آل ادریس

ویکی شیعہ سے
آل ادریس
آل ادریس
معلومات حکومت
دوسرے نامادریسیون
بانیادریس بن عبد الله‎ بن‎ حسن ‎بن ‎حسن ‎بن‎ علیؑ
تاریخ تأسیسسنہ 172ہجری
جغرافیایی حدودمراکش اور جزائر کے کچھ خطے
طرز حکومتمقامی
اہم اقداماتکئی شہروں کی تعمیر، خطے میں اقتصادی اور ثقافتی خوشحالی
علت زوالاندلسی امویان اور فاطمیون کے آس پاس کی بڑی طاقتوں کے طویل المدتی حملے
افراد
مشہور حکمرانادریس بن عبد الله ‎بن ‎حسن ‎بن‎ حسن ‎بن‎ علی(ع)(ادریس اکبر)، ادریس ‎بن‎ ادریس بن عبدالله، یحیی ‎بن‎ ادریس‎ بن‎ عمر


حکومت ادریسیون مراکش میں پہلی اسلامی حکومت کا نام ہے جسے بعض مورخین نے دنیا کی پہلی شیعی حکومت قرار دی ہے۔ دوسری صدی ہجری کے اواخر میں امام حسن مجتبی علیہ السلام کے پوتوں میں سے ایک کے ذریعے اس حکومت کا قیام عمل میں آیا، تاریخ میں ان کا نام ادریس بن عبد اللہ بتایا گیا ہے۔

ادریسی حکومت کا مراکش اور موجودہ الجزائر کے کچھ علاقوں پر دو صدیوں تک اقتدار قائم رہا اور آخر کار سنہ 375 ہجری میں اندلس کے امویوں کے ہاتھوں ادریسی حکمران کے قتل سے ان کی حکومت زوال کا شکار ہوئی۔

اسلام کی ترویج، تہذیب و تمدن کے پھلنے پھولنے، عدل و انصاف کو عام کرنے اور معاشی خوشحالی ایجاد کرنے میں ادریسیوں کا اہم کردار رہا ہے۔ ادریسیوں کے دور حکومت میں قَرَوییّن یونیورسٹی کی بنیاد رکھی گئی، جسے دنیا کا پہلا اعلیٰ تعلیمی ادارہ سمجھا جاتا ہے اور آج بھی فعال ہے۔

کہا جاتا ہے کہ حالات کی ناسازگاری کے بموجب انہوں نے مراکش میں شیعہ مذہب کی تبلیغ کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا۔ ان کا طرز حکمرانی شورائی (مشاورتی) تھا اور حکومتی فیصلوں میں امرا اور سرکردگان کا کردار اہم تھا۔ اسی نکتے کی وجہ سے ادریسی سیاست کو اسلامی سیاسی نظام کے قریب ترین نظام سمجھا جاتا ہے۔

تمام معاملات کو بہتر انداز میں چلانے کی صلاحیت اور پیغمبر اسلامؐ کی طرف ان کا انتساب اس بات کا باعث بنا کہ ان کی حکومت کو عوامی طور پر انتہائی درجے کی مقبولیت نصیب ہوئی۔ انہوں نے اقتدار کے حصول اور اس کے استحکام کے لئے طاقت کا استعمال نہیں کیا۔

آج بھی آل ادریس شرفاء کے طور پر جانے جاتے ہیں اور اہل مراکش ان کا احترام کرتے ہیں۔ جُوطی، مَشیشی، عَلَمی اور وزانی ادریسی خاندانوں میں سے ہیں۔

اہمیت

ادریسی حکومت عالم اسلام میں پہلی شیعی حکومت اور مراکش میں پہلی اسلامی حکومت کے طور پر جانی جاتی ہے۔[1] کہتے ہیں کہ مراکش میں اسلام پھیلانے میں اس حکومت کا اہم کردار رہا ہے۔[2] نیز اس حکومت کو عالم اسلام کے مغربی حصے میں موثر ترین ریاست کے طور پر جانا جاتا ہے[3] جو ایک شاندار دور تخلیق کرنے میں کامیاب رہی۔[4]

تعلیمی اور ثقافتی اقدامات

میدان تہذیب و ثقافت میں ادریسیون کے اثر و رسوخ کو مضبوط اور اہم قرار دیا گیا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس دور میں مراکشی تہذیب کو بہت فروغ ملا تھا۔[5] قَرَوییّن مسجد اور یونیورسٹی جو کہ دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی کے طور پر گنیز بک میں درج ہے[6] ادریسی دور حکومت میں قائم ہوئی تھی۔[7] شہر فاس، جہاں یہ مسجد اور یونیورسٹی واقع ہے، بھی ادریسی حکومت کے آغاز میں تعمیر کیا گیا تھا اور اس کے بعد کے ادوار میں دوسرے ممالک کے علماء کے لیے ایک علمی مرکز اور محل رفت و آمد میں تبدیل ہوچکا تھا۔[8] یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس دور میں میدان ادب میں بھی نمایاں طور پر ترقی ہوئی۔[9]

سماجی میدان میں اقدامات

شرعی احکام کی پیروی کرتے ہوئے عربوں و غیر متمدن افریقیوں کے درمیان مساوات قائم کر کے عدل اور معیشت کے میدان میں کامیابی حاصل کرنا اس حکومت کی خصوصیات میں سے ایک ہے۔[10] عرب نسل کی نسبت ادریسیون کا عدم تعصب ان غیر مہذب لوگوں کی حوصلہ افزائی کاباعث بنا اور انہیں اپنی طرف راغب کیا جو اس سے پہلے عربوں کی اجارہ داری پر اعتراض کیا کرتے تھے[11] اور ان کے ساتھ خاندانی تعلق قائم کرنے سے ادریسیون کی حکومت کی بنیادیں مضبوط ہوئیں۔[12]
ادریسی دور حکومت میں خواتین کے لیے مقام و مرتبے حاصل ہونا بھی ان کے مثبت نکات میں سے سمجھا جاتا ہے۔[13] اس سلسلے میں حکومت کے انتظام و انصرام میں ادریس اول کی بیوی کِنزہ اور ادریس دوم کی بیوی حُسنی کے کردار کا ذکر کیا گیا ہے۔[14] قَرَوییّن مسجد اور یونیورسٹی کی بانی بھی فاطمہ الفہری نامی ایک خاتون تھی۔[15]

سیاست میں حکومت ادریسیہ کی خصوصیات

کتاب "تاریخ و تہذیب مغرب" کے مصنف کے مطابق، ادریسیہ حکومت کی روش حکمرانی اسلام کے مد نظر امامت والی حکمرانی کے قریب ترین طرز حکمرانی تھی۔[16] اس تحلیل کے مطابق انہوں نے ظلم و جبر، عسکری طاقت یا مکر و حیلہ سے خود کو عوام پر مسلط نہیں کیا؛ بلکہ لوگ ان کی شائستگی و صلاحیت اور پیغمبر اسلامؐ کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے ان کی طرف راغب ہوئے۔ ادریسیہ حکومت کے سیاسی ڈھانچے میں اقتدار صرف امام کے لیے مخصوص نہیں تھا؛ ان کا سیاسی نظام ایک شورائی نظام تھا جس میں قبائلی عمائدین حکومتی فیصلوں میں اپنا کردار ادا کرتے تھے۔ اسی وجہ سے لوگ ان کی حکومت کو خالصتاً عوامی حکومت مانتے تھے۔ لوگوں کے ان کے ساتھ اسی نوعیت کے تعلقات کی وجہ سے زنادقہ گروہ کمزور ہوکر رہ گیا۔[17]

تاریخ کے محققین کے مطابق ادریسی حکمران اپنے مخالفین کو میدان عمل میں آزادی دیتے تھے۔ مثال کے طور پر انہوں نے ایسے چند گروہوں کو پناہ دی رکھی تھی جو سیاسی اور مذہبی طور پر ان کا مخالف تھے[18] یہاں تک کہ ان میں سے بعض لوگوں کو وزارت کا قلمدان بھی سونپ رکھا تھا۔[19]
ان کی حکومت میں نہ لوگوں سے بھاری ٹیکس وصول کیا جاتا تھا نہ ان کے پاس محلات تھے اور نہ ہی وہ عیش و عشرت اور ناز و نعمت کی زندگی کرنے کے شوقین تھے۔ ان میں سے صرف ایک شخص راہ انحراف پر چل پڑا تو خود لوگوں نے اسے حکومتی منصب سے برطرف کر دیا۔[20]

اگرچہ ادریسیون کی حکومت روحانی اور معنوی طور پر طاقتور تھی اور لوگوں میں ان کا احترام کیا جاتا تھا، لیکن ان کے پاس سیاسی اور عسکری طاقت کا فقدان تھا[21] ساتھ ہی ساتھ ان کی حکومت انتظامی کمزوری کا بھی شکار تھی۔ یہ کمزوریاں باعث بنیں کہ وہ لوگ دشمنوں کے مقابلے میں شکست سے دوچار ہوئے۔[22]

ادریسی مذہب کے بارے میں اختلاف

ادریسی مذہب کے بارے میں صرف چند ایک تاریخی دستاویزات پایے جاتے ہیں اسی وجہ سے ان کے مذہب کے بارے میں مورخین مختلف آراء رکھتے ہیں۔[23] بعض نے سلسلہء ادریسیہ کے بانی ادریس بن عبد اللہ کو شیعہ[24] جانا ہے اور ادریسی حکومت کو شیعہ حکومت قرار دیا ہے۔[25] دوسری طرف، بعض مورخین نے اس امکان کے خلاف بات کی ہے اور اس پر استدلال بھی کیا ہے۔[26] بعض کی طرف سے یہ احتمال بھی دیا گیا ہے کہ ادریسی خاندان اصل میں شیعہ تھے اور مراکش میں مالکی مذہب کے پھیلنے کے بعد ان لوگوں نے بھی سنی مذہب اختیار کیا۔[27] البتہ اس سلسلے میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ موجودہ دور میں ادریسیہ قبیلہ بازمندگان اہل سنت ہیں۔[حوالہ درکار]

وہ محققین جو ادریسیہ خاندان کو شیعہ سمجھتے ہیں ان میں اختلاف ہے کہ آیا وہ زیدیہ تھے[28] یا اسماعیلی تھے[29] یا شیعہ بارہ امامی تھے؟[30] نیز کہا گیا ہے کہ ادریسیہ شیعہ مذہبی لحاظ سے کمزور طبقہ تھے جو مذہبی سے زیادہ سیاسی تھے۔[31]

ادریسیوں کے شیعہ ہونے کے دلائل

ادریسیوں کے شیعہ ہونے کے جو دلائل پیش کیے گئے ہیں ان میں سے کچھ یہ ہیں: ادریس کے خطبات میں صراحتاً اہل بیتؑ کو خلافت کےحقدار ٹھہرائے گئے ہیں؛ ادریسی دور کے سکوں پر امام علیؑ کا نام اور جملہ "علیٌ خیرُ النّاس بعدَ النَّبی؛ رسول خداؐ کے بعد علیؑ سب سے بہتر شخص ہے" اور کندہ تھے؛ ابو الحسن اشعری اور ابن خلدون جیسے شخصیات نے صراحتاً ادریسیہ خاندان کو شیعہ خاندان کہا ہے نیز ادریسیہ خاندان کے بعد کے حکمرانوں نے ان کی شیعیت کا اعتراف کیا ہے۔[32]
کہا جاتا ہے کہ ادریسیون کے زمانے میں مراکش میں شیعہ مذہب فروغ پانے کے لیے ماحول سازگار نہیں تھا اور انھوں نے بھی شیعہ مذہب کی ترویج کی کوشش نہیں کی۔ اگر اس سلسلے میں کوئی اقدام کیا گیا بھی تو بعد کے ادوار میں ان کے کاموں کا خاتمہ کر دیا گیا۔ [33] اس کے بجائے انہوں نے خوارج کے خلاف جنگ کی اور اہل بیتؑ کی محبت کو پھیلایا نیز عیسائیوں میں اسلام کی تبلیغ کی شروع کی۔[33]

ادریسی حکومت کے نشیب و فراز

ادریسی حکومت کا نقطہ آغاز ادریس بن عبد اللہ کی مراکش کی طرف ہجرت تھا۔ وہ چونکہ قیام فخ کے واقعے سے زندہ بچ جانے والوں میں سے تھا[34] خفیہ طور پر اور راشد نامی ایک غلام کی حیثیت سے، جو دراصل اس کا اپنا غلام تھا، [35] ایک تجارتی کارواں کے ساتھ مدینہ سے مصر اور وہاں سے مراکش کی طرف ہجرت کی۔[36] کہا جاتا ہے کہ راشد نے علوی ادریسی حکومت کے قیام اور استحکام میں اہم کردار ادا کیا۔[37] بعض کا خیال ہے کہ ادریس نے بغیر کسی منصوبہ بندی کے صرف عباسیوں کے ظلم و ستم سے چھٹکارا پانے کے لیے سفر کرنے کا فیصلہ کیا اور اس نے اس لیے مراکش کا انتخاب کیا کیونکہ اس کا غلام افریقی نژاد شخص تھا؛ لیکن دوسرے بعض محققین کا خیال ہے کہ ادریس کا سفر ایک سابقہ منصوبے کا حصہ اور اس سلسلے کی ایک کڑی تھا۔[38] کہا جاتا ہے کہ ادریسی برادران کی افریقہ اور خاص طور پر تِلِمسان میں موجودگی نے ان کے سفر کے لیے ماحول فراہم کیا تھا۔ اس سلسلے میں یہاں تک کہا گیا ہے کہ یہ ادریس کا مراکش کا پہلا سفر نہیں تھا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ وہاں "حلوانی" اور "سفیانی" تبلیغی مشن پر گئے تھے جنہیں امام جعفر صادقؑ نے مراکش کے لیے بھیجا تھا۔[39]

ادریس "تنجہ" میں تقریباً دو سال رہنے کے بعد، جہاں اسے تبلیغی مشن میں کامیابی نہیں ملی،[40] شہر "ولیلی" چلے گئے، جہاں "اوربہ" قبیلے کے سربراہ اسحاق بن محمد نے ان کا استقبال کیا۔ اسحاق نے اپنی بیٹی کا نکاح ادریس سے کر دیا، ساتھ ہی ساتھ اس کے حق میں دستبردار ہو کر اپنی قوم کو ادریس کی بیعت کرنے کی دعوت دی۔ اوربہ قبیلے کے بعد کئی دوسرے قبائل نے بھی ادریس کی بیعت کی[41] اور اس طرح سنہ 172 ہجری میں بربر قبائل کی بیعت سے ادریسی حکومت کا قیام عمل میں آیا۔[42] اس کی حکومت کئی نشیب و فراز کے ساتھ برقرار رہی؛ آخرکار اندلس کے امویوں اور فاطمیوں کے ساتھ تنازعے میں یہ حکومت اختتام پذیر ہوئی۔[43]

ادریسی حکومت کے تاریخی ادوار

ادریسی حکومت کی تاریخ کو دو ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے: پہلا دور اقتدار اور حکومت کا دور تھا جبکہ دوسرا دور اقتدار کے دوبارہ حصول کے لیے بے نتیجہ کوششیں کرنے اور بالآخر زوال کا دور۔[44]

ادریسی حکومت کا سب سے طاقتور حکمران یحییٰ چہارم، جو طاقت اور حکومتی قلمرو میں وسعت کے لحاظ سے ادریسی حکومت کے تمام حکمرانوں کا سردار مانا جاتا تھا، کو فاطمیوں کی آمد اور فاس پر ان کے حملے کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ اس جنگ میں شکست کھا کر فاطمیوں کے زیر تسلط آگیا۔ اس بات پر اتفاق ہوا کہ فاس کا حکمران اپنے منصب پر برقرار رہے گا لیکن وہ فاطمی خلیفہ کے نام خطبہ پڑھے گا۔ ادریسیوں کا باقی علاقہ بھی فاطمیوں کے مقرر کردہ حکمران موسیٰ بن ابی العافیہ کے حوالے کر دیا گیا۔ موسی، جو کہ علاقہ فاس بھی حاصل کرنا چاہتا تھا، نے کچھ عرصے بعد یحییٰ کو قید کر کے تشدد کا نشانہ بنایا اور اس کی جائیداد پر قبضہ کرلیا[45] اور اسے اہل خانہ سمیت جلاوطن کر دیا۔ اس طرح اس نے ادریسیوں کا پورا قلمرو اپنے قبضے میں لیا۔[46]

کچھ عرصہ بعد ادریسی خاندان کا ایک فرد جس کا نام حسن بن محمد حجام تھا، فاس میں قیام کیا اور اس نے اس کے اور کئی قریبی شہروں کا انتظام و انصرام سنبھال لیا۔ لیکن اس کی حکومت قائم نہ رہ سکی اور تقریباً دو سال بعد موسیٰ نے ایک بار پھر فاس پر غلبہ حاصل کر لیا اور اس بار اس نے ادریسی خاندان کو "حَجَرالنَّسر کوچاند" قلعہ میں منتقل کر دیا اور انہیں قید کر لیا۔[47] حَجَرالنَّسر میں چند سال رہنے کے بعد ادریسیوں نے مناسب وقت پر قلعہ کے کمانڈر کو قتل کر دیا اور وہاں سے نکلنے کے بعد ارد گرد کے قبائل کی قیادت سنبھال لی؛[48] لیکن اس بار بھی وہ ایک آزاد حکومت بنانے میں ناکام ہوئے اور اندلس کے اموی خلیفہ کا حکم ماننے پر مجبور ہوا۔[49]

سیاسی لحاظ سے ناکام منصوبہ بندیوں کے بدولت ادریسیوں کی حکومت کئی بار امویوں اور فاطمیوں کے ہاتھوں پہنچ گئی اور آخر کار سنہ 375 ہجری میں وقت کے ادریسی حکمران کو قتل کیا گیا اس طرح ان کی حکومت زوال کی شکار ہوگئی۔

واضح رہے کہ تقریباً تیس سال بعد آل ادریس کے زندہ بچ جانے والوں میں سے ایک علی بن حَمّود نامی شخص اندلس کی اموی حکومت کا تختہ الٹ کر اندلس میں بنی حَمّود حکومت کے نام سے ایک نئی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوا۔[50] اس کے علاوہ، 14ویں صدی ہجری کے پہلے نصف میں، ادریسیوں میں سے ایک نے جزیرہ نما عرب کے محدود علاقوں میں حکومت قائم کی اور ادریسی حکومت کے نام کو ایک بار پھر زندہ کیا۔[51]

حکومت ادریسیہ کے حاکمان

ادریس بن عبد اللہ بن حسن مثنی، امام حسن مجتبیؑ کے پوتوں میں سے تھے اور ادریسی حکومت کے بانی حکمران تھے۔ وہ ایک نیک انسان، فاضل، خوش اخلاھ، انصاف پسند، بہادر، سخی اور شاعر کے طور پہچانے جاتے تھے۔[52] ادریسی حکومت کی داغ بیل ڈالے جانے اور ابتدائی فتوحات کے بعد، ہارون رشید نے خطرہ محسوس کیا؛ لہذا سلیمان بن جریر نامی ایک شخص کو ادریسی حکومت کے خاتمے کے لیے بھیجا۔ سلیمان بن جریر شَمّاخ کے نام سے جانا جاتا تھا اور فرقہ زیدیہ کے ماہرین الٰہیات میں سے تھا۔[53] شماخ نے ادریس کی قربت حاصل کی اور اس کے ہاں اعلیٰ مقام کا حامل ٹھہرا۔ وہ مجالس میں اہل بیتؑ کے فضائل بیان کرتا تھا اور ادریس کی امامت کے حق میں دلیلیں پیش کرتا تھا، ایک دن راشد کی غیر موجودگی میں اس نے ادریس کو زہر دیا اور بھاگ گیا۔[54]
ادریس کی موت کے بعد اس کے غلام راشد کی حکمت و تدبیر نے ادریس کی نوزائیدہ حکومت کو کالعدم ہونے سے بچا لیا۔ راشد نے عمائدین کو جمع کیا اور انہیں مشورہ دیا کہ ادریس کی بیوی حاملہ ہے اس کے وضع حمل ہونے تک انتظار کریں۔ پیدا ہونے والا بچہ اگر لڑکا ہو تو اس کی بیعت کریں اور اگر لڑکی ہو تو ان میں سے کسی ایک کو چن لیا جائے گا۔ یہ طے ہونے کے بعد کہ ادریس کا بچہ لڑکا ہے، اس کا نام اس کے والد کے نام پر رکھا گیا۔ خود راشد نے اس کی پرورش کی ذمہ داری سنبھالی۔ اسے فقہ، حدیث تعلیم دی اور جنگی اصول ضوابط سکھائے۔ گیارہ سال کی عمر میں سب سے اس کی بیعت دلوائی گئی۔[55] ادریس ثانی نے سترہ سال کی عمر میں مستقل طور پر حکومت کی باگ ڈور سنبھال لی۔[56] مجموعی طور پر ادریسی حکومت کے 13 حاکموں نے حکومت کی، ان میں سے 9 حاکموں کا تعلق پہلے دورے سے تھا اور چار حاکموں کا تعلق دوسرے دورے سے تھا اور فاطمیون اور امویوں کو ٹیکس دیتے تھے:[57]

  • ادریس اول
  • ادریس دوم
  • محمدبن ادریس (المُنتَصِر)
  • علی بن محمد بن ادریس
  • یحیی (اول) بن محمد
  • یحیی(دوم) بن یحیی
  • علی بن عمر بن ادریس
  • یحیی (سوم) المقدام
  • یحیی (چهارم)
  • حسن الحجام
  • قاسم بن محمد
  • ابوالعیش احمد بن قاسم
  • حسن‎ بن‎ قاسم گنون

ادریسیون کےسیاسی تعلقات

خوارج ادریسیوں کی ہمسایہ ریاستوں میں سے تھے۔ ان کا آپس میں عقیدتی اور سیاسی لحاظ سے تعلقات کشیدہ تھے۔ ادریس ثانی نے خوارج کے ساتھ سخت اقدامات کیے۔ اس کے بیٹے کے بھی ان کے ساتھ کشیدہ تعلقات تھے۔[58] خوارج اور ادریسیوں کے درمیان تصادم ادریسیوں کی حکومت کے پہلے دور کے اختتام تک جاری رہا اور ایک بار، علی بن عمر بن ادریس کے دور میں، یہ تصادم ادریسیوں کے دارالحکومت کے کچھ حصوں پر قبضہ کرنے پر منتج ہوا۔ [59] ادریس کے اموی پڑوسیوں کے ساتھ بھی تعلقات دشمنی کی بنیاد پر تھے۔ البتہ ادریسیوں کے دوسرے دور کے حاکم ابو العیش احمد بن قاسم کے زمانے میں وہ امویوں کے دوست بن گئے۔[60]

ادریسی حکومت کے اکثر دوسرے ہمسایوں نے اگرچہ بعض اوقات بنی امیہ کے خلاف ان کا ساتھ دیا لیکن ادریسیون پر عباسی خلافت کے دباؤ کا سبب تھے۔[61]فاطمیون نے بھی ادریسیون کے ساتھ دوہرے معیار کے تعلقات قائم کرکھے تھے، آخر کار انہوں نے آل ادریس کے حکومتی قلمرو کو اپنے قبضے میں لیا اور ان سے ٹیکس وصول کرنے لگے۔[62]

ادریسی حکومت کے اوج اقتدارکا زمانہ

تاریخی نقل کے مطابق ادریسی حکومت نے شارلمانی دربار میں اپنا سفیر بھیجا ہے۔[63]

ادریسیون کے حکومتی قلمرو

ادریسیون کا قلمرو حکومتی مغرب الاقصیٰ تک تھا جو آجکل کے مراکش اور موجودہ الجزائر کے دونوں ممالک کی زمینوں پر اطلاق آتا ہے۔[64] ادریسی حکومت کا پہلا دور اقتدار اور آزادی کا دور تھا جس کے تحت وہ اپنے حکومتی قلمرو کو شمال میں "وَہران" اور "تِلِمسان" تک پھیلانے میں کامیاب رہے۔[65] اس کے ساتھ ساتھ جنوب میں، انہوں نے سوس الاقصیٰ اور یہاں تک کہ اس کے دیگر جنوبی علاقوں تک پیش قدمی کی۔[66] دریائے مولویہ کو بھی ان کی حکمرانی کی مشرقی سرحد کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے۔[67] ادریسی حکومت کے پہلے دور میں، شہر فاس ان کا دار الحکومت ہوا کرتا تھا جسے ادریس ثانی کے حکم سے تعمیر کیا گیا تھا۔[68] ان کے دوسرے دور میں ان کا قبضہ کچھ شہروں جیسے بَصره (طَنجَہ و فاس‌ کے درمیان میں مغرب اقصیٰ کا ایک شہر[69])، اَصیل و حَجَرالنَّسر کے علاوہ دوسرے مقامات تک نہیں ہوسکا[70]

تاریخ میں ادریسیون کے بااثر شخصیات

ادریسیون شرفا کے عنوان سے جانے جاتے تھے، ان کی شرافت و بزرگی کی وجہ سے مراکش کے لوگ آج بھی ان کا احترام کرتے ہیں۔[71] پوری تاریخ میں ادریسی خاندان میں ایسے بااثر اور مشہور لوگ گزرے ہیں جنہوں نے مختلف تعلیمی، ثقافتی اور سیاسی میدانوں میں اپنے آثار چھوڑے ہیں۔ شریف ادریسی، عبدالقادر جزائری، محمد بن علی العلوی اور غِماری برداران ادریسی خاندان کی معروف شخصیات میں سے تھے۔

  • شریف ادریسی

محمد بن محمد ادریسی المعروف شریف ادریسی پانچویں اور چھٹی صدی ہجری کے جغرافیہ دان ہیں تھے۔ وہ اندلس کے حمودیوں کی نسل سے تھے اس حوالے سے وہ ادریسیوں کی اولاد میں سے تھے۔[72] ناسا (NASA) نے پلوٹو سیارے کے ایک خطے کا نام ان کے نام پر رکھا ہے۔[73] ان کا تذکرہ ایک ڈاکٹر، دوائی شناس اور بڑے شاعر کے طور پر بھی کیا جاتا ہے اور ان کی کتاب "نُزهَۃُ المُشتاق فی اِختراقِ الآفاق" کو جغرافیہ میں ایک اہم اثر کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے۔[74] انہوں نے چاندی سے کرہ ارض کا ایک چھوٹا سا ماڈل گول شکل میں بنایا جو اب دستیاب نہیں ہے۔ لیکن اس ماڈل کے تیار کردہ نقشے اب بھی دستیاب ہیں اور ایک جرمن محقق کونریڈ ملر نے اسے سنہ 1997ء میں شائع کیا۔[75]

  • غماری برادران

احمد، عبد العزیز اور عبد اللہ غماری آخری صدیوں میں سب سے نمایاں اہل سنت علماء میں سے تھے۔[76] یہ لوگ ابن تیمیہ اور محمد بن عبد الوہاب کے مخالف[77] اور نسل ادریسیون میں سے تھے۔[78]

  • محمد بن علوی العلوی: 15ویں صدی کے مالکی فقہاء اور وہابیت کے ناقدین میں سے تھے۔[79]
  • محمد بن علی ادریسی: وہ ادریسی خاندان کے ان افراد میں سے تھے جنہوں نے 14ویں صدی ہجری میں جزیرہ نما عرب کے کچھ حصوں میں حکومت قائم کی، جو ادریسی حکومت کے نام سے مشہور ہے۔[80] اس حکومت نے سنہ 1327ہجری کو صبیا، تہامہ، عسیر اور جازان کا انتظام سنبھالا اور سنہ 1351 ہجری میں آل سعود کے حملے میں ان کی حکومت ختم ہوگئی۔[81]

فوٹو گیلری

حوالہ جات

  1. ذکاوت، «تأملی در مورد چگونگی شکل‌گیری حکومت ادریسیان»، ص97.
  2. ذکاوت، «تأملی در مورد چگونگی شکل‌گیری حکومت ادریسیان»، ص97.
  3. عالم‌زاده، و آبانگاه،«مذهب ادریسیان»، ص86.
  4. مونس، تاریخ و تمدن مغرب، ج1، ص392.
  5. سا‌ئحی‌، الحضاره الاسلامیه فی المغرب، 1406ھ، ص150.
  6. «قدیمیترین موسسه آموزش عالی»، سایت گینس.
  7. مونس، تاریخ و تمدن مغرب، مرکز تحقيق و توسعه علوم انسانی، ج1، ص363.
  8. سلاوی، الاستقصا لاخبار المغرب الاقصی، دار الکتاب، ج1 ص224.
  9. سا‌ئحی‌، الحضاره الاسلامیه فی المغرب، 1406ھ، ص153.
  10. سعدون، تاریخ العرب السیاسی فی المغرب من الفتح العربی حتى سقوط غرناطه، به نقل از دانش‌کیا، «گرایش مذهبی ادریسیان»، ص19.
  11. مکی، تشیع در اندلس، 1376ہجری شمسی، ص17.
  12. عالم‌زاده، و آبانگاه،«مذهب ادریسیان»، ص84.
  13. سا‌ئحی‌، الحضاره الاسلامیه فی المغرب، 1406ھ، ص161.
  14. سا‌ئحی‌، الحضاره الاسلامیه فی المغرب، 1406ھ، ص161.
  15. ابن خلدون، تاریخ إبن خلدون، 1408ھ، ج4، ص20.
  16. مونس، تاریخ و تمدن مغرب، سمت، ج1، ص374-377.
  17. مونس، تاریخ و تمدن مغرب، 1384ہجری شمسی، ج1، ص377-380.
  18. کنون، النبوغ المغربي في الأدب العربي، ج1، ص46.
  19. عالم‌زاده، و آبانگاه،«مذهب ادریسیان»، ص86.
  20. مونس، تاریخ و تمدن مغرب، 1384ہجری شمسی، ج1، ص377-380.
  21. مونس، تاریخ و تمدن مغرب، 1384ہجری شمسی، ج1، ص377-380.
  22. میلی جزائری، تاریخ الجزائر فی القدیم والحدیث، 1406ھ، ج2، ص112.
  23. عالم‌زاده، و آبانگاه، «مذهب ادریسیان»، ص73.
  24. زبیب، دولة التشیع فی بلاد المغرب، 1413ھ، ص100؛
  25. سا‌ئحی‌، الحضاره الاسلامیه فی المغرب، 1406ھ، ص145.
  26. عالم‌زاده، و آبانگاه، «مذهب ادریسیان»، ص73.
  27. سا‌ئحی‌، الحضاره الاسلامیه فی المغرب، 1406ھ، ص145.
  28. میلی جزائری، تاریخ الجزائر فی القدیم والحدیث، 1406ھ، ج2، ص97؛ جعفریان، اطلس شیعه، 1387ہجری شمسی، ص549.
  29. مقدسی، احسن التقاسیم فی معرفة الاقالیم، 1361ہجری شمسی، ج1، ص341.
  30. دانش‌کیا، «گرایش مذهبی ادریسیان»، شماره40، ص87.
  31. جعفریان، اطلس شیعه، 1387ہجری شمسی، ص549.
  32. دانش‌کیا، «گرایش مذهبی ادریسیان»، ص86-87.
  33. 33.0 33.1 دانش‌کیا، «گرایش مذهبی ادریسیان»، ص91.
  34. مقدسی، احسن التقاسيم في معرفه الاقاليم، دار صادر، ص243.
  35. سنوسی‌، الدرر السنیه فی أخبار السلالة الإدریسیه، 1349ھ، ص44.
  36. ذکاوت، «تأملی در مورد چگونگی شکل‌گیری حکومت ادریسیان»، ص97.
  37. مونس، تاریخ و تمدن مغرب، 1384ہجری شمسی، ج1، ص353.
  38. مونس، تاریخ و تمدن مغرب، ج1، ص346.
  39. زبیب، دولة التشیع فی بلاد المغرب، 1413ھ، ص8.
  40. مونس، تاریخ و تمدن مغرب، ج1، ص353.
  41. سلاوی، الاستقصا لاخبار دول المغرب الاقصی، دار الكتاب، ج1، ص208-216.
  42. اب‍ن‌ ع‍ذاری‌، البيان المغرب فی أخبار الأندلس و المغرب، 1400ھ، ج1، ص83.
  43. سلاوی، الاستقصا لاخبار دول المغرب الاقصی، دار الكتاب، ج1، ص261.
  44. مونس، تاریخ و تمدن مغرب، 1384ہجری شمسی، ج1، ص366.
  45. [1] سلاوی، الاستقصا لاخبار دول المغرب الاقصی، دار الكتاب ج1، ص239.
  46. مونس، تاریخ و تمدن مغرب، 1384ہجری شمسی، ج1، ص365-366.
  47. سلاوی، الاستقصا لاخبار دول المغرب الاقصی، دار الكتاب، ج1، ص240-242.
  48. مونس، تاریخ و تمدن مغرب، 1384ہجری شمسی، ج1، ص366-367
  49. مونس، تاریخ و تمدن مغرب، 1384ہجری شمسی، ج1، ص371.
  50. سلاوی، الاستقصا لاخبار دول المغرب الاقصی، دار الكتاب، ج1، ص255-261.
  51. «الادریسی، محمد بن علی الادریسی»،موضوع.
  52. اصفهانی، مقاتل الطالبین، 1419ھ،ص409؛ اب‍ن‌ ع‍ذاری‌، البيان المغرب فی أخبار الأندلس و المغرب، دار الثقافة. ج1، ص84.
  53. سنوسی‌، الدرر السنية فی أخبار السلاله الإدریسیه، 1349ھ، ص7.
  54. سلاوی، الاستقصا لاخبار دول المغرب الاقصی، دار الكتاب، ج1، ص208-216.
  55. سلاوی، الاستقصا لاخبار دول المغرب الاقصی، دار الكتاب، ج1، ص216-217.
  56. مونس، تاریخ و تمدن مغرب، 1384ہجری شمسی، ج1، ص356-358.
  57. ذکاوت، «تأملی در مورد چگونگی شکل‌گیری حکومت ادریسیان»، ص97.
  58. ذکاوت، «تأملی در مورد چگونگی شکل‌گیری حکومت ادریسیان»، ص100.
  59. [1] مونس، تاریخ و تمدن مغرب، انتشارات سمت، 1384ہجری شمسی۔ج1، ص364-365.
  60. [1] مونس، تاریخ و تمدن مغرب، انتشارات سمت،1384، ج1، ص371-372.
  61. ذکاوت، «تأملی در مورد چگونگی شکل‌گیري حکومت ادریسیان»، ص101.
  62. [1]  ذکاوت، «تأملی در مورد چگونگی شکل‌گیري حکومت ادریسیان»، ص101.
  63. سا‌ئحی‌، الحضاره الاسلامیه فی المغرب، الدار الثقافیة للنشر، 1406ھ، ص161.
  64. ذکاوت، «تأملی در مورد چگونگی شکل‌گیری حکومت ادریسیان»، ص97؛ عالم‌زاده، و آبانگاه، «مذهب ادریسیان»، ص75.
  65. سلاوی، الاستقصا لاخبار دول المغرب الاقصی، ج1، ص261.
  66. [1] مونس، تاریخ و تمدن مغرب، 1384ہجری شمسی، ج1، ص361.
  67. مونس، تاریخ و تمدن مغرب، ترجمه حمیدرضا شیخی، 1384ہجری شمسی، ج1، ص361.
  68. سلاوی، الاستقصا لاخبار دول المغرب الاقصی، ج1، ص261.
  69. دانشنامه جهان اسلام، «بصره»
  70. سلاوی، الاستقصا لاخبار دول المغرب الاقصی، ج1، ص261.
  71. ذکاوت، «تأملی در مورد چگونگی شکل‌گیري حکومت ادریسیان»، ص97.
  72. «زندگی‌نامه محمد بن محمد ادریسی»، la biographie.
  73. [./Https://www.nasa.gov/image-article/mountainous-shoreline-of-sputnik-planum/ «خط ساحلی کوهستانی اسپوتنیک پلانوم»]، سایت ناسا.
  74. «محمد الادریسی»، دانشنامه بریتانیکا.
  75. «محمد الادریسی»، دانشنامه بریتانیکا.
  76. «عالمان منتقد وهابیت: «احمد بن محمد بن صدیق غماری»»، پایگاه تخصصی وهابیت پژوهی و جریان های تکفیری.
  77. «عالمان منتقد وهابیت: «احمد بن محمد بن صدیق غماری»»، پایگاه تخصصی وهابیت پژوهی و جریان های تکفیری؛ «عبدالله بن صدیق غماری»، پایگاه تخصصی وهابیت پژوهی و جریان های تکفیری.
  78. ابن الحاج، إسعاف الإخوان الراغبین بتراجم ثله من علماء المغرب المعاصری، 1412ھ، ص34.
  79. [1] حسنی، العقود اللؤلؤیه فی بعض أنساب الأسره الحسنیه الهاشمیه، 1415ھ، ص333.
  80. [1] عقیلی، تاریخ المخلاف السلیمانی، 1402ھ، ج2، ص728.
  81. «الادریسی، محمد بن علی الادریسی»،موضوع.

مآخذ

  • ابن الحاج، محمد بن الفاطمی، إسعاف الإخوان الراغبین بتراجم ثله من علماء المغرب المعاصرین، بی‌جا، الطبعه الجدیده، چاپ اول، 1412ھ۔
  • ابن خلدون، عبدالرحمن بن محمد، تاریخ ابن خلدون، تحقیق زکار سهیل، و خلیل شحاده ، بیروت ، دار الفکر، 1408ھ۔
  • اب‍ن‌ ع‍ذاری‌، م‍ح‍م‍د ب‍ن‌ م‍ح‍م‍د، البيان المغرب فی أخبار الأندلس و المغرب، تحقیق کولان، ج. س، و پروفنسال لیفی، بیروت، دار الثقافة. ج1، ص84.
  • اشعری، ابوالحسن، مقالات الاسلامیین و اختلاف المصلیین، بیروت، دارالنشر، 1400ھ۔
  • اصفهانی، ابوالفرج، مقاتل الطالبین، تحقیق احمد صقر، بیروت، مؤسسه الأعلمی للمطبوعات، 1419ھ۔
  • «الادریسی، محمد بن علی الادریسی»،موضوع، تاریخ درج مطلب:ا0آوریل 2022ء، تاریخ بازدید: 2بهمن 1402ہجری شمسی۔
  • حسنی، محمد بن علی، العقود اللؤلؤیه فی بعض أنساب الأسره الحسنیه الهاشمیه،بی‌جا، بی‌نا، چاپ دوم، 1415ھ۔
  • ذکاوت، محمود، «تأملی در مورد چگونگی شکل‌گیری حکومت ادریسیان»، در مجله پارسه، شماره18-19، اردیبهشت و آبان91.
  • زبیب، نجیب. ‌دولة التشیع فی بلاد المغرب، بیروت، دار الأمير للثقافة و العلوم، چاپ اول، 1413ھ۔
  • سا‌ئحی‌، حسن، الحضاره الاسلامیه فی المغرب، الدار الثقافیة للنشر، 1406ھ۔
  • سلاوی، شهاب الدين، الاستقصا لاخبار دول المغرب الاقصی، تحقق: جعفر الناصری و محمد الناصری، بی‌جا، دار الكتاب، بی‌تا.
  • سنوسی‌، محمد بن‌ علی، الدرر السنية في أخبار السلالة الإدريسية، مطبعه الشباب، 1349ھ۔
  • «عالمان منتقد وهابیت: «احمد بن محمد بن صدیق غماری»»، پایگاه تخصصی وهابیت پژوهی و جریان های تکفیری، تاریخ درج مطلب:15مرداد 1402ہجری شمسی، تاریخ بازدید:7بهمن 1402ہجری شمسی۔
  • «عبدلله بن صدیق غماری»، پایگاه تخصصی وهابیت پژوهی و جریان های تکفیری، تاریخ درج مطلب:13بهمن 1397ہجری شمسی، تاریخ بازدید:7بهمن 1402ہجری شمسی۔
  • عالم‌زاده، هادی و علی آبانگاه،«مذهب ادریسیان»، در فصلنامه علمی-پژوهشی علوم انسانی دانشگاه الزهرا(س)،شماره55، سال پانزدهم، 1388ہجری شمسی۔
  • عقیلی، محمد بن احمد، تاریخ المخلاف السلیمانی، ریاض، دارالیمامه للبحث و الترجمه و النشر، چاپ دوم، 1402ھ۔
  • «قدیمیترین موسسه آموزش عالی»، سایت گینس، تاریخ بازدید: 28 دی 1402ہجری شمسی۔
  • کنون، عبد الله، النبوغ المغربی فی الأدب العربی، بی جا، بی‌نا، بی‌تا.
  • مقدسی، محمد بن احمد، احسن التقاسیم فی معرفة الاقالیم، تهران، شرکت مؤلفان و مترجمان ایران، چاپ اول، 1361ہجری شمسی۔
  • مونس، حسین، تاریخ و تمدن مغرب، ترجمه حمیدرضا شیخی، تهران، انتشارات سمت، 1384ہجری شمسی۔
  • میلی جزائری، مبارک بن محمد، تاریخ الجزائر فی القدیم والحدیث، الجزائر، المؤسسه الوطنیه للکتاب، 1406ھ۔