ازواج رسول خدا
خدیجہ بنت خویلد (ازدواج: 25 عام الفیل)
سودہ بنت زمعہ (ازدواج: قبل از ہجرت)
عائشہ بنت ابوبکر (ازدواج: 1 یا 2 یا 4 ہجری)
حفصہ بنت عمر (ازدواج: 3 ہجری)
زینب بنت خزیمہ (ازدواج: 3 ہجری)
ام سلمہ بنت ابوامیہ (ازدواج: 4 ہجری)
زینب بنت جحش (ازدواج: 5 ہجری)
جویریہ بنت حارث (ازدواج: 5 یا 6 ہجری)
رملہ بنت ابوسفیان (ازدواج: 6 یا 7 ہجری)
ماریہ بنت شمعون (ازدواج: 7 ہجری)
صفیہ بنت حیی (ازدواج: 7 ہجری)
میمونہ بنت حارث (ازدواج: 7 ہجری)

ازواج رسول سے مراد وہ خواتین ہیں جو رسول خداؐ کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں، جنہیں قرآن مجید میں امہات المومنین (مومنین کی مائیں) کا لقب دیا گیا ہے۔ امہات المومنین کے لیے اسلام میں خاص احکام بیان ہوئے ہیں۔

علمائے اسلام کے یہاں ازواج رسول کی تعداد میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ بعض علما نے ازواج رسول کی تعداد 15، بعض نے 13 اور کچھ علما نے کچھ اور نظریے بیان کیے ہیں۔ ازواج رسولؐ کی تعداد کا اختلاف کچھ کنیزوں کو آپؐ کی شریک حیات قرار دینے یا قرار نہ دینے میں اختلاف کے بموجب ہے۔ رسول خداؐ کا تعدد ازدواج آپؐ کے تبلیغی مشن (دین اسلام کی تبلیغ) کے مطابق تھا، آپ کی کثرت ازدواج کی کچھ محرکات یہ تھیں: عرب کے بزرگ قبیلوں اور طوائف کی حمایت حاصل کرنا، زمان جاہلیت کے باطل نظریات کو مٹانا، سماج میں ظلم و تعدی کی شکار خواتین کی سماجی حیثیت کو مضبوط کرنا اور ان کی حمایت کرنا اور کنیزوں کو آزاد کرنا وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ازواج رسول کے لیے سادہ زندگی بسر کرنے، اپنی زینتوں کی نمائش(تبرج) کی ممانعت اور نیک گفتگو کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ نیز تمام مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ پردے کے پیچھے سے ازواج رسول سے بات کریں اور رسول خداؐ کی رحلت کے بعد ان سے شادی کرنے کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ سارے مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ ازواج رسولؐ پاکدامن ہیں اور ان کی اہانت کرنا کسی طور جائز نہیں۔ البتہ رسول خداؐ کی رحلت کے بعد جنگ جمل جیسے بعض واقعات کے سلسلے میں حضرت عائشہ کی کچھ کارکردگیوں پر تنقید کی جاتی ہے۔

مقام و اہمیت

"برادران اہل سنت کے مقدسات کی توہین کرنا منجملہ زوجہ رسولؐ عائشہ پر الزام تراشی کرنا حرام ہے۔ یہ بات تمام انبیائے کرام کی ازواج اور خاص کر حضرت محمدؐ کی ازواج کو شامل ہے۔"

رسالت اخبار، 11 مہر 1389ہجری شمسی، ص3۔

ازواج رسولؐ سے مراد پیغمبر اسلامؐ کی بیویاں ہیں، آیہ قرآنی: "وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ؛ آپ کی بیویاں ان (مؤمنین) کی مائیں ہیں[1] کے مطابق ازواج رسولؐ مومنین کی مائیں ہیں؛ [2] قرآن مجید میں ان کے کے خاص احکام بیان ہوئے ہیں۔[3]

ازواج رسولؐ کی توہین حرام

تمام مسلمان ازواج رسول (ص) کی پاکدامنی پر یقین رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود بعض وہابی شیعوں کی طرف یہ نسبت دیتے ہیں کہ وہ ازواج پیغمبرؐ کی طرف ناروا نسبت دیتے ہیں۔ البتہ شیعہ اور بعض اہل سنت علماء بعض ازواج پر رحلت رسولؐ کے بعد پیش آنے والے واقعات جیسے جنگ جمل میں عایشہ کے کردار اور امام علی علیہ السلام سے ان کی دشمنی کی وجہ سے ان پر تنقید کرتے ہیں۔[4] حالانکہ شیعہ ان میں سے کسی کی طرف ناروا نسبت نہیں دیتے ہیں[5] بلکہ ان کی اہانت کو جایز نہیں سمجھتے ہیں۔ مثال کے طور پانچویں صدی ہجری کے شیعہ متکلم سید مرتضی علم الہدی ازواج رسولؐ کے رذائل سے آلودہ ہونے کو انبیاء کی عصمت کے منافی سمجھتے ہیں، اس لئے کہ شیعہ امامیہ عقاید کے مطابھ، جو کچھ بھی انبیاء سے نفرت اور لوگوں کی ان سے دوری کا سبب بنے، اس سے محفوظ و مصون ہیں۔[6] نیز شیخ طوسی نے اپنی کتاب تفسیر تبیان میں صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ ازواج رسول خداؐ پاکدامن اور با عفت تھیں کیونکہ بے عفتی سبب بنتی ہے کہ لوگ نبی سے دور ہوجائیں، نیز یہ چیز ان کے لیے باعث ننگ و عار ہے۔ پس جو شخص غیر عالمانہ گفتگو کرتے ہوئے ازواج نبی پر بے عفتی کا الزام لگائے بغیر شک کے وہ بہت بڑی غلطی کا مرتکب ہوا ہے۔[7] شیعوں کے ہاں یہ عقیدہ موجود ہونے کے باوجود کچھ اہل سنت دانشوروں نے ازواج رسولؐ سے بے عفتی ظاہر ہونے کا امکان ظاہر کیا ہے بلکہ اس کے واقع ہونے کو بھی کہا ہے۔[8] رہبر انقلاب اسلامی ایران اور شیعہ مرجع تقلید آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے مقدسات اہل سنت کی توہین پر حرمت کا فتوی جاری کیا ہے۔ اس میں انہوں نے اہل سنت کی برجستہ شخصیات اور ازواج پیغمبرؐ کی اہانت کے حرام ہونے کا فتوی صادر کیا ہے۔[9]

ازواج پیغمبرؐ کی تعداد

ازواج پیغمبرؐ کی تعداد کے سلسلے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ السیرۃ النبویۃ میں ابن ہشام کی گزارش کے مطابھ، ازواج رسولؐ کی تعداد 13 تھی:[10] خدیجہ، سودہ، عایشہ، زینب بنت خزیمہ، حفصہ بنت عمر، ام سلمہ، زینب بنت جحش، جویریہ، ام حبیبہ (رملہ)، صفیہ، میمونہ، عمرة بن یزید کلابی و اسماء بنت نعمان کندی۔[11] آنحضرت (ص) کی وفات کے وقت خدیجہ و زینب بنت خزیمہ کے علاوہ دیگر ازواج پیغمبرؐ بقید حیات تھیں۔[12]

امام جعفر صادقؑ سے منقول ایک روایت کے مطابق ازواج رسولؐ کی تعداد 15 تھی۔[13] علی بن حسین مسعودی و شمس الدین ذھبی کے مطابق بھی ازواج رسول (ص) کی تعداد 15 تھی۔[14] بعض روایات میں یہ تعداد 17 تک ذکر ہوئی ہے۔[15] البتہ آنحضرتؐ نے 25 سال تک جب تک حضرت خدیجہ زندہ تھیں، فقط آپ زوجہ کے عنوان سے تھیں۔ حضرت خدیجہ کی وفات اور مدینہ ہجرت کے بعد آنحضرتؐ نے دیگر ازواج سے شادیاں کیں۔[16]

پیغمبر اکرمؐ کی ازواج کی تعداد کے بارے میں مورخین کے درمیان موجود اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ بعض مورخین نے آپ کی بعض ان ازواج کو بھی اس میں شامل کیا ہے جنہوں نے کسی سبب سے آنحضرت کے ساتھ زندگی بسر نہیں کی یا بعض کنیزوں کو بهی زوجات میں شمار کیا ہے جیسے ماریہ قبطیہ۔[17] تاریخی منابع میں ان میں سے بعض کے نام جیسے ماریہ قبطیہ اور ریحانہ بنت زید ذکر ہوئے ہیں۔[18]

 
بقیع کی تصویر، شماره 4، ازواج رسولؐ کی قبور

اولاد

رسول خداؐ کی زوجات میں سے صرف حضرت خدیجہ اور ماریہ قبطیہ صاحب اولاد تھیں۔[19] ماریہ سے ابراہیم پیدا ہوئے۔[20] مشہور کی بناء پر حضرت خدیجہ سے چار بیٹیاں زینب، ام کلثوم،‌ رقیہ اور حضرت فاطمہ فاطمہ(س)اور دو بیٹے قاسم اور عبد اللہ متولد ہوئے۔[21]

البتہ بعض شیعہ محققین کا ماننا ہے کہ زینب، ام کلثوم اور رقیہ آنحضرت و خدیجہ کی بیٹیاں نہیں تھیں بلکہ خدیجہ کی بہن کی بیٹیاں تھیں جن کی پرورش آنحضرتؐ کے یہاں ہوئی تھی۔[22]

پیغمبر اسلام کی متعدد شادیاں کرنے کی وجوہات

پیغمبر اسلامؐ کے دور میں تعدد ازواج ایک رائج اور معمول کا معاملہ تھا؛[23] اس کے باوجود کہتے ہیں کہ پیغمبر اسلام نے کچھ حکمتوں اور اپنے تبلیغی مشن کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے متعدد شادیاں کیں۔[24] مذکورہ حکمتوں میں سے کچھ کو یہاں ذکر کیا جاتا ہے:

  1. آپ چاہتے تھے کہ عرب کے مشہور اور بزرگ قبائل سے ازدواجی رشتہ ناتوں کے ذریعے ان کی سیاسی اور سماجی حمایت حاصل کرنا چاہتے تھے؛ عائشہ سے آپ کی شادی اسی نوعیت کی تھی۔
  2. زمانہ جاہلیت کے غلط افکار کو باطل اور بیہودہ قرار دے کر حکم الہی کا اجراء کرنا مقصود تھا، جیسے کہ آپؐ نے زینب بنت جحش کے ساتھ شادی کی۔ زینب کا شوہر زید بن حارثہ تھا جو کہ پیغمبر اسلام کا گود لیا بیٹا تھا اور اہل عرب کی روایت کے مطابق گود لیے بچے کو اپنا حقیقی بچہ سمجھا جاتا تھا، اس لیے اس کی وفات یا اس کی بیوی کو طلاق ہونے کے بعد اسی گھر سے کوئی اس کی بیوی سے شادی نہیں کرتا تھا۔ پیغمبر نے اس روایت کو ختم کیا۔
  3. سماجی ظلم و تعدی کی شکار خواتین کو تشخص دینے کے لیے آپؐ نے متعدد شادیاں کیں، جن میں بیوہ اور کنیز عورتیں ہوا کرتی تھیں۔ (عایشہ کے علاوہ آپ کی تمام بیویاں بیوہ تهیں)
  4. بعض شادیاں آپؐ نے اسلام کی راہ میں سختیاں جھیلنے والی خواتین کی تسلی خاطر کے لیے کیں، جیسے ام حبیبہ سے ازدواج۔
  5. بیوہ، فقیر، یتیم اور بے سرپرست خواتین کی سرپرستی اور ان کی ضروریات زندگی کو پورا کرنےکے لیے بعض شادیاں کیں، جیسے ام سلمہ اور زینب بنت خزیمہ سے شادی اسی نوعیت کی تھی۔
  6. آنحضرتؐ کی بعض شادیاں اسلام کی عظمت، شان و شوکت اور طاقت کے اظہار کے لیے تھیں، جیسے صفیہ سے شادی۔
  7. کنیزوں اور قیدی خواتین کو آزاد کرنے کی خاطر بعض شادیاں کیں، جیسے جویریہ سے شادی اسی سلسلے میں تھی۔[25]

پیغمبر خداؐ کے تعدد ازدواج میں مذکورہ حکمتیں درکار ہونے کے باوجود بعض مصنفین نے آپؐ کے تعدد ازواج کو ہوا و ہوس کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ علامہ طباطبایی نے اس کا جواب یوں دیا ہے کہ سیرت نبوی اس بات کو رد کرتی ہے کیونکہ پیغمبر اسلامؐ نے اپنی کل زندگی کے تقریباً دو تہائی حصے کو صرف حضرت خدیجہ(س) کے ساتھ گزار دیے ہیں۔ آپؐ نے اپنی عمر کے آخری ایام میں متعدد شادیاں کی ہیں۔[26] اگر پیغمبر صرف ہوا و ہوس کی بنیاد پر شادیاں کرتے تو جوان عورتوں سے شادی کرتے نہ کہ بیوہ اور بوڑھی عورتوں سے۔[27]

علامہ طباطبایی مزید کہتے ہیں کہ پیغمبر خداؐ کا ان عورتوں کے ساتھ برتاؤ اس بات پر دلیل ہے کہ آپؐ عورتوں کو مردوں کی شہوت پرستی کا ذریعہ نہیں سمجھتے تھے،بلکہ آپؐ ان کو ذلت و غلامی سے نجات دلانا چاہتے تھے۔[28] محمد حسین کاشف الغطاء کے مطابق رسول خداؐ تعدد ازدواج کے ذریعے اپنی ملکوتی ذات کو ظاہر کرنا چاہتے تھے اور ضبط نفس، استقامت اور مساوات و انصاف کی رعایت کی واضح مثال پیش کرنا چاہتے تھے۔[29][یادداشت 1]

ازواج رسولؐ کے بارے میں قرآنی احکام

قرآن مجید کی بعض آیات ازواج رسولؐ کے بارے میں نازل ہوئی ہیں جن میں ان کی بنسبت کچھ احکام بیان کیے گئے ہیں:

ازواج رسول کے لیے ثواب و عقاب دوگنا ہے

قرآن کی آیت: يا نِساءَ النَّبِيِّ مَنْ يَأْتِ مِنْكُنَّ بِفاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ وَ كانَ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيراً (30) وَ مَنْ يَقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلَّهِ وَ رَسُولِهِ وَ تَعْمَلْ صالِحاً نُؤْتِها أَجْرَها مَرَّتَيْنِ وَ أَعْتَدْنا لَها رِزْقاً كَرِيماً[احزاب–30-31.] اگر ازواج رسول عمل صالح انجام دیں تو اس کا دوگنا ثواب ملے گا اور اگر کسی گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کا عذاب بھی دوگنا ہوگا؛[30] کیونکہ امہات المومنین پیغمبر اسلامؐ سے منسوب ہونے کی وجہ سے خاص مقام کی حامل ہیں لہذا دوسری خواتین کے لیے نمونہ عمل ہیں۔[31] نیز مفسرین نے اس آیت: يا نِساءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّساءِ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ؛ اے نبی کی بیویو! تم اور (عام) عورتوں کی طرح نہیں ہوا اگر تم پرہیزگاری اختیار کرو۔[سورہ احزاب–32] سے استناد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی ذمہ داریاں دوسری عورتوں کی بنسبت زیادہ بھاری ہیں؛ کیونکہ یہ بات معقول نہیں کہ ذمہ داری برابر ہو لیکن جزا و ثواب ان کو کم ملے۔(بلکہ ان کو اپنی ذمہ داری کے مطابق ثواب میں اضافہ ہونا ایک عقلی سی بات ہے)[32]

اگر پیغمبر اور روز آخرت کو چاہتی ہیں تو سادہ زندگی گزاریں

آیت قرآنی: يا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْواجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَياةَ الدُّنْيا وَ زِينَتَها فَتَعالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَ أُسَرِّحْكُنَّ سَراحاً جَمِيلاً (28) وَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ وَ الدَّارَ الْآخِرَةَ فَإِنَّ اللَّهَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِناتِ مِنْكُنَّ أَجْراً عَظِيماً[سورہ احزاب–28-29] اگر ازواج پیغمبرؐ رسول خداؐ اور روز آخرت کو چاہتی ہیں تو انہیں چاہیے کہ سادہ زندگی گزارنے کو ترجیح دیں اور اگر دنیوی مال و دولت کی خواہاں ہیں تو پیغمبر ؐ ان کو طلاق دیں گے اور ان کا مہریہ ادا کریں گے۔[33] جیسا کہ تفسیر نمونہ میں آیا ہے کہ یہ آیت رسول خداؐ کی بعض ازواج کے ناخوش ہونے اور اپنی مادی زندگی کی شکایت کے جواب میں نازل ہوئی ہے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ مسلمانوں کو جنگوں سے مال غنیمت حاصل ہوئے ہیں تو وہ پیغمبرؐ سے مال و دولت مانگنے لگیں۔ رسول خداؐ نے ان کے مطالبات کا جواب دینے سے انکار کر دیا اور مذکورہ آیات کے نازل ہونے تک ایک ماہ کے لیے ان سے دوری اختیار کی۔[34]

نرم لہجہ اختیار مت کریں

قرآن کی اس آیت: فَلا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ[سورہ احزاب–32] میں ازواج پیغمبرؐ کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ لوگوں سے بات کرنے کے دوران نرم لہجہ اختیار مت کریں، کیونکہ نرم لہجے میں بات کرنے سے ہوس پرستوں کی آتش شہوت بھڑک اٹھ سکتی ہے۔[35]

معمول کے مطابق بات کیا کریں

آیت قرآنی: وَ قُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفاً[سورہ احزاب–32] کے مطابق ازواج رسولؐ کو حکم ہوا ہے کہ وہ اپنی گفتگو میں شائستگی پیدا کریں، حق و عدالت کے مطابق اور رضائے الہی اور پیغمبرخداؐ کو ملحوظ خاطر رکھ کر بات کیا کریں۔[36]

گھروں میں قرار سے رہیں اور آرائش کی نمائش مت کریں

آیت قرآنی: وَ قَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَ لا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجاهِلِيَّةِ الْأُولى‏ ...[سورہ احزاب–33] کے مطابق ازواج رسول کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے گھروں میں قرار سے رہیں اور زمانہ جاہلیت کی مانند اپنی آرائش کو ملا عام میں نمائش کرتی مت پھریں۔[37] مفسرین کے مطابق یہ ایک عام حکم ہے جو تمام مسلم خواتین کو شامل ہے البتہ ازواج رسول کے لیے یہ حکم تاکید کے ساتھ بیان ہوا ہے۔[38]

نماز قائم کریں اور زکات دیا کریں

آیت قرآنی: أَقِمْنَ الصَّلاةَ وَ آتِينَ الزَّكاةَ وَ أَطِعْنَ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ[سورہ احزاب–33]، میں ازواج رسولؐ کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ نماز پڑھا کریں اور زکات ادا کریں اور خدا و رسول کی اطاعت کریں۔ مفسرین کے مطابق یہ حکم صرف ازواج رسول سے مختص نہیں بلکہ تمام مسلمان خواتین کے لیے بھی یہی حکم ہے البتہ ازواج رسول کے لیے یہ احکام تاکید کے ساتھ کہا گیا ہے۔[39] مذکورہ آیت میں احکام الہی میں سے صرف نماز اور زکات کو ذکر کرنے وجہ علامہ طباطبائی نے یوں بیان کی ہے کہ نماز اور زکات تمام عبادتوں اور معاملات کے بنیادی ارکان میں شامل ہیں اور مابقی احکام کو جملہ "اطعن الله و رسوله"[سورہ احزاب–33] میں بیان کیا گیا ہے۔[40]

ہمراہی پیغمبر جیسی فرصت کو غنیمت جانیں

علامہ طباطبایی نے آیت وَاذْكُرْنَ ما يُتْلى‏ فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آياتِ اللَّهِ وَ الْحِكْمَةِ[سورہ احزاب–34] کا مفہوم یوں بیان کیا ہے کہ ازواج رسولؐ کو چاہیے کہ جن آیات الہی کو وہ اپنے گھروں میں سنتی ہیں ان کو حفظ کریں اور ہمیشہ ان کی طرف توجہ رکھیں اور اللہ تعالیٰ نے انہیں جس راستے کو متعین کیا ہے اس سے تجاوز نہ کریں۔[41] بعض دیگر مفسرین نے کے مطابق اس آیت کریمہ میں ازواج رسول کو حکم دیا گیا ہے کہ رسول خداؐ کے گھر کا فرد بننا اور یہاں قرآن و احادیث سے سروکار رہنا ایسی نعمات الہی ہیں جن کی شکر گزار رہیں۔ [42]

مسلمانوں کو ازواج رسولؐ کے بارے میں قرآنی احکامات

قرآن مجید میں ازواج رسولؐ کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھا جانا چاہیے؛ اس سلسلے میں کچھ احکامات بیان ہوئے ہیں:

پردے کے پیچھے سے ان سے بات کیا کریں

آیت قرآنی: وَ إِذا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتاعاً فَسْئَلُوهُنَّ مِنْ وَراءِ حِجابٍ ذلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَ قُلُوبِهِنَّ  (ترجمہ: جب تم ان (ازواجِ نبی(ص)) سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو۔ یہ (طریقۂ کار) تمہارے دلوں کیلئے اور ان کے دلوں کیلئے پاکیزگی کا زیادہ باعث ہے ۔)[سورہ احزاب–53] اس آیت میں حجاب کا مطلب دوسری عورتوں کا عام پردہ نہیں ہے بلکہ یہ ازواج رسولؐ کے لیے ایک اضافی حکم تھا[43] جو دشمنوں کو ازواج رسولؐ میں عیب تلاش کرنے سے روکنے[44] اور ان کی عزت کی حفاظت کے لیے[45] نازل ہوئی ہے۔

ازواج رسول سے شادی کرنے کی ممانعت

قرآنی آیت: وَ لا أَنْ تَنْكِحُوا أَزْواجَهُ مِنْ بَعْدِهِ أَبَداً؛ اور نہ یہ جائز ہے کہ ان کے بعد کبھی بھی ان کی بیویوں سے نکاح کرو[سورہ احزاب–53] رسول کے بعد آپؐ کی ازواج مطہرہ سے شادی کرنے کی ممانعت اس لیے ہے کہ وہ مومنین کی روحانی مائیں ہیں۔[46] اس ممانعت کے سلسلے میں چند احتمالات بیان کیے گئے ہیں:

  • پیغمبرخداؐ کی اہانت نہ ہو: بعض لوگوں نے ارادہ کر رکھا تھا کہ رحلت رسول خداؐ کے بعد آپؐ کی ازواج سےشادی کریں۔ اس طریقے سے وہ لوگ پیغمبر خداؐ کے مقام و منزلت کو ٹھیس پہنچانا چاہتے تھے۔
  • غلط فائدہ اٹھانے کی روک تھام: عام لوگوں کے لیے ازواج رسولؐ سے شادی کرنا جائز ہونے کی صورت میں یہ احتمال تھا کہ کچھ لوگ اس موقع سے غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے سماجی مقام و مرتبہ حاصل کرتے۔ مزید یہ کہ چونکہ ازواج مطہرات رسول خداؐ کے اندورن خانہ اور مکتب اسلام کے نشیب و فراز سے خوب آگاہ تھیں، دشمن ان کے ذریعے اسلام میں تحریفات لانے کے لیے غلط فائدہ حاصل کرسکتے تھے۔[47]
  • عام مسلمانوں کو ازواج رسولؐ کے ساتھ شادی کی ممانعت کا ایک احتمال یہ بتایا گیا ہے کہ ازواج رسولؐ بہشت میں بھی ازدواج رسول ہی ہونگی۔[48]

ازواج رسول کا حق مہر

روایات کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کی ازواج کے لئے حق مہر کی رقم 500 درہم تھی۔[49]وہ مہر جو پیغمبر اسلامؐ اپنی بیویوں اور شیخ صدوق کی نقل کے مطابق اپنی بیٹیوں کو مقرر کرتے تھے[50] مہر السنۃ کہا جاتا ہے۔[51] البتہ شیخ صدوق نے امام محمد باقرؑ سے روایت کی ہے کہ ام حبیبہ (پیغمبر کی زوجہ) کا مہر چار ہزار درہم تھا۔[52] کہتے ہیں کہ اس روایت میں امام باقرؑ نے اس مہر کو مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ تفصیل واقعہ یہ کہ ام حبیبہ کی خواستگاری کے لیے پیغمبر خداؐ نے نجاشی حاکم حبشہ کو اپنا وکیل مقرر کیا تھا اور نجاشی نے خود ہی ام حبیبہ کا حق مہر اسی مقدار میں ادا کردیا تھا تو پیغمبر خداؐ نے بعد میں اس کی مخالفت نہیں کی بلکہ اسی کو برقرار رکھا۔[53]

پیغمبر خداؐ کا اپنی ازواج سے برتاؤ

مصری مصنف محمد حسنین ہیکل (متوفیٰ: 1376ھ) کے مطابق پیغمبر خداؐ اپنی ازواج کے لیے مقام و مرتبے کے قائل تھے جو کہ اس زمانے کے اہل عرب میں رائج نہ تھا۔[54] قرآن کی بعض آیات کے مطابق پیغمبر خداؐ اپنی بعض ازواج کی خوشی کی خاطر اپنے اوپر بعض مباح عمل کو بھی اپنے اوپر حرام کر رکھا تھا۔ اس کا ایک نمونہ یہ کہ اس آیت: یا أَیهَا النَّبِی لِمَ تُحَرِّ‌مُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَک تَبْتَغِی مَرْ‌ضَاتَ أَزْوَاجِک ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّ‌حِیمٌ؛[سورہ تحریم–1] ترجمہ: "اے نبی(ص)! جو چیز اللہ نے آپ کیلئے حلال قرار دی ہے آپ اسے اپنی بیویوں کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے (اپنے اوپر) کیوں حرام ٹھہراتے ہیں اور اللہ بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔" کے شأن نزول میں آیا ہے کہ زینب بنت جحش نے آپؐ کے لیے شہد کا شربت تیار کیا تھا لیکن آپؐ نے حفصہ کی خوشی کے لیے اس کے پینے کو اپنے اوپر حرام قرار دیا۔[55]


رسول خداؐ اپنی ازواج کے درمیان ہمیشہ عدل و انصاف کا خیال رکھتے تھے۔ اپنے اموال کو ان کے مابین برابر تقسیم کیے۔ محمد بن عمر واقدی نے اپنی کتاب "المغازی" میں لکھا ہے کہ پیغمبر خداؐ نے جنگ خیبر کے بعد اپنی ہر بیوی کو 80 وسق (پیمانہ) کھجور اور 20 وسق (پیمانہ) جوّ دیا۔[56] نیز آپؐ نے راتوں کو اپنی ازواج میں تقسیم کر رکھا تھا نیز جب بھی آپ کسی سفر یا جنگ کے لیے تشریف لے جاتے قرعہ اندازی کے ذریعے ایک کا انتخاب کرتے تھے حالانکہ سورہ احزاب آیت 51 کے مطابق اپنی ازواج کے مابین تقسیم کی ہوئی باری کو موخر کرنے میں آپؐ مجاز تھے۔[57]

کتابیات

ازواج رسولؐ کے بارے میں عربی اور فارسی زبانوں میں شیعہ اور اہل سنت علما نے بکثرت کتابیں تحریر کی ہیں۔ ان میں سے بعض کو یہاں ذکر کیا جاتا ہے:

  • "المُنتَخب مِن کتاب اَزواج النبی صلی الله علیه و سلم"، تألیف: زبیر بن بکار (متوفیٰ: 256ھ). اس کتاب کو سکینہ شہابی کی تحقیق کے ساتھ مؤسسۃالرسالہ بیروت نے سنہ 1403ھ کو منتشر کیا ہے۔
  • "زوجات النبی(ص)"، یہ کتاب مصری مستبصر سعید ایوب (پیدائش: 1363ھ) کا قلمی اثر ہے۔[58]
  • "سبک زندگی رسول خدا با همسرانش"، اسے فرزانہ حکیم‌زاده نے فارسی زبان میں تحریر کی ہے۔ یہ کتاب پیغمبر اسلامؐ کا اپنی ازواج کے ساتھ برتاؤ کو ہمارے لیے سرمشق قرار دینے کے نقطہ نظر سے لکھی گئی ہے۔[59]
  • "اَزواج‌ُالنبی صلی الله علیه و سلم"، تالیف: محمد بن یوسف صالحی دمشقی۔
  • "زوجات النبی و اولاده"، تالیف: امیر مہیا الخیامی (نشر 1411ھ)۔
  • "ہمسران پیامبر"، تالیف: عقیقی بخشایشی (نشر 1352ہجری شمسی)۔

حوالہ جات

  1. سوره احراب، آیه6.
  2. ملاحظہ کیجیے: سوره احزاب، آیه6.
  3. ملاحظہ کیجیے: سوره احزاب، آیات 28-34 و 53و 54.
  4. ملاحظہ کیجیے: حسینی فیروز آبادی، سبعة من السلف، 1417ھ، ص258-269.
  5. میلان نورانی، «بررسی دیدگاه علمای شیعہ، در مورد همسران پیامبر»، ص56-58.
  6. سید مرتضی، امالی، 1998ء، ج1، ص305.
  7. طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن، ج5، ص495.
  8. بخاری، صحیح بخاری، ج4، ص729.
  9. «استقبال جهان اسلام از استفتای جدید آیت‌ الله خامنہ ای»، روزنامہ رسالت، 11 مهر 1389ہجری شمسی، ص3.
  10. ابن‌ ہشام، السیرة النبویة، دار المعرفة، ج2، ص643.
  11. ابن‌ هشام، السیرة النبویة، دار المعرفة، ج2، ص647.
  12. ابن‌ هشام، السیرة النبویة، دار المعرفة، ج2، ص647.
  13. شیخ صدوھ، الخصال، 1403ھ، ج2، ص419.
  14. مسعودی، مروج‌الذهب، 1380ہجری شمسی، ج3، ص23؛ ذهبی، تاریخ الاسلام، 1413ھ، ج1، ص592.
  15. حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، 1411ھ، ج4، ص4.
  16. طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج4، ص195.
  17. ابو القاسم‌ زاده، «کنکاشی درباره علل تعدد همسران پیامبر»، ص84.
  18. ملاحظہ کیجیے: ذهبی، تاریخ‌ الاسلام، 1413ھ، ج1، ص598.
  19. هیکل، حیاة محمد، دار الکتب، ص205.
  20. هیکل، حیاة محمد، دار الکتب، ص205.
  21. مقریزی، امتاع الأسماع، 1420ھ، ج5، ص334.
  22. جعفر مرتضی، الصحیح من سیرة النبی الاعظم، 1385ہجری شمسی، ج2، ص212.
  23. هیکل، حیاة محمد، دارالکتب، ص205.
  24. ابوالقاسم‌زاده، «کنکاشی درباره علل تعدد همسران پیامبر»، ص84.
  25. المیزان، ج 4، ص195؛ علامہ طباطبایی، بررسی‌ہای اسلامی، ص132 - 139؛ مؤسسہ در راہ حھ، نگرشی کوتاہ بہ زندگی پیامبر اسلام، ص29؛ رسولی محلاتی، تاریخ انبیاء، ج 3، ص475.
  26. طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج4، ص195.
  27. طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج4، ص195.
  28. ملاحظہ کیجیے: طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج4، ص196-197.
  29. کاشف الغطاء، الفردوس الاعلی، ص122.
  30. طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج‏16، ص307.
  31. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، 1374ہجری شمسی، ج17، ص288.
  32. طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج‏16، ص308.
  33. طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج‏16، ص307.
  34. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، 1374ہجری شمسی، ج‏17، ص278-279.
  35. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، 1374ہجری شمسی، ج17، ص289.
  36. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، 1374ہجری شمسی، ج‏17، ص289.
  37. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، 1374ہجری شمسی، ج‏17، ص290.
  38. ملاحظہ کیجیے مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، 1374ہجری شمسی، ج‏17، ص290؛ طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج16، ص308.
  39. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، 1374ہجری شمسی، ج17، ص291.
  40. طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج‏16، ص309.
  41. طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج16، ص313.
  42. مغنیه، تفسیر الکاشف، 1424ھ، ج‏6، ص217.
  43. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، 1374ہجری شمسی، ج‏17، ص401.
  44. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، 1374ہجری شمسی، ج‏17، ص403.
  45. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، 1374ہجری شمسی، ج‏17، 398.
  46. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، 1374ہجری شمسی، ج‏17، ص204.
  47. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، 1374ہجری شمسی، ج‏17، ص404.
  48. قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، 1364ہجری شمسی، ج14، ص229.
  49. مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج100، ص347-348؛ شیخ صدوھ، المقنع، 1415ھ، ص302؛ شهید ثانی، 1410، ج5، ص344.
  50. شیخ صدوھ، المقنع، 1415ھ، ص302.
  51. شهید ثانی، الروضة البهیة، 1410ھ، ج5، ص344.
  52. شیخ صدوھ، من لایحضره الفقیه، 1413ھ، ج3، ص473.
  53. مسعودی، «پژوهشى درباره مَهرُالسُّنّه (مهر محمّدى)»، ص113.
  54. هیکل، حیاة محمد، دارالکتب، ص279.
  55. ملاحظہ کیجیے: مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، 1374ہجری شمسی، ج24، ص271-274.
  56. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج2، ص693.
  57. عابدینی، «شیوه همسرداری پیامبر(ص) به گزارش قرآن»، ص172.
  58. «مستبصرین: سعید ایوب»، مجمع جهانی شیعه‌شناسی.
  59. «نحوه برخورد پیامبر(ص) با همسرانش الگو برای بشر دوره معاصر است»، خبرگزاری ایکنا.

نوٹ

  1. أنه-سلام اللّه عليه-أراد أن يضرب المثل الأعلى و البرهان الأتم الأجلى‌ لنفسه الملكوتية و مقدار رزانتها، و قوة استقامتها و عدلها، و عدالتها

مآخذ

  • «استقبال جہان اسلام از استفتای جدید آیت‌اللہ خامنہ‌ای»، روزنامہ رسالت، 11 مہر 1389ہجری شمسی۔
  • ابن ہشام، عبدالملک بن ہشام، السیرۃ النبویۃ، تحقیق مصطفی السقا و ابراہیم الابیاری و عبدالحفیظ شلبی، بیروت، دارالمعرفۃ، بی‌تا۔
  • ابوالقاسم‌زادہ، مجید و مہری کاظم‌نژاد، «کنکاشی دربارۂ علل تعدد ہمسران پیامبر»، معرفت، شمارہ 108، آذر 1385ہجری شمسی۔
  • حاکم نیشابوری، محمد بن عبداللہ، المستدرک علی الصحیحین، تحقیق مصطفی عبدالقادر عطا، بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1411ھ/1990ء۔
  • حسینی فیروزآبادی، سید مرتضی، سبعۃ من السلف، تحقیق سید مرتضی رضوی، الطبعۃ الاولی، قم، مؤسسہ دارالہجرہ، 1417ھ/1375ہجری شمسی۔
  • ذہبی، محمد بن احمد، تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر و الاعلام، تحقیق عمر عبدالسلام تدمری، بیروت، دارالکتاب العربی، الطبعۃ الثانیۃ، 1413ق/1993ء۔
  • سید مرتضی، علی بن حسین، امالی للمرتضی، قاہرہ، دارالفکر العربی، 1988ء۔
  • شہید ثانی، زین‌الدین بن علی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، تحقیق سیدمحمد کلانتر، قم، کتابفروشی داوری، چاپ اول، 1410ھ۔
  • شیخ صدوھ، محمد بن علی، الخصال، قم، انتشارات جامعہ مدرسین قم، 1403ھ۔
  • شیخ صدوھ، محمد بن علی، المقنع، مؤسسۃ الہادی علیہ‌السلام، 1415ھ۔
  • شیخ صدوھ، محمد بن علی، من لایحضرہ الفقیہ، تحقیق و تصحیح علی‌اکبر غفاری، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، چاپ دوم، 1413ھ۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین‏، المیزان فی تفسیر القرآن، قم‏، دفتر انتشارات اسلامی جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، 1417ھ۔
  • عابدینی، احمد، «شیوہ ہمسرداری پیامبر بہ گزارش قرآن»، بینات، شمارہ 52، زمستان 1385ہجری شمسی۔
  • عاملی، جعفر مرتضی، الصحیح من سیرۃ النبی الأعظم، قم، مؤسسہ علمی و فرہنگی دارالحدیث، الطبعۃ الاولی، 1426ق/1385ہجری شمسی۔
  • قرطبی، محمد بن احمد، الجامع لاحکام القرآن، تہران، ناصر خسرو، 1364ہجری شمسی۔
  • «مستبصرین: سعید ایوب»، مجمع جہانی شیعہ‌شناسی، درج مطلب: 29 مہر 1397ہجری شمسی، مشاہدہ: 8 خرداد 1399ہجری شمسی۔
  • کاشف الغطاء، محمدحسین، الفردوس الاعلی، بی تا، بی جا، بی نا۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار الجامعۃ لدرر اخبار الائمۃ الاطہار، بیروت، دار احیاء‌ التراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ۔
  • مسعودی، عبدالہادی، «پژوہشى دربارہ مَہرُ السُّنّہ (مہر محمّدى)»، در تحکیم خانوادہ از نگاہ قرآن و حدیث، بہ کوشش محمد محمدی ری‌شہری، ترجمہ حمیدرضا شیخی، قم، سازمان چاپ و نشر‌ دار الحدیث، چاپ دوم، 1389ہجری شمسی۔
  • مسعودی، علی بن حسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، قم، انتشارات الشریف الرضی، 1380ہجری شمسی۔
  • مقریزی، احمد بن علی، امتاع الاسماع بما للنبی من الاحوال و الاموال و الحفدۃ و المتاع، تحقیق محمد عبدالحمید النمیسی، بیروت، دارالکتب العلمیہ، الطبعۃ الاولی، 1420ھ/1999ء۔
  • مغنیہ، محمدجواد، تفسیر الکاشف‏، تہران‏، دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ اول، 1424ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ سی و دوم، 1374ہجری شمسی۔
  • میلان نورانی، محمدجعفر، «بررسی دیدگاہ علمای شیعہ در مورد ہمسران پیامبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم»، سراج منیر، شمارہ 35، پاییز 1398ہجری شمسی۔
  • ہیکل، محمد حسین، حیاۃ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، دارالکتب، قاہرہ، بی‌تا۔
  • «نحوہ برخورد پیامبر(ص) با ہمسرانش الگو برای بشر دورہ معاصر است»، خبرگزاری ایکنا، تاریخ انتشار: 15 آذر 1396ہجری شمسی۔
  • واقدی، محمد بن عمر، کتاب المغازی، تحقیق مارسدن جونس، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی، الطبعۃ الثالثۃ، 1409ھ/1989ء۔