شیعہ فرقے

ویکی شیعہ سے

شیعہ فرقے ان فرقوں کو کہا جاتا ہے جو امام علیؑ کی بلافصل امامت کو ماننے کے باوجود، ائمہؑ کی تعداد کی طرح کے بعض عقائد میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ امامیہ، زیدیہ اور اسماعیلیہ شیعوں فرقوں میں اہم اور موجود زندہ فرقے شمار ہوتے ہیں۔ بعض مآخذ میں کیسانیه، فَطَحیہ، واقفیہ، ناووسیہ اور غالیوں کے گروہ کو شیعوں کے معدوم فرقوں میں شمار کیا ہے۔

امام کے تعیین اور جانشین کے انتخاب میں اختلاف، عقیدے میں غلو کا دخول اور مہدی موعود کے مصداق کے تعین میں انحراف کو شیعہ فرقوں کے وجود میں آنے کا سبب قرار دئے ہیں۔

آبادی کے اعتبار سے امامیہ کی تعداد شیعہ فرقوں میں سب سے زیادہ سمجھی جاتی ہے جو زیادہ تر پاکستان، ایران، عراق اور لبنان جیسے ممالک میں مقیم ہیں۔ شیعہ فرقوں کے بارے میں مختلف کتابیں تالیف ہوئی ہیں جن میں حسن بن موسی نوبختی کی کتاب فِرَق الشیعہ اس موضوع پر سب سے قدیمی کتابوں میں شمار ہوتی ہے۔

اہمیت

شیعہ فرقے، مذہب شیعہ (اسلام کے دو بڑے مذہب میں سے ایک) سے بننے والے ان فرقوں کی طرف اشارہ ہے جو سب حضرت علیؑ کی امامت پر عقیدہ رکھتے ہیں۔[1] شیعہ فرقوں کی بحث ابتدائی صدیوں سے ہوتی تھی؛ اور حسین بن موسی نوبختی کی تیسری اور چوتھی صدی میں لکھی جانے والی کتاب کتاب فِرَق الشیعہ اسی موضوع کے بارے میں ہے۔ آج کل (پندرہویں صدی ہجری) بعض یونیورسٹیوں میں تشیع کے فرقوں کا شعبہ قائم ہوا ہے۔[2]

ابتدائی شاخیں

شیعہ مفسر اور فسفی سید محمد حسین طباطبایی اپنی کتاب اسلام میں شیعہ میں لکھتے ہیں کہ شیعوں میں پہلی تقسیم امام حسین(ع) (شہادت: 61ھ) کی شہادت کے بعد ہوگئی؛ اور شیعوں کی اکثریت نے امام سجادؑ کی امامت کو مان لیا لیکن بعض لوگ جو کیسانیہ کے نام سے مشہور ہیں نے امام علیؑ کے بیٹے محمد بن حَنفیہ کو امام مان لیا۔[3] اس کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ امام رضا علیہ السلام کے دور سے لے کر امام مہدیؑ کے دور تک کوئی اہم تقسیم بندی نہیں ہوئی تھی اور اگر تقسیم کی صورت میں کوئی واقعات ہوئے بھی تو وہ چند دنوں سے زیادہ نہیں ہوتے تھے اور خود سے ختم ہوجاتے تھے۔[4] البتہ بعض کے نزدیک شیعوں میں پہلا گروہ عثمان کی خلافت کے آخر اور امام علی علیہ السلام کی خلافت کے آغاز میں عبد اللہ بن سبا کے ذریعہ سبائیہ کے نام سے ایجاد ہوا ہے۔[5]

فرقوں کی تعداد

شیعہ فرقوں کے بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔ فرہنگ شیعہ نامی کتاب میں شیعہ فرقوں کی تعداد کو 100 تک شمار کیا ہے جن میں سے مشہور فرقے: امامیہ، کیسانیہ، زیدیہ، اسماعیلیہ، فطحیہ اور غالی ہیں۔[6] چوتھی صدی ہجری کے شافعی فقیہ ابو الحسین ملطی اپنی کتاب «التنبیہ و الرد علی أہل الہواء و البدع» مین شیعہ فرقوں کی تعداد 18 بیان کیا ہے۔[7] شافعی فقیہ و متکلم عبد القاہر بغدادی (متوفی: 429ھ) اپنی کتاب «الفَرق بین» میں شیعوں کے بنیادی فرقوں میں امامیہ، کیسانیہ اور زیدیہ تینوں کو ذکر کرتے ہیں۔[8] شہرستانی (متوفی: 548ھ) الملل و النحل میں امامیہ، زیدیہ، کیسانیہ، اسماعیلیہ اور غلات پانچ فرقوں کو بیان کیا ہے[9] اور علامہ طباطبایی (متوفی: 1402ھ) نے اپنی کتاب اسلام میں شیعہ میں تین فرقوں (امامیہ، اسماعیلیہ اور زیدیہ) کو شیعوں کے اصلی فرقے قرار دیا ہے۔[10]

مذاہب وجود میں آنے کے عوامل

شیعہ مذہب میں مختلف فرقوں کی تشکیل میں مختلف عوامل کارفرما رہے ہیں جن میں سے اہم درج ذیل ہیں:

  • امامت: رسول جعفریان کے مطابق، امامت کا مسئلہ اور امام کی جانشینی اور تقرری کا تنازعہ شیعوں میں مختلف فرقوں کے ظہور کا پہلا سبب تھا۔[11] مثال کے طور پر کسانیہ شیعہ کے ان فرقوں میں سے ہے جو امام علیؑ کی شہادت کے بعد یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ ان کے بعد امام حسن مجتبیؑ امام نہیں بلکہ محمد ابن حنفیہ ہیں۔[12]
  • غلو کے عقیدے کی مضبوطی: امام علیؑ اور دیگر ائمہ معصومینؑ کی زندگی میں بلکہ ان کی وفات کے بعد بھی بعض شیعوں نے ان کو خدا کی نظر سے دیکھا اور ان کی طرف غلو والی صفات منسوب کیں۔ اور اسی وجہ سے شیعوں کی تاریخ میں مختلف غالی مذاہب وجود میں آئے اور فرقہ نویسوں نے ان فرقوں کو شیعہ کی طرف منسوب کیا۔[13] مثال کے طور پر سبائیہ فرقہ، غالی فرقوں میں سے ایک اور عبداللہ بن سبا کے پیروکاروں کا عقیدہ تھا کہ امام علی علیہ السلام نہ تو وفات پائے ہیں اور نہ ہی وفات پائیں گے، بلکہ ایک دن آئیں گے اور زمین پر ظلم جور پھیلنے کے بعد عدل و انصاف کو پھیلائیں گے۔[14]
  • مہدی موعود کے مصداق کی تعیین میں انحراف بھی پہلی تین صدیوں کے دوران شیعوں میں مختلف فرقوں کی تخلیق کے دوسرے عوامل میں سے ایک تھا۔[15]

موجود فرقے

امامیہ، زیدیہ اور اسماعیلیہ کو شیعوں کے موجودہ مشہور فرقوں میں شمار کیا جاتا ہے:[16]

امامیہ

سانچہ:اصلی امامیہ کا عقیدہ ہے کہ پیغمبر اکرمؐ کی وفات کے بعد امام علیؑ خدا کی طرف سے امامت پر فائز ہوئے اور پیغمبر اکرمؐ کے بلافصل خلیفہ اور جانشین ہوئے اور ان کے بعد امام حسنؑ اور پھر امام حسینؑ امامت ہوئے اور ان کے بعد ان کی اولاد میں سے نو فرزند یعنی امام سجادؑ، امام باقرؑ، امام صادقؑ، امام کاظمؑ، امام رضاؑ، امام جوادؑ، امام ہادیؑ، امام حسن عسکریؑ اور امام مہدی علیہ السلام امامت کے منصب پر فائز ہوئے ہیں۔[17]

امامیہ کے نزدیک بارہویں امام یعنی امام مہدی، وہی قائم اور (منجی) نجات دہندہ ہیں جو غیب کے پردے میں ہیں اور آخر وقت میں ظاہر ہوں گے۔[18] امامیہ امام کی عصمت کو واجب سمجھتے ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ تمام ائمہؑ معصوم ہیں۔[19] ان کے نزدیک ائمہ قرآن اور سنت رسول کے حقیقی مفسر ہیں۔[20]

اسماعیلیہ

سانچہ:اصلی تہران یونیورسٹی کے مؤرخ اور پروفیسر محمد جواد مشکور (وفات: 1374) کی کتاب «فرہنگ فِرَق اسلامی» کے مطابق، اسماعیلیہ، ان فرقوں کا عمومی نام ہے جو امام صادقؑ کے بعد آپ کے بڑے بیٹے اسماعیل بن امام جعفر صادق یا آپ کے پوتے محمد بن اسماعیل کو مانتے ہیں۔[21] شروع میں اسماعیلیوں کو دو گروہوں میں تقسیم کیا گیا: خاص اسماعیلی اور عام اسماعیلی۔[22] خاص اسماعیلیوں کا یہ عقیدہ تھا کہ اسماعیل اپنے والد کے دور میں ایک امام تھے اور غائب ہو گئے، اور وہ شیعوں کے ساتویں امام ہیں۔ عام اسماعیلیوں کا خیال تھا کہ اسماعیل اپنے والد کے زمانے میں فوت ہو گئے تھے اور اپنی موت سے پہلے اپنے بیٹے محمد کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا۔[23] علامہ طباطبائی اپنی کتاب "اسلام میں شیعہ" میں کہتے ہیں کہ یہ دونوں گروہ کچھ عرصے کے بعد معدوم ہو گئے اور ایک اور گروہ وجود میں آیا جن کا یہ عقیدہ تھا کہ اسماعیل اپنے والد کے زمانے میں امام تھے اور ان کے بعد امامت ان کے بیٹے محمد بن اسماعیل اور پھر ان کی اولاد کو منتقل ہوئی اور ابھی تک باقی ہے اور اب بھی ان کے پیروکار ہیں۔[24]

کہا جاتا ہے کہ امامیہ کے بعد اسماعیلیہ کے پیروکاروں کی تعداد سب سے زیادہ ہے، اور تاریخ میں مختلف شاخوں میں بٹتی رہی ہے اور ایشیا، افریقہ، یورپ اور شمالی امریکہ کے 25 سے زائد ممالک میں پھیلی ہوئی ہے۔[25]

زیدیہ

سانچہ:اصلی زید بن علی کے پیروکار اور ان کی امامت کو ماننے والوں کو زیدیہ کہا جاتا ہے۔[26] کہا جاتا ہے کہ وہ زید بن علی کو پانچویں امام مانتے ہیں۔[27] شیخ مفید (متوفی: 413ھ) اوائل المقالات میں کہتے ہیں کہ وہ لوگ امام علی، امام حسن اور امام حسین کی امامت اور ان کے بعد زید بن علی کی امامت پر عقیدہ رکھتے ہیں۔[28] زیدیوں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ امام کو حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی نسل سے ہونا چاہیے اور اس لیے حضرت فاطمہ کی نسل میں سے جو کوئی بھی صاحب علم، بہادر اور سخی ہو اور حق کے لیے قیام اور خروج کرے تو وہی امام ہے۔[29]

زیدیہ ائمہ کی عصمت اور رجعت پر یقین نہیں رکھتے اور امامیہ کے برعکس جو امام علی علیہ السلام کی جانشینی کے لیے نص جلی کے قائل ہیں، ان لوگوں کا کہنا ہے پیغمبر اکرمؐ نے امام علیؑ کی امامت پر جو نص بیان کیا تھا وہ نص خفی تھا اور امام علیؑ نے بعض مصلحتوں کی بنا پر بعض مخصوص اصحاب کو بیان کیا تھا۔[30]

اگرچہ زیدی امام علی کو پیغمبر اکرمؐ کا بلافصل جانشین مانتے ہیں لیکن وہ امام علی سے پہلے تینوں خلفاء کی خلافت کو بھی صحیح اور جائز سمجھتے ہیں۔[31] محمد جواد مشکور نے زیدیہ سے نکلنے والے 16 فرقوں کو اپنی کتاب میں بیان کیا ہے۔[32] جارودیہ، سلیمانیہ (سلیمان بن جریر کے پیروکار) اور بُتریہ (حسن بن صالح بن حیّ کے پیروکار) یہ تین فرقے زیدیہ کے مشہور فرقے شمار ہوتے ہیں۔[33]

معدوم فرقے

چند اہم شیعہ فرقے جو ماضی میں موجود تھے اور پھر معدوم ہو گئے وہ درج ذیل ہیں:

  • کیسانیہ: شیعوں کا ایک گروہ تھا جو محمد بن حَنَفیہ کی امامت پر یقین رکھتا تھا۔[34] شہرستانی نے الملل و النحل میں کہا ہے کہ محمد بن حنفیہ کے بعد ان کے پیروکاروں میں اختلاف وجود میں آیا۔[35] کچھ لوگوں کا عقیدہ تھا کہ محمد بن حنفیہ نہیں مرے ہیں اور وہ دوبارہ واپس آئیں گے اور زمین میں عدل و انصاف کو پھیلائیں گے۔[36] دوسروں کا کہنا ہے کہ ان کا انتقال ہوگیا اور امامت ان سے ان کے بیٹے اابو ہاشم کو منتقل ہوگئی۔[37] محمد جواد مشکور کے مطابق، کسانیہ کا فرقہ محمد بن حنفیہ کے بعد بارہ گروہوں میں تقسیم ہو گیا ہے[38] جن میں سے سبھی محمد بن حنفیہ کی امامت میں عقیدہ رکھتے تھے۔[39] کسانیہ کے کچھ فرقے جنہیں غالی فرقے کہا جاتا ہے، ان میں ہاشمیہ،[40] کَرُبیہ،[41] حَمْزیہ،[42] بیانیہ،[43] حَربیہ[44] شامل ہیں۔
  • فطحیہ: شیعوں کا ایک گروہ جو امام صادق علیہ السلام کے بعد ان کے بیٹے عبداللہ افطح کی امامت پر یقین رکھتا تھا۔[45] شہرستانی کا کہنا ہے کہ عبداللہ امام صادق علیہ السلام کی شہادت کے ستر دن بعد انتقال کر گئے، ان کے پیچھے کوئی اولاد نہیں رہی۔[46] اس کے نتیجے میں عبد اللہ افطح کی امامت کا عقیدہ بھی ختم ہو گیا اور ان کے اکثر پیروکار امام کاظم علیہ السلام کی امامت پر ایمان لے آئے۔[47]
  • ناووسیہ: شیعوں کا ایک فرقہ جو امام صادقؑ کے زندہ ہونے پر یقین رکھتا تھا اور اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ وہ مہدی موعود ہیں جو آخری وقت میں ظہور کریں گے۔[48] کہا جاتا ہے کہ ناووسیہ اہل بصرہ میں سے عجلان بن ناووس نامی شخص کے پیروکار تھے۔[49]
  • واقفیہ: شیعوں کا ایک گروہ تھا جنہوں نے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی امامت پر رک گئے اور ان کے بیٹے امام رضا علیہ السلام کی امامت کا انکار کیا۔[50] رجال کشی کے مطابق جب امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو قید کیا گیا تو ان کے بعض اصحاب کے پاس کچھ مالِ امام تھا جسے ان لوگوں نے اپنے اختیار میں لیا اور جب امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی شہادت کی خبر ان تک پہنچی تو ان کی شہادت اور ان کے بیٹے امام رضا کی امامت سے انکار کیا اور یہی پر رک گئے۔ اسی لئے ان کے پیروکاروں کو واقفیہ کہتے ہیں۔[51]

غالی فرقے

سانچہ:اصلی غالی وہ لوگ تھے جنہوں نے امام علیؑ اور ان کے بچوں کی طرف الوہیت یا نبوت منسوب کی اور ان کو بیان کرنے میں افراط سے کام لیا۔ref>شیخ مفید، تصحیح الاعتقادات، 1414ھ، ص131.</ref> فرقہ شناسی کی کتابوں میں غالی فرقوں کی تعداد کے بارے میں اختلاف رائے پائی جاتی ہے، غالی فرقوں کی سب سے کم تعداد نو فرقے اور سب سے زیادہ تعداد ایک سو بتائی گئی ہے۔[52] شیعہ سے منسوب غالی فرقوں میں سے کچھ مشہور لیکن معدوم فرقوں میں سبائیہ (عبداللہ بن سبا کے پیروکار)، بیانیہ، خطابیہ، بشیریہ، مُفَوِّضہ اور مغیریہ شامل ہیں۔[53]

علی‌ اللہی یا اہل الحق دیگر غالی شیعہ فرقوں میں سے ہیں، جن میں سے کچھ پیروکار اس وقت ایران کے کچھ حصوں میں رہ رہے ہیں۔[54] کہا جاتا ہے کہ ان کا عقیدہ ہے کہ خدا نے خفیہ طور پر انبیاء کو بتایا کہ یہ نبوت ہے اور یہ حضرت آدم کے زمانے سے لے کر حضرت محمدؐ تک اور ان کے بعد امام علی تک اور پھر ان کے بعد بارہویں امام تک جاری رہی۔[55][56] بارہویں امام کی غیبت کے بعد، یہ راز (امامت) ان کے پیروکاروں اور اقطاب (قطب کی جمع) کو کہا جاتا ہے جو یکے بعد دیگرے آتے ہیں۔[56]

غیبت صغرا میں منحرف گروہ

نوبختی نے فرق الشیعہ میں 14 ایسے شیعہ گروہ کا ذکر کیا ہے جو امام حسن عسکری علیہ السلام کی وفات کے بعد وجود میں آئے اور ان کے بعد امام اور مہدی موعود کا مصداق معین کرنے میں انحراف کا شکار ہوئے۔[57] مثال کے طور پر ایک گروہ نے کہا کہ امام حسن عسکری علیہ السلام فوت نہیں ہوئے اور آپ وہی مہدی قائم ہیں۔[58] بعض نے یہ بھی کہا کہ امام حسن عسکری علیہ السلام کا انتقال ہو گیا لیکن ان کی کوئی اولاد نہ ہونے کی وجہ سے ان کی وفات کے بعد دوبارہ زندگی شروع ہو گئی اور آپ وہی مہدی قائم ہیں۔[59] ایک اور گروہ نے امام حسن عسکری علیہ السلام کی وفات کے بعد ان کے بیٹے حضرت مہدی علیہ السلام کی امامت کا انکار کیا اور کہا کہ امام حسن عسکری علیہ السلام کے بعد ان کے بھائی جعفرامام بنے۔[60] الفصول المختارہ میں شیخ مفید نوبختی سے نقل کرتے ہیں کہ ان 14 فرقوں میں امامیہ کے علاوہ سارے فرقے معدوم ہوگئے ہیں۔[61]

اس کے علاوہ، حسن شریعی، محمد بن نصیر نُمیَری، احمد بن ہلال عَبَرتایی اور کچھ دوسرے شیعہ لوگ جنہوں نے بابیت کا دعوا کیا اور امام مہدی کے نمائندے ہونے کا دعوا کیا اور بعض گروہ تشکیل دیا لیکن سب ختم ہوئے۔[62]

آبادی اور جغرافیائی تقسیم

کتاب "ورلڈ مسلم پاپولیشن میپ" (تالیف: 1393 شمسی) کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں شیعوں کی آبادی (امامیہ، اسماعیلیہ اور زیدیہ) کا تخمینہ 300 ملین سے زیادہ ہے جو کہ کل مسلم آبادی کا پانچواں حصہ ہے۔[63]بی بی سی فارس نیوز ایجنسی کے مطابق 2014ء میں اسماعیلی شیعوں کی آبادی کا تخمینہ 15 ملین ہے جو کہ دنیا کے شیعوں کی کل آبادی کا دس فیصد سے بھی کم ہیں اور ان میں سے زیادہ تر بھارت، پاکستان، افغانستان، تاجیکستان اور تقریباً 30 ہزار لوگ ایران کے خراسان، کرمان اور مرکزی صوبوں میں رہتے ہیں۔[64] انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا میں، اندراج "شیعہ" مقالے کے مطابق اسماعیلہ کی شاخ نزاریہ کی آبادی ہی 5 سے 15 میلین تک بتائی گئی ہے۔[65]

کہا جاتا ہے کہ موجودہ شیعہ فرقوں میں زیدیہ سب سے کم آبادی والا فرقہ ہے اور ان میں سے زیادہ تر اب (پندرہویں صدی ہجری) یمن میں رہتے ہیں اور تقریبا اس ملک کی نصف آبادی تشکیل دیتے ہیں۔[66] ان میں سے کچھ سعودی عرب کے جنوب میں واقع علاقے نجران میں بھی رہتے ہیں۔[67] موجودہ شیعہ فرقوں میں، امامیہ کے پیروکاروں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔[68] اور ان میں سے زیادہ تر ایران، عراق، پاکستان اور لبنان جیسے ممالک میں رہتے ہیں۔[69]

کتاب‌شناسی

شیعہ فرقوں کے بارے میں لکھی جانے والی بعض کتابیں درج ذیل ہیں:

  • کتاب فِرَق الشیعہ تالیف: حسن بن موسی نوبختی. یہ کتاب تیسری صدی ہجری کے آخر تک کے شیعہ فرقوں کی شناخت کے مصادر میں سے ہے۔ اس کتاب میں شیعہ فرقوں کے تعارف کے علاوہ بعض دیگر اسلامی فرقوں کے بارے میں بھی تفصیلی گفتگو کی گئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کتاب کا مؤلف کا غیبت صغریٰ کے دور کا ہونا اور اس دور میں شیعوں میں فرقوں کا وجود میں آنے کی وجہ سے اس تصنیف کو اس میدان میں پہلی تالیف سمجھا جاتا ہے۔[70]
  • مہدی فرمانیان کی تحریر کردہ کتاب "آشنایی با فرق تشیع"۔ یہ کتاب ایک دیباچہ اور بیس اسباق پر مشتمل ہے جس میں شیعہ فرقوں کا تعارف کیا گیا ہے اور اسے نصاب کی کتاب کے طور پر مرتب کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ کتاب کے آخر میں "شیعہ فرقے اور شیعہ مذہب کی انحرافی شاخیں" اور "مشہور کتب ملل و نحل کے مطابق شیعہ فرقے" کے عنوانات کے ساتھ دو مباحث منسلک کیے گئے ہیں۔[71]

حوالہ جات

  1. فرمانیان، آشنایی با فرق شیعہ، 1387شمسی، ص21-22۔
  2. «گروه تاریخ و فرق تشیع»، دانشگاہ ادیان و مذاہب۔
  3. طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1388شمسی، ص60۔
  4. طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1388شمسی، ص61۔
  5. فضایی، «مقدمہ»، در تاریخ عقاید و مذاہب شیعہ، 1353شمسی، ص9۔
  6. خطیبی کوشک و دیگران، فرہنگ شیعہ، 1386شمسی، ص358۔
  7. ملطی، التنبیہ و الرد، 1413ھ، ص16۔
  8. بغدادی، الفرق بین الفرق، دار الجیل، ص38۔
  9. شہرستانی، الملل و النحل، 1364شمسی، ج1، ص170۔
  10. طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1388شمسی، ص61-62۔
  11. جعفریان، اطلس شیعہ، 1387شمسی، ص19۔
  12. نوبختی، فرق الشیعة، دار الاضواء، ص23۔
  13. جعفریان، اطلس شیعہ، 1387شمسی، ص19۔
  14. نوبختی، فرق الشیعة، دار الاضواء، ص22۔
  15. جعفریان، اطلس شیعہ، 1387شمسی، ص19۔
  16. طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1388شمسی، ص61؛ امین، فرہنگنامہ فرقہ‌ہای اسلامی، 1378شمسی، ص25۔
  17. شیخ صدوق، الاعتقادات، 1414ھ، ص93؛ علامہ حلی، کشف المراد، 1413ھ، ص397۔
  18. شیخ صدوق، الاعتقادات، 1414ھ، ص122؛ فاضل مقداد، ارشاد الطالبین، 1405ھ، ص377۔
  19. علامہ حلی، کشف المراد، 1413ھ، ص364؛ فاضل مقداد، ارشاد الطالبین، 1405ھ، ص332 و 374-375۔
  20. ملاحظہ کریں: کاشف‌الغطاء، کشف الغطاء عن مبہمات الشریعة الغراء، 1420ھ، ج1، ص64۔
  21. مشکور، فرہنگ فرق اسلامی، 1375شمسی، ص47۔
  22. مشکور، فرہنگ فرق اسلامی، 1375شمسی، ص48۔
  23. نوبختی، فرق الشیعہ، دار الاضواء، ص67-68؛ مشکور، فرہنگ فرق اسلامی، 1375شمسی، ص48۔
  24. طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1388شمسی، ص63۔
  25. دفتری، تاریخ و عقاید اسماعیلیہ، 1386شمسی، ص11۔
  26. نوبختی، فرق الشیعہ، دار الاضواء، ص58؛ شہرستانی، الملل و النحل، 1364شمسی، ج1، ص179۔
  27. طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1388شمسی، ص62۔
  28. شیخ مفید، اوائل المقالات، انتشارات دانشگاہ تہران، ص39۔
  29. شیخ مفید، اوائل المقالات، انتشارات دانشگاہ تہران، ص39؛ شہرستانی، الملل و النحل، 1364شمسی، ج1، ص179۔
  30. مشکور، فرہنگ فرق اسلامی، 1375شمسی، ص215۔
  31. حمیدالدین، الزیدیة، 1424ھ، ص96؛ مشکور، فرہنگ فرق اسلامی، 1375شمسی، ص216۔
  32. مشکور، فرہنگ فرق اسلامی، ص216۔
  33. شہرستانی، الملل و النحل، 1364شمسی، ج1، ص183۔
  34. نوبختی، فرق الشیعہ، انتشارات دار الاضواء، ص23۔
  35. شہرستانی، الملل و النحل، 1364شمسی، ج1، ص37۔
  36. شہرستانی، الملل و النحل، 1364شمسی، ج1، ص37۔
  37. شہرستانی، الملل و النحل، 1364شمسی، ج1، ص37۔
  38. مشکور، فرہنگ فرق اسلامی، 1375شمسی، ص375۔
  39. بغدادی، الفرق بین الفرق، 1977م، ص27۔
  40. نوبختی، فرق الشیعہ، انتشارات دار الاضواء، ص30-31؛ اشعری، مقالات الاسلامیین، 1400ھ، ص20۔
  41. خوارزمی، مفاتیح العلوم، دار الکتاب العربی، ص49؛ نوبختی، فرق الشیعہ، انتشارات دار الاضواء، ص27۔
  42. اشعری قمی، المقالات و الفرق، 1361شمسی، ص56۔
  43. نوبختی، فرق الشیعہ، انتشارات دار الاضواء، ص34؛ بغدادی، الفرق بین الفرق، 1977م، ص28؛ مقریزی، المواعظ و الاعتبار، 1418ھ، ج4، ص182۔
  44. اشعری، المقالات و الفرق، 1361شمسی، ص28؛ اشعری، مقالات الاسلامیین، 1400ھ، ص22۔
  45. شہرستانی، الملل و النحل، 1364شمسی، ج1، ص195-196۔
  46. شہرستانی، الملل و النحل، 1364شمسی، ج 1، ص169۔
  47. شیخ طوسی، اختیار معرفہ الرجال، 1409ھ، ج 2، ص161۔
  48. نوبختی، فرق الشیعہ، دار الاضواء، ص67؛ شہرستانی، الملل و النحل، 1364شمسی، ج1، ص197۔
  49. سبحانی، بحوث فی الملل و النحل، 1427ھ، ج7، ص52۔
  50. سبحانی، بحوث فی الملل و النحل، 1427ھ، ج8، ص379۔
  51. شیخ طوسی، اختیار معرفة الرجال، 1409ھ، ج1، ص493۔
  52. ملاحظہ کریں: صفری فروشانی، غالیان (چاوشی در جریان‌ہا و برآیندہا)، 1378شمسی، ص61-62۔
  53. ملاحظہ کریں: اشعری، مقالات الاسلامیین، 1400ھ، ص15؛ شہرستانی، الملل و النحل، 1364شمسی، ج1، ص210؛ نوبختی، فرق الشیعة، انتشارات دار الاضواء، ص63 و 83۔
  54. مشکور، فرہنگ فرق اسلامی، 1375شمسی، ص78۔
  55. مشکور، فرہنگ فرق اسلامی، 1375شمسی، ص78-79۔
  56. مشکور، فرہنگ فرق اسلامی، 1375شمسی، ص78-79۔
  57. نوبختی، فرق الشیعة، دار الاضواء، ص96۔
  58. نوبختی، فرق الشیعة، دار الاضواء، ص96۔
  59. نوبختی، فرق الشیعة، دار الاضواء، ص97۔
  60. نوبختی، فرق الشیعة، دار الاضواء، ص98۔
  61. شیخ مفید، الفصول المختارہ، 1413ھ، ص321۔
  62. ملاحظہ کریں: شیخ طوسی، الغیبة، 1411ھ، ص398-399؛ صفری فروشانی، غالیان (جریان‌ہا و برآیندہا)، 1378شمسی، ص133-136۔
  63. تقی‌زادہ داوری، نقشہ جمعیت مسلمانان جہان، 1393شمسی، ص11۔
  64. «شیعیان اسماعیلی ایران؛ اقلیتی بہ دور از جنجال»، سایت خبرگزاری بی بی سی فارسی.
  65. Newman, Shiʿi, Britannica.
  66. فرمانیان، آشنایی با فرق تشیع، 1387شمسی، ص101۔
  67. فرمانیان، آشنایی با فرق تشیع، 1387شمسی، ص101۔
  68. طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1388شمسی، ص67۔
  69. Newman, Shiʿi, Britannica.
  70. مشکور، «پیشگفتار»، در کتاب ترجمہ فرق الشیعہ، 1353شمسی، ص9-10۔
  71. فرمانیان، آشنایی با فرق تشیع، 1387شمسی، ص7-16۔

مآخذ

  • فضایی، یوسف، «مقدمہ، در تاریخ عقاید و مذاہب شیعہ، تہران، مؤسسہ انتشارات عطایی، 1371ہجری شمسی۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، شیعہ در اسلام، قم، بوستان کتاب، چاپ پنجم، 1388ہجری شمسی۔
  • خطیبی کوشک، محمد و دیگران، فرہنگ شیعہ، قم، زمزم ہدایت، 1386ہجری شمسی۔
  • ملطی شافعی، محمد بن احمد، التنبیہ و الرد، قاہرہ، مکتبة مدبولی، 1413ھ۔
  • شہرستانی، محمد بن عبدالکریم، الملل و النحل، قم، الشریف الرضی، چاپ سوم، 1364ہجری شمسی۔
  • جعفریان، رسول، اطلس شیعہ، تہران، انتشارات سازمان جغرافیایی نیروہای مسلح، چاپ اول، 1387ہجری شمسی۔
  • نوبختی، حسن بن موسی، فرق الشیعہ، بیروت، انتشارات دار الاضواء، بی‌تا.
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، الفصول المختارة، قم، كنگرہ شیخ مفید، چاپ اول، 1413ھ۔
  • امین، شریف‌یحیی، فرہنگ‌نامہ فرقہ‌ہای اسلامی، ترجمہ محمدرضا موحدی، تہران، انتشارات باز، 1378ہجری شمسی۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، الاعتقادات، قم، کنگرہ شیخ مفید، چاپ دوم، 1414ھ۔
  • علامہ حلی، یوسف بن مطہر، کشف المراد، قم، مؤسسہ نشر اسلامی، 1413ھ۔
  • فاضل مقداد، مقداد بن عبداللہ، ارشاد الطالبین الی نہج المسترشدین، قم، کتابخانہ عمومی آیت‌اللہ‌مرعشی نجفی، 1405ھ۔
  • کاشف‌الغطاء، جعفر، کشف الغطاء عن مبہمات الشریعة الغراء، قم، دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم، 1420ھ۔
  • مشکور، محمدجواد، فرہنگ فرق اسلامی، مشہد، آستان قدس رضوی، 1375ہجری شمسی۔
  • دفتری، فرہاد، تاریخ و عقاید اسماعیلیہ، ترجمہ فریدون بدرہ‌ای، فرزان روز، تہران، 1375ہجری شمسی۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، اوائل المقالات فی المذاہب و المختارات، تہران، انتشارات دانشگاہ تہران، بی‌تا.
  • حمیدالدین، عبداللہ بن محمد، الزیدیة، صنعا، مرکز الرائد للدراسات و البحوث، 1424ھ۔
  • بغدادی، عبدالقاہر، الفرق بین الفرق، مصر، مکتبة و مطبعة محمدعلی صبیح و اولادہ، 1977م.
  • خوارزمی، محمد بن احمد بن یوسف، مفاتیح العلوم، بیروت، دار الکتاب العربی، بی‌تا.
  • اشعری قمی، سعد بن عبداللہ، المقالات و الفرق، تہران، شرکت انتشارات علمی و فرہنگی، 1361ہجری شمسی۔
  • مقریزی، تقی الدین، المواعظ و الإعتبار فی ذكر الخطط و الآثار، بیروت، دار الکتب العلمیة، 1418ھ۔
  • اشعری، ابوالحسن، مقالات الاسلامیین و اختلاف المصلین، آلمان، فرانتس شتاینر، 1400ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، اختیار معرفة الرجال، مشہد، مؤسسہ نشر دانشگاہ مشہد، چاپ اول، 1409ھ۔
  • سبحانی، جعفر، بحوث فی الملل و النحل، قم، مؤسسة الإمام الصادق(ع)، 1427ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، تصحیح الاعتقادات، قم، کنگرہ شیخ مفید، چاپ دوم، 1414ھ۔
  • صفری فروشانی، نعمت‌اللہ، غالیان (کاوشی در جریان‌ہا و برآیندہا)، مشہد، آستان قدس رضوی، 1378ہجری شمسی۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، کتاب الغیبة، تصحیح عباداللہ تہرانی و علی‌احمد ناصح، قم، دار المعارف الإسلامیة، 1411ھ۔
  • تقی‌زادہ داوری، محمود، نقشہ جمعیت مسلمانان جہان، قم، شیعہ‌شناسی، 1393ہجری شمسی۔
  • «شیعیان اسماعیلی ایران؛ اقلیتی بہ دور از جنجال»، سایت خبرگزاری بی بی سی فارسی، تاریخ درج مطلب: 29 اردیبہشت 1394شمسی، تاریخ بازدید: 25 بہمن 1402ہجری شمسی۔
  • فرمانیان، مہدی، آشنایی با فرق تشیع، قم، مرکز مدیریت حوزہ‌ہای علمیہ قم، 1387ہجری شمسی۔
  • مشکور، محمدجواد، «پیشگفتار»، در کتاب ترجمہ فرق الشیعہ، تہران، بنیاد فرہنگ ایران، 1353ہجری شمسی۔
  • Newman, Andrew J, Shiʿi, Britannica, Visited in, 25 February 2024.
  • «گروہ تاریخ و فرق تشیع»، دانشگاہ ادیان و مذاہب، تاریخ بازدید: 14 اسفند 1402ہجری شمسی۔