محکم اور متشابہ

ویکی شیعہ سے

مُحْکَم اور مُتَشابہ علوم قرآن کی اصطلاح ہے۔ سورہ آل عمران کی 7ویں آیت کے مطابق قرآن کی آیات دو حصوں: محکم اور متشابہ پر مشتمل ہیں۔ محکم ان آیات کو کہا جاتا ہے کہ جن کے معنا اتنے واضح ہوتے ہیں کہ اس معنا کے سوا کسی دوسرے معنا کو نظر میں نہیں لیا جا سکتا۔ متشابہ وہ آیت ہے جس کے ظاہری معنا میں زیادہ احتمالات پائے جاتے ہوں۔ اہل سنت میں سے ایک جماعت قائل ہے کہ متشابہ کا علم خدا سے مخصوص ہے لیکن اکثر شیعہ علما قائل ہیں کہ اکثر متشابہ آیات کو محکمات کی طرف لوٹایا جا سکتا ہے۔ قرآن میں متشابہ آیات کے مذکور ہونے کی مختلف وجوہات ذکر کی گئی ہیں۔

معنا

اکثر علوم قرآن کے ماہرین معتقد ہیں کہ محکم آیات وہ ہیں جن کے معانی اس قدر واضح اور روشن ہیں کہ ان معانی کے علاوہ کسی دوسرے معانی کا لحاظ نہیں کیا جاتا ہے اور متشابہ وہ آیات ہیں جن کے ظاہری معانی میں ایک سے زیادہ احتملات موجود ہوں اور یہ ممکن ہے ایک کلمے میں ہو یا جملے میں ہو۔[1]

محکم کے اصطلاحی معنا میں دیگر اقوال بھی موجود ہیں: [2]

  • محکم آیات حلال و حرام اور اوامر و نواہی سے مربوط ہیں۔
  • محکم آیات جو منسوخ نہیں ہوئی ہیںاور متشابہ منسوخ ہونے والی آیات ہیں۔
  • محکم ایسا امر ہے جس میں وعدہ ثواب یا عقاب مذکور ہوا ہے۔
  • محکمات ایسی آیات جن کے الفاظ تکرار نہیں ہوئے ہیں۔

ان کے علاوہ مزید اقوال بھی موجود ہیں:[3]

  • متشابہ منسوخ ہونے والی آیات ہیں جن عمل نہیں کرنا چاہئے۔
  • متشابہ قصص اور امثال ہیں۔
  • متشابہ وہ ہیں جن کے معانی خدا ہی جانتا ہے ہم انکے ظاہری معانی پر ایمان رکھتے ہیں۔
  • متشابہ فواتح سور اور حروف مقطعہ ہیں۔
  • متشابہ وہ ہے جسے معنائے ظاہری سے تأویل و انصراف کے بغیر نہ سمجاھ جا سکے۔
  • متشابہ وہ ہے کہ غیبی امور پر مشتمل ہواور اس کا علم صرف خدا کو ہی ہے جیسے وقت قیامت، بارش آنے کا زمان،موت کا زمان اور اس جیسے دیگر امور۔
  • متشابہ وہ ہے جسے کسی دوسرے کے لحاظ کئے بغیر نہ سمجھا جا سکے۔

حکمت وجود متشابہات

متشابہ آیات کی وجہ سے فہم قرآن میں غلطی واقع ہونے کا امکان ہوتا ہے۔ اس وجہ سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن میں ان آیات کے ہونے کا کیا فائدہ ہے؟ اس سوال کے کئی جوابات دئے گئے ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:

  • متکلمین کی ایک جماعت اس کی معتقد ہے کہ آیات متشابہات قرآن میں عمیق‌ تر اور بیشتر دقت کے مواقع فراہم کرتی ہیں چونکہ ضرورت کے وقت علما سے رجوع اور عقل کے استعمال سے متوجہ ہوتا ہے کہ تشابہ میں کوئی مطلب موجود ہے۔[4]
  • بعض عرفا معتقد ہیں کہ چونکہ سالکان الی اللہ کے احوال اور درجات مختلف ہیں۔ ان میں سے بعض مقام طبیعت سے گزر کر مقام نفس پر پہنچ گئے ہیں اور بعض مقام نفس سے گزر کر مرتبۂ عقل و اس کی امثال حاصل کر چکے ہیں۔قرآن کی آیات انسانوں کی معرفت کے درجات اور مراحل نفس کے مطابق نازل ہوئی ہیں۔ [5]
  • فلاسفہ کا ایک گروہ کہتا ہے کہ قرآن کے مخاطبین میں لوگ بھی شامل ہیں کہ جو غیر عوالم مادی سے بے خبر ہیں لہذا ابتدائی طور پر آیات میں خدا کی طرف جسمانی اوصاف اور اعراض کی نسبت دی گئی اور ایسے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جو وہم اور خیال کے عالَم سے مناسب ہیں ان سے استفادہ کیا گیا ہے پھر انکے ہمراہ محکمات کے عنوان سے آیات ہیں جو واقعیت امر کو بیان کرتی ہیں۔ اس طرح عام لوگ آہستہ آہستہ موجودِ مختصات اولی سے ایسے موجود کی طرف منتول ہوتے ہیں جو صفات امکانی سے مبرّا ہوتا ہے۔[6]

متشابہ آیات میں تفسیری روش

متشابہ آیات کی تفسیر کرنے میں مفسرین کی روشیں مختلف ہیں۔ ملا صدرا نے چار تفسیری روشیں بیان کی ہیں:[7]

  1. اہل لغت، اصحاب حدیث اور حنابلہ کا مسلک: یہ گروہ قائل ہیں کہ متشابہ الفاظ کو ظاہری معنا پر حمل کرنا چاہئے۔ ظاہری معنا سے تخلف کرنا حتا کہ اگرچہ وہ قواعد عقلیہ کے ہی کیوں مخالف نہ ہو جائز نہیں ہے۔ پس اس روش کے مطابق ان میں کسی قسم کی تاویل جائز نہیں ہے۔
  2. محققین اور اکثر معتزلہ: یہ گروہ متشابہ الفاظ کی تاویل عقلی قواعد کے موافق کرتا ہے۔ ان کا مبنا خدا وند کریم سے صفات امکانی اور نقص کی تنزیہ کرنا ہے۔
  3. اکثر اشاعرہ اور بعض معتزلہ: یہ تفصیل کے قائل ہیں۔ بعض آیات و اخبار کی نسبت تنزیہی روش اپناتے ہیں اور بعض میں روش تشبیہ و تنزیل اختیار کرتے ہیں۔ جو کچھ معاد سے مربوط ہے اس میں ظاہری معنا ہی مراد لیتے ہیں اور تشبیہ کے قائل ہیں۔
  4. راسخون فی العلم: اس کی توضیح یون بیان کرتا ہے: راسخون کشف و شہود اور اشراق باطن کے ذریعے متشابہات کے واقعیت اور حقیقت کو حاصل کر لیتے ہیں اور یہ لوگ صرف تنزیہ اور تشبیہ محض نیز ان کے درمیان خلط کرنے والوں سے محفوظ ہیں۔ متشابہات کی معانی کو کشف کرنا صرف باطنی نورانیت اور چراغ نبوت کے ذریعے امکان‌ پذیر ہے۔ لہذا یہ انسان کو ظاہر گرائی اور تشبیہ اور تعطیل کی طرف لے کر جاتا اور نہ تأویل کے دام میں الجھاتا ہے۔

متشابہات میں روش اہل بیت

عیون اخبار الرضا میں امام رضا(ع) سے مروی ہے:

مَنْ رَدَّ مُتَشَابِہَ الْقُرْآنِ اِلَی مُحكَمِہِ فَقَدْ ہُدِی اِلَی صِراطِ مُسْتَقِیمٍ[8] (ترجمہ ہماری روایات میں قرآن کی مانند متشابہات موجود ہیں لہذا ہمارے کلام کو بھی محکمات کی طرف لوٹایا جائے۔ فِی اَخْبَارِنَا مُتَشَابِہٌ كَمُتَشَابِہِ الْقُرْآنِ فَرُدَّوا مُتَشَابِہَہا اِلَی مُحْكَمِہَا وَ لاتَتَّبِعُوا مُتَشَابِہَہَا دوُن مُحْكَمِہَا فَتَضِلُّوا.[9] قابل غور بات یہ ہے کہ متشابہات سمیت تمام قرآن کے معانی حاصل کئے جا سکتے ہیں مگر محکمات کے سائے تلے انہیں حاصل کیا جائے۔ یہ چیز اس نظریے کے مخالف ہے کہ جو معتقد ہیں کہ متشابہ کے معانی صرف خدا ہی جانتا ہے۔ پس مکتب اہل بیت کے مطابق متشابہات کے مقابلے میں توقف نہیں ہے۔[10]

راسخون فی العلم

قرآن کے ماہرین نے محکم و متشابہ کے ذیل میں ایک یہ بحث کی ہے کہ سورۂ آل عمران کی ساتویں آیت وَمَا یعْلَمُ تَأْوِیلَہُ إِلَّا اللَّـہُ وَ الرَّ‌اسِخُونَ فِی الْعِلْمِ یقُولُونَ آمَنَّا بِہِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَ‌بِّنَا(اللہ اور راسخون فی العلم کے علاوہ اس کی تاویل کوئی نہیں جانتا ہے وہ کہتے ہیں جو کچھ ہمارے پروردگار کی جانب سے ہے ہم اس پر ایمان لائے ہیں۔) اگر اس آیت میں «وَ الرَّاسِخُونَ فِی الْعِلْمِ» کا عطف «وَ ما یعْلَمُ تَأْوِیلَہُ إِلاَّ اللَّہُ» کیا جائے تو اس کا معنا ہوگا کہ راسخون علم بھی تاویل سے آگاہ ہیں اور اگر اسے استیناف (نیا جملہ) قرار دیں اور پہلے پر عطف نہ کریں تو اس کا معنا ہو کہ راسخون علم تاویل سے آگاہ نہیں ہونگے بلکہ وہ اس پر ایمان لائے ہیں اور کہتے ہیں: آمَنّا بِہِ كُلٌّ مِنْ عِندِ رَبِّنا.

اکثر علمائے اہل سنت قائل ہیں کہ متشابہ آیات میں توقف کریں اور راسخون علم کا علم بھی یہاں منتہی ہوتا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ جو کچھ پرودگار کی جانب سے نازل ہوا ہم اس ایمان لاتے ہیں۔[11]

اکثر شیعہ علما اور اہل سنت علما [یادداشت 1]نے «الراسخون فی العلم» کا «اللہ» پر عطف کیا ہے قائل ہیں کہ وہ راسخون فی العلم تاویل سے آگاہ ہیں اور وہ استدلال کرتے ہیں کہ اگر راسخون علم بھی دوسرے لوگوں کی مانند تاویل نہیں جانتے تو اللہ نے کیوں ان کی تمجید کی ہے۔ شیعہ حضرات بعض روایات کی بنا پر راسخون علم سے مراد اہل بیت لیتے ہیں۔ [12]

یادداشت

  1. مانند مجاہد (م ۱۰۳) (قطان، مناع، مباحث فی علوم القرآن، ص۲۱۷) ابوالحسن اشعری (م ۳۶۰)، ابواسحاق شیرازی (م ۴۷۶) و امام الحرمین جوینی (م ۴۷۸).آخری صدیوں میں بہت سے اہل سنت علما نے اس نظریے کے قائل ہوئے ہیں۔ (صبحی صالح، مباحث فی علوم القرآن، ص۲۸۲

نوٹ

حوالہ جات

  1. قرآن در آینہ پژوہش، مقالہ محکم و متشابہ
  2. زرکشی: البرہان فی علوم القران، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، بیروت، دارالمعرفہ، ج۲ ص۷۹
  3. زرکشی: البرہان فی علوم القران، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، بیروت، دارالمعرفہ، ج۲ ص۸۰
  4. قاضی عبدالجبار: المغنی فی ابواب التوحید و العدل، الجمہوریہ العربیہ المتحدہ، وزارہ الثقافہ،ج۱۶ ص۳۷۱ و ۳۷۲
  5. بہ نقل از سید جلال الدین آشتیانی: متشابہات القرآن، دانشگاہ فردوسی، بی‌تا، ص۱۶۰ ـ ۱۶۱
  6. بہ نقل از سید جلال الدین آشتیانی: متشابہات القرآن، دانشگاہ فردوسی، بی‌تا، ص۱۴۵
  7. ملاصدرا: متشابہات القرآن،تصحیح آشتیانی،‌مشہد، دانشگاہ فردوسی، ص۷۶، ۷۷، ۷۹، ۹۰ و ۹۱
  8. عیون اخبار الرضا، نشر جہان، ج۱ ص۲۹۰
  9. نوادر الأخبار فیما یتعلق بأصول الدین، فیض کاشانی، مؤسسہ مطالعات و تحقیقات فرہنگی، تہران، ۱۳۷۱ ش‌، ص۵۱
  10. قرآن در آینہ پژوہش، مقالہ محکم و متشابہ
  11. صبحی صالح، مباحث فی علوم القران، ص۲۸۲
  12. نک: بحرانی، البرہان، ج۱، ص۵۹۷-۵۹۹

مآخذ

  • زرکشی: البرہان فی علوم القران، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، بیروت، دارالمعرفہ
  • قاضی عبدالجبار: المغنی فی ابواب التوحید و العدل، الجمہوریہ العربیہ المتحدہ، وزارہ الثقافہ
  • سید جلال الدین آشتیانی: متشابہات القرآن، دانشگاہ فردوسی، بی‌تا
  • ملاصدرا: متشابہات القرآن،تصحیح آشتیانی،‌مشہد، دانشگاہ فردوسی
  • عیون اخبار الرضا، نشر جہان،
  • نوادر الأخبار فیما یتعلق بأصول الدین، فیض کاشانی، مؤسسہ مطالعات و تحقیقات فرہنگی، تہران، ۱۳۷۱ش‌
  • صبحی صالح، مباحث فی علوم القران، انتشارات الشریف الرضی، قم ۱۳۷۲ش
  • بحرانی، البرہان فی تفسیر القرآن، انتشارات بعثت، قم
  • قطان، مناع، مباحث فی علوم القرآن، مؤسسۃ الرسالہ، بیروت ۱۴۲۱ق
  • سید محمدعلی ایازی، قرآن اثری جاودان، مؤسسہ پژوہشہای قرآنی، ۱۳۸۱ش