سورہ تکویر
سورہ تکویر یا کُوِّرَت مکی سورتوں میں سے ہے۔ ترتیب مصحف کے لحاظ سے 81ویں اور ترتیب نزول کے لحاظ سے 7ویں سورت ہے اور قرآن کے آخری پارے میں واقع ہے۔ اس سورت کا نام اس کی پہلی آیت سے لیا گیا ہے جس میں تکویر (سورج کا تاریک ہوجانا) کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ سورہ تکویر میں قیامت اور اس کی دگرگونی نیز قرآن کی عظمت اور اس کی تأثیر سے بحث کی گئی ہے۔ آیت نمبر 7 اور 8 اس سورت کی مشہور آیتوں میں سے ہیں جن میں زمانہ جاہلیت میں لڑکیوں کو زندہ زندہ دفن کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ سوال مطرح کرتے ہیں کہ آخر انہیں کس جرم میں قتل کیا گیا۔ احادیث میں آیا ہے کہ اگر کوئی شخص سورہ تکویر کی تلاوت کرے تو خدا اسے قیامت کے دن جب اس کا نامہ عمل کھولا جاتا ہے تو اسے رسوا نہیں کرے گا۔
عبس | سورۂ تکویر | انفطار | |||||||||||||||||||||||
|
تعارف
نام
- اس سورت کو اس لئے تکویر کا نام دیا گیا ہے کہ اس کی ابتدائی آیت میں سورج کے تاریک ہونے (تکویر) کی طرف اشارہ ہوا ہے۔[1]
- محل اور ترتیب نزول
سورہ تکویر مکی سورتوں میں سے ہے یہ سورت ترتیب نزول کے اعتبار سے 7ویں جبکہ ترتیب مُصحَف کے اعتبار سے 81ویں سورت ہے[2] اور قرآن کے آخری پارے میں واقع ہے۔
- آیات کی تعداد اور دوسری خصوصیات
سورہ تکویر 29 آیات، 104 کلمات اور 434 حروف پر مشتمل ہے۔ اس سورت کا شمار مُفَصَّلات (چھوٹی آیات پر مشتمل) میں ہوتا ہے۔ اس آیت کی گیارہویں سے اٹھارہویں آیت میں خدا نے ستاروں، صبح اور رات کی قَسَم کھائی ہے۔[3]
مضامین
سورہ تکویر کے مضامین سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورہ بعثت کے ابتدائی ایام میں نازل ہوئی ہے؛ کیونکہ اس سورت میں پیغمبر اکرمؐ کو مشرکین کے ناروا تہمتوں سے پاک اور منزہ قرار دے رہے ہیں۔[4]
اس سورت کے مضامین کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
- قیامت کی نشانیاں اور واقعات: اس سورت کی ابتدائی آیات میں قیامت کی نشانیوں اور اس دن رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں گفتگو ہوتی ہے؛[5] من جملہ ان نشانیوں اور واقعات میں سورج کا تاریک ہونا، ستاروں کا ٹوٹ جانا، شدید زلزے کی وجہ سے پہاڑوں کا حرکت میں آنا اور لوگوں میں خوف و ہراس کا پھیل جانا۔[6]
- قرآن کی عظمت اور جبرئیل کی صفائی: دوسرے حصے میں قرآن اور اس کے لانے والے کی عظمت اور انسان کی روح پر قرآن کے اثرات سے متعلق گفتگو ہوتی ہے۔[7] اس حصے میں آیا ہے کہ قرآن خدا کے ایک مقرب اور امین فرشتے کے ذریعے نازل کی گئی ہے اور مشرکین کے ادعا کے برخلاف اس فرشتے پر شیطان غالب نہیں آیا ہے۔[8]
قیامت کے دن اعمال کے مشاہدے سے متعلق قرآنی تعلیمات کی حقانیت | |||||||||||||||
دوسرا گفتار: آیہ ۱۵-۲۹ قرآن کی تمام تعلیمات حق اور اللہ کی طرف سے ہیں | پہلا گفتار: آیہ ۱-۱۰ مشاہدہ اعمال کے مراحل | ||||||||||||||
پہلا مطلب: آیہ ۱۵-۲۶ قرآنی معارف کے وحیانی ہونے کا ثبوت | پہلا مرحلہ: آیہ ۱-۶ دنیا کے نظام کا خاتمہ | ||||||||||||||
دوسرا مطلب: آیہ ۲۷-۲۹ حق طلبوں کی قرآن کے ذریعے ہدایت | دوسرا مرحلہ: آیہ ۷-۱۴ عدل الہی کا قیام | ||||||||||||||
مشہور آیتیں
- وَإِذَا الْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ بِأَيِّ ذَنبٍ قُتِلَتْ (آیت نمبر 8 اور 9)
ترجمہ: اور جب زندہ درگور کی ہوئی (لڑکی) سے پوچھا جائے گا، کہ وہ کس گناہ پر قتل کی گئی؟
کہا جاتا ہے کہ یہ آیت[یادداشت 1] یہ رسم زمانہ جاہلیت میں عربوں کی ایک رسم تھی جس میں لڑکیوں کو اس خوف سے کہ یہ ان کے لئے نگ و عار کا باعث نہ بنے، انہیں زندہ درگور کرتے تھے۔[10] مفسرین کہتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں جب کسی عورت کا وضع حمل قریب آتا تو زمین میں ایک گھڑا کھود کر اسے اس کے اوپر بٹھا دی جاتی تھی۔ اگر نومولود لڑکی ہوتی تو اسے اسی گھڑے میں پھینک دیتے لیکن اگر لڑکا ہوتا تو اسے زندہ رہنے دیا جاتا تھا۔[11]
بعض احادیث میں اس آیت کو ایک وسیع معنی پر حمل کی گئی ہے، جس میں ہر طرح کی قطع رحمی (صلہ رحم کے مقابلے میں) یا اہل بیتؑ سے مودت کا اظہار نہ کرنا شامل ہے؛ [یعنی قیامت کے دن رشتہ داروں سے صلہ رحم نہ کرنے اور اہل بیت سے مودت اور دوستی نہ کرنے سے متعلق پوچھا جائے گا]۔ اسی طرح امام باقرؑ سے اس آیت کی تفسیر سے متعلق پوچھا گیا تو آپؑ نے فرمایا: "اس سے مراد وہ اشخاص ہیں جو ہماری محبت اور مودت کی وجہ سے مارے جاتے ہیں"۔[12]
فضیلت اور خواص
احادیث میں اس سورت کی تلاوت سے متعلق جو فضیلت اور خواص ذکر کی گئی ہیں وہ یہ ہیں:
- قیامت کے دن نامہ اعمال دیتے وقت رسوائی سے محفوظ رہنا۔[13]
- آنکھوں کی بیماری یا زخم کا ٹھیک ہونا۔[14]
- دوسروں کی خیانت سے خدا کی پناہ میں محفوظ رہے گا۔[15]
متن سورہ
سورہ تکویر
|
ترجمہ
|
---|---|
إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ ﴿1﴾ وَإِذَا النُّجُومُ انكَدَرَتْ ﴿2﴾ وَإِذَا الْجِبَالُ سُيِّرَتْ ﴿3﴾ وَإِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ ﴿4﴾ وَإِذَا الْوُحُوشُ حُشِرَتْ ﴿5﴾ وَإِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ ﴿6﴾ وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ ﴿7﴾ وَإِذَا الْمَوْؤُودَةُ سُئِلَتْ ﴿8﴾ بِأَيِّ ذَنبٍ قُتِلَتْ ﴿9﴾ وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ ﴿10﴾ وَإِذَا السَّمَاء كُشِطَتْ ﴿11﴾ وَإِذَا الْجَحِيمُ سُعِّرَتْ ﴿12﴾ وَإِذَا الْجَنَّةُ أُزْلِفَتْ ﴿13﴾ عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّا أَحْضَرَتْ ﴿14﴾ فَلَا أُقْسِمُ بِالْخُنَّسِ ﴿15﴾ الْجَوَارِ الْكُنَّسِ ﴿16﴾ وَاللَّيْلِ إِذَا عَسْعَسَ ﴿17﴾ وَالصُّبْحِ إِذَا تَنَفَّسَ ﴿18﴾ إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ ﴿19﴾ ذِي قُوَّةٍ عِندَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينٍ ﴿20﴾ مُطَاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ ﴿21﴾ وَمَا صَاحِبُكُم بِمَجْنُونٍ ﴿22﴾ وَلَقَدْ رَآهُ بِالْأُفُقِ الْمُبِينِ ﴿23﴾ وَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِينٍ ﴿24﴾ وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَيْطَانٍ رَجِيمٍ ﴿25﴾ فَأَيْنَ تَذْهَبُونَ ﴿26﴾ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعَالَمِينَ ﴿27﴾ لِمَن شَاء مِنكُمْ أَن يَسْتَقِيمَ ﴿28﴾ وَمَا تَشَاؤُونَ إِلَّا أَن يَشَاء اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ ﴿29﴾ |
جب سورج (کی بساط) لپیٹ دی جائے گی۔ (1) اور ستارے (بکھر کر) بےنور ہو جائیں گے۔ (2) اور جب پہاڑ چلا دئیے جائیں گے۔ (3) اور جب حاملہ اونٹیاں آوارہ پھریں گی۔ (4) اور جب وحشی جانور اکٹھے کر دئیے جائیں گے۔ (5) اور جب سمندر بھڑکا دئیے جائیں گے۔ (6) اور جب جانیں (جِسموں سے) ملا دی جائیں گی۔ (7) اور جب زندہ درگور کی ہوئی (لڑکی) سے پوچھا جائے گا۔ (8) کہ وہ کس گناہ پر قتل کی گئی؟ (9) اور جب اعمال نامے کھولے جائیں گے۔ (10) اور جب آسمان کھول دیا جائے گا۔ (11) اور جب دوزخ بھڑکا دی جائے گی۔ (12) اور جب جنت قریب لے آئی جائے گی۔ (13) تب ہر شخص کو معلوم ہو جائے گا کہ اس نے کیا لا کر پیش کیا ہے۔ (14) تو نہیں! میں قَسم کھاتا ہوں پیچھے ہٹنے والے۔ (15) سیدھے چلنے اور چھپ جانے والے ستاروں کی۔ (16) اور قَسم کھاتا ہوں رات کی جب وہ جانے لگے۔ (17) اور صبح کی جب وہ سانس لے کر آنے لگے۔ (18) بےشک یہ (قرآن) ایک معزز پیغامبر(ص) کا قول ہے۔ (19) جو قوت والا ہے اور مالکِ عرش کے نزدیک بلند مرتبہ ہے۔ (20) (وہاں) اس کا حکم مانا جاتا ہے اور پھر وہ امانتدار (بھی) ہے۔ (21) اور تمہارا ساتھی (پیغمبرِ اسلام (ص)) دیوانہ نہیں ہے۔ (22) اور اس (پیغمبر(ص)) نے اس (پیغامبر) کو روشن افق (کنارے) پر دیکھا ہے۔ (23) اور وہ غیب کی باتوں کے معاملہ میں بخیل نہیں ہے۔ (24) اور وہ (قرآن) کسی مردود شیطان کا قول نہیں ہے۔ (25) تم کدھر جا رہے ہو؟ (26) وہ نہیں ہے مگر تمام دنیا جہان کے لئے نصیحت۔ (27) یعنی اس کیلئے جو تم میں سے سیدھی راہ پر چلنا چاہے۔ (28) اور تم نہیں چاہتے مگر وہی جو عالمین کا پرورگار چاہتا ہے۔ (29) |
پچھلی سورت: سورہ عبس | سورہ تکویر | اگلی سورت:سورہ انفطار |
1.فاتحہ 2.بقرہ 3.آلعمران 4.نساء 5.مائدہ 6.انعام 7.اعراف 8.انفال 9.توبہ 10.یونس 11.ہود 12.یوسف 13.رعد 14.ابراہیم 15.حجر 16.نحل 17.اسراء 18.کہف 19.مریم 20.طہ 21.انبیاء 22.حج 23.مؤمنون 24.نور 25.فرقان 26.شعراء 27.نمل 28.قصص 29.عنکبوت 30.روم 31.لقمان 32.سجدہ 33.احزاب 34.سبأ 35.فاطر 36.یس 37.صافات 38.ص 39.زمر 40.غافر 41.فصلت 42.شوری 43.زخرف 44.دخان 45.جاثیہ 46.احقاف 47.محمد 48.فتح 49.حجرات 50.ق 51.ذاریات 52.طور 53.نجم 54.قمر 55.رحمن 56.واقعہ 57.حدید 58.مجادلہ 59.حشر 60.ممتحنہ 61.صف 62.جمعہ 63.منافقون 64.تغابن 65.طلاق 66.تحریم 67.ملک 68.قلم 69.حاقہ 70.معارج 71.نوح 72.جن 73.مزمل 74.مدثر 75.قیامہ 76.انسان 77.مرسلات 78.نبأ 79.نازعات 80.عبس 81.تکویر 82.انفطار 83.مطففین 84.انشقاق 85.بروج 86.طارق 87.اعلی 88.غاشیہ 89.فجر 90.بلد 91.شمس 92.لیل 93.ضحی 94.شرح 95.تین 96.علق 97.قدر 98.بینہ 99.زلزلہ 100.عادیات 101.قارعہ 102.تکاثر 103.عصر 104.ہمزہ 105.فیل 106.قریش 107.ماعون 108.کوثر 109.کافرون 110.نصر 111.مسد 112.اخلاص 113.فلق 114.ناس |
حوالہ جات
- ↑ دانشنامہ قرآن و قرآنپژوہی، ۱۳۷۷ش، ۱۳۷۷ش، ج۲، ص۱۲۶۱.
- ↑ معرفت، آموزش علوم قرآن، ۱۳۷۱ش، ج۱، ص۱۶۶.
- ↑ دانشنامہ قرآن و قرآنپژوہی، ۱۳۷۷ش، ج۲، ص۱۲۶۱.
- ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۹۷۴م، ج۲۰، ص۲۱۳۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۲۶، ص۱۶۶۔
- ↑ آیات آغازین سورہ تکویر۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۲۶، ص۱۶۶۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۲۶، ص۱۹۳ـ۱۹۸۔
- ↑ خامہگر، محمد، ساختار سورہہای قرآن کریم، تہیہ مؤسسہ فرہنگی قرآن و عترت نورالثقلین، قم، نشر نشرا، چ۱، ۱۳۹۲ش.
- ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۹۷۴م، ج۲۰، ص۲۱۴۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۲۶، ص۱۷۶۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۲۶، ص۱۷۶۔
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱۰، ص۶۷۰۔
- ↑ بحرانی، تفسیر البرہان، ۱۴۱۵ق، ج۵، ص۵۸۹۔
- ↑ شیخ صدوق، ثواب الاعمال، ۱۳۸۲ش، ص۲۷۹۔
نوٹ
- ↑ اسی طرح سورہ نحل کی آیت نمبر 58 اور 59 بھی لڑکیوں کے زندہ درگور کرنے سے متعلق نازل ہوئی ہے: "اور جب خود ان میں سے کسی کو لڑکی کی بشارت دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا ہے اور وہ خون کے گھونٹ پینے لگتا ہے، قوم سے منہ حُھپاتا ہے کہ بہت بفِی خبر سنائی گئی ہے اب اس کی ذلّت سمیت زندہ رکھے یا خاک میں ملادے یقینا یہ لوگ بہت بفِا فیصلہ کررہے ہیں"
مآخذ
- قرآن کریم، ترجمہ محمد حسین نجفی (سرگودھا)۔
- بحرانی، ہاشم بن سلیمان، البرہان فی تفسیر القرآن، قم، مؤسسۃ البعثۃ، چاپ سیزدہم، ۱۴۱۵ق۔
- دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ج۲، بہ کوشش بہاءالدین خرمشاہی، تہران، دوستان-ناہید، ۱۳۷۷ش۔
- شیخ صدوق، محمد بن علی، ثواب الأعمال و عقاب الأعمال، ترجمہ صادق حسن زادہ، تہران، ارمغان طوبی، ۱۳۸۲ش۔
- طباطبایی، سیدمحمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الأعلمي للمطبوعات، چاپ دوم، ۱۹۷۴م۔
- طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان، بہ تصحیح ہشام رسولی، تہران، ناصر خسرو، چاپ سوم، ۱۳۷۲ش۔
- معرفت، محمدہادی، آموزش علوم قرآن، [بیجا]، مرکز چاپ و نشر سازمان تبلیغات اسلامی، چ۱، ۱۳۷۱ش۔
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ دہم، ۱۳۷۱ش۔