سورہ ق
سورہ ق قرآن کریم کی 50ویں اور مکی سورتوں میں سے ہے جو 26ویں پارے میں موجود ہے۔یہ سورہ "ق" کے نام سے معروف ہے کیونکہ اس کا آغاز حرف مقطعہ "ق" سے ہوتا ہے۔ معاد اور مردوں کے زندہ ہونے سے کفار کی حیرانگی، نبوت، توحید اور قدرت الہی اس سورت میں مطرح ہونے والے موضوعات میں سے ہیں۔
حجرات | سورۂ ق | ذاریات | |||||||||||||||||||||||
|
سورہ ق کی آیت نمبر 16 جو خدا کو انسان کے شہ رگ سے بھی نزدیک قرار دیتی ہے، اس سورت کی مشہور آیات میں سے ہے۔ سورہ ق کی فضیلت اور تلاوت کے بارے میں آیا ہے کہ جو شخص اس سورت کی تلاوت کرے گا تو خدا سکرات موت اور دوسری سختیوں کو اس سے دور کرے گا۔
تعارف
وجہ تسمیہ
اس سورت کو "سورہ ق" کہنے کی علت اس سورت کا حرف مُقَطَّعہ "ق" سے آغاز ہونا قرار دیتے ہیں۔[1] اس سورت کے دیگر اسامی میں باسقات (اونچے درختوں کے معنی میں) ہے یہ لفظ اس کی آیت نمیر 10 میں آیا ہے۔[2] لفظ باسقات کا ذکر قرآن میں صرف ایک مرتبہ ایا ہے اور وہ یہی سورت ہے۔[3]
محل اور ترتیب نزول
سورہ "ق" مکی سورتوں میں سے ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے 34ویں اور مُصحَف کی موجودہ ترتیب کے اعتبار سے 50ویں سورہ ہے اور 26ویں پارے میں موجود ہے[4]
آیات کی تعداد اور دوسری خصوصیات
سورہ "ق" 45 آیات، 373 کلمات اور 1507 حروف پر مشتمل ہے اور حجم کے اعتبار سے اس کا شمار مُفَصّلات میں ہوتا ہے۔[5] سورہ «ق» حروف مقطقعہ سے شروع ہونے والی 29 سورتوں میں سے 28ویں سورہ ہے اسی طرح قسم سے شروع ہونے والی 23 سورتوں میں سے چھتی سورت ہے۔[6]
مفاہیم
سورہ ق کے ابحاث کا اصلی موضوع معاد ہے جبکہ اس کے علاوہ دیگر موضوعات پر بھی ضمنی طور پر اس سورت میں بحث کی گئی ہے۔[7]
سورہ ق میں مورد بحث واقع ہونے والے موضوعات کو بطور خلاصہ یوں بیان کیا جا سکتا ہے:
- کفار کی جانب سے معاد (معاد جسمانی) انکار اور تعجب
- نظام آفرینش خاص کر بارش کے ذریعے مردہ زمینوں کی تجدید حیات پر خاص توجہ دینے کے ذریعے معاد پر استدلال
- پہلی خلقت کی طرف توجہ مبزول کرانے کے ذریعے معاد پر استدلال
- حساب کتاب کے دن(قیامت) کے لئے اعمال کا ثبت و ضبط کی طرف اشارہ
- موت سے متعلق مسائل
- قیامت کے واقعات اور بہشت و جہنم کی خصوصیات کی طرف مختصر اشارہ
- کائنات کے چونکا دینے والے اختتام کی طرف اشارہ
- سرکش قوموں کی حالت زار اور برے انجام کی طرف اشارہ
- ذکر خدا اور قرآن کی عظمت کی یاددہانی
- زندگی کے تمام مراحل میں انسان کا تحت کنٹرول ہونا۔[8]
قیامت کے منکروں کو جواب اور انتباہ | |||||||||||||||||||||||
تیسرا گفتار؛ آیہ ۳۶-۴۵ معاد کے منکروں کو خبردار | دوسرا گفتار؛ آیہ ۱۶-۳۵ انسان کے افکار اور اعمال کو حساب کرنے میں شبہہ ایجاد کرنا | پہلا گفتار؛ آیہ ۱-۱۵ بدن کے منتشر ذرات کو دوبارہ سے زندہ کرنے پر شبہہ | |||||||||||||||||||||
پہلا مطلب؛ آیہ ۳۶-۳۷ کافروں کو سابقہ امتوں کی ہلاکت سے عبرت لینے کی ضرورت | پہلا جواب؛ آیہ ۱۶ انسانی تمام حالات پر اللہ کا علم | مقدمہ؛ آیہ ۱-۳ انسان کی دوبارہ حیات کے بارے میں پیغمبر کی باتوں پر کافروں کا تعجب | |||||||||||||||||||||
دوسرا مطلب؛ آیہ ۳۸ خلقت پر اللہ کی قدرت، معاد کے منکروں کے عقائد کے بطلان کی دلیل | دوسرا جواب؛ آیہ ۱۷-۳۵ فرشتوں کے توسط اعمال کا درج ہونا | پہلا جواب؛ آیہ ۴-۵ مردوں کے بدن کے اجزا زمین پر کہاں ہونے کا اللہ کو علم ہے | |||||||||||||||||||||
تیسرا مطلب؛ آیہ ۳۹-۴۵ معاد کے منکروں کے مقابلے میں پیغمبر کی ذمہ داریاں | دوسرا جواب؛ آیہ ۶-۸ کائنات کی خلقت اور تدبیر پر اللہ کی قدرت | ||||||||||||||||||||||
تیسرا جواب؛ آیہ ۹-۱۴ مردہ زمین کی طرح مردوں کو زندہ کرنا | |||||||||||||||||||||||
چوتھا جواب؛ آیہ ۱۵ انسان کی پہلی خلقت پر اللہ کی قدرت | |||||||||||||||||||||||
آیت نمبر 38 کی شأن نزول
سورہ ق کی آیت نمبر 38 وَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَمَا مَسَّنَا مِن لُّغُوبٍ (ترجمہ: بےشک ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کو چھ دن میں پیدا کیا ہے اور ہم کو تھکان نے چھوا تک نہیں۔)[؟–؟] کی شأن نزول کے بارے میں آیا ہے: یہودی پیغمبر اکرمؐ کی خدمت میں آئے اور زمین اور آسمانوں کی خلقت سے متعلق آپؐ سے سوال کیا۔ پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا: خدا نے زمين کو اتوار اور پیر کے دن پہاڑوں کو منگل کے دن، آسمان کو بدھ اور جمعرات کے دن اور چاند ستاروں اور سورج کو جمعہ کے دن خلق فرمایا۔ اس کے بعد یہودیوں نے دوبارہ سوال کیا: ان چیزوں کی خلقت کے بعد خدا نے کیا کام کیا؟ پیغمبر اکرمؐ نے آیت ثُمَّ اسْتَوى عَلَى الْعَرْشِ[؟–؟] کی تلاوت فرمائی؛ یعنى اس کے بعد خدا نے عرش جو کہ خدا کی لازوال قدرت اور طاقت کی طرف اشارہ ہے، پر قضہ جمایا؛ لیکن یہودیوں نے کہا: پس اس صورت میں اس کے بعد خدا کا کام ختم ہو گیا ہے اور ہفتہ کے دن خدا نے آرام کیا اور عرض پر ٹیگ لگائے بیٹھا ہے تاکہ آپ کی تھکاوٹ دور ہو جائے۔ پیغمبر اکرمؐ یہودیوں کی اس بات سے سخت ناراض ہو گئے اور خدا نے یہودیوں کی اس بات کی رد میں یہ آیت نازل فرمائی اور تھکاوٹ اور آرام جیسی حالات سے خدا کے منزہ ہونے کی گواہی دی۔[10]
مشہور آیات
آیت نمبر 16
وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ
(ترجمہ: اور ہم اس کی شہ رگ (حیات) سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔)[؟–؟]
"ورید" کا لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے من جملہ ان میں "شہ رگ"، "دل اور جگر سے متصل رگ"،[11] "زبان کے نیچے والی رگ"[12] اور وہ رگ جو تمام بدن میں پھیلی ہوئی ہے جس کے ذریعے خون سارے بدن تک پہنچ جاتا ہے،[13] وغیرہ شامل ہیں۔ علامہ طباطبائی تفسیر المیزان میں اس آیت کو انسان کے اوپر خدا کے مکمل احاطہ اور نزدیک ہونے کو صحیح درک کرنے کیلئے ایک تشبیہ قرار دیتے ہیں۔[14]
آیت نمبر 18
مَّا يَلْفِظُ مِن قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ
(ترجمہ: وہ کوئی لفظ بھی نہیں بولتا مگر یہ کہ اس کے پاس نگران تیار موجود ہوتا ہے۔)[؟–؟]
اس آیت میں رَقیب اور عَتید کے نام سے دو فرشتوں کا ذکر کیا ہے جو انسان کے اعمال کی ثبت و ضبظ کا کام انجام دیتے ہیں۔ بعض احادیث کے مطابق رقیب دائیں کاندے پر بیٹھ کر نیک اعمال جبکہ عتید بائیں کاندے پر بیٹھ کر برے اعمال اور گناہوں کو ثبت و ضبط کرتا ہے۔[15] انسان کی موت کے وقت یہ دو فرشتے انسان کے یہاں ظاہر ہو کر قیامت کے دن اس کے اعمال کی گواہی دیتے ہیں۔[16] قرآن میں "رُسُل"، "کِرامَاً کاتِبینَ" اور "حافظین" جیسے تعبیر بھی ان فرشتوں کے لئے استعمال کئے ہیں۔ "کرام الکاتبین" کا لفظ عام لوگوں کی زبان پر بھی ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔
آیت نمبر 20
وَنُفِخَ فِي الصُّورِ ۚ ذَٰلِكَ يَوْمُ الْوَعِيدِ
(ترجمہ: اور صور پھونکا جائے گا یہی وعید کا دن ہوگا۔)[؟–؟]
نفخ صور اس عظیم آسمانی آواز کو کہا جاتا جو قیامت برپا ہوتے وقت تمام آسمانوں اور زمین میں سنائی دے گا جس کے ساتھ ہی تمام موجودات مرجائیں گے۔[17] احادیث کے مطابق یہ آواز چار بار سنائی دے گا؛[18] لیکن قرآن میں ان میں سے صرف دو کا تذکرہ آیا ہے، ایک دنیا کے اختتام پر سنائی دے گا جس کے ساتھ ہی تمام موجودات مر جائیں گے اور اسے نفخہ موت کہا جاتا ہے۔ دوسری آواز قیامت برپا ہوتے وقت سنائی دے گا جس کے ساتھ تمام مردے زندہ ہو جائیں گے جسے نفخہ حیات کہا جاتا ہے۔[19] مذکورہ آیت میں نفخ صور سے مراد یا دوسرا نفخہ ہے یا دونوں مراد ہیں کیونکہ اس کے فورا بعد فرماتے ہیں: یہ دن وعید کا دن ہے یعنی دنیا میں جن چیزوں سے تمہیں ڈرایا گیا تھا اس کے محقق ہونے کا دن ہے۔[20]
فضیلت اور خواص
سورہ ق کی فضیلت کے بارے میں پیغمبر اکرمؐ سے نقل ہوا ہے کہ جو شخص سورہ "ق" کی تلاوت كرے تو خدا سكرات موت اور دوسری سختیوں کو اس شخص سے دور کرے گا۔[21] امام باقرؑ سے بھی منقول ہے کہ جو شخص اپنی واجب یا مستحب نمازوں میں سورہ "ق" پڑھے تو خدا اس کی رزق و روزی میں وسعت عطا کرے گا اور قیامت کے دن اس کا نامہ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا گا اور اس کے حساب و کتاب میں آسانی ہو گی[22]
تفسیر البرہان میں سورہ ق کے بعض خواص من جملہ بہ مرگی کی بیماری سے نجات،[23] رزق و روزی میں وسعت[24] اور اضطراب کے خوف کا برطرف ہونا[25] شامل ہیں۔
متن اور ترجمہ
سورہ ق
|
ترجمہ
|
---|---|
ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ ﴿1﴾ بَلْ عَجِبُوا أَن جَاءهُمْ مُنذِرٌ مِّنْهُمْ فَقَالَ الْكَافِرُونَ هَذَا شَيْءٌ عَجِيبٌ ﴿2﴾ أَئِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا ذَلِكَ رَجْعٌ بَعِيدٌ ﴿3﴾ قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنقُصُ الْأَرْضُ مِنْهُمْ وَعِندَنَا كِتَابٌ حَفِيظٌ ﴿4﴾ بَلْ كَذَّبُوا بِالْحَقِّ لَمَّا جَاءهُمْ فَهُمْ فِي أَمْرٍ مَّرِيجٍ ﴿5﴾ أَفَلَمْ يَنظُرُوا إِلَى السَّمَاء فَوْقَهُمْ كَيْفَ بَنَيْنَاهَا وَزَيَّنَّاهَا وَمَا لَهَا مِن فُرُوجٍ ﴿6﴾ وَالْأَرْضَ مَدَدْنَاهَا وَأَلْقَيْنَا فِيهَا رَوَاسِيَ وَأَنبَتْنَا فِيهَا مِن كُلِّ زَوْجٍ بَهِيجٍ ﴿7﴾ تَبْصِرَةً وَذِكْرَى لِكُلِّ عَبْدٍ مُّنِيبٍ ﴿8﴾ وَنَزَّلْنَا مِنَ السَّمَاء مَاء مُّبَارَكًا فَأَنبَتْنَا بِهِ جَنَّاتٍ وَحَبَّ الْحَصِيدِ ﴿9﴾ وَالنَّخْلَ بَاسِقَاتٍ لَّهَا طَلْعٌ نَّضِيدٌ ﴿10﴾ رِزْقًا لِّلْعِبَادِ وَأَحْيَيْنَا بِهِ بَلْدَةً مَّيْتًا كَذَلِكَ الْخُرُوجُ ﴿11﴾ كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَأَصْحَابُ الرَّسِّ وَثَمُودُ ﴿12﴾ وَعَادٌ وَفِرْعَوْنُ وَإِخْوَانُ لُوطٍ ﴿13﴾ وَأَصْحَابُ الْأَيْكَةِ وَقَوْمُ تُبَّعٍ كُلٌّ كَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ وَعِيدِ ﴿14﴾ أَفَعَيِينَا بِالْخَلْقِ الْأَوَّلِ بَلْ هُمْ فِي لَبْسٍ مِّنْ خَلْقٍ جَدِيدٍ ﴿15﴾ وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ ﴿16﴾ إِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيَانِ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيدٌ ﴿17﴾ مَا يَلْفِظُ مِن قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ ﴿18﴾ وَجَاءتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ذَلِكَ مَا كُنتَ مِنْهُ تَحِيدُ ﴿19﴾ وَنُفِخَ فِي الصُّورِ ذَلِكَ يَوْمُ الْوَعِيدِ ﴿20﴾ وَجَاءتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّعَهَا سَائِقٌ وَشَهِيدٌ ﴿21﴾ لَقَدْ كُنتَ فِي غَفْلَةٍ مِّنْ هَذَا فَكَشَفْنَا عَنكَ غِطَاءكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ ﴿22﴾ وَقَالَ قَرِينُهُ هَذَا مَا لَدَيَّ عَتِيدٌ ﴿23﴾ أَلْقِيَا فِي جَهَنَّمَ كُلَّ كَفَّارٍ عَنِيدٍ ﴿24﴾ مَّنَّاعٍ لِّلْخَيْرِ مُعْتَدٍ مُّرِيبٍ ﴿25﴾ الَّذِي جَعَلَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ فَأَلْقِيَاهُ فِي الْعَذَابِ الشَّدِيدِ ﴿26﴾ قَالَ قَرِينُهُ رَبَّنَا مَا أَطْغَيْتُهُ وَلَكِن كَانَ فِي ضَلَالٍ بَعِيدٍ ﴿27﴾ قَالَ لَا تَخْتَصِمُوا لَدَيَّ وَقَدْ قَدَّمْتُ إِلَيْكُم بِالْوَعِيدِ ﴿28﴾ مَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ وَمَا أَنَا بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ ﴿29﴾ يَوْمَ نَقُولُ لِجَهَنَّمَ هَلِ امْتَلَأْتِ وَتَقُولُ هَلْ مِن مَّزِيدٍ ﴿30﴾ وَأُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِينَ غَيْرَ بَعِيدٍ ﴿31﴾ هَذَا مَا تُوعَدُونَ لِكُلِّ أَوَّابٍ حَفِيظٍ ﴿32﴾ مَنْ خَشِيَ الرَّحْمَن بِالْغَيْبِ وَجَاء بِقَلْبٍ مُّنِيبٍ ﴿33﴾ ادْخُلُوهَا بِسَلَامٍ ذَلِكَ يَوْمُ الْخُلُودِ ﴿34﴾ لَهُم مَّا يَشَاؤُونَ فِيهَا وَلَدَيْنَا مَزِيدٌ ﴿35﴾ وَكَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُم مِّن قَرْنٍ هُمْ أَشَدُّ مِنْهُم بَطْشًا فَنَقَّبُوا فِي الْبِلَادِ هَلْ مِن مَّحِيصٍ ﴿36﴾ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِمَن كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ ﴿37﴾ وَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَمَا مَسَّنَا مِن لُّغُوبٍ ﴿38﴾ فَاصْبِرْ عَلَى مَا يَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوبِ ﴿39﴾ وَمِنَ اللَّيْلِ فَسَبِّحْهُ وَأَدْبَارَ السُّجُودِ ﴿40﴾ وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنَادِ الْمُنَادِ مِن مَّكَانٍ قَرِيبٍ ﴿41﴾ يَوْمَ يَسْمَعُونَ الصَّيْحَةَ بِالْحَقِّ ذَلِكَ يَوْمُ الْخُرُوجِ ﴿42﴾ إِنَّا نَحْنُ نُحْيِي وَنُمِيتُ وَإِلَيْنَا الْمَصِيرُ ﴿43﴾ يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِرَاعًا ذَلِكَ حَشْرٌ عَلَيْنَا يَسِيرٌ ﴿44﴾ نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُونَ وَمَا أَنتَ عَلَيْهِم بِجَبَّارٍ فَذَكِّرْ بِالْقُرْآنِ مَن يَخَافُ وَعِيدِ ﴿45﴾ |
ق۔ (1) قَسم ہے باعظمت قرآن کی (پیغمبرِ اسلام (ص) میرے سچے رسول ہیں) لیکن ان لوگوں کو اس بات پر تعجب ہے کہ انہی میں سے ایک ڈرانے والا (رسول) ان کے پاسایا ہے تو کافر کہتے ہیں کہ یہ ایک عجیب چیز ہے۔ (2) کیا جب ہم مر جائیں گے اور مٹی ہو جائیں گے (تو دوبارہ زندہ ہوں گے) یہ تو بڑی بعید (از عقل) بات ہے۔ (3) ہم خوب جانتے ہیں (ان اجزاء کو) جو زمین (کھا کر) ان میں سے کم کرتی ہے اور ہمارے پاس تو ایک ایسی کتاب ہے جس میں (سب کچھ) محفوظ ہے۔ (4) بلکہ (دراصل بات تو یہ ہے کہ) انہوں نے (دینِ) حق کو جھٹلایا جبکہ وہ ان کے پاسایا پس وہ ایک الجھی ہوئی بات میں مبتلا ہیں۔ (5) کیا انہوں نے آسمان کی طرف نہیں دیکھا جو ان کے اوپر ہے کہ ہم نے اسے کس طرح بنایا ہے؟ اور آراستہ کیا ہے جس میں کوئی رخنہ نہیں ہے۔ (6) اور ہم نے زمین کو پھیلایا اور اس میں پہاڑ گاڑ دئیے اور اس میں ہر قِسم کی خوشنما چیزیں اگائیں۔ (7) ہر اس بندے کی بصیرت اور یاددہانی کے لئے جو اپنے رب کی طرف رجوع کرنے والا ہے۔ (8) اور ہم نے آسمان سے برکت والا پانی اتارا اور اس سے باغات اور کاٹے جانے والی کھیتی کا غلہ اگایا۔ (9) اور کھجور کے بلند وبالا درخت جن میں تہہ بہ تہہ خوشے لگتے ہیں۔ (10) بندوں کی روزی کے لئے اور ہم اس مردہ زمین کو زندہ کرتے ہیں اسی طرح (مردوں کا) زمین سے نکلنا ہوگا۔ (11) ان سے پہلے نوح(ع) کی قوم، اصحابِ رس اور ثمود نے جھٹلایا۔ (12) نیز عاد، فرعون، لوط(ع) کے بھائی۔ (13) اور ایکہ والے اور تبع کی قوم ان سب نے پیغمبروں(ع) کو جھٹلایا آخر میری وعید کے مستحق ہو ئے۔ (14) کیا ہم پہلی بار کی پیدائش سے تھک گئے ہیں؟ (ایسا نہیں ہے) بلکہ یہ لوگ ازسرِنو پیدائش کے بارے میں شبہ میں مبتلا ہیں۔ (15) بےشک ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور ہم وہ وسوسے جانتے ہیں جو اس کا نفس ڈالتا ہے اور ہم اس کی شہ رگ (حیات) سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔ (16) جبکہ دو اخذ کرنے والے (کراماً کاتبین) ایک دائیں جانب بیٹھا ہے اور دوسرا بائیں جانب (اور ہر چیز کو لکھ رہے ہیں)۔ (17) وہ کوئی لفظ بھی نہیں بولتا مگر یہ کہ اس کے پاس نگران تیار موجود ہوتا ہے۔ (18) اور موت کی بےہوشی حق کے ساتھ آپہنچی۔ یہی وہ چیز ہے جس سے تو گریز کرتا رہتا تھا۔ (19) اور صور پھونکا جائے گا یہی وعید کا دن ہوگا۔ (20) اور ہر شخص اس طرح آئے گا کہ اس کے ساتھ ہانکنے والا اور ایک گواہ ہوگا۔ (21) اے غا فل) تو اس دن سے غفلت میں رہا تو (آج) ہم نے تیری آنکھوں سے تیرا پردہ ہٹا دیا سو آج تیری نگاہ بڑی تیز ہے۔ (22) اور اس کا (زندگی بھر کا) ساتھی کہے گا کہ جو میرے پاس تھا وہ حاضر ہے۔ (23) تم دونوں جہنم میں جھونک دو ہر بڑے کافر کو جو(حق سے) عناد رکھتا تھا۔ (24) جو نیکی و خیرات سے بڑا روکنے والا، حد سے بڑھنے والا اور شک کرنے والا اور دوسروں کو شک میں ڈالنے والا تھا۔ (25) جس نے اللہ کے ساتھ اوروں کو بھی خدا بنا رکھا تھا۔ پس اس کو سخت عذاب میں جھونک دو۔ (26) اس کا ساتھی (شیطان) کہے گا اے ہمارے پروردگار! میں نے تو اسے سرکش نہیں بنایا تھا مگر وہ خود ہی سخت گمراہی میں تھا۔ (27) ارشاد ہوگا میرے سامنے جھگڑا نہ کرو اور میں نے تو تمہیں پہلے عذاب سے ڈرایا تھا۔ (28) میرے ہاں بات بدلی نہیں جاتی اور نہ ہی میں بندوں پر ظلم کرنے والا ہوں۔ (29) وہ دن یاد کرو جس دن ہم جہنم سے کہیں گے کیا تو بھر گئی ہے؟ اور وہ کہے گی کیا کچھ اور بھی ہے؟ (30) اور جنت پرہیزگاروں کے قریب کر دی جائے گی اور دور نہیں ہوگی۔ (31) یہ (جنت) وہ ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا (تم میں سے) ہر اس شخص کے لئے جو اللہ کی طرف رجوع کرنے والا (اور حدودِ الٰہی) کی بڑی حفاظت کرنے والا ہے۔ (32) جو بِن دیکھے خدائے رحمٰن سے ڈرتا ہے اور ایسے دل کے ساتھایا ہے جو (خدا کی طرف) رجوع کرنے والا ہے۔ (33) تم اس(جنت) میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ یہ (حیاتِ) ابدی کا دن ہے۔ (34) وہاں ان کیلئے وہ سب کچھ ہوگا جو وہ چاہیں گے اور ہمارے پاس تو (ان کے لئے) اور بھی زیادہ ہے۔ (35) اور ہم (کفارِ مکہ) سے پہلے کتنی ہی قوموں کو ہلاک کر چکے ہیں جو قوت و طاقت میں ان سے زیادہ طاقتور تھیں وہ (مختلف) شہروں میں گھو متے پھرتے تھے تو ان کو کوئی جائے پناہ ملی؟ (36) اس میں بڑی عبرت و نصیحت ہے اس کے لئے جس کے پاس دل ہویا حضورِ قلب سے کان لگائے۔ (37) بےشک ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کو چھ دن میں پیدا کیا ہے اور ہم کو تھکان نے چھوا تک نہیں۔ (38) وہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں اس پر صبر کیجئے اور سورج کے طلوع و غروب سے پہلے اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ تسبیح کیجئے۔ (39) اور رات کے کچھ حصے میں اس کی تسبیح کیجئے اور (نمازوں کا) سجدہ کرنے کے بعد بھی۔ (40) اور غور سے سنو اس دن کا حال جب ایک منادی بہت قریب سے ندا دے گا۔ (41) جس دن سب لوگ ایک زوردار آواز کو بالیقین سنیں گے وہی دن (قبروں سے) نکلنے کا ہوگا۔ (42) یقیناً ہم ہی جِلاتے ہیں ہم ہی مارتے ہیں اور ہماری ہی طرف سب کی بازگشت ہے۔ (43) اس دن زمین ان پر پھٹ جائے گی اور وہ تیز تیز برآمد ہوں گے یہ حشر (جمع کرنا) ہمارے لئے بالکل آسان ہے۔ (44) جو کچھ لوگ کہتے ہیں ہم خوب جانتے ہیں اور آپ(ص) ان پر جبر کرنے والے نہیں ہیں پس آپ(ص) قرآن کے ذریعہ سے اسے نصیحت کریں جو میری تہدید سے ڈرے۔ (45) |
پچھلی سورت: سورہ حجرات | سورہ ق | اگلی سورت:سورہ ذاریات |
1.فاتحہ 2.بقرہ 3.آلعمران 4.نساء 5.مائدہ 6.انعام 7.اعراف 8.انفال 9.توبہ 10.یونس 11.ہود 12.یوسف 13.رعد 14.ابراہیم 15.حجر 16.نحل 17.اسراء 18.کہف 19.مریم 20.طہ 21.انبیاء 22.حج 23.مؤمنون 24.نور 25.فرقان 26.شعراء 27.نمل 28.قصص 29.عنکبوت 30.روم 31.لقمان 32.سجدہ 33.احزاب 34.سبأ 35.فاطر 36.یس 37.صافات 38.ص 39.زمر 40.غافر 41.فصلت 42.شوری 43.زخرف 44.دخان 45.جاثیہ 46.احقاف 47.محمد 48.فتح 49.حجرات 50.ق 51.ذاریات 52.طور 53.نجم 54.قمر 55.رحمن 56.واقعہ 57.حدید 58.مجادلہ 59.حشر 60.ممتحنہ 61.صف 62.جمعہ 63.منافقون 64.تغابن 65.طلاق 66.تحریم 67.ملک 68.قلم 69.حاقہ 70.معارج 71.نوح 72.جن 73.مزمل 74.مدثر 75.قیامہ 76.انسان 77.مرسلات 78.نبأ 79.نازعات 80.عبس 81.تکویر 82.انفطار 83.مطففین 84.انشقاق 85.بروج 86.طارق 87.اعلی 88.غاشیہ 89.فجر 90.بلد 91.شمس 92.لیل 93.ضحی 94.شرح 95.تین 96.علق 97.قدر 98.بینہ 99.زلزلہ 100.عادیات 101.قارعہ 102.تکاثر 103.عصر 104.ہمزہ 105.فیل 106.قریش 107.ماعون 108.کوثر 109.کافرون 110.نصر 111.مسد 112.اخلاص 113.فلق 114.ناس |
حوالہ جات
- ↑ خرمشاہی، «سورہ ق»، ص۱۲۵۲.
- ↑ خرمشاہی، «سورہ ق»، ص۱۲۵۲.
- ↑ خرمشاہی، «سورہ ق»، ص۱۲۵۲.
- ↑ معرفت، آموزش علوم قرآن، ۱۳۷۱ش، ج۲، ص۱۶۶.
- ↑ خرمشاہی، «سورہ ق»، ص۱۲۵۲.
- ↑ صفوی، «سورہ ق»، ص۷۸۲.
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۲۲، ص۲۲۲.
- ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۷، ص۳۳۷؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۲۲، ص۲۲۲.
- ↑ خامہگر، محمد، ساختار سورہہای قرآن کریم، تہیہ مؤسسہ فرہنگی قرآن و عترت نورالثقلین، قم، نشر نشرا، چ۱، ۱۳۹۲ش.
- ↑ حویزی، نورالثقلین، ۱۴۱۵ق، ج۵، ص۱۱۶؛ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۹، ص۲۲۵؛ واحدی اسباب نزول القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۴۱۳-۴۱۴.
- ↑ مکارم، تفسير نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۲۲، ص۲۴۶
- ↑ ابن منظور، لسان العرب، ذیل واژہ ورید.
- ↑ طباطبایی، الميزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۸، ص۳۴۷.
- ↑ طباطبایی، الميزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۸، ص۳۴۷.
- ↑ مغنیہ، تفسیر الکاشف، ۱۴۲۴ق، ج۷، ص۱۳۲؛ طبرسی، جوامع الجامع، ۱۳۷۷ش، ج۴، ص۱۶۶؛ کاشانی، تفسیر منہج الصادقین فی الزام المخالفین، ۱۳۳۶ش، ج۹، ص۱۰؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۲۲، ص۲۴۹و۲۵۰.
- ↑ بحار الأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۲، ص ۳۷۴و ۳۷۶.
- ↑ قرشی، قاموس قرآن، ۱۳۷۱ش، ج۴، ص۱۶۳.
- ↑ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۶، ص۳۱۸.
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۲۲، ص۲۵۷.
- ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۸، ص۳۴۹.
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۹، ص۲۳۳.
- ↑ صدوق، ثواب الاعمال، ۱۳۸۲ش، ص۱۱۵
- ↑ بحرانی، تفسیرالبرہان، ۱۴۱۶ق، ج۵، ص۱۲۵.
- ↑ بحرانی، تفسیرالبرہان، ۱۴۱۶ق، ج۵، ص۱۲۵.
- ↑ بحرانی، تفسیرالبرہان، ۱۴۱۶ق، ج۵، ص۱۲۵.
مآخذ
- قرآن کریم، ترجمہ محمد حسین نجفی (سرگودھا)۔
- ابن منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، مقدمہ احمد فارس، بیروت، ۱۳۸۹ق۔
- بحرانی، سید ہاشم، البرہان فی تفسیر القرآن، تہران، بنیاد بعثت، ۱۴۱۶ق۔
- حویزی، عبدالعلی بن جمعہ، تصحیح: ہاشم رسولی، قم، اسماعیلیان، ۱۴۱۵ق۔
- خرمشاہی، قوامالدین، «سورہ ق»، تہران، دوستان-ناہید، ۱۳۷۷ش۔
- صدوق، محمد بن علی، ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، تحقیق: صادق حسن زادہ، تہران، ارمغان طوبی، ۱۳۸۲ش۔
- طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، موسسہ الاعلمی للمطبوعات، ۱۳۹۰ق۔
- طبرسی، فضل بن حسن، تفسیر جوامع الجامع، انتشارات دانشگاہ تہران و مدیریت حوزہ علمیہ قم، چاپ اول، ۱۳۷۷ش۔
- طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصر خسرو، ۱۳۷۱ش۔
- کاشانی، ملا فتح اللہ، تفسیر منہج الصادقین فی الزام المخالفین، کتابفروشی محمد حسن علمی، تہران، ۱۳۳۶ش۔
- مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، دار احیا التراث العربی، ۱۴۰۳ق۔
- مصلح الدین سعدی شیرازی، تصحیح: محمدعلی فروغی، تہران، نشر ققنوس، ۱۳۹۴ش۔
- مغنیہ، محمد جواد، تفسیر الکاشف،دار الکتب الإسلامیۃ، تہران، چاپ اول، ۱۴۲۴ق۔
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الإسلاميۃ، ۱۳۷۴ش۔
- معرفت، محمدہادی، آموزش علوم قرآن، [بیجا]، مرکز چاپ و نشر سازمان تبلیغات اسلامی، چ۱، ۱۳۷۱ش۔
- واحدی، علی بن احمد، اسباب نزول القرآن، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۱ق۔