سورہ اِسراء یا سُبحان و یا بنی‌ اسرائیل قرآن کریم کی 17ویں اور مکی سورتوں میں سے ہے جو 15ویں پارے میں واقع ہے۔ اس سورہ کا نام "اسراء" اس لئے رکھا گیا ہے چونکہ اس میں پیغمبر اسلامؐ کے اس سفر کا تذکرہ ہوا ہے جس میں آپ کو راتوں رات مسجدالحرام سے بیت المقدس لے جایا گیا۔ اسی طرح اس کا دوسرا نام بنی‌ اسرائیل ہے چونکہ اس میں قوم بنی‌ اسرائیل سے متعلق داستانیں بیان ہوئی ہیں۔

نحل سورۂ اسراء کہف
ترتیب کتابت: 17
پارہ : 15
نزول
ترتیب نزول: 50
مکی/ مدنی: مکی
اعداد و شمار
آیات: 111
الفاظ: 1560
حروف: 6440

اس سورت میں توحید، معاد، نفی شرک، معراج پیغمبر، دلائل نبوت، اعجاز قرآن، والدین کے ساتھ نیکی کرنے کی سفارش، انسان پر گناہ کے اثرات، بعض گناہوں کا حرام ہونا اور دوسرے موجودات پر انسان کی برتری جیسے موضوعات پر گفتگو ہوئی ہے۔

اس سورت کی پہلی آیت جوکہ پیغمبر اسلامؐ کے معراج کے سفر سے متعلق ہے، آیت نمبر 40 جوکہ انسانی کرامت سے متعلق ہے اور آیت نمبر 82 آیت شفاء اس سورت کے مشہور آیات میں سے ہیں۔ اسی طرح آیت نمبر 33 جو کہ قتل نفس کی حرمت کے بارے میں ہے اور آیت نمبر 78 اوقات نماز کے بارے میں ہے اس سورت کی آیات الاحکام میں شمار کئے جاتے ہیں۔

امام علیؑ سے منقول ہے کہ جو شخص سورہ اسراء کی تلاوت کرے اور جب والدین سے متعلق خدا کی سفارشات پر پہنچے تو اس کے جذبات بھڑک اٹھے اور والدین کے ساتھ زیادہ محبت کا اظہار کرے تو اس شخص کو اتنا ثواب دیا جائے گا جو اس دنیا اور اس میں موجود تمام اشیاء سے برتر ہوگا۔

تعارف

نام‌

اس سورت کا نام "اِسراء" اس کی پہلی آیت کی مناسبت سے رکھا گیا ہے جس میں اسراء کا واقعہ اور پیغمبر اکرمؐ کی معراج کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے۔[1] چنانچہ بعض احادیث کے مطابق اس سورت کا دوسرا نام "بنی‌اسرائیل" ہے[2] کیونکہ اس کی ابتداء اور آخر میں بنی‌اسرائیل کی داستان بیان ہوئی ہے۔[3] اسی طرح اسے "سورہ سبحان" بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس سورت کا آغاز اسی لفظ سے ہوا ہے اسی لئے امام علیؑ سے منقول ایک حدیث میں اس سورت کو "سبحان" کے نام میں سے یاد کیا گیا ہے۔[4]

محل اور ترتیب نزول

سورہ اسراء مکی سورتوں میں سے ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے 50ویں سورہ ہے جو بعثت کے 11ویں سال سورہ قصص کے بعد اور سورہ یونس سے پہلے پیغمبر اکرمؐ پر نازل ہوا۔ یہ سورت مُصحَف کی موجودہ ترتیب کے مطابق قرآن کی 17ویں سورت ہے اور پارہ نمبر 15 میں واقع ہے۔[5] سورہ اسراء مسبحات میں سے پہلا سورہ ہے جو خدا کی تسبیح و تقدیس سے شروع ہوتا ہے۔[6]

آیات کی تعداد اور دوسری خصوصیات

سورہ اسراء 111 آیات،[یادداشت 1] 1558 کلمات اور 6460 حروف پر مشتمل ہے[7] اور حجم کے لحاظ سے اس کا شمار سور مئون میں ہوتا ہے اور ایک متوسط سورہ ہے۔[8] سورہ اسراء میں مدنی سورتوں کی بعض علامات من جملہ آیات کیا طولانی ہونا، پر مشتمل ہے؛ ان خصوصیات کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ چونکہ یہ سورت پیغمبر اکرمؐ کی مکی زندگی کے آخری ایام میں نازل ہوئی ہے اور گویا مدنی سورتوں کے لئے زمنیہ ہموار کی جا رہی ہے۔[9]

مفاہیم

علامہ طباطبایی نے تفسیر المیزان میں توحید اور تسبیح کو سورہ اِسراء کا اصلی موضوع قرار دئے ہیں۔ آپ کی نظر میں اس سورت میں خدا کی تسبیح اور تنزیہ اس کے حمد و ثنای پر غالب ہے اور مختلف آیات میں خدا کو ولی، شریک اور اولاد سے پاک و منزہ قرار دئے گئے ہیں۔[10]

تفسیر نمونہ میں سورہ اسراء کو عقیدتی، اخلاقی اور سماجی موضوعات کا کامل مجموعہ قرار دیتے ہیں جو مختلف ابعاد میں انسان کی ترقی اور تکامل کے لئے موزون اور مفید واقع ہوتے ہیں۔[11] سورہ اسراء کے مطالب کو درج ذیل کلیات میں خلاصہ کیا جا سکتا ہے:

  • نبوت کے دلائل خاص کر قرآن اور معراج؛
  • معاد، عذاب، ثواب، نامہ اعمال اور ان کے نتایج؛
  • قوم بنی‌ اسرائیل کی تاریخ؛
  • آزادی ارادہ و اختیار اور انسان کے اعمال کا خود اس کی طرف منسوب ہونا؛
  • اسی دنیوی زندگی میں حساب و کتاب کا عمل دخل؛
  • رشتہ داروں خاص کر والدین کے حقوق سے آشنائی؛
  • اسراف، تبذیر، بخل، فرزندکشی، زنا، یتیم کا مال کھانا، کم‌فروشی، تکبر اور خون‌ریزی کا حرام ہونا؛
  • توحید اور خدا شناسی سے متعلق ابحاث؛
  • حق کے مقابلے میں لجاجت اور تعصب؛
  • انسان کی قدر و منزلت اور دوسرے مخلوقات پر اس کی افضلیت؛
  • اخلاقی اور سماجی بیماریوں کے علاج میں قرآن کا عمل دخل؛
  • اعجاز قرآن اور اس سے مقابلہ نہ کر سکنا؛
  • شیطان کے وسوسے اور شیطان کے نفوذ سے مؤمنین کو ہوشیار کرنا؛
  • بعض اخلاقی تعلیمات؛
  • تمام انسانوں کی عبرت کے لئے انبیاء کی تاریخ کے بعض نمونے۔[12]
سورہ اسراء کے مضامین[13]
 
 
 
 
 
 
 
 
کافروں کے باطل عقائد کا مقابلہ اور قرآن و پیغمبر کے بارے میں ان کے شبہات
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
چوتھا گفتار؛ آیہ ۷۳-۱۱۱
پیغمبر اور قرآن کے خلاف مشرکوں کی سازشیں اور شبہات
 
تیسرا گفتار؛ آیہ ۵۳-۷۲
مشرکوں کے کفر آمیز عقائد سے مقابلے کے اصول
 
دوسرا گفتار؛ آیہ ۴۰-۵۲
مشرکوں کے قرآن مخالف عقاید کا بطلان
 
پہلا گفتار؛ آیہ ۲-۳۹
انسان کی سعادت آسمانی کتابوں پر عمل کے مرہون منت
 
مقدمہ؛ آیہ ۱
پیغمبر کا معراج آیاتِ الہی کے حقانیت کی دلیل
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
پہلی سازش؛ آیہ ۷۳-۷۵
پیغمبر کی روش تبدیلی کرنے کی کوشش
 
پہلی اصل؛ آیہ ۵۳-۵۵
نازیبا کلمات کے بیان سے اجتناب
 
پہلا عقیدہ آیہ؛ ۴۰-۴۶
فرشتے اللہ کی اولاد ہونے کا دعوا
 
پہلا مطلب؛ آیہ ۲-۸
بنی اسرائیل کی ہدایت کے لیے قرآن کا نزول
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
دوسری سازش؛ آیہ ۷۶-۸۱
پیغمبر کو مکہ سے خارج کرنے کی کوشش
 
دوسری اصل؛ آیہ ۵۶-۵۷
باطل معبودوں کی ناتوانی کی یادآوری
 
دوسرا عقیدہ؛ آیہ ۴۷-۴۸
پیغمبر کو ساحر کہنا
 
دوسرا مطلب؛ آیہ ۹-۳۹
قرآن کا نزول تمام انسانوں کی ہدایت کے لیے
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
تیسری سازش؛ آیہ ۸۲-۸۴
قرآن انسانوں کے لیے رحمت ہونے سے انکار
 
اصل سوم؛ آیہ ۵۸-۵۹
آیات الہی کے منکروں کو عذاب کی یاد آوری
 
تیسرا عقیدہ ؛آیہ ۴۹-۵۲
انسان کی دوبارہ زندگی کا انکار
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
چوتھی سازش؛ آیہ ۸۵-۸۷
پیغمبر سے مشکلات سوالات کرنا
 
چوتھی اصل؛ آیہ ۶۰
اللہ کا انسانوں پر محیط ہونے کی یادآوری
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
پانچویں سازش؛ آیہ ۸۸-۸۹
قرآن معجزہ ہونے کا انکار
 
پانچویں اصل؛ آیہ ۶۱-۶۵
ابلیس کی انسان سے دشمنی کی یادآوری
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
چھٹی سازش؛ آیہ ۹۰-۹۳
پیغمبر سے مختلف معجزوں کی درخواست
 
چھٹی اصل؛ آیہ ۶۶-۷۰
اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی مذمت
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
ساتویں سازش؛ آیہ ۹۴-۹۶
پیغمبر بشر ہونے کی وجہ سے ان کی رسالت کا انکار
 
ساتویں اصل؛ آیہ ۷۱-۷۲
باطل رہبروں کی پیروی کے انجام کی یادآوری
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
آٹھویں سازش؛ آیہ ۹۷-۱۰۴
انسان کی دوبارہ زندگی کے بارے میں آیات الہی کا انکار
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
نویں سازش؛ آیہ ۱۰۵-۱۰۹
قرآن کے تدریجی نزول پر اشکال
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
دسویں سازش؛ آیہ ۱۱۰-۱۱۱
اللہ کے مختلف نام ذکر کرنے کی وجہ سے پیغمبر کو مشرک قرار دینا
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

تاریخی واقعات اور داستانیں

سور اسراء میں بنی‌اسرائیل اور حضرت آدم کی بعض تاریخی دستانوں کا ذکر ہوا ہے۔

بعض آیات کی شأن نزول

سورہ اسراء کی بعض آیات کی شأن نزول درج ذیل ہیں:

بخشش میں اعتدال (آیت 29)

جابر بن عبداللہ انصاری نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر اسلامؐ اصحاب کے درمیان تشریف فرما تھے اتنے میں ایک لڑکا آیا اور کہا میری ماں آپ کی ایک قمیص مانگ رہی ہے۔ پیغمبر اکرمؐ ایک قمیص سے زیادہ نہیں رکھتے تھے گھر جا کر اسے اس لڑکے کے حوالہ فرمایا اور خود گھر میں برہنہ رہنے لگے یہاں تک کہ بلال نے اذان دی۔ مسلمان پیغمبر اکرمؐ کے منتظر تھے لیکن آپ نہ آئے جو اصحاب کی پریشانی کا سبب بنی جس کے بعد سورہ اسراء کی آیت نمبر 29: وَ لا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلى‏ عُنُقِكَ وَ لا تَبْسُطْها كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوماً مَحْسُورا؛ (ترجمہ: اور (دیکھو) نہ تو اپنا ہاتھ اپنی گردن سے باندھ لو اور نہ ہی اسے بالکل کھول دو کہ (ایسا کرنے سے) ملامت زدہ (اور) تہی دست ہو کر بیٹھ جاؤگے۔)[؟؟] نازل ہوئی اور پیغمبر اکرم کو بخشش میں اعتدال کی رعایت کرنے کی سفارش فرمائی۔[14]

خدا کی نشانیوں کا انکار معجزات کے نزول میں مانع (آیت 59)

ابن عباس نقل کرتے ہیں کہ اہل مکہ نے پیغمبر اسلامؐ سے درخواست کیا کہ آپ کوہ صفا کو سونے میں تبدیل کریں اور مکہ کے پہاڑوں کو پیچھے دھکیل دیں تاکہ وہ اس میں زراعت کر سکیں اور اگر آپ یہ امور انجام دیں تو وہ آپ پر ایمان لے آئیں گے۔ اس موقع پر وحی نازل ہوئی کہ اگر صبر کریں تو ان کے درمیان سے بعض مؤمنین کو انتخاب کریں گے اور اگر آپ چاہتے ہیں تو ان کی خواہش پوری کر دیں گے؛ لیکن اگر اس کے بعد وہ انکار پر اتر آئیں تو گذشتہ اقوام کی طرح ان کو بھی نابود کر دے گے۔ پیغمبر اسلامؐ نے خدا سے انہیں مہلت دینے کی درخواست کی اس موقع پر سورہ اسراء کی آیت نمیر 59: "وَمَا مَنَعَنَا أَن نُّرْ‌سِلَ بِالْآيَاتِ إِلَّا أَن كَذَّبَ بِهَا الْأَوَّلُونَ (ترجمہ: اور (منکرین کی مطلوبہ) نشانیاں بھیجنے سے ہمیں کسی چیز نے نہیں روکا۔ مگر اس بات نے کہ پہلے لوگ انہیں جھٹلا چکے ہیں۔)[؟؟]" نازل ہوئی جس میں گذشتہ امتوں کی طرف سے خدا کی نشانیوں کا انکار معجزات کے نزول میں مانع قرار دیا گیا ہے۔[15]

روح کی حقیقت کے بارے میں سوال(آیت 85)

سورہ اسراء کی آیت نمبر 85: "وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّ‌وحِ ۖ قُلِ الرُّ‌وحُ مِنْ أَمْرِ‌ رَ‌بِّي وَمَا أُوتِيتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا؛ (ترجمہ: (اے رسول(ص)!) لوگ آپ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ کہہ دیجئے کہ روح میرے پروردگار کے امر سے ہے اور تمہیں بہت ہی تھوڑا سا علم دیا گیا ہے۔)[؟؟]" کے سبب نزول کے بارے میں آیا ہے کہ قریش نے پیغمبر اسلامؐ سے پوچھنے کے لئے یہودیوں سے کچھ سوالات سکھانے کی درخواست کی۔ اس پر یہودیوں نے کہا ان روح، اصحاب کہف اور ذوالقرنین کے بارے میں سوال کریں اگر سب کا جواب دے دیں یا کسی ایک سوال کا جواب نہ دیں تو سمجھ لو وہ پیغمبر نہیں ہیں لیکن اگر بعض سوالوں کا جواب دیں اور بعض کا جواب نہ دیں تو وہ پیغمبر ہیں۔ قریش نے پیغمبر اکرمؐ سے وہ سوالات پوچھے اور سورہ کہف کی آیات باقی دو سوالوں کے جواب میں نازل ہوئی اور سورہ اسراء کی آیت نمبر 85 روح کی حقیقت کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں نازل ہوئی جس میں اس سے متعلق علم کو آگاہی کو صرف خدا سے مختص قرار دیا گیا ہے۔[16]

تفسیری نکات

سورہ اسراء کی بعض آیات تفسیری نکات پر مشتمل ہے جن کی طرف ذیل میں اشارہ کیا جاتا ہے۔

انسان کے اعمال کی بازگشت

سورہ اسراء کی آیت نمبر 13 میں انسان کے اعمال کو اس کے گردن میں آویزاں کرنے کی تعبیر آئی ہے جو اس سے کھبی بھی جدا نہیں ہونگے۔[17] مجمع البیان میں اس آیت کے ایک حصے: "وَ كُلَّ إِنسَانٍ أَلْزَمْنَاهُ طَئرَِهُ فىِ عُنُقِه[؟؟]" میں استعمال شدہ لفظ "طائر" سے مراد انسان کے اعمال لیتے ہیں جو ایک پرندے کے مانند انسان کے اطراف میں پرواز کرتے ہیں۔ یہ اصطلاح عرب والوں سے لیا گیا ہے جو انسان کے گرد پرندے کی حرکت اگر بائیں سے دائیں ہو تو اسے نیک شگون اور اگر دائیں سے بائیں ہو تو اسے بد شگون تعبیر کرتے تھے۔[18]

ذی القربی کے حقوق کی ادائیگی

سورہ اسراء کی آیت نمبر 26 میں آنے والی اصطلاح "ذَا الْقُرْ‌بَىٰ" کے بارے میں مفسرین کے درمیان یہ سوال ایجاد ہوتے ہیں کہ آیا اس سے مراد ہر رشتہ دار ہیں یا صرف پیغمبر اکرمؐ کے رشتہ دار مراد ہیں؟[19] تفسیر نمونہ کے مطابق شیعہ ائمہ معصومین سے نقل شدہ احادیث کے مطابق "ذَا الْقُرْ‌بَىٰ" سے صرف اہل بیت پیغمبر مراد لیتے ہیں لیکن یہ احادیث آیت کے مصادیق کو صرف اہل بیت میں منحصر نہیں کرتی بلکہ اہل بیت کو اس کا کامل مصداق قرار دیتے ہیں لہذا ہر شخص سے اپنے رشتہ داروں سے متعلق پوچھا جائے گا۔[20] شیعہ اور اہل سنت احادیث کے مطابق پیغمبر اکرمؐ نے اس آیت کے نازل ہونے کے بد حضرت فاطمہ(س) کے لئے فدک بطور ہدیہ عطا فرمایا تھا۔[21]

آنکھ، کان اور دل کی مسئولیت

خدا نے سورہ اسرا کی آیت نمبر 36: "وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْم (ترجمہ: اور جس چیز کا تمہیں علم نہیں ہے اس کے پیچھے نہ پڑو یقیناً کان، آنکھ اور دل ان سب کے بارے میں (تم سے) بازپرس کی جائے گی۔)[؟؟]" میں انسان کو اس چیز کی پیروی کرنے سے منع کیا ہے جس چیز کے بارے میں انسان کو علم نہ ہو۔ علامہ طباطبایی کے مطابق یہ چیز اعتقاد غیرعلمی اور عمل غیرعلمی دونوں کو شامل کرتی ہے۔ علامہ طباطبائی غیر علم کی پیروی نہ کرنے کو انسانی فطرت کے مطابق قرار دیتے ہیں کیونکہ انسان اپنی زندگی میں واقعیت تک پہنچنے کے علاوہ کسی اور مقصد کے درپے می‌داند نہیں ہے اور یہ چیز صرف اور صرف علم کی پیروی کے ذریعے ممکن ہے اور شک اور ظمن و گمان کی پیروی کے ذریعے اس ہدف تک پہنچنا ممکن پذیر نہیں ہے۔[22]

اس آیت میں غیر علم کی پیروی نہ کرنے کی علت آنکھ، کان اور دل کی مسئولیت قرار دیتے ہیں۔ بعض مفسرین ان تین اعضاء کا نام حقیقت میں انسان کی نیابت میں لیا گیا ہے کیونکہ خدا خود انسان کو ثواب یا عقاب کرے گا نہ کہ ان اعضاء کو۔[23] اس کے مقابلے میں بعض مفسرین آنکھ، کان اور دل کی مسئولیت کو ان کی طرف سے انسان کے خلاف دینے والی گواہی سے تفسیر کرتے ہوئے اس باتکے معتقد ہیں کہ خدا انہی اعضاء سے پوچھ گچ کرتے ہیں تو یہ اعضاء حق بات کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں؛ کیونکہ یہی اعضاء علم حاصل کرنے کے ذرایع ہیں اور جب انسان غیر علم کی پیروی کرتے ہیں تو یہ اعضاء اس کے خلاف گواہی دیتے ہیں۔[24]

آخرت میں نابینا ہونا

سورہ اسراء کی آیت نمبر 72 میں بعض انسانوں کا آخرت میں نابینا محشور ہونے کی طرف اشاره ملتا ہے جو دنیا اور آخرت کی ہم سنخی کی دلیل ہے۔[25] علامہ طباطبائی آخرت میں نابینا ہونے کو آنکھوں کی بصارت کا خاتمہ نہیں قرار دیتے؛ بلکہ اس سے مراد بصیرت نہ ہونا اور باطنی بینائی سے محروم ہونا ہے؛ چنانچہ قرآن کی بعض دوسری آیات من جملہ سورہ حج کی آیت نمبر 46: "فَإِنَّها لا تَعْمَى الْأَبْصارُ وَ لكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ[؟؟] میں اس نابینائی کو بصیرت کا فقدان قرار دیا ہے لہذا اس آیت کا معنی یہ ہو گا کہ جو بھی اس دنیا میں حق کے راستے کو قبول نہیں کرے گا وہ شخص آخرت میں بھی سعادت اور سرفرازی سے ہمکنار نہیں ہو گا۔[26]

طبرسی آخرت کی نابینائی کو دنیا میں خدا کی نشانیوں کے انکار کا نتیجہ قرار دیتے ہیں اور ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ خدا کی نعمتوں کا انکار قیامت کے دن بے بصیرتی کا موجب بنے گا۔[27] فخر رازی سے بھی منقول ہے کہ قیامت کے دن نابینا ہونا دنیا میں نابینا ہونے سے سخت ہے اور مذکورہ شخص زیادہ عقاب سے بھی دوچار ہو گا۔[28]

انسان کا عمل اس کی فردی خصوصیات کے مطابق ہونا

سورہ اسراء کی آیت نمبر 86 میں انسان کے عمل کو اس کے "شاکلہ" یعنی شخصیت کے مطابق قرار دیتے ہیں اور اس شخصیت سے مراد انسان کی ان باطنی اور اخلاقی خصوصیات ہیں جو انسان کے تمام رفتار و کردار کا سرچشمہ ہوا کرتی ہے۔[29] علامہ طباطبائی شاکلہ کی تفسیر کرتے ہوئے تاکید کرتے ہیں کہ انسان کی شخصیت خاص رفتار و کردار کا صرف تقاضا کرتی ہے اور کبھی بھی انسان کو کسی کام پر مجبور نہیں کرتی ہے۔[30]

مشہور آیات

آیت معراج، آیت والدین کے ساتھ نیک سلوک، آیت کرامت انسانی اور آیت تواضع سورہ اسراء کی مشہور آیات میں سے ہیں۔

آیت اسراء (1)

سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَ‌ىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَ‌كْنَا حَوْلَه...﴿۱﴾»
[؟؟]

اس آیت میں پیغمبر اکرمؐ کی مسجد الحرام سے مسجد الأقصی تک کے سفر کی روئیداد بیان کرتی ہے جو آپؐ کی معراج کے لئے مقدمہ تھا۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ یہ سفر ایک ہی رات انجام پایا جو اس زمانے کے ذرایع کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک معجزہ تھا۔[31] علامہ طباطبائی لکھتے ہیں: "اِسراء" کے معنی رات کا سفر ہے اور لفظ "لیلاً" اس بات کے اوپر دلالت کرتے ہے کہ یہ سفر ایک ہی رات مکہ سے بیت المقدس انجام پایا ہے۔[32]

آیت نمبر 9

إِنَّ هَـٰذَا الْقُرْ‌آنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ وَ يُبَشِّرُ‌ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرً‌ا كَبِيرً‌ا ... ﴿۹﴾
[؟؟]

سورہ اسراء کی آیت نمبر 9 میں قرآن کو سب سے زیادہ مستقیم اور استوار دین کی طرف ہدایت کرنے والا قرار دیتے ہیں۔ تفسیر نمونہ میں قرآن کے روشن اور قابل درک نیز ہر قسم کی ابہام اور خرافات سے عاری اعتقادات، باطن و ظاہر اور عقیدہ و عمل میں رابطہ برقرار کرنا، مادی اور معنوی ابعاد کی ایک ساتھ تقویت، اسراف و تبذیر اور عبادت میں افراط و تفریط سے دوری اور دیگر اخلاقی اور عدل و انصاف سے بھری اور ظلم و ستم سے دور پروگراموں کو ان دو خصوصیات کا سبب قرار دیتے ہیں۔[33]

والدین کے ساتھ نیکی (23-24)

وَقَضَىٰ رَ‌بُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ‌ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْ‌هُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِ‌يمًا﴿۲۳﴾ وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّ‌حْمَةِ وَقُل رَّ‌بِّ ارْ‌حَمْهُمَا كَمَا رَ‌بَّيَانِي صَغِيرً‌ا﴿۲۴﴾
[؟؟]

اس آیت سے عائلی اور اخلاقی ابحاث میں بہت زیادہ استفادہ کرتے ہیں۔[34] المیزان کے مطابق چونکہ اس آیت میں خدا کی توحید اور وحدانیت کے بعد والدین کے ساتھ نیکی کی سفارش کی گئی ہے، والدین کے ساتھ نیکی کرنا سب سے اہم واجبات میں سے ہیں۔[35] شیعہ ائمہ سے منقول بعض احادیث میں پیغمبر اکرمؐ اور حضرت علیؑ کو اس آیت کے مصادیق میں سے قرار دیئے گئے ہیں۔[36]

آیت مبذرین (27)

إِنَّ الْمُبَذِّرِ‌ينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ ۖ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَ‌بِّهِ كَفُورً‌ا...﴿۲۷﴾
[؟؟]

سورہ اسراء کی آیت نمبر 27 میں مبذرین کو شیاطین کے ساتھ تشبیہ دینے اور انہیں شیطان کا بھائی قرار دینے کو تبذیر کی نفی میں تاکید قرار دیتے ہیں۔[37] اسی طرح مبذرین کو شیطان کا بھائی اور ہمنشین قرار دینے سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح شیطان انسان کے اعمال کو فاسد کرتا ہے اسی طرح تبذیر بھی انسان کے عمل کو باطل کرتی ہے۔[38]

مفسرین اس آیت میں لفظ "شیطان" کو ابلیس سے تعبیر کرتے ہیں جس نے اپنے پروردگار سے کفر اختیار کیا تھا جس کی وجہ سے اس نے خدا کی دی ہوئی نعمتوں کو تباہ کر کے بندگان خدا کو گمراہ کرنے کا اختیار مانگا تھا۔[39] ان آیات میں تبذیر کو ایک شیطانی فعل اور ایک قسم کی ناشکری قرار دیتے ہیں اور جس طرح ایک مؤمن کو دوسرے مؤمن کا بھائی قرار دے کر انہیں برتری دی ہے، مبذرین کو شیطان کا بھائی قرار دے کی ان کی تحقیر کی گئی ہے۔[40]

آیت تواضع (37)

وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْ‌ضِ مَرَ‌حًا ۖ إِنَّكَ لَن تَخْرِ‌قَ الْأَرْ‌ضَ وَلَن تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُولًا﴿۳۷﴾
[؟؟]

سورہ اسراء کی آیت نمبر 37 کو بعض انسانوں کی نادانی کی طرف اشاره قرار دیتے ہیں جنہیں جب کوئی مقام اور مال و دولت ملتی ہے تو غرور اور تکبر کرنا شروع کر دیتے ہیں لیکن جب کسی مصیبت اور مشکلات میں گرفتار ہوتے ہیں تو حیران و پریشان رہ جاتے ہیں؛ جبکہ عاقل انسان وہ ہے جو اپنی حیثیت کو جانتا ہے اور کبھی بھی غرور و تکبر کا شکار نہیں ہوتا ہے[41] آیت کے اس حصے: "إِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْأَرْضَ وَ لَنْ تَبْلُغَ الْجِبالَ طُولًا[؟؟] کو انسان کی ناتوانی کی طرف اشارہ قرار دیتے ہیں جو قد کاٹھ کے اعتبار سے پہاڑوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور نہ زمین میں شکافت پیدا کرنے کی ہمت رکھتا ہے۔[42] اس طرح مذکورہ آیت کا یہ متکبر انسان کے خیالاتی ہونے کی طرف بھی اشارہ ہے کیونکہ اگر وہ وہم و گمان کا شکار نہ ہوتا تو اپنے سے بڑوں اور طاقتوروں کو بھی دیکھتا اور اپنے چھوٹاپنی کا اعتراف بھی کرتا۔[43]

آیت کرامت (70)

وَلَقَدْ كَرَّ‌مْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ‌ وَالْبَحْرِ‌ وَ رَ‌زَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَ فَضَّلْنَاهُمْ عَلَىٰ كَثِيرٍ‌ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا﴿۷۰﴾
[؟؟]

سورہ اسراء کی آیت نمبر 70 میں انسان کی ترتبیت کے ایک طریقے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے؛ کیونکہ جب انسان کو شخصیت اور عزت دی جاتی ہے اس کی سمجھ آتی ہے کہ وہ اپنی انسانی گوہر کو ایک ناچیز چیز کے ساتھ عوض نہیں کرتا۔[44]

انسان کا با کرامت ہونا بھی حقیقت میں خدا کے لطف و کرم کی وجہ سے ہے چونکہ خدا نے انسان کو بہترین شکل و صورت میں پیدا فرمایا، اسے عقل کی دولت سے مالا مال کیا، اس میں کمال‌طلبی کی حس ودیعت کی، گذشتہ اقوام سے عبرت‌ لینے کا درس دیا، اسے عبث نہیں بلکہ ایک اہم مقصد کے لئے خلق فرمایا وغیرہ وغیرہ۔[45]

علامہ طباطبائی فرماتے ہیں کہ اس آیت در حقیقت خدا انسان پر منت چڑا رہا ہے۔ علامہ کے مطابق خدا نے انسان کو بہت ساری نعمتیں دینے کے بعد جب انسان ان نعمتوں کو فراموش کرتا ہے تو اس آیت میں ان نعمتوں کو شمار کرنے کے ذریعے اپنی نعمتوں کی یادآوری فرما رہا ہے تاکہ انسان خدا کا شکرگزار بنے۔[46]

دیگر مشہور آیات

آیت نمبر 80 قرآنی دعائیں، آیت نمبر 81 حق پائیداری اور باطل کی ناپائیداری، آیت نمبر 82 آیت شفاء اور آیت نمبر 85 آیت روح کے عنوان سے اس سورت کے مشہور آیات میں شمار ہوتی ہیں۔

آیات الاحکام

فقہا سورہ اسراء کی بعض آیات جسیے آیت نمیر 32 سے زنا کی حرمت، آیت نمبر 33 سے نفس محترمہ کے قتل کی حرمت، آیت نمبر 34 سے مال یتیم میں بغیر مصلحت کےتصرف حرام ہونا اور آیت نمبر 78 اور 79 سے نماز کے احکام کو استنباط کرنے کے لئے استفاده کرتے ہیں۔ وہ آیات جن میں یا احکام شرعی موجود ہوں یا احکام شرعی استنباط کرنے کے لئے ذریعہ قرار پائے آیات الاحکام کہا جاتا ہے۔[47] درج ذیل جدول میں سورہ اسراء کے بعض آیات الاحکام کی طرف اشاره کیا جاتا ہے:

آیت نمبر آیت باب موضوع
۳۱ وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ[؟؟] حدود و دیات فرزند کشی کی ممانعت
۳۲ وَلَا تَقْرَ‌بُوا الزِّنَىٰ ۖ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا[؟؟] نکاح حرمت زنا
۳۳ وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّ‌مَ اللَّـهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَمَن قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهِ سُلْطَانًا...[؟؟] قصاص حرمت قتل نفس محترمه و حق قصاص
۳۴ وَلَا تَقْرَ‌بُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّىٰ يَبْلُغَ أَشُدَّهُ[؟؟] مکاسب مال یتیم میں مصلت کے بغیر تصرف کی حرمت
۳۴ وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ ۖ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا[؟؟] نذر و قسم و عہد عہد کی پاسداری کرنا واجب ہے
۳۵ وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذَا كِلْتُمْ وَزِنُوا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِيمِ[؟؟] مکاسب کم فروشی کی ممانعت
۷۸ أَقِمِ الصَّلَاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَىٰ غَسَقِ اللَّيْلِ وَقُرْ‌آنَ الْفَجْرِ‌[؟؟] نماز اوقات نماز
۷۹ وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَىٰ أَن يَبْعَثَكَ رَ‌بُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا[؟؟] نماز استحباب نماز شب
۱۱۰ وَلَا تَجْهَرْ‌ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًا [؟؟] نماز نماز میں آواز کی کیفیت

فضیلت اور خواص

سورہ اسراء کی فضیلت اور تلاوت کے بارے میں امام علیؑ سے منقول ہے کہ جو شخص سورہ اسراء کی تلاوت کرے اور جب خدا کی طرف سے والدین کے بارے میں کئے گئے سفارشات پر پہنچتے ہیں تو فرط جذبات میں والدین کے ساتھ زیادہ محبت کا اظہار کرے تو اسے اتنا ثواب دیا جائے گا کہ دنیا اور اس میں موجود تمام اشیاء سے زیادہ افضل ہو گا۔[48] امام صادقؑ سے بھی منقول ہے کہ: "جو شخص شب جمعہ کو سورہ اسراء کی تلاوت کرے تو یہ شخص موت سے پہلے امام زمانہ سے ملاقات کرے گا اور ان کے اصحاب میں شمار ہو گا۔[49] شیخ طوسی شب جمعہ کو اس سورے کی تلاوت مستحب قرار دیتے ہیں۔[50]

متن اور ترجمہ

سورہ اسراء
ترجمہ
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّ‌حْمَـٰنِ الرَّ‌حِيمِ

سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ ﴿1﴾ وَآتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَجَعَلْنَاهُ هُدًى لِّبَنِي إِسْرَائِيلَ أَلاَّ تَتَّخِذُواْ مِن دُونِي وَكِيلاً ﴿2﴾ ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ إِنَّهُ كَانَ عَبْدًا شَكُورًا ﴿3﴾ وَقَضَيْنَا إِلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ فِي الْكِتَابِ لَتُفْسِدُنَّ فِي الأَرْضِ مَرَّتَيْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِيرًا ﴿4﴾ فَإِذَا جَاء وَعْدُ أُولاهُمَا بَعَثْنَا عَلَيْكُمْ عِبَادًا لَّنَا أُوْلِي بَأْسٍ شَدِيدٍ فَجَاسُواْ خِلاَلَ الدِّيَارِ وَكَانَ وَعْدًا مَّفْعُولاً ﴿5﴾ ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَيْهِمْ وَأَمْدَدْنَاكُم بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَجَعَلْنَاكُمْ أَكْثَرَ نَفِيرًا ﴿6﴾ إِنْ أَحْسَنتُمْ أَحْسَنتُمْ لِأَنفُسِكُمْ وَإِنْ أَسَأْتُمْ فَلَهَا فَإِذَا جَاء وَعْدُ الآخِرَةِ لِيَسُوؤُواْ وُجُوهَكُمْ وَلِيَدْخُلُواْ الْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوهُ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَلِيُتَبِّرُواْ مَا عَلَوْاْ تَتْبِيرًا ﴿7﴾ عَسَى رَبُّكُمْ أَن يَرْحَمَكُمْ وَإِنْ عُدتُّمْ عُدْنَا وَجَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْكَافِرِينَ حَصِيرًا ﴿8﴾ إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يِهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ وَيُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا كَبِيرًا ﴿9﴾ وأَنَّ الَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ بِالآخِرَةِ أَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا ﴿10﴾ وَيَدْعُ الإِنسَانُ بِالشَّرِّ دُعَاءهُ بِالْخَيْرِ وَكَانَ الإِنسَانُ عَجُولاً ﴿11﴾ وَجَعَلْنَا اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ آيَتَيْنِ فَمَحَوْنَا آيَةَ اللَّيْلِ وَجَعَلْنَا آيَةَ النَّهَارِ مُبْصِرَةً لِتَبْتَغُواْ فَضْلاً مِّن رَّبِّكُمْ وَلِتَعْلَمُواْ عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْنَاهُ تَفْصِيلاً ﴿12﴾ وَكُلَّ إِنسَانٍ أَلْزَمْنَاهُ طَآئِرَهُ فِي عُنُقِهِ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كِتَابًا يَلْقَاهُ مَنشُورًا ﴿13﴾ اقْرَأْ كَتَابَكَ كَفَى بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيبًا ﴿14﴾ مَّنِ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدي لِنَفْسِهِ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا وَلاَ تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولاً ﴿15﴾ وَإِذَا أَرَدْنَا أَن نُّهْلِكَ قَرْيَةً أَمَرْنَا مُتْرَفِيهَا فَفَسَقُواْ فِيهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاهَا تَدْمِيرًا ﴿16﴾ وَكَمْ أَهْلَكْنَا مِنَ الْقُرُونِ مِن بَعْدِ نُوحٍ وَكَفَى بِرَبِّكَ بِذُنُوبِ عِبَادِهِ خَبِيرًَا بَصِيرًا ﴿17﴾ مَّن كَانَ يُرِيدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهُ فِيهَا مَا نَشَاء لِمَن نُّرِيدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهُ جَهَنَّمَ يَصْلاهَا مَذْمُومًا مَّدْحُورًا ﴿18﴾ وَمَنْ أَرَادَ الآخِرَةَ وَسَعَى لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَئِكَ كَانَ سَعْيُهُم مَّشْكُورًا ﴿19﴾ كُلاًّ نُّمِدُّ هَؤُلاء وَهَؤُلاء مِنْ عَطَاء رَبِّكَ وَمَا كَانَ عَطَاء رَبِّكَ مَحْظُورًا ﴿20﴾ انظُرْ كَيْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَلَلآخِرَةُ أَكْبَرُ دَرَجَاتٍ وَأَكْبَرُ تَفْضِيلاً ﴿21﴾ لاَّ تَجْعَل مَعَ اللّهِ إِلَهًا آخَرَ فَتَقْعُدَ مَذْمُومًا مَّخْذُولاً ﴿22﴾ وَقَضَى رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلاَهُمَا فَلاَ تَقُل لَّهُمَآ أُفٍّ وَلاَ تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلاً كَرِيمًا ﴿23﴾ وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا ﴿24﴾ رَّبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا فِي نُفُوسِكُمْ إِن تَكُونُواْ صَالِحِينَ فَإِنَّهُ كَانَ لِلأَوَّابِينَ غَفُورًا ﴿25﴾ وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا ﴿26﴾ إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُواْ إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا ﴿27﴾ وَإِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْهُمُ ابْتِغَاء رَحْمَةٍ مِّن رَّبِّكَ تَرْجُوهَا فَقُل لَّهُمْ قَوْلاً مَّيْسُورًا ﴿28﴾ وَلاَ تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَى عُنُقِكَ وَلاَ تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَّحْسُورًا ﴿29﴾ إِنَّ رَبَّكَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاء وَيَقْدِرُ إِنَّهُ كَانَ بِعِبَادِهِ خَبِيرًا بَصِيرًا ﴿30﴾ وَلاَ تَقْتُلُواْ أَوْلادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلاقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُم إنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْءًا كَبِيرًا ﴿31﴾ وَلاَ تَقْرَبُواْ الزِّنَى إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاء سَبِيلاً ﴿32﴾ وَلاَ تَقْتُلُواْ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللّهُ إِلاَّ بِالحَقِّ وَمَن قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهِ سُلْطَانًا فَلاَ يُسْرِف فِّي الْقَتْلِ إِنَّهُ كَانَ مَنْصُورًا ﴿33﴾ وَلاَ تَقْرَبُواْ مَالَ الْيَتِيمِ إِلاَّ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّى يَبْلُغَ أَشُدَّهُ وَأَوْفُواْ بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْؤُولاً ﴿34﴾ وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذا كِلْتُمْ وَزِنُواْ بِالقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِيمِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً ﴿35﴾ وَلاَ تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْؤُولاً ﴿36﴾ وَلاَ تَمْشِ فِي الأَرْضِ مَرَحًا إِنَّكَ لَن تَخْرِقَ الأَرْضَ وَلَن تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُولاً ﴿37﴾ كُلُّ ذَلِكَ كَانَ سَيٍّئُهُ عِنْدَ رَبِّكَ مَكْرُوهًا ﴿38﴾ ذَلِكَ مِمَّا أَوْحَى إِلَيْكَ رَبُّكَ مِنَ الْحِكْمَةِ وَلاَ تَجْعَلْ مَعَ اللّهِ إِلَهًا آخَرَ فَتُلْقَى فِي جَهَنَّمَ مَلُومًا مَّدْحُورًا ﴿39﴾ أَفَأَصْفَاكُمْ رَبُّكُم بِالْبَنِينَ وَاتَّخَذَ مِنَ الْمَلآئِكَةِ إِنَاثًا إِنَّكُمْ لَتَقُولُونَ قَوْلاً عَظِيمًا ﴿40﴾ وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِي هَذَا الْقُرْآنِ لِيَذَّكَّرُواْ وَمَا يَزِيدُهُمْ إِلاَّ نُفُورًا ﴿41﴾ قُل لَّوْ كَانَ مَعَهُ آلِهَةٌ كَمَا يَقُولُونَ إِذًا لاَّبْتَغَوْاْ إِلَى ذِي الْعَرْشِ سَبِيلاً ﴿42﴾ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يَقُولُونَ عُلُوًّا كَبِيرًا ﴿43﴾ تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالأَرْضُ وَمَن فِيهِنَّ وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلاَّ يُسَبِّحُ بِحَمْدَهِ وَلَكِن لاَّ تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا ﴿44﴾ وَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرآنَ جَعَلْنَا بَيْنَكَ وَبَيْنَ الَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ بِالآخِرَةِ حِجَابًا مَّسْتُورًا ﴿45﴾ وَجَعَلْنَا عَلَى قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَن يَفْقَهُوهُ وَفِي آذَانِهِمْ وَقْرًا وَإِذَا ذَكَرْتَ رَبَّكَ فِي الْقُرْآنِ وَحْدَهُ وَلَّوْاْ عَلَى أَدْبَارِهِمْ نُفُورًا ﴿46﴾ نَّحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَسْتَمِعُونَ بِهِ إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ وَإِذْ هُمْ نَجْوَى إِذْ يَقُولُ الظَّالِمُونَ إِن تَتَّبِعُونَ إِلاَّ رَجُلاً مَّسْحُورًا ﴿47﴾ انظُرْ كَيْفَ ضَرَبُواْ لَكَ الأَمْثَالَ فَضَلُّواْ فَلاَ يَسْتَطِيعْونَ سَبِيلاً ﴿48﴾ وَقَالُواْ أَئِذَا كُنَّا عِظَامًا وَرُفَاتًا أَإِنَّا لَمَبْعُوثُونَ خَلْقًا جَدِيدًا ﴿49﴾ قُل كُونُواْ حِجَارَةً أَوْ حَدِيدًا ﴿50﴾ أَوْ خَلْقًا مِّمَّا يَكْبُرُ فِي صُدُورِكُمْ فَسَيَقُولُونَ مَن يُعِيدُنَا قُلِ الَّذِي فَطَرَكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ فَسَيُنْغِضُونَ إِلَيْكَ رُؤُوسَهُمْ وَيَقُولُونَ مَتَى هُوَ قُلْ عَسَى أَن يَكُونَ قَرِيبًا ﴿51﴾ يَوْمَ يَدْعُوكُمْ فَتَسْتَجِيبُونَ بِحَمْدِهِ وَتَظُنُّونَ إِن لَّبِثْتُمْ إِلاَّ قَلِيلاً ﴿52﴾ وَقُل لِّعِبَادِي يَقُولُواْ الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنزَغُ بَيْنَهُمْ إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلإِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِينًا ﴿53﴾ رَّبُّكُمْ أَعْلَمُ بِكُمْ إِن يَشَأْ يَرْحَمْكُمْ أَوْ إِن يَشَأْ يُعَذِّبْكُمْ وَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ وَكِيلاً ﴿54﴾ وَرَبُّكَ أَعْلَمُ بِمَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَلَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِيِّينَ عَلَى بَعْضٍ وَآتَيْنَا دَاوُودَ زَبُورًا ﴿55﴾ قُلِ ادْعُواْ الَّذِينَ زَعَمْتُم مِّن دُونِهِ فَلاَ يَمْلِكُونَ كَشْفَ الضُّرِّ عَنكُمْ وَلاَ تَحْوِيلاً ﴿56﴾ أُولَئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَى رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُورًا ﴿57﴾ وَإِن مَّن قَرْيَةٍ إِلاَّ نَحْنُ مُهْلِكُوهَا قَبْلَ يَوْمِ الْقِيَامَةِ أَوْ مُعَذِّبُوهَا عَذَابًا شَدِيدًا كَانَ ذَلِك فِي الْكِتَابِ مَسْطُورًا ﴿58﴾ وَمَا مَنَعَنَا أَن نُّرْسِلَ بِالآيَاتِ إِلاَّ أَن كَذَّبَ بِهَا الأَوَّلُونَ وَآتَيْنَا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً فَظَلَمُواْ بِهَا وَمَا نُرْسِلُ بِالآيَاتِ إِلاَّ تَخْوِيفًا ﴿59﴾ وَإِذْ قُلْنَا لَكَ إِنَّ رَبَّكَ أَحَاطَ بِالنَّاسِ وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلاَّ فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِي القُرْآنِ وَنُخَوِّفُهُمْ فَمَا يَزِيدُهُمْ إِلاَّ طُغْيَانًا كَبِيرًا ﴿60﴾ وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلآئِكَةِ اسْجُدُواْ لآدَمَ فَسَجَدُواْ إَلاَّ إِبْلِيسَ قَالَ أَأَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِينًا ﴿61﴾ قَالَ أَرَأَيْتَكَ هَذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ لَئِنْ أَخَّرْتَنِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لأَحْتَنِكَنَّ ذُرِّيَّتَهُ إَلاَّ قَلِيلاً ﴿62﴾ قَالَ اذْهَبْ فَمَن تَبِعَكَ مِنْهُمْ فَإِنَّ جَهَنَّمَ جَزَآؤُكُمْ جَزَاء مَّوْفُورًا ﴿63﴾ وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ وَأَجْلِبْ عَلَيْهِم بِخَيْلِكَ وَرَجِلِكَ وَشَارِكْهُمْ فِي الأَمْوَالِ وَالأَوْلادِ وَعِدْهُمْ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلاَّ غُرُورًا ﴿64﴾ إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ وَكَفَى بِرَبِّكَ وَكِيلاً ﴿65﴾ رَّبُّكُمُ الَّذِي يُزْجِي لَكُمُ الْفُلْكَ فِي الْبَحْرِ لِتَبْتَغُواْ مِن فَضْلِهِ إِنَّهُ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا ﴿66﴾ وَإِذَا مَسَّكُمُ الْضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ضَلَّ مَن تَدْعُونَ إِلاَّ إِيَّاهُ فَلَمَّا نَجَّاكُمْ إِلَى الْبَرِّ أَعْرَضْتُمْ وَكَانَ الإِنْسَانُ كَفُورًا ﴿67﴾ أَفَأَمِنتُمْ أَن يَخْسِفَ بِكُمْ جَانِبَ الْبَرِّ أَوْ يُرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَاصِبًا ثُمَّ لاَ تَجِدُواْ لَكُمْ وَكِيلاً ﴿68﴾ أَمْ أَمِنتُمْ أَن يُعِيدَكُمْ فِيهِ تَارَةً أُخْرَى فَيُرْسِلَ عَلَيْكُمْ قَاصِفا مِّنَ الرِّيحِ فَيُغْرِقَكُم بِمَا كَفَرْتُمْ ثُمَّ لاَ تَجِدُواْ لَكُمْ عَلَيْنَا بِهِ تَبِيعًا ﴿69﴾ وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلاً ﴿70﴾ يَوْمَ نَدْعُو كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ فَمَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ فَأُوْلَئِكَ يَقْرَؤُونَ كِتَابَهُمْ وَلاَ يُظْلَمُونَ فَتِيلاً ﴿71﴾ وَمَن كَانَ فِي هَذِهِ أَعْمَى فَهُوَ فِي الآخِرَةِ أَعْمَى وَأَضَلُّ سَبِيلاً ﴿72﴾ وَإِن كَادُواْ لَيَفْتِنُونَكَ عَنِ الَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ لِتفْتَرِيَ عَلَيْنَا غَيْرَهُ وَإِذًا لاَّتَّخَذُوكَ خَلِيلاً ﴿73﴾ وَلَوْلاَ أَن ثَبَّتْنَاكَ لَقَدْ كِدتَّ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئًا قَلِيلاً ﴿74﴾ إِذاً لَّأَذَقْنَاكَ ضِعْفَ الْحَيَاةِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لاَ تَجِدُ لَكَ عَلَيْنَا نَصِيرًا ﴿75﴾ وَإِن كَادُواْ لَيَسْتَفِزُّونَكَ مِنَ الأَرْضِ لِيُخْرِجوكَ مِنْهَا وَإِذًا لاَّ يَلْبَثُونَ خِلافَكَ إِلاَّ قَلِيلاً ﴿76﴾ سُنَّةَ مَن قَدْ أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِن رُّسُلِنَا وَلاَ تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحْوِيلاً ﴿77﴾ أَقِمِ الصَّلاَةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَى غَسَقِ اللَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا ﴿78﴾ وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَى أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا ﴿79﴾ وَقُل رَّبِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَل لِّي مِن لَّدُنكَ سُلْطَانًا نَّصِيرًا ﴿80﴾ وَقُلْ جَاء الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا ﴿81﴾ وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاء وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ وَلاَ يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إَلاَّ خَسَارًا ﴿82﴾ وَإِذَآ أَنْعَمْنَا عَلَى الإِنسَانِ أَعْرَضَ وَنَأَى بِجَانِبِهِ وَإِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ كَانَ يَؤُوسًا ﴿83﴾ قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلَى شَاكِلَتِهِ فَرَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَنْ هُوَ أَهْدَى سَبِيلاً ﴿84﴾ وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُم مِّن الْعِلْمِ إِلاَّ قَلِيلاً ﴿85﴾ وَلَئِن شِئْنَا لَنَذْهَبَنَّ بِالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ ثُمَّ لاَ تَجِدُ لَكَ بِهِ عَلَيْنَا وَكِيلاً ﴿86﴾ إِلاَّ رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ إِنَّ فَضْلَهُ كَانَ عَلَيْكَ كَبِيرًا ﴿87﴾ قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَن يَأْتُواْ بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لاَ يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا ﴿88﴾ وَلَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِي هَذَا الْقُرْآنِ مِن كُلِّ مَثَلٍ فَأَبَى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلاَّ كُفُورًا ﴿89﴾ وَقَالُواْ لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الأَرْضِ يَنبُوعًا ﴿90﴾ أَوْ تَكُونَ لَكَ جَنَّةٌ مِّن نَّخِيلٍ وَعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الأَنْهَارَ خِلالَهَا تَفْجِيرًا ﴿91﴾ أَوْ تُسْقِطَ السَّمَاء كَمَا زَعَمْتَ عَلَيْنَا كِسَفًا أَوْ تَأْتِيَ بِاللّهِ وَالْمَلآئِكَةِ قَبِيلاً ﴿92﴾ أَوْ يَكُونَ لَكَ بَيْتٌ مِّن زُخْرُفٍ أَوْ تَرْقَى فِي السَّمَاء وَلَن نُّؤْمِنَ لِرُقِيِّكَ حَتَّى تُنَزِّلَ عَلَيْنَا كِتَابًا نَّقْرَؤُهُ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنتُ إَلاَّ بَشَرًا رَّسُولاً ﴿93﴾ وَمَا مَنَعَ النَّاسَ أَن يُؤْمِنُواْ إِذْ جَاءهُمُ الْهُدَى إِلاَّ أَن قَالُواْ أَبَعَثَ اللّهُ بَشَرًا رَّسُولاً ﴿94﴾ قُل لَّوْ كَانَ فِي الأَرْضِ مَلآئِكَةٌ يَمْشُونَ مُطْمَئِنِّينَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْهِم مِّنَ السَّمَاء مَلَكًا رَّسُولاً ﴿95﴾ قُلْ كَفَى بِاللّهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ إِنَّهُ كَانَ بِعِبَادِهِ خَبِيرًا بَصِيرًا ﴿96﴾ وَمَن يَهْدِ اللّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ وَمَن يُضْلِلْ فَلَن تَجِدَ لَهُمْ أَوْلِيَاء مِن دُونِهِ وَنَحْشُرُهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى وُجُوهِهِمْ عُمْيًا وَبُكْمًا وَصُمًّا مَّأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنَاهُمْ سَعِيرًا ﴿97﴾ ذَلِكَ جَزَآؤُهُم بِأَنَّهُمْ كَفَرُواْ بِآيَاتِنَا وَقَالُواْ أَئِذَا كُنَّا عِظَامًا وَرُفَاتًا أَإِنَّا لَمَبْعُوثُونَ خَلْقًا جَدِيدًا ﴿98﴾ أَوَلَمْ يَرَوْاْ أَنَّ اللّهَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ قَادِرٌ عَلَى أَن يَخْلُقَ مِثْلَهُمْ وَجَعَلَ لَهُمْ أَجَلاً لاَّ رَيْبَ فِيهِ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إَلاَّ كُفُورًا ﴿99﴾ قُل لَّوْ أَنتُمْ تَمْلِكُونَ خَزَآئِنَ رَحْمَةِ رَبِّي إِذًا لَّأَمْسَكْتُمْ خَشْيَةَ الإِنفَاقِ وَكَانَ الإنسَانُ قَتُورًا ﴿100﴾ وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى تِسْعَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ فَاسْأَلْ بَنِي إِسْرَائِيلَ إِذْ جَاءهُمْ فَقَالَ لَهُ فِرْعَونُ إِنِّي لَأَظُنُّكَ يَا مُوسَى مَسْحُورًا ﴿101﴾ قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا أَنزَلَ هَؤُلاء إِلاَّ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ بَصَآئِرَ وَإِنِّي لَأَظُنُّكَ يَا فِرْعَونُ مَثْبُورًا ﴿102﴾ فَأَرَادَ أَن يَسْتَفِزَّهُم مِّنَ الأَرْضِ فَأَغْرَقْنَاهُ وَمَن مَّعَهُ جَمِيعًا ﴿103﴾ وَقُلْنَا مِن بَعْدِهِ لِبَنِي إِسْرَائِيلَ اسْكُنُواْ الأَرْضَ فَإِذَا جَاء وَعْدُ الآخِرَةِ جِئْنَا بِكُمْ لَفِيفًا ﴿104﴾ وَبِالْحَقِّ أَنزَلْنَاهُ وَبِالْحَقِّ نَزَلَ وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلاَّ مُبَشِّرًا وَنَذِيرًا ﴿105﴾ وَقُرْآناً فَرَقْنَاهُ لِتَقْرَأَهُ عَلَى النَّاسِ عَلَى مُكْثٍ وَنَزَّلْنَاهُ تَنزِيلاً ﴿106﴾ قُلْ آمِنُواْ بِهِ أَوْ لاَ تُؤْمِنُواْ إِنَّ الَّذِينَ أُوتُواْ الْعِلْمَ مِن قَبْلِهِ إِذَا يُتْلَى عَلَيْهِمْ يَخِرُّونَ لِلأَذْقَانِ سُجَّدًا ﴿107﴾ وَيَقُولُونَ سُبْحَانَ رَبِّنَا إِن كَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُولاً ﴿108﴾ وَيَخِرُّونَ لِلأَذْقَانِ يَبْكُونَ وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعًا ﴿109﴾ قُلِ ادْعُواْ اللّهَ أَوِ ادْعُواْ الرَّحْمَنَ أَيًّا مَّا تَدْعُواْ فَلَهُ الأَسْمَاء الْحُسْنَى وَلاَ تَجْهَرْ بِصَلاَتِكَ وَلاَ تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلاً ﴿110﴾ وَقُلِ الْحَمْدُ لِلّهِ الَّذِي لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَم يَكُن لَّهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ وَلَمْ يَكُن لَّهُ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلَّ وَكَبِّرْهُ تَكْبِيرًا ﴿111﴾۔

(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

پاک ہے وہ (خدا) جو اپنے بندہ (خاص) کو رات کے ایک حصہ میں مسجد الحرام سے اس مسجدِ اقصیٰ تک لے گیا جس کے گرد و پیش ہم نے برکت دی ہے تاکہ ہم انہیں اپنی (قدرت کی) کچھ نشانیاں دکھائیں بے شک وہ بڑا سننے والا، بڑا دیکھنے والا ہے۔ (1) اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور اسے بنی اسرائیل کے لئے ذریعۂ ہدایت بنایا کہ (دیکھو) میرے سوا کسی کو اپنا کارساز نہ بنانا۔ (2) اے ان لوگوں کی اولاد جن کو ہم نے نوح کے ساتھ (کشتی میں) سوار کر لیا تھا بے شک وہ (نوح) ایک شکر گزار بندہ تھا۔ (3) اور ہم نے اس کتاب (توراۃ) میں بنی اسرائیل کو آگاہ کر دیا تھا کہ تم ضرور زمین میں دو مرتبہ فساد برپا کروگے اور بڑی سرکشی کروگے۔ (4) چنانچہ جب ان دونوں میں سے پہلے وعدہ کا وقت آگیا تو ہم نے (تمہاری سرکوبی کیلئے) اپنے کچھ ایسے سخت جنگجو بندے بھیج دیئے جو تمہاری آبادیوں کے اندر گھس گئے اور (خدا) کا وعدہ پورا ہو کر رہا۔ (5) اور پھر ہم نے گردشِ زمانہ کو تمہارے حق میں دشمن کے خلاف کر دیا (تمہیں ان پر غلبہ دے دیا) اور مال اور اولاد سے تمہاری مدد کی اور تمہیں کثیر التعداد بنا دیا۔ (6) (دیکھو) اگر تم اچھے کام کروگے تو اپنے لئے ہی کروگے اور اگر برے کام کروگے تو وہ بھی اپنے لئے کروگے پس جب دوسرا وعدہ آگیا (تو ہم نے اور بندوں کو مسلط کر دیا) تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑ دیں اور مسجد (بیت المقدس) میں اسی طرح (جبراً) داخل ہو جائیں جس طرح پہلی بار (حملہ آور) داخل ہوئے تھے اور تاکہ جس جس چیز پر وہ قابو پائیں اسے تباہ و برباد کر دیں۔ (7) ہو سکتا ہے کہ تمہارا پروردگار تم پر رحم فرمائے اور اگر تم پھر (فساد و سرکشی کی طرف) لوٹے تو پھر ہم بھی اسی طرح لوٹیں گے اور ہم نے جہنم کو کافروں کے لئے قید خانہ بنا دیا ہے۔ (8) یقیناً یہ قرآن اس راستہ کی طرف راہنمائی کرتا ہے جو سب سے زیادہ سیدھا ہے اور خوشخبری دیتا ہے ان اہلِ ایمان کو جو نیک عمل کرتے ہیں کہ ان کے لئے بہت بڑا اجر ہے۔ (9) اور جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے لئے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔ (10) اور انسان برائی کی دعا اسی طرح کرتا ہے جس طرح اچھائی کی دعا کرتا ہے (دراصل) انسان بڑا ہی جلد باز ہے۔ (11) اور ہم نے رات اور دن کو (اپنی قدرت کی) دو نشانیاں بنایا ہے سو ہم نے رات کی نشانی کو دھندلا بنایا اور دن کی نشانی کو روشن بنایا تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل و کرم (رزق) تلاش کرو اور تاکہ برسوں کی گنتی اور (ہر طرح کا) حساب معلوم کر سکو اور ہم نے ہر (ضروری) چیز کو تفصیل سے بیان کر دیا ہے۔ (12) اور ہم نے ہر انسان کا (نامہ) عمل اس کی گردن میں ڈال دیا ہے اور قیامت کے دن ہم ایک کتاب (نوشتہ) نکالیں گے جسے وہ اپنے سامنے کھلا ہوا پائے گا۔ (13) (ہم حکم دیں گے کہ) اپنا نامۂ عمل پڑھ آج تو خود ہی اپنے حساب کے لئے کافی ہے۔ (14) جو راہِ راست اختیار کرتا ہے وہ اپنے فائدہ کے لئے ہی کرتا ہے اور جو گمراہی اختیار کرتا ہے تو اس کا وبال اسی پر ہے اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور ہم اس وقت تک عذاب نازل نہیں کرتے جب تک (اتمامِ حجت کی خاطر) کوئی رسول بھیج نہیں دیتے۔ (15) اور جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں تو ہم وہاں کے خوشحال لوگوں کو (انبیاء کے ذریعہ سے اپنی اطاعت کا) حکم دیتے ہیں اور وہ (اطاعت کی بجائے) نافرمانی کرنے لگتے ہیں تب اس پر (عذاب کی) بات ثابت ہو جاتی ہے اور ہم اسے تباہ و برباد کر دیتے ہیں۔ (16) اور ہم نے نوح کے بعد کتنی ہی قوموں کو (ان کے گناہوں کی پاداش میں) ہلاک کیا اور آپ کا پروردگار اپنے بندوں کے گناہوں سے باخبر ہونے اور دیکھنے کی حیثیت سے کافی ہے۔ (17) جو کوئی دنیا کا خواہشمند ہو تو ہم جسے جتنا دینا چاہتے ہیں اسی (دنیا) میں جلدی دے دیتے ہیں پھر اس کے لئے دوزخ قرار دیتے ہیں جس میں وہ ملامت زدہ اور راندہ ہوا داخل ہوگا (اور اسے تاپے گا)۔ (18) اور جو کوئی آخرت کا طلبگار ہوتا ہے اور اس کے لئے ایسی کوشش بھی کرے جیسی کہ کرنی چاہیئے درآنحالیکہ وہ مؤمن بھی ہو تو یہ وہ ہیں جن کی کوشش مشکور ہوگی۔ (19) ہم ہر ایک کی امداد کرتے ہیں اِن کی بھی اور اُن کی بھی آپ کے پروردگار کی عطا و بخشش سے اور آپ کے پروردگار کی عطا کسی پر بند نہیں ہے۔ (20) (دیکھو) ہم نے (یہاں) کس طرح بعض لوگوں کو بعض پر فضیلت دی ہے اور آخرت تو درجات کے اعتبار سے بہت بڑی ہے اور فضیلت کے لحاظ سے بھی بہت بڑی ہے۔ (21) اللہ کے ساتھ کوئی الٰہ (معبود) نہ ٹھہراؤ۔ ورنہ ملامت زدہ ہوکر اور بے یار و مددگار ہو کر بیٹھے رہوگے۔ (22) اور آپ کے پروردگار نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم اس کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اگر تمہارے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے تک پہنچ جائیں تو انہیں اف تک نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو۔ اور ان سے احترام کے ساتھ بات کرو۔ (23) اور ان کے سامنے مہر و مہربانی کے ساتھ انکساری کا پہلو جھکائے رکھو اور کہو اے پروردگار تو ان دونوں پر اسی طرح رحم و کرم فرما جس طرح انہوں نے میرے بچپنے میں مجھے پالا( اور میری پرورش کی)۔ (24) تمہارا پروردگار بہتر جانتا ہے جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اگر تم صالح اور نیک کردار ہوئے تو وہ توبہ و انابہ کرنے والوں کے لئے بڑا ہی بخشنے والا ہے۔ (25) اور (دیکھو) قریبی رشتہ دار کو اس کا حق دے دو اور مسکین و مسافر کو بھی اور (خبردار) فضول خرچی نہ کرو۔ (26) بے شک فضول خرچی کرنے والے شیطانوں کے بھائی بند ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ناشکرا ہے۔ (27) اور اگر تمہیں ان لوگوں سے پہلوتہی کرنی پڑے اس انتظار میں کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے رحمت (کشائش) آئے جس کے تم امیدوار ہو تو ان سے نرم انداز میں بات کرو۔ (28) اور (دیکھو) نہ تو اپنا ہاتھ اپنی گردن سے باندھ لو اور نہ ہی اسے بالکل کھول دو کہ (ایسا کرنے سے) ملامت زدہ (اور) تہی دست ہو کر بیٹھ جاؤگے۔ (29) تمہارا پروردگار جس کسی کی چاہتا ہے روزی فراخ کر دیتا ہے اور جس کی چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے بے شک وہ اپنے بندوں کے حال سے بڑا باخبر ہے اور بڑا نگاہ رکھنے والا ہے۔ (30) اور فقر و فاقہ کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو۔ ہم ہی انہیں اور تمہیں روزی دیتے ہیں بے شک انہیں قتل کرنا بڑا جرم ہے۔ (31) اور زناکاری کے قریب بھی نہ جاؤ یقینا وہ بہت بڑی بے حیائی ہے اور بہت برا راستہ ہے۔ (32) اور جس جان کا مارنا اللہ نے حرام قرار دیا ہے اس کو قتل نہ کرو۔ مگر حق کے ساتھ اور جو شخص ناحق قتل کیا جائے تو ہم نے اس کے وارث کو (قصاص کا) اختیار دے دیا ہے پس چاہیئے کہ وہ قتل میں حد سے آگے نہ بڑھے ضرور اس کی مدد کی جائے گی۔ (33) اور یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ سوائے احسن طریقہ کے یہاں تک کہ وہ اپنی پختگی کے سن و سال (جوانی) تک پہنچ جائے اور (اپنے عہد) کو پورا کرو بے شک عہد کے بارے میں تم سے بازپرس کی جائے گی۔ (34) اور جب ناپو تولو تو ناپ پوری پوری رکھا کرو اور جب تولو تو صحیح ترازو سے تولو یہی بہتر ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہت اچھا ہے۔ (35) اور جس چیز کا تمہیں علم نہیں ہے اس کے پیچھے نہ پڑو یقیناً کان، آنکھ اور دل ان سب کے بارے میں (تم سے) بازپرس کی جائے گی۔ (36) اور زمین میں اکڑتے ہوئے نہ چلو کیونکہ تم (اس طرح چلنے سے) نہ زمین کو پھاڑ سکتے ہو اور نہ لمبائی میں پہاڑوں تک پہنچ سکتے ہو۔ (37) ان سب باتوں میں سے ہر بری بات اللہ کو سخت ناپسند ہے۔ (38) یہ سب باتیں حکمت و دانائی کی ان باتوں میں سے ہیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر وحی کی گئی ہیں اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا الٰہ (خدا) قرار نہ دو ورنہ اس حال میں جہنم میں ڈالے جاؤگے کہ تم ملامت زدہ اور راندۂ بارگاہ ہوگے۔ (39) کیا تمہارے پروردگار نے تمہیں تو بیٹوں کے لئے منتخب کر لیا اور خود اپنے لئے فرشتوں کو بیٹیاں بنا لیا؟ اس میں شک نہیں ہے کہ تم بڑی سخت بات کہتے ہو۔ (40) اور بے شک ہم نے (مطالبِ حقہ کو) اس قرآن میں مختلف انداز میں بار بار بیان کیا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں مگر (اس تکرار) نے ان کی نفرت میں اضافہ کیا ہے۔ (41) (اے پیغمبر(ص)!) آپ کہہ دیجیے کہ اگر اس (خدا) کے ساتھ اور خدا بھی ہوتے جیساکہ یہ (کافر) کہتے ہیں تو وہ ضرور مالکِ عرش تک پہنچنے کا کوئی راستہ تلاش کرتے (اور مقابلہ تک نوبت پہنچ جاتی)۔ (42) وہ پاک ہے اور کہیں برتر و بالا ہے ان باتوں سے جو یہ لوگ کہتے ہیں۔ (43) ساتوں آسمان اور زمین اور جو کوئی بھی ان میں موجود ہیں اس کی تسبیح کرتے ہیں اور کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہے جو حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کرتی ہو۔ لیکن تم ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں ہو بے شک وہ بڑا بردبار، بڑا بخشنے والا ہے۔ (44) (اے پیغمبر(ص)!) جب آپ قرآن پڑھتے ہیں تو ہم آپ کے اور ان لوگوں کے درمیان جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ایک پوشیدہ پردہ ڈال دیتے ہیں۔ (45) اور (ان کے پیہم انکار کی وجہ سے گویا) ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیے ہیں تاکہ وہ اسے نہ سمجھیں اور کانوں میں گرانی (پیدا کر دیتے ہیں) اور جب آپ قرآن میں اپنے واحد و یکتا پروردگار کا ذکر کرتے ہیں تو وہ لوگ نفرت کرتے ہوئے پچھلے پاؤں پلٹ جاتے ہیں۔ (46) ہم خوب جانتے ہیں کہ وہ غور سے کیا سنتے ہیں؟ جب یہ آپ کی طرف کان لگاتے ہیں اور (ہم خوب جانتے ہیں) جب یہ ظالم سرگوشیاں کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تم تو ایک سحر زدہ آدمی کی پیروی کر رہے ہو۔ (47) دیکھیے یہ کیسی کیسی مثالیں آپ کے لئے بناتے ہیں جس کی وجہ سے وہ ایسے گمراہ ہوگئے ہیں کہ راستہ پا ہی نہیں سکتے۔ (48) اور وہ کہتے ہیں کہ جب ہم (مر کر) ہڈیاں اور چُورا ہو جائیں گے تو کیا از سرِ نو پیدا کرکے اٹھائے جائیں گے؟ (49) کہہ دیجیے! کہ تم پتھر ہو جاؤ یا لوہا۔ (50) یا کوئی اور ایسی چیز (جس کا دوبارہ پیدا ہونا) تمہارے خیال میں بڑا (مشکل) ہو (بہرحال تمہیں دوبارہ زندہ کیا جائے گا) وہ (یہ سن کر) ضرور کہیں گے کہ کون ہمیں دوبارہ (زندہ کرکے) لائے گا؟ کہہ دیجیے! وہی جس نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا پس وہ اپنے سر جھکا کر کہیں گے کہ کب ایسا ہوگا؟ کہہ دیجئے! کہ شاید بالکل قریب ہو۔ (51) وہی دن کہ جب (خدا) تمہیں بلائے گا تو تم اس کی حمد کے ساتھ لبیک کہوگے اور خیال کروگے تم بہت تھوڑی مدت (عالمِ برزخ میں) رہے ہو۔ (52) (اے رسول) میرے بندوں سے کہہ دو کہ وہ (لوگوں سے) ایسی بات کریں جو بہترین ہو۔ بے شک شیطان ان کے درمیان فساد ڈالتا ہے۔ یقیناً شیطان انسان کا کھلا ہوا دشمن ہے۔ (53) تمہارا پروردگار تمہیں خوب جانتا ہے وہ اگر چاہے تو تم پر رحم کرے اور اگر چاہے تو تمہیں سزا دے۔ (اے رسول(ص)) ہم نے آپ کو ان پر داروغہ بنا کر نہیں بھیجا۔ (54) آپ کا پروردگار خوب جانتا ہے ان کو جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور ہم نے بعض بندوں کو بعض پر فضیلت دی ہے اور ہم نے داؤد کو زبور عطا کی۔ (55) (اے رسول(ص)) ان لوگوں سے کہہ دو کہ جنہیں تم اللہ کے سوا (کارساز) سمجھتے ہو۔ ذرا انہیں پکار کر دیکھو۔ وہ نہ تو تم سے تکلیف دور کر سکتے ہیں اور نہ ہی (اسے) بدل سکتے ہیں۔ (56) جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں وہ تو خود اپنے پروردگار کی بارگاہ میں وسیلہ تلاش کر رہے ہیں کہ کون زیادہ قرب رکھنے والا ہے؟ اور وہ اللہ کی رحمت کی امید رکھتے ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ بے شک تمہارے پروردگار کا عذاب ڈرنے کے قابل ہے۔ (57) کوئی بستی ایسی نہیں ہے جسے ہم قیامت سے پہلے ہلاک نہ کر دیں یا سخت عذاب میں مبتلا کر دیں یہ بات کتاب (نوشتۂ تقدیر) میں لکھی ہوئی ہے۔ (58) اور (منکرین کی مطلوبہ) نشانیاں بھیجنے سے ہمیں کسی چیز نے نہیں روکا۔ مگر اس بات نے کہ پہلے لوگ انہیں جھٹلا چکے ہیں۔ اور ہم نے قومِ ثمود کو ایک (خاص) اونٹنی دی جوکہ روشن نشانی تھی۔ تو انہوں نے اس پر ظلم کیا اور ہم نشانیاں صرف ڈرانے کیلئے بھیجتے ہیں۔ (59) (اے رسول وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے آپ سے کہا تھا کہ آپ کے پروردگار نے لوگوں کو گھیرے میں لے لیا ہے اور جو منظر ہم نے آپ کو دکھایا تھا۔ اس کو اور اس درخت کو جس پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے، ہم نے لوگوں کیلئے آزمائش کا ذریعہ بنایا ہے اور ہم انہیں ڈراتے ہیں مگر یہ ڈرانا ان کی سرکشی میں اضافہ ہی کر رہا ہے۔ (60) (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے فرشتوں سے کہا تھا آدم(ع) کے سامنے سجدہ ریز ہو جاؤ تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے۔ اس نے کہا کیا میں اس کو سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے پیدا کیا ہے؟ (61) نیز اس نے کہا بھلا مجھے بتا تو سہی یہ شخص جس کو تو نے مجھ پر فضیلت دی ہے (آخر کیوں افضل ہے) اگر تو مجھے قیامت کے دن تک مہلت دے دے تو میں چند افراد کے سوا اس کی پوری اولاد کی بیخ کنی کر ڈالوں گا۔ (62) ارشاد ہوا چل نکل جا! ان میں سے جو کوئی بھی تیری پیروی کرے گا تو بے شک جہنم تم سب کی پوری پوری سزا ہے۔ (63) اور ان میں سے جس پر تیرا قابو چلتا ہے اپنی پکار سے اسے ورغلا اور ان پر اپنے سواروں اور پیادوں سے چڑھائی کر اور ان کے مالوں اور اولاد میں شریک ہو جا۔ اور ان سے وعدے کر۔ اور شیطان تو دھوکے اور فریب کے سوا ان سے کوئی وعدہ کرتا ہی نہیں ہے۔ (64) بے شک جو میرے خاص بندے ہیں ان پر تیرا کوئی قابو نہیں ہے اور کارسازی کیلئے آپ کا پروردگار کافی ہے۔ (65) تمہارا پروردگار وہ ہے جو سمندر میں تمہارے لئے کشتی چلاتا ہے تاکہ تم اس کا فضل (مال) تلاش کرو یقینا وہ تم پر بڑا مہربان ہے۔ (66) اور جب تمہیں سمندر میں کوئی تکلیف پہنچتی ہے۔ تو اس کے سوا جس جس کو تم پکارتے ہو وہ سب غائب ہو جاتے ہیں اور جب وہ تمہیں (خیریت سے) خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو تم روگردانی کرنے لگتے ہو اور انسان بڑا ہی ناشکرا ہے۔ (67) کیا تم اس بات سے بے فکر ہوگئے ہو کہ وہ تمہیں خشکی کے کسی گوشے میں زمین کے اندر دھنسا دے یا تم پر کوئی پتھر برسانے والی آندھی بھیج دے۔ پھر تم کسی کو بھی اپنا کارساز نہیں پاؤگے۔ (68) کیا تم اس بات سے بے فکر ہوگئے ہو کہ وہ تمہیں دوبارہ اسی (سمندر) میں پہنچائے اور پھر تم پر طوفانی ہوا چلا کر تمہیں ناشکرے پن کی پاداش میں غرق کر دے۔ پھر تم اس کی ہم سے بازپرس کرنے والا کوئی نہیں پاؤگے۔ (69) بے شک ہم نے اولادِ آدم کو بڑی عزت و بزرگی دی ہے اور ہم نے انہیں خشکی اور تری میں سوار کیا (سواریاں دیں) پاک و پاکیزہ چیزوں سے روزی دی اور انہیں اپنی مخلوقات پر (جو بہت ہیں) فضیلت دی۔ (70) اس دن (کو یاد کرو) جب ہم (ہر دور کے) تمام انسانوں کو انکے امام (پیشوا) کے ساتھ بلائیں گے پس جس کسی کو اس کا نامۂ اعمال دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو یہ لوگ اپنا صحیفۂ اعمال (خوش خوش) پڑھیں گے اور ان پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا۔ (71) اور جو کوئی اس دنیا میں اندھا بنا رہا وہ آخرت میں بھی اندھا ہی ہوگا اور بڑا راہ گم کردہ ہوگا۔ (72) (اے رسول(ص)) یہ (کافر) اس بات میں کوشاں تھے (اور اس کا ارادہ کر لیا تھا کہ) آپ کو اس (کتاب) سے پھیر دیں جو ہم نے آپ کی طرف بذریعۂ وحی بھیجی ہے تاکہ آپ اس کے خلاف کوئی بات گڑھ گھڑ کر ہماری طرف منسوب کریں اور اس صورت میں وہ ضرور آپ کو اپنا گہرا دوست بنا لیتے۔ (73) اور اگر ہم آپ کو ثابت قدم نہ رکھتے تو آپ کچھ نہ کچھ ضرور ان کی طرف جھک جاتے۔ (74) اور اگر آپ ایسا کرتے تو ہم آپ کو دنیا میں عذاب کا مزہ چکھاتے اور مرنے پر بھی دوہرے عذاب کا مزہ چکھاتے۔ پھر آپ ہمارے مقابلہ میں کوئی یار و مددگار نہ پاتے۔ (75) اور یہ لوگ اس بات میں بھی کوشاں تھے کہ اس سر زمین سے آپ کے قدم اکھیڑ دیں اور اس طرح آپ کو یہاں سے نکال دیں اور اگر وہ ایسا کریں گے تو وہ خود بھی آپ کے بعد زیادہ دیر نہیں ٹھہریں گے۔ (76) یہی ہمارا دستور رہا ہے ان رسولوں کے بارے میں جنہیں ہم نے پہلے بھیجا ہے اور آپ ہمارے اس دستور میں کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے۔ (77) (اے پیغمبر(ص)) زوالِ آفتاب سے لے کر رات کے اندھیرے تک نماز قائم کرو۔ اور نمازِ صبح بھی۔ کیونکہ صبح کی نماز حضوری کا وقت ہے (اس وقت شب و روز کے فرشتے حاضر ہوتے ہیں)۔ (78) اور رات کے کچھ حصہ (پچھلے پہر) میں قرآن کے ساتھ بیدار رہیں (نمازِ تہجد پڑھیں) یہ آپ کے لئے اضافہ ہے۔ عنقریب آپ کا پروردگار آپ کو مقامِ محمود پر فائز کرے گا۔ (79) اور کہیے اے میرے پروردگار! مجھے (ہر جگہ) سچائی کے ساتھ داخل کر اور نکال بھی سچائی کے ساتھ اور میرے لئے اپنی جانب سے ایسی قوت قرار دے جو مددگار ہو۔ (80) اور کہیئے! کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا۔ یقیناً باطل تو تھا ہی مٹنے والا۔ (81) اور ہم تنزیلِ قرآن کے سلسلہ میں وہ کچھ نازل کر رہے ہیں جو اہلِ ایمان کے لئے شفاء اور رحمت ہے اور ظالموں کے لئے خسارہ کے سوا اور کسی چیز میں اضافہ نہیں کرتا۔ (82) اور جب ہم انسان کو کوئی نعمت عطا کرتے ہیں تو وہ منہ پھیر لیتا ہے اور پہلو تہی کرتا ہے اور جب اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو مایوس ہو جاتا ہے۔ (83) کہہ دیجیے! ہر شخص اپنے طریقہ پر عمل پیرا ہے۔ اب یہ تو تمہارا پروردگار ہی بہتر جانتا ہے کہ ٹھیک راہ پر کون ہے؟ (84) (اے رسول(ص)!) لوگ آپ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ کہہ دیجئے کہ روح میرے پروردگار کے امر سے ہے اور تمہیں بہت ہی تھوڑا سا علم دیا گیا ہے۔ (85) اور اگر ہم چاہیں تو وہ سب کچھ سلب کر لیں جو ہم نے آپ کی طرف وحی کی ہے۔ اور پھر آپ ہمارے مقابلہ میں کوئی وکیل (حمایتی) بھی نہ پائیں (جو اسے واپس دلا سکے)۔ (86) مگر یہ آپ کے پروردگار کی خاص رحمت ہے (کہ وہ ایسا نہیں کرتا) بے شک آپ پر اس کا بہت بڑا فضل ہے۔ (87) کہہ دیجئے کہ اگر سارے انسان اور جن اکٹھے ہو جائیں (اور چاہیں) اس جیسا قرآن لے آئیں تو جب بھی اس جیسا نہیں لا سکیں گے۔ اگرچہ ایک دوسرے کے مددگار بھی بن جائیں۔ (88) اور یقیناً ہم نے اس قرآن میں ہر طرح کی مثالیں (بار بار) ادل بدل کر بیان کی ہیں لوگوں کے لئے (تاکہ وہ سمجھیں) مگر اکثر لوگ انکار کئے بغیر نہ رہے۔ (89) اور انہوں نے کہا ہم اس وقت تک آپ کی بات نہیں مانیں گے جب تک آپ یہ کام کرکے نہ دکھا دیں (مثلاً) ہمارے لئے زمین سے چشمہ جاری کریں۔ (90) یا آپ کے لئے کھجوروں اور انگوروں کا ایک باغ ہو اور آپ اس کے درمیان بہت سی نہریں جاری کریں۔ (91) یا جیساکہ آپ کا خیال ہے آسمان کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے ہم پر گرا دیں یا پھر خدا اور فرشتوں کو کھلم کھلا ہمارے سامنے لے آئیں۔ (92) یا آپ کا خالص سونے کا ایک گھر ہو۔ یا پھر آپ آسمان پر چڑھ جائیں اور ہم آپ کے (آسمان پر) چڑھنے کو بھی اس وقت تک نہیں مانیں گے جب تک ایک (لکھی لکھائی) کتاب اتار کے نہ لے آئیں جسے ہم خود پڑھیں۔ کہہ دیجئے پاک ہے میرا پروردگار میں پیغام پہنچانے والا انسان کے سوا کیا ہوں؟ (93) جب کبھی لوگوں کے پاس ہدایت پہنچی تو ان کو ایمان لانے سے نہیں روکا مگر اس بات نے کہ کہنے لگے کیا اللہ نے کسی بشر کو رسول بنا کر بھیجا ہے؟ (94) کہہ دیجئے! کہ اگر زمین میں (انسان کی بجائے) فرشتے ہوتے جو اطمینان و آرام سے چلتے پھرتے تو ہم ضرور ان پر آسمان سے کسی فرشتہ کو رسول(ص) بنا کر بھیجتے۔ (95) (اے رسول(ص)!) کہہ دیئے! کہ میرے اور تمہارے درمیان گواہی کیلئے اللہ ہی کافی ہے۔ بے شک وہ اپنے بندوں کو خوب جانتا ہے۔ (اور) خوب دیکھتا ہے۔ (96) اور جس کو اللہ ہدایت دے دے وہی ہدایت یافتہ ہے اور جسے (وہ اپنی توفیق سلب کرکے) گمراہی میں چھوڑ دے تو تم اللہ کے سوا اس کا کوئی حامی و مددگار نہیں پاؤگے اور قیامت کے دن ہم ایسے لوگوں کو منہ کے بل اس حال میں اٹھائیں گے کہ وہ اندھے، گونگے اور بہرے ہوں گے۔ ان کا ٹھکانہ جہنم ہے جب بھی وہ بجھنے لگے گی تو ہم اسے اور بھڑکا دیں گے۔ (97) یہ ان کی سزا ہے کیونکہ انہوں نے ہماری آیتوں کا انکار کیا۔ اور کہا کہ جب ہم (گل سڑ کر) ہڈیاں اور چورہ ہو جائیں گے تو کیا ہم ازسرِنو پیدا کرکے اٹھائے جائیں گے؟ (98) کیا انہوں نے (اس بات پر) غور نہیں کیا کہ وہ اللہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے وہ اس پر بھی ضرور قادر ہے کہ ان جیسوں کو (دوبارہ) پیدا کر دے اور اس نے ان کے (حشر کے) لئے ایک میعاد مقرر کر رکھی ہے جس میں کوئی شک نہیں ہے مگر اس امر میں ظالم انکار کئے بغیر نہ رہے۔ (99) کہہ دیجئے! کہ اگر تم میرے پروردگار کی رحمت کے خزانوں کے مالک بھی ہوتے تو تم ان کے خرچ ہو جانے کے خوف سے (ہاتھ) روک لیتے اور انسان بڑا بخیل ہے۔ (100) اور ہم نے موسیٰ کو نو کھلی نشانیاں عطا فرمائیں۔ آپ بنی اسرائیل سے پوچھ لیں جب کہ وہ (موسیٰ) ان کے پاس آئے تھے! تو فرعون نے اس سے کہا۔ اے موسیٰ! میں تو تمہیں سحر زدہ (یا ساحر) خیال کرتا ہوں۔ (101) موسیٰ نے کہا (اے فرعون) تو (دل میں تو) یقیناً جانتا ہے کہ یہ نشانیاں آسمانوں اور زمین کے پروردگار نے بصیرت کا سامان بنا کر نازل کی ہیں۔ اور اے فرعون! میں سمجھتا ہوں کہ تو ایک ہلاکت زدہ آدمی ہے۔ (102) اس (فرعون) نے ارادہ کیا کہ وہ (موسیٰ اور بنی اسرائیل) کو اس سر زمین سے نکال باہر کرے لیکن ہم نے اسے اور اس کے سب ساتھیوں کو غرق کر دیا۔ (103) اور اس (واقعہ) کے بعد ہم نے بنی اسرائیل سے کہا کہ تم اس سر زمین میں سکونت اختیار کرو۔ پس جب آخرت کا وعدہ آجائے گا تو ہم تم (سب) کو (اپنے حضور) سمیٹ لائیں گے۔ (104) اور ہم نے اس (قرآن) کو حق کے ساتھ نازل کیا ہے اور وہ حق کے ساتھ نازل ہوا ہے۔ اور ہم نے آپ کو بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ (105) اور ہم نے قرآن کو متفرق طور پر (جدا جدا کرکے) نازل کیا ہے تاکہ آپ اسے لوگوں کے سامنے ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں اور ہم نے اسے (موقع بموقع) بتدریج نازل کیا ہے۔ (106) کہہ دیجیے! کہ تم (لوگ) اس پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ۔ لیکن جن کو اس سے پہلے علم دیا گیا ہے جب اسے ان کے سامنے پڑھا جاتا ہے تو وہ منہ کے بل سجدہ میں گر پڑتے ہیں۔ (107) اور کہتے ہیں کہ پاک ہے ہمارا پروردگار! بے شک ہمارے پروردگار کا وعدہ تو پورا ہو کر ہی رہتا ہے۔ (108) اور وہ روتے ہوئے منہ کے بل گر پڑتے ہیں۔ اور یہ (قرآن) ان کے خشوع و خضوع میں اضافہ کر دیتا ہے۔ (109) کہہ دیجیے! کہ اسے اللہ کہہ کر پکارو یا رحمٰن کہہ کر پکارو جس نام سے بھی اسے پکارو۔ اس کے سارے نام اچھے ہیں اور نہ ہی اپنی نماز زیادہ بلند آواز سے پڑھو اور نہ ہی بالکل آہستہ سے بلکہ ان دونوں کے درمیان کا راستہ اختیار کرو۔ (110) اور کہہ دیجئے! سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے نہ کسی کو بیٹا بنایا ہے اور نہ ہی کسی کو شریک بنایا ہے اور نہ ہی درماندگی اور عاجزی کی وجہ سے اس کا کوئی مددگار ہے اور اس کی کبریائی اور بڑائی کا بیان کرو جس طرح بڑائی بیان کرنی چاہیئے۔ (111)

پچھلی سورت: سورہ نحل سورہ اسراء اگلی سورت:سورہ کہف

1.فاتحہ 2.بقرہ 3.آل‌عمران 4.نساء 5.مائدہ 6.انعام 7.اعراف 8.انفال 9.توبہ 10.یونس 11.ہود 12.یوسف 13.رعد 14.ابراہیم 15.حجر 16.نحل 17.اسراء 18.کہف 19.مریم 20.طہ 21.انبیاء 22.حج 23.مؤمنون 24.نور 25.فرقان 26.شعراء 27.نمل 28.قصص 29.عنکبوت 30.روم 31.لقمان 32.سجدہ 33.احزاب 34.سبأ 35.فاطر 36.یس 37.صافات 38.ص 39.زمر 40.غافر 41.فصلت 42.شوری 43.زخرف 44.دخان 45.جاثیہ 46.احقاف 47.محمد 48.فتح 49.حجرات 50.ق 51.ذاریات 52.طور 53.نجم 54.قمر 55.رحمن 56.واقعہ 57.حدید 58.مجادلہ 59.حشر 60.ممتحنہ 61.صف 62.جمعہ 63.منافقون 64.تغابن 65.طلاق 66.تحریم 67.ملک 68.قلم 69.حاقہ 70.معارج 71.نوح 72.جن 73.مزمل 74.مدثر 75.قیامہ 76.انسان 77.مرسلات 78.نبأ 79.نازعات 80.عبس 81.تکویر 82.انفطار 83.مطففین 84.انشقاق 85.بروج 86.طارق 87.اعلی 88.غاشیہ 89.فجر 90.بلد 91.شمس 92.لیل 93.ضحی 94.شرح 95.تین 96.علق 97.قدر 98.بینہ 99.زلزلہ 100.عادیات 101.قارعہ 102.تکاثر 103.عصر 104.ہمزہ 105.فیل 106.قریش 107.ماعون 108.کوثر 109.کافرون 110.نصر 111.مسد 112.اخلاص 113.فلق 114.ناس


حوالہ جات

  1. وہبہ الزحیلی، التفسیر المنیر، ۱۴۱۱ق، ج۱۵، ص۵۔
  2. صدوق، ثواب الاعمال، ۱۴۰۶ق، ص۱۰۷۔
  3. فیروزآبادی، بصائر ذوی التمییز، المکتبۃ العلمیۃ، ج۱، ص۲۸۸۔
  4. فیروزآبادی، بصائر ذوی التمییز، المکتبۃ العلمیۃ، ج۱، ص۲۹۶؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۲، ص۳۔
  5. معرفت، التمہید فی علوم القرآن، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۱۳۴-۱۳۶۔
  6. خرمشاہی، «سورہ اسراء»، ص۱۲۴۱۔
  7. حسینی‌زادہ، «سورہ اسراء»، ص۱۹۷۔
  8. خرمشاہی، «سورہ اسراء»، ص۱۲۴۱۔
  9. محققیان، «سورہ اسراء»، ص۶۸۶۔
  10. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۳، ص۵۔
  11. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۲، ص۶۔
  12. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۲، ص۵-۶۔
  13. خامہ‌گر، محمد، ساختار سورہ‌ہای قرآن کریم، تہیہ مؤسسہ فرہنگی قرآن و عترت نورالثقلین، قم، نشر نشرا، چ۱، ۱۳۹۲ش.
  14. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۶، ص۶۳۵؛ واحدی، اسباب نزول القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۲۹۴؛ محقق، نمونه بينات در شأن نزول آيات، ۱۳۶۱ش، ص۴۹۸.‏
  15. واحدی، اسباب نزول القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۲۹۵.
  16. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۶، ص۶۷۴.
  17. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۲،‌ ص۳۷.
  18. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش،‌ ج۶، ص۶۲۲.
  19. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۲، ص۸۷.
  20. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ۱۳۷۱ش، ج۱۲، ص۸۷.
  21. حسینی جلالی، فدک و العوالی، ۱۳۸۴ش، ص۱۴۱-۱۴۹.
  22. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۳، ص۹۲.
  23. مغنیہ، الکاشف، ۱۴۲۴ق، ج۵، ص۴۳.
  24. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۳، ص۹۴-۹۵.
  25. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۳، ص۱۶۹.
  26. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۳، ص۱۶۹.
  27. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۶، ص۶۶۳.
  28. فخر رازی، التفسیر الکبیر، ۱۴۲۰ق، ج۲۱، ص۳۷۸.
  29. مرتضوی، درآمدی بر شکل گیری شخصیت جوان، ۱۳۷۹ش، ص۳۴و۳۵؛ قرائتی، تفسیر نور، ۱۳۸۳ش، ج۷، ص۱۱۲.
  30. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۳، ص۱۹۰.
  31. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۲، ص۸.
  32. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۳، ص۷.
  33. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۲،‌ ص۳۷.
  34. احمدی، مقام پدر و مادر در اسلام، ۱۳۸۸، ص۱۹-۲۵؛ بیژنی، «حقوق و تکالیف متقابل فرزندان و والدین از نظر اسلام، ص۷۷-۸۹.
  35. علامہ طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۳، ص۸۰.
  36. بحرانی، البرہان فی تفسیر القرآن، ۱۴۱۶ق، ج۲، ص۷۸.
  37. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۲، ص۸۸.
  38. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۳، ص۱۱۲.
  39. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۳، ص۱۱۲.
  40. قرائتی، تفسیر نور، ۱۳۸۳ش، ج۷، ص۴۶.
  41. مغنیہ، الکاشف، ۱۴۲۴ق، ج۵، ص۴۵.
  42. مغنیہ، الکاشف، ۱۴۲۴ق، ج۵، ص۴۵.
  43. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۳، ص۹۷.
  44. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۲، ص۱۹۷.
  45. مغنیه، الکاشف، ۱۴۲۴ق، ج۵، ص۶۷-۶۸.
  46. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۳، ص۱۵۵.
  47. معینی، «آیات الاحکام»، ص۱.
  48. حویزی، تفسیر نورالثقلین، ۱۴۱۵ق، ج۳، ص۹۷.
  49. صدوق، ثواب الأعمال، ۱۴۰۶،ق ص۱۰۷.
  50. طوسی، مصباح المجتهد، ۱۴۱۱ق، ص۲۶۵.

نوٹ

  1. بعض دو آیات 107 اور 108 کو آپس میں ادغام کرکے سورہ اسراء کی آیات کی تعداد 110 بتاتے ہیں۔(طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۶، ص۶۰۷)

مآخذ

  • قرآن کریم، ترجمہ محمد حسین نجفی (سرگودھا)۔
  • ابوالفتوح رازی، حسین بن علی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن، مشہد،آستان قدس رضوی، ۱۴۰۸ھ
  • احمدی، حسنعلی و زین العابدین احمدی، مقام پدر و مادر در اسلام، قم، میثم تمار، چاپ اول، ۱۳۸۸ش۔
  • بحرانی، سیدہاشم، البرہان فی تفسیر القرآن، تہران، بنیاد بعثت، چاپ اول، ۱۴۱۶ھ۔
  • بیژنی، مہدی، «حقوق و تکالیف متقابل فرزندان و والدین از نظر اسلام»، بلاغ مبین، ش۱۴، ۱۳۸۷ش۔
  • حسینی جلالی، سید محمدباقر، فدک و العوالی أو الحوائط السبعۃ فی الکتاب و السنۃ و التاریخ و الأدب، قم، کنگرہ میراث علمی و معنوی حضرت فاطمہ، ۱۳۸۴ش۔
  • حسینی زادہ،‌ سید عبدالرسول، «سورہ اسراء»، در دائرۃ المعارف قرآن کریم، قم، بوستان کتاب، ۱۳۸۲ش۔
  • حويزى، عبدعلى بن جمعہ، نور الثقلين، قم، اسماعيليان، ۱۴۱۵ھ۔
  • خامہ‌گر، محمد، ساختار سورہ‌ہای قرآن کریم، تہیہ مؤسسہ فرہنگی قرآن و عترت نورالثقلین، قم، نشر نشرا، چ۱، ۱۳۹۲ش۔
  • خرمشاہی، قوام الدین، «سورہ اسراء»، در دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، تہران، دوستان-ناہید، ۱۳۷۷ش۔
  • رضایی اصفہانی، محمدعلی، تفسیر قرآن مہر، قم، پژوہش‌ہای تفسیر و علوم قرآن، ۱۳۸۷ش۔
  • الزحیلی، زہبۃ، التفسیر المنیر فی العقیدۃ و الشریعۃ و المنہج، بیروت، دار الفکر المعاصر، ۱۴۱۱ھ۔
  • زمخشری، محمود بن عمر، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل و عیون الأقاویل فی وجوہ التأویل، بیروت، دارالکتاب العربی، چاپ سوم، ۱۴۰۷ق۔
  • صدوق، محمد بن علی، ثواب الأعمال و عقاب الأعمال‏، قم، دار الشریف رضی، ۱۴۰۶ھ۔
  • طباطبایی، سیدمحمدحسین، المیزان فی تفسیرالقرآن، قم، انتشارات اسلامی، ۱۴۱۷ھ۔
  • طبرسى، فضل بن حسن، مجمع البيان فى تفسير القرآن، تہران، ناصرخسرو، ۱۳۷۲ش۔
  • طوسی، محمد بن الحسن، مصباح المتہجّد، بیروت، موسسہ فقہ الشیعہ، ۱۴۱۱ھ۔
  • فخرالدین رازی، ابوعبداللہ محمد بن عمر، التفسیر الکبیر، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۲۰ھ۔
  • فیروزآبادی، محمد بن یعقوب، بصائر ذوی التمییز فی لطائف الکتاب العزیز، بیروت، الکتبۃ العلمیۃ، بی تا۔
  • قرائتی، محسن، تفسیر نور، تہران، مركز فرہنگى درسہايى از قرآن، چاپ یازدہم، ۱۳۸۳ش،
  • مرتضوی، سیدضیاء، درآمدی بر شکل‌گیری شخصیت جوان، قم، مرکز انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم، ۱۳۷۹ش۔
  • مكارم شيرازى، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالكتب الإسلاميۃ، ۱۳۷۴ش۔
  • محقق، محمدباقر، نمونہ بينات در شأن نزول آيات‏، تہران، اسلامی، ۱۳۶۱ش۔
  • محققیان، رضا «سورہ اسراء»، در دانشنامہ معاصر قرآن کریم، قم، انتشارات سلمان آزادہ، ۱۳۹۶ش۔
  • معرفت، محمدہادی، التمہید فی علوم القرآن، قم، موسسہ نشر اسلامی، ۱۴۱۱ھ۔
  • معینی، محسن، «آیات الاحکام»، تحقیقات اسلامی، سال دوازدہم، شمارہ ۱ و ۲، تہران، بہار و تابستان ۱۳۷۶۔
  • مغنیہ، محمدجواد، تفسیر الکاشف، قم، دارالکتاب الاسلامیہ، ۱۴۲۴ھ۔
  • واحدی، علی بن احمد، اسباب نزول القرآن‏، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۱ھ۔

بیرونی روابط

بیرونی روابط