سورہ سجدہ
سورہ سجدہ یا الم سجدہ یا الم تنزیل قرآن 32ویں اور مکی سورتوں میں سے ہے اور 21ویں پارے میں واقع ہے۔ اس سورت کی 15ویں آیت جس کے پڑھنے یا سننے سے سجدہ کرنا واجب ہو جاتا ہے، کی وجہ سے اس سورت کا نام "سورہ سجدہ" رکھا گیا ہے۔ سورہ سجدہ میں معاد، چھ مرحلوں میں کائنات کی خلقت اور مٹی سے انسان کی خلقت کے بارے میں گفتگو کے ساتھ ساتھ قیامت کے منکرین کو عذاب اور مؤمنین کو انسان کی تصور سے ماوراء ثواب کی بشارت دیتے ہیں۔
لقمان | سورۂ سجدہ | احزاب | |||||||||||||||||||||||
|
اس سورت کی آیت نمبر 16 اور 18 کو امیر المؤمنین حضرت علیؑ کی شان میں قرار دیتے ہیں۔ اس کی تلاوت کے بارے میں آیا ہے کہ جو شخص ہر شب جمعہ سورہ سجدہ کی تلاوت کرے، خدا قیامت کے دن اس کے نامہ اعمال کو اس کے دائیں ہاتھ میں دے گا اور اس کے گذشتہ گناہوں کو بخش دے گا اور یہ شخص محمدؐ اور آل محمد کے دوستوں میں سے ہو گا۔
اجمالی تعارف
وجہ تسمیہ
اس سورت کی آیت نمبر 15 کے پڑھنے یا سننے پر سجدہ واجب ہو جاتا ہے اسی لئے اس کا نام سورہ سجدہ رکھا گیا ہے۔[1] اس سورت کو بعض احادیث میں "الم سجدہ" اور "الم تنزیل" کے نام سے بھی یاد کیا گیا ہے اور اس کو سورہ حم سجدہ (سورہ فصلت) سے متمائز کرنے کے لئے اسے "سجدہ لقمان" بھی کہا جاتا ہے؛ کیونکہ یہ سورت "سورہ لقمان" کے بعد واقع ہے۔.[2] فخر رازی اس سورت کی آیت نمبر 16 میں کی مناسبت سے اسے "مضاجع" کے نام سے بھی یاد کیا ہے۔[3]
ترتیب اور محل نزول
سورہ سجدہ مکی سورتوں میں سے ہے اور ترتیب نزول نزول کے اعتبار سے 75ویں جبکہ مُصحَف کی موجودہ ترتیب کے اعتبار سے 32ویں سوره ہے۔[4] یہ سورت قرآن کے 21ویں پارے میں واقع ہے۔
آیات کی تعداد اور دوسری خصوصیات
سورہ سجدہ 30 آیات، 375 کلمات اور 1564 حروف پر مشتمل ہے۔ حجم کے اعتبار سے اس کا شمار سور مثانی میں ہوتا ہے اور نسبتاً چھوٹی سورتوں میں سے ہے۔ سورہ سجدہ واجب سجدہ والی چار سورتوں میں سے ایک ہے جنہیں عَزائِم کہا جاتا ہے۔ اسی طرح حروف مُقَطَّعہ سے شروع ہونے والی سورتوں میں بھی اس کا شمار ہوتا ہے اور اس سلسلے میں حروف مقطعہ "الف، لام، میم" سے شروع ہونے والی آخری سورت ہے۔[5] سور ممتحنات میں بھی اس کو شمار کیا جاتا ہے[6] جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سورہ ممتحنہ کے ساتھ محتوائی تناسب کی وجہ سے انہیں ممتحنات کہا جاتا ہے۔[7] [یادداشت 1]
مفاہیم
علامہ طباطبایی سورہ سجدہ کا اصلی ہدف مبدأ و معاد پر استدلال اور ان سے مربوط شبہات کا ازالہ قرار دیتے ہیں۔[8] اس کے علاوہ قرآن، نبوت، آیات الہی پر ایمان لانے والے مؤمنین اور خدا کی عبودیت سے خارج ہونے والے فاسقین کا فرق نیز مومین کو ان کی تصور سے ماوراء ثواب اور فاسقین کو دنیا اور آخرت میں عذاب کی بشارت ایسے موضوعات ہیں جن کے بارے میں اس سورت میں گفتگو ہوتی ہے۔[9]
تفسیر نمونہ میں سورہ سجدہ کا مقصد مبدا و معاد پر ایمان کی تقویت اور تقوا اور پرہیزگاری کی طرف حرکت میں نشاط پیدا کرنا اور سرکشی اور طغیان سے دوری اختیار کرتے ہوئے انسان کی حقیقی مقام و مرتبے کی طرف دھیان دینا قرار دیتے ہیں اور اس کے مباحث کو درج ذیل حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:
- قرآن کی عظمت اور خدا کی طرف سے اس کا نازل ہونا؛
- زمین و آسمان میں خدا کی نشانیاں اور اس کائنات کی تدبیر؛
- انسان کی خلقت میں مادی اور معنوی پہلو اور اسے بے انتہاء علم و دانش کے اوزار (حواس خمسہ) سے نوازنا؛
- موت اور اس کے بعد کا عالم؛
- مومنین کو جنہ الماوی اور فاسقین کو جہنم کے عذاب کی بشارت؛
- بنیاسرائیل اور گذشتہ امتوں کی مختصر تاریخ؛
- توحید اور لجوج دشمنوں کی تہدید۔[10]
معاد کے بارے میں قرآنی معارف کے منکروں کو انتباہ | |||||||||||||||||||||||||||||||
تیسرا گفتار؛ آیہ ۲۳-۳۰ قیامت میں کافروں کو سزا کے بارے میں قرآنی تعلیمات کی حقانیت | دوسرا گفتار؛ آیہ ۱۵-۲۲ مؤمنوں اور فاسقوں کا انجام قرآنی آیات کی روشنی میں | پہلا گفتار؛ آیہ ۴-۱۴ قیامت کا ثبوت اور کافروں پر عذاب حتمی ہونا | مقدمہ؛ آیہ ۱-۳ کفر کے انجام کے بارے میں قرآنی انتباہ | ||||||||||||||||||||||||||||
پہلا مطلب؛ آیہ ۲۳-۲۵ معاد کے بارے میں قرآنی معارف کی تورات میں تأیید | پہلا مطلب؛ آیہ ۱۵-۱۷ اہلِ ایمان کی خصوصیات | پہلا مطلب؛ آیہ ۴ دنیا کی خلقت اور تدبیر اللہ کے ہاتھ | |||||||||||||||||||||||||||||
دوسرا مطلب؛ آیہ ۲۶-۲۷ قیامت برپا کرنے اور کافروں کو سزا دینے میں اللہ کی قدرت کی نشانیاں | دوسرا مطلب؛ آیہ ۱۸-۱۹ بہشت میں مؤمنوں کا اجر | دوسرا مطلب؛ آیہ ۵-۶ دنیا کی بازگشت اللہ ہی کی طرف ہے | |||||||||||||||||||||||||||||
تیسرا مطلب؛ آیہ ۲۸-۳۰ قیامت کے دن کافروں پر عذاب کا حتمی ہونا | تیسرا مطلب؛ آیہ ۲۰-۲۲ جہنم میں کافروں کی سزا | تیسرا مطلب؛ آیہ ۷-۹ اللہ کی نعمتوں پر شکر کرنا انسان کی ذمہ داری ہے | |||||||||||||||||||||||||||||
چوتھا مطلب؛ آیہ ۱۰-۱۱ معاد کے بارے میں کافروں کے شبہے کا جواب | |||||||||||||||||||||||||||||||
پانچواں مطلب؛ آیہ ۱۲-۱۴ اللہ دوزخ کو مجرموں سے بھر دے گا | |||||||||||||||||||||||||||||||
بعض آیات کی شأن نزول
سورہ سجدہ کی آیت نمبر 16 اور 18 کی شأن نزول بیان کی گئی ہے۔
شب زندہ داران
انس بن مالک کہتے ہیں کہ سورہ سجدہ کی آیت نمبر 16 تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا...؛ (ترجمہ: (رات کے وقت) ان کے پہلو بستروں سے الگ رہتے ہیں (اور) وہ بیم و امید سے اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں۔)[؟–؟] ہم انصار کے بارے میں نازل ہوئی؛ کیونکہ ہم ہمیشہ نماز مغرب کو رسول خداؐ کے ساتھ پڑھتے تھے اور نماز عشاء بھی پیغمبر اکرمؐ کی اقتداء میں ادا کرنے تک اپنے گھروں کو واپس نہیں جاتے تھے۔[12]
امام باقرؑ سے منقول ہے کہ سورہ سجدہ کی آیت نمبر 16 امام علیؑ آپ کے شیعوں کے بارے میں نازل ہوئی جو رات کی ابتداء میں سوتے ہیں اور رات کے تیسرے پہر میں خوف خدا اور عبادت و بندگی کے ساتھ شوق اور رغبت کی وجہ سے اٹھ کر عبادت کرتے ہیں۔[13]
مؤمن اور فاسق کا برابر نہ ہونا
ابن ابی لیلی سورہ سجدہ کی آیت نمبر 18 {"أَفَمَن كَانَ مُؤْمِنًا كَمَن كَانَ فَاسِقًا ۚ لَّا يَسْتَوُونَ؛ (ترجمہ: تو کیا جو مؤمن ہے وہ فاسق کی مانند ہو سکتا ہے؟ یہ برابر نہیں ہو سکتے۔ ")[؟–؟] کا سبب نزول ولید بن عقبہ کی جانب سے اپنے آپ کو حضرت علیؑ سے افضل سمجھنا قرار دیتے ہیں؛ جب ولید نے امام علیؑ سے کہا میری زبان آپ کی زبان سے بہتر اور میرے دانت آپ کے دانتوں سے تیز ہیں اور یہ جملہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ ولید اپنے آپ کو حضرت علیؑ سے افضل اور برتر سمجھتا تھا۔ اس کے جواب میں حضرت علیؑ نے فرمایا: اے فاسق جو کچھ تم کہہ رہے ہو وہ صحیح نہیں ہے۔ اس گفتگو کے بعد یہ آیت نازل ہوئی۔ یہ روایت اہل سنت مآخذ میں بھی آیا ہے۔[14]
تفسیری نکات
سورہ سجدہ کی بعض آیتوں من جملہ آیت نمبر 4 اور 7 کے ذیل میں کچھ خاص تفسیری نکات بیان ہوئے ہیں۔
استواء علی العرش
علامہ طباطبایی سورہ سجدہ کی آیت نمبر 4 "اللَّهُ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَینَهُمَا فِی سِتَّةِ أَیامٍ ثُمَّ اسْتَوَیٰ عَلَی الْعَرْشِ...؛ (ترجمہ: اللہ ہی وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی سب چیزوں کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر عرش پر متمکن ہوا...)[؟–؟] کے ذیل میں عرش پر خدا کے متمکن ہونے کو موجودات کی خلقت کے بعد ان پر حکومت اور تدبیر کی طرف اشارہ قرار دیتے ہوئے اس بات کے معتقد ہیں کہ جب بھی خدا یہ تعبیر استعمال کرتا ہے اس کے سانھ اپنی تدبیر کا کوئی نہ کوئی نمونہ بھی پیش کرتے ہیں مثلا سورہ اعراف کی آیت نمبر 54 میں دن اور رات کے ایک دوسرے کے پیچھے آنے کو خدا کی تدبیر کے طور پر ذکر کرتے ہیں۔[15] اس آیت میں دن سے مراد زمان کا ایک خاص حصہ[16]، مرحلہ[17] یا دورہ قرار دیتے ہیں نہ دن سے مراد 24 گھنٹہ۔[18]
نظام احسن
تفسیر نمونہ کے مطابق سورہ سجدہ کی آیت نمبر 7 "الَّذِی أَحْسَنَ کلَّ شَیءٍ خَلَقَهُ"...؛[؟–؟] کائنات کی خلقت اور آفرینش میں نظام احسن کی طرف اشارہ ہے؛ یہاں پر جو سوال پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ دنیا میں موجود شرور کو نظام احسن کے ساتھ کیسے جمع کیا جا سکتا ہے؟[19] اس بارے میں علامہ طباطبایی اس بات کے معتقد ہیں کہ کائنات میں موجود ہر وجود بذاتہ نیک اور اچھا ہے جس سے کامل کا تصور ممکن ہی نہیں ہے؛ لیکن یہ کہ ہمیں کوئی چیز اچھی نہ لگے یا بری نظر آئے تو اس کی دو دلیل ہو سکتی ہے: 1- ہماری ناپسندی اور ہمیں اچھا نہ لگنا کسی اچھائی کے نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ مثلا کسی ظالم کا ظلم کسی کا فعل ہونے کی جہت سے برا نہیں ہے؛ بلکہ اس جہت سے ہے کہ اس سے کسی حقدار کی حلق تلفی ہوتی ہے۔ 2- یا یہ کہ کسی چیز کو کسی اور چیز کے ساتھ موازنہ کرنے کی وجہ سے وہ چیز بری لگتی ہے حالانکہ یہ چیز بذات خود بری نہیں ہے۔ مثلا کانٹا پھول کے مقابلے میں برا لگتا ہے۔[20]
فضیلت اور خواص
سورہ سجدہ کی تلاوت کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ جو شخص سورہ الم تنزیل (سورہ سجدہ) اور سورہ ملک کی تلاوت کرے تو گویا وہ اس شخص کی مانند ہے جس نے شب قدر کو شب بیداری کی ہو۔ اسی طرح احادیث میں آیا ہے کہ جو شخص ہر شب جمعہ سورہ سجدہ کی تلاوت کرے خدا اس کے نامہ اعمال کو اس کے دائیں ہاتھ میں تھما دے گا اور اس کے گذشتہ گناہوں کو بخش دے گا ور یہ شخص محمدؐ و آل محمدؑ کے دوستوں میں شمار ہو گا۔[21] اس سورت کے خواص کے بارے میں بھی قل ہوا ہے کہ اگر کوئی شخص اس سورت کو لکھ کر اپنے ساتھ رکھے تو وہ بخار اور سر درد سے محفوظ رہے گا۔[22]
متن اور ترجمہ
سورہ سجدہ
|
ترجمہ
|
---|---|
الم ﴿1﴾ تَنزِيلُ الْكِتَابِ لَا رَيْبَ فِيهِ مِن رَّبِّ الْعَالَمِينَ ﴿2﴾ أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ بَلْ هُوَ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ لِتُنذِرَ قَوْمًا مَّا أَتَاهُم مِّن نَّذِيرٍ مِّن قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ ﴿3﴾ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ مَا لَكُم مِّن دُونِهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا شَفِيعٍ أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ ﴿4﴾ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاء إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ أَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ ﴿5﴾ ذَلِكَ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ ﴿6﴾ الَّذِي أَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَهُ وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنسَانِ مِن طِينٍ ﴿7﴾ ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهُ مِن سُلَالَةٍ مِّن مَّاء مَّهِينٍ ﴿8﴾ ثُمَّ سَوَّاهُ وَنَفَخَ فِيهِ مِن رُّوحِهِ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ قَلِيلًا مَّا تَشْكُرُونَ ﴿9﴾ وَقَالُوا أَئِذَا ضَلَلْنَا فِي الْأَرْضِ أَئِنَّا لَفِي خَلْقٍ جَدِيدٍ بَلْ هُم بِلِقَاء رَبِّهِمْ كَافِرُونَ ﴿10﴾ قُلْ يَتَوَفَّاكُم مَّلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ ﴿11﴾ وَلَوْ تَرَى إِذِ الْمُجْرِمُونَ نَاكِسُو رُؤُوسِهِمْ عِندَ رَبِّهِمْ رَبَّنَا أَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا إِنَّا مُوقِنُونَ ﴿12﴾ وَلَوْ شِئْنَا لَآتَيْنَا كُلَّ نَفْسٍ هُدَاهَا وَلَكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّي لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ﴿13﴾ فَذُوقُوا بِمَا نَسِيتُمْ لِقَاء يَوْمِكُمْ هَذَا إِنَّا نَسِينَاكُمْ وَذُوقُوا عَذَابَ الْخُلْدِ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴿14﴾ إِنَّمَا يُؤْمِنُ بِآيَاتِنَا الَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِهَا خَرُّوا سُجَّدًا وَسَبَّحُوا بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ ﴿15﴾ سجدة واجبة تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿16﴾ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاء بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿17﴾ أَفَمَن كَانَ مُؤْمِنًا كَمَن كَانَ فَاسِقًا لَّا يَسْتَوُونَ ﴿18﴾ أَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَهُمْ جَنَّاتُ الْمَأْوَى نُزُلًا بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿19﴾ وَأَمَّا الَّذِينَ فَسَقُوا فَمَأْوَاهُمُ النَّارُ كُلَّمَا أَرَادُوا أَن يَخْرُجُوا مِنْهَا أُعِيدُوا فِيهَا وَقِيلَ لَهُمْ ذُوقُوا عَذَابَ النَّارِ الَّذِي كُنتُم بِهِ تُكَذِّبُونَ ﴿20﴾ وَلَنُذِيقَنَّهُمْ مِنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَى دُونَ الْعَذَابِ الْأَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ ﴿21﴾ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن ذُكِّرَ بِآيَاتِ رَبِّهِ ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْهَا إِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِينَ مُنتَقِمُونَ ﴿22﴾ وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ فَلَا تَكُن فِي مِرْيَةٍ مِّن لِّقَائِهِ وَجَعَلْنَاهُ هُدًى لِّبَنِي إِسْرَائِيلَ ﴿23﴾ وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ ﴿24﴾ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ يَفْصِلُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ ﴿25﴾ أَوَلَمْ يَهْدِ لَهُمْ كَمْ أَهْلَكْنَا مِن قَبْلِهِم مِّنَ الْقُرُونِ يَمْشُونَ فِي مَسَاكِنِهِمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ أَفَلَا يَسْمَعُونَ ﴿26﴾ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَسُوقُ الْمَاء إِلَى الْأَرْضِ الْجُرُزِ فَنُخْرِجُ بِهِ زَرْعًا تَأْكُلُ مِنْهُ أَنْعَامُهُمْ وَأَنفُسُهُمْ أَفَلَا يُبْصِرُونَ ﴿27﴾ وَيَقُولُونَ مَتَى هَذَا الْفَتْحُ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴿28﴾ قُلْ يَوْمَ الْفَتْحِ لَا يَنفَعُ الَّذِينَ كَفَرُوا إِيمَانُهُمْ وَلَا هُمْ يُنظَرُونَ ﴿29﴾ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَانتَظِرْ إِنَّهُم مُّنتَظِرُونَ ﴿30﴾ |
الف، لام، میم۔ (1) بلا شک و شبہ یہ کتاب (قرآن) کی تنزیل تمام جہانوں کے پروردگار کی طرف سے ہے۔ (2) کیا وہ لوگ کہتے ہیں کہ اس (رسول(ص)) نے اسے خود گھڑ لیا ہے؟ (نہیں) بلکہ یہ آپ کے پروردگار کی طرف سے حق ہے تاکہ آپ اس قوم کو ڈرائیں جس کے پاس آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا۔ شاید کہ وہ ہدایت پا جائیں۔ (3) اللہ ہی وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی سب چیزوں کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر عرش پر متمکن ہوا اس کے سوا نہ تمہارا کوئی سرپرست ہے اور نہ کوئی سفارشی کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے؟ (4) وہ آسمان سے لے کر زمین تک ہر معاملہ کی تدبیر کرتا ہے اور پھر ہر معاملہ اس کی بارگاہ میں اس دن پیش ہوگا جس کی مقدار تمہارے شمار کے مطابق ایک ہزار سال ہوگی۔ (5) یہ ہے ہر پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا جو بڑا غالب ہے (اور) بڑا رحم کرنے والا ہے۔ (6) جس نے جو چیز بنائی بہترین بنائی اور انسان (آدم (ع)) کی خلقت کی ابتدائ گیلی مٹی سے کی۔ (7) پھر اس کی نسل کو ایک حقیر پانی (نطفہ) کے نچوڑ سے قرار دیا۔ (8) پھر اس کو درست کیا (اس کی نوک پلک سنواری) اور پھر اس میں اپنی (خاص) روح پھونک دی اور تمہارے لئے کان، آنکھیں اور دل (دماغ) بنائے مگر تم لوگ بہت کم شکر ادا کرتے رہو۔ (9) اور وہ (کفار) کہتے ہیں کہ جب ہم زمین میں گم (ناپید) ہو جائیں گے تو کیا ہم از سرِ نو پیدا کئے جائیں گے بلکہ (اصل بات یہ ہے کہ) یہ لوگ اپنے پروردگار کی بارگاہ میں حاضری کے منکر ہیں۔ (10) آپ کہہ دیجئے! کہ موت کا وہ فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے وہ تمہیں پورا پورا اپنے قبضے میں لیتا ہے پھر تم اپنے پروردگار کی طرف لوٹائے جاؤگے۔ (11) اور کاش! تم دیکھتے جب مجرم اپنے سر جھکائے اپنے پروردگار کی بارگاہ میں (کھڑے) ہوں گے اور (عرض کریں گے) اے ہمارے پروردگار! ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا تو (ایک بار دنیا میں) ہمیں واپس بھیج دے۔ (اب) ہم نیک کام کریں گے اب ہمیں یقین آگیا ہے۔ (12) اور اگر ہم (مشیتِ قاہرہ سے) چاہتے تو ہر متنفس کو اس کی ہدایت دے دیتے لیکن میری طرف سے یہ بات طے ہو چکی ہے کہ میں جہنم کو سب (نافرمان) جنوں اور انسانوں سے بھر دوں گا۔ (13) سو اس دن کی حاضری کو بھلا دینے کا (آج) مزا چکھو۔ (اب) ہم نے بھی تمہیں نظر انداز کر دیا ہے اور اپنے برے اعمال کی پاداش میں دائمی عذاب کا مزہ چکھو۔ (14) ہماری آیتوں پر بس وہی لوگ ایمان لاتے ہیں جن کو جب بھی ان (آیتوں) کے ساتھ نصیحت کی جائے تو وہ سجدے میں گر جاتے ہیں اور اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور وہ تکبر نہیں کرتے۔ (15) (رات کے وقت) ان کے پہلو بستروں سے الگ رہتے ہیں (اور) وہ بیم و امید سے اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں۔ (16) پس کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے (اچھے) اعمال کے صلہ میں ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کی کیا کیا نعمتیں چھپا کر رکھی گئی ہیں۔ (17) تو کیا جو مؤمن ہے وہ فاسق کی مانند ہو سکتا ہے؟ یہ برابر نہیں ہو سکتے۔ (18) پس جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل (بھی) کئے تو ان کے (اچھے) اعمال کے صلہ میں مہمانی کے طور پر ان کے (آرام) کے لئے جنتوں کی قیام گاہیں ہیں۔ (19) اور جنہوں نے نافرمانی کی ان کا ٹھکانا آتش دوزخ ہے وہ جب بھی اس میں سے نکلنا چاہیں گے تو اسی میں لوٹا دیئے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا کہ اسی آگ کے عذاب کا مزہ چکھو جسے تم جھٹلاتے تھے۔ (20) اور ہم انہیں (قیامت والے) بڑے عذاب سے پہلے چھوٹے عذاب کا مزہ چکھائیں گے تاکہ یہ باز آجائیں۔ (21) اور اس شخص سے بڑا ظالم کون ہوگا جسے اس کے پروردگار کی آیتوں کے ذریعہ سے نصیحت کی جائے (اور) پھر وہ ان سے روگردانی کرے۔ بے شک ہم مجرموں سے انتقام لینے والے ہیں۔ (22) اور بیشک ہم نے موسیٰ (ع)کو کتاب (توراۃ) عطا کی تھی۔ تو آپ کو ایسی کتاب کے ملنے پر شک میں نہیں پڑنا چاہیے اور ہم نے اسے بنی اسرائیل کے لئے ذریعۂ ہدایت بنایا تھا۔ (23) اور ہم نے ان میں سے بعض کو ایسا امام و پیشوا قرار دیا تھا جو ہمارے حکم سے ہدایت کیا کرتے تھے جب کہ انہوں نے صبر کیا تھا اور وہ ہماری آیتوں پر یقین رکھتے تھے۔ (24) بے شک آپ کا پروردگار قیامت کے دن ان کے درمیان فیصلہ کرے گا۔ ان باتوں میں جن میں وہ باہم اختلاف کیا کرتے تھے۔ (25) کیا اس بات سے بھی اللہ نے انہیں ہدایت نہیں کی کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی قوموں کو ہلاک کر دیا ہے جن کے مکانات میں یہ (آج) چل پھر رہے ہیں۔ بے شک اس میں (عبرت کیلئے) بڑی نشانیاں ہیں کیا یہ لوگ سنتے نہیں ہیں۔ (26) کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم بنجر زمین کی طرف پانی کو بہا لے جاتے ہیں پھر اس سے ایسی کھیتی اگاتے ہیں جس میں ان کے چوپائے بھی کھاتے ہیں اور خود بھی تو کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں ہیں۔ (27) اور وہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو (بتاؤ) یہ فتح (فیصلہ) کب ہوگا؟ (28) آپ کہئے کہ فتح (فیصلہ) والے دن کافروں کو ان کا ایمان لانا کوئی فائدہ نہ دے گا اور نہ ہی انہیں مہلت دی جائے گی۔ (29) سو آپ ان سے بے اعتنائی کریں اور انتظار کریں۔ وہ بھی انتظار کر رہے ہیں۔ (30) |
پچھلی سورت: سورہ لقمان | سورہ سجدہ | اگلی سورت:سورہ احزاب |
1.فاتحہ 2.بقرہ 3.آلعمران 4.نساء 5.مائدہ 6.انعام 7.اعراف 8.انفال 9.توبہ 10.یونس 11.ہود 12.یوسف 13.رعد 14.ابراہیم 15.حجر 16.نحل 17.اسراء 18.کہف 19.مریم 20.طہ 21.انبیاء 22.حج 23.مؤمنون 24.نور 25.فرقان 26.شعراء 27.نمل 28.قصص 29.عنکبوت 30.روم 31.لقمان 32.سجدہ 33.احزاب 34.سبأ 35.فاطر 36.یس 37.صافات 38.ص 39.زمر 40.غافر 41.فصلت 42.شوری 43.زخرف 44.دخان 45.جاثیہ 46.احقاف 47.محمد 48.فتح 49.حجرات 50.ق 51.ذاریات 52.طور 53.نجم 54.قمر 55.رحمن 56.واقعہ 57.حدید 58.مجادلہ 59.حشر 60.ممتحنہ 61.صف 62.جمعہ 63.منافقون 64.تغابن 65.طلاق 66.تحریم 67.ملک 68.قلم 69.حاقہ 70.معارج 71.نوح 72.جن 73.مزمل 74.مدثر 75.قیامہ 76.انسان 77.مرسلات 78.نبأ 79.نازعات 80.عبس 81.تکویر 82.انفطار 83.مطففین 84.انشقاق 85.بروج 86.طارق 87.اعلی 88.غاشیہ 89.فجر 90.بلد 91.شمس 92.لیل 93.ضحی 94.شرح 95.تین 96.علق 97.قدر 98.بینہ 99.زلزلہ 100.عادیات 101.قارعہ 102.تکاثر 103.عصر 104.ہمزہ 105.فیل 106.قریش 107.ماعون 108.کوثر 109.کافرون 110.نصر 111.مسد 112.اخلاص 113.فلق 114.ناس |
مونو گرافی
- ملاصدرا شیرازی، محمد، تفسیر سورہ سجدہ، ترجمہ رضا رجبزادہ، تہران، نشر محراب، 1362ش.
حوالہ جات
- ↑ خرمشاہی، «سورہ سجدہ»، ص۱۲۴۶.
- ↑ صفوی، «سورہ سجدہ»، ص۷۴۱.
- ↑ فخر رازی، مفاتیح الغیب، ۱۴۲۰ق، ج۲۵، ص۱۳۵؛
- ↑ معرفت، آموزش علوم قرآن، ۱۳۷۱ش، ج۲، ص۱۶۶.
- ↑ خرمشاہی، «سورہ سجدہ»، ص۱۲۴۶.
- ↑ رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۲ش، ص۳۶۰و۵۹۶.
- ↑ فرہنگنامہ علوم قرآن، ج۱، ص۲۶۱۲.
- ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۶، ص۲۴۳۔
- ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۶، ص۲۴۳۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ح۱۷، ص۱۰۵ -۱۰۶۔
- ↑ خامہگر، محمد، ساختار سورہہای قرآن کریم، تہیہ مؤسسہ فرہنگی قرآن و عترت نورالثقلین، قم، نشر نشرا، چ۱، ۱۳۹۲ش.
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۸، ص۵۱۸؛ واحدی، اسباب نزول القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۳۶۱.
- ↑ شیخ صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۴۸۲.
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۸، ص۵۱۹؛ محقق، نمونہ بینات در شأن نزول آیات، ۱۳۶۱ش، ص۶۱۸.
- ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۶، ص۲۴۴.
- ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۷، ص۳۶۲.
- ↑ مغنیه، الکاشف، ۱۴۲۴ق، ج۶، ص۱۷۸.
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۷، ص۱۱۱.
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۷، ص۱۲۳-۱۲۴.
- ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۶، ص۲۴۹.
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۸، ص۵۰۸.
- ↑ بحرانی، البرہان، ۱۴۱۶ق، ج۴، ص۳۸۵.
نوٹ
- ↑ قرآن کی 16 سورتوں کو سیوطی ممتحنات میں شمار کرتے ہیں۔ رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۲ش، ص۵۹۶ ان سورتوں میں: سورہ فتح، حشر، سجدہ، طلاق، قلم، حجرات، تبارک، تغابن، منافقون، جمعہ، صف، جن، نوح، مجادلہ، ممتحنہ اور تحریم شامل ہیں۔ (رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۲ش، ص۳۶۰۔)
مآخذ
- قرآن کریم، ترجمہ محمد حسین نجفی (سرگودھا)۔
- قرآن کریم، ترجمہ محمدمہدی فولادوند، تہران، دارالقرآن الکریم، ۱۴۱۸ق/۱۳۷۶ش۔
- رامیار، محمود، تاریخ قرآن، تہران، انتشارات علمی و فرہنگی، ۱۳۶۲ش۔
- بحرانی، سیدہاشم، البرہان فی تفسیر القرآن، قم، مؤسسہ بعثت، چاپ اول، ۱۴۱۵ق۔
- خرمشاہی، قوام الدین «سورہ سجدہ»، در دانشنامہ قرآن و قرآنپژوہی، بہ کوشش بہاءالدین خرمشاہی، تہران، دوستان-ناہید، ۱۳۷۷ش۔
- صدوق، محمد بن علی، من لایحضر الفقیہ، بہ تصحیح علی اکبر غفاری، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ دوم، ۱۴۱۳ق۔
- صفوی، سلمان، «سورہ سجدہ»، در دانشنامہ معاصر قرآن کریم، قم، انتشارات سلمان آزادہ، ۱۳۹۶ش۔
- طباطبایی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، موسسہ الاعلمی للمطبوعات، ۱۳۹۰ق۔
- طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، بہ تصحیح فضلاللہ یزدی طباطبایی و ہاشم رسولی، تہران، ناصر خسرو، چاپ سوم، ۱۳۷۲ش۔
- فرہنگنامہ علوم قرآن، قم، دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم۔
- فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر (مفاتیح الغیب)، بیروت، دار أحیاء التراث العربی، ۱۴۲۰ق۔
- محقق، محمدباقر، نمونہ بینات در شأن نزول آیات، تہران، انتشارات اسلامی، چاپ چہارم، ۱۳۶۱ش۔
- معرفت، محمدہادی، آموزش علوم قرآن، [بیجا]، مرکز چاپ و نشر سازمان تبلیغات اسلامی، چ۱، ۱۳۷۱ش۔
- مغنیہ، محمدجواد، تفسیر الکاشف، قم، دارالکتاب الاسلامیہ، ۱۴۲۴ق۔
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ دہم، ۱۳۷۱ش۔
- واحدی، علی بن احمد، اسباب نزول القرآن، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۱ق۔