب میں صرف سند پر توجہ دینے کی بجای ان کے مضامین پر بھی توجہ کرنا۔[14]

منہاج الحیاة

یہ کتاب محمد ہادی یوسفی غروی کی تحریر ہے جسے اہل بیت ؑ عالمی اسمبلی نے شایع کی ہے۔ یہ کتاب مفاتیح الجنان میں موجود دعاؤوں اور زیارتوں کی مکمل اسناد کی چھان بین کرتی ہے۔[15]

اس کتاب کی بعض خصوصیات کچھ یوں ہیں:

  1. مفاتیح الجنان کی دعاؤوں اور زیارتوں کا سند کے اعتبار سے چھان بین اور بعض دعاؤوں یا زیارتوں کو حذف کرنا یا ان کی جایگزینی۔
  2. دعاؤوں اور زیارتوں کے دقیق مآخذ کا تذکرہ
  3. بعض موارد میں تاریخی منابع کی طرف ارجاع دینا۔[16]

مفاتیح الحیات

کتاب مفاتیح الحیاۃ کو محققین کے ایک گروہ نے آیت اللہ عبداللہ جوادی آملی کی زیر سرپرستی تحریر کیا ہے۔ آیت‌ اللہ جوادی آملی اس کتاب کے تالیف کے علل اسباب کے حوالے سے فرماتے ہیں: ہمیں دعاؤوں کی اس کتاب (مفاتیح الجنان) جو کہ ہر ایک کے گھروں میں ہیں، کے ساتھ ساتھ ایک اور کتاب کی بھی ضرورت ہے جو لوگوں کو زندگی کے آداب اور رسم و رواج سے آگاہ کریں۔ آپ کتاب مفاتیح الحیات کو مفاتیح الجنان کی دوسری جلد کا نام دیتے ہیں۔[17]

حوالہ جات

  1. طالعی، سال‌ شمار حیات و آثار محدث قمی، ۱۳۸۹ش، ۱۳- ۴۸
  2. قمی، مفاتیح الجنان، ۱۳۸۸ش، ص۲۸
  3. قمی، مفاتیح الجنان، ۱۳۸۸ش، ص ۱۲
  4. قمی، مفاتیح الجنان، ۱۳۸۸ش، ص ۱۲
  5. سلطانی، اشاره بہ پاره‌ای از منابع مفاتیح الجنان، ۱۳۸۹ش، ص۴۵۱
  6. قمی، مفاتیح الجنان، ۱۳۸۸ش، ابتدای ملحقات اول، ص ۸۶۹
  7. قمی، مفاتیح الجنان، ۱۳۷۶ش، ص ۹۸۵.
  8. طالعی،‌ سال‌شمار حیات و آثار محدث قمی، ۱۳۸۹ش، ص ۳۱
  9. ازجملہ قمی، منتخب مفاتیح الجنان، ۱۳۸۵ش جس میں قرآنی سورتوں کے علاوہ روزمرہ ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے تقریبا 40 دعاؤوں اور زیارات کو منتخب کرکے شایع کیا ہے۔
  10. کتاب ماہ دین، شمارہ 155
  11. کتاب ماہ دین، شمارہ155
  12. فہرست آثار محمد حسین نجفی، ویکی شیعہ اردو۔
  13. مکارم شیرازی، مفاتیح نوین، ۱۳۹۰ش،‌ ص ۱۶
  14. مکارم شیرازی، مفاتیح نوین، ۱۳۹۰ش،‌ ص ۲
  15. مصاحبہ با آیت‌اللہ یوسفی غروی دربارہ کتاب منہاج الحیاۃ
  16. مصاحبہ با آیت‌ اللہ یوسفی غروی دربارہ کتاب منہاج الحیاۃ
  17. کتاب مفاتیح الحیات کو مفاتیح الجنان کی دوسری جلد ماننا چاہئے

مآخذ

  • سلطانی، محمد علی، اشارہ بہ پارہ‌ای از منابع مفاتیح الجنان، در مقالات کنگرہ بزرگداشت محدث قمی، قم، نشر نور مطاف، چاپ اول، ۱۳۸۹ش
  • سلیمانی، مرضیہ، «یک ذکر بہ صد زبان شنفتن: نگاہی کوتاہ بہ ترجمہ ہای مفاتیح الجنان»، مجلہ دین، شہریور ۱۳۸۹ش، ش۱۵۵
  • طالعی، عبد الحسین، سال‌ شمار حیات و آثار محدث قمی، در مقالات کنگرہ بزرگداشت محدث قمی، قم، نشر نور مطاف، چاپ اول، ۱۳۸۹ش
  • قمی، عباس، مفاتیح الجنان، ترجمہ حسین انصاریان، قم، دار العرفان، ۱۳۸۸ش
  • قمی، عباس، مفاتیح الجنان، ترجمہ موسوی دامغانی، قم، نشر صدیقہ، چاپ اول، ۱۳۷۶ش
  • ‌ قمی، عباس، منتخب مفاتیح الجنان، تہران، نشر مبلغان، ۱۳۸۵ش
  • مکارم شیرازی، ناصر، مفاتیح نوین، قم، انتشارات امام علی بن ابیطالب ؑ، چاپ اول، ۱۳۹۰ش
  • پایگاہ اطلاع‌ رسانی آیت‌ اللہ مکارم شیرازی، معرفی کتاب مفاتیح نوین، تاریخ مشاہدہ ۱۹ بہمن ۱۳۹۵ش
  • «مصاحبہ با آیت‌ اللہ یوسفی غروی دربارہ کتاب منہاج الحیاہ فی الأدعیہ والزیارات»، پایگاہ مکتب مفید، تاریخ بارگزاری ۲۵ خرداد ۱۳۹۵ش، تاریخ مشاہدہ ۱۹ بہمن ۱۳۹۵ش
  • مصاحبہ با آیت اللہ استادی دربارہ مفاتیح الحیات، «کتاب مفاتیح الحیات را باید جلد دوم مفاتیح الجنان بدانیم»، پایگاہ اینترنتی اسراء، تاریخ انتشار ۲۴ اردیبہشت ۱۳۹۱ش، تاریخ مشاہدہ ۲۵ بہمن ۱۳۹۵ش