آیت نور

ویکی شیعہ سے
آیت نور
آستان قدس رضوی کی لائبریری میں محفوظ آیت نور کا مرقّع فریم، مرزا احمد نیریزی کے قلم سے
آستان قدس رضوی کی لائبریری میں محفوظ آیت نور کا مرقّع فریم، مرزا احمد نیریزی کے قلم سے
آیت کی خصوصیات
آیت کا نامنور
سورہنور
آیت نمبر35
پارہ18
صفحہ نمبر354
موضوععقائد


آیت نور سورہ نور کی پینتیسویں(35) آیت ہے جس میں اللہ تعالیٰ کو زمین اور آسمان کا نور قرار دیتے ہوئے ایک مثال کے ضمن میں زمین و آسمان پر اس نور کی روشنائی اور مومنین کی ہدایت میں اس کے کردار پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

مفسرین نے اس آیت میں "نور" کی تفسیر ہادی، موجد اور زینت بخش سے کی ہے اور قرآن، ایمان، الہٰی ہدایت، پیغمبر اسلامؐ اور شیعہ ائمہؑ کو من جملہ اس کے مصادیق میں سے قرار دئے ہیں۔
بعض تفاسیر اور روایات میں اس آیت کو پیغمبر اکرمؐ کے اہل بیتؑ پر منطبق کیا گیا ہے۔

آیت اور اس کا ترجمہ

اللَّهُ نُورُ‌ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ ۚ مَثَلُ نُورِ‌هِ کمِشْکاةٍ فِیهَا مِصْبَاحٌ ۖ الْمِصْبَاحُ فِی زُجَاجَةٍ ۖ الزُّجَاجَةُ کأَنَّهَا کوْکبٌ دُرِّ‌ی یوقَدُ مِن شَجَرَ‌ةٍ مُّبَارَ‌کةٍ زَیتُونَةٍ لَّا شَرْ‌قِیةٍ وَلَا غَرْ‌بِیةٍ یکادُ زَیتُهَا یضِیءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ‌ ۚ نُّورٌ‌ عَلَیٰ نُورٍ‌ ۗ یهْدِی اللَّهُ لِنُورِ‌هِ مَن یشَاءُ ۚ وَیضْرِ‌بُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ ۗ وَاللَّهُ بِکلِّ شَیءٍ عَلِیمٌ ﴿۳۵﴾


اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ اس کے نور کی مثال یہ ہے جیسے ایک طاق میں چراغ رکھا ہوا ہو (اور) چراغ شیشہ کی قندیل میں ہو۔ اور (وہ) قندیل گویا موتی کی طرح چمکتا ہوا ایک ستارہ ہے (اور وہ چراغ) زیتون کے بابرکت درخت (کے تیل) سے روشن کیا جاتا ہے۔ جو نہ شرقی ہے نہ غربی قریب ہے کہ اس کا تیل خود بخود بھڑک اٹھے اگرچہ آگ نے اسے چھوا بھی نہ ہو۔ یہ نور بالائے نور ہے۔ اللہ جس کو چاہتا ہے اپنے نور کی طرف ہدایت فرماتا ہے۔ اور اللہ لوگوں کیلئے مثالیں بیان کرتا ہے۔ اور اللہ ہر چیز کا بڑا جاننے والا ہے۔



سورہ نور: آیت 35


آیت کا مضمون

خط ثلث میں سورہ نور کا آغاز

آیۂ نور سے پہلے کی آیات احکام و شرائع، عفت و پاکدامنی اور فحاشی کے خلاف جدوجہد کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔آیہ نور بھی انہی آیات سے مربوط ہے[1] اور چونکہ خدا کے تمام احکام بالخصوص جنسی خواہشات پر کنٹرول کا ضامن ایمان ہے اس لیے آیہ نور میں ہدایت الہٰی کے نور کا ذکر کیا گیا ہے۔[2] آیۂ نور بعد والی آیات کے ہمراہ مومنین (کہ جو اللہ کے نور کے وسیلے سے ہدایت یافتہ ہیں) اور کافرین ( کہ جو گھٹا ٹوپ تاریکیوں سے دوچار ہیں) کا موازنہ کر رہی ہے۔[3]
مفسرین نے آیۂ نور کے مفہوم، اس کے کلمات کے معانی، نور الہٰی کے مصادیق و مظاہر نیز مدلول آیہ کے خدا پر اطلاق کی کیفیت کے بارے میں مختلف نظریات پیش کئے ہیں۔علامہ طباطبائی کلمہ نور کے پہلے اور مشہور معنی کی بنیاد پر نور کو ایک ایسی چیز قرار دیتے ہیں کہ جس کے ذریعے دوسرے اجسام ظاہر ہوتے ہیں مگر وہ اپنی ذات میں خود بخود روشن ہوتی ہے؛ یعنی نور ظاہر بالذات اور مظھر للغیر ہے۔ ثانوی معنوں میں نور کا اطلاق ہر ایسی شے پر کیا جاتا ہے جو محسوسات کو آشکار کرے؛ اسی لیے انسان کے ظاہری حواس جیسے سامعہ، شامہ اور لامسہ اور اسی طرح غیر محسوسات جیسے عقل کہ جو معقولات کو ظاہر کرتی ہے، کو نور کہا گیا ہے۔[4]
مفسرین نے آیت «الله نور السموات و الارض» کی ابتدا میں کلمہ «نور» کی تفسیر ہدایت کرنے والا،[5] واضح اور روشن کرنے والا، زینت دینے والا[6] ہستی دینے والا[7] سے کی ہے اور دوسری آیات اور روایات کے پیش نظر قرآن،[8] ایمان،[9] اللہ کی ہدایت،[10] پیغمبر اسلامؐ،[11] شیعوں کے ائمہ[12] اور علم[13] کو آیہ نور کے مصداق اور مظاہر شمار کیا گیا ہے۔[14]
یہ آیت اس حقیقت کے بیان کے بعد کہ: اللہ تعالی زمین اور آسمان کا نور (پیدا کرنے والا) ہے، خدا کے نور کو ایک مثال کے قالب میں بیان کرتی ہے۔ اس مثال میں اللہ کے نور کو ایسے چراغدان سے تشبیہہ دی گئی ہے کہ جس میں چراغ ہو اور وہ چراغ ایک شفاف اور چمکدار قندیل میں ایک ستارے کی مانند ہے کہ جسے زیتون کے بابرکت درخت کہ جو نہ شرقی ہے نہ غربی؛ سے روشن کیا گیا ہے۔[15] مفسرین نے اس مثال کی تشریح و توضیح میں مختلف نظریات پیش کیے ہیں۔بعض مفسرین اس تشبیہہ سے مراد نور ہدایت اور معرفت الہٰی کو قرار دیتے ہیں کہ جو مومنین کے قلوب میں ضوفشاں ہے۔ بعض مفسرین اس تشبیہہ کو پیغمبر اکرمؐ کی جانب اشارہ سمجھتے ہیں اور بعض اسے اطاعت و تقویٰ کی روح کی طرف پلٹاتے ہیں کہ جو مایہ خیر و سعادت ہے۔[16]
علامہ طباطبائی اس آیت کا مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کافروں کی بجائے کمال ایمان رکھنے والوں کو اپنے نور کی طرف ہدایت کرتا ہے۔ البتہ اس آیت سے مقصود یہ نہیں ہے کہ بعض کو اپنے نور کی طرف ہدایت کرے اور بعض کو محروم رکھے۔[17]

انطباق آیہ

بعض تفسیروں میں روایات سے استناد کرتے ہوئے آیۂ نور کو پیغمبر اکرمؐ کی اہل بیتؑ پر منطبق گیا ہے۔ ان تفسیروں میں مشکات کا اطلاق حضرت محمدؐ کے دل یا حضرت زہراؑ پر، زجاجہ کا امام علیؑ اور ان کے قلب پر اور نور علی نور کا اطلاق یکیے بعد دیگرے آنے والے آئمہ شیعہ پر کیا گیا ہے۔[18]
صدوق اپنی کتاب توحید میں امام صادقؑ سے ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ اللہ تعالی نے آیہ نور کو اہل بیت کی طرف اشارہ کرنے کے لیے ایک مثال قرار دیا ہے۔اس روایت میں پیغمبر اکرمؐ اور ائمہؑ کا تعارف آیات و ادلہ کی روشنی میں ہے۔ وہ آیات جن کے ذریعے لوگوں کی توحید، دین کی مصلحت، اسلامی شریعت اور واجبات الہٰی کی طرف رہنمائی ہوتی ہے۔[19] علامہ طباطبائی کے نزدیک یہ روایت تفسیر بیان نہیں کر رہی بلکہ بعض مصادیق کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ جو افضل ترین ہیں یعنی رسول خدا اور اہل بیتؑ؛ ورنہ آیۂ شریفہ اہل بیتؑ کے علاوہ باقی انبیاء، اوصیاء اور اولیاء کو بھی شامل ہے۔[20]

مونوگرافی

آیۂ نور کی تفسیر اور تشریح میں بعض کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں سے تفسیر آیۂ نور تالیف: ملاصدرا شیرازی اور مشکاة الانوار تالیف: غزالی اہم کتابیں ہیں۔

حوالہ جات

  1. علامہ طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1390ھ، ج15، ص121؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371شمسی، ج14، ص470۔
  2. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371شمسی، ج14، ص470۔
  3. علامہ طباطبائی، المیزان، 1390ھ، ج15، ص120۔
  4. علامہ طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1390ھ، ج15، ص122۔
  5. طبرانی، تفسير القرآن العظيم‏، 2008م، ج4، ص433؛ بحرانی،‌ البرہان‏، 1374شمسی، ج4، ص66۔
  6. فحر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج23، ص379۔
  7. علامہ طباطبائی، المیزان، 1390ھ، ج15، ص122-123۔
  8. سورہ مائدہ، آیہ 15؛ سورہ اعراف، آیہ 157۔
  9. سورہ بقرہ، آیہ 257۔
  10. سورہ انعام، آیہ 122۔
  11. سورہ احزاب، آیہ 46۔
  12. صدوق، من لا يحضرہ الفقيہ‏، 1413ھ، ج2، ص613، 615۔
  13. ابن حیون، دعائم الإسلام‏، 1385ھ، ج1، ص419۔
  14. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371شمسی، ج14، ص471-472۔
  15. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371شمسی، ج14، ص475-476۔
  16. طبرسی، مجمع البیان، 1372شمسی، ج7، ص225-227؛ فحر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج23، ص386-387۔
  17. علامہ طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1390ھ، ج15، ص126۔
  18. حویزی، نورالثقلین، 1415ھ، ج3، ص603؛ مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج23، ص306۔
  19. صدوق، التوحید، 1398ھ، ص157۔
  20. علامہ طباطبائی، المیزان فی تفیسر القرآن، 1390ھ، ج15، ص141۔

مآخذ

  • ابن حيون، نعمان بن محمد مغربى‏، دعائم الاسلام، مصحح آصف‏ فيضى، قم، مؤسسة آل البيت عليھم السلام‏، 1385ھ۔
  • بحرانى، سيد ہاشم بن سليمان‏، البرہان في تفسير القرآن‏، قم، مؤسسہ بعثہ‏، 1374شمسی۔
  • حويزى، عبدعلى بن جمعہ‏، تفسیر نور الثقلین، مصححہ هاشم‏ رسولى، قم، اسماعیلیان، 1415ھ۔
  • صدوق، محمد بن علی، التوحید، مصحح ہاشم‏ حسينى، قم، جامعہ مدرسین، 1398ھ۔
  • صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، مصحح على اكبر غفارى، قم، انتشارات اسلامی، 1413ھ۔
  • طباطبائی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار احیا التراث العربی، 1390ھ۔
  • طبرانى، سليمان بن احمد، تفسير القرآن العظيم‏، اردن، دار الكتاب الثقافی، 2008ء۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البيان في تفسير القرآن‏، تہران، ناصر خسرو، 1372شمسی۔
  • فحر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر، بیروت، دار إحياء التراث العربی، 1420ھ۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، دار إحياء التراث العربی، 1403ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1371شمسی۔