قوم ثمود

ویکی شیعہ سے

ثَمود، ایک عرب قوم کا نام ہے جو حضرت صالح پر ایمان نہ لانے کی وجہ سے عذاب الہی میں مبتلا ہوگئے تھے۔ قرآن میں ان کو ایک مشرک قوم کے طور پر یاد کیا گیا ہے۔ پتھروں سے گھر بنانا ان کی بارزترین صفات میں شمار کیا جاتا ہے۔ خدا نے حضرت صالحؑ کو ان کی ہدایت کیلئے بھیجا۔ لیکن انہوں نے اپنے نبی کے معجزے کو جو کہ ایک اونٹنی تھی اور ناقہ صالح کے نام سے مشہور تھی، مار ڈالا جس کے نتیجے میں وہ لوگ عذاب الہی میں مبتلا ہو گئے۔ قوم ثمود کی کہانی تورات میں نہیں آیا ہے لیکن ماہرین آثار قدیمہ کو ملنے والی چیزوں سے سعودی عربیہ کے شمالی حصے میں ان کی موجودگی کا پتہ چلتا ہے۔

قرآن میں ثمود کا تذکرہ

بعض کا خیال ہے کہ "ثمود" عربی زبان کا ایک لفظ ہے جس کے معنی قلیل پانی کے ہیں۔[1] جبکہ بعض کا اس لفظ کو غیر عربی سمجھتے ہیں۔[2] ثمود ایک قبیلہ[3] یا قبیلے کے سردار کا نام [4] تھا۔ یہ لفظ قرآن میں 26 مرتبہ آیا ہے۔[5] اسی طرح بعض مفسرین کا خیال ہے کہ سورہ حجر کی آیت نمبر 80 میں اصحاب الحجر سے مراد بھی قوم ثمود ہے کیونکہ حجر اس سرزمین کا نام ہے جس میں یہ قوم بستی تھی۔[6]

خصوصیات

قرآن میں پتھروں اور پہاڑوں کو کھود کر گھر بنانا[7] اور ریگستانوں میں عمارتوں کی تعمیر[8] کو قوم ثمود کی خصوصیات کے طور پر ذکر کرتے ہیں اسی طرح ان کے ذرخیز اور آباد زمین کا تذکرہ کرتے ہوئے[9] فرماتے ہیں کہ وہ پتھروں سے اپنے لئے گھر بناتے تھے۔[10]

دوران زندگی

قرآن میں قوم ثمود کے دور کی طرف کوئی اشارہ نہیں ہوا لیکن ان کو قوم عاد کا جانشنین قرار دیتے ہوئے[11] گذشتہ اقوام اور پیغمبروں کی داستان بیان کرتے ہوئے ان کا تذکرہ قوم عاد کے بعد کیا ہے۔[12] اسی بعض لوگ قوم ثمود کو "عاد الآخرہ" کے تعبیر سے بھی یاد کرتے ہیں۔[13] اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا قرآن میں مذکور یہ ترتیب بدون وجہ ہے یا یہ ترتیب ان کی تاریخی اعتبار سے ہے؟ تو اس میں بعض کا خیال ہے کہ قرآن میں موجود یہ ترتیب حقیقت میں ان کی تاریخی ترتیب کی طرف بھی اشارہ ہے۔[14] آذرنوش کے مطابق قوم ثمود کا تذکرہ باستانی منابع میں عمدتا آٹھ صدی قبل از میلاد سے لے کر دوسری صدی عیسوی کے درمیان میں ہوتا ہے۔[15] لیکن اسلامی تاریخ میں حضرت صالح کی نبوت کو حضرت ابراہیم کی نبوت و رسالت سے پہلے ذکر ہوا ہے۔[16] اسی طرح قوم عاد اور ثمود کے درمیان تقریبا 500 سال کا فاصلہ تھا۔[17] بعض منابع میں قوم ثمود کو سام بن نوح کے پوتوں میں سے قرار دیا ہے۔[18]

محل زندگی

کہا جاتا ہے کہ قوم ثمود وادی القری کے نزدیک دریائے سرخ کے کنارے حِجر نامی مقام پر آباد تھے[19] جو حجاز اور شام[20] راستے میں واقع ہے۔ ایک حدیث کے مطابق لشکر اسلام جب مدینہ سے تبوک جاتے ہوئے حجر کے مقام سے پہنچے تو پیغمبر اسلامؐ نے قوم ثمود کے عذاب میں مبتلاء ہونے کے خوف سے اپنے ساتھیوں کو یہاں سے پانی پینے سے منع فرمایا اور گریہ کنان وہاں سے گزرنے کا حکم دیا۔[21] جوادعلی، موجودہ حجاز اور اردن کے بالائی علاقوں کو قوم ثمود کا مسکن قرار دیتے ہیں۔[22] قرآن میں قوم ثمود کے محل زندگی کی طرف کوئی اشارہ نہیں ہوا ہے۔

دین اور پیغمبر

قرآنی آیات کی رو سے قوم ثمود مشرک تھے اور خدا نے حضرت صالحؑ کو ان کی ہدایت کیلئے مبعوث کیا تھا تاکہ وہ یکتاپرستی کا راستہ اختیار کریں۔[23] امام باقرؑ سے منقول ایک حدیث میں آیا ہے کہ قوم ثمود کے 70 بت تھے اور وہ ان کی پوجا کرتے تھے۔[24] اسی طرح امام صادقؑ سے روایت شدہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ یہ قوم ایک بڑے چٹان کی پوجا کرتے تھے اور سال میں ایک دفعہ اس چٹان کے اردگرد جمع ہو کر اس کے لئے قربانی پیش کرتے تھے۔[25] قوم ثمود سے منسوب کسی کتیبے پر جس کا تعلق سن 267 قبل از مسیح بتایا جاتا ہے، پر سن 476ء میں حضرت مسیح کی تصویر کی نقاشی اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ کچھ مدتوں کیلئے قوم ثمود عیسائی دین کے پیروکار رہے ہیں۔[26]

حضرت صالح کی دعوت کا رد عمل

قوم ثمود نے حضرت صالح سے ان کی نبوت کے اثبات کیلئے معجزہ کا تقاضا کیا۔[27] احادیث کے مطابق انہوں نے حضرت صالح سے درخواست کیا تھا کہ وہ پہاڑ کے اندر سے ایک اونٹنی نکال لائیں۔[28] خدا نے ان کی درخواست کو قبول کیا اور ایک اونٹنی پہاڑ کے اندر سے باہر آگئی۔ حضرت صالح نے انہیں خبردار کیا تھا کہ اس اونٹنی کے ساتھ کوئی برا سلوک نہ کیا جائے۔[29] لیکن قوم ثمود نے اسے مار ڈالا۔[30]اسلامی منابع میں یہ اونٹنی ناقہ صالح کے نام سے مشہور ہے۔ بعض شیعہ مفسرین پیغمبر اکرمؐ سے منقول ایک روایت سے استناد کرتے ہوئے ناقہ صالح کو مارنے والے(اشقی الاولین) اور امام علیؑ کے قاتل(اشقی الآخرین) کے درمیان شباہت کے قائل ہیں۔[31]

قرآن کی رو سے قوم ثمود کے 9 گروہ نے حضرت صالحؑ اور آپ کے خاندان کو قتل کرنے کی قسم کھائی تھی۔[32] البتہ بعض دیگر اقوال کے مطابق یہ لوگ 9 گروہ نہیں بلکہ 9 افراد تھے اور ایک غار میں چھپ گئے تھے کہ اسی غار میں سب کے سب دب کر ہلاک ہوگئے۔[33]

حضرت صالح کی دعوت کے مقابلے میں قوم ثمود دو یا تین گروہ[34] میں تقسیم ہوگئے اور ان کی اکثریت نے حضرت صالحؑ کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کیا[35] ایک قلیل تعداد نے اس دعوت کو قبول کر کے حضرت صالح پر ایمان لے آئے۔

عذاب الہی کا نزول

قوم ثمود کی طرف سے ناقہ صالح کو مار ڈالنے کے بعد حضرت صالح نے انہیں خبردار کیا کہ تین دن بعد وہ عذاب میں مبتلا ہونگے۔[36] بعض اقوال کی بنا پر پہلے دن ان کے چہرے کا رنگ زرد پڑ گیا، دوسرے دن سرخ اور تیسرے دن کالا ہوگیا پھر عذاب الہی میں مبتلا ہو کر سب ہلاک ہوگئے۔[37] قرآن میں قوم ثمود کے عذاب کو صاعِقَہ، [38]صَیحہ[39] اور رَجفہ[40] کے نام سے یاد کیا ہے۔ بعض مصنفین ان عناوین کو ان پر نازل ہونے والے عذاب کے مراحل قرار دیتے ہیں۔[41]

عذاب سے محفوظ رہنے والے

کہا جاتا ہے کہ قوم ثمود میں سے وہ لوگ جو عذاب خداوندی سے محفوظ رہ گئے تھے مکہ[42] یا فلسطین کے شہر رملہ[43] ہجرت کر گئے۔ بعض محققین فلسطین میں حضرت صالح سے منسوب بعض اماکن کی موجودگی کو اس بات کی نشانی قرار دیتے ہیں کہ قوم ثمود کے بازماندگان میں سے بعض یہاں سکونت اختیار کئے تھے۔[44] ابوالفرج اصفہانی قبیلہ ثقیف کو قوم ثمود کی نسل سے قرار دیتے ہیں۔[45] لیکن ابن خلدون اس نسبت کے صحیح ہونے میں تردید کا مظاہرہ کرتے ہیں۔[46]بعض محققین بنی‌ہلال کو قوم ثمود کی اولاد قرار دیتے ہیں۔[47]

عذاب کے باقی ماندہ آثار

کوہ اثالث اور سعودی عرب کے دیگر مناطق میں کچھ پتھر، پتھروں پر لکھے ہوئے عبارات اور بعض عمارتیں ایسی پائی جاتی ہیں جن کے بارے میں یہ احتمال دیا جاتا ہے کہ یہ چیزیں قوم ثمود کے باقی ماندہ آثار میں سے ہیں۔[48] ان سے منسوب کتیبوں پر ان کے مشہور بتوں کا نام جیسے رضو یا رضی یا صلم وغیره لکھے ہوئے پائے گئے ہیں۔[49]

کہا جاتا ہے کہ قوم ثمود کا تذکرہ تورات میں نہیں آیا ہے۔ اسی بنا پر آثار قدیمہ کے بعض ماہرین قوم ثمود کے وجود کو ہی تردید کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔[50] لیکن 19ویں صدی عیسوی میں دریافت ہونے والے بعض آثار قدیمہ کے مطالعے کے بعد ماہرین نے قوم ثمود کے وجود کی تأیید کی ہیں۔[51]

حوالہ جات

  1. فراہیدی، العین، ۱۴۱۰ق، ج۷، ۳۵.
  2. راغب اصفہانی، مفردات، ۱۴۱۲ق، ص۱۷۵.
  3. راغب اصفہانی، مفردات، ۱۴۱۲ق، ص۱۷۵.
  4. ابن کثیر، قصص الانبیاء، ۱۴۱۰ق، ص۱۱۲.
  5. عبدالباقی، المعجم المفہرس لالفاظ القرآن الکریم، ذیل واژہ، دانشنامہ جہان اسلام، ج۹، ص۱۲۵.
  6. طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۲، ص۱۸۵-۱۸۶؛ طبرسی، مجمع البیان،۱۳۷۲ش، ج۶، ص۵۲۹.
  7. سورہ شعرا، ۱۴۹.
  8. سورہ اعراف، ۸۴.
  9. شعرا ۱۴۷-۱۴۸
  10. سورہ فجر، ۹.
  11. اعراف، ۷۴.
  12. سورہ اعراف، ۶۵-۷۳؛ سورہ ہود، ۵۹-۶۱؛ سورہ شعرا، ۱۲۳-۱۴۱؛ سورہ ذاریات، ۴۱-۴۳؛ سورہ قمر، ۱۸-۲۳؛ سورہ فجر، ۶-۹.
  13. میبدی، کشف الاسرار و عدہ الابرار، ۱۳۷۱ش، ج۶، ص۴۳۵.
  14. خالدی، القصص القرآنی، ۱۴۱۹ق، ج۱، ص۲۷۰-۲۷۱.
  15. آذرنوش، نگاہی بہ تاریخ قوم ثمود، ص۳۶-۳۴.
  16. طبری، تاریخ الامم و الملکوک، ۱۳۸۷ق، ج۱، ص۲۱۶؛ مسعودی، التنبیہ و الاشراف، بی‌تا، ص۷۰؛ ابن جوزی، المنتظم فی تاریخ الملوک و الامم، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۲۵۶.
  17. سعد زغلول، فی التاریخ العرب قبل الاسلام، ۱۹۷۶م، ص۱۱۳.
  18. مقدسی، البدء و التاریخ، ۱۸۹۹-۱۹۱۹م، ج۳، ص۳۷.
  19. طبری، تاریخ الامم و الملکوک، ۱۳۸۷ق، ج۱، ص۲۲۶-۲۲۷؛ جوادعلی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ۱۹۷۶-۱۹۷۸م، ج۱، ص۳۲۳.
  20. طبری، تاریخ الامم و الملکوک، ۱۳۸۷ق، ج۱، ص۲۲۶-۲۲۷؛‌ مسعودی، مروج الذہب، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۱۴.
  21. ثعلبی، ص۶۲؛ ابوالفتوح رازی، روض الجنان، ۱۳۶۵-۱۳۷۶ش، ج۸، ص۲۸۱-۲۸۲.
  22. جوادعلی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ۱۹۷۶-۱۹۷۸م، ج۱، ص۳۲۸۔
  23. سورہ اعراف، ۷۳؛ سورہ ہود، ۶۳؛ سورہ شعراء، ۱۴۱-۱۴۲؛ سورہ نمل، ۴۵.
  24. کلینی، ۱۴۰۷ق، ج۸، ص۱۸۵.
  25. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۸، ص۱۸۷.
  26. جوادعلی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ۱۹۷۶-۱۹۷۸م، ج۱، ص۳۲۸.
  27. سورہ شعرا، ۱۵۴.
  28. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۸، ص۱۸۷.
  29. سورہ اعراف، ۷۳؛ سورہ ہود، ۶۴؛ سورہ شعراء، ۱۵۶.
  30. سورہ شعراء، ۱۵۷.
  31. طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۲۰، ص۳۰۱.
  32. سورہ نمل، ۴۸-۴۹.
  33. ابوالفتوح رازی، روض الجنان، ۱۳۶۵-۱۳۷۶ش، ج۸، ص۲۷۶.
  34. سورہ نمل، ۴۵؛ سورہ اعراف، ۷۵.
  35. طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۸، ص۱۸۳.
  36. سورہ ہود، ۶۵
  37. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۶، ص۲۱؛ ابوالفتوح رازی، روض الجنان، ۱۳۶۵-۱۳۷۶ش، ج۸، ص۲۸۰-۲۸۱.
  38. سورہ فصلت، ۱۳،۱۷؛ سورہ ذاریات، ۴۴.
  39. سورہ ہود، ۶۵.
  40. سورہ اعراف،۷۸.
  41. خالدی، القصص القرآنی، ۱۴۱۹ق، ج۱، ص۲۹۳.
  42. مقدسی، البدء و التاریخ، ۱۸۹۹-۱۹۱۹م، ج۳، ص۴۱.
  43. مسعودی، مروج الذہب، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۱۷.
  44. دباغ، القبائل العربیہ و سلائلہا فی بلادنا فلسطین، ۱۹۸۶م، ص۲۱-۲۲.
  45. ابوالفرج، ج۴، ص۳۰۲-۳۰۷: بہ نقل از دانشنامہ جہان اسلام، ج۹، ص۱۲۵.
  46. ابن خلدون، ج۲، ص۲۶: بہ‌نقل از دانشنامہ جہان اسلام، ج۹، ص۱۲۵.
  47. جوادعلی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ۱۹۷۶-۱۹۷۸م، ج۱، ص۳۲۸.
  48. موسی، دراسات اسلامیہ فی التفسیر و التاریخ، ۱۹۸۰م، ص۵۶-۵۷.
  49. جوادعلی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ۱۹۷۶-۱۹۷۸م، ج۱، ص۳۲۸-۳۳۱.
  50. موسی، دراسات اسلامیہ فی التفسیر و التاریخ، ۱۹۸۰م، ص۵۸.
  51. جوادعلی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ۱۹۷۶-۱۹۷۸م، ج۱، ص۳۲۴.

منابع

  • منبع اصلی مقالہ؛ دانشنامہ جہان اسلام، ج۹، مقالات ثمود در منابع تاریخی و ثمود در قرآن.
  • ابن جوزی المنتظم فی تاریخ الملوک و الامم، چاپ محمد عبدالقادر عطا و مصطفی عبدالقادر عطا، بیروت، ۱۴۱۲ق-۱۹۹۲م.
  • ابن کثیر، قصص الانبیاء، چاپ سید جمیلی، بیروت، ۱۴۱۰ق-۱۹۹۰م.
  • ابوالفتوح رازی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن، چاپ: محمدجعفر یاحقی، و محمدمہدی ناصحی، مشہد، ۱۳۶۵-۱۳۷۶ش.
  • آذرنوش، آذرتاش، نگاہی بہ تاریخ قوم ثمود، مقالات و بررسی‌ہا، دفتر ۹-۱۲، بہار و تابستان، ۱۳۵۱ش.
  • ثعلبی، احمد بن محمد، قصص الانبیاء المسمی عرائس المجالس، المکتبۃ الثقافیہ، بیروت، بی‌تا.
  • جوادعلی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، بیروت، ۱۹۷۶-۱۹۷۸م.
  • دباغ، مصطفی‌مراد، القبائل العربیہ و سلائلہا فی بلادنا فلسطین، بیروت، ۱۹۸۶م.
  • راغب اصفہانی، حسین بن محمد، مفردات الفاظ القرآن، تصحیح: صفوان عدنان داودی، -دارالعلم- الدارالشامیہ، لبنان- سوریہ،۱۴۱۲ق.
  • سعد زعلول، عبدالحمید، فی التاریخ العرب قبل الاسلام بیروت، ۱۹۷۶م.
  • صلاح خالدی، القصص القرآنی عرض وقایع و تحلیل احداث، دمشق ۱۴۱۹ق-۱۹۹۸م.
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، دفتر انتشارات اسلامی جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، قم، ۱۴۱۷ق.
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، مقدمہ: محمدجواد بلاغی، ناصر خسرو، تہران، ۱۳۷۲ش.
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، تحقیق: محمد ابوالفضل ابراہیم ، دارالتراث، بیروت، ۱۹۶۷م-۱۳۸۷ق.
  • فراہیدی، خلیل بن احمد، العین، تصحیح: مہدی مخزومی و ابراہیم سامرائی، نشر ہجرت، قم، ۱۴۱۰ق.
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح: علی اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران: دارالکتب الاسلامیہ، ۱۴۰۷ق.
  • مسعودی، علی بن حسین، التنبیہ و الاشراف، تصحیح: عبداللہ اسماعیل صاوی، قاہرہ، دارالصاوی بی‌تا: افست قم، مؤسسہ نشر المنابع الثقافہ الاسلامیہ.
  • مسعودی، علی بن حسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، تحقیق: اسعد داغر، دارالہجرہ، قم، ۱۴۰۹ق.
  • مقدسی، مطہر بن طاہر، کتاب البدء و التاریخ، چاپ: کلمان ہوار، پاریس، ۱۸۹۹-۱۹۱۹م، افست تہران، ۱۹۶۲م.
  • موسی، محمد عزب، دراسات اسلامیہ فی التفسیر و التاریخ، بیروت، ۱۹۸۰م.

بیرونی روابط