سورہ یونس

ویکی شیعہ سے
توبہ سورۂ یونس ہود
ترتیب کتابت: 10
پارہ : 11
نزول
ترتیب نزول: 51
مکی/ مدنی: مکی
اعداد و شمار
آیات: 109
الفاظ: 1844
حروف: 7593

سورہ یونس قرآن کی دسویں اور مکی سورتوں میں سے ہے۔ یہ سورت قرآن کے گیارہویں پارے میں موجود ہے۔ اس سورت میں حضرت یونسؑ کی داستان ذکر ہوئی ہے اسی وجہ سے اس کا نام "سورہ یونس" رکھا گیا ہے۔ سورہ یونس میں وحی، پیغمبر اکرمؐ کا مقام، کائنات کی عظمت کی نشانیوں اور اس دنیا کی ناپایداری سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے آخرت کی طرف دعوت دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اس سورت میں طوفان نوح، حضرت موسی اور قوم فرعون کی داستان کا بھی تذکرہ ہوا ہے۔
آیت نمیر 38 اس سورت کی مشہور آیات میں سے ہے جس میں پیغمبر اکرمؐ کے مخالفین کو مقابلے کی دعوت دی گئی ہے کہ اگر تم سچ کہتے ہو تو قرآن کی سورتوں میں سے کسی ایک سورت کی مثل لا کر دکھائیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس طرح کے چیلنجز حقیقت میں قرآن کے معجزہ ہونے کی دلیل ہے۔ احادیث میں آیا ہے کہ جو شخص سورہ یونس کی تلاوت کرے خداوندعالم اس شخص کو حضرت یونس کی قوم اور فرعون کے ساتھ غرق ہونے والے افراد کے دس گنا حسنہ دے گا۔

مختصر تعارف

  • نام

اس سورت میں حضرت یونسؑ کی داستان ذکر ہوئی ہے اسی وجہ سے اس کا نام "سورہ یونس" رکھا گیا ہے۔[1]

  • محل اور ترتیب نزول

سورہ یونس مکی سورتوں میں سے ہے اور صرف آیت نمبر 94 سے 96 تک مدینہ میں نازل ہوئی ہیں۔[2] ترتیب نزول کے اعتبار سے یہ سورت 54ویں جبکہ مصحف کی موجودہ ترتیب کے اعتبار سے دسویں سورت ہے۔[3] یہ سورت قرآن کے گیارہویں پارے میں موجود ہے۔

  • آیات کی تعداد اور دوسری خصوصیات

سورہ یونس 109 آیتوں، 1844 کلمات اور 7593 حروف پر مشتمل ہے۔ حجم کے اعتبار سے اس کا شمار مئون میں ہوتا ہے۔ حروف مقطعہ سے شروع ہونے والی سورتوں میں اس کا شمار چوتھے نمبر پر آتا ہے۔[4]

مضامین

سورہ یونس میں خدا کی قدرت کے مظاہر، وجود خدا کو ثابت کرنے والے دلائل، وحی، نبوت اور بعثت انبیاء، آیات تکوینی اور علوم طبیعی، خلقت اور آفرینش کے اسرار و رموز اور دنیا اور آخرت کی حقیقت سے متعلق ایک تمثیل نیز دنیا کی ناپایداری کا ذکر کرتے ہوئے آخرت کی طرف دعوت دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اس سورت میں حضرت نوح، حضرت موسی اور حضرت یونس[5] جیسے انبیاء کی داستانوں کے بیان کے ساتھ ساتھ پیغمبر اکرمؐ کے مقام و منزلت کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ کائنات کی عظمت کی نشانیوں کو خدا کی عظمت پر دلیل قرار دیتے ہوئے ایمان اور عمل صالح کے ذریعے آخرت کی تیاری کی طرف ترغیب دینا بھی اس سورت میں بحث کی گئی موضوعات میں شامل ہیں۔ اسی طرح بعض آیتوں میں بت‌ پرستوں کی لجاجت اور ہٹ دھرمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہیں ان کی فطرت کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دی گئی ہے جس کے تحت وہ جب مشکلات میں گرفتار ہوتے ہیں تو خدائے واحد کی یاد کرتے لگتے ہیں۔[6]

سورہ یونس کے مضامین[7]
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
قرآن کریم کی حقانیت کا دفاع
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
دوسری فصل؛ آیہ ۵۷ - ۱۰۹
انسانوں کو قرآن اور آیات الہی کی پیروی کی دعوت
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
پہلی فصل؛ آیہ ۱ - ۵۶
قرآن کی حقانیت کے بارے میں کافروں کے شبہات کے جوابات
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
پہلا مطلب؛ آیہ ۵۷ - ۵۸
قرآن ہدایت اور رحمت ہے
 
پانچواں شبہہ؛ آیہ ۴۵ - ۵۶
چونکہ عذاب آنے کا وقت معلوم نہیں اس لیے یہ سچ نہیں
 
چوتھا شبہہ؛ آیہ ۳۷ - ۴۴
قرآن پیغمبر کا اپنا کلام ہے
 
تیسرا شبہہ؛ آیہ ۲۰ - ۳۶
اللہ قرآن کے بجائے کوئی اور نشانی کیوں نہیں بھیجتا ہے
 
دوسرا شبہہ؛ آیہ ۱۵ - ۱۹
قرآن ہمارے عقیدے کے مخالف ہے اس کو بدل دو
 
پہلا شبہہ؛ آیہ ۲ - ۱۴
کسی انسان پر قیامت کے بارے میں وحی کا نزول محال ہے
 
مقدمہ؛ آیہ ۱
قرآنی تعلیمات حکمت آمیز ہیں
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
دوسرا مطلب؛ آیہ ۵۹ - ۷۰
قرآنی آیات پر عمل نہ کرنا انحراف کا باعث ہے
 
پہلا جواب؛ آیہ ۴۵ - ۴۷
کافر ان کے گمان سے پہلے ہی عذاب سے دوچار ہونگے
 
پہلا جواب؛ آیہ ۳۷
یہ قرآن اللہ کی طرف سے ہے اور جعلی نہیں
 
پہلا جواب؛ آیہ ۲۰
غیبی امور صرف اللہ کے ہاتھ میں ہیں
 
پہلا جواب؛ آیہ ۱۵ - ۱۷
قرآن اللہ کی طرف سے ہے اور میں اس میں تبدیلی نہیں لا سکتا
 
پہلا جواب؛ آیہ ۳ - ۶
روز جزا برپا ہونا کائنات کی تدبیر کا حصہ ہے
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
تیسرا مطلب؛ آیہ ۷۱ - ۹۳
قرآنی آیات کی مخالفت یا موفقت کا انجام
 
دوسرا جواب؛ آیہ ۴۸ - ۵۲
عذاب کا وقت اللہ کے ہاتھ میں ہے
 
دوسرا جواب؛ آیہ ۳۸ - ۳۹
اگر لاسکتے ہو تو قرآن کی طرح صرف ایک سورہ لے آؤ
 
دوسرا جواب؛ آیہ ۲۱ - ۲۳
مشرک اللہ کی آیات میں مکر و فریب کرتے ہیں
 
دوسرا جواب؛ آیہ ۱۸ -۱۹
تمہارے بت پرستی کا آئین صحیح نہیں اس میں تبدیلی آنی چاہیے
 
دوسرا جواب؛ آیہ ۷ - ۱۰
قیامت پر عقیدہ نہ ہونا انسان کو دوزخی بناتا ہے
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
چوتھا مطلب؛ آیہ ۹۴ - ۱۰۰
انسانوں کے ایمان لانے میں اللہ کی سنت
 
تیسرا جواب؛ آیہ ۵۳ - ۵۶
کافروں کو عذاب کا وعدہ سچا ہے اور کوئی نہیں روک سکتا
 
تیسرا جواب؛ آیہ ۴۰ - ۴۴
برے لوگ حق کی پہچان نہیں کرسکتے ہیں
 
تیسرا جواب؛ آیہ ۲۴ - ۲۵
دانشمندوں کے لیے اللہ کی آیات واضح ہیں
 
 
 
 
 
تیسرا جواب؛ آیہ ۱۱ - ۱۴
کافروں کا عذاب یقینی ہے اگرچہ وہ غافل ہوں
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
پانچواں مطلب؛ آیہ ۱۰۱ - ۱۰۹
قرآن کے منکروں پر پیغمبر کی اتمام حجت
 
 
 
 
 
 
 
 
 
چوتھا جواب؛ آیہ ۲۶ - ۳۶
مشرک اور آیات کے منکروں کو انتباہ


تاریخی واقعات

بعض آیتوں کی شأن نزول

  • دوسری آیت

اس آیت کی شان نزول کے بارے میں ابن عباس کہتے ہیں کہ جب حضرت محمدؐ کو مبعوث برسالت کیا گیا تو کفار نے آپ کی نبوت کا انکار کرتے ہوئے کہنے لگے خدا کی شأن اس سے بالاتر ہے کہ وہ محمدؐ جیسے کسی بشر کو پیغمبر بنا کر بھیجے۔ اس کے جواب میں خدا نے یہ آیت نازل فرمائی۔[8]

  • پندرہویں آیت

سورہ یونس کی پندرہویں آیت میں آیا ہے کہ جب پیغمبر اسلامؑ لوگوں کیلئے قرآن کی تلاوت کرتے تھے تو جو لوگ خدا سے ملاقات کی امید نہیں رکھتے تھے وہ کہتے تھے: اس کے علاوہ کوئی اور قرآن ہمارے لئے لے آئیں یا اس کو تبدیل کریں۔ اس کے جواب میں پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا یہ میرے اختیار میں نہیں ہے اور اگر میں میرے پروردگار کی نافرمانی کروں تو میں غذاب میں مبتلا ہو جاؤنگا۔ تفسیر مجمع البیان میں آیا ہے کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب عبداللہ بن ابی امیہ مخزومی، ولید بن مغیرہ، مکرز بن حفص اور عمرو بن عبداللہ وغیرہ نے پیغمبر اکرمؐ سے کہا کہ ہمارے لئے ایک ایسا قرآن لے آئیں جو ہمیں لات، عُزیٰ، مَنات اور ہُبَل کی پرستش (یعنی بت‌ پرستی) سے منع نہ کرے۔[9]

آیات مشہورہ

آیت تحدی

قُلْ فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِّثْلِهِ وَادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُم مِّن دُونِ اللَّـهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ﴿38﴾
 (ترجمہ: آپ کہیے! اگر تم اپنے اس الزام میں سچے ہو تو تم اللہ کے سوا اپنی مدد کے لئے جس جس کو بلا سکتے ہو بلا لو اور پھر قرآن کی مانند ایک ہی سورہ لے آؤ۔)


خداوندعالم نے قرآن کی پانچ آیتوں میں پیغمبر اکرمؐ کے مخالفین کو چیلنج کیا ہے۔[یادداشت 1] ان پانچ آیتوں میں سے ایک اسی سورت کی آیت نمبر 38 ہے۔[10] ان آیتوں میں خدا نے حضرت محمدؐ کی نبوت کے منکرین کو اس بات کی دعوت دی ہے کہ وہ پیغمبر اکرمؐ کی مانند معجزات لے آئیں۔[11] ان آیتوں میں منکرین کو چیلنج کرنا حقیقت میں قرآن کے معجزہ ہونے پر دلیل ہے بلکہ قرآن کی ہر سورت کے معجزہ ہونے پر دلیل ہے۔[12]

آیت نمبر 10

وَآخِرُ دَعْوَاهُمْ أَنِ الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿10﴾
 (ترجمہ: اور ان کی آخری دعا و پکار یہ ہوگی کہ ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے ہے جو سب جہانوں کا پروردگار ہے۔)

یہ آیت تقاریر، خطبوں اور چہ بسا بعض پیغامات اور بیانات کے کے آخر میں پڑھی یا لکھی جاتی ہے؛ البتہ "دعواہم: ان کی دعا" کو دعوانا: ہماری دعا" میں تبدیل کی جاتی ہے۔[13]

آیت نمبر 64

لَهُمُ الْبُشْرَىٰ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۚ لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَاتِ اللَّـهِ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ﴿64﴾
 (ترجمہ: ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی۔ اللہ کے کلمات میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی یہی بڑی کامیابی ہے۔)


خداوندعالم اس آیت میں اپنے نیک اور متقی بندوں کو ایک ایسی بشارت دے رہا ہے جو ضرور محقق ہوگا، البتہ یہ کہ یہ بشارت اس دنیا میں محقق ہو گا یا آخرت میں، اس حوالے سے آیت میں کچھ نہیں کہا گیا ہے۔[14]

آیات الاحکام

آیہ ظن

وَمَا يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا ۚ إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا ۚ﴿36﴾
 (ترجمہ: لوگوں میں اکثر ایسے ہیں جو صرف گمان کی پیروی کرتے ہیں حالانکہ گمان حق کی پہچان اور اس تک رسائی حاصل کرنے میں کچھ فائدہ نہیں دیتا۔)


اس آیت سے اصول فقہ میں بحث کی جاتی ہے جہاں پر ظن اور گمان پر عمل کرنے اور نہ کرنے کے بارے میں گفتگو ہوتی ہے۔ اگرچہ اس آیت میں خداوندعالم نے ظن و گمان پر عمل کرنے کی ممانعت کی ہے لیکن علم اصول کے ماہرین نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہیں کہ اس آیت میں خداوند متعال ہر قسم کی ظنی روش سے ممانعت نہیں کی بلکہ بعض ظنی موارد من جملہ خبر واحد اور آیات اور روایات کا ظہور حجت ہیں۔[15]

فضیلت

اس سورت کی فضیلت سے متعلق پیغمبر اسلامؐ سے منقول ہے کہ جو شخص سورہ یونس کی تلاوت کرے خداوندعالم اس شخص کو حضرت یونس کی قوم اور فرعون کے ساتھ غرق ہونے والے افراد کے دس گنا حسنہ دیتا گا۔۔[16] امام صادقؑ سے بھی روایت ہے کہ جو شخص ہر دو یا تین مہینے میں ایک بار اس سورت کی تلاوت کرے اسے جاہلوں میں سے ہونے کا خوف نہیں رہے گا اور قیامت کے دن مقربین میں سے ہونگے۔[17]

متن اور ترجمہ

سورہ یونس
ترجمہ
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّ‌حْمَـٰنِ الرَّ‌حِيمِ

الر تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْحَكِيمِ ﴿1﴾ أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا أَنْ أَوْحَيْنَا إِلَى رَجُلٍ مِّنْهُمْ أَنْ أَنذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُواْ أَنَّ لَهُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِندَ رَبِّهِمْ قَالَ الْكَافِرُونَ إِنَّ هَذَا لَسَاحِرٌ مُّبِينٌ ﴿2﴾ إِنَّ رَبَّكُمُ اللّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يُدَبِّرُ الأَمْرَ مَا مِن شَفِيعٍ إِلاَّ مِن بَعْدِ إِذْنِهِ ذَلِكُمُ اللّهُ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ أَفَلاَ تَذَكَّرُونَ ﴿3﴾ إِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا وَعْدَ اللّهِ حَقًّا إِنَّهُ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ بِالْقِسْطِ وَالَّذِينَ كَفَرُواْ لَهُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِيمٍ وَعَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُواْ يَكْفُرُونَ ﴿4﴾ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَاء وَالْقَمَرَ نُورًا وَقَدَّرَهُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُواْ عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ مَا خَلَقَ اللّهُ ذَلِكَ إِلاَّ بِالْحَقِّ يُفَصِّلُ الآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ ﴿5﴾ إِنَّ فِي اخْتِلاَفِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَمَا خَلَقَ اللّهُ فِي السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ لآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَّقُونَ ﴿6﴾ إَنَّ الَّذِينَ لاَ يَرْجُونَ لِقَاءنَا وَرَضُواْ بِالْحَياةِ الدُّنْيَا وَاطْمَأَنُّواْ بِهَا وَالَّذِينَ هُمْ عَنْ آيَاتِنَا غَافِلُونَ ﴿7﴾ أُوْلَئِكَ مَأْوَاهُمُ النُّارُ بِمَا كَانُواْ يَكْسِبُونَ ﴿8﴾ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ يَهْدِيهِمْ رَبُّهُمْ بِإِيمَانِهِمْ تَجْرِي مِن تَحْتِهِمُ الأَنْهَارُ فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ ﴿9﴾ دَعْوَاهُمْ فِيهَا سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَتَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلاَمٌ وَآخِرُ دَعْوَاهُمْ أَنِ الْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿10﴾ وَلَوْ يُعَجِّلُ اللّهُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجَالَهُم بِالْخَيْرِ لَقُضِيَ إِلَيْهِمْ أَجَلُهُمْ فَنَذَرُ الَّذِينَ لاَ يَرْجُونَ لِقَاءنَا فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ ﴿11﴾ وَإِذَا مَسَّ الإِنسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنبِهِ أَوْ قَاعِدًا أَوْ قَآئِمًا فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّهُ مَرَّ كَأَن لَّمْ يَدْعُنَا إِلَى ضُرٍّ مَّسَّهُ كَذَلِكَ زُيِّنَ لِلْمُسْرِفِينَ مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ ﴿12﴾ وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ مِن قَبْلِكُمْ لَمَّا ظَلَمُواْ وَجَاءتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ وَمَا كَانُواْ لِيُؤْمِنُواْ كَذَلِكَ نَجْزِي الْقَوْمَ الْمُجْرِمِينَ ﴿13﴾ ثُمَّ جَعَلْنَاكُمْ خَلاَئِفَ فِي الأَرْضِ مِن بَعْدِهِم لِنَنظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ ﴿14﴾ وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ قَالَ الَّذِينَ لاَ يَرْجُونَ لِقَاءنَا ائْتِ بِقُرْآنٍ غَيْرِ هَذَا أَوْ بَدِّلْهُ قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِن تِلْقَاء نَفْسِي إِنْ أَتَّبِعُ إِلاَّ مَا يُوحَى إِلَيَّ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ ﴿15﴾ قُل لَّوْ شَاء اللّهُ مَا تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلاَ أَدْرَاكُم بِهِ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِّن قَبْلِهِ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ ﴿16﴾ فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللّهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِآيَاتِهِ إِنَّهُ لاَ يُفْلِحُ الْمُجْرِمُونَ ﴿17﴾ وَيَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللّهِ مَا لاَ يَضُرُّهُمْ وَلاَ يَنفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَؤُلاء شُفَعَاؤُنَا عِندَ اللّهِ قُلْ أَتُنَبِّئُونَ اللّهَ بِمَا لاَ يَعْلَمُ فِي السَّمَاوَاتِ وَلاَ فِي الأَرْضِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ ﴿18﴾ وَمَا كَانَ النَّاسُ إِلاَّ أُمَّةً وَاحِدَةً فَاخْتَلَفُواْ وَلَوْلاَ كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ فِيمَا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ ﴿19﴾ وَيَقُولُونَ لَوْلاَ أُنزِلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِّن رَّبِّهِ فَقُلْ إِنَّمَا الْغَيْبُ لِلّهِ فَانْتَظِرُواْ إِنِّي مَعَكُم مِّنَ الْمُنتَظِرِينَ ﴿20﴾ وَإِذَا أَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً مِّن بَعْدِ ضَرَّاء مَسَّتْهُمْ إِذَا لَهُم مَّكْرٌ فِي آيَاتِنَا قُلِ اللّهُ أَسْرَعُ مَكْرًا إِنَّ رُسُلَنَا يَكْتُبُونَ مَا تَمْكُرُونَ ﴿21﴾ هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ حَتَّى إِذَا كُنتُمْ فِي الْفُلْكِ وَجَرَيْنَ بِهِم بِرِيحٍ طَيِّبَةٍ وَفَرِحُواْ بِهَا جَاءتْهَا رِيحٌ عَاصِفٌ وَجَاءهُمُ الْمَوْجُ مِن كُلِّ مَكَانٍ وَظَنُّواْ أَنَّهُمْ أُحِيطَ بِهِمْ دَعَوُاْ اللّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ لَئِنْ أَنجَيْتَنَا مِنْ هَذِهِ لَنَكُونَنِّ مِنَ الشَّاكِرِينَ ﴿22﴾ فَلَمَّا أَنجَاهُمْ إِذَا هُمْ يَبْغُونَ فِي الأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا بَغْيُكُمْ عَلَى أَنفُسِكُم مَّتَاعَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ثُمَّ إِلَينَا مَرْجِعُكُمْ فَنُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴿23﴾ إِنَّمَا مَثَلُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَاء أَنزَلْنَاهُ مِنَ السَّمَاء فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالأَنْعَامُ حَتَّىَ إِذَا أَخَذَتِ الأَرْضُ زُخْرُفَهَا وَازَّيَّنَتْ وَظَنَّ أَهْلُهَا أَنَّهُمْ قَادِرُونَ عَلَيْهَآ أَتَاهَا أَمْرُنَا لَيْلاً أَوْ نَهَارًا فَجَعَلْنَاهَا حَصِيدًا كَأَن لَّمْ تَغْنَ بِالأَمْسِ كَذَلِكَ نُفَصِّلُ الآيَاتِ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ ﴿24﴾ وَاللّهُ يَدْعُو إِلَى دَارِ السَّلاَمِ وَيَهْدِي مَن يَشَاء إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ﴿25﴾ لِّلَّذِينَ أَحْسَنُواْ الْحُسْنَى وَزِيَادَةٌ وَلاَ يَرْهَقُ وُجُوهَهُمْ قَتَرٌ وَلاَ ذِلَّةٌ أُوْلَئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴿26﴾ وَالَّذِينَ كَسَبُواْ السَّيِّئَاتِ جَزَاء سَيِّئَةٍ بِمِثْلِهَا وَتَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ مَّا لَهُم مِّنَ اللّهِ مِنْ عَاصِمٍ كَأَنَّمَا أُغْشِيَتْ وُجُوهُهُمْ قِطَعًا مِّنَ اللَّيْلِ مُظْلِمًا أُوْلَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴿27﴾ وَيَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا ثُمَّ نَقُولُ لِلَّذِينَ أَشْرَكُواْ مَكَانَكُمْ أَنتُمْ وَشُرَكَآؤُكُمْ فَزَيَّلْنَا بَيْنَهُمْ وَقَالَ شُرَكَآؤُهُم مَّا كُنتُمْ إِيَّانَا تَعْبُدُونَ ﴿28﴾ فَكَفَى بِاللّهِ شَهِيدًا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ إِن كُنَّا عَنْ عِبَادَتِكُمْ لَغَافِلِينَ ﴿29﴾ هُنَالِكَ تَبْلُو كُلُّ نَفْسٍ مَّا أَسْلَفَتْ وَرُدُّواْ إِلَى اللّهِ مَوْلاَهُمُ الْحَقِّ وَضَلَّ عَنْهُم مَّا كَانُواْ يَفْتَرُونَ ﴿30﴾ قُلْ مَن يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاء وَالأَرْضِ أَمَّن يَمْلِكُ السَّمْعَ والأَبْصَارَ وَمَن يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيَّتَ مِنَ الْحَيِّ وَمَن يُدَبِّرُ الأَمْرَ فَسَيَقُولُونَ اللّهُ فَقُلْ أَفَلاَ تَتَّقُونَ ﴿31﴾ فَذَلِكُمُ اللّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلاَّ الضَّلاَلُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ ﴿32﴾ كَذَلِكَ حَقَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ عَلَى الَّذِينَ فَسَقُواْ أَنَّهُمْ لاَ يُؤْمِنُونَ ﴿33﴾ قُلْ هَلْ مِن شُرَكَآئِكُم مَّن يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ قُلِ اللّهُ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ ﴿34﴾ قُلْ هَلْ مِن شُرَكَآئِكُم مَّن يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ قُلِ اللّهُ يَهْدِي لِلْحَقِّ أَفَمَن يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ أَحَقُّ أَن يُتَّبَعَ أَمَّن لاَّ يَهِدِّيَ إِلاَّ أَن يُهْدَى فَمَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ ﴿35﴾ وَمَا يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلاَّ ظَنًّا إَنَّ الظَّنَّ لاَ يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا إِنَّ اللّهَ عَلَيمٌ بِمَا يَفْعَلُونَ ﴿36﴾ وَمَا كَانَ هَذَا الْقُرْآنُ أَن يُفْتَرَى مِن دُونِ اللّهِ وَلَكِن تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ الْكِتَابِ لاَ رَيْبَ فِيهِ مِن رَّبِّ الْعَالَمِينَ ﴿37﴾ أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَأْتُواْ بِسُورَةٍ مِّثْلِهِ وَادْعُواْ مَنِ اسْتَطَعْتُم مِّن دُونِ اللّهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴿38﴾ بَلْ كَذَّبُواْ بِمَا لَمْ يُحِيطُواْ بِعِلْمِهِ وَلَمَّا يَأْتِهِمْ تَأْوِيلُهُ كَذَلِكَ كَذَّبَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظَّالِمِينَ ﴿39﴾ وَمِنهُم مَّن يُؤْمِنُ بِهِ وَمِنْهُم مَّن لاَّ يُؤْمِنُ بِهِ وَرَبُّكَ أَعْلَمُ بِالْمُفْسِدِينَ ﴿40﴾ وَإِن كَذَّبُوكَ فَقُل لِّي عَمَلِي وَلَكُمْ عَمَلُكُمْ أَنتُمْ بَرِيئُونَ مِمَّا أَعْمَلُ وَأَنَاْ بَرِيءٌ مِّمَّا تَعْمَلُونَ ﴿41﴾ وَمِنْهُم مَّن يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ أَفَأَنتَ تُسْمِعُ الصُّمَّ وَلَوْ كَانُواْ لاَ يَعْقِلُونَ ﴿42﴾ وَمِنهُم مَّن يَنظُرُ إِلَيْكَ أَفَأَنتَ تَهْدِي الْعُمْيَ وَلَوْ كَانُواْ لاَ يُبْصِرُونَ ﴿43﴾ إِنَّ اللّهَ لاَ يَظْلِمُ النَّاسَ شَيْئًا وَلَكِنَّ النَّاسَ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ ﴿44﴾ وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ كَأَن لَّمْ يَلْبَثُواْ إِلاَّ سَاعَةً مِّنَ النَّهَارِ يَتَعَارَفُونَ بَيْنَهُمْ قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ كَذَّبُواْ بِلِقَاء اللّهِ وَمَا كَانُواْ مُهْتَدِينَ ﴿45﴾ وَإِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَإِلَيْنَا مَرْجِعُهُمْ ثُمَّ اللّهُ شَهِيدٌ عَلَى مَا يَفْعَلُونَ ﴿46﴾ وَلِكُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولٌ فَإِذَا جَاء رَسُولُهُمْ قُضِيَ بَيْنَهُم بِالْقِسْطِ وَهُمْ لاَ يُظْلَمُونَ ﴿47﴾ وَيَقُولُونَ مَتَى هَذَا الْوَعْدُ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴿48﴾ قُل لاَّ أَمْلِكُ لِنَفْسِي ضَرًّا وَلاَ نَفْعًا إِلاَّ مَا شَاء اللّهُ لِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ إِذَا جَاء أَجَلُهُمْ فَلاَ يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلاَ يَسْتَقْدِمُونَ ﴿49﴾ قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُهُ بَيَاتًا أَوْ نَهَارًا مَّاذَا يَسْتَعْجِلُ مِنْهُ الْمُجْرِمُونَ ﴿50﴾ أَثُمَّ إِذَا مَا وَقَعَ آمَنْتُم بِهِ آلآنَ وَقَدْ كُنتُم بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ ﴿51﴾ ثُمَّ قِيلَ لِلَّذِينَ ظَلَمُواْ ذُوقُواْ عَذَابَ الْخُلْدِ هَلْ تُجْزَوْنَ إِلاَّ بِمَا كُنتُمْ تَكْسِبُونَ ﴿52﴾ وَيَسْتَنبِئُونَكَ أَحَقٌّ هُوَ قُلْ إِي وَرَبِّي إِنَّهُ لَحَقٌّ وَمَا أَنتُمْ بِمُعْجِزِينَ ﴿53﴾ وَلَوْ أَنَّ لِكُلِّ نَفْسٍ ظَلَمَتْ مَا فِي الأَرْضِ لاَفْتَدَتْ بِهِ وَأَسَرُّواْ النَّدَامَةَ لَمَّا رَأَوُاْ الْعَذَابَ وَقُضِيَ بَيْنَهُم بِالْقِسْطِ وَهُمْ لاَ يُظْلَمُونَ ﴿54﴾ أَلا إِنَّ لِلّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ أَلاَ إِنَّ وَعْدَ اللّهِ حَقٌّ وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لاَ يَعْلَمُونَ ﴿55﴾ هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ﴿56﴾ يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءتْكُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَشِفَاء لِّمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ ﴿57﴾ قُلْ بِفَضْلِ اللّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُواْ هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ ﴿58﴾ قُلْ أَرَأَيْتُم مَّا أَنزَلَ اللّهُ لَكُم مِّن رِّزْقٍ فَجَعَلْتُم مِّنْهُ حَرَامًا وَحَلاَلاً قُلْ آللّهُ أَذِنَ لَكُمْ أَمْ عَلَى اللّهِ تَفْتَرُونَ ﴿59﴾ وَمَا ظَنُّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللّهِ الْكَذِبَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّ اللّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لاَ يَشْكُرُونَ ﴿60﴾ وَمَا تَكُونُ فِي شَأْنٍ وَمَا تَتْلُو مِنْهُ مِن قُرْآنٍ وَلاَ تَعْمَلُونَ مِنْ عَمَلٍ إِلاَّ كُنَّا عَلَيْكُمْ شُهُودًا إِذْ تُفِيضُونَ فِيهِ وَمَا يَعْزُبُ عَن رَّبِّكَ مِن مِّثْقَالِ ذَرَّةٍ فِي الأَرْضِ وَلاَ فِي السَّمَاء وَلاَ أَصْغَرَ مِن ذَلِكَ وَلا أَكْبَرَ إِلاَّ فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ ﴿61﴾ أَلا إِنَّ أَوْلِيَاء اللّهِ لاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ ﴿62﴾ الَّذِينَ آمَنُواْ وَكَانُواْ يَتَّقُونَ ﴿63﴾ لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَياةِ الدُّنْيَا وَفِي الآخِرَةِ لاَ تَبْدِيلَ لِكَلِمَاتِ اللّهِ ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ﴿64﴾ وَلاَ يَحْزُنكَ قَوْلُهُمْ إِنَّ الْعِزَّةَ لِلّهِ جَمِيعًا هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ﴿65﴾ أَلا إِنَّ لِلّهِ مَن فِي السَّمَاوَات وَمَن فِي الأَرْضِ وَمَا يَتَّبِعُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللّهِ شُرَكَاء إِن يَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلاَّ يَخْرُصُونَ ﴿66﴾ هُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ لِتَسْكُنُواْ فِيهِ وَالنَّهَارَ مُبْصِرًا إِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَسْمَعُونَ ﴿67﴾ قَالُواْ اتَّخَذَ اللّهُ وَلَدًا سُبْحَانَهُ هُوَ الْغَنِيُّ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَات وَمَا فِي الأَرْضِ إِنْ عِندَكُم مِّن سُلْطَانٍ بِهَذَا أَتقُولُونَ عَلَى اللّهِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ ﴿68﴾ قُلْ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللّهِ الْكَذِبَ لاَ يُفْلِحُونَ ﴿69﴾ مَتَاعٌ فِي الدُّنْيَا ثُمَّ إِلَيْنَا مَرْجِعُهُمْ ثُمَّ نُذِيقُهُمُ الْعَذَابَ الشَّدِيدَ بِمَا كَانُواْ يَكْفُرُونَ ﴿70﴾ وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ نُوحٍ إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ إِن كَانَ كَبُرَ عَلَيْكُم مَّقَامِي وَتَذْكِيرِي بِآيَاتِ اللّهِ فَعَلَى اللّهِ تَوَكَّلْتُ فَأَجْمِعُواْ أَمْرَكُمْ وَشُرَكَاءكُمْ ثُمَّ لاَ يَكُنْ أَمْرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّةً ثُمَّ اقْضُواْ إِلَيَّ وَلاَ تُنظِرُونِ ﴿71﴾ فَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَمَا سَأَلْتُكُم مِّنْ أَجْرٍ إِنْ أَجْرِيَ إِلاَّ عَلَى اللّهِ وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ ﴿72﴾ فَكَذَّبُوهُ فَنَجَّيْنَاهُ وَمَن مَّعَهُ فِي الْفُلْكِ وَجَعَلْنَاهُمْ خَلاَئِفَ وَأَغْرَقْنَا الَّذِينَ كَذَّبُواْ بِآيَاتِنَا فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُنذَرِينَ ﴿73﴾ ثُمَّ بَعَثْنَا مِن بَعْدِهِ رُسُلاً إِلَى قَوْمِهِمْ فَجَآؤُوهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا كَانُواْ لِيُؤْمِنُواْ بِمَا كَذَّبُواْ بِهِ مِن قَبْلُ كَذَلِكَ نَطْبَعُ عَلَى قُلوبِ الْمُعْتَدِينَ ﴿74﴾ ثُمَّ بَعَثْنَا مِن بَعْدِهِم مُّوسَى وَهَارُونَ إِلَى فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ بِآيَاتِنَا فَاسْتَكْبَرُواْ وَكَانُواْ قَوْمًا مُّجْرِمِينَ ﴿75﴾ فَلَمَّا جَاءهُمُ الْحَقُّ مِنْ عِندِنَا قَالُواْ إِنَّ هَذَا لَسِحْرٌ مُّبِينٌ ﴿76﴾ قَالَ مُوسَى أَتقُولُونَ لِلْحَقِّ لَمَّا جَاءكُمْ أَسِحْرٌ هَذَا وَلاَ يُفْلِحُ السَّاحِرُونَ ﴿77﴾ قَالُواْ أَجِئْتَنَا لِتَلْفِتَنَا عَمَّا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءنَا وَتَكُونَ لَكُمَا الْكِبْرِيَاء فِي الأَرْضِ وَمَا نَحْنُ لَكُمَا بِمُؤْمِنِينَ ﴿78﴾ وَقَالَ فِرْعَوْنُ ائْتُونِي بِكُلِّ سَاحِرٍ عَلِيمٍ ﴿79﴾ فَلَمَّا جَاء السَّحَرَةُ قَالَ لَهُم مُّوسَى أَلْقُواْ مَا أَنتُم مُّلْقُونَ ﴿80﴾ فَلَمَّا أَلْقَواْ قَالَ مُوسَى مَا جِئْتُم بِهِ السِّحْرُ إِنَّ اللّهَ سَيُبْطِلُهُ إِنَّ اللّهَ لاَ يُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِينَ ﴿81﴾ وَيُحِقُّ اللّهُ الْحَقَّ بِكَلِمَاتِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُجْرِمُونَ ﴿82﴾ فَمَا آمَنَ لِمُوسَى إِلاَّ ذُرِّيَّةٌ مِّن قَوْمِهِ عَلَى خَوْفٍ مِّن فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِمْ أَن يَفْتِنَهُمْ وَإِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِي الأَرْضِ وَإِنَّهُ لَمِنَ الْمُسْرِفِينَ ﴿83﴾ وَقَالَ مُوسَى يَا قَوْمِ إِن كُنتُمْ آمَنتُم بِاللّهِ فَعَلَيْهِ تَوَكَّلُواْ إِن كُنتُم مُّسْلِمِينَ ﴿84﴾ فَقَالُواْ عَلَى اللّهِ تَوَكَّلْنَا رَبَّنَا لاَ تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِّلْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ﴿85﴾ وَنَجِّنَا بِرَحْمَتِكَ مِنَ الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ ﴿86﴾ وَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى وَأَخِيهِ أَن تَبَوَّءَا لِقَوْمِكُمَا بِمِصْرَ بُيُوتًا وَاجْعَلُواْ بُيُوتَكُمْ قِبْلَةً وَأَقِيمُواْ الصَّلاَةَ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ ﴿87﴾ وَقَالَ مُوسَى رَبَّنَا إِنَّكَ آتَيْتَ فِرْعَوْنَ وَمَلأهُ زِينَةً وَأَمْوَالاً فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا رَبَّنَا لِيُضِلُّواْ عَن سَبِيلِكَ رَبَّنَا اطْمِسْ عَلَى أَمْوَالِهِمْ وَاشْدُدْ عَلَى قُلُوبِهِمْ فَلاَ يُؤْمِنُواْ حَتَّى يَرَوُاْ الْعَذَابَ الأَلِيمَ ﴿88﴾ قَالَ قَدْ أُجِيبَت دَّعْوَتُكُمَا فَاسْتَقِيمَا وَلاَ تَتَّبِعَآنِّ سَبِيلَ الَّذِينَ لاَ يَعْلَمُونَ ﴿89﴾ وَجَاوَزْنَا بِبَنِي إِسْرَائِيلَ الْبَحْرَ فَأَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُودُهُ بَغْيًا وَعَدْوًا حَتَّى إِذَا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ قَالَ آمَنتُ أَنَّهُ لا إِلِهَ إِلاَّ الَّذِي آمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَائِيلَ وَأَنَاْ مِنَ الْمُسْلِمِينَ ﴿90﴾ آلآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَكُنتَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ ﴿91﴾ فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ آيَاتِنَا لَغَافِلُونَ ﴿92﴾ وَلَقَدْ بَوَّأْنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ مُبَوَّأَ صِدْقٍ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ فَمَا اخْتَلَفُواْ حَتَّى جَاءهُمُ الْعِلْمُ إِنَّ رَبَّكَ يَقْضِي بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُواْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ ﴿93﴾ فَإِن كُنتَ فِي شَكٍّ مِّمَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ فَاسْأَلِ الَّذِينَ يَقْرَؤُونَ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكَ لَقَدْ جَاءكَ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَلاَ تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ ﴿94﴾ وَلاَ تَكُونَنَّ مِنَ الَّذِينَ كَذَّبُواْ بِآيَاتِ اللّهِ فَتَكُونَ مِنَ الْخَاسِرِينَ ﴿95﴾ إِنَّ الَّذِينَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ ﴿96﴾ وَلَوْ جَاءتْهُمْ كُلُّ آيَةٍ حَتَّى يَرَوُاْ الْعَذَابَ الأَلِيمَ ﴿97﴾ فَلَوْلاَ كَانَتْ قَرْيَةٌ آمَنَتْ فَنَفَعَهَا إِيمَانُهَا إِلاَّ قَوْمَ يُونُسَ لَمَّآ آمَنُواْ كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الخِزْيِ فِي الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَى حِينٍ ﴿98﴾ وَلَوْ شَاء رَبُّكَ لآمَنَ مَن فِي الأَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيعًا أَفَأَنتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتَّى يَكُونُواْ مُؤْمِنِينَ ﴿99﴾ وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَن تُؤْمِنَ إِلاَّ بِإِذْنِ اللّهِ وَيَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لاَ يَعْقِلُونَ ﴿100﴾ قُلِ انظُرُواْ مَاذَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَا تُغْنِي الآيَاتُ وَالنُّذُرُ عَن قَوْمٍ لاَّ يُؤْمِنُونَ ﴿101﴾ فَهَلْ يَنتَظِرُونَ إِلاَّ مِثْلَ أَيَّامِ الَّذِينَ خَلَوْاْ مِن قَبْلِهِمْ قُلْ فَانتَظِرُواْ إِنِّي مَعَكُم مِّنَ الْمُنتَظِرِينَ ﴿102﴾ ثُمَّ نُنَجِّي رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُواْ كَذَلِكَ حَقًّا عَلَيْنَا نُنجِ الْمُؤْمِنِينَ ﴿103﴾ قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِن كُنتُمْ فِي شَكٍّ مِّن دِينِي فَلاَ أَعْبُدُ الَّذِينَ تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللّهِ وَلَكِنْ أَعْبُدُ اللّهَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ﴿104﴾ وَأَنْ أَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا وَلاَ تَكُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ﴿105﴾ وَلاَ تَدْعُ مِن دُونِ اللّهِ مَا لاَ يَنفَعُكَ وَلاَ يَضُرُّكَ فَإِن فَعَلْتَ فَإِنَّكَ إِذًا مِّنَ الظَّالِمِينَ ﴿106﴾ وَإِن يَمْسَسْكَ اللّهُ بِضُرٍّ فَلاَ كَاشِفَ لَهُ إِلاَّ هُوَ وَإِن يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلاَ رَآدَّ لِفَضْلِهِ يُصَيبُ بِهِ مَن يَشَاء مِنْ عِبَادِهِ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ﴿107﴾ قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءكُمُ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَنِ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا وَمَا أَنَاْ عَلَيْكُم بِوَكِيلٍ ﴿108﴾ وَاتَّبِعْ مَا يُوحَى إِلَيْكَ وَاصْبِرْ حَتَّىَ يَحْكُمَ اللّهُ وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ ﴿109﴾

(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

الف، لام، را۔ یہ حکمت والی کتاب کی آیتیں ہیں۔ (1) کیا یہ بات لوگوں کے لئے تعجب کا باعث ہے کہ ہم نے خود انہی میں سے ایک آدمی پر وحی بھیجی کہ (بے ایمان اور بدکردار لوگوں کو) ڈراؤ۔ اور ایمان لانے والوں کو خوشخبری دے دو۔ کہ ان کے لیے ان کے پروردگار کے ہاں اچھا مقام و مرتبہ ہے (لیکن) کافروں نے کہا کہ یہ شخص تو کھلا جادوگر ہے۔ (2) بے شک تمہارا پروردگار اللہ ہے۔ جس نے آسمانوں اور زمینوں کو چھ دنوں میں پیدا کیا ہے۔ پھر عرش پر غالب ہوا وہی (کائنات کے) ہر کام کی تدبیر اور اس کا بندوبست کرتا ہے اس کی بارگاہ میں کوئی سفارشی نہیں ہو سکتا مگر اس کی اجازت کے بعد۔ یہ ہے اللہ تمہارا پروردگار پس اسی کی عبادت کرو کیا تم غور و فکر نہیں کرتے (اور نصیحت قبول نہیں کرتے)۔ (3) تم سب نے اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے یہ اللہ کا سچا وعدہ ہے بے شک وہی مخلوق کی پیدائش کی ابتداء کرتا ہے پھر وہی دوبارہ اسے زندہ کرے گا تاکہ جو لوگ ایمان لائیں اور نیک عمل کریں انہیں انصاف کے ساتھ جزا دے اور جنہوں نے کفر کیا انہیں ان کے کفر کی پاداش میں کھولتا ہوا پانی پینے کو ملے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔ (4) وہ وہی ہے جس نے سورج کو چمکدار اور چاند کو نور (روشن) بنایا اور پھر چاند کے لئے مختلف منزلیں قرار دیں تاکہ تم برسوں کی گنتی اور دوسرے حساب معلوم کر سکو اللہ نے یہ سب کچھ حق و حکمت کے ساتھ پیدا کیا ہے وہ ان لوگوں کے لیے جو سمجھنا اور جاننا چاہیں اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کرتا ہے۔ (5) بے شک رات اور دن کی ادل بدل اور الٹ پھیر میں اور ان چیزوں میں جو خدا نے آسمانوں اور زمین میں پیدا کی ہیں پرہیزگاروں کے لیے (خدا کی قدرت و حکمت کی) نشانیاں ہیں۔ (6) بے شک جو لوگ (مرنے کے بعد) ہماری بارگاہ میں حاضری کی امید نہیں رکھتے اور صرف دنیوی زندگی میں مگن ہیں اور اس پر مطمئن ہیں اور جو لوگ ہماری آیتوں سے غافل ہیں۔ (7) یہ وہ ہیں جن کا ٹھکانا دوزخ ہے ان کرتوتوں کی پاداش میں جو وہ دنیا میں کرتے رہے ہیں۔ (8) بے شک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے۔ ان کا پروردگار ان کے ایمان کی بدولت انہیں اس منزل مقصود تک پہنچائے گا۔ یعنی وہ نعمتِ الٰہی کے ان باغوں میں ہوں گے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ (9) وہاں ان کی دعا و صدا یہ ہوگی۔ اے اللہ! پاک ہے تیری ذات اور ان کی صاحب سلامت سلام سے ہوگی اور ان کی آخری دعا و پکار یہ ہوگی کہ ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے ہے جو سب جہانوں کا پروردگار ہے۔ (10) اگر خدا لوگوں کو نقصان پہنچانے میں اس طرح جلدی کرتا جس طرح یہ لوگ اپنی بھلائی کے لئے جلدی کرتے ہیں یعنی اگر ہر برائی کا برا نتیجہ فوراً سامنے آجاتا تو ان کی مدت (عمر) کبھی کی پوری ہو چکی ہوتی مگر ہمارے قانون (سزا میں ڈھیل ہے) اس لئے ہم تو ان لوگوں کو بھی اپنی سرکشیوں میں بھٹکنے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں جو مرنے کے بعد ہماری بارگاہ میں حضوری کی امید نہیں رکھتے۔ (11) جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ کروٹ کے بل لیٹے یا بیٹھے یا کھڑے ہوئے (ہر حال میں) ہمیں پکارتا ہے اور جب ہم اس کی تکلیف دور کر دیتے ہیں تو وہ اس طرح (منہ موڑ کے) چل دیتا ہے جیسے اس نے کسی تکلیف میں جو اسے پہنچی تھی کبھی ہمیں پکارا ہی نہ تھا اسی طرح حد سے گزرنے والوں کے لیے ان کے وہ عمل خوشنما بنا دیئے گئے ہیں جو وہ کرتے رہے ہیں۔ (12) اور بالیقین ہم تم سے پہلے (بہت سی) نسلوں کو ہلاک کر چکے ہیں جب انہوں نے ظلم کی راہ و روش اختیار کی۔ اور ان کے رسول ان کے پاس کھلی نشانیاں (معجزے) لے آئے مگر وہ ایسے تھے ہی نہیں کہ ایمان لاتے ہم اسی طرح مجرم لوگوں کو سزا دیتے ہیں۔ (13) پھر ہم نے ان (نسلوں) کے بعد تمہیں روئے زمین پر ان کا جانشین بنایا تاکہ ہم دیکھیں کہ تم کیسے کام کرتے ہو؟ (14) اور جب انہیں ہماری آیاتِ بینات (واضح آیتیں) پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو جو لوگ مرنے کے بعد ہماری بارگاہ میں حاضری کی توقع نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ کوئی اور قرآن لاؤ یا اس میں رد و بدل کر دو۔ آپ کہہ دیجیے! کہ مجھے یہ حق نہیں ہے کہ میں اپنی طرف سے اس میں کچھ رد و بدل کر دوں! میں تو بس اسی کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی کی جاتی ہے اگر میں اپنے پروردگار کی نافرمانی کروں تو میں ایک بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ (15) (اے رسول(ص)) کہہ دیجیے! اگر خدا چاہتا تو میں تمہیں قرآن پڑھ کر نہ سناتا اور نہ ہی وہ تمہیں اس پر مطلع فرماتا۔ آخر میں تو اس سے پہلے تمہارے درمیان ایک عمر گزار چکا ہوں کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔ (16) پھر اس سے بڑھ کر کون ظالم ہو سکتا ہے جو خدا پر جھوٹا افترا باندھے؟ یا اس کی آیتوں کو جھٹلائے یقینا مجرم کبھی کامیاب نہیں ہوتے۔ (17) یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ انہیں نقصان پہنچا سکتی ہیں اور نہ فائدہ اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں (اے رسول(ص)) تم کہو۔ کیا تم اللہ کو اس چیز کی اطلاع دیتے ہو جو خود اسے نہ آسمانوں میں معلوم ہے اور نہ زمین میں۔ پاک ہے اس کی ذات اور بلند و بالا ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کر رہے ہیں۔ (18) اور (ابتداء میں) سب انسان ایک ہی امت تھے (دینِ فطرت پر تھے) پھر آپس میں اختلاف کیا اور اگر تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک طئے شدہ بات نہ ہوتی (کہ اعمال کی جزا و سزا آخرت میں ہوگی) تو جن باتوں میں یہ لوگ باہم اختلاف کر رہے ہیں اس کا فیصلہ کر دیا گیا ہوتا۔ (19) اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ ان (پیغمبر(ص)) پر ان کے پروردگار کی طرف سے (ان کی مطلوبہ) کوئی نشانی کیوں نازل نہیں ہوتی؟ کہہ دیجیئے کہ غیب کا علم اللہ سے مخصوص ہے سو تم انتظار کرو۔ میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں سے ہوں۔ (20) اور جب ہم لوگوں کو تکلیف اور دکھ درد کے بعد (اپنی) رحمت کا مزہ چکھاتے ہیں تو وہ فوراً ہماری آیتوں میں چال بازی و حیلہ سازی کرنے لگتے ہیں۔ کہہ دیجیئے کہ اللہ تدبیر و ترکیب میں (تم سے) زیادہ تیز ہے بے شک ہمارے فرستادہ (فرشتے) تمہاری سب چالبازیاں اور مکاریاں برابر لکھتے جا رہے ہیں۔ (21) وہ (خدا) وہی ہے جو تمہیں خشکی و تری میں سیر و سفر کراتا ہے یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں سوار ہوتے ہو اور وہ موافق ہوا کے مطابق مسافروں کو لے کر چلتی ہیں اور وہ خوش و خرم ہوتے ہیں تو پھر اچانک بادِ مخالف کا تھپیڑ آجاتا ہے اور ہر طرف سے موجیں اٹھتی چلی آتی ہیں اور وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ اب ہم بالکل گھر گئے ہیں (اور زندہ بچنے کی کوئی امید باقی نہیں رہتی) تو اس وقت دین کو اللہ کے لئے خالص کرکے یعنی بڑے اخلاص کے ساتھ خدا کو پکارتے ہیں کہ (یا اللہ) اگر تو ہمیں اس (مصیبت) سے نجات دے دے تو ہم ضرور تیرے شکر گزار بندوں میں سے ہوں گے۔ (22) اور جب اللہ انہیں نجات دے دیتا ہے تو (اپنا سب عہد و پیمان بھول کر) زمین میں ناحق بغاوت اور سرکشی کرنے لگتے ہیں اے لوگو! تمہاری اس بغاوت کا وِزر و وبال تو خود تمہاری ہی جانوں پر پڑ رہا ہے یہ (چند روزہ) زندگی کے مزے ہیں (سو لوٹ لو) پھر تمہاری بازگشت ہماری ہی طرف ہے اس وقت ہم تمہیں بتائیں گے کہ تم کیا کرتے رہے ہو؟ (23) دنیاوی زندگی کی مثال تو اس پانی جیسی ہے جسے ہم نے آسمان سے برسایا اور زمین سے وہ نباتات پیدا ہوئیں جن کو انسان اور مویشی سب کھاتے ہیں یہاں تک کہ جب زمین اپنی زیب و زینت کو لے چکی اور فصل کے سبزہ زار سے آراستہ ہوگئی۔ اور اس کے مالک سمجھے کہ انہیں اس (فصل) پر قابو حاصل ہے (جب چاہیں گے کاٹیں گے) تو ایک دم رات یا دن کو ہمارا حکم آگیا۔ تو ہم نے اسے اس طرح بیخ و بن سے کاٹ کے رکھ دیا کہ گویا کل وہاں کچھ تھا ہی نہیں۔ ہم غور و فکر کرنے والوں کیلئے اسی طرح کھول کھول کر اپنی آیتیں پیش کرتے ہیں۔ (24) اور اللہ سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے اور جسے چاہتا ہے سیدھے راستہ پر لگا دیتا ہے۔ (25) جن لوگوں نے (دنیا میں) بھلائی کی ہوگی ان کیلئے (آخرت میں) بھلائی ہوگی اور اس سے بھی کچھ زیادہ ان کے چہروں پر نہ غبار چھائے گا اور نہ ذلت و رسوائی (نمایاں ہوگی) یہی لوگ جنتی ہیں جو اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ (26) اور جن لوگوں نے برائیاں کمائیں تو برائی کی سزا بھی ویسی ہی برائی ہے اور ان پر ذلت و خواری چھا جائے گی ان کو اللہ (کے قانون مکافاتِ عمل) سے کوئی بچانے والا نہ ہوگا (ان کے چہرے سیاہ ہوں گے کہ) گویا ان کے چہروں کو اندھیری رات کے ٹکڑوں سے ڈھانپ دیا گیا ہے یہی لوگ دوزخی ہیں جو اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ (27) جس دن ہم سب کو (اپنے حضور) محشور (اکھٹا) کریں گے پھر ان لوگوں سے جنہوں نے شرک کیا تھا کہیں گے کہ تم اور جو تمہارے بنائے ہوئے شریک ہیں اپنی جگہ پر ٹھہر جاؤ۔ پھر ہم ان میں امتیاز پیدا کر دیں گے (الگ الگ کر دیں گے) (اس وقت) ان کے خود ساختہ شریک کہیں گے کہ (اے مشرکو) تم ہماری عبادت تو نہیں کیا کرتے تھے۔ (28) آج ہمارے اور تمہارے درمیان گواہی کیلئے اللہ کافی ہے کہ ہم تمہاری عبادت سے بالکل غافل و بے خبر تھے۔ (29) اس موقع پر ہر شخص اسے جانچ لے گا جو کچھ اس نے آگے بھیجا ہے (کہ اس کا نتیجہ کیا ہے؟) اور سب اللہ کی بارگاہ میں لوٹائے جائیں گے جو ان کا حقیقی مالک ہے اور جو (شریک) انہوں نے گھڑ رکھے تھے وہ سب غائب ہو جائیں گے (اور ان کے کچھ کام نہ آئیں گے) (30) اے پیغمبر) ان لوگوں سے کہو (پوچھو) وہ کون ہے جو تمہیں آسمان و زمین سے روزی دیتا ہے؟ وہ کون ہے جو سمع و بصر (سننے اور دیکھنے کی طاقت) کا مالک ہے؟ وہ کون ہے جو زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے اور مردہ کو زندہ سے؟ اور وہ کون ہے جو کائنات کا انتظام کر رہا ہے؟ اس سوال پر وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ پس تم کہو (کہ اگر حقیقت حال یہی ہے) تو تم کیوں نہیں ڈرتے۔ (31) یہی اللہ ہے جو تمہارا حقیقی پروردگار ہے پھر حق کے بعد گمراہی کے سوا کیا ہے؟ تمہیں (حق سے) کدھر (غلط سمت) موڑا جا رہا ہے۔ (32) اسی طرح تمہارے پروردگار کی بات فاسقوں (نافرمانوں) پر سچی ثابت ہو کر رہی کہ وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ (33) (اے پیغمبر(ص)) آپ کہیے۔ تمہارے ساختہ پرداختہ شریکوں میں سے کوئی ہے جو تخلیقِ کائنات کا آغاز بھی کرے اور (فنا کے بعد) اسے دوبارہ زندہ کرے؟ کہیے! اللہ وہ ہے جو کائنات کو پہلے پیدا بھی کرتا ہے اور پھر اسے دوبارہ زندہ بھی کرے گا تم کدھر الٹے جا رہے ہو؟ (34) (اے پیغمبر(ص)) ان سے کہیے (پوچھئے) کہ تمہارے بنائے ہوئے (خدا کے) شریکوں میں سے کوئی ایسا ہے جو حق کی طرف راہنمائی کرتا ہو؟ کہئے! وہ اللہ ہی ہے جو حق کی طرف راہنمائی کرتا ہے پھر (بتاؤ) جو حق کی طرف راہنمائی کرتا ہے وہ اس کا زیادہ حقدار ہے کہ اس کی پیروی کی جائے یا وہ جو خود اس وقت تک راہ نہیں پا سکتا جب تک اسے راہ نہ دکھائی جائے؟ تمہیں کیا ہوگیا تم کیسے فیصلے کرتے ہو؟ (35) لوگوں میں اکثر ایسے ہیں جو صرف گمان کی پیروی کرتے ہیں حالانکہ گمان حق کی پہچان اور اس تک رسائی حاصل کرنے میں کچھ فائدہ نہیں دیتا (اور نہ ہی یہ حق و یقین سے بے نیاز کرتا ہے) بے شک اللہ اسے خوب جانتا ہے جو کچھ لوگ کر رہے ہیں۔ (36) اور یہ قرآن ایسا نہیں ہے کہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے گھڑ لیا جائے بلکہ یہ تو تمام سابقہ کتابوں اور وحیوں کی تصدیق ہے اور الکتاب کی تفصیل ہے (یعنی اس میں آسمانی کتابوں کی تعلیم کی تفصیل ہے) اس میں کچھ شک و شبہ نہیں ہے کہ یہ تمام جہانوں کے پروردگار کی طرف سے ہے۔ (37) کیا یہ (کافر) لوگ کہتے ہیں کہ اس شخص (پیغمبرِ اسلام(ص)) نے اسے خود گھڑ لیا ہے؟ آپ کہیے! اگر تم اپنے اس الزام میں سچے ہو تو تم اللہ کے سوا اپنی مدد کے لئے جس جس کو بلا سکتے ہو بلا لو اور پھر قرآن کی مانند ایک ہی سورہ لے آؤ۔ (38) بلکہ یہ لوگ اس چیز کو جھٹلا دیتے ہیں جس کا علمی احاطہ نہیں کر سکتے اور جس کی تاویل ابھی ان کے سامنے نہیں آئی ہے اسی طرح ان لوگوں نے بھی (حقائق کو) جھٹلایا تھا جو ان سے پہلے تھے تو دیکھو کہ ظلم کرنے والوں کا کیا انجام ہوا؟ (39) ان لوگوں میں کچھ تو ایسے ہیں جو اس (قرآن) پر ایمان لاتے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جو ایمان نہیں لاتے اور آپ کا پروردگار مفسدین کو خوب جانتا ہے۔ (40) اور اگر وہ آپ کو جھٹلائیں تو فرما دیجیے! میرا عمل میرے لئے ہے اور تمہارا تمہارے لئے جو کچھ میں کرتا ہوں اس سے تم بری الذمہ ہو اور جو کچھ تم کرتے ہو اس سے میں بری الذمہ ہوں۔ (41) اور (اے رسول) ان لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو آپ کی باتوں کی طرف کان لگاتے ہیں (حالانکہ سنتے نہیں ہیں) تو کیا آپ بہروں کو سنائیں گے اگرچہ وہ عقل سے کام نہ لیتے ہوں؟ (42) اور ان میں سے کچھ ایسے ہیں (جو بظاہر) آپ کی طرف دیکھتے ہیں (حالانکہ وہ دیکھتے نہیں ہیں) تو کیا آپ اندھوں کو راہ دکھائیں گے چاہے وہ کچھ نہ دیکھتے ہوں؟ (43) یقینا اللہ لوگوں پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا۔ مگر لوگ خود اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں۔ (44) جس دن اللہ لوگوں کو اپنی بارگاہ میں جمع کرے گا (اس دن انہیں ایسا معلوم ہوگا کہ) جیسے دن کی ایک گھڑی آپس میں جان پہچان کے لئے ٹھہرے ہوں۔ بے شک وہ لوگ گھاٹے میں ہیں جنہوں نے (مرنے کے بعد) خدا کی بارگاہ میں حضوری کو جھٹلایا اور وہ ہدایت یافتہ نہیں تھے۔ (45) اور (اے رسول(ص)) خواہ ہم آپ کو ابھی بعض وہ باتیں (برے اعمال کے نتائج) دکھا دیں جن کا ان (منکرین) سے وعدہ کیا ہے یا اس سے پہلے آپ کو (دنیا سے) اٹھا لیں بہرحال انہیں لوٹ کر آنا تو ہماری ہی طرف ہے پھر اللہ گواہ ہے اس پر جو کچھ وہ کر رہے ہیں۔ (46) اور ہر امت کے لئے ایک رسول ہوتا ہے تو جب ان کا رسول ان کے پاس آجاتا ہے تو پورے انصاف کے ساتھ ان کے درمیان فیصلہ کر دیا جاتا ہے اور ان پر ظلم نہیں کیا جاتا۔ (47) اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو پھر بتاؤ (عذابِ الٰہی کا) وہ وعدہ کب پورا ہوگا؟ (48) (اے رسول) کہہ دیجیے! (یہ معاملہ میرے ہاتھ میں نہیں ہے) میں تو خود اپنے نفع و نقصان کا مالک نہیں ہوں۔ مگر جو اللہ چاہے (وہی ہوتا ہے) ہر امت (قوم) کیلئے (مہلت کی) ایک مدت ہوتی ہے جب وہ مدت پوری ہو جاتی ہے (اور مقررہ وقت آجاتا ہے) تو پھر ایک گھڑی کی بھی نہ تاخیر ہو سکتی ہے اور نہ تقدیم۔ (49) (اے رسول) ان لوگوں سے کہیے کیا تم نے اس بات پر غور کیا ہے کہ اگر اس کا عذاب (اچانک) رات کے وقت تم پر آجائے یا دن دہاڑے (تو تم کیا کروگے؟) آخر وہ کون سی چیز ہے جس کی مجرم جلدی کر رہے ہیں؟ (50) کیا جب وہ (عذاب) واقع ہو جائے گا تو تب اس پر تم ایمان لاؤگے؟ (اس پر یقین کروگے؟) (اس وقت تو کہا جائے گا) اب؟ (اس پر یقین کرکے اس سے بچنا چاہتے ہو؟) حالانکہ تم ہی اس کی جلدی کر رہے تھے۔ (51) پھر ظالموں سے کہا جائے گا کہ اب دائمی عذاب کا مزہ چکھو۔ تم جو کچھ (کرتوت) کیا کرتے تھے اس (دائمی عذاب) کے سوا تمہیں اور کیا بدلہ دیا جا سکتا ہے؟ (52) اور وہ آپ سے پوچھتے ہیں کہ کیا یہ سچ ہے؟ (جو آپ کہتے ہیں؟) کہیے ہاں خدا کی قسم یہ بالکل سچ ہے اور تم (خدا کو) عاجز و بے بس نہیں بنا سکتے۔ (53) جو کچھ روئے زمین پر موجود ہے اگر وہ ہر ظالم شخص کے قبضہ میں آجائے تو (وہ عذاب اس قدر سخت ہے) کہ وہ یہ سب کچھ بطور فدیہ دے دے۔ جب یہ لوگ عذابِ الٰہی کو دیکھیں گے تو ندامت و پشیمانی کو دل میں چھپائیں گے (اور اندر ہی اندر پچھتائیں گے) لیکن پورے انصاف کے ساتھ ان کے درمیان فیصلہ کر دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ (54) یاد رکھو! جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ سب اللہ ہی کا ہے اور یہ بھی یاد رکھو کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے لیکن اکثر لوگ (یہ حقیقت نہیں جانتے)۔ (55) وہی زندگی دیتا ہے اور وہی موت دیتا ہے اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤگے۔ (56) اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے (قرآن کی شکل میں) پند و موعظہ، دلوں کی بیماریوں کی شفا اور اہلِ ایمان کے لئے ہدایت و رحمت کا مجموعہ آگیا ہے۔ (57) (اے رسول) کہیے کہ (یہ سب کچھ) خدا کے خاص فضل اور اس کی خصوصی رحمت کا نتیجہ ہے اس لئے چاہیے کہ لوگ خوشی منائیں یہ چیز اس دولتِ دنیا سے بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیں۔ (58) (اے رسول(ص)) کہیے! لوگو ذرا یہ تو بتاؤ کہ تم نے غور کیا ہے کہ خدا نے تمہارے لئے جو رزق اتارا ہے تو تم نے خود (اپنی خواہشِ نفس سے) کسی کو حرام اور کسی کو حلال قرار دے دیا ہے ان سے پوچھئے! کیا اللہ نے تمہیں اس کی اجازت دی ہے یا تم اللہ پر بہتان باندھ رہے ہو؟ (59) جو لوگ خدا پر افترا پردازی کرتے ہیں ان کا قیامت کے دن کے بارے میں کیا گمان ہے؟ بے شک اللہ لوگوں پر فضل و کرم کرنے والا ہے لیکن اکثر لوگ شکر گزاری نہیں کرتے۔ (60) (اے رسول(ص)) آپ جس حال میں بھی ہوں اور قرآن میں سے جو کچھ بھی پڑھ کر سنائیں اور (اے لوگو) تم بھی جو کوئی کام کرتے ہو ہم ضرور تم پر ناظر و نگران ہوتے ہیں جب تم اس (کام) میں مشغول و منہمک ہوتے ہو۔ اور آپ کے پروردگار سے کوئی ذرہ بھر چیز بھی پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں۔ اور کوئی چیز خواہ ذرہ سے چھوٹی ہو یا اس سے بڑی مگر یہ کہ وہ ایک واضح کتاب میں موجود ہے۔ (61) آگاہ ہو کہ جو اللہ کے دوست ہیں ان کے لئے نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ (62) یہ (اللہ کے دوست) وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور تقویٰ اختیار کیا۔ (63) ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی۔ اللہ کے کلمات میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی یہی بڑی کامیابی ہے۔ (64) اور (اے رسول) ان (کافروں) کی (معاندانہ) باتیں آپ کو غمزدہ نہ کریں۔ یقینا تمام کی تمام عزت اللہ کے لئے ہے (وہ جسے چاہے عزت و ذلت دے) وہ بڑا سننے والا، بڑا جاننے والا ہے۔ (65) آگاہ ہو جاؤ وہ تمام ہستیاں جو آسمان میں ہیں اور وہ سب جو زمین میں ہیں اللہ ہی کے مملوک اور اسی کے تابعِ فرمان ہیں۔ اور جو (مشرک) لوگ اللہ کے سوا خود ساختہ شریکوں کو پکارتے ہیں وہ کاہے کی پیروی کر رہے ہیں؟ وہ محض اپنے گمان کی پیروی کر رہے ہیں اور صرف اپنی اٹکلیں دوڑا رہے ہیں۔ (66) وہ (خدا) وہی ہے جس نے تمہارے لئے رات بنائی تاکہ اس میں آرام کرو اور دیکھنے کے لئے دن کو روشن بنایا (تاکہ اس میں کام کرو) بے شک اس میں ان لوگوں کیلئے (قدرتِ خدا کی) نشانیاں ہیں جو (کلامِ حق) سنتے ہیں۔ (67) یہ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ نے اپنا کوئی بیٹا بنایا ہے حالانکہ وہ پاک و بے نیاز ہے اور اس کیلئے زمین و آسمان کی ساری کائنات ہے۔ تمہارے پاس تو تمہاری بات کی کوئی دلیل بھی نہیں ہے۔ کیا تم لوگ خدا پر وہ الزام لگاتے ہو جس کا تمہیں علم بھی نہیں ہے۔ (68) (اے رسول) کہہ دیجئے جو لوگ خدا پر جھوٹا بہتان باندھتے ہیں وہ کبھی فلاح نہیں پائیں گے۔ (69) (ان کے لئے صرف) دنیا میں تھوڑا سا فائدہ ہے پھر ان کی بازگشت ہماری طرف ہے پھر ہم ان کو ان کے کفر کی پاداش میں سخت عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔ (70) اور (اے رسول(ص)) انہیں (کفار کو) نوح کا حال سنائیں جب کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ اے میری قوم! اگر (تمہارے درمیان) میرا قیام کرنا اور آیاتِ الٰہیہ کا یاد دلانا (اور ان کے ساتھ پند و نصیحت کرنا) شاق گزرتا ہے تو میرا بھروسہ صرف اللہ پر ہے تو تم (میرے خلاف) اپنے خود ساختہ شریکوں کو بھی ساتھ ملا کر کوئی متفقہ فیصلہ کرلو اور (پھر خوب سوچ سمجھ لو تاکہ) تمہارا فیصلہ تم پر پوشیدہ نہ رہے اور تمہیں اس میں کوئی تذبذب باقی نہ رہے پھر میرے ساتھ جو کرنا ہے کر گزرو اور مجھے ذرا بھی مہلت نہ دو۔ (71) اب اگر (اس کے باوجود) تم روگردانی کرتے ہو (تو تمہارا ہی نقصان ہے میرا کیا نقصان ہے) میں نے تم سے کوئی اجر تو نہیں مانگا۔ میرا اجر تو اللہ کے ذمے ہے مجھے تو حکم دیا گیا ہے کہ میں اس کے فرمانبردار بندوں سے ہو کر رہوں۔ (72) (بایں ہمہ) ان لوگوں نے انہیں جھٹلایا پس ہم نے انہیں اور جو کشتی میں ان کے ساتھ سوار تھے نجات دی اور انہیں (غرق ہونے والوں کا) جانشین بنایا اور جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا ان سب کو غرق کر دیا تو دیکھو جن کو متنبہ کیا گیا تھا اور ڈرایا گیا تھا (مگر وہ نہ مانے) ان کا کیا انجام ہوا؟ (73) پھر ہم نے ان (نوح(ع)) کے بعد متعدد رسولوں کو ان کی قوموں کی طرف بھیجا اور وہ ان کے پاس کھلی کھلی نشانیاں (معجزے) لے کر آئے اس پر بھی وہ تیار نہ تھے کہ جس چیز کو وہ پہلے جھٹلا چکے ہیں (اب معجزے دیکھ کر) اس پر ایمان لائیں۔ ہم یونہی ظلم و تعدی کرنے والوں کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں۔ (74) پھر ہم نے ان (رسولوں) کے بعد موسیٰ (ع)و ہارون (ع)کو اپنی نشانیوں (معجزوں) کے ساتھ فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف بھیجا تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ لوگ (عادی) مجرم تھے۔ (75) اور جب ہماری طرف سے ان کے پاس حق آیا (اور حقیقت واضح ہوگئی) تو انہوں نے کہہ دیا کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے۔ (76) موسیٰ (ع) نے کہا کیا تم حق کے بارے میں ایسی بات کہتے ہو جبکہ وہ تمہارے پاس آیا؟ کیا یہ جادو ہے؟ حالانکہ جادوگر کبھی فلاح و کامیابی نہیں پا سکتے۔ (77) انہوں نے (جواب میں) کہا کہ کیا تم اس لئے ہمارے پاس آئے ہو کہ ہمیں اس راہ سے ہٹا دو جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا ہے۔ اور اس سر زمین میں تم دونوں (بھائیوں) کی بڑائی (سرداری) قائم ہو جائے اور ہم تم دونوں کی بات تسلیم کرنے والے نہیں ہے۔ (78) اور فرعون نے کہا (میرے ملک کے) تمام ماہر جادوگروں کو میرے پاس لاؤ۔ (79) اور جب جادوگر آگئے تو موسیٰ نے ان سے کہا (جادو کے سامان سے) تمہیں جو کچھ پھینکنا ہے پھینکو۔ (80) جب وہ (رسیاں وغیرہ) پھینک چکے۔ تو موسیٰ نے کہا جو کچھ تم لائے ہو یہ جادو ہے (نہ وہ جو میں لایا ہوں) یقینا اللہ اسے بھی ملیامیٹ کر دے گا کیونکہ قانونِ قدرت ہے کہ اللہ مفسدین کے کام کو بننے نہیں دیتا۔ (81) اور اللہ حق کو اپنے کلمات کے ذریعہ سے ضرور حق ثابت کر دکھاتا ہے اگرچہ مجرموں کو ناپسند ہی ہو۔ (82) پس موسیٰ پر ان کی قوم کے چند نوجوانوں کے ایک گروہ کے سوا اور کوئی ایمان نہیں لایا اور وہ (ایمان لانے والے) بھی فرعون اور اپنی قوم کے سرداروں سے ڈرتے ہوئے ایمان لائے۔ کہ کہیں وہ انہیں آزمائش (اور مصیبت) میں نہ ڈال دے اور بے شک فرعون بڑا سرکش (بادشاہ) تھا اور حد سے بڑھ جانے والوں میں سے تھا۔ (83) اور موسیٰ نے کہا اے میری قوم! اگر تم واقعی اللہ پر ایمان لائے ہو تو پھر اسی پر بھروسہ کرو۔ اگر تم فی الحقیقت مسلمان ہو۔ (84) انہوں نے (جواب میں) کہا ہم اللہ ہی پر بھروسہ کرتے ہیں (اور دعا کرتے ہیں) اے ہمارے پروردگار ہمیں ظالم لوگوں کیلئے آزمائش کا موجب نہ بنا (ان کے ظلم کا تختہ مشق نہ بنا)۔ (85) اور ہمیں اپنی رحمت سے ظالموں (کے پنجۂ ظلم) سے نجات عطا فرما۔ (86) اور ہم نے موسیٰ اور ان کے بھائی (ہارون) کی طرف وحی کی کہ مصر میں اپنی قوم کے لئے چند گھر مہیا کرو (بناؤ) اور اپنے گھروں کو قبلہ رخ بنائیں (یا اپنے گھروں کو ہی قبلہ بنائیں) اور نماز قائم کریں اور (اے موسیٰ اہلِ ایمان کو) کامیابی کی بشات دیں۔ (87) اور موسیٰ نے (دعا مانگتے ہوئے) کہا اے ہمارے پروردگار تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو دنیاوی زندگی میں زیب و زینت (کی چیزوں) اور بہت سے مال و دولت سے نوازا ہے۔ اے پروردگار! اس کا نتیجہ اور انجام یہ ہے کہ وہ (تیرے بندوں کو) تیرے راستہ سے بہکاتے ہیں۔ اے ہمارے مالک، ان کے مالوں کو نابود کر دے اور ان کے دلوں کو سخت کر دے تاکہ جب تک دردناک عذاب نہ دیکھ لیں ایمان نہ لائیں (اور اس وقت ایمان کا لانا سودمند نہ ہوگا)۔ (88) اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم دونوں کی دعا قبول کر لی گئی ہے سو تم ثابت قدم رہو۔ اور ان لوگوں کی پیروی نہ کرو۔ جو (حق و حقیقت کا) علم نہیں رکھتے۔ (89) اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار اتار دیا پھر فرعون اور اس کے لشکر نے سرکشی اور ظلم و تعدی سے ان کا پیچھا کیا یہاں تک کہ جب وہ (فرعون) (دریا میں) غرق ہونے لگا تو کہنے لگا کہ میں ایمان لاتا ہوں (مانتا ہوں) کہ اس ہستی کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں مسلمانوں (فرمانبرداروں) میں سے ہوں۔ (90) (اس سے کہا گیا) اب؟ (ایمان لاتا ہے؟) حالانکہ اس سے پہلے تو مسلسل نافرمانی کرتا رہا ہے اور تو فسادیوں میں سے ایک (بڑا) مفسد تھا۔ (91) پس آج ہم صرف تیرے بدن (لاش) کو بچائیں گے تاکہ تو اپنے بعد آنے والوں کے لئے (قدرت و عبرت کی) ایک نشانی بن جائے (اگرچہ) لوگوں کی اکثریت ہماری نشانیوں سے غافل ہی رہتی ہے۔ (92) اور ہم نے (حسب الوعدہ) بنی اسرائیل کو (رہنے کے لئے) بہت اچھا ٹھکانا دیا اور پاکیزہ چیزوں سے ان کی روزی کا انتظام کیا پس جب تک ان کے پاس توراۃ وغیرہ کی شکل میں علم نہیں آگیا تب تک انہوں نے باہم اختلاف نہیں کیا۔ (پھر جان بوجھ کر اختلاف کیا)۔ یقینا آپ کا پروردگار قیامت کے دن ان کے درمیان فیصلہ کرے گا ان باتوں میں جن میں وہ اختلاف کیا کرتے تھے۔ (93) اگر (بالفرض) آپ کو اس (قرآن میں) کچھ شک ہے جو ہم نے آپ کی طرف نازل کیا ہے تو پھر ان لوگوں (اہل کتاب) سے پوچھ لو جو آپ سے پہلے کتابیں (توراۃ و انجیل وغیرہ) پڑھتے رہتے ہیں۔ بے شک آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ کے پاس حق آیا ہے لہٰذا ہرگز شک کرنے والوں میں سے نہ ہونا۔ (94) اور نہ ہی ان لوگوں میں سے ہونا جنہوں نے آیاتِ الٰہیہ کو جھٹلایا ورنہ نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جاؤگے۔ (95) بے شک وہ لوگ جن پر آپ کے پروردگار کی بات ثابت ہو چکی ہے۔ (96) سو اگرچہ دنیا جہاں کی تمام نشانیاں (معجزات) ان کے سامنے آجائیں مگر وہ جب تک دردناک عذاب اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں تب تک وہ کبھی ایمان نہیں لائیں گے۔ (97) قومِ یونس کے سوا کیوں کوئی ایسی بستی نہیں ہوئی جو (عذاب دیکھ کر) ایمان لائی ہو اور اس کے ایمان نے اسے فائدہ بھی پہنچایا ہو؟ جب وہ (قومِ یونس والے) ایمان لائے تو ہم نے اس دنیاوی زندگی میں ان سے رسوائی والا عذاب ٹال دیا اور ان کو ایک مدت تک زندگی کے سرو سامان سے فائدہ اٹھانے کی مہلت دے دی۔ (98) اگر آپ کا پروردگار (جبراً) چاہتا تو روئے زمین کے سب لوگ ایمان لے آتے۔ تو کیا آپ لوگوں کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ مؤمن ہو جائیں۔ (99) کوئی بھی متنفس ایسا نہیں ہے جو اللہ کے اذن کے بغیر ایمان لے آئے اور اللہ ان لوگوں پر (کفر و شرک) کی نجاست ڈال دیتا ہے جو عقل سے کام نہیں لیتے۔ (100) (اے رسول(ص)) کہیئے۔ (اے لوگو) غور سے دیکھو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا (عجائبات قدرت) موجود ہیں (اور کس بات کی گواہی دے رہے ہیں؟) مگر جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان کو نہ نشانیاں کوئی فائدہ دیتی ہیں اور نہ ڈرانے والوں کی تنبیہیں۔ (101) کیا یہ لوگ ان جیسے (عذاب کے) دنوں کا انتظار کر رہے ہیں جو ان لوگوں پر آئے جو ان سے پہلے تھے (کہ ایسے ہی ان پر بھی آئیں؟) ان سے کہہ دیجیئے کہ پھر تم انتظار کرو۔ میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں سے ہوں۔ (102) پھر (جب ایسے دن آتے ہیں) تو ہم اپنے رسولوں کو اور ایمان لانے والوں کو نجات دے دیتے ہیں اسی طرح ہمارے ذمہ حق ہے کہ ہم اہلِ ایمان کو نجات دیا کریں۔ (103) کہیے! اے لوگو اگر تمہیں میرے دین (اسلام) کے بارے میں کچھ شک ہے تو (سن لو) میں ان (بتوں) کی عبادت نہیں کرتا جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو بلکہ میں اس اللہ کی عبادت کرتا ہوں جو تمہاری روح قبض کرتا ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اہلِ ایمان کے زمرہ میں سے ہوں۔ (104) نیز (مجھے حکم دیا گیا ہے کہ) ہر طرف سے اپنا رخ موڑ کر سیدھا دین کی طرف رکھوں اور مشرکوں میں سے نہ ہوں۔ (105) نیز (مجھے حکم دیا گیا ہے کہ) اللہ کے سوا کسی ایسی ہستی کو نہ پکاریں جو تمہیں نہ فائدہ پہنچا سکے اور نہ نقصان اور اگر ایسا کیا تو پھر ظالموں میں سے ہو جاؤ گے۔ (106) اور اگر اللہ تمہیں کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو اس کے سوا کوئی اس کا دور کرنے والا نہیں ہے اور اگر وہ تمہارے ساتھ بھلائی کرنا چاہے تو اس کے فضل کو کوئی روکنے والا نہیں ہے وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے اپنا فضل و کرم فرمائے وہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔ (107) (اے رسول) کہہ دیجئے! اے لوگو تمہارے پروردگار کی طرف سے حق آچکا ہے پس جو ہدایت حاصل کرے گا تو وہ اپنے فائدہ کے لئے کرے گا اور جو گمراہ ہوگا اس کا نقصان بھی اسی کو ہوگا میں تم پر نگہبان و نگران نہیں ہوں۔ (108) اور (اے رسول) آپ اس وحی کی پیروی کریں جو آپ کی طرف کی جاتی ہے اور (مخالفین کی ایذا رسانیوں پر) صبر کریں یہاں تک کہ اللہ (آپ کے اور ان کے درمیان) فیصلہ کر دے۔ جو فیصلہ کرنے والوں میں سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ (109)

پچھلی سورت: سورہ توبہ سورہ یونس اگلی سورت:سورہ ہود

1.فاتحہ 2.بقرہ 3.آل‌عمران 4.نساء 5.مائدہ 6.انعام 7.اعراف 8.انفال 9.توبہ 10.یونس 11.ہود 12.یوسف 13.رعد 14.ابراہیم 15.حجر 16.نحل 17.اسراء 18.کہف 19.مریم 20.طہ 21.انبیاء 22.حج 23.مؤمنون 24.نور 25.فرقان 26.شعراء 27.نمل 28.قصص 29.عنکبوت 30.روم 31.لقمان 32.سجدہ 33.احزاب 34.سبأ 35.فاطر 36.یس 37.صافات 38.ص 39.زمر 40.غافر 41.فصلت 42.شوری 43.زخرف 44.دخان 45.جاثیہ 46.احقاف 47.محمد 48.فتح 49.حجرات 50.ق 51.ذاریات 52.طور 53.نجم 54.قمر 55.رحمن 56.واقعہ 57.حدید 58.مجادلہ 59.حشر 60.ممتحنہ 61.صف 62.جمعہ 63.منافقون 64.تغابن 65.طلاق 66.تحریم 67.ملک 68.قلم 69.حاقہ 70.معارج 71.نوح 72.جن 73.مزمل 74.مدثر 75.قیامہ 76.انسان 77.مرسلات 78.نبأ 79.نازعات 80.عبس 81.تکویر 82.انفطار 83.مطففین 84.انشقاق 85.بروج 86.طارق 87.اعلی 88.غاشیہ 89.فجر 90.بلد 91.شمس 92.لیل 93.ضحی 94.شرح 95.تین 96.علق 97.قدر 98.بینہ 99.زلزلہ 100.عادیات 101.قارعہ 102.تکاثر 103.عصر 104.ہمزہ 105.فیل 106.قریش 107.ماعون 108.کوثر 109.کافرون 110.نصر 111.مسد 112.اخلاص 113.فلق 114.ناس


نوٹ

  1. یہ پانچ آیتیں یہ ہیں: سورہ اسراء، آیت نمیر 88؛ سورہ یونس، آیت نمبر 38؛ سورہ ہود، آیت نمبر 13؛ سورہ طور، آیت نمبر 33 اور 34؛ سورہ بقرہ، آیت نمبر 23۔

حوالہ جات

  1. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش، ج8، ص212۔
  2. طبرسی، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، 1372ش، ج5، ص131۔
  3. معرفت، آموزش علوم قرآن، 1371ش، ج1، ص166۔
  4. خرمشاہی، «سورہ یونس»، ج2، ص1239۔
  5. صفوی، «سورہ یونس»، ص841۔
  6. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش،‌ ج8، ص212۔
  7. خامہ‌گر، محمد، ساختار سورہ‌ہای قرآن کریم، تہیہ مؤسسہ فرہنگی قرآن و عترت نورالثقلین، قم، نشر نشرا، چ۱، ۱۳۹۲ش.
  8. واحدی، اسباب نزول القرآن، 1411ق، ص270۔
  9. طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج5، ص17؛ واحدی، اسباب نزول القرآن، 1411ق، ص270۔
  10. قاضی‌زادہ، «بررسی سیر نزولی تحدی در آیات قرآن»، ص200۔
  11. سلطانی ببرامی، «راز تحدی‌ہای قرآن از منظر استاد مصباح»، ص87۔
  12. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ق، ج8، ص289۔
  13. «خطبہ‌ہای نماز جمعہ ہفتم خرداد نود و پنج قائم‌شہر»؛ «بیانیہ پایانی ہفتمین اجلاسیہ منطقہ‌ای جامعہ مدرسین»، خبرگزاری رسا۔
  14. طباطبایی، المیزان، 1390ق، ج10، ص93۔
  15. شاکر، «پژوہشی در معنای ظن و جایگاہ معرفتی و اخلاقی آن در قرآن»، ص108۔؛ فیض نسب، آیات الاحکام فی التراث الامام الخمینی، 1384ش، ص617-620۔
  16. کفعمی، المصباح، 1405ق، ص440۔
  17. عیاشی، التفسیر العیاشی، 1380ق، ج2، ص119۔

مآخذ

  • قرآن کریم، ترجمہ محمد حسین نجفی (سرگودھا)۔
  • خرمشاہی، قوام‌الدین، «سورہ یونس»، در دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، تہران، انتشارات دوستان و ناہید، 1377ش۔
  • سلطانی ببرامی، اسماعیل، «راز تحدی‌ہای گوناگون قرآن از منظر استاد مصباح»، مجلہ قرآن‌شناخت، شمارہ 10، 1391ش۔
  • سیوطی، جلال الدین، الدر المنثور فی تفسیر المأثور، قم، کتابخانہ آیۃ اللہ مرعشی نجفی، 1404ق۔
  • شاکر، محمدکاظم، «پژوہشی در معنای ظن و جایگاہ معرفتی و اخلاقی در قرآن»، مجلہ مقالات و بررسی‌ہا، تابستان 1386ش۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، مقدمہ: بلاغی‏، محمد جواد، تہران، ناصر خسرو، چاپ سوم، 1372ش۔
  • عیاشی، محمد بن مسعود، التفسیر، محقق و مصحح: رسولی محلاتی، ہاشم، المطبعۃ العلمیۃ، تہران، چاپ اول، 1380ق۔
  • فیض نسب، عباس، آیات الاحکام فی التراث الامام الخمینی، تہران، مرکز نشر آثار امام خمینی، 1384ش۔
  • قاضی‌زادہ، کاظم، «بررسی سیر نزولی تحدی در آیات قرآن»، مجلہ پژوہش‌ہای قرآنی، شمارہ 3، پاییز 1373ش۔
  • ‌ کفعمی، ابراہیم بن علی، المصباح (جنۃ الأمان الواقیۃ و جنۃ الإیمان الباقیۃ)، دار الرضی (زاہدی)، قم، چاپ دوم، 1405ق۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ اول، 1374ق۔
  • واحدی، علی بن احمد، اسباب نزول القرآن، محقق كمال بسيونى زغلول، ‏بیروت، دار الكتب العلميۃ، 1411ق۔