زلیخا

ویکی شیعہ سے

زُلِیْخا عزیز مصر کی زوجہ کا نام ہے؛ اس کی اور حضرت یوسفؑ کی داستان قرآن مجید میں آئی ہے۔ [1] قرآن میں صریح کے ساتھ زلیخا کا نام نہیں آیا بلکہ اس کے لیے صرف یہ تعبیر«الَّتِی هُوَ فِی بَيْتِهَا» (یوسف جس عورت کے گھر میں تھے)[2] اور «امْرَأَتُ الْعَزِیز» (عزیز مصر کی زوجہ)[3]استعمال ہوئی ہے[4]اس کے باوجود تفسیری،[5] تاریخی[6] اور حدیثی[7] منابع میں اس کا نام زلیخا استعمال ہوا ہے۔ اہل سنت مفسر؛ فخر رازی اس بات کے معتقد ہیں کہ اس نام کے حوالے سے کوئی معتبر منبع و ماخذ ہمارے پاس نہیں ہے۔[8] بعض منابع میں عزیز مصر کی زوجہ کا نام "زَلْیَخہ بتایا گیا ہے۔[9]

قرآن مجید اور توریت کے بعض مقامات میں حضرت یوسفؑ اور زلیخا کی داستان بیان ہوئی ہے۔[10] بعض محققین کے مطابق قرآن اور توریت میں بیان شدہ داستان آپس میں قدرے مختلف ہے۔[11] قرآن مجید کے مطابق زلیخا حضرت یوسفؑ کو گناہ کی طرف راغب کرنا چاہتی تھی لیکن آپؑ "اللہ کے برہان" کامشاہدہ کرتے ہوئے قید خانے کے دروازے کی طرف بھاگ نکلے۔[12] شیعہ مفسر ناصر مکارم شیرازی کے مطابق حضرت یوسفؑ امداد غیبی کی بدولت اس گناہ میں مبتلا ہونے سے بچ گئے۔[13] زلیخا حضرت یوسفؑ تک پہنچ گئی اور ان کی قمیص پھاڑدی۔[14] قید خانے کے بیرونی دروازے پر حضرت یوسفؑ اور زلیخا کا عزیز مصر سے آمنا سامنا ہوا۔[15] زلیخا اور یوسف دونوں نے ایک دوسرے پر خیانت کاری کا الزام لگایا۔[16] اس دوران زلیخا کے ایک رشتہ دار فرد نے نے گواہی دی کہ اگر قمیص آگے سے پھٹی ہے تو زلیخا سچی اور اگر پیچھے سے پھٹی ہے تو یوسف سچا ہے۔[17] اس طرح حضرت یوسفؑ کی بے گناہی ثابت ہوگئی۔[18]

بعض منابع تاریخی کے مطابق جس نے حضرت یوسفؑ کے حق میں گواہی دی وہ زلیخا کا 3سالہ خالہ زاد بچہ تھا[19] جو قدرت الہی سے بول اٹھا۔[20] البتہ کچھ دیگرمنابع میں آیا ہے کہ وہ گواہ ایک حکیم مرد تھا۔[21] بعض مفسرین کے مطابق زلیخا کے کہنے پر حضرت یوسفؑ کو قید خانے میں ڈالا گیا؛[22] لیکن تھوڑے ہی عرصے میں زلیخا نے اپنے گناہ گار ہونے کا اور حضرت یوسف ؑ کے بے گناہ اور ان کے سچا ہونے کا اعتراف کیا۔[23]

زلیخا ایک خوبصورت، مالدار[24] اور بت پرست عورت تھی۔[25] وہ بے اولاد تھی۔[26] بعض منابع کے مطابق زلیخا نے بڑھاپے میں اپنے گناہوں سے توبہ کی اور یکتا پرست بنی، حضرت یوسفؑ کی دعا سے زلیخا کی جوانی پلٹ آئی اور آپؑ کے ساتھ رشتہ ازدواج سے منسلک ہوئی۔ [27] کہا جاتا ہے کہ اس شادی کے نتیجے میں ان کے ہاں دو اولاد ہوئیں۔ [28] لیکن بعض محققین کے مطابق اس طرح کی احادیث میں سند اور مضمون کے لحاظ سے اشکال موجود ہونے کی وجہ سے ان سے استناد نہیں کیا جاسکتا، مزید بر آن اس طرح کے مضامین کو توریت سے اخذ کیا گیا ہے۔[29]

تحقیقات کے مطابق زلیخا نے اہل تصوف کے صوفیانہ افکار پر گہرے اثرات ڈالے ہیں۔[30]کہا گیا ہے کہ صوفیاء نے زلیخا کے طرز عمل کی بے حد تعریف کی ہے اور اس کے اسی طرز عمل کا حوالہ دے کر اپنے صوفیانہ اور عرفانی افکار و نظریات کا پرچار کیا ہے۔[31] حضرت یوسفؑ سے زلیخا کا عشق و محبت کی داستان نے عالمی ادب بشمول فارسی، ترکی اور یورپی ادب پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔[32] مندرجہ ذیل اشعار اس کا ایک نمونہ ہے:

گرش ببینی و دست از ترنج بشناسی روا بود که ملامت کنی زلیخا را[33]
زلیخا چو گشت از میِ عشق مستبه دامان یوسف درآویخت دست
چنان دیو شهوت رضا داده بود که چون گرگ در یوسف افتاده بود.[34]

پہلے شعر کا ترجمہ: اگر آپ یوسف کو دیکھتے ہی ان کی محبت میں نہ پڑے اور اپنا ہاتھ نہ کاٹے تو پھر زلیخا پر یوسف سے عشق و محبت کا الزام لگا سکتے ہیں۔

حوالہ جات

  1. اسدی، «زلیخا»، ص416.
  2. سوره یوسف، آیه 23.
  3. سوره یوسف، آیه 30.
  4. اسدی، «زلیخا»، ص414.
  5. ملاحظہ کریں: مقاتل، تفسیر مقاتل بن سلیمان، 1423ھ، ج2، ص327؛ قمی، تفسیر القمی، 1404ھ، ج1، ص357؛ طبرسی، مجمع البیان، 1372ہجری شمسی، ج5، ص340.
  6. ملاحظہ کریں: مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبة الثقافة الدینیة، ج3، ص68؛ ابن‌خلدون، تاریخ ابن‌خلدون، 1408ھ، ج2، ص45؛ ابن‌جوزی، المنتظم، 1412ھ، ج1، ص315.
  7. ملاحظہ کریں: شیخ صدوق، علل الشرایع، 1385ہجری شمسی، ج1، ص55؛ خزاز رازی، کفایة الاثر، 1401ھ، ص264؛ راوندی، قصص الانبیا، 1409ھ، ص136.
  8. فخر رازی، مفاتیح الغیب، 1420ھ، ج18، ص435.
  9. دیلمی، اعلام الدین، 1408ھ، ص429.
  10. ملاحظہ کریں: سوره یوسف، آیه 23-32؛ تورات، سِفر پیدایش، باب 39، آیات 7-20.
  11. صادقی، «نگاهی تطبیقی به داستان یوسف و زلیخا در قرآن مجید و تورات»، 101-103.
  12. سوره یوسف، آیه 23-25.
  13. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، 1374ہجری شمسی، ج9، ص374.
  14. سوره یوسف، آیه 25.
  15. سوره یوسف، آیه 25.
  16. سوره یوسف، آیه 25-26.
  17. سوره یوسف، آیه 26-27.
  18. سوره یوسف، آیه 28-29.
  19. طبرسی، مجمع البیان، 1372ہجری شمسی، ج5، ص347.
  20. قمی، تفسیر القمی، 1404ھ، ج1، ص343.
  21. طبرسی، مجمع البیان، 1372ہجری شمسی، ج5، ص347.
  22. طبرسی، مجمع البیان، 1372ہجری شمسی، ج5، ص354؛ بیضاوی، انوار التنزیل، 1418ھ، ج3، ص163.
  23. سوره یوسف، آیه 51.
  24. قمی، تفسیر القمی، 1404ھ، ج1، ص357.
  25. شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا علیه‌السلام، 1378ھ، ج2، ص45.
  26. کاشانی، تفسیر منهج الصادقین فی الزام المخالفین، 1336ہجری شمسی، ج5، ص28.
  27. فیض کاشانی، تفسیر الصافی، 1415ھ، ج3، ص52.
  28. قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، 1364ہجری شمسی، ج9، ص214.
  29. معارف و دیگران، «بررسی روایات تفسیري فریقین در مسئلۀ ازدواج حضرت یوسف با زلیخا»، ص26.
  30. پاکمهر، «زلیخا در اندیشه شاعران و عارفان قرن پنجم تا هفتم»، ص149.
  31. پاکمهر، «زلیخا در اندیشه شاعران و عارفان قرن پنجم تا هفتم»، ص149.
  32. خسروی، «پژوهش تطبیقی داستان یوسف و زلیخا در ادبیات اسلامی»، ص71.
  33. سعدی، غزلیات سعدی، 1342ہجری شمسی، ص5، غزل 5.
  34. سعدی، بوستان، 1372ہجری شمسی، باب نهم در توبه و راه صواب، حکایت زلیخا با یوسف(ع)، ص417.

مآخذ

  • ابن‌جوزی، عبدالرحمن بن علی، المنتظم فی تاریخ الامم و الملوک، بیروت، دار الکتب العلمیه، 1412ھ.
  • ابن‌خلدون، عبدالرحمن بن محمد، تاریخ ابن‌خلدون، بیروت، دار الفکر، 1408ھ.
  • اسدی، علی، «زلیخا»، در دایرة المعارف قرآن کریم، ج14،‌ قم، بوستان کتاب، 1395ہجری شمسی.
  • بیضاوی، عبدالله بن عمر، انوار التنزیل و اسرار التأویل، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1418ھ.
  • پاکمهر، علی، «زلیخا در اندیشه شاعران و عارفان قرن پنجم تا هفتم»، در فصلنامه تخصصی ادبیات فارسی (دانشگاه آزاد مشهد)، شماره 46، پاییز 1394ہجری شمسی.
  • خزاز رازی، علی بن محمد، کفایة الاثر فی النص علی الائمة الاثنی‌عشر، قم، بیدار، 1401ھ.
  • خسروی، زهرا، «پژوهش تطبیقی داستان یوسف و زلیخا در ادبیات اسلامی»، در مجله دانشنامه (واحد علوم و تحقیقات)، شماره 2، 1388ہجری شمسی.
  • دیلمی، حسن بن محمد، اعلام الدین فی صفات المؤمنین، قم، مؤسسة آل‌البیت(ع) لاِحیاء التراث، 1408ھ.
  • راوندی، قطب‌الدین سعید بن هبة‌الله، قصص الانبیا(ع)، مشهد، مرکز پژوهش‌های اسلامی، 1409ھ.
  • سعدی، مصلح بن عبدالله، بوستان سعدی، با تصحیح محمدعلی فروغی، تهران، ققنوس، 1372ہجری شمسی.
  • سعدی، مصلح بن عبدالله، غزلیات سعدی، با تصحیح محمدعلی فروغی، تهران، اقبال، 1342ہجری شمسی.
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا(ع)، تحقیق و تصحیح مهدی لاجوردی، تهران، نشر جهان، چاپ اول، 1378ھ.
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، علل الشرایع، قم، داوری، 1385ہجری شمسی.
  • صادقی، سید محمود، «نگاهی تطبیقی به داستان یوسف و زلیخا در قرآن مجید و تورات»، در مجله ادبیات تطبیقی، شماره 4، زمستان 1386ہجری شمسی.
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تهران، ناصرخسرو، 1372ہجری شمسی.
  • فخر رازی، محمد بن عمر، مفاتیح الغیب، بیروت،‌ دار احیاء التراث العربی، 1420ھ.
  • فیض کاشانی، ملامحسن، تفسیر الصافی، تحقیق حسین اعلمی، انتشارات الصدر، تهران، چاپ دوم، 1415ھ.
  • قرطبی، محمد بن احمد، الجامع لاحکام القرآن، تهران، ناصرخسرو، 1364ہجری شمسی.
  • قمی، علی بن ابراهیم، تفسیر القمی، محقق، مصحح، موسوی جزائری، سید طیب، دار الکتاب، قم، چاپ سوم، 1404ھ.
  • کاشانی، ملا فتح‌الله، تفسیر منهج الصادقین فی الزام المخالفین، کتابفروشی محمد حسن علمی، تهران، 1336ہجری شمسی.
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونه، دار الکتب الاسلامیه، تهران، 1374ہجری شمسی.
  • معارف، مجید و دیگران، «بررسی روایات تفسیري فریقین در مسئلۀ ازدواج حضرت یوسف با زلیخا»، در دو فصلنامه حدیث‌پژوهی، سال هفتم، شمارۀ سیزدهم، بهار و تابستان 1394ہجری شمسی.
  • مقاتل، ابن‌سلیمان، تفسیر مقاتل بن سلیمان، بیروت، دار احیاء التراث، 1423ھ.
  • مقدسی، مطهر بن طاهر، البدء و التاریخ، بی‌جا، مکتبة الثقافة الدینیه، بی‌تا.