پارہ (قرآن)
پارہ قرآن کو تقسیم کرنے کے اس معیار کو کہا جاتا ہے جس میں قرآن مجید کو 30 برابر حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے؛ ان میں سے ہر ایک حصے کو پارہ کہا جاتا ہے اور خط عثمان طہ کی طباعت کے مطابق ہر پارے میں تقریبا 20 صفحے ہیں۔ ہر پارہ چار حصوں میں تقسیم ہوتا ہے جسے حزب کہا جاتا ہے۔ (اردو اشاعت کے قرآن مجید میں حزب کو الربع، النصف اور الثلاثۃ سے تعبیر کیا ہے۔) تیسویں پارے میں سب سے زیادہ 37 سورتیں موجود ہیں۔ بعض معاشروں میں قرآن کے پاروں کو اس کے ابتدائی لفظ کا نام دیا گیا ہے یا ہر پارے کے عدد کے مطابق نام رکھا گیا ہے۔
قرآنی پارے | ||
---|---|---|
پارہ نمبر | پارے کی پہلی آیت | (بسم اللہ کے علاوہ) پارے کا ابتدائی لفظ |
1 | آیہ 1 سورہ فاتحہ | الحمد للہ |
2 | آیہ 142 سورہ بقرہ | سیقول السفہاء |
3 | آیہ 253 سورہ بقرہ | تلک الرسل |
4 | آیہ 92 سورہ آلعمران | لن تنالو |
5 | آیہ 24 سورہ نساء | و المحصنات |
6 | آیہ 148 سورہ نساء | لا یحب اللہ |
7 | آیہ 83 سورہ مائدہ | و اذا سمعوا |
8 | آیہ 112 سورہ انعام | و لو أننا نزلنا |
9 | آیہ 89 سورہ اعراف | قال الملأ |
10 | آیہ 41 سورہ انفال | و اعلموا |
11 | آیہ 94 سورہ توبہ | یعتذرون |
12 | آیہ 6 سورہ ہود | و ما من دابۃ |
13 | آیہ 54 سورہ یوسف | و ما أبرئ نفسی |
14 | آیہ 2 سورہ حجر | ربما یود الذین |
15 | آیہ 1 سورہ اسراء | سبحان الذی |
16 | آیہ 75 سورہ کہف | قال ألم |
17 | آیہ 1 سورہ انبیاء | اقترب للناس |
18 | آیہ 1 سورہ مؤمنون | قد أفلح |
19 | آیہ 21 سورہ فرقان | و قال الذين لا يرجون |
20 | آیہ 60 سورہ نمل | امن خلق |
21 | آیہ 45 سورہ عنکبوت | اتل ما اوحی |
22 | آیہ 31 سورہ احزاب | و من یقنت |
23 | آیہ 22 سورہ یس | و ما لی |
24 | آیہ 32 سورہ زمر | فمن أظلم |
25 | آیہ 47 سورہ فصلت | إلیہ یرد |
26 | آیہ 1 سورہ احقاف | حم |
27 | آیہ 31 سورہ ذاریات | قال فما خطبکم |
28 | آیہ 1 سورہ مجادلہ | قد سمع اللہ |
29 | آیہ 1 سورہ ملک | تبارک الذی |
30 | آیہ 1 سورہ نبأ | عمّ یتسالون |
معنی
پارہ ٹکڑے کو کہا جاتا ہے لیکن جب اسے قرآن کے ساتھ ملا کر قرآن کا پارہ کہا جائے تو اس سے مراد قرآن مجید کے ان 30 حصوں میں سے ایک مراد ہے۔
بعض معاشروں میں قرآن کے پاروں کو اس کے ابتدائی لفظ کا نام دیا گیا ہے یا ہر پارے کے عدد کے مطابق نام رکھا گیا ہے۔ مثلا «عَمّ پارہ» جس کا مطلب 30واں پارہ ہے جو «عَمَّ يَتَسَاءَلُونَ»
سے شروع ہوتا ہے۔ قرآن مجید کے مختلف نسخوں میں پاروں کی ابتدا اور انتہا کے بارے میں بعض اختلاف پایا جاتا ہے برصغیر میں طبع ہونے والے نسخوں میں پاروں کی ابتدا اور انتہاء، دنیا میں رائج خط عثمان طہ کی طباعت کے مطابق مختلف ہے اور یہاں پر برصغیر میں رائج نسخوں بالخصوص تاج کمپنی لاہور سے شائع ہونے والے نسخوں کے مطابق پاروں کے نام اور آغاز و انتہاء کو معین کیا گیا ہے۔
تاریخی پس منظر
قرآن مجید کی ابتدائی تقسیم، روایات کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کے دور میں ہوئی جس میں قرآن کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا: «سَبعُ طِوال»، «سُنَن»، «مَثانی» اور «مُفَصَّل»۔ 30 پاروں میں تقسیم بندی کے آغاز کے بارے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ کہا گیا ہے کہ یہ تقسیم بندی حجاج بن یوسف ثقفی کے دور میں آغاز ہوئی ہے۔[1] بعض کا کہنا ہے کہ مأمون عباسی نے اس طرح سے تقسیم کرنے کا حکم دیا تھا۔ مشہور یہ ہے کہ 30 پاروں میں تقسیم کرنا یا 120 حزب میں تقسیم کرنے کا مقصد سکولوں میں پڑھنے اور تلاوت کرنے میں آسانی کے پیش نظر ایسا کیا گیا ہے۔[2]لیکن قرآن کو پارے یا حزب میں تقسیم کرنے کے بارے میں قرآنی یا روائی کوئی منشاء نہیں ہے۔
پاروں کی تلاوت
بعض اسلامی ممالک میں مسلمان ماہ رمضان میں ختم قرآن کرتے ہیں اور ہر دن ایک پارے کی تلاوت کرتے ہیں اور یوں مہینے میں پورے قرآن کی تلاوت ہو جاتی ہے۔ بعض ممالک میں ہر روز ایک پارے کی تلاوت مختلف ٹی وی چینلز پر نشر بھی ہوتی ہے۔[3]
متعلقہ مضامین
حوالہ جات
- ↑ فیض کاشانی، المحجۃ البیضاء، بیتا، ج ۲، ص۲۲۴.
- ↑ معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۶۴.
- ↑ برنامہ جزء خوانی صدا و سیما
مآخذ
- فیض کاشانی، محسن، المحجۃ البیضاء، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ دوم، بیتا
- معرفت، محمد ہادی، التمہید، قم، موسسۃ النشر الاسلامی، چاپ اول، ۱۴۱۲ق
|